کسی نے صحیح کہا تھا کہ نقل کیلئے عقل بھی ضروری ہے۔
المہند علی المفند کی عبارت میں صرف اس بات کیطرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مذاہب اربعہ میں سے ہم حنفی ہیں اور ظاہر ہے اس مذہب کے مدون اعلی امام ابو حنیفۃ رحمۃ اللہ علیہ ہی ہیں۔ اور اس بات کے ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اعلی حضرت صاحب نے انہیں وہابی قرار دینے کی کوشش تھی۔
آسان لفظوں میں آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آپکے علماء نے دفع الوقتی کے تحت ایک ایسی بات کہی جو کہ حقیقت میں ویسی نہیں تھی یعنی جھوٹ بولا۔ ہم کچھ دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کی دیوبندیوں کے خلاف دھواں دھار مہم کی وجہ سے دیوبندی اکابرین کو اپنی جان چھڑانے کے لئے جھوٹ بولنا پڑ گیا۔ لیکن اصل اعتراض تو یہ ہے کہ جب وہ صورتحال ختم ہوگئی اور لوگوں کو حقیقت حال کا علم ہوگیا کہ دیوبندی وہابی نہیں ہیں تو پھر المہند سے اس عبارت کو حذف کیوں نہیں کیا گیا؟؟؟ یا پھر حاشیہ وغیرہ میں صحیح بات کے ذریعے اب تک اس عبارت کی وضاحت کیوں نہیں کی گئی؟؟؟ کیا اس سلسلے میں قیامت تک جھوٹ بولنے کا ارادہ ہے؟؟؟
کیا ہم یہ بھی سمجھ لیں کہ المہند علی المفند میں ایسی اور بھی کئی عبارتیں ہیں جنھیں صرف وقتی طور پر جان چھڑانے کے لئے درج کیا گیا ہے اور دیوبندیوں کا عقیدہ حقیقت میں ان عبارتوں کے خلاف ہے؟؟؟
اور وہ مقصد اس عبارت سے حاصل ہوگیا رہا حنفیہ کا اصول ہم نے اوپرذکر کیا وہ تمام حنفیہ کے نزدیک مسلم ہے اور جسکا آپکو علم ہی نہیں۔ اگر آپ تحقیق کرتے اور انکی عبارتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے تو یہ بات آپ پر پہلے ہی واضح ہوجاتی مگر دیر آید درست آید کے مصداق آپکی یہ بات بالکل سچ ہے جو آپ نے الاشباہ والنظائر سے نقل فرمائی ہے۔ اور حنفیت کسی فرد واحد کے فتاوی کی تقلید کا نام ہی نہیں ہے۔
حنفی مذہب کو ہم نے تو بہت سمجھنے کی کوشش کی ہے لیکن اس چوں چوں کے مربے کا کوئی حل سامنے نہیں آیا۔ ظاہر ہے جب ایک ہی مذہب میں کئی کئی لوگ بیک وقت طبع آزمائی کرنے لگیں تو اس مذہب کا کیا حال ہوگا۔ محمد یعقوب صاحب آپ جتنا بھی جھوٹ بول لیں اور جتنی بھی فاسد اور باطل تاؤیلیں کرلیں مسئلہ حل نہیں ہوگا اگر آپ ایک جانب سے مسئلہ حل کرینگے تو دوسری طرف سے الجھ جائے گا اور اگر دوسری طرف سے مسئلہ حل کریں گے تو پہلی جانب پھر الجھاؤ پیدا ہوجائے گا۔ اس مسئلہ کا آسان حل یہ ہے کہ ایسے مذہب ہی کو ترک کردیا جائے جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔
آپ نے صاف اقرار کیا ہے کہ حنفی مذہب ایک شخص کے فتوؤں کی تقلید کا نام نہیں بلکہ بیک وقت کئی لوگوں کی تقلید کا نام ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ حنفیت کا مسلمہ اصول ہے۔ ہمارے نزدیک تو یہی حقیقت ہے کہ حنفی فروعی مسائل میں امام ابوحنیفہ، ابویوسف، امام محمد، امام زفر کے مقلد ہیں پھر متاخرین علماء جیسے شامی، صاحب ہدایہ اور صاحب درمختار وغیرہ نے چونکہ اس اہم ترین بات کا فیصلہ کیا ہے کہ کس مسئلہ میں کس امام کے فتوؤں کو ترجیح دی جائے گی اور کون سے اماموں کے فتوے ٹھکرا دئے جائیں گے لہٰذا ان فیصلوں میں تمام حنفی اپنے متاخرین علماء کے اندھے مقلد ہیں۔ پھر عقائد میں ابومنصور ماتریدی اور ابوالحسن اشعری کے مقلد ہیں اور اسی پر بس نہیں کیونکہ دیوبندیوں کے اصول پر احادیث میں صحت یا ضعف کا حکم لگانا بھی اجتہادی فعل ہے لہذا فن حدیث میں ائمہ محدیثین کے مقلد ہیں۔ تقلید کے لئے اتنے سارے ائمہ کا مینا بازار لگانے کے باوجود بھی کچھ مسائل میں یہ خود بھی اجہتاد کرتے ہیں لہذا ان مسائل میں یہ اپنے نفس کے مقلد ہیں۔
