- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,588
- پوائنٹ
- 791
آپ اپنے پیش کردہ ۔مسلک اعتدال ۔کی حقیقت مندرجہ ذیل مضامین پڑھ کر معلوم کر سکتے ہیں
مقالات حدیث
مقالات حدیث
ہمیں”منکرینِ حدیث“ تو آپ اپنے ” اکابر “ کی ” اندھی تقلید “ میں کہتے ہیں یہ آپکی ”پرانی عادت“ ہے اس لیے ہم ” برا“ نہیں مناتے۔غالبا اس ” مضمون “ کو آپ نے ” سرسری “ طور پر پڑھاہو گا ورنہ اس میں پہلے ” منکرینِ حدیث“ہی کا ” نقطہء نظر “ پیش کیا گیا ہے۔پھر ” طبقہء اہلِ حدیث“ کا اور پھر ” مسلکِ اعتدال“کا ،اپنے ” نظریات اور اصولوں“کو ” حرفِ آخر“سمجھنا ” سلفیت “ نہیں ”ناخلفیت“ ہے۔”طبقہء اہلِ حدیث“ کی ” بنیادی غلطی“ محض ” سند“ ہی کو”سب کچھ“ سمجھنا ہے۔ لیکن پھر بھی میں اس وجہ سے” طبقہء اہلِ حدیث“کو ” گمراہ“کہنے کا قائل ہرگز نہیں ہوں۔آپ بڑے جوش وجذبات میں فرمارہے تھے ،،کہ
”کسوٹی“صرف اور صرف ”قرآن وسنت “ ہیں جو ان پر نہ اترے چاہے وہ ”اصولِ حدیث“ہو یا ” فہمِ سلف“ وہ ”کسوٹی“ نہیں ” کھوٹی“ہے۔ کیونکہ ”قرآن و سنت“ آسمان سے اترے ہیں جبکہ”اصولِ حدیث“یا ” فہمِ سلف“آسمان سے نہیں اترے۔
میں سمجھا شاید آپ واقعی ’‘ مصطلح الحدیث ’‘سے اعلی کوئی شئے برآمد کریں گے ،اور ’‘ فہم سلف ’‘ سے اوپر کی کوئی ۔تخلیق ۔ پردہ سکرین
پر پیش کریں گے ’‘
لیکن یہاں تو واقعی میرے پہلے ۔اندازہ ۔ کے عین مطابق ۔منکرین کی سان پر لگے ۔ عجمی ہتھیار ۔جو سید صاحب نے ۔بین بین ۔کی پالیسی کے تحت ایجاد فرمائے تھے ،وہی ذرا لیبل ہٹا کر نمائش کے لئے رکھ دئیے ؛
میں ”مسلکِ اعتدال“کی ” حقیقت “اور ” مقالاتِ حدیث“کی بھی ” حقیقت “ سے واقف ہوں۔ اگر آپ کو ہمارے” نقطہء نظر “ سے ” اختلاف “ہے تو کوئی ” بات“ نہیں مگر ہم پر ” منکرینِ حدیث“کا” جھوٹا الزام“ لگانے کا آپ کو کوئی” حق“نہیں پہنچتا ۔آپ اپنے پیش کردہ ۔مسلک اعتدال ۔کی حقیقت مندرجہ ذیل مضامین پڑھ کر معلوم کر سکتے ہیں
مقالات حدیث
امام ابو حنیفہ رحمتہ الله علیہ کا فتویٰ ، مردے نہیں سنتےآپ نے فرمایا امام مالک ؒ اور امام ابوحنیفہ ۔سماع موتی ۔ کے مخالف تھے ،براہ کرم اس کا حوالہ مستند ماخذ سے دیجئے ’‘
اور مہربانی کرکے یہ ضرور وضاحت کیجئے گا کہ ۔کس سماع ۔کے مخالف تھے ۔
اس فقیر نےآپ کو ۔منکرحدیث ۔نہیں کہا،البتہ یہ ناقابل تردید حقیقت بقلم خود آپ رقم فرما رہے ہیں ،کہ:میں ”مسلکِ اعتدال“کی ” حقیقت “اور ” مقالاتِ حدیث“کی بھی ” حقیقت “ سے واقف ہوں۔ اگر آپ کو ہمارے” نقطہء نظر “ سے ” اختلاف “ہے تو کوئی ” بات“ نہیں مگر ہم پر ” منکرینِ حدیث“کا” جھوٹا الزام“ لگانے کا آپ کو کوئی” حق“نہیں پہنچتا ۔
ذرا مصروف ہوں - ان شاء الله جلد ہی جواب پیش کروں گا -**********************************************************
