• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام انبیاء وشہداء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، لیکن ان کی یہ زندگی برزخی ہے۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عتیق بھائی!
تحریر پسند کرنے کا شکریہ! اگر اس میں صحیح ودرست باتیں ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، اور اگر کوئی غلط بات ہے، تو مجھ سے اور شیطان سے ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ جو اشکالات آپ کے ذہن میں آئے، آپ نے ذکر کر دئیے، کیونکہ ان معاملات میں شرم وغیرہ کرنے سے تشنگی باقی رہ جاتی ہے اور اور انسان کئی قیمتی مسائل سے بے بہرہ اور نا واقف رہ جاتا ہے۔ یہ تو پھر عقیدے کا معاملہ ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: « ألا سألوا إذ لم يعلموا فإنما شفاء العي السؤال » صحيح أبي داؤد: 336 کہ ’’جب انہیں علم نہیں تھا تو انہوں نے سوال کیوں نہ کیا، کیونکہ لا علمی کا حل تو سوال کرنا ہی ہے۔‘‘

  • آپ نے پوچھا ہے کہ
یہ حدیث کس حدیث کے مجموعہ سے لی گئی ہے؟
تو عرض یہ ہے کہ میں نے ہر حدیث مبارکہ کے سامنے اس کا حوالہ لکھ دیا تھا، اب آپ کے توجہ دلانے پر لنک بھی ڈال دیا ہے، جسے کلک کرکے اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔

  • آپ نے کہا کہ
یہ حدیث کہ حدیث کی کتاب مسند البزار سے لی گئی ہے اور یہ حدیث کسی مستند کتاب جیسا کہ: بخاری، مسلم یا کسی سنن میں کیوں نہیں موجود ہے؟ اور یہ صرف مسند میں ہے اور اس کی بنیاد پر ہی دوسرے مسلک والے شور مچاتے ہیں، اس پر بھی اس دور کے محدثین کے تاثرات پر مبنی علمی روشنی ڈالیے کہ ہمیں سمجھانے میں آسانی ہو۔
عتیق بھائی! صحیحین یا سنن اربعہ وغیرہ احادیث مبارکہ کے کامل مجموعے نہیں ہیں کہ جن میں تمام صحیح احادیث بیان ہوچکی ہیں، یعنی اگر کوئی حدیث مبارکہ ان مجموعوں کے علاوہ کسی اور حدیث کی کتاب میں ہو تو فوراً بلا سوچے سمجھے اسے ضعیف نہیں کہہ دیا جائے گا۔ (مثال کے طور پر صرف مسند احمد کو لے لیں تو صرف اس میں تیس ہزار کے قریب احادیث مبارکہ موجود ہیں۔ جن میں بہت زیادہ روایات صحیح ہیں۔)
صحیحین کی تمام احادیثِ مبارکہ ’کچھ تفصیل کے ساتھ‘ صحیح ہیں۔ یعنی اگر کوئی حدیث صحیح بخاری یا مسلم میں ہو تو اس کی سند ومتن کو مزید پرکھنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ یہ صحیح ہے یا ضعیف؟ (لیکن جیسا کہ پہلے واضح کیا گیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جو روایت صحیحین میں نہ ہو تو وہ ضعیف ہوگی۔) اسی طرح سنن اربعہ کی اکثر روایات صحیح یا حسن ہیں، اگرچہ ان میں کچھ روایات ضعیف بھی ہیں، اسی طرح دیگر بہت سی ایسی کتبِ احادیث ’کتب ستہ یا صحاح ستہ‘ کے علاوہ ہیں جن میں موجود بہت سی روایات صحیح ہیں، محدثین کرام نے اپنی پوری پوری زندگی کی محنتیں صرف کر کے ان احادیث کی چھان پھٹک کر ان کے صحّت وضعف کے متعلّق ہماری راہنمائی فرمائی ہے، جزاہم اللہ عنا وعن الاسلام خیرا
خلاصہ یہ کہ علمائے کرام کا اتّفاق ہے کہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، جامع الترمذی، سنن النسائی اور سنن ابن ماجہ کے علاوہ کتب احادیث کی بہت سی روایات بھی صحیح ہیں، جن سے عقائد، عبادات ومعاملات وغیرہ میں استدلال کیا جا سکتا ہے۔
مثال
اسے ایک مثال سے یہ یوں سمجھا جا سکتا ہے، کہ سورۃ البقرہ قرآن کریم کی سب سے لمبی اور ایک عظیم سورتِ مبارکہ ہے، جس سے بہت سے عقائد واعمال ثابت ہوتے ہیں، لیکن اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ دیگر سورتوں کے ثابت ہونے والے عقائد واعمال اس لئے مشکوک ہیں کیونکہ وہ سورۃ البقرہ میں بیان نہیں ہوئے، ہر اہم حکم سورۃ البقرہ میں موجود ہونا چاہئے تھا وغیرہ وغیرہ، تو یہ ایک لا یعنی اور فضول بات ہوگی۔
جاوید احمد غامدی صاحب نے بھی اپنے من مانے اُصول ثابت کرنے اور اپنی خواہشات نفسانی کے نا موافق عقائد واحکام کو ردّ کرنے کیلئے لوگوں کو اس طرح کا مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے، جیسا کہ ان کا معروف عقیدہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ﷤ قربِ قیامت دجال کو قتل کرنے کیلئے دُنیا میں نہیں آئیں گے، حالانکہ نزولِ مسیحﷺ کا یہ عقیدہ قرآن کریم اور متواتر روایات سے ثابت ہے، وہ عوام کو بے وقوف بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ
چونکہ یہ عقیدہ قرآن کریم اور حدیث کی اولین اور صحیح کتاب موطا میں موجود نہیں لہٰذا یہ عقیدہ ثابت نہیں ہوسکتا۔
حالانکہ یہ عقیدہ قرآنِ کریم کی کئی آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے، اسی طرح یہ صحیحین اور دیگر کتبِ احادیث کی متواتر روایات اس عقیدے پر شاہد ہیں۔
  • آپ نے کہا کہ
زندہ کیسے ہوتے ہیں، ظاہر ہے ان کی زندگی برزخی ہی ہوگی، مگر ایسا کہیں کہا گیا ہے کہ یہ زندگی برزخی ہے، کچھ مسلک والے تو اس کو یہ زندگی گردانتے ہیں۔ جوکہ بےشک جہالت کی حد ہی ہے۔
مگر اس پر اگر کہیں سے پرانے دور کے محدثین کے علم کی روشنی ڈالی جائے تو بہتر ہوگا۔ ان شاءاللہ
محترم بھائی! ہر انسان کی کل دو موتیں اور دو زندگیاں ہیں:

