• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام انبیاء وشہداء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، لیکن ان کی یہ زندگی برزخی ہے۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
جولائی 03، 2012
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
94
پوائنٹ
63
1. bat aur meri samajh me nahi a rahi hai ki shahid to jannat me hai jo ki khushoshi allah ne banayi hai jo ki asr ke niche hai to qabar kaise hai jabki hadish qabar me nahi batla rahi hai ,,,,
masrooq kahte hai ki hamne suna sayyadna abdullah maswood r. se is ayat"unlogo ko murda mat samjho jo allah ki raah me qatal kiye gaye hai balki woh apne rab ke pash jinda hai,roji diye gate hai"(3-169)ke bare me pocha to sayyadna abdullah maswood r. ne kaha-hamne is ayat ke bare me(nbi s.)se pocha to ap s. ne farmaya ki shahido ki roohe sabj prindo ke qalb me qandilo ke ander hai,jo arsh mubarak se latak rahi hai aur jaha cahte hai jannt(bagh)me cugte firte hai,fir apni qandilon me a rahte hai.1 dafah unke rab ne unko dekha aur farmaya ki tum kuch cahte ho?unhone kaha ab ham kya cahenge?ham to jannt(bagh)me jaha cahte hai cugte firte hai,to allah ne 3 dafah pocha.zab unhone dekha ki bagair mange hamari rihai nhi(yani allah baar baar poch raha hai)to unhone kaha"aye hamare rab!ham ye cahte hai ki hamari roho ko hamare badno me fear de(yani duniya ke jism me)taaki ham dobara teri raah me mare zaye.zab unke rab ne dekha ki ab inko koi kuwahish nhi,to unko chod diya(pochna)..(shahi muslim shrif ..kitabul imarah ,,,,bab SHAHIDO KI ROOHE JANNAT ME HAI AUR YE KI WOH APNE RAB KE NAJDEEK JINDA HAI RIJQ DIYE ZATE HAI
................wallahualam
 

وقار عظیم

مبتدی
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
41
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
28
اسلام و علیکم ورحمتہ اللہ
بھائیو ایک چھوٹا سا سوال ہے
صحیح مسلم شریف میں ہے کہ شہیدوں کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں اور جنت میں جس جگہ چاہیں چرتی چگتی اڑتی پھرتی ہیں پھر ان قندیلوں میں آ کر بیٹھ جاتی ہیں جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں ان کے رب نے ایک مرتبہ انہیں دیکھا اور ان سے دریافت کیا کہ اب تم کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا اللہ ہمیں تو تو نے وہ وہ دے رکھا ہے جو کسی کو نہیں دیا پھر ہمیں کس چیز کی ضرورت ہو گی؟ ان سے پھر یہی سوال ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ اب ہمیں کوئی جواب دینا ہی ہو گا تو کہا اللہ ہم چاہتے ہیں کہ تو ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج ہم تیری راہ میں پھر جنگ کریں پھر شہید ہو کر تیرے پاس آئیں اور شہادت کا دگنا درجہ پائیں، رب جل جلالہ نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا یہ تو میں لکھ چکا ہوں کہ کوئی بھی مرنے کے بعد دنیا کی طرف پلٹ کر نہیں جائے گا مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے کہ مومن کی روح ایک پرندے میں ہے جو جنتی درختوں پر رہتی ہے اور قیامت کے دن وہ اپنے جسم کی طرف لوٹ آئے گی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مومن کی روح وہاں زندہ ہے لیکن شہیدوں کی روح کو ایک طرح کی امتیازی شرافت کرامت عزت اور عظمت حاصل ہے۔
اس سے کیا مراد لیا جائے؟
 
شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
32
:)
جی شاکر بھائی! بہت اچھا سوال ہے۔ میری ناقص رائے اس سلسلے میں یہ ہے انبیاء کرام﷩ اور شہداء عظام وغیرہ کیلئے اس کو بطور خاص بیان کرنے کی وجہ ان کو خاص اعزاز دینا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا خاص مقام ودرجہ کا اظہار ہوتا ہے۔ گویا انبیاء کرام﷩ وشہداء عظام﷭ کی برزخی زندگی دیگر کی برزخی زندگی سے خاص ہے، انیباء کرام﷩ اس برزخی زندگی میں رزق بھی دئیے جاتے ہیں اور نماز بھی پڑھ لیتے ہیں، (لیکن اس سے یہ مراد لینا بالکل جائز نہیں کہ وہ دنیا کی طرح رزق دئیے جاتے اور نماز پڑھتے ہیں، بعض کم نصیبوں کا تو کہنا ہے کہ انبیاء کرام﷩ اپنی قبروں میں دنیا کی طرح زندہ ہیں، کھاتے پیتے اور دیگر وظائف بشریت انجام دیتے ہیں اور تو اور ان پر ان کی بیویاں بھی پیش کی جاتی ہیں ... والعیاذ باللہ! تف ہے ایسی گندی اور جنسی سوچ پر! بلکہ یہ بھی برزخی معاملات ہیں کیونکہ قبر کی جگہ ہی اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ وہاں بیٹھنا ہی ممکن نہیں، کجا یہ کہ نماز پڑھنا۔) جیسا کہ اوپر دئیے گئے نصوص میں صراحت ہے، اسی طرح شہیدوں کو بھی رزق دیا جاتا ہے، اور ان کی پروندوں میں عرش سے نیچے لٹکنے والی قندیلوں میں ہوتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
یہ ایسے ہی ہے جیسے انبیاء کرام﷩، فرشتے ودیگر اولیاء کرام وشہداء عظام کی سفارش کا معاملہ ہے، ایسی کسی سفارش کا تو تصور ہی نہیں کہ کوئی اللہ کو مجبور کر سکے، یا نعوذ باللہ! اللہ پر کسی کا اتنا دباؤ ہو کہ اللہ تعالیٰ کو مانتے ہی بن پڑے، ایسی سفارش کی تو اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ قرآن کریم میں نفی کر دی، مثلاً ﴿ يأيها الذين ءامنوا أنفقوا مما رزقنكم من قبل أن يأتي يوم لا بيع فيه ولا خلة ولا شفاعة ﴾ ... سورة البقرة
لیکن آخرت میں سفارش کا صحیح تصور موجود ہے کہ لیکن اس کے لئے اللہ کی رضامندی کی شرط ہے: ﴿ من ذا الذي يشفع عنده إلا بإذنه ﴾ ... سورة البقرة
تو یہاں بھی یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہاں بھی اللہ کی اجازت ضروری ہے تو پھر کسی سے سفارش کرانے کا کیا مقصد ہے؟ تو اس کا جواب یہی ہے، کہ اصل میں اللہ تعالیٰ نے جس کو معاف کرنا ہوگا، جس پر رحم فرمانا ہوگا، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ انبیاء کرام﷩، فرشتوں، اولیاء کرام اور شہیدوں کو حکم دیں گے، کہ ان کے لئے سفارش کرو، وہ سفارش کریں گے اور اللہ تعالیٰ قبول فرما لیں گے۔ گویا یہاں بھی ان سے سفارش کرا کر صرف ان کو اعزاز دینا اور اللہ کے ہاں ان کا مقام مرتبہ بیان کرنا مقصود ہے، وگرنہ تو جسے اللہ چاہیں گے، اسی کی حق میں سفارش قبول کی جائے گی، ہر ایک کے حق میں سفارش کرنے والوں کی اپنی مرضی سے نہیں۔ بلکہ اپنی مرضی سے تو وہ بات بھی نہ کر سکیں گے: ﴿ يوم يقوم الروح والملائكة صفا لا يتكلمون إلا من أذن له الرحمٰن وقال صوابا ﴾ ... سورة النبا
واللہ تعالیٰ اعلم!​
کیونکہ قبر کی جگہ ہی اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ وہاں بیٹھنا ہی ممکن نہیں، کجا یہ کہ نماز پڑھنا۔) جیسا کہ اوپر دئیے گئے نصوص میں صراحت ہے، اسی طرح شہیدوں کو بھی رزق دیا جاتا ہے، اور ان کی پروندوں میں عرش سے نیچے لٹکنے والی قندیلوں میں ہوتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
تھوڑا سا اشکال ہے سمجھنا چاہتا ہوں ،حدیث میں صراحت ذکر ہے کہ قبر مومن کی کشادہ ہوتی ہے،اور کنہگار کو قبر دبوچتی ہے۔اور واقعہ معراج میں عیسی علیہ السلام کو قبر میں نماز پرھتے دیکھنا،اور حافظ ابن قیم ؒ کی کتاب جو درود شریف کے فضائل پر ہے ،اردو ترجمعہ اسکا اصلوۃ و السلام " کے نام سے ہوا ہے،انبیاء کی قبر مبارک میں حیات ہے ،اس میں اختلاف نہیں کہ وہ برزخی زندگی ہے ،یعنی آب وہوا سب برزخ کی ہے،توآپکا یہ استدلال کچھ بے معنی سے لگتا ہے کہ قبر تو بہت تنگ ہوتی ہے؟وضاحت فرمائیں
 