گو نہ سمجھوں اس کی باتیں، گونہ پاؤں اس کا بھید*************
پر یہ کیا کم ہے؟ کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال
خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا
اب آپ نےکھل کر بات کی ہے ،،کہ (( زمینی قبر میں عذاب و ثواب کے نظریے کو زیادہ شہرت امام احمد بن حنبل رح نے دی ))
اب صرف (عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ) کی وصیت پر آپ کے کمنٹس باقی ہیں ؛ امید است کہ وہ بھی جلد آئیں گے ؛
پھر آئندہ اس فورم پر آپکی تحاریر پڑھنے والے اس غلط فہمی میں تو نہ ہونگے کہ کسی اہل حدیث کی تحریر پڑھ رہا ہوں ؛
کیونکہ یہ عقیدہ یا دعوی کہ :
>>زمینی قبر میں عذاب و ثواب کے نظریے کو زیادہ شہرت امام احمد بن حنبل رح نے دی <<
کسی اہل حدیث یا سلفی کا قطعاً ہو ہی نہیں سکتا ، یہ صرف امام صاحب کے مقابل معتزلہ یا منکرین سنت کا تھا؛
دوسری بات یہ امام احمد کو امام اہل سنت کا لقب عباسیوں کی حاشیہ نشینی کے سبب تو نہیں ملا ،،بلکہ عقائد میں قرآن وسنت میں موجود عقائد پر استقامت اور ثبات کا مظاہرہ کرنے پر ملا ۔۔
امام علی بن مدینی نےانکی شان میں کیا کمال کلمات کہے :
وقد قال الإمام علي بن المديني ، وهو شيخ الإمام أحمد وشيخ الشافعي وشيخ البخاري وغيرهم : اتخذت أحمد إماما فيما بيني وبين الله - تعالى ، وقال : إذا أفتاني أحمد بن حنبل لم أبال إذا لقيت ربي كيف كان ، وقال : أحمد سيدنا ، حفظ الله أحمد ، هو اليوم حجة الله على خلقه ، وقال : إن الله تعالى - أعز هذا الدين برجلين لا ثالث لهما : أبو بكر الصديق يوم الردة ، وأحمد بن حنبل يوم المحنة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ حقیقت پیش نظر رہے ،اہل حدیث نے قبر اور برزخ کے موضوع پر اپنا عقیدہ کسی کی تقلید میں نہیں بلکہ قرآن وحدیث اور سلف سے لیا ہے ،،
امام ابو حنیفہ رحمتہ الله علیہ کا فتویٰ ، مردے نہیں سنتے
رأى الامام ابو حنيفة من ياتى القبور لاهل الصلاح فيسلم ويخاطب ويتكلم ويقول يا أهل القبور هل لكم من خبر وهل عندكم من اثر انى اتيتكم من شهور وليس سؤلى الاالدعافهل دريتم ام غفلتم فسمع ابوحنيفة بقول يخاطبه بهم فقال هل اجابولك قال لافقال له سحقا لك وتربت يداك كيف تكلم اجسادا لايستطيعون جوابا ولايملكون شياء ولا يسمعون صوتا وقراوما انت بمسمع من فى القبور
ترجمہ : امام ابو حنیفہ نے ایک شخص کو کچھ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس آکر سلام کر کے یہ کہتے سنا کہ اے قبر والو! تم کو کچھ خبر بھی ہے اور کیا تم پر اس کا کچھ اثر بھی ہے کہ میں تمہارے پاس مہینوں سے آرہا ہوں اور تم سے میرا سوال صرف یہ ہے کہ میرے حق میں دعا کر دو - بتاؤ! تمہیں میرے حال کی کچھ خبر بھی ہے یا تم بلکل غافل ہو - ابو حنیفہ نے اس کا یہ قول سن کر اس سے دریافت کیا کہ کیا قبر والوں نے کچھ جواب دیا؟ وہ بولا نہیں دیا - امام ابو حنیفہ نے یہ سن کر کہا کہ تجھ پر پھٹکار - تیرے دونوں ہاتھ گرد آلود ہو جائیں
