- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عتیق بھائی!
تحریر پسند کرنے کا شکریہ! اگر اس میں صحیح ودرست باتیں ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، اور اگر کوئی غلط بات ہے، تو مجھ سے اور شیطان سے ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ جو اشکالات آپ کے ذہن میں آئے، آپ نے ذکر کر دئیے، کیونکہ ان معاملات میں شرم وغیرہ کرنے سے تشنگی باقی رہ جاتی ہے اور اور انسان کئی قیمتی مسائل سے بے بہرہ اور نا واقف رہ جاتا ہے۔ یہ تو پھر عقیدے کا معاملہ ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: « ألا سألوا إذ لم يعلموا فإنما شفاء العي السؤال » صحيح أبي داؤد: 336 کہ ’’جب انہیں علم نہیں تھا تو انہوں نے سوال کیوں نہ کیا، کیونکہ لا علمی کا حل تو سوال کرنا ہی ہے۔‘‘
مثال
اسے ایک مثال سے یہ یوں سمجھا جا سکتا ہے، کہ سورۃ البقرہ قرآن کریم کی سب سے لمبی اور ایک عظیم سورتِ مبارکہ ہے، جس سے بہت سے عقائد واعمال ثابت ہوتے ہیں، لیکن اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ دیگر سورتوں کے ثابت ہونے والے عقائد واعمال اس لئے مشکوک ہیں کیونکہ وہ سورۃ البقرہ میں بیان نہیں ہوئے، ہر اہم حکم سورۃ البقرہ میں موجود ہونا چاہئے تھا وغیرہ وغیرہ، تو یہ ایک لا یعنی اور فضول بات ہوگی۔
نیز فرمایا: ﴿ وَهُوَ الَّذِي أَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ﴾ ... سورة الحج: 66 کہ ’’اسی نے تمہیں زندگی بخشی، پھر وہی تمہیں مار ڈالے گا پھر وہی تمہیں زنده کرے گا۔‘‘
قیامت کے روز کافر اپنی دو موتوں اور دو زندگیوں کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿ قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ ﴾ ... سورة غافر: 11 کہ ’’وه کہیں گے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دوبار مارا اور دو بار ہی جلایا، اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں، تو کیا اب کوئی راه نکلنے کی بھی ہے؟‘‘
ان دونوں موتوں اور زندگیوں کو غالب احوال کی وجہ سے موت اور زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے، وگرنہ ان میں ایسے مراحل بھی ہیں جو موت یا زندگی سے مختلف ہیں۔
تحریر پسند کرنے کا شکریہ! اگر اس میں صحیح ودرست باتیں ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، اور اگر کوئی غلط بات ہے، تو مجھ سے اور شیطان سے ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ جو اشکالات آپ کے ذہن میں آئے، آپ نے ذکر کر دئیے، کیونکہ ان معاملات میں شرم وغیرہ کرنے سے تشنگی باقی رہ جاتی ہے اور اور انسان کئی قیمتی مسائل سے بے بہرہ اور نا واقف رہ جاتا ہے۔ یہ تو پھر عقیدے کا معاملہ ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: « ألا سألوا إذ لم يعلموا فإنما شفاء العي السؤال » صحيح أبي داؤد: 336 کہ ’’جب انہیں علم نہیں تھا تو انہوں نے سوال کیوں نہ کیا، کیونکہ لا علمی کا حل تو سوال کرنا ہی ہے۔‘‘
- آپ نے پوچھا ہے کہ
تو عرض یہ ہے کہ میں نے ہر حدیث مبارکہ کے سامنے اس کا حوالہ لکھ دیا تھا، اب آپ کے توجہ دلانے پر لنک بھی ڈال دیا ہے، جسے کلک کرکے اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔یہ حدیث کس حدیث کے مجموعہ سے لی گئی ہے؟
- آپ نے کہا کہ