وقار عظیم

مبتدی
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
41
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
28
۔اور واقعہ معراج میں عیسی علیہ السلام کو قبر میں نماز پرھتے دیکھنا،
محترم آپ اپنا یہ اشکال بھی دور کر لیں کہ واقعہ معراج میں موسی علیہ سلام کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا تھا نا کہ عیسیٰ علیہ سلام کو
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
تھوڑا سا اشکال ہے سمجھنا چاہتا ہوں ،حدیث میں صراحت ذکر ہے کہ قبر مومن کی کشادہ ہوتی ہے،اور کنہگار کو قبر دبوچتی ہے۔اور واقعہ معراج میں عیسی علیہ السلام کو قبر میں نماز پرھتے دیکھنا،اور حافظ ابن قیم ؒ کی کتاب جو درود شریف کے فضائل پر ہے ،اردو ترجمعہ اسکا اصلوۃ و السلام " کے نام سے ہوا ہے،انبیاء کی قبر مبارک میں حیات ہے ،اس میں اختلاف نہیں کہ وہ برزخی زندگی ہے ،یعنی آب وہوا سب برزخ کی ہے،توآپکا یہ استدلال کچھ بے معنی سے لگتا ہے کہ قبر تو بہت تنگ ہوتی ہے؟وضاحت فرمائیں
معذرت کہ میں آپ کا سوال (یا اعتراض) سمجھ نہیں سکا۔
 
شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
32
معذرت کہ میں آپ کا سوال (یا اعتراض) سمجھ نہیں سکا۔
میں یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے فرمایا کہ قبر تو تنگ ہوتی ہے،وہاں بیھٹنا ممکن نہیں ۔
حدیث میں قبر کے کشادہ ہونے اور تنگ ہونے کا بھی ذکر ہے،تو کیا آپ مادیت کے پیمانے پر عالم برزخ کو ناپ رہے ہیں؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
میں یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے فرمایا کہ قبر تو تنگ ہوتی ہے،وہاں بیھٹنا ممکن نہیں ۔
حدیث میں قبر کے کشادہ ہونے اور تنگ ہونے کا بھی ذکر ہے،تو کیا آپ مادیت کے پیمانے پر عالم برزخ کو ناپ رہے ہیں؟
نہیں بھائی! میں اسی کا ہی تو رد کر رہا ہوں۔

میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صحیح احادیث مبارکہ میں قبر کے متعلق جو تفصیلات موجود ہیں، مثلاً انبیاء کا نماز پڑھنا، فرشتوں کا قبر والوں کو بٹھانا، سوال وجواب کرنا، قبر کا تنگ یا کشادہ ہونا، نعیم وعذاب وغیرہ وغیرہ برزخی معاملات ہیں، جن پر ہمارا مکمل ایمان ہونا چاہئے۔ لیکن ان پر دنیاوی اصولوں کا اطلاق کرنا، ان کو دنیاوی امور کی طرح سمجھنے کی کوشش کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس کی دلیل شہیدوں کے متعلق فرمانِ باری ہے: بل أحياء ولكن لا تشعرون
واللہ تعالیٰ اعلم!
 
شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
32
نہیں بھائی! میں اسی کا ہی تو رد کر رہا ہوں۔

میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صحیح احادیث مبارکہ میں قبر کے متعلق جو تفصیلات موجود ہیں، مثلاً انبیاء کا نماز پڑھنا، فرشتوں کا قبر والوں کو بٹھانا، سوال وجواب کرنا، قبر کا تنگ یا کشادہ ہونا، نعیم وعذاب وغیرہ وغیرہ برزخی معاملات ہیں، جن پر ہمارا مکمل ایمان ہونا چاہئے۔ لیکن ان پر دنیاوی اصولوں کا اطلاق کرنا، ان کو دنیاوی امور کی طرح سمجھنے کی کوشش کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس کی دلیل شہیدوں کے متعلق فرمانِ باری ہے: بل أحياء ولكن لا تشعرون
واللہ تعالیٰ اعلم!
اچھا حافظ صاحب پھر تو آپ سے اتفاق ہو گیا ،مجھے آپکی بات سمجھنے میں غلطی لگی۔ تو پھر اختلاف کس بات کا ؟ پھر حیاتی مماتی کا کیا چکر ہے ؟ اور کون لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ قبر میں برزخی حیات نہیں بلکہ دنیاوی حیات ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
نہیں بھائی! میں اسی کا ہی تو رد کر رہا ہوں۔

میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صحیح احادیث مبارکہ میں قبر کے متعلق جو تفصیلات موجود ہیں، مثلاً انبیاء کا نماز پڑھنا، فرشتوں کا قبر والوں کو بٹھانا، سوال وجواب کرنا، قبر کا تنگ یا کشادہ ہونا، نعیم وعذاب وغیرہ وغیرہ برزخی معاملات ہیں، جن پر ہمارا مکمل ایمان ہونا چاہئے۔ لیکن ان پر دنیاوی اصولوں کا اطلاق کرنا، ان کو دنیاوی امور کی طرح سمجھنے کی کوشش کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس کی دلیل شہیدوں کے متعلق فرمانِ باری ہے: بل أحياء ولكن لا تشعرون
واللہ تعالیٰ اعلم!
السلام و علیکم-

محترم انس بھائی - میرے خیال میں عامر رضا بھائی شاید یہ پوچھنا چا رہے ہیں کہ جس قبرکا ذکر قرآن و حدیث میں ہے - کیا وہ زمینی قبر ہے یا اس سے مراد عالم برزخ ہے (یہ عقیدہ عثمانیوں کا بھی ہے کہ) عذاب و راحت کا تعلق زمینی قبر ے نہیں بلکہ اس سے مراد عالم برزخ ہے -دلیل کے طور پر وہ بخاری کی یہ روایت پیش کرتے ہیں-

باب:

قَولِ النَّبِیِّ ﷺ یُعَذَّبُ الْمَیِّتُ بِبَعْضِ بُکَآء اَھْلِه، عَلَیْه... حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِك عَنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ بَکْرٍ عَنْ أَبِیْه عَنْ عَمْرَة بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَنَّھَآ اَخْبَرَتْه اَنَّھََا سَمِعَتْ عَآئِشة زَوْجَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ قَالَتْ اِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ عَلٰی یَھُودِیَّة یَّبْکِی عَلَیْھَآ أَھْلُھَا فَقَالَ: «اِنَّھُمْ لَیَبْکُوْنَ عَلَیْھَا وَاِنَّھَا لَتُعَذَّبُ فِیْ قَبْرِھَا» (بخاری شریف ؍ کتاب الجنائز)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کی میت پر گزرے اس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: '' لوگ اس (یہودیہ) پر رورہے ہیں اور اس کو اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے۔ '' (بخاری) اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ یہودیہ عورت ابھی زمینی قبر میں دفن بھی نہیں کی گئی تھی۔ زمین کے اوپر ہی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: '' اس یہودیہ عورت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے۔'' معلوم ہوا کہ یہاں قبر سے مراد برزخی قبر ہے، دنیاوی قبر نہیں؍:



اور اس کے علاوہ قران میں آل فرعون کی عذاب قبر کا ذکربھی ہے

وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ سورۃ غافر سورۃ نمبر40
اور آل فرعون پر بری طرح کا عذاپلٹ پڑا،ان کے لئے آگ ہے جسکے سامنے یہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قایم ہوگی کہا جائے گا آل فرعون کو سخت عذاب میں ڈال دو


جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آل فرعون کے مردہ اجسام عجائب گھروں میں مقید ہیں - جہاں روح کے آنے جانے کا تصور نہیں ہے-

براہ مہربانی اس کی توجیہ فرمائیں -جزاک الله-
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
السلام و علیکم-

محترم انس بھائی - میرے خیال میں عامر رضا بھائی شاید یہ پوچھنا چا رہے ہیں کہ جس قبرکا ذکر قرآن و حدیث میں ہے - کیا وہ زمینی قبر ہے یا اس سے مراد عالم برزخ ہے (یہ عقیدہ عثمانیوں کا بھی ہے کہ) عذاب و راحت کا تعلق زمینی قبر ے نہیں بلکہ اس سے مراد عالم برزخ ہے -دلیل کے طور پر وہ بخاری کی یہ روایت پیش کرتے ہیں-

باب:

قَولِ النَّبِیِّ ﷺ یُعَذَّبُ الْمَیِّتُ بِبَعْضِ بُکَآء اَھْلِه، عَلَیْه... حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِك عَنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ بَکْرٍ عَنْ أَبِیْه عَنْ عَمْرَة بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَنَّھَآ اَخْبَرَتْه اَنَّھََا سَمِعَتْ عَآئِشة زَوْجَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ قَالَتْ اِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ عَلٰی یَھُودِیَّة یَّبْکِی عَلَیْھَآ أَھْلُھَا فَقَالَ: «اِنَّھُمْ لَیَبْکُوْنَ عَلَیْھَا وَاِنَّھَا لَتُعَذَّبُ فِیْ قَبْرِھَا» (بخاری شریف ؍ کتاب الجنائز)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کی میت پر گزرے اس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: '' لوگ اس (یہودیہ) پر رورہے ہیں اور اس کو اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے۔ '' (بخاری) اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ یہودیہ عورت ابھی زمینی قبر میں دفن بھی نہیں کی گئی تھی۔ زمین کے اوپر ہی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: '' اس یہودیہ عورت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے۔'' معلوم ہوا کہ یہاں قبر سے مراد برزخی قبر ہے، دنیاوی قبر نہیں؍:



اور اس کے علاوہ قران میں آل فرعون کی عذاب قبر کا ذکربھی ہے

وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ سورۃ غافر سورۃ نمبر40
اور آل فرعون پر بری طرح کا عذاپلٹ پڑا،ان کے لئے آگ ہے جسکے سامنے یہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قایم ہوگی کہا جائے گا آل فرعون کو سخت عذاب میں ڈال دو


جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آل فرعون کے مردہ اجسام عجائب گھروں میں مقید ہیں - جہاں روح کے آنے جانے کا تصور نہیں ہے-

براہ مہربانی اس کی توجیہ فرمائیں -جزاک الله-

@حافظ طاہر اسلام عسکری بھائی یہاں جواد بھائی کی بھی بات کا جواب دے دیں - اسی تھریڈ میں تا کہ بات آگے بڑھے - شکریہ -
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top