• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام انبیاء وشہداء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، لیکن ان کی یہ زندگی برزخی ہے۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اس امت میں سب سے پہلے جس بدنصیب اور گمراہ آدمی نے زمینی قبر میں عذاب وثواب کا انکار کیا ، وہ ہے ڈاکٹر عثمانی برزخی ۔۔۔۔
اس کی بدبختی اسے سلف امت پر زبان درازی تک لے گئی ،اور صحابہ سے لے کر ائمہ محدثین تک کئی حضرات اس کی زبان درازی کی زد میں آئے ،
اور اس کو گمراہ نہ کہنا یقیناً ان سب ائمہ کی توہین ہے ،جن پر اس بدنصیب نے زبان درازی کی ہے؛؛
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اس امت میں سب سے پہلے جس بدنصیب اور گمراہ آدمی نے زمینی قبر میں عذاب وثواب کا انکار کیا ، وہ ہے ڈاکٹر عثمانی برزخی ۔۔۔۔
اس کی بدبختی اسے سلف امت پر زبان درازی تک لے گئی ،اور صحابہ سے لے کر ائمہ محدثین تک کئی حضرات اس کی زبان درازی کی زد میں آئے ،
اور اس کو گمراہ نہ کہنا یقیناً ان سب ائمہ کی توہین ہے ،جن پر اس بدنصیب نے زبان درازی کی ہے؛؛


صحابہ کرم راضی الله کے خلاف زبان درازی کرنے والا کیسے مسلمان ہو سکتا ہے - ہم کیسے برداشت کر سکتے ہیں-
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
مسعود الدین عثمانی کی جماعت المسلمین سے مناظرہ بعنوان : قبر میں اعادہ روح

رفیق طاھر نے 'آڈیو وڈیو اور فلیش' میں ‏اکتوبر، 26, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. رفیق طاھرطویلب علم

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    6,651
    صنف:
    مذکر
    فرقہ باطلہ عثمانيہ جسکے باني مسعود الدين عثماني صاحب ہيں انکے ملتان ميں معروف مناظر مشتاق الرحمن اور انکے معاون محمد زبير ,اور جماعت اہل حديث کے محمد رفيق طاہر مدرس جامعہ دار الحديث محمديہ ملتان اور انکے معاون محمد سرور ۔ موضوع : کيا قبرو برزخ ميں مردہ کي روح اسکے جسم ميں لوٹتي ہے ؟ اور کيا اعادہ روح کا عقيدہ کتاب وسنت کے خلاف ہے يا موافق دوران مناظرہ اس بات کو تسليم کيا گيا کہ مرنے کے بعد روح جسم ميں لوٹ آتي ہے ليکن فرقہ عثمانيہ کا عقيدہ ہے کہ يہ اعادہ قيامت کے دن ہوگا ہے جبکہ جماعت اہل حديث کا عقيدہ ہے کہ يہ اعادہ قيامت سے قبل ہي ہو جاتا ہے اور عثماني مناظر کي جانب سے محمد رفيق طاہر کے سوال کا جواب نہ آنے پر مناظرہ کا دوسرا راؤنڈ شروع کر ديا گيا جس ميں انکے معاون محمد سرور نے عثماني مناظر سے اس بات پر گفتگو کي کہ کيا اعادہ روح کا عقيدہ رکھنا شرک ہے جبکہ عثماني مناظر اور انکي تمام تر ذريت برزخ ميں ايک نيا جسم دے کر اس ميں روح لوٹانے کي قائل ہے ۔ جس پر عثماني مناظرين کي جانب سے کوئي جواب نہ بن پڑا بہر حال ايک فائدہ يہ ہوا کہ اس مناظرے ميں فرقہ عثمانيہ کي جانب سے مناظر صاحب کا جو معاون تھا اللہ نے اسکو عقيدہ اہل السنہ والجماعۃ کي حقانيت سمجھا دي اور اسي طرح جن احباب کي خاطر يہ مناظرہ رکھا گيا تھا اللہ نے انہيں بھي صراط مستقيم سجھا دي ۔ فللہ الحمد والمنۃ


    http://deenekhalis.net/play.php?catsmktba=525
    رفیق طاھر,‏اکتوبر، 26, 2010
    #1
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث سے کون انکار کر رہا ہے میرے بھائی - جب میں صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی احادیث پیش کرتا ہوں تو آپ کے فتویٰ شریف آنا شروع ہو جاتے ہیں -