  • دنیا فانی میں پیدائش سے پہلے ہماری ’عدم‘ کی کیفیت کو ’پہلی موت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
  • پھر دُنیا میں آنے سے لے کر دُنیاوی موت تک ہماری ’پہلی زندگی‘ ہے۔
  • پھر دنیاوی موت سے لے کر دوسرے یا تیسرے صور کے بعد قبروں سے دوبارہ زندہ ہونے تک دوسری موت ہے۔
  • پھر قبروں سے دوبارہ اٹھائے جانے کے بعد کی اُخروی و دائمی زندگی کو دوسری زندگی کہا جاتا ہے۔
فرمانِ باری ہے: ﴿ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴾ ... سورة البقرة: 28 کہ ’’تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو؟ حالانکہ تم مرده تھے، اس نے تمہیں زنده کیا، پھر تمہیں مار ڈالے گا، پھر زنده کرے گا، پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿ وَهُوَ الَّذِي أَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ﴾ ... سورة الحج: 66 کہ ’’اسی نے تمہیں زندگی بخشی، پھر وہی تمہیں مار ڈالے گا پھر وہی تمہیں زنده کرے گا۔‘‘
قیامت کے روز کافر اپنی دو موتوں اور دو زندگیوں کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿ قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ ﴾ ... سورة غافر: 11 کہ ’’وه کہیں گے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دوبار مارا اور دو بار ہی جلایا، اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں، تو کیا اب کوئی راه نکلنے کی بھی ہے؟‘‘
ان دونوں موتوں اور زندگیوں کو غالب احوال کی وجہ سے موت اور زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے، وگرنہ ان میں ایسے مراحل بھی ہیں جو موت یا زندگی سے مختلف ہیں۔