عتیق بھائی! صحیحین یا سنن اربعہ وغیرہ احادیث مبارکہ کے کامل مجموعے نہیں ہیں کہ جن میں تمام صحیح احادیث بیان ہوچکی ہیں، یعنی اگر کوئی حدیث مبارکہ ان مجموعوں کے علاوہ کسی اور حدیث کی کتاب میں ہو تو فوراً بلا سوچے سمجھے اسے ضعیف نہیں کہہ دیا جائے گا۔ (مثال کے طور پر صرف مسند احمد کو لے لیں تو صرف اس میں تیس ہزار کے قریب احادیث مبارکہ موجود ہیں۔ جن میں بہت زیادہ روایات صحیح ہیں۔)یہ حدیث کہ حدیث کی کتاب مسند البزار سے لی گئی ہے اور یہ حدیث کسی مستند کتاب جیسا کہ: بخاری، مسلم یا کسی سنن میں کیوں نہیں موجود ہے؟ اور یہ صرف مسند میں ہے اور اس کی بنیاد پر ہی دوسرے مسلک والے شور مچاتے ہیں، اس پر بھی اس دور کے محدثین کے تاثرات پر مبنی علمی روشنی ڈالیے کہ ہمیں سمجھانے میں آسانی ہو۔
صحیحین کی تمام احادیثِ مبارکہ ’کچھ تفصیل کے ساتھ‘ صحیح ہیں۔ یعنی اگر کوئی حدیث صحیح بخاری یا مسلم میں ہو تو اس کی سند ومتن کو مزید پرکھنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ یہ صحیح ہے یا ضعیف؟ (لیکن جیسا کہ پہلے واضح کیا گیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جو روایت صحیحین میں نہ ہو تو وہ ضعیف ہوگی۔) اسی طرح سنن اربعہ کی اکثر روایات صحیح یا حسن ہیں، اگرچہ ان میں کچھ روایات ضعیف بھی ہیں، اسی طرح دیگر بہت سی ایسی کتبِ احادیث ’کتب ستہ یا صحاح ستہ‘ کے علاوہ ہیں جن میں موجود بہت سی روایات صحیح ہیں، محدثین کرام نے اپنی پوری پوری زندگی کی محنتیں صرف کر کے ان احادیث کی چھان پھٹک کر ان کے صحّت وضعف کے متعلّق ہماری راہنمائی فرمائی ہے، جزاہم اللہ عنا وعن الاسلام خیرا
خلاصہ یہ کہ علمائے کرام کا اتّفاق ہے کہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، جامع الترمذی، سنن النسائی اور سنن ابن ماجہ کے علاوہ کتب احادیث کی بہت سی روایات بھی صحیح ہیں، جن سے عقائد، عبادات ومعاملات وغیرہ میں استدلال کیا جا سکتا ہے۔
مثال
اسے ایک مثال سے یہ یوں سمجھا جا سکتا ہے، کہ سورۃ البقرہ قرآن کریم کی سب سے لمبی اور ایک عظیم سورتِ مبارکہ ہے، جس سے بہت سے عقائد واعمال ثابت ہوتے ہیں، لیکن اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ دیگر سورتوں کے ثابت ہونے والے عقائد واعمال اس لئے مشکوک ہیں کیونکہ وہ سورۃ البقرہ میں بیان نہیں ہوئے، ہر اہم حکم سورۃ البقرہ میں موجود ہونا چاہئے تھا وغیرہ وغیرہ، تو یہ ایک لا یعنی اور فضول بات ہوگی۔
جاوید احمد غامدی صاحب نے بھی اپنے من مانے اُصول ثابت کرنے اور اپنی خواہشات نفسانی کے نا موافق عقائد واحکام کو ردّ کرنے کیلئے لوگوں کو اس طرح کا مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے، جیسا کہ ان کا معروف عقیدہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ قربِ قیامت دجال کو قتل کرنے کیلئے دُنیا میں نہیں آئیں گے، حالانکہ نزولِ مسیحﷺ کا یہ عقیدہ قرآن کریم اور متواتر روایات سے ثابت ہے، وہ عوام کو بے وقوف بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ
چونکہ یہ عقیدہ قرآن کریم اور حدیث کی اولین اور صحیح کتاب موطا میں موجود نہیں لہٰذا یہ عقیدہ ثابت نہیں ہوسکتا۔
حالانکہ یہ عقیدہ قرآنِ کریم کی کئی آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے، اسی طرح یہ صحیحین اور دیگر کتبِ احادیث کی متواتر روایات اس عقیدے پر شاہد ہیں۔
- آپ نے کہا کہ
محترم بھائی! ہر انسان کی کل دو موتیں اور دو زندگیاں ہیں:زندہ کیسے ہوتے ہیں، ظاہر ہے ان کی زندگی برزخی ہی ہوگی، مگر ایسا کہیں کہا گیا ہے کہ یہ زندگی برزخی ہے، کچھ مسلک والے تو اس کو یہ زندگی گردانتے ہیں۔ جوکہ بےشک جہالت کی حد ہی ہے۔
مگر اس پر اگر کہیں سے پرانے دور کے محدثین کے علم کی روشنی ڈالی جائے تو بہتر ہوگا۔ ان شاءاللہ
- دنیا فانی میں پیدائش سے پہلے ہماری ’عدم‘ کی کیفیت کو ’پہلی موت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
- پھر دُنیا میں آنے سے لے کر دُنیاوی موت تک ہماری ’پہلی زندگی‘ ہے۔