بعد میں آپ خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث پیش کر دیتے ہیں - کیا یہ کھلا تضاد نہیں -

چلیں ذرا اس حدیث کی تشریح کر دیں -


ایک حدیث پیش ہے -



سمرہ بن جندبؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰۃ الفجر پڑھنے کے بعد (عموماً) ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کر دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض ِمقدس کی طرف لے گئے۔ اور وہاں سے عالم ِبالا کی مجھ کو سیر کرائی ، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آ جاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہو رہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آ کر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو ' ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتاکہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتاکہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگا رہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین و خوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان ' عورتیں اور بچے (سب ہی قسم کے لوگ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں وہ جو تم نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جا رہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زناکار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے اردگرد والے بچے ' لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلارہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں آپ پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو ' یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سر اٹھاؤ میں نے جو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی
اگر آپ وہ پوری کر لیتے تو اپنے مکان میں آ جاتے۔

صحیح بخاری ، کتاب الجنائز



اس حدیث کے ان الفاظ کی تشریح کر دیں -

ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔


ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔



یہاں جو عذاب ہو رہا ہے وہ روح پر ہے یا جسم پر بھی ہے - اگر جسم پر بھی ہے تو کون سے جسم پر دنیا والے جسم پر یا وہاں کوئی اور جسم دیا گیا -

ان لوگوں کی قبریں بھی اندر ہیں تندور کے- اکھٹی ہیں وہاں یا دنیا میں ایک کی کہاں دوسرے کی کہاں - وضاحت کر دیں -





امید ہے کہ آپ کا جواب ضرور آے گا -

@اسحاق سلفی بھائی آپ کے جواب کا منتظر


امید نہیں کہ آپ جواب دیں - لیکن پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ - ابتسامہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اس حدیث میں عذاب کہاں ہو رہا ہے - زمینی قبر میں یا کہیں اور - فتویٰ نہیں جواب چاہیے -


9549 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

میرے بھائی ذرا ان احادیث کی بھی وضاحت کر دیں - جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے درختوں کے کاٹنے کا حکم دیا وہ کاٹ دئے گئے مشرکین کی قبریں اکھاڑ کر پھینک دی گئیں تو ان کو عذاب کہاں ہوا - زمینی آسمانی قبر میں - کیوں کہ مشرکین کی قبروں کو اکھاڑ کر پھینک دیا گیا - کیا پھر ان کے عذاب کا کیا ہوا -


صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 414 حدیث مرفوع مکررات 16 متفق علیہ 12 بدون مکرر

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَنَزَلَ أَعْلَی الْمَدِينَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَأَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی بَنِي النَّجَّارِ فَجَائُوا مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی رَاحِلَتِهِ وَأَبُو بَکْرٍ رِدْفُهُ وَمَلَأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّی أَلْقَی بِفِنَائِ أَبِي أَيُّوبَ وَکَانَ يُحِبُّ أَنْ يُصَلِّيَ حَيْثُ أَدْرَکَتْهُ الصَّلَاةُ وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ وَأَنَّهُ أَمَرَ بِبِنَائِ الْمَسْجِدِ فَأَرْسَلَ إِلَی مَلَإٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ فَقَالَ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِکُمْ هَذَا قَالُوا لَا وَاللَّهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَی اللَّهِ فَقَالَ أَنَسٌ فَکَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ لَکُمْ قُبُورُ الْمُشْرِکِينَ وَفِيهِ خَرِبٌ وَفِيهِ نَخْلٌ فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ الْمُشْرِکِينَ فَنُبِشَتْ ثُمَّ بِالْخَرِبِ فَسُوِّيَتْ وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ الْمَسْجِدِ وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ الْحِجَارَةَ وَجَعَلُوا يَنْقُلُونَ الصَّخْرَ وَهُمْ يَرْتَجِزُونَ وَالنَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ

مسدد، عبدالوارث، ابوالتیا ح، انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ )ہجرت کر کے( تشریف لائے ، تو مدینہ کی بلندی پر ایک قبیلہ میں جس کو بنی عمرو بن عوف کہتے ہیں اترے، اور ان لوگوں میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چوبیس راتیں قیام فرمایا، پھر آپ نے بنی نجار کو پیغام بھیجا، تو وہ تلواریں لٹکائے ہوئے آپہنچے، اب گویا میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی سواری پر ہیں اور ابوبکر آپ کے ہم ردیف ہیں اور بنی نجار کی جماعت آپ کے گرد ہے، الغرض! آپ نے ابوایوب کے مکان میں اپنا سامان اتارا، آپ یہ اچھا سمجھتے تھے کہ جس جگہ نماز کا وقت آجائے وہیں نماز پڑھ لیں اور آپ بکریوں کہ رہنے کہ جگہ میں بھی نماز پڑھ لیتے، جب آپ نے مسجد کی تعمیر کرنے کا حکم دیا تب نبی نجار کے لوگوں کو آپ نے پیغام بھیجا اور فرمایا کہ اے بنی نجا ر، اپنا یہ باغ تم میرے ہاتھ بیچ ڈالو، انہوں نے عرض کیا کہ خدا کی قسم! ہم اس کی قیمت نہ لیں گے، مگر اللہ بزرگ و برتر سے، انس کہتے ہیں کہ اس )باغ( میں وہ چیزیں تھیں، جو میں تم سے کہتا ہوں، یعنی مشرکوں کی قبریں اور اس میں ویرانہ تھا اور اس میں کھجور کے درخت تھے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکوں کی قبروں کے متعلق حکم دیا کہ وہ کھود ڈالی جائیں، پھر ویرانے کو برابر کردیا گیا اور درختوں کو کاٹ ڈالا گیا، اور ان درختوں کو مسجد کی جانب قبلہ میں نصب کردیا گیا اور ان کی بندش پتھروں سے کردی گئی، صحابہ پتھر لانے لگے اور وہ رجز پڑھتے جاتے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہمراہ فرماتے جاتے تھے، کہ اے میرے اللہ بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے، اس لیے انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1168 حدیث مرفوع مکررات 16 متفق علیہ 12 بدون مکرر

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَشَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ کِلَاهُمَا عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَ يَحْيَی أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ الضُّبَعِيِّ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَنَزَلَ فِي عُلْوِ الْمَدِينَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَأَقَامَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً ثُمَّ إِنَّهُ أَرْسَلَ إِلَی مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ فَجَائُوا مُتَقَلِّدِينَ بِسُيُوفِهِمْ قَالَ فَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی رَاحِلَتِهِ وَأَبُو بَکْرٍ رِدْفُهُ وَمَلَأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّی أَلْقَی بِفِنَائِ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ فَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي حَيْثُ أَدْرَکَتْهُ الصَّلَاةُ وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ ثُمَّ إِنَّهُ أَمَرَ بِالْمَسْجِدِ قَالَ فَأَرْسَلَ إِلَی مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ فَجَائُوا فَقَالَ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِکُمْ هَذَا قَالُوا لَا وَاللَّهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَی اللَّهِ قَالَ أَنَسٌ فَکَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ کَانَ فِيهِ نَخْلٌ وَقُبُورُ الْمُشْرِکِينَ وَخِرَبٌ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّخْلِ فَقُطِعَ وَبِقُبُورِ الْمُشْرِکِينَ فَنُبِشَتْ وَبِالْخِرَبِ فَسُوِّيَتْ قَالَ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةً وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ حِجَارَةً قَالَ فَکَانُوا يَرْتَجِزُونَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ وَهُمْ يَقُولُونَ اللَّهُمَّ إِنَّهُ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَهْفَانْصُرْ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ

یحیی بن یحیی، شیبان بن فروخ، عبدالوارث، یحیی، عبدالوارث ابن سعید، ابی تیاح، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچے اور شہر کے بالائی علاقہ کے ایک محلہ میں تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں چودہ راتیں قیام فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبیلہ بنو نجار کو بلوایا وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے حاضر ہوئے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں یہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور بنو نجار آپ کے ارد گرد تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوایوب کے گھر کے صحن میں اترے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں نماز کا وقت پاتے وہیں نماز پڑھ لیتے تھے یہاں تک کہ بکریوں کے باڑہ میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد بنانے کا ارادہ کیا اور بنو نجار کو بلوایا جب وہ آئے تو فرمایا تم اپنا باغ مجھے فروخت کر دو انہوں نے کہا اللہ کی قسم ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس باغ کی قیمت نہیں لیں گے ہم اس کا معاوضہ صرف اللہ تعالی سے چاہتے ہیں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس باغ میں جو چیزیں تھیں انہیں میں بتاتا ہوں اس میں کچھ کھجوروں کے درخت، مشرکین کی قبریں اور کھنڈرات تھے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے درختوں کے کاٹنے کا حکم دیا وہ کاٹ دئے گئے مشرکین کی قبریں اکھاڑ کر پھینک دی گئیں اور کھنڈرات ہموار کر دئیے گئے اور کہجور کی لکڑیاں قبلہ کی طرف گاڑھ دی گئیں اور اس کے دونوں طرف پتھر لگا دئیے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رجزیہ کلمات پڑھ رہے تھے۔ اے اللہ! بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے پس تو انصار اور مہاجرین کی مدد فرما۔


یہاں بھی کچھ وضاحت کر دیں


@اسحاق سلفی بھائی آپ کے جواب کا منتظر


امید نہیں کہ آپ جواب دیں - لیکن پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ - ابتسامہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
@اسحاق سلفی بھائی آپ کے جواب کا منتظر

امید نہیں کہ آپ جواب دیں - لیکن پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ - ابتسامہ
آپ رفیق طاہر صاحب سے پوچھ سکتے ہیں - کوئی پابندی نہیں -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اگر آپ کی مراد برزخی عثمانیوں کی سائیٹ ( www.therealislam.net ) کا امیج ہے تو اس کا تفصیلی جواب آپ کو بلا تاخیر ملے گا ،
ان شاءالله
لیکن صرف ایک شرط پوری کردیں ،آپ برملا لکھیں کہ :>آپ کا تعلق برزخی عثمانیوں سے ہے اور آپ ڈاکٹر مسعودعثمانی کو اپنا لیڈر مانتے ہیں >
یہ بہت ضروری ہے ،کیونکہ جن کا امیج ہوگا جواب تو انہی کو ملے ،ورنہ تو خواہ مخواہ وقت کا ضیاع ہی ہے ؛

کیونکہ روزانہ ہزاروں گمراہ لوگ ایسے امیجز اپنے گمراہ کن مقاصد کے لئے شائع کر رہے ہیں ،،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
ویسے آپ کا امیج کھل کر سامنے آرہا ہے ، ،،اور اس حقیقی امیج کا سب کے سامنے آنا بہت ضروری ہے ،
کیونکہ جو بھائی آج عثمانی مذہب والوں کی پوسٹوں کو ’‘ زبردست ’‘ کی ریٹنگ کررہے ہیں ،،کہیں بدیع الزماں ہمدانی کے اس شعر کا مصداق نہ بن جائیں
قال بديع الزمان الهمذاني
سوفَ ترى إذَا انْجَلى الغبارُ------------
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
ویسے آپ کا امیج کھل کر سامنے آرہا ہے ، ،،اور اس حقیقی امیج کا سب کے سامنے آنا بہت ضروری ہے ،
کیونکہ جو بھائی آج عثمانی مذہب والوں کی پوسٹوں کو ’‘ زبردست ’‘ کی ریٹنگ کررہے ہیں ،،کہیں بدیع الزماں ہمدانی کے اس شعر کا مصداق نہ بن جائیں
قال بديع الزمان الهمذاني
سوفَ ترى إذَا انْجَلى الغبارُ------------

