السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (سورة الزمر 42)
اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے، پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے انہیں تو روک لیتا ہے اور دوسری (روحوں) کو ایک مقرر وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ غور کرنے والوں کے لیے اس میں یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں (ترجمہ محمد جونا گڑھی)
اس آیت میں دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ ان کی روحوں کو بھی اٹھا لیتا ہے کہ جن کی موت آتی ہے، اور ان کی روح بھی اٹھالیتا ہے کہ جن کی موت سوتے ہوئے نہیں آتی !
وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا کے الفاظ موت کی نفی کرتے ہیں جبکہ روح تو ان کی بھی اٹھا لی گئی ہے!
لہٰذا محض روح کے اٹھا لینے سے موت یعنی دنیاوی زندگی کا خاتمہ ثابت نہیں ہوتا!
اور نہ ہی اللہ تعالیٰ سو کر جاگنے والوں کے لئے موت کہ ایک دنیاوی زندگی کے ختم ہونے پر دوسری دنیاوی زندگی کا آغاز بتلا کر نئی دنیاوی زندگی دینے کا فرماتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو ان کے لئے موت کی نفی کی ہے!
اور انسان سویا رات کے پہلے پہر وہ سوتا رہا، اور رات کے دوسرے پہر اسے موت آجائے، تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ رات کو جیسے ہی سویا اس کی موت ہو گئی! ساتے ہی اس کی روح تو اٹھا لی گئی، روح اٹھا لیئے جانے کے باوجود اس کی دنیاوی زندگی برقرار تھی، اور اس کی موت بعد میں واقع ہوئی ہے، جس وقت اللہ تعالیٰ کا حکم اس کی دنیاوی زندگی ختم کرنے کا تھا!
لہٰذا آپ کا سونے اور جاگنے کو متعدد دنیاوی حیات شمار کرنا قرآن کے خلاف اور جہالت ہے!
اب اس آیت کے بعد دیکھتے ہیں کہ نیند کو موت کس اعتبار سے کہا گیا ہے!
کیا نیند سے دنیاوی حیات کا خاتمہ اور جاگنے پر نئی دنیاوی حیات مراد ہے یا کچھ اور!
پہلی بات تو محال ہے کہ اس کی نفی تو ابھی قرآن میں بیان ہوئی!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش خدمت ہے:
اور روزانہ رات کو سونے پہلے واقعی اپنا محاسبہ کرنا بہت مناسب ہے ،کیونکہ :
نیند موت کا بھائی ہے (ہمارے محاورے نیند موت کی بہن ہے )حدیث رسول ﷺ ہے :
النوم أخو الموت ، و لا يموت أهل الجنة
الراوي: جابر بن عبدالله المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 6808
خلاصة حكم المحدث: صحيح
3 - النوم أخو الموت ، و لا ينام أهل الجنة
الراوي: جابر بن عبدالله و عبدالله بن أبي أوفى المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 1087
خلاصة حكم المحدث: صحيح بمجموع طرقه
جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا :نیند موت کا بھائی ہے،اور اہل جنت ،جنت میں نہیں سوئیں گے ،
صحيح البخاري
باب ما يقول إذا أصبح:
باب: صبح کے وقت کیا دعا پڑھے
حدیث نمبر: 6324
عن حذيفة قال:"كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اراد ان ينام قال: باسمك اللهم اموت واحيا وإذا استيقظ من منامه قال: الحمد لله الذي احيانا بعد ما اماتنا وإليه النشور".
حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے کا ارادہ کرتے تو کہتے «باسمك اللهم أموت وأحيا» ”تیرے نام کے ساتھ، اے اللہ! میں مرتا اور تیرے ہی نام سے جیتا ہوں۔“ اور جب بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے «الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا، وإليه النشور» ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف ہم کو لوٹنا ہے۔“
جب ایک حدیث میں نیند ک''موت کا بھائی'' کہا گیا ہے، تو معلوم ہوا کہ نیند اور موت میں مغائیرت ہے، گو کہ مشابہت بھی ہے، اور مشابہت کی بناء پر نیند کو موت کا بھائی کہا گیا، اور مغائرت ہونا یوں ثابت ہے کہ اگر مغائرت نہ ہوتی تو نیند کو موت کا بھائی کہنے کی حاجت ہی نہ تھی، بلکہ وہ موت ہی ہوتی!
لہٰذا اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے ان احادیث کو بھی دیکھا جائے گا کہ جہاں نیند کے لئے موت کی امثال یا الفاظ آئے ہیں!
بہر حال نیند سے نہ نیند سے دنیاوی زندگی کا خاتمہ ہوتا ہے، اور نہ جاگنے سے نئی دنیاوی زندگی کا آغاز!
اور نہ روح کے اٹھائے جانے اور لوٹائے جانے سے نئی نئی موت اور نئی نئی دنیاوی حیات ثابت ہوتی ہے!