- پھر دنیاوی موت سے لے کر دوسرے یا تیسرے صور کے بعد قبروں سے دوبارہ زندہ ہونے تک دوسری موت ہے۔
- پھر قبروں سے دوبارہ اٹھائے جانے کے بعد کی اُخروی و دائمی زندگی کو دوسری زندگی کہا جاتا ہے۔
نیز فرمایا: ﴿ وَهُوَ الَّذِي أَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ﴾ ... سورة الحج: 66 کہ ’’اسی نے تمہیں زندگی بخشی، پھر وہی تمہیں مار ڈالے گا پھر وہی تمہیں زنده کرے گا۔‘‘
قیامت کے روز کافر اپنی دو موتوں اور دو زندگیوں کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿ قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ ﴾ ... سورة غافر: 11 کہ ’’وه کہیں گے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دوبار مارا اور دو بار ہی جلایا، اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں، تو کیا اب کوئی راه نکلنے کی بھی ہے؟‘‘
ان دونوں موتوں اور زندگیوں کو غالب احوال کی وجہ سے موت اور زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے، وگرنہ ان میں ایسے مراحل بھی ہیں جو موت یا زندگی سے مختلف ہیں۔
- مثلاً ہماری ’عدم‘ کی کیفیت میں ہی ہمیں بنی ءادم کی پشتوں سے نکالا گیا اور ہم سے وعدۂ الست لیا گیا جس کا ذکر سورۂ اعراف میں موجود ہے، اسے ’عالمِ ارواح‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
- ہماری پہلی زندگی (دُنیاوی زندگی) میں کئی ایسے موقع آتے ہیں جس میں ہم مر جاتے ہیں، پھر زندہ ہوتے ہیں، لیکن اس باوجود ’غالب زندگی‘ کی وجہ سے اس پورے مرحلے کو ’پہلی زندگی‘ قرار دیا گیا۔ مثلاً اصحاب کہف، سیدنا عزیر اور بنی اسرائیل کے ستر لوگوں (جنہوں نے اللہ کو دیکھنے کا مطالبہ کیا تھا، ان كا ذكر سورة بقره كى شروع میں بھی ہے۔) اور پھر ہزاروں لوگوں کو مار دیا گیا، پھر زندہ کر دیا گیا، اسی طرح سیدنا عیسیٰ بھی مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کرتے تھے۔ اسی طرح نیند موت کی بہن ہے، ہم تمام لوگ رات کو مر جاتے ہیں، پھر اگر اللہ چاہے تو صبح دوبارہ ہماری روح لوٹا دی جاتی ہے۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ﴾ ... سورة الزمر: 42 کہ ’’ اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے، پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے انہیں تو روک لیتا ہے اور دوسری (روحوں) کو ایک مقرر وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔‘‘
- اسی طرح ہماری دوسری موت یعنی دنیاوی موت سے لے کر قبروں سے اٹھنے تک کی حالت کو غالب اور عمومی احوال کی وجہ سے ’موت‘ کہا جاتا ہے، اگرچہ اس میں بھی زندگی (برزخی) کی کئی صورتیں موجود ہیں، جن کا ذکر میں نے اوپر اپنی پوسٹ میں کیا ہے۔ (امام ابن القیم نے اپنی کتاب الروح وغیرہ میں اس پر سلف صالحین کا اجماع ذکر کیا ہے۔) یہ بات تو حتمی اور اوپر دئیے گئے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ہر نفس (جن میں انبیاء کرام اور شہداء عظام بھی شامل ہیں) کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، تو یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اسے موت (دوسری موت) سے تعبیر کیا جائے یا زندگی سے؟ تو اسی کیلئے علمائے کرام نے برزخی زندگی کی اصطلاح استعمال کی ہے، (اس کے لئے اوپر میری پہلی پوسٹ میں امام ابن کثیر اور ہیئۃ کبار علماء کے اقوال ملاحظہ کریں۔) جس کا ہمیں دنیا میں کوئی شعور نہیں، لہٰذا وہ ہمارے اعتبار سے موت ہی ہے ﴿ بل أحياء ولكن لا تشعرون ﴾ ... سورة البقرة: 154 اور اس کو اللہ تعالیٰ نے بھی دو موتوں میں سے دوسری موت کہا ہے۔ یعنی ہمارے (دنیاوی) اعتبار سے تو وہ موت زندگی نہیں، کیونکہ وہ ہمارے حواس سے ما وراء ہے، لیکن اسی میں انبیاء کرام کو یہ اعزاز دیا جاتا ہے کہ انہیں رزق دیا جاتا ہے اور وہ نماز بھی پڑھتے ہیں، اسی میں ہی شہداء کو جن کی روحیں سبز پرندوں میں ہوتی ہیں جنت سے رزق دیا جاتا ہے، اسی میں ہی نیک لوگوں اور برے لوگوں کو قبر میں سوال وجواب اور نعیم قبر وعذاب قبر کا سامنا کرنا ہوتا ہے، لیکن دنیاوی طور پر اور اللہ تعالیٰ کے دو موتوں والے فارمولے سے اسے عموماً موت ہی کہا جاتا ہے۔