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ - ابتسامہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
مجھے اب کہ یہ لوگ کہیں @کفایت اللہ بھائی پر بھی گمراہی کا فتویٰ نہ لگا دیں - کیوں کہ جب @محمد عامر یونس بھائی نے تحقیق حدیث کے سیکشن میں حدیث کے متعلق پوچھا -


لنک

http://forum.mohaddis.com/threads/د...-کے-لئےقبرنبوی-میں-روح-کا-لوٹایا-جانا۔.15673/


کیا نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے قبر میں درود سننے اور روح لوٹائی جانے کی حدیث صحیح ہے؟


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص بھی مجھے سلام کہتا ہے تو اللہ مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔"۔

(ابوداؤد :2041)



تو @کفایت اللہ بھائی نے اس حدیث کی تحقیق میں کیا لکھا - اس لنک پر پڑھ لیں -


http://forum.mohaddis.com/threads/د...وی-میں-روح-کا-لوٹایا-جانا۔.15673/#post-116123

آخر میں اپنی بات یہ کہہ کر ختم کی - اور ایک نوٹ بھی لکھا - آئیں دیکھتے ہیں کہ وہ کیا لکھتے ہیں -

لنک

http://forum.mohaddis.com/threads/د...وی-میں-روح-کا-لوٹایا-جانا۔.15673/#post-116471

اس حدیث کے متن میں شدید نکارت ہے کیونکہ اس میں دنیاوی جسم میں روح لوٹائے جانے کی بات ہےاور یہ بات اللہ کے قانون کے خلاف ہے۔جیساکہ ترمذی کی حدیث میں ہے:

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: «يَا جَابِرُ مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا»؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتُشْهِدَ أَبِي، وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا، قَالَ: «أَفَلَا أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِيَ اللَّهُ بِهِ أَبَاكَ»؟ قَالَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: " مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَأَحْيَا أَبَاكَ فَكَلَّمَهُ كِفَاحًا. فَقَالَ: يَا عَبْدِي تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ.[ص:231] قَالَ: يَا رَبِّ تُحْيِينِي فَأُقْتَلَ فِيكَ ثَانِيَةً. قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يُرْجَعُونَ " قَالَ: وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا} [آل عمران: 169].
صحابی رسول جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کی میری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر کیا بات ہے۔ میں تمہیں شکستہ حال کیوں دیکھ رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد شہید ہوگئے اور قرض عیال چھوڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس چیز کی خوشخبری نہ سناؤں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ تمہارے والد سے ملاقات کی عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کے علاوہ ہر شخص سے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی لیکن تمہارے والد کو زندہ کر کے ان سے بالمشافہ گفتگو کی اور فرمایا اے میرے بندے تمنا کر۔ تو جس چیز کی تمنا کرے گا میں تجھے عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ مجھے دوبارہ زندہ کر دے تاکہ میں دوبارہ تیری راہ میں قتل ہو جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا کہ دینا چھوڑنے کے بعد کوئی دنیا میں واپس نہیں جائے گا۔ راوی کہتے ہیں پھر یہ آیت نازل ہوئی (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَا ءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ) ( آل عمران : 169) (یعنی تم ان لوگوں کو مردہ نہ سمجھو جو اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے گئے ہیں۔ بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ الخ) [سنن الترمذي ت شاكر 5/ 230]​
اس حدیث میں اللہ تعالی نے اپنا یہ قانون پیش کیا ہے کہ دنیا چھوڑنے کے بعد کوئی بھی شخص دنیا میں نہیں آسکتا ۔

اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث میں بھی شہداء نے اللہ کے سامنے یہ خواہش ظاہر کی:
يَا رَبِّ، نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى
اے رب ! ہماری خواہش ہے کہ تو ہماری روحوں کوہمارے جسموں میں لوٹا دے تاکہ ہم تیری راہ میں دوبارہ شہید ہوں [صحيح مسلم 3/ 1502]​
لیکن اللہ تعالی نے ان کی یہ خواہش پوری نہیں کی۔

