• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تلمیذ بھائی کے سوالوں کا جواب

شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
معذرت خواه ہوں حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب سب سے بڑے عالم نہیں بلکہ بڑے علماء میں سب سے مشہور شخصیت ہیں اور انکے اساتذہ کرام ابھی تک زندہ ہیں حنفی علماء کا پہلے پورا جائزہ لیجئے پھر حکم صادر فرمائیں مثلا ڈاکٹر یوسف قرضاوی صاحب بھی حنفی ہیں اور انکے تفردات ہیں جو انکا اپنا اجتہاد ہے اسکے باوجود بھی وہ حنفی عالم ہیں
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
معذرت خواه ہوں حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب سب سے بڑے عالم نہیں بلکہ بڑے علماء میں سب سے مشہور شخصیت ہیں اور انکے اساتذہ کرام ابھی تک زندہ ہیں
میں نے یہ کب کہا کہ تقی عثمانی سب سے بڑے عالم ہیں؟ میں نے تو صرف یہ کہا کہ تقی عثمانی صاحب میرے نزدیک پاکستان میں دیوبندیوں کے سب سے بڑے عالم ہیں اور یہ ضروری تو نہیں کہ شاگرد استاد سے علم و فضل میں آگے نہیں بڑھ سکتا جو آپ نے یہ کہہ دیا کہ ابھی تقی عثمانی کے اساتذہ زندہ ہیں۔ بہرحال ہمیں تو اس بات سے کوئی غرض نہیں حنفی اندھوں میں کانا راجہ کون ہے؟ ہمیں تو اپنے سوال کا جواب درکا ہے۔ تلمیذ صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ کوئی بھی حنفی ایسا نہیں جو ابوحنیفہ سے اختلاف نہ رکھتا ہو۔ملاحظہ کریں اپنے مقلد بھائی کا دعویٰ:
آپ ایک حنفی دکھادیں جس نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال کو حرف آخر سمجھا ہو اور ان کے اقوال کی مخالفت نہ کی ہو ۔
اس دعویٰ نما سوال کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ تلمیذ صاحب کے نزدیک ہر مقلد اپنے امام کے کچھ یا زیادہ اقوال کی مخالفت کرتا ہے۔ اب تقی عثمانی صاحب چاہے چھوٹے عالم ہوں یا بڑے، ہیں تو آخر مقلد تو پھر یقینا انہوں نے بھی ابوحنیفہ کے اقوال کی مخالفت کی ہوگی اور تلمیذ صاحب نے بھی اور آپ یعنی محمد یعقوب صاحب نے بھی، تو برائے کرم ان تینوں حضرات کے اختلافات کی لسٹ درکا ہے اور ساتھ میں یہ وضاحت بھی ہو کہ کن دلائل کی بنیاد پر ان لوگوں نے ابوحنیفہ کے اقوال کو ٹھوکر ماری ہے۔ تاکہ تلمیذ صاحب نے جو چھوٹے منہ سے بڑا دعویٰ کیا ہے وہ سچ ثابت ہوجائے۔

حنفی علماء کا پہلے پورا جائزہ لیجئے پھر حکم صادر فرمائیں مثلا ڈاکٹر یوسف قرضاوی صاحب بھی حنفی ہیں اور انکے تفردات ہیں جو انکا اپنا اجتہاد ہے اسکے باوجود بھی وہ حنفی عالم ہیں
شاید آپ نے ہمارے مشکل بلکہ ناممکن سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے؟ لیکن آپ نے شاید ہمارے اعتراضات نہیں پڑھے؟ اگر نہیں پڑھے تو سن لیجئے کہ ہم مقلد کے امام کے ساتھ اختلافات کی بات کر رہے ہیں مجتہد اگر کسی مجتہد سے اختلاف کرتا ہے تو یہ خارج از بحث ہے۔ آپ نے یوسف قرضاوی کے بارے میں یہ کہہ کر کہ
انکا اپنا اجتہاد ہے
فیصلہ کردیا ہے کہ قرضاوی صاحب مقلد نہیں بلکہ مجتہد ہیں۔ اور اگر آپ کی مراد تقی عثمانی اور تلمیذ صاحب کی طرح کسی ایسے مقلد کے بارے میں ہے جو آدھا تیتر آدھا بٹیر کی طرح مقلد بھی ہوتا ہے اور مجتہد بھی، تو آپ کی یہ مراد اپنے مذہب سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ آپ کے مذہب کے مطابق یا تو کوئی انسان خالص مقلد ہوتا ہے یا خالص مجتہد، مقلد اور مجتہد کا مکسچر نہیں ہوتا ملاحظہ کریں مقلد کی تعریف اپنے مستند علماء کی زبانی:

١- سرفراز خان صفدر: تقلید شخصی کا یہی معنی ہے کہ ایک ہی ہستی اور ذات کو اپنے پیش نظر رکھ کر اسی کی اطاعت اور فرمانبرداری کا دم بھرا جائے۔ (الکلام المفید، صفحہ ٨٢)

٢- رشید احمد گنگوہی: تقلید شخصی کہتے ہیں کہ ایک شخص واحد کا مقلد ہوکر سب ضروریات دین اس سے ہی حل کریں۔(تالیفات رشیدیہ، صفحہ ٥١٨)

۳- محمد یوسف لدھیانوی: نفس کو کسی ایک ماہر شریعت کے فتویٰ پر عمل کرنے کا پابند کیا جائے اور اسی کا نام تقلید ہے۔ (اختلاف امت اور صراط مستقیم، صفحہ ٢٣)

۴۔ مفتی تقی عثمانی: تقلید کے لئے کسی ایک مجتہد عالم کو اختیار کیا جائے اور ہر ایک مسئلہ میں اسی کا قول اختیار کیا جائے اسے ’’تقلید شخصی‘‘ کہا جاتا ہے۔ (تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ ١٥)