محمد یعقوب صاحب ہمیں افسوس ہے کہ آپکا ذکر کردہ مسلمہ اصول مسلمہ نہیں ہے کیونکہ دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کہ عامی پر صرف ایک مجتہد کی تقلید شخصی واجب ہے۔ دوبارہ غور کریں تقلید شخصی کی بات کی جارہی ہے تقلید شخصیات کی نہیں جو کہ صرف ایک ہی شخص کی ممکن ہے۔خلیل احمد سہانپوری لکھتے ہیں:
اس زمانے میں نہایت ضروری ہے کہ چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کی جائے بلکہ واجب ہے۔(المہند علی المفند،صفحہ38)
تقلید شخصی کی تعریف بھی ہم نے ذکر کی ہے کہ تمام مسائل میں صرف ایک ہی امام کے مسائل و فتوؤں پر عمل کیا جائے گا اسی کا نام تقلید شخصی ہے۔ اگر ہم آپکے مسلمہ اصول کو تسلیم کرلیں تو ماننا پڑے گا کہ آپ تقلید شخصی نہیں تقلید مطلق کرتے ہیں کیونکہ کسی مسئلہ میں ایک امام کی تقلید اور دوسرے مسئلہ میں دوسرے امام کی تقلید، تقلید مطلق کہلاتی ہے۔ دیکھئے:
تقی عثمانی صاحب تقلید مطلق کی تعریف ایسے کرتے ہیں:
پھر اس تقلید کی بھی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ کہ تقلید کے لئے کسی خاص امام و مجتہد کو معین نہ کیا جائے، بلکہ اگر ایک مسئلہ میں ایک عالم کا مسلک اختیار کیا گیا ہے تو دوسرے مسئلہ میں کسی دوسرے عالم کی رائے قبول کرلی جائے اس کو ’’تقلید مطلق‘‘ یا ’’تقلید عام‘‘ یا ’’تقلید غیر شخصی‘‘ کہتے ہیں۔(تقلید کی شرعی حیثیت،صفحہ15)
اور تقلید مطلق تو آپکے علماء کے نزدیک نری گمراہی ہے۔اشرف علی تھانوی رقم طراز ہیں:
تقلید شخصی ضروری ہے اور مختلف اقوال لینا متضمن مفاسد ہے۔(ھدیہ اھلحدیث، صفحہ 78)
پرائمری اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی لکھتا ہے:
علماء نے تقلید شخصی کو واجب قرار دیا ہے کیونکہ اگر عامی آدمی کو اس کی اجازت دی جائے کہ اس کو اختیار ہے کہ کسی امام کے مذہب کو لے کر وہ اس پر عمل کر لے تو اس صورت میں رخصت اور آسانی تلاش کرے گا ۔(تجلیات صفدر، جلد اول، صفحہ 655)
اس سلسلے میں مزید تفصیل یہاں ملاحظہ فرمائیں
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا
آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ آپ تو مختلف اماموں کی تقلید کرکے اپنے ہی اصولوں پر گمراہی کا شکار ہیں۔ یہ بھی پتا چلا کہ مختلف لوگوں کی تقلید حنفی مذہب کا مسلمہ اصول نہیں ہے۔
حنفی مذہب کی مشہور کتاب درمختار کے حاشیہ ردالمحتار میں لکھا ہے:
نہ کوئی فتویٰ دیا جائے اور نہ ہی عمل کیا جائے مگر فقط امام اعظم کے قول پر۔(ردالمحتار، ١-٧٢، طبع دارالفکر)
اور اسی مسئلہ پر احمد رضا خان نے تو ایک رسالہ لکھا ہے جس کا عنوان ہی ’’امام کے قول پر فتویٰ دینا واجب‘‘ رکھا ہے۔
اس حکم پر تو بقول محمد یعقوب صاحب کوئی حنفی بھی عمل پیرا نہیں۔ اب یا تو حنفی فقہاء کو جھوٹ بولنے کی عادت تھی یا پھر محمد یعقوب صاحب جھوٹ بول رہے ہیں۔ آخر بیک وقت دو متضاد باتیں تو درست نہیں ہوسکتیں یقینا ان میں سے ایک غلط اور دوسری صحیح ہے۔ لیکن کونسی صحیح ہے کوئی مقلد ہمیں اپنے مذہب کے اصولوں پر ثابت کردے۔