  1. مثلاً ہماری ’عدم‘ کی کیفیت میں ہی ہمیں بنی ءادم کی پشتوں سے نکالا گیا اور ہم سے وعدۂ الست لیا گیا جس کا ذکر سورۂ اعراف میں موجود ہے، اسے ’عالمِ ارواح‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
  2. ہماری پہلی زندگی (دُنیاوی زندگی) میں کئی ایسے موقع آتے ہیں جس میں ہم مر جاتے ہیں، پھر زندہ ہوتے ہیں، لیکن اس باوجود ’غالب زندگی‘ کی وجہ سے اس پورے مرحلے کو ’پہلی زندگی‘ قرار دیا گیا۔ مثلاً اصحاب کہف، سیدنا عزیر﷤ اور بنی اسرائیل کے ستر لوگوں (جنہوں نے اللہ کو دیکھنے کا مطالبہ کیا تھا، ان كا ذكر سورة بقره كى شروع میں بھی ہے۔) اور پھر ہزاروں لوگوں کو مار دیا گیا، پھر زندہ کر دیا گیا، اسی طرح سیدنا عیسیٰ﷤ بھی مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کرتے تھے۔ اسی طرح نیند موت کی بہن ہے، ہم تمام لوگ رات کو مر جاتے ہیں، پھر اگر اللہ چاہے تو صبح دوبارہ ہماری روح لوٹا دی جاتی ہے۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ﴾ ... سورة الزمر: 42 کہ ’’ اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے، پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے انہیں تو روک لیتا ہے اور دوسری (روحوں) کو ایک مقرر وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔‘‘
  3. اسی طرح ہماری دوسری موت یعنی دنیاوی موت سے لے کر قبروں سے اٹھنے تک کی حالت کو غالب اور عمومی احوال کی وجہ سے ’موت‘ کہا جاتا ہے، اگرچہ اس میں بھی زندگی (برزخی) کی کئی صورتیں موجود ہیں، جن کا ذکر میں نے اوپر اپنی پوسٹ میں کیا ہے۔ (امام ابن القیم﷫ نے اپنی کتاب الروح وغیرہ میں اس پر سلف صالحین کا اجماع ذکر کیا ہے۔) یہ بات تو حتمی اور اوپر دئیے گئے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ہر نفس (جن میں انبیاء کرام﷩ اور شہداء عظام﷭ بھی شامل ہیں) کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، تو یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اسے موت (دوسری موت) سے تعبیر کیا جائے یا زندگی سے؟ تو اسی کیلئے علمائے کرام نے برزخی زندگی کی اصطلاح استعمال کی ہے، (اس کے لئے اوپر میری پہلی پوسٹ میں امام ابن کثیر اور ہیئۃ کبار علماء کے اقوال ملاحظہ کریں۔) جس کا ہمیں دنیا میں کوئی شعور نہیں، لہٰذا وہ ہمارے اعتبار سے موت ہی ہے ﴿ بل أحياء ولكن لا تشعرون ﴾ ... سورة البقرة: 154 اور اس کو اللہ تعالیٰ نے بھی دو موتوں میں سے دوسری موت کہا ہے۔ یعنی ہمارے (دنیاوی) اعتبار سے تو وہ موت زندگی نہیں، کیونکہ وہ ہمارے حواس سے ما وراء ہے، لیکن اسی میں انبیاء کرام کو یہ اعزاز دیا جاتا ہے کہ انہیں رزق دیا جاتا ہے اور وہ نماز بھی پڑھتے ہیں، اسی میں ہی شہداء کو جن کی روحیں سبز پرندوں میں ہوتی ہیں جنت سے رزق دیا جاتا ہے، اسی میں ہی نیک لوگوں اور برے لوگوں کو قبر میں سوال وجواب اور نعیم قبر وعذاب قبر کا سامنا کرنا ہوتا ہے، لیکن دنیاوی طور پر اور اللہ تعالیٰ کے دو موتوں والے فارمولے سے اسے عموماً موت ہی کہا جاتا ہے۔
