السلام و علیکم-
محترم انس بھائی - میرے خیال میں عامر رضا بھائی شاید یہ پوچھنا چا رہے ہیں کہ جس قبرکا ذکر قرآن و حدیث میں ہے - کیا وہ زمینی قبر ہے یا اس سے مراد عالم برزخ ہے (یہ عقیدہ عثمانیوں کا بھی ہے کہ) عذاب و راحت کا تعلق زمینی قبر ے نہیں بلکہ اس سے مراد عالم برزخ ہے -دلیل کے طور پر وہ بخاری کی یہ روایت پیش کرتے ہیں-
جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آل فرعون کے مردہ اجسام عجائب گھروں میں مقید ہیں - جہاں روح کے آنے جانے کا تصور نہیں ہے-
براہ مہربانی اس کی توجیہ فرمائیں -جزاک الله-
اس کو یوں سمجھ لیجئے کہ ایک شخص آپ کے پہلو میں لیٹے ہوئے کوئی مہیب خواب دیکھ رہا ہے، آگ میں جل رہا ہے، پانی میں ڈوب رہا ہے، سانپ اس کے پیچھے دوڑ رہا ہے، درندے اس پر حملہ آور ہو رہے ہیں، اسے پکڑ کر پابندِ سلاسل کردیا جاتا ہے، طرح طرح کی سزائیں اسے دی جارہی ہیں، وہ ایک زور کی چیخ مار کر خواب سے بیدار ہوجاتا ہے، اس کے بدن پر لرزہ طاری ہے، جسم پسینے میں شرابور ہو رہا ہے، آپ اس سے پوچھتے ہیں کیا ہوا؟ وہ اپنا خواب بیان کرتا ہے، آپ اس سے کہتے ہیں کہ: تم بڑے جھوٹے ہو! میں تمہارے پاس بیٹھا ہوا تھا، مجھے تو نہ تمہاری آگ کے شعلے نظر آئے، نہ پانی کی لہریں دکھائی دیں، نہ میں نے تمہارے سانپ کی پھنکار سنی، نہ تمہارے درندوں کی دھاڑیں میرے کان میں پڑیں، نہ میں نے تمہارے طوق و سلاسل کو دیکھا․․․ بتائیے! کیا آپ کی اس منطق سے وہ اپنے خواب کو جھٹلادے گا؟ نہیں! بلکہ وہ کہے گا کہ تم بیدار تھے، میں خواب کی جس دنیا میں تھا اس میں میرے ساتھ نہیں تھے۔ آپ دونوں کے درمیان صرف بیداری اور خواب کا فاصلہ تھا، اس لئے خواب دیکھنے والے پر خواب میں جو حالات گزرے، آپ پاس بیٹھے ہوئے ان حالات سے بے خبر رہے۔ اس طرح خوب سمجھ لیجئے کہ زندوں اور مردوں کے درمیان دنیا اور برزخ کا فاصلہ حائل ہے، اگر مردوں پر گزرنے والے حالات کا زندہ لوگوں کو احساس و شعور نہ ہو تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ مردوں کو اس قبر میں کوئی عذاب و ثواب نہیں ہو رہا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا اور ان کا جہان الگ الگ ہے، اس لئے ہمیں ان کے حالات کا شعور نہیں، گو ان کے بدن ہمارے سامنے پڑے ہوں۔ ؎اپ جب دوسرے عالم میں پہنچیں گے وہاں آپ کو مشاہدہ ہوگا کہ فرعون کے اسی بدن کو عذاب ہو رہا ہے جو ہمارے سامنے پڑا ہے، لیکن یہ عذاب ہمارے مشاہدہ سے ماورا ہے، جس طرح بیدار آدمی سونے والے کے حالات سے واقف نہیں لیکن خواب بیان کرنے والے کے اعتماد پر اس کے خواب کو تسلیم کرتا ہے، اسی طرح اگرچہ ہم قبر اور برزخ کے حالات سے واقف نہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان پر اعتماد کرتے ہوئے ان پر ایمان لائے ہیں، کسی چیز کا محض اس بنا پر انکار کردینا کہ وہ ہمارے مشاہدہ سے بالاتر چیز ہے، عقلمندی نہیں حماقت ہے!
قرآن کریم میں ہے کہ ملک الموت روح قبض کرتا ہے، لوگ ہمارے سامنے مرتے ہیں، ہم نے کبھی ملک الموت کو روح قبض کرتے نہیں دیکھا، مگر چونکہ یہ ہمارے مشاہدہ سے بالاتر چیز ہے اس لئے صاحبِ وحی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتماد کرتے ہوئے مشاہدہ کے بغیر اسے مانتے ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے تھے اور آپ سے گفتگو کرتے لیکن صحابہ کرام کو نہ ان کا سراپا نظر آتا تھا، نہ ان کی بات سنائی دیتی تھی۔ محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر نزول جبرائیل علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے۔ پس جب ہم اللہ تعالیٰ کے وجود کو، اس کے فرشتوں کو، انبیاء گزشتہ کو، ان کی کتابوں کو، آخرت کو، حشر و نشر کو، حساب و کتاب کو، جنت و دوزخ کو، الغرض بے شمار غیبی حقائق کو جو ہمارے مشاہدہ سے ماورا ہیں، بنا دیکھے محض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر مان سکتے ہیں اور مانتے ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ برزخ اور قبر کے حالات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتماد کرتے ہوئے کیوں نہ مانیں، یہاں اپنے مشاہدہ کا حوالہ کیوں دیں․․․؟
“الذین یوٴمنون بالغیب” یہ اہل ایمان کا وصف ہے، اور غیب سے مراد وہ حقائق ہیں جو ہماری عقل و مشاہدہ سے ما ورا ہیں، پس ایمان کی پہلی شرط یہ ہے کہ ان غیبی حقائق کو مانا جائے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم (خوف و دہشت کی بنا پر) مردوں کو دفن نہ کرسکوگے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ تمہیں قبر کا وہ عذاب سنادے جو میں سنتا ہوں۔
اور اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت مسلّم ہے کہ وہ ہوا میں اڑائے ہوئے اور دریا میں بہائے ہوئے اجزا کو جمع کرسکتے ہیں تو یقین رکھئے کہ وہ ایسے شخص کو قبر وبرزخ میں ثواب و
عذاب دینے پر بھی قادر ہیں خواہ میت کو دفن کردیا جائے یا سمندر میں پھینک دیا جائے یا جلادیا جائے یا لاش کو محفوظ کرلیا جائے
ہاں! اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پے در پے متواتر ارشادات پر بھی ایمان نہ رکھتا ہو، صحابہ کرام سے لے کر آج تک کے تمام اکابر امت کے اجماعی عقیدے کو بھی لغو سمجھتا ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کے علمِ محیط اور قدرتِ کاملہ میں بھی شک و شبہ ہو، اسے اختیار ہے کہ وہ قبر کے اندر سوال وجواب اور عذاب و ثواب کا شوق سے انکار کرے، جب وہ خود اس منزل سے گزرے گا تب یہ غیبی حقائق اس کے سامنے کھل جائیں گے مگر اس وقت کا ماننا بیکار ہوگا․․․!