محمد یعقوب صاحب نے فرمایا ہے:
ہاں بہر کیف اس مدرسہ کے بانی امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ہی ہیں چنانچہ یہ نسبت نسبت اضافی ہے نسبت حقیقی نہیں۔
ہمارے نزدیک یہ بات یعقوب صاحب کی خالص کذب بیانی ہے کیونکہ اگر واقعی مقلدوں کی امام ابوحنیفہ کی طرف نسبت حقیقی نہ ہوتی تو انکو صرف قول امام پر فتویٰ دینے پر مجبور نہ کیا جاتا۔پس مقلد کو قول امام کا پابند کیا جانا ہی اس بات کی دلیل ہے مقلدوں کی انکے امام ابوحنیفہ کی طرف نسبت حقیقی ہے۔
رہا آپکا یہ گنگنانا کہ مقلد کی یہ ایک نئی قسم ہے جو آج کے زمانہ میں ایجاد ہوئی سو یہ بالکل غلط ہے۔ اور اگر امام طحاوی کے حالات آپ نے پڑھ لئے ہوتے تو شاید یہ اعتراض نہیں فرماتے۔
اسیطرح اور بھی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جو وقت آنے پر آپکو دی جاسکتی ہیں مگر امید کہ آپ خود ہی سمجھ نے کی کوشش کرینگے کیونکہ شاید عقلمندوں کیلئے اشارہ ہی کافی ہے۔
کیوں کیا آپ امام طحاوی کے مقلد ہو؟؟؟ اور امام طحاوی کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ مجتہدین کے درجات مقرر کریں؟؟؟ یا پھر امام طحاوی بھی طبقات مقلدین میں کسی اور مقلد کی تقلید فرما رہے تھے؟؟؟ کس کی؟؟ کیا آپ کو بھی ابوحنیفہ اور انکے شاگردوں کی تقلید چھوڑ کر انہی کی تقلید کرنی چاہیے جس کی امام طحاوی کررہے تھے؟
آپ کو طحاوی کے علاوہ کسی اور کی مثال پیش کرنے کی قطعی ضرورت نہیں کیونکہ مقلد اسے کہتے ہیں جو مجتہد نہیں ہوتا اور جو مجتہد نہیں ہوتا اسے اجتہاد کرنے کا اختیار نہیں۔ چونکہ ہر مقلد تقلید شخصی کررہا ہوتا ہے اور تقلید شخصی کا قاعدہ یہ ہے کہ ہر ہر مسئلہ میں ایک ہی امام کا پابند رہے اگر وہ خود بھی بعض مسائل میں اجتہاد کرنے لگ جائے تو وہ مقلد کب رہے گا؟ وہ تو تقلید سے باہر ہوجائے گا اور اگر تقلید شخصی کرتا رہے گا تو کبھی بھی اجتہاد نہیں کرسکے گا۔ نتیجہ یہی ہے کہ حنفی مذہب میں ایک مقلد ہوتا ہے اور ایک مجتہد، مقلد کی یہ تیسری جنس آل تقلید نے خود گھڑی ہے جو انکے امام سے بالکل بھی ثابت نہیں۔پھر امام کے فیصلوں سے ہٹ کر انکے لئے کیسے جائز ہوگا کہ امام صاحب کو چھوڑ کرانکے مقلدین کی کسی مسئلہ میں تقلید کریں؟
رہی مجتہد مطلق کی شرائط تو یہ آپکی اور ہمارے بس کی بات نہیں اور نہ اسکی شرائط ہم نے مقرر فرمائی ہے۔
یہی ہم کہنا چاہ رہے ہیں کہ اجتہاد کی شرائط نہ آپ مقرر کرسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا مقلد یہ صرف ابوحنیفہ کا کام تھا۔ اگر انہوں نے اجتہاد کی شرط اور مقلدین کے درجات مقرر کئے ہیں تو پیش فرمائیے ورنہ مقلدین تک کی تقلید سے باز رہیے۔ اور اگر ابوحنیفہ میں یہ اہلیت نہیں تھی کہ وہ مجتہدین کے طبقات بنا سکیں تو مقلدین کو اپنے امام سے آگے بڑھتے ہوئے یہ کام نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ اسکے اہل نہیں۔
اسی لئیے قرون اولی کے اندر بھی ہر شخص مجتہد مطلق کے مرتبہ پر فائز نہ تھا۔ بلکہ اہل کوفہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کے فتوی پر ہی عمل کیا کرتے تھے۔ اسی طرح مسند احمد کی روایت کے اندر یہ بھی آیا ہیکہ حضرت ابو موسي اشعری رضی اللہ تعالي عنہ سے کسی نے فتوي پوچھا تو انھوں نے فرمایا جب تک یہ متبحر عالم (ابن مسعود) زندہ ہیں مجھ سے مسئلہ نہ پوچھو’ اور یہی مجتہد مطلق اور مجتہد فی بعض المسائل کے درمیان فرق ظاہر کرتا ہے۔