    اس برزخی زندگی کو دنیاوی زندگی میں موجود موت کی صورتیں (مثلاً نیند وغیرہ) پر قیاس کرکے کافی کچھ سمجھا جا سکتا ہے۔ (اگرچہ ہم دنیا میں اس کی کنہ کو نہیں پہنچ سکتے کیونکہ ہماری عقل اور ہمارا بہت ناقص ہے۔) جس طرح انسان اپنی دنیاوی زندگی میں اگرچہ زندہ ہوتا ہے، اس کے حواس: سننا، محسوس کرنا، سونگنا وغیرہ کام کر رہے ہوتے ہیں، لیکن جب وہ سوتا ہے، تو یہ حواس بہت ہی سست پڑ جاتے ہیں، کئی مرتبہ تو قریب سے آواز بھی دی جائے تو گہری نیند میں اسے سننا کافی مشکل ہوجاتا ہے، کئی دفعہ تو جھنجھوڑنے سے بھی اسے کچھ پتہ نہیں چلتا اور پھر وہ اٹھ کر بتاتا ہے کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا کہ مجھے کسی نے آواز دی یا جگایا یا جھنجھوڑا وغیرہ وغیرہ تو گویا اصلاً انسان زندہ ہوتا ہے، اس کا دل اور دیگر اعضاء کام کر رہے ہوتے ہیں، لیکن اس کا ایک گونہ تعلّق موت سے بھی ہوتا ہے، اسی طرح بعض مرتبہ انسان خواب دیکھ رہا ہوتا ہے، اگرچہ موجود وہ تو اپنے بیڈ پر ہوتا ہے، لیکن وہ محسوس کرتا ہے کہ میرے دشمن میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں وہ ان سے جان بچا کر بھاگ رہا ہوتا ہے، کئی دفعہ تو جب وہ بری طرح خوفزدہ ہوکر بیدار ہوتا ہے، تو اس کا جسم تک کانپ رہا ہوتا ہے، اس کے منہ سے چیخیں تک نکل جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح مرنے کے بعد قبر کے اندر بعض مرتبہ ہمارا ایک گونہ تعلّق زندگی کی ساتھ بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قبر کے حالات کو نیند سے بھی تشبیہ دی ہے، حالانکہ اسی قبر کے اندر انسان نعیم وعذاب اپنے اعمال کے مطابق سہہ رہا ہوتا ہے، فرمانِ باری ہے: ﴿ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ‌ فَإِذَا هُم مِّنَ الْأَجْدَاثِ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يَنسِلُونَ * قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا ۜ ۗ هَـٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَـٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ ﴾ ... سورة يٰسين: 52 کہ ’’تو صور کے پھونکے جاتے ہی سب کے سب اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی طرف (تیز تیز) چلنے لگیں گے (٥١) کہیں گے ہائے ہائے! ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھا دیا۔ یہی ہے جس کا وعده رحمٰن نے دیا تھا اور رسولوں نے سچ سچ کہہ دیا تھا۔‘‘ واللہ تعالیٰ اعلم
  4. اسی طرح دوسری زندگی (یعنی اخروی اور دائمی زندگی) میں بھی کفار کیلئے ایسی عذاب کی صورتیں ہیں، جنہیں نہ زندگی نہ موت قرار دیا گیا ہے، جن کی طرف علوی بھائی نے بھی اشارہ فرمایا ہے، فرمانِ باری ہے: ﴿ فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذِّكْرَىٰ * سَيَذَّكَّرُ مَن يَخْشَىٰ * وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى * الَّذِي يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَىٰ * ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ ﴾ ... سورة الأعلىلیکن غالب طور پر بلکہ اصلاً اسے زندگی ہی کہا جائے گا کیونکہ موت کو تو ذبح کر دیا گیا ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
 
شمولیت
مئی 08، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
156
پوائنٹ
31
جزاک اللہ انس بھائی
معافی چاہتا ہوں کہ ذاتی اور دنیاوی مصروفیات میں اس قدر مشغول ہوچکا ہوں کہ وقت ہی نہیں ملتا کچھ اور کرنے کا۔
اللہ مجھ سمیت ہر بندے کے لیے آسانیاں فرمائے۔ آمین
والسلام علیکم
 

siddique

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
170
ری ایکشن اسکور
900
پوائنٹ
104
(امام ابن القیم� نے اپنی کتاب الروح وغیرہ میں اس پر سلف صالحین کا اجماع ذکر کیا ہے۔)
اسلام علیکم انس بھائی جان
کتاب الروح کا ترجمہ ہوگیا ہے۔میں ایک سلفی کتب خانہ سے یہ کتاب خریدنے گیا تو اس نے مجھ سے یہ کہا کہ یہ کتاب کسی صوفی لکھی ہوئی ہے۔اور امام ابن القیم کی طرف منسوب کی گئی ہے؟اس مسلئے پر روشنی ڈالے تو عین نوازش ہوگی۔
اللہ حافظ
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
السلام علیکم،
یہ بہت اہم موضوع ہے اور میرے خیال میں اس موضوع پر خود ہمارے بھائی بھی ابہام کا شکار ہیں اور خود کچھ عرصہ پہلے تک مجھے خود بھی یہ پریشانی لاحق ہوتی تھی کہ کچھ آیات اور روایات میں انبیاء کے لئے یا شہداء کے لئے زندگی یا زندہ ہونے کا لفظ موجود ہے اور اسی طرح کچھ آئمہ و محدثین کی عبارات میں بھی۔ جن سے اہل بدعت استدلال کرتے ہیں۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس موضوع سے متعلق اب ذہن ایسا صاف ہے کہ کچھ پریشانی نہیں، الحمدللہ۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اہلسنت و الجماعت یا اہل حدیث اور اہل بدعت کے مابین اس مسئلہ میں اصل تنازعہ کیا ہے؟ یاد رکھئے کہ مسئلہ انبیاء یا شہداء کو زندہ ماننے یا ان کی زندگی کو تسلیم کرنے کا ہرگز نہیں بلکہ زندگی تو وفات اور موت کے بعد بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بے شمار مقامات قرآن میں ایمان والوں کو دنیا کی عارضی زندگی کی بجائے اخروی زندگی کی طرف توجہ رکھنے کی تلقین کی ہے۔ جس سے یہ بات تو ہر ایک کا عقیدہ ہونا ضروری ہے کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد بھی ایک زندگی ہے اور تمام کے تمام لوگ کافر یا مسلمان دنیاوی زندگی کے بعد اخروی زندگی کے اعتبار سے زندہ ہیں۔ فرق یہ ہے کہ کافروں کی زندگی عذاب والی اور ایمان والوں کی یہ اخروی زندگی نعمت و اکرام والی ہے۔ اور انبیاء کرام علیھم السلام کی زندگی سب سے اعلیٰ ہے۔
اس کے مقابلے میں اہل بدعت جو انبیاء یا شہداء کو زندہ مانتے یہ کہتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ شہداء یا انبیاء کی یہ حیات و زندگی دنیاوی ہے، دنیا کی سی ہے۔ یہ عقیدہ سراسر قرآن و سنت و عقیدہ سلف کے خلاف ہے۔ تفصیل کا موقع نہیں یہاں صرف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک اثر پیش کر کے اس بات کو پیش کرنا چاہتا ہوں کہ صحابہ کرام کا اس بارے میں عقیدہ کیا تھا؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا میں آخری وقت کے قریب مسواک کو اپنے منہ سے نرم کر کے آپ کو دیا تھا، اس کے متعلق فرماتی ہیں:
’’اللہ تعالیٰ (کا فضل تھا کہ اس) نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میں میرا اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا تھوک ملا دیا۔‘‘ (صحیح بخاری: کتاب المغازی، باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم و وفاتہ۔۔۔)
اس روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے عقیدہ کا واضح اظہار موجود ہے کہ ان کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا کی زندگی تمام ہو گئی اور اخروی زندگی شروع ہو گئی۔ اللہ ہمیں حق بات کو سمجھنے کی توفیق دے، آمین یا رب العالمین۔
مزید دیکھئے شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا اس موضوع سے متعلق ایک مضمون ’’قبر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا مسئلہ‘‘ (مقالات:ج١ص١٩)
 
شمولیت
جولائی 03، 2012
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
94
پوائنٹ
63
asslamualikum wr wb
brother is hadish par 1 bhai ne ye jirah di hai ki ye hadish shahih nahi hai
سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 1638 حدیث مرفوع مکررات 7
عمرو بن سواد مصری، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، سعید بن ابی ہلال، حضرت ابوالدرداء اضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھ پر جمعہ کے روز بکثرت درود پڑھا کرو کیونکہ اس روز فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور جو بھی مجھ پر درود بھیجے فرشتے اس کا درود میرے سامنے لاتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ درود سے فارغ ہو جائے۔ میں نے عرض کیا آپ کے وصال کے بعد بھی ؟ فرمایا موت کے بعد بھی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے اجسام کھانا حرام کر دیا پس اللہ کا نبی زندہ ہے اور ان کو روزی دی جاتی ہے ۔

====================

It was narrated from Abu- Darda' that the Messenger of Allah P.B.U.H said. "Send a great deal of blessing upon me on Fridays,
for it is witnessed by the angels. No one sends blessing upon me but his blessing will be presented to me, until he finishes them." A
man said: "Even after death?" He said: "Even after death, for Allah has forbidden the earth to consume the bodies of the Prophets, so the Prophet of Allah is alive and receives provision.'"(Da'if)

=======================
أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة فإنه يوم مشهود وتشهده الملائكة وإن أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حين يفرغ منها قال قلت وبعد الموت قال وبعد الموت وإن الله حرم على الأرض أجساد الأنبياء فنبي الله حي يرزق
الراوي: أبو الدرداء المحدث: البخاري - المصدر: تحفة المحتاج - الصفحة أو الرقم: 1/527
خلاصة حكم المحدث: زيد عن عبادة مرسل

==========================
أكثروا علي من الصلاة يوم الجمعة فإنه يوم مشهود تشهده الملائكة ، وإن أحدا لا يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ ، قال : قلت : وبعد الموت ؟ ! قال : إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء . فنبي الله حي يرزق
الراوي: أبو الدرداء المحدث: محمد ابن عبدالهادي - المصدر: الصارم المنكي - الصفحة أو الرقم: 349
خلاصة حكم المحدث: فيه إرسال [وفيه] مجهول الحال
========================

أكثروا من الصلاة علي يوم الجمعة ، فإنه يوم مشهود تشهده الملائكة ، وإن أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حين يفرغ منها ، قال : قلت : وبعد الموت ؟ قال : وبعد الموت ، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء فنبي الله حي يرزق
الراوي: أبو الدرداء المحدث: السخاوي - المصدر: القول البديع - الصفحة أو الرقم: 233
خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات لكنه منقطع
========================

أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة ؛ فإنه مشهود تشهد الملائكة ، وإن أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها ، قال : قلت : وبعد الموت ؟ ! قال : إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء ؛ فنبي الله حي يرزق
الراوي: أبو الدرداء المحدث: الألباني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 1315
خلاصة حكم المحدث: منقطع
=======================
أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة ، فإنه مشهود تشهده الملائكة ، وإن أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها . قال : قلت : بعد الموت ؟ قال : إن الله عز وجل حرم على الأرض أكل أجساد الأنبياء عليهم السلام فإن نبي الله حي يرزق
الراوي: أبو الدرداء المحدث: ابن الملقن - المصدر: البدر المنير - الصفحة أو الرقم: 5/288
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن إلا أنه غير متصل

=========================

أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة ، فإنه مشهود تشهده الملائكة ، وإن أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها قال : قلت : وبعد الموت ؟ قال : وبعد الموت ، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء ، فنبي الله حي يرزق
الراوي: أبو الدرداء المحدث: الألباني - المصدر: ضعيف ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 324
خلاصة حكم المحدث: ضعيف لكن غالبه في الصحيح
====================
no.2 woh kahte hai ki nabi jinda hai qabar me nahi balki asmano me .....unki dalilhai ki neak logo ki rooh illin me aur bure logo ki rooh sijjin me hai &
tafseer ibne kasir me hai ki surah 83 me ki sijjin satwa janeen hai aur illin satwa asman hai .........& is
hadish se bhi istedlal karte hai ..
صحیح بخاری
کتاب الجنائز
ki a lambi hadish hai jiske akhir me hai
یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سر اٹھاؤ میں نے جو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی اگر آپ وہ پوری کر لیتے تو اپنے مکان میں آ جاتے..
yani isse estadlal lete hai ki allah ke rasool upar hai niche nahi
ummid hai ki masle ko samjhyenge mohabbat se q ki meri khud samajh me nahi a raha hai ki sahi kaya hai
allah samajhne ki aur haq ko taslem karne ki tawfiq de
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top