تو ایسے جسموں سے کلام کرتا ہے جو نہ جواب ہی دے سکتے ہیں اور وہ نہ کسی چیز کے مالک ہی ہیں اور نہ آواز ہی سن سکتے ہیں - پھر امام ابو حنیفہ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی وما انت بمسمع من فى القبور
اے نبی صلی الله علیہ وسلم تم ان لوگوں کو جو قبروں میں ہیں کچھ نہیں سنا سکتے - الفاطر:٢٢) -
غرائب فی تحقیق المذاہب و تفہیم المسائل ، صفحہ ٩١ صفحہ ١٧٢ ،
اگر آپ مجھے ” منکرِ حدیث“نہ کہتے تو ” بات“صحیح تھی مگر ” ہائی لائٹ“ کردہ بات آپکے پہلے ” قول“کی ” تردید“ کرتی ہے۔آپکےلیے” مسلکی تعصب“ہے ہی ایسی چیز کہ کبھی ”اثبات“اور کبھی ” انکار“سے کام لینا ہی پڑتا ہےکیونکہ اس کے بناء”چارہ“ جو نہیں۔”دلیل“ کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔اس فقیر نےآپ کو ۔منکرحدیث ۔نہیں کہا،البتہ یہ ناقابل تردید حقیقت بقلم خود آپ رقم فرما رہے ہیں ،کہ:
آپ پوری امت کے مسلمہ اصول الحدیث ۔کو اصول کی حیثیت میں نہیں مانتے،بلکہ خود تحقیق فرماکر ان کی چھانٹی کرنا چاہتے ہیں ؛
اور اب وہی روایت ۔حدیث وسنت ۔مانی جائے گی ، جو آپ کے قرآن و سنت سے وضع کردہ اصولوں کے سانچے میں فٹ بیٹھے گی ،
ورنہ ناقابل قبول ٹھہرے گی ؛؛
اسی لئے میں عرض کیا تھا کہ۔۔۔منکرین کی سان پر لگے ۔ عجمی ہتھیار ۔۔
اور یہی وہ اصول ہیں جنہیں اعتزالی ذہن ۔اصلاح و تجدید ۔ کا خوشنما نام دیتے ہیں ،
>>>>>>>>>>>>><<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<اگر آپ مجھے ” منکرِ حدیث“نہ کہتے تو ” بات“صحیح تھی مگر ” ہائی لائٹ“ کردہ بات آپکے پہلے ” قول“کی ” تردید“ کرتی ہے۔آپکےلیے” مسلکی تعصب“ہے ہی ایسی چیز کہ کبھی ”اثبات“اور کبھی ” انکار“سے کام لینا ہی پڑتا ہےکیونکہ اس کے بناء”چارہ“ جو نہیں۔”دلیل“ کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔
آپکا یہ فرمانا کہ:-
” آپ پوری امت کے مسلمہ اصول الحدیث۔کو اصول کی حیثیت میں نہیں مانتے “
بھی آپکی ” سوءِ فہم “کا نتیجہ ہے اگر آپ ” مسلکِ اعتدال “ والا مضمون” غور سے“ پڑھتے تو یہ بات ”ہرگز “نہ کہتے۔
۔۔
یہ جس کتاب کا حوالہ حضور آپ نے دیا ،اس کادنیا میں اگر وجود ہے ،تو براہ کرم دو آسان سے کام ضرور کریں
(۱) اس کتاب کا اور اس کے مصنف کا تعارف کروائیں
(۲) اس کتاب کا محولہ صفحہ کا سکین لگاکر شکریہ کا موقع دیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر یہ حوالہ آپ ثابت کردیں تو بہت سارے لوگوں کےلئے مفید و معاون ثابت ہو سکتا ہے