مجتہد فی بعض المسائل کی بات اس وقت درست ہوگی جب یہ ثابت کردیا جائے کہ صحابہ بھی مقلد تھے۔ جب کہ تقلید تو چوتھی صدی کی بدعت ہے اور صحابہ سے تقلید کی مذمت ثا بت ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ صحابہ اسی چیز میں ملوث ہوں جس کی اپنی زبان سے مذمت کرتے ہوں؟نعوذباللہ۔ ہرگز نہیں وہ صحابہ تھے حنفی نہیں جو ہر مسئلہ میں قول اور فعل کے تضاد میں مبتلا ہیں۔ جیسا کہ آپ ہی لوگوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جو صحابہ مجتہد نہیں تھے اور دوسرے صحابہ جو مجتہد تھے کی تقلید کرتے تھے۔ہمیں اس سوال کا جواب چاہیے کہ علم،عمل اور فضل میں کامل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کرصحابہ کو اپنے ہی ساتھیوں کی تقلید پر کس چیز نے مجبور کیا؟؟؟ اور کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو آپس میں ایک دوسرے کی تقلید کا حکم دیا تھا؟؟؟
مجتہد فی بعض المسائل الفروعیۃ ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں۔ مگر وہ دوسرے عمومی مسائل میں کسی محقق امام کی تقلید کرتے ہیں۔ اور عمومی طور پر وہ مقلد ہی شمار ہوتے ہیں۔ اور یہ تقلید کی حقیقت اور شرعی حیثیت ہے۔
چونکہ آپ ابوحنیفہ کے مقلد ہو اس لئے انکے اقوال سے باہر نہیں جاسکتے ورنہ دائرہ تقلید ہی سے باہر ہوجاؤ گے۔ آپ پر لازم ہے مجتہد پلس مقلد کو قول امام سے ثابت کرو۔
اگر ایسے اشخاص جو بیک وقت مجتہد بھی تھے اور مقلد بھی، ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں تو پہلی اور دوسری صدی ہجری سے ایسے لوگوں کی پانچ مثالیں پیش کرو۔ اور اگر نہ پیش کرسکو تو جھوٹ بولنے سے توبہ کرو۔
ہاں اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میرے اندر دلائل جانچنے کی صلاحیت نہیں ہے اور میں ہر مسئلہ میں فلاں کے قول پر عمل کرتا ہوں تو یہ اسکا شرعی حق ہے جو آپ اس سے چھین نہیں سکتے کیونکہ اس کے نزدیک اہل ذکر صحیح مصداق وہی شخصیت ہے اور اسے اسی کے قول پر اطمٔنان ہے۔
بات طویل ہوگئی معذرت خواہ ہوں
شریعت نے کہاں کسی شخص کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ہرمسئلہ میں ایک ہی امام کے اقوال کا پابند ہوجائے؟ قرآن وحدیث سے دلائل درکار ہیں۔ قرآن نے اگر یہ حکم دیا ہے کہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں اہل علم سے پوچھ لو تو پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ زندہ شخص سے سوال کی دلیل ہے ناکہ مقلدین کی طرح مرے ہوئے لوگوں کے اقوال کی اندھی پابندی کی دلیل۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ قرآن نے پوچھنے کے لئے کسی ایک شخص کی پابندی عائد نہیں کی بلکہ بلا تخصیص کسی بھی اہل ذکر سے دریافت کرنے سے کلام اللہ کی منشاء پوری ہوجاتی ہے۔اسکے برعکس مقلدین کا عمل اور عقیدہ اس قرآنی آیت کے خلاف ہے اور انکے نزدیک بلا تعین کسی بھی اہل علم سے پوچھ لینا اور عمل کر لینا سراسر گمراہی اور بے دینی ہے کیونکہ انکے نزدیک یہ تقلید مطلق ہے اور تقلید مطلق انکے مذہب میں ناجائز اور حرام ہے۔