جمشید بھائی :
مجھے علماء احناف کی طرف سے پیش کی گئی تقلید کی تعرئف پر اعتراض نہیں کیوں کہ آپ مقلد ہو امام ابو حنیفہ رحم اللہ کے جو تعریف آپ کے علما نے کی ہے اس ہی سے بات کو آگے بڑھاتے ہیں
دیکھئے بات کو غلط رخ دینااچھی بات نہیں ہے۔
میں نے آپ سے یہ پوچھاتھاکہ آپ کے نزدیک تقلید کی کیاتعریف ہے اوراتباع اورتقلید میں کیافرق ہے۔
لیکن بجائے اس کے کہ آپ تقلید کی اپنی تعریف پیش کرتے ابن ہمام اورمحمودالحسن کی گردان شروع کردی۔ ان کا ذکر فی الحال چھوڑدیجئے۔ آپ صرف اپنی اوراپنے ہم مسلکوں کی بات کیجئے کہ
ان کے نزدیک تقلید کی کیاتعریف ہے؟
اوراتباع اورتقلید میں کیاجوہری فرق ہے؟
یہ کام کرلیجئے تاکہ بات آگے بڑھے
اگرنہیں توپھربات یہیں ختم کردیتے ہیں
آپ کابھی وقت بچے اورہمارابھی وقت بچے
والسلام
جمشید بھائی نے کہا ہے
اوراتباع اورتقلید میں کیاجوہری فرق ہے؟
اس سے آپکو سمجھ آ جائے گا
تقليد اور دليل كى اتباع، اور كيا ابن حزم حنبلى تھے ؟
يہ كيسے ممكن ہے كہ آئمہ اربعہ ميں سے كسى ايك كى اتباع كرتے ہوئے مقلد نہ ہو ؟
ميں يہ سوال اس ليے كر رہا ہوں ميں نے ابن حزم كى سيرت پڑھى كہ وہ امام احمد كے مذہب كى اتباع كرتے تھے ليكن مقلد نہيں تھے، برائے مہربانى اس كى وضاحت فرمائيں ؟
الحمد للہ:
اول:
مذاہب كى اتباع كرنے والے ايك ہى درجہ پر برابر نہيں بلكہ ان ميں مجتھد بھى ہيں، اور مقلد بھى جو مذہب ميں كوئى مخالفت نہيں كرتا.
چنانچہ بويطى، اور مزنى اور نووى اور ابن حجر رحمہم اللہ يہ سب امام شافعى كى متبعين ميں سے ہيں ليكن يہ مجتھد ہيں اور جب ان كے پاس دليل ہو تو يہ اپنے امام كى مخالفت كرتے ہيں، اور اسى طرح ابن عبد البر مالكيہ ميں سے ہيں ليكن اگر صحيح چيز امام مالك كے علاوہ كسى اور كے پاس ہو تو وہ امام مالك رحمہ اللہ كى مخالفت كرتے ہيں.
احناف كے كبار آئمہ كے بارہ ميں بھى يہى ہے مثلا ابو يوسف اور امام محمد الشيبانى، اور اسى طرح حنابلہ كے آئمہ بھى مثلا ابن قدامہ اور ابن مفلح وغيرہ.
طالب علم كا كسى مسلك اور مذہب پر زانوے تلمذ طے كرنے كا مطلب يہ نہيں كہ وہ اس مسلك سے نكل ہى نہيں سكتا، بلكہ جب اس كے ليے دليل واضح ہو جائے تو وہ اس دليل پر عمل كرے، دليل كو ديكھ كر بھى مسلك اور مذہب سے باہر وہى شخص نہيں جاتا جس كے دين كى حالت پتلى ہو، اور اس كى عقل ميں كمى ہو، اور وہ متعصبين ميں سے ہو.
كبار آئمہ كرام كى وصيت ہے كہ طالب علم كو بھى وہيں سے لينا اور اخذ كرنا چاہيے جہاں سے انہوں نے خود اخذ كيا اور ليا ہے، اور جب ان كا قول نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كے خلاف ہو تو اسے ديوار پر پٹخ ديں.
ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ ميرى رائے ہے، اور جو كوئى بھى ميرى رائے سے اچھى اور بہتر رائے لائے ہم اسے قبول كرينگے "
اور امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ميں تو ايك بشر ہوں غلطى بھى كرتا ہوں اور صحيح بھى اس ليے ميرا قول كتاب و سنت پر پيش كرو "
اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب حديث صحيح ہو تو ميرا قول ديوار پر پٹخ دو، اور دليل راہ ميں پڑى ہوئى ديكھو تو ميرا قول وہى ہے "
اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نہ تو ميرى تقليد كرو، اور نہ مالك كى تقليد كرو، اور نہ شافعى اور ثورى كى، اور اس طرح تعليم حاصل كرو جس طرح ہم نے تعليم حاصل كى ہے "
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" اپنے دين ميں تم آدميوں كى تقليد مت كرو، كيونكہ ان سے غلطى ہو سكتى ہے "
اس ليے كسى كے ليے بھى كسى معين امام كى تقليد كرنا صحيح نہيں جو اپنے اقوال سے باہر نہ جاتا ہو، بلكہ اس پر واجب ہے كہ اسے لے جو حق كے موافق ہو چاہے وہ اس كے امام سے ہو يا كسى اور سے ملے "
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" لوگوں ميں سے كسى شخص پر كسى ايك شخص كى بعينہ تقليد كرنا صحيح نہيں كہ جو وہ حكم دے اور جس سے منع كرے اور جسے مستحب كہے اس كى مانى جائے، يہ حق صرف رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ہے، اب تك مسلمان علماء كرام سے دريافت كرتے رہتے ہيں، كبھى اس كى اور كبھى اس كى بات مان ليتے اور تقليد كرتے ہيں.
جب مقلد كسى مسئلہ ميں تقليد كر رہا ہے اور وہ اسے اپنے دين ميں زيادہ صحيح ديكھتا، يا قول كو زيادہ راجح سمجھتا ہے تو يہ جمہور علماء كے اتفاق سے جائز ہے، اسے كسى نے بھى حرام نہيں كہا، نہ تو امام ابو حنيفہ، اور نہ ہى مالك اور شافعى اور احمد رحمہم اللہ نے"
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 23 / 382 ).
اور شيخ علامہ سليمان بن عبد اللہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بلكہ مومن پر حتماً فرض ہے كہ جب اسے كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم پہنچے اور اس كے معنى كا علم ہو جائے چاہے وہ كسى بھى چيز ميں ہو اس پر عمل كرے، چاہے وہ كسى كے بھى مخالف ہو، ہمارے پروردگا تبارك و تعالى اور ہمارے نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں يہى حكم ديا ہے، اور سب علاقوں كے علماء اس پر متفق ہيں، صرف وہ جاہل قسم كے مقلدين اور خشك