مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ :
ہمارے اکثر سلفی بھائی اپنے علماء و مشائخ کے باطل نظریات کو جلا بخشنے کے لئے واضح قرانی عقائد کا انکار کرتے ہیں اور الزام دوسروں پر لگاتے ہے کہ فلاں عثمانی عقیدے کا مبلغ ہے ہے فلاں عباسی عقیدے کا مبلغ ہے وغیرہ اور اسے منکریہن حدیث کی صف میں لا کھڑا کیا جاتا ہے- اور کہا جاتا ہے کہ پر حدیث پر من و عن ایمان لانا چاہیے-
لیکن جب انہی سلفی بھائییوں کا بریلویوں یا اہل تشیع سے واسطہ پڑتا ہے جو اکثر و اوقات اپنے عقائد ثابت کرنے کے لئے بخاری و مسلم کی احادیث نبوی بھی پیش کرتے ہیں تو اس پر سلفی بھائی انہی احادیث نبوی کی تاویلیں شروع کردیتے ہیں- قطع نظر اس سے کہ وہ تاویلیں صحیح ہو یا غلط - سوال یہ ہے کہ جب ہر حدیث کو من و عن قبول کرنا ضروری ہے عقائد کے معاملے میں تو یہ اصول ایک کے لئے کچھ اور اور دوسرے کے لئے کچھ اور کیوں؟؟؟؟
مثال کے طور پر اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ اب امّت میں شرک کا خوف باقی نہیں رہا -
بَابُ الصَّلٰوةِ عَلَی الشَّهِيْدِ
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ اَنَّ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ يَوْمًا فَصَلّٰی عَلٰی اَهْلِ اُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَی الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ اِلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ اِنِّيْ فَرَطٌ لَّکُمْ وَاَنَا شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ وَاِنِّيْ وَاللّٰهِ لَاَنْظُرُ اِلٰی حَوْضِی الْاٰنَ وَاِنِّيْ اُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ خَزَاءِنِ الْاَرْضِ اَوْ مَفَاتِيْحَ الْاَرْضِ وَاِنِّيْ وَاللّٰهِ مَا اَخَافُ عَلَيْکُمْ اَنْ تُشْرِکُوا بَعْدِيْ وَلٰکِنْ اَخَافُ عَلَيْکُمْ اَنْ تَنَافَسُوْا فِيْهَا.
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن باہر نکلے اور احد میں شہید ہوجانے والوں پر نماز پڑھی جیسا کہ آپ میت پر نماز پڑھتے تھے پھر آپ منبر شریف کی طرف واپس تشریف لائے (اور منبر پر جلوہ افروز ہوکر) فرمایا میں تمہارے لئے (فرط) مقدم ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کو اب دیکھ رہا ہوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دی گئی ہیں یا فرمایا زمین کی کنجیاں اور بے شک میں
اللہ کی قسم تم پر شرک کرنے کا خوف نہیں رکھتا لیکن مجھے تم پر یہ خوف ہے کہ تم دنیا میں رغبت کرنے لگ جاؤ گے‘‘۔
بخاری، الصحیح، 1 : 451،
لیکن ظاہر ہے کہ بخاری کی اس حدیث کی تاویل یہی کی جاتی ہے کہ بحثیت مجموعی یہ امّت شرک میں مبتلا نہیں ہو گی- ورنہ اگر اس حدیث کو عذاب قبر اور سماع موتہ کی احادیث کی طرح من وعن قبول کرلیا جائے -تو مطلب یہی نکلتا ہے کہ یہ امّت نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم کے بعد شرک میں مبتلا نہیں ہو سکتی -جو کہ قرانی نص کے صریح مخالف ہے - اور اس بنا پر بریلوی فرقہ نا صرف خود گمراہ ہو رہا ہے بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کر رہا ہے
بریلویوں کا یہ فتویٰ بھی پڑھ لیں - جو اس صحیح حدیث سے انہوں نے اخذ کیا ہے -
http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/2707/
اس طرح کی اور بھی احادیث ہیں جو جیسے ابو لہب کی انگلی کو پیر والے دن سیراب کیا جانا اور اس سے گمراہ فرقوں کا عید میلاد منانے کا جواز - یہ حدیث بھی بخاری کی ہے - اس کی بھی تاویل کی جاتی ہے -
کہنے کا مطلب پھر وہی ہے کہ ان اہل سلف بھائیوں کو اپنے نظریات میں توازن قائم کرنا چاہیے - نا کہ جذباتی ہو کر ہر ایک پر عثمانی و عباسی کا فتویٰ لگا دینا چاہیے -
زمینی قبر میں عذاب و ثواب کے نظریے کو زیادہ شہرت امام احمد بن حنبل رح نے دی -وہ شاید اس معاملے میں مغالطہ کھا گئے- جب کہ باقی آئمہ کرام بشمول حضرت امام مالک رح اور امام ابو حنیفہ رح قبر میں عذاب و ثواب و سماع موتہ کے عقیدے کے مخالف تھے - لیکن پھر بھی میں نے یا دوسرے ممبرز نے آپ اہل سلف بھائیوں کو حنبلی ہونے کا طعنہ نہیں دیا -