معلوم ہوا کہ دنیاوی قبر میں موجود جسم میں روح کو لوٹانا اللہ کے قانون کے خلاف ہے ۔
اب طویل زندگی کے لئے روح لوٹائی جائے یا محض سلام کا جواب دینے کے لئے روح لوٹائی جائے بہرصورت یہ چیز اللہ کے قانون کے خلاف ہے ۔ لہٰذا اس کے برعکس کسی کمزور سند والی روایت میں کوئی بات ملتی ہے تو وہ منکر شمار ہوگی۔


بعد میں انہوں نے آخر میں ایک نوٹ بھی لکھا - کیا لکھا خود دیکھ لیں


نوٹ:

واضح رہے کہ حدیث براء رضی اللہ عنہ جس میں برزخ میں روح لوٹائے جانے کی بات ہے وہ صحیح ہے ۔
لیکن اس حدیث میں روح لوٹائے جانے کا جو معاملہ ہے وہ برزخی ہے کیونکہ برزخ میں سوال وجواب وغیرہ کے لئے یہ روح لوٹائی جاتی ہے ۔اورقران وحدیث میں اس کے خلاف کوئی چیز نہیں ہے۔

رہی قبررسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کرتے وقت جواب دینے کے لئے روح کا لوٹایاجانا تو روح لوٹائے جانے کی یہ شکل پہلی شکل سے مختلف ہے کیونکہ یہاں دنیا میں موجود ایک زندہ شخص کے سلام کا جواب دینے کے لئے روح لوٹانے کی بات ہے ۔

ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ حدیث میں یہ بھی آتاہے کہ مردہ تدفین کرکے جانے والوں کے قدموں کی آواز سنتاہے۔
توعرض ہے کہ اس چیز کا اعادہ روح سے کوئی تعلق نہیں ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے حدیث میں یہ آتاہے کہ مردہ کو قبرستان لے جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے مجھے کہاں لے جارہے ہو۔ظاہرہے کہ اس چیز کا تعلق اعادہ روح سے نہیں ہے۔یہ سب برزخی معاملات ہیں دنیاوی زندگی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

لیکن دنیامیں موجودشخص کے سلام کے جواب کے لئے روح کا لوٹایا جانا یہ ایک الگ طرح کا معاملہ ہے ۔ اس اعادہ روح کے نتیجے میں زندہ اور فوت شدہ کے مابین مخاطبہ کی شکل پیداہوتی ہے جو بالکل دنیاوی معاملہ ہے اور مردوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ اللہ کے عام قانون کے خلاف ہے۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کلیب بدر کے واقعہ میں جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ مشرکین سے خطاب کیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس چیز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ مانا۔کیونکہ یہاں مردہ مشرکین نے دنیا میں باحیات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب کوسنا۔اوریہ اللہ کے عام قانون کے خلاف ہے اس لئے ایک معجزہ ہے۔

واضح رہے کہ دنیاوی شخص کے سلام کا جواب دینے کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح لوٹائی جانے والی روایت اگرفن حدیث کے اصولوں سے ثابت ہوجائے توہم اس حدیث کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے اسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص معاملہ تسلیم کریں گے۔
لیکن چونکہ یہ روایت فن حدیث کے اصولوں سے صحیح ثابت نہیں ہورہی ہے اورقران وحدیث کے عمومی بیان سے متصادم ہے ۔اس لئے ہم اس تصادم کو بھی بطور تائید پیش کرتے ہیں ۔واللہ اعلم بالصواب۔​


مزے کی بات یہ ہے کہ @حافظ طاہر اسلام عسکری بھائی نے @کفایت اللہ بھائی کی ساری پیش کردہ تحقیق کو غیر متفق کیا -

اس سے بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ

@اسحاق سلفی بھائی نے ابھی تک
@کفایت اللہ بھائی
پر کوئی فتویٰ نہیں لگایا - میں تو @اسحاق سلفی اور @حافظ طاہر اسلام عسکری بھائی کے متعلق یہی کہوں گا کہ

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top