اس برزخی زندگی کو دنیاوی زندگی میں موجود موت کی صورتیں (مثلاً نیند وغیرہ) پر قیاس کرکے کافی کچھ سمجھا جا سکتا ہے۔ (اگرچہ ہم دنیا میں اس کی کنہ کو نہیں پہنچ سکتے کیونکہ ہماری عقل اور ہمارا بہت ناقص ہے۔) جس طرح انسان اپنی دنیاوی زندگی میں اگرچہ زندہ ہوتا ہے، اس کے حواس: سننا، محسوس کرنا، سونگنا وغیرہ کام کر رہے ہوتے ہیں، لیکن جب وہ سوتا ہے، تو یہ حواس بہت ہی سست پڑ جاتے ہیں، کئی مرتبہ تو قریب سے آواز بھی دی جائے تو گہری نیند میں اسے سننا کافی مشکل ہوجاتا ہے، کئی دفعہ تو جھنجھوڑنے سے بھی اسے کچھ پتہ نہیں چلتا اور پھر وہ اٹھ کر بتاتا ہے کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا کہ مجھے کسی نے آواز دی یا جگایا یا جھنجھوڑا وغیرہ وغیرہ تو گویا اصلاً انسان زندہ ہوتا ہے، اس کا دل اور دیگر اعضاء کام کر رہے ہوتے ہیں، لیکن اس کا ایک گونہ تعلّق موت سے بھی ہوتا ہے، اسی طرح بعض مرتبہ انسان خواب دیکھ رہا ہوتا ہے، اگرچہ موجود وہ تو اپنے بیڈ پر ہوتا ہے، لیکن وہ محسوس کرتا ہے کہ میرے دشمن میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں وہ ان سے جان بچا کر بھاگ رہا ہوتا ہے، کئی دفعہ تو جب وہ بری طرح خوفزدہ ہوکر بیدار ہوتا ہے، تو اس کا جسم تک کانپ رہا ہوتا ہے، اس کے منہ سے چیخیں تک نکل جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح مرنے کے بعد قبر کے اندر بعض مرتبہ ہمارا ایک گونہ تعلّق زندگی کی ساتھ بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قبر کے حالات کو نیند سے بھی تشبیہ دی ہے، حالانکہ اسی قبر کے اندر انسان نعیم وعذاب اپنے اعمال کے مطابق سہہ رہا ہوتا ہے، فرمانِ باری ہے: ﴿ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُم مِّنَ الْأَجْدَاثِ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يَنسِلُونَ * قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا ۜ ۗ هَـٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَـٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ ﴾ ... سورة يٰسين: 52 کہ ’’تو صور کے پھونکے جاتے ہی سب کے سب اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی طرف (تیز تیز) چلنے لگیں گے (٥١) کہیں گے ہائے ہائے! ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھا دیا۔ یہی ہے جس کا وعده رحمٰن نے دیا تھا اور رسولوں نے سچ سچ کہہ دیا تھا۔‘‘ واللہ تعالیٰ اعلم - اسی طرح دوسری زندگی (یعنی اخروی اور دائمی زندگی) میں بھی کفار کیلئے ایسی عذاب کی صورتیں ہیں، جنہیں نہ زندگی نہ موت قرار دیا گیا ہے، جن کی طرف علوی بھائی نے بھی اشارہ فرمایا ہے، فرمانِ باری ہے: ﴿ فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذِّكْرَىٰ * سَيَذَّكَّرُ مَن يَخْشَىٰ * وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى * الَّذِي يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَىٰ * ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ ﴾ ... سورة الأعلىلیکن غالب طور پر بلکہ اصلاً اسے زندگی ہی کہا جائے گا کیونکہ موت کو تو ذبح کر دیا گیا ہوگا۔