تقلید شخصی کی ان تعریفات کی روشنی میں اگر کوئی شخص کسی بھی مسئلہ میں اپنے امام سے اختلاف کرتا ہے تو وہ اس امام کا مقلد نہیں رہتا اور دائرہ تقلید سے خارج ہو جاتا ہے۔ ان تعریفات سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ تقی عثمانی صاحب کا اپنی کتاب میں ذکر کردہ متبحر عالم کا کردار بھی باطل،مردود اور اس لحاظ سے فرضی ہے کہ تقی عثمانی صاحب نے متبحر عالم کو جن خصوصیات کا حامل بتا یا ہے وہ کسی مقلد عالم میں سرے سے موجود ہی نہیں۔اور پھر اگر متبحر عالم مقلد ہے تو اس کا کام ہر مسئلہ میں اپنے امام کی تقلید کرنا ہے اور اگر وہ متبحر عالم کسی بھی مسئلہ میں اپنے امام کے قول کو ٹھکرا دیتا ہے تو وہ اس امام کا مقلد بھی نہیں رہتا۔کیونکہ اس نے ہر مسئلہ میں اپنے امام کے فتویٰ پر عمل نہیں کیا۔

امید ہے محمد یعوب صاحب کی طبیعت میں بہت بہتری آئی ہوگی اور آئندہ وہ اس مسئلہ میں اپنی مقلد بھائی تلمیذ صاحب کی مدد کو آنے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے۔
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
جن حضرت کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ احناف کا قاعدہ یہ ہیکہ عبادات کے اندر امام ابو حنیفہ قضاء کے معاملات میں امام ابو یوسف اور معاملات کے بارے میں امام محمد کے قول کو اختلاف کی وقت ترجیح حاصل ہے تو ان سے بحث بہر کیف لا حاصل ہے میرے بھائی پہلے اپنی معلومات درست فرمائیں پھر پوچھیں کہ امام اعظم ابو حنیفۃ رحمۃ اللہ علیہ علماء احناف نے کتنا اختلاف کیا ہے۔
دوسری بات ڈاکٹر یوسف قرضاوی صاحب کی ہے تو انکی مثال اس زمرہ میں آتی ہیکہ مقلد بعض جزوی مسائل میں اپنے امام سے اختلاف کرسکتا ہے اور وہ اس مسئلہ میں مجتہد شمار ہوگا جیساکہ تقی عثمانی صاحب نے فرمایا ہے۔
مگر آپکو تو سمجھنے کی عادت ہی نہیں ہے جب ہم متبحر عالم کا مطالبہ ہوا تو آپ نے انہیں مجتہد مطلق قرار دے دیا۔
اگر بحث محض عناد کے خاطر کی جارہی ہے تو خدا حافظ۔
اگر واقعی حنفیت سمجھنا ہے تو بخدا مغالطات میں لوگوں کو نہ ڈالو اور ہمارا موقف سمجھنے کوشش کرو یا پھر محض الزام ترشی!!
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
جن حضرت کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ احناف کا قاعدہ یہ ہیکہ عبادات کے اندر امام ابو حنیفہ قضاء کے معاملات میں امام ابو یوسف اور معاملات کے بارے میں امام محمد کے قول کو اختلاف کی وقت ترجیح حاصل ہے
کیا میں یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ احناف کا یہ قاعدہ کس نے بنایا ہے؟ کیا ابوحنیفہ نے جن کی ہر مسئلہ میں تقلید کے تم دعویدار ہو؟ یا امام صاحب کے شاگردوں نے جن کی تم بے شمار مسائل میں ابوحنیفہ کے اقوال کو لات مار کر تقلید کرتے ہو لیکن جھوٹ بولتے ہوئے یہی کہتے ہو کہ ہم امام ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہیں؟؟؟ یا ان شخصیات کے علاوہ بھی دیگر لوگ ہیں جن کی تم اس قاعدہ میں اندھا دھند تقلید کررہے ہو کہ فلاں مسئلہ میں ابوحنیفہ کے قول پر فتویٰ ہوگا فلاں میں ابویوسف کے قول پر اور فلاں مسئلہ میں امام محمد کے قول پر؟؟؟؟

حنفی اندھی تقلید کے ایسے رسیا نکلے کہ صرف فروعی مسائل میں انہوں نے دسیوں اماموں کا ڈھیر لگا لیا۔ جب تقلید کا اتنا ہی شوق ہے تو اپنے اماموں کا نام لینے میں اتنی شرم کیوں آتی ہے اور پھر یہ جھوٹا دعویٰ کیوں کہ فروعی مسائل میں حنفی صرف ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہیں؟ دیوبندیوں کی مستند عقیدہ کی کتاب میں لکھا ہے: جاننا چاہیے کہ ہم اور ہمارے مشائخ اور ہماری ساری جماعت بحمداللہ فروعات میں مقلد ہیں مقتدائے خلق حضرات امام ہمام امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے۔(المہند علی المفند)

محمد یعقوب صاحب آپ خود ہی فیصلہ کرکے بتادیں کہ دیوبندیوں کے عقیدہ کی کتاب میں جو بات لکھی ہے کہ تمام دیوبندی فروعات میں ابوحنیفہ کے مقلد ہیں اگر یہ بات سچی ہے تو پھر یہ بات جھوٹی ہے کہ فقہ حنفی میں مندرج ہے:
علماء نے صراحت کی ہے کہ ذوی الارحام یعنی رشتہ داری سے متعلق تمام مسائل میں امام محمد کے قول پر فتویٰ ہے اور ’’الاشباہ و النظائر‘‘ کے قضاء میں ہے کہ ’’قضا‘‘ (فیصلوں) سے متعلق تمام مسائل میں قاضی ابویوسف کے قول پر فتوی ہے۔ شرح البیری میں ہے کہ گواہی سے متعلق مسائل میں بھی انہیں کے قول پر فتویٰ ہوگا اور سترہ ١٧ مسائل میں زفر کے قلو پر فتویٰ ہوگا۔(ردالمحتار،جلد١، صفحہ ٧٠)

اور اگر آپ کا یہ دعویٰ سچا ہے کہ بہت سے مسائل میں احناف ابوحنیفہ کے علاوہ انکے شاگردوں کے فتووں کی تقلید کرتے ہیں تو پھر المہند کا دعویٰ جھوٹا ہوگیا کہ فروعات میں مقلدین صرف ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہیں۔

ذرا ہمت کریں اور اپنے اکابرین میں سچے اور جھوٹے کا فیصلہ کردیں اور یہ بھی بتادیں ان دونوں متضاد نظریات میں سے آپکا عقیدہ اور نظریہ کون سا ہے اور دوسرا نظریہ کیونکر اور کن دلائل کی بنیاد پر غلط ہے؟؟؟

میرے بھائی پہلے اپنی معلومات درست فرمائیں پھر پوچھیں کہ امام اعظم ابو حنیفۃ رحمۃ اللہ علیہ علماء احناف نے کتنا اختلاف کیا ہے۔
آپ ہی ذرا اپنی معلومات درست کر لیں کیونکہ میں یہ بات پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کسی حنفی عالم نے ابوحنیفہ سے اختلاف نہیں کیا سوائے ان کے شاگردوں کے اور بعد کے تمام مقلدین ان اختلاف کردہ مسائل میں ابوحنیفہ کے بجائے انکے شاگردوں کی اندھی تقلید کرتے چلے آرہے ہیں۔

دوسری بات ڈاکٹر یوسف قرضاوی صاحب کی ہے تو انکی مثال اس زمرہ میں آتی ہیکہ مقلد بعض جزوی مسائل میں اپنے امام سے اختلاف کرسکتا ہے اور وہ اس مسئلہ میں مجتہد شمار ہوگا جیساکہ تقی عثمانی صاحب نے فرمایا ہے۔
مگر آپکو تو سمجھنے کی عادت ہی نہیں ہے جب ہم متبحر عالم کا مطالبہ ہوا تو آپ نے انہیں مجتہد مطلق قرار دے دیا۔
آپ ہی لوگ صدیوں سے یہ راگ الاپتے آرہے ہیں کہ انسان صرف دو قسم کے ہوتے ہیں ایک مقلد اور دوسرا مجتہد لیکن اب مقلدین کہہ رہے ہیں کہ مقلد کی ایک تیسری جنس بھی ہے جو تین میں نہ تیرا میں۔ اب یا تو حنفیوں کا صدیوں کا دعویٰ کہ ایک مجتہد ہوتا ہے اور ایک مقلد جھوٹا ہے یا پھر یہ جدید دعویٰ جھوٹا ہے۔ محمد یعقوب صاحب یہ فیصلہ ہم نے آپ پر چھوڑ دیا ہے کہ آپ ان ہر دو دعووں میں سے کسے سچا تسلیم کرتے ہیں اور کسے جھوٹا اور کس دلیل کی بنیاد پر؟؟؟

پھر یہ سوال میں آپ سے بھی پوچھوں گا کہ مجتہدین کی یہ اقسام اور درجے کس نے بنائے ہیں کیا آپکے امام ابوحنیفہ نے جن کی آپ پر مسئلے میں تقلید کے دعویدار ہو؟ یا انکے شاگردوں نے مجتہدین کے یہ درجات قائم کئے ہیں؟؟؟ اگر ان میں سے کسی نے نہیں بنائے تو آپ اس مسئلہ میں کس حنفی مقلد کی تقلید کررہے ہو؟؟؟ اور کیا حنفی مذہب کے اصولوں کی روشنی میں کسی مقلد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مجتہدین کی اقسام بنا کرحنفی مذہب کے اصول قائم کرسکے؟؟؟

میں یہ تفصیل پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ امام سے کسی جزوی مسئلہ میں اختلاف کے لئے تقی عثمانی صاحب نے اتنی کڑی شرائط عائد کی ہیں کہ دنیا میں موجود کوئی حنفی عالم وہ شرائط پوری نہیں کرسکتا۔ اس کا مطلب ہے نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی، نہ تو وہ شرائط پوری ہونگی اور نہ ہی کوئی مقلد ابوحنیفہ سے کسی جزوی مسئلہ میں اختلاف کرسکےگا۔ بات تو پھر وہی ہوگئی کہ کوئی مقلد اپنے امام سے اختلاف نہیں کرسکتا۔ کیا یوسف قرضاوی صاحب میں تقی عثمانی صاحب کی بیان کردہ خصوصیات جو متبحر عالم کے لئے انہوں نے ذکر کی ہیں موجود ہیں؟؟؟ اگر موجود ہیں تو ثابت کریں ورنہ یہ بتائیں کہ اگر کوئی نااہل مقلد جس کو آل تقلید نے نزدیک بھی اجتہاد کرنے کی اجازت نہ ہو جب وہ اجتہاد کرے اور ابوحنیفہ سے اختلاف کرے تو اس اختلاف کی حنفی مذہب میں کیا حیثیت ہوگی؟؟؟ وہ قابل رد ہوگا یا قابل قبول؟؟؟

فقہ حنفی کی معتبر کتاب میں لکھا ہے: جو ابوحنیفہ کے قول کو رد کرے اس پر ریت کے زرات کے برابر لعنت ہو۔(درمختار، صفحہ ٦٣ طبع دارالفکر)
کیا آپ نہیں سمجھتے کہ امام صاحب کے شاگرد بھی، یوسف قرضاوی بھی اور تمام مقلدین بھی ابوحنفیہ کے اقوال کو رد کرکے کائنات کے بدترین لعنتی بن چکے ہیں؟ ایسے اختلاف کا کیا فائدہ جو آپکو آپ ہی کے مذہبی اصول پر لعنتی بنا دے؟؟؟

اگر بحث محض عناد کے خاطر کی جارہی ہے تو خدا حافظ۔
جی نہیں عناد کی خاطر بحث نہیں کی جارہی بلکہ ہم دوغلے حنفیوں کا اصل مذہبی موقف جاننا چاہتے ہیں۔

اگر واقعی حنفیت سمجھنا ہے تو بخدا مغالطات میں لوگوں کو نہ ڈالو اور ہمارا موقف سمجھنے کوشش کرو یا پھر محض الزام ترشی!!
جی ہم واقعی حنفیت کو سمجھنا چاہتے ہیں لیکن ہر مسئلہ میں متضاد اصولوں اور فتووں کی وجہ سے سمجھنے سے قاصر ہیں آپ ہی ہماری اور اپنی مدد کیجئے اور ان متضاد اصولوں میں سے اصل اور صحیح اصول بتائیے اور یہ بھی بتائیے کہ دوسرے اصول کن دلائل کی بنیاد پر غلط اور قابل ترک ہیں۔
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
کسی نے صحیح کہا تھا کہ نقل کیلئے عقل بھی ضروری ہے۔
المہند علی المفند کی عبارت میں صرف اس بات کیطرف اشارہ کرنا مقصود ہیکہ مذاہب اربعہ میں سے ہم حنفی ہیں اور ظاہر ہے اس مذہب کے مدون اعلی امام ابو حنیفۃ رحمۃ اللہ علیہ ہی ہیں۔ اور اس بات کے ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اعلی حضرت صاحب نے انہیں وہابی قرار دینے کی کوشش تھی۔
اور وہ مقصد اس عبارت سے حاصل ہوگیا رہا حنفیہ کا اصول ہم نے اوپرذکر کیا وہ تمام حنفیہ کے نزدیک مسلم ہے اور جسکا آپکو علم ہی نہیں۔ اگر آپ تحقیق کرتے اور انکی عبارتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے تو یہ بات آپ پر پہلے ہی واضح ہوجاتی مگر دیر آید درست آید کے مصداق آپکی یہ بات بالکل سچ ہے جو آپ نے الاشباہ والنظائر سے نقل فرمائی ہے۔ اور حنفیت کسی فرد واحد کے فتاوی کی تقلید کا نام ہی نہیں ہے۔
ہاں بہر کیف اس مدرسہ کے بانی امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ہی ہیں چنانچہ یہ نسبت نسبت اضافی ہے نسبت حقیقی نہیں۔
جب یہ بات واضح ہوگئی تو اب آپ بہلے دوسرے اعتراضات فرمائیں تاکہ اس کا تسلی بخش جواب آپکو دے دیا جائے۔
رہا آپکا یہ گنگنانا کہ مقلد کی یہ ایک نئی قسم ہے جو آج کے زمانہ میں ایجاد ہوئی سو یہ بالکل غلط ہے۔ اور اگر امام طحاوی کے حالات آپ نے پڑھ لئے ہوتے تو شاید یہ اعتراض نہیں فرماتے۔
اسیطرح اور بھی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جو وقت آنے پر آپکو دی جاسکتی ہیں مگر امید کہ آپ خود ہی سمجھ نے کی کوشش کرینگے کیونکہ شاید عقلمندوں کیلئے اشارہ ہی کافی ہے۔
رہی مجتہد مطلق کی شرائط تو یہ آپکی اور ہمارے بس کی بات نہیں اور نہ اسکی شرائط ہم نے مقرر فرمائی ہے۔
اسی لئیے قرون اولی کے اندر بھی ہر شخص مجتہد مطلق کے مرتبہ پر فائز نہ تھا۔ بلکہ اہل کوفہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کے فتوی پر ہی عمل کیا کرتے تھے۔ اسی طرح مسند احمد کی روایت کے اندر یہ بھی آیا ہیکہ حضرت ابو موسي اشعری رضی اللہ تعالي عنہ سے کسی نے فتوي پوچھا تو انھوں نے فرمایا جب تک یہ متبحر عالم (ابن مسعود) زندہ ہیں مجھ سے مسئلہ نہ پوچھو’ اور یہی مجتہد مطلق اور مجتہد فی بعض المسائل کے درمیان فرق ظاہر کرتا ہے۔
مجتہد فی بعض المسائل الفروعیۃ ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں۔ مگر وہ دوسرے عمومی مسائل میں کسی محقق امام کی تقلید کرتے ہیں۔ اور عمومی طور پر وہ مقلد ہی شمار ہوتے ہیں۔ اور یہ تقلید کی حقیقت اور شرعی حیثیت ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میرے اندر دلائل جانچنے کی صلاحیت نہیں ہے اور میں ہر مسئلہ میں فلاں کے قول پر عمل کرتا ہوں تو یہ اسکا شرعی حق ہے جو آپ اس سے چھین نہیں سکتے کیونکہ اس کے نزدیک اہل ذکر صحیح مصداق وہی شخصیت ہے اور اسے اسی کے قول پر اطمٔنان ہے۔
بات طویل ہوگئی معذرت خواہ ہوں
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
اور در مختار کی جو عبارت آپ نے نقل فرمائی اسکا جواب رد المحتار میں موجود ہے اگر دیکھ لیتے تو شاید بے جا ان حضرات کو گالی دینے میں آپکو مزہ نہ آتا جو آپکا شیوہ ہے

رد المحتار کی عبارت ملاحظہ فرمائیے اگر عقل وسمجھ رکھتے ہوں
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 63)
(قَوْلُهُ: عَلَى مَنْ رَدَّ قَوْلَ أَبِي حَنِيفَةَ) أَيْ عَلَى مَنْ رَدَّ مَا قَالَهُ مِنْ الْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ مُحْتَقِرًا لَهَا، فَإِنَّ ذَلِكَ مُوجِبٌ لِلطَّرْدِ وَالْإِبْعَادِ، لَا بِمُجَرَّدِ الطَّعْنِ فِي الِاسْتِدْلَالِ؛ لِأَنَّ الْأَئِمَّةَ لَمْ تَزَلْ يَرُدُّ بَعْضُهُمْ قَوْلَ بَعْضٍ، وَلَا بِمُجَرَّدِ الطَّعْنِ فِي الْإِمَامِ نَفْسِهِ، لِأَنَّ غَايَتَهُ الْحُرْمَةُ فَلَا يُوجِبُ اللَّعْنَ، لَكِنْ لَيْسَ فِيهِ لَعْنُ شَخْصٍ مُعَيَّنٍ فَهُوَ كَلَعْنِ الْكَاذِبِينَ وَنَحْوِهِمْ مِنْ الْعُصَاةِ فَافْهَمْ.
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
اور در مختار کی جو عبارت آپ نے نقل فرمائی اسکا جواب رد المحتار میں موجود ہے اگر دیکھ لیتے تو شاید بے جا ان حضرات کو گالی دینے میں آپکو مزہ نہ آتا جو آپکا شیوہ ہے

رد المحتار کی عبارت ملاحظہ فرمائیے اگر عقل وسمجھ رکھتے ہوں
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 63)
(قَوْلُهُ: عَلَى مَنْ رَدَّ قَوْلَ أَبِي حَنِيفَةَ) أَيْ عَلَى مَنْ رَدَّ مَا قَالَهُ مِنْ الْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ مُحْتَقِرًا لَهَا، فَإِنَّ ذَلِكَ مُوجِبٌ لِلطَّرْدِ وَالْإِبْعَادِ، لَا بِمُجَرَّدِ الطَّعْنِ فِي الِاسْتِدْلَالِ؛ لِأَنَّ الْأَئِمَّةَ لَمْ تَزَلْ يَرُدُّ بَعْضُهُمْ قَوْلَ بَعْضٍ، وَلَا بِمُجَرَّدِ الطَّعْنِ فِي الْإِمَامِ نَفْسِهِ، لِأَنَّ غَايَتَهُ الْحُرْمَةُ فَلَا يُوجِبُ اللَّعْنَ، لَكِنْ لَيْسَ فِيهِ لَعْنُ شَخْصٍ مُعَيَّنٍ فَهُوَ كَلَعْنِ الْكَاذِبِينَ وَنَحْوِهِمْ مِنْ الْعُصَاةِ فَافْهَمْ.
ہم نے جو عبارت پیش کی تھی وہ سوال تو نہیں تھا کہ اس کا جواب ردالمحتار میں دیا گیا ہے۔ وہ عبارت تو ایک اصول بتاتی ہے اور وہ اصول بھی نہایت سادہ اور واضح ہے جو مزید تشریح کا محتاج نہیں۔ ہاں! البتہ چونکہ اس اصول کی زد حنفی مقلدوں پر براہ راست پڑتی ہے تو انہیں یقینی طور پر اس تاؤیل کی ضرورت محسوس ہوئی ہوگی لیکن میں تو پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر ردالمحتار میں اس عبارت کا ایسا جواب دیا گیا ہے جو اصل عبارت سے میل نہیں کھاتا یا عبارت کے اصل مفہوم کو ہی بدل دیتا ہے تو ایسا جواب ناقابل قبول اور مردود ہے۔

آپ ذرا پیش کی گئی عبارت کا اردو ترجمہ کردیں پھر اس پر مزید بات ہوجائے گی۔
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
یعقوب صاحب نے فرمایا
حنفیت کسی فرد واحد کے فتاوی کی تقلید کا نام ہی نہیں ہے۔
جناب امام ابوحنیفہ فرد واحد نہیں کیا؟ پھر تو آپکی تقلید شخصی کا بھوت بھی نکل گیا اگر آپ کا یہی منہج ہے تو۔
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
جناب محترم یعقوب صاحب
بلکہ اہل کوفہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کے فتوی پر ہی عمل کیا کرتے تھے۔جناب فی الحال ایک مثال دیتا ہوں کہ اھل کوفہ کس حد تک ابن مسعود کی بات مانتے ہیں ۔ ابن مسعود قرآنی آیت سے استدلال کرتے ہیں اور مدت رضاعت دو سال کہتے ہیں جبکہ ان کا فتویٰ ماننے والی کوفی حضرات قرآن اور ابن مسعود کے فرمان کے خلاف اڑھائی سال کہتے ہیں ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
کسی نے صحیح کہا تھا کہ نقل کیلئے عقل بھی ضروری ہے۔
المہند علی المفند کی عبارت میں صرف اس بات کیطرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مذاہب اربعہ میں سے ہم حنفی ہیں اور ظاہر ہے اس مذہب کے مدون اعلی امام ابو حنیفۃ رحمۃ اللہ علیہ ہی ہیں۔ اور اس بات کے ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اعلی حضرت صاحب نے انہیں وہابی قرار دینے کی کوشش تھی۔
آسان لفظوں میں آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آپکے علماء نے دفع الوقتی کے تحت ایک ایسی بات کہی جو کہ حقیقت میں ویسی نہیں تھی یعنی جھوٹ بولا۔ ہم کچھ دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کی دیوبندیوں کے خلاف دھواں دھار مہم کی وجہ سے دیوبندی اکابرین کو اپنی جان چھڑانے کے لئے جھوٹ بولنا پڑ گیا۔ لیکن اصل اعتراض تو یہ ہے کہ جب وہ صورتحال ختم ہوگئی اور لوگوں کو حقیقت حال کا علم ہوگیا کہ دیوبندی وہابی نہیں ہیں تو پھر المہند سے اس عبارت کو حذف کیوں نہیں کیا گیا؟؟؟ یا پھر حاشیہ وغیرہ میں صحیح بات کے ذریعے اب تک اس عبارت کی وضاحت کیوں نہیں کی گئی؟؟؟ کیا اس سلسلے میں قیامت تک جھوٹ بولنے کا ارادہ ہے؟؟؟

کیا ہم یہ بھی سمجھ لیں کہ المہند علی المفند میں ایسی اور بھی کئی عبارتیں ہیں جنھیں صرف وقتی طور پر جان چھڑانے کے لئے درج کیا گیا ہے اور دیوبندیوں کا عقیدہ حقیقت میں ان عبارتوں کے خلاف ہے؟؟؟

اور وہ مقصد اس عبارت سے حاصل ہوگیا رہا حنفیہ کا اصول ہم نے اوپرذکر کیا وہ تمام حنفیہ کے نزدیک مسلم ہے اور جسکا آپکو علم ہی نہیں۔ اگر آپ تحقیق کرتے اور انکی عبارتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے تو یہ بات آپ پر پہلے ہی واضح ہوجاتی مگر دیر آید درست آید کے مصداق آپکی یہ بات بالکل سچ ہے جو آپ نے الاشباہ والنظائر سے نقل فرمائی ہے۔ اور حنفیت کسی فرد واحد کے فتاوی کی تقلید کا نام ہی نہیں ہے۔
حنفی مذہب کو ہم نے تو بہت سمجھنے کی کوشش کی ہے لیکن اس چوں چوں کے مربے کا کوئی حل سامنے نہیں آیا۔ ظاہر ہے جب ایک ہی مذہب میں کئی کئی لوگ بیک وقت طبع آزمائی کرنے لگیں تو اس مذہب کا کیا حال ہوگا۔ محمد یعقوب صاحب آپ جتنا بھی جھوٹ بول لیں اور جتنی بھی فاسد اور باطل تاؤیلیں کرلیں مسئلہ حل نہیں ہوگا اگر آپ ایک جانب سے مسئلہ حل کرینگے تو دوسری طرف سے الجھ جائے گا اور اگر دوسری طرف سے مسئلہ حل کریں گے تو پہلی جانب پھر الجھاؤ پیدا ہوجائے گا۔ اس مسئلہ کا آسان حل یہ ہے کہ ایسے مذہب ہی کو ترک کردیا جائے جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔

آپ نے صاف اقرار کیا ہے کہ حنفی مذہب ایک شخص کے فتوؤں کی تقلید کا نام نہیں بلکہ بیک وقت کئی لوگوں کی تقلید کا نام ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ حنفیت کا مسلمہ اصول ہے۔ ہمارے نزدیک تو یہی حقیقت ہے کہ حنفی فروعی مسائل میں امام ابوحنیفہ، ابویوسف، امام محمد، امام زفر کے مقلد ہیں پھر متاخرین علماء جیسے شامی، صاحب ہدایہ اور صاحب درمختار وغیرہ نے چونکہ اس اہم ترین بات کا فیصلہ کیا ہے کہ کس مسئلہ میں کس امام کے فتوؤں کو ترجیح دی جائے گی اور کون سے اماموں کے فتوے ٹھکرا دئے جائیں گے لہٰذا ان فیصلوں میں تمام حنفی اپنے متاخرین علماء کے اندھے مقلد ہیں۔ پھر عقائد میں ابومنصور ماتریدی اور ابوالحسن اشعری کے مقلد ہیں اور اسی پر بس نہیں کیونکہ دیوبندیوں کے اصول پر احادیث میں صحت یا ضعف کا حکم لگانا بھی اجتہادی فعل ہے لہذا فن حدیث میں ائمہ محدیثین کے مقلد ہیں۔ تقلید کے لئے اتنے سارے ائمہ کا مینا بازار لگانے کے باوجود بھی کچھ مسائل میں یہ خود بھی اجہتاد کرتے ہیں لہذا ان مسائل میں یہ اپنے نفس کے مقلد ہیں۔

محمد یعقوب صاحب ہمیں افسوس ہے کہ آپکا ذکر کردہ مسلمہ اصول مسلمہ نہیں ہے کیونکہ دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کہ عامی پر صرف ایک مجتہد کی تقلید شخصی واجب ہے۔ دوبارہ غور کریں تقلید شخصی کی بات کی جارہی ہے تقلید شخصیات کی نہیں جو کہ صرف ایک ہی شخص کی ممکن ہے۔خلیل احمد سہانپوری لکھتے ہیں: اس زمانے میں نہایت ضروری ہے کہ چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کی جائے بلکہ واجب ہے۔(المہند علی المفند،صفحہ38)

تقلید شخصی کی تعریف بھی ہم نے ذکر کی ہے کہ تمام مسائل میں صرف ایک ہی امام کے مسائل و فتوؤں پر عمل کیا جائے گا اسی کا نام تقلید شخصی ہے۔ اگر ہم آپکے مسلمہ اصول کو تسلیم کرلیں تو ماننا پڑے گا کہ آپ تقلید شخصی نہیں تقلید مطلق کرتے ہیں کیونکہ کسی مسئلہ میں ایک امام کی تقلید اور دوسرے مسئلہ میں دوسرے امام کی تقلید، تقلید مطلق کہلاتی ہے۔ دیکھئے:
تقی عثمانی صاحب تقلید مطلق کی تعریف ایسے کرتے ہیں: پھر اس تقلید کی بھی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ کہ تقلید کے لئے کسی خاص امام و مجتہد کو معین نہ کیا جائے، بلکہ اگر ایک مسئلہ میں ایک عالم کا مسلک اختیار کیا گیا ہے تو دوسرے مسئلہ میں کسی دوسرے عالم کی رائے قبول کرلی جائے اس کو ’’تقلید مطلق‘‘ یا ’’تقلید عام‘‘ یا ’’تقلید غیر شخصی‘‘ کہتے ہیں۔(تقلید کی شرعی حیثیت،صفحہ15)

اور تقلید مطلق تو آپکے علماء کے نزدیک نری گمراہی ہے۔اشرف علی تھانوی رقم طراز ہیں: تقلید شخصی ضروری ہے اور مختلف اقوال لینا متضمن مفاسد ہے۔(ھدیہ اھلحدیث، صفحہ 78)

پرائمری اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی لکھتا ہے: علماء نے تقلید شخصی کو واجب قرار دیا ہے کیونکہ اگر عامی آدمی کو اس کی اجازت دی جائے کہ اس کو اختیار ہے کہ کسی امام کے مذہب کو لے کر وہ اس پر عمل کر لے تو اس صورت میں رخصت اور آسانی تلاش کرے گا ۔(تجلیات صفدر، جلد اول، صفحہ 655)
اس سلسلے میں مزید تفصیل یہاں ملاحظہ فرمائیں دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا

آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ آپ تو مختلف اماموں کی تقلید کرکے اپنے ہی اصولوں پر گمراہی کا شکار ہیں۔ یہ بھی پتا چلا کہ مختلف لوگوں کی تقلید حنفی مذہب کا مسلمہ اصول نہیں ہے۔

حنفی مذہب کی مشہور کتاب درمختار کے حاشیہ ردالمحتار میں لکھا ہے: نہ کوئی فتویٰ دیا جائے اور نہ ہی عمل کیا جائے مگر فقط امام اعظم کے قول پر۔(ردالمحتار، ١-٧٢، طبع دارالفکر)
اور اسی مسئلہ پر احمد رضا خان نے تو ایک رسالہ لکھا ہے جس کا عنوان ہی ’’امام کے قول پر فتویٰ دینا واجب‘‘ رکھا ہے۔

اس حکم پر تو بقول محمد یعقوب صاحب کوئی حنفی بھی عمل پیرا نہیں۔ اب یا تو حنفی فقہاء کو جھوٹ بولنے کی عادت تھی یا پھر محمد یعقوب صاحب جھوٹ بول رہے ہیں۔ آخر بیک وقت دو متضاد باتیں تو درست نہیں ہوسکتیں یقینا ان میں سے ایک غلط اور دوسری صحیح ہے۔ لیکن کونسی صحیح ہے کوئی مقلد ہمیں اپنے مذہب کے اصولوں پر ثابت کردے۔

محمد یعقوب صاحب نے فرمایا ہے:
ہاں بہر کیف اس مدرسہ کے بانی امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ہی ہیں چنانچہ یہ نسبت نسبت اضافی ہے نسبت حقیقی نہیں۔
ہمارے نزدیک یہ بات یعقوب صاحب کی خالص کذب بیانی ہے کیونکہ اگر واقعی مقلدوں کی امام ابوحنیفہ کی طرف نسبت حقیقی نہ ہوتی تو انکو صرف قول امام پر فتویٰ دینے پر مجبور نہ کیا جاتا۔پس مقلد کو قول امام کا پابند کیا جانا ہی اس بات کی دلیل ہے مقلدوں کی انکے امام ابوحنیفہ کی طرف نسبت حقیقی ہے۔

رہا آپکا یہ گنگنانا کہ مقلد کی یہ ایک نئی قسم ہے جو آج کے زمانہ میں ایجاد ہوئی سو یہ بالکل غلط ہے۔ اور اگر امام طحاوی کے حالات آپ نے پڑھ لئے ہوتے تو شاید یہ اعتراض نہیں فرماتے۔
اسیطرح اور بھی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جو وقت آنے پر آپکو دی جاسکتی ہیں مگر امید کہ آپ خود ہی سمجھ نے کی کوشش کرینگے کیونکہ شاید عقلمندوں کیلئے اشارہ ہی کافی ہے۔
کیوں کیا آپ امام طحاوی کے مقلد ہو؟؟؟ اور امام طحاوی کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ مجتہدین کے درجات مقرر کریں؟؟؟ یا پھر امام طحاوی بھی طبقات مقلدین میں کسی اور مقلد کی تقلید فرما رہے تھے؟؟؟ کس کی؟؟ کیا آپ کو بھی ابوحنیفہ اور انکے شاگردوں کی تقلید چھوڑ کر انہی کی تقلید کرنی چاہیے جس کی امام طحاوی کررہے تھے؟

آپ کو طحاوی کے علاوہ کسی اور کی مثال پیش کرنے کی قطعی ضرورت نہیں کیونکہ مقلد اسے کہتے ہیں جو مجتہد نہیں ہوتا اور جو مجتہد نہیں ہوتا اسے اجتہاد کرنے کا اختیار نہیں۔ چونکہ ہر مقلد تقلید شخصی کررہا ہوتا ہے اور تقلید شخصی کا قاعدہ یہ ہے کہ ہر ہر مسئلہ میں ایک ہی امام کا پابند رہے اگر وہ خود بھی بعض مسائل میں اجتہاد کرنے لگ جائے تو وہ مقلد کب رہے گا؟ وہ تو تقلید سے باہر ہوجائے گا اور اگر تقلید شخصی کرتا رہے گا تو کبھی بھی اجتہاد نہیں کرسکے گا۔ نتیجہ یہی ہے کہ حنفی مذہب میں ایک مقلد ہوتا ہے اور ایک مجتہد، مقلد کی یہ تیسری جنس آل تقلید نے خود گھڑی ہے جو انکے امام سے بالکل بھی ثابت نہیں۔پھر امام کے فیصلوں سے ہٹ کر انکے لئے کیسے جائز ہوگا کہ امام صاحب کو چھوڑ کرانکے مقلدین کی کسی مسئلہ میں تقلید کریں؟

رہی مجتہد مطلق کی شرائط تو یہ آپکی اور ہمارے بس کی بات نہیں اور نہ اسکی شرائط ہم نے مقرر فرمائی ہے۔
یہی ہم کہنا چاہ رہے ہیں کہ اجتہاد کی شرائط نہ آپ مقرر کرسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا مقلد یہ صرف ابوحنیفہ کا کام تھا۔ اگر انہوں نے اجتہاد کی شرط اور مقلدین کے درجات مقرر کئے ہیں تو پیش فرمائیے ورنہ مقلدین تک کی تقلید سے باز رہیے۔ اور اگر ابوحنیفہ میں یہ اہلیت نہیں تھی کہ وہ مجتہدین کے طبقات بنا سکیں تو مقلدین کو اپنے امام سے آگے بڑھتے ہوئے یہ کام نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ اسکے اہل نہیں۔

اسی لئیے قرون اولی کے اندر بھی ہر شخص مجتہد مطلق کے مرتبہ پر فائز نہ تھا۔ بلکہ اہل کوفہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کے فتوی پر ہی عمل کیا کرتے تھے۔ اسی طرح مسند احمد کی روایت کے اندر یہ بھی آیا ہیکہ حضرت ابو موسي اشعری رضی اللہ تعالي عنہ سے کسی نے فتوي پوچھا تو انھوں نے فرمایا جب تک یہ متبحر عالم (ابن مسعود) زندہ ہیں مجھ سے مسئلہ نہ پوچھو’ اور یہی مجتہد مطلق اور مجتہد فی بعض المسائل کے درمیان فرق ظاہر کرتا ہے۔
مجتہد فی بعض المسائل کی بات اس وقت درست ہوگی جب یہ ثابت کردیا جائے کہ صحابہ بھی مقلد تھے۔ جب کہ تقلید تو چوتھی صدی کی بدعت ہے اور صحابہ سے تقلید کی مذمت ثا بت ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ صحابہ اسی چیز میں ملوث ہوں جس کی اپنی زبان سے مذمت کرتے ہوں؟نعوذباللہ۔ ہرگز نہیں وہ صحابہ تھے حنفی نہیں جو ہر مسئلہ میں قول اور فعل کے تضاد میں مبتلا ہیں۔ جیسا کہ آپ ہی لوگوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جو صحابہ مجتہد نہیں تھے اور دوسرے صحابہ جو مجتہد تھے کی تقلید کرتے تھے۔ہمیں اس سوال کا جواب چاہیے کہ علم،عمل اور فضل میں کامل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کرصحابہ کو اپنے ہی ساتھیوں کی تقلید پر کس چیز نے مجبور کیا؟؟؟ اور کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو آپس میں ایک دوسرے کی تقلید کا حکم دیا تھا؟؟؟

مجتہد فی بعض المسائل الفروعیۃ ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں۔ مگر وہ دوسرے عمومی مسائل میں کسی محقق امام کی تقلید کرتے ہیں۔ اور عمومی طور پر وہ مقلد ہی شمار ہوتے ہیں۔ اور یہ تقلید کی حقیقت اور شرعی حیثیت ہے۔
چونکہ آپ ابوحنیفہ کے مقلد ہو اس لئے انکے اقوال سے باہر نہیں جاسکتے ورنہ دائرہ تقلید ہی سے باہر ہوجاؤ گے۔ آپ پر لازم ہے مجتہد پلس مقلد کو قول امام سے ثابت کرو۔

اگر ایسے اشخاص جو بیک وقت مجتہد بھی تھے اور مقلد بھی، ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں تو پہلی اور دوسری صدی ہجری سے ایسے لوگوں کی پانچ مثالیں پیش کرو۔ اور اگر نہ پیش کرسکو تو جھوٹ بولنے سے توبہ کرو۔

ہاں اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میرے اندر دلائل جانچنے کی صلاحیت نہیں ہے اور میں ہر مسئلہ میں فلاں کے قول پر عمل کرتا ہوں تو یہ اسکا شرعی حق ہے جو آپ اس سے چھین نہیں سکتے کیونکہ اس کے نزدیک اہل ذکر صحیح مصداق وہی شخصیت ہے اور اسے اسی کے قول پر اطمٔنان ہے۔
بات طویل ہوگئی معذرت خواہ ہوں
شریعت نے کہاں کسی شخص کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ہرمسئلہ میں ایک ہی امام کے اقوال کا پابند ہوجائے؟ قرآن وحدیث سے دلائل درکار ہیں۔ قرآن نے اگر یہ حکم دیا ہے کہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں اہل علم سے پوچھ لو تو پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ زندہ شخص سے سوال کی دلیل ہے ناکہ مقلدین کی طرح مرے ہوئے لوگوں کے اقوال کی اندھی پابندی کی دلیل۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ قرآن نے پوچھنے کے لئے کسی ایک شخص کی پابندی عائد نہیں کی بلکہ بلا تخصیص کسی بھی اہل ذکر سے دریافت کرنے سے کلام اللہ کی منشاء پوری ہوجاتی ہے۔اسکے برعکس مقلدین کا عمل اور عقیدہ اس قرآنی آیت کے خلاف ہے اور انکے نزدیک بلا تعین کسی بھی اہل علم سے پوچھ لینا اور عمل کر لینا سراسر گمراہی اور بے دینی ہے کیونکہ انکے نزدیک یہ تقلید مطلق ہے اور تقلید مطلق انکے مذہب میں ناجائز اور حرام ہے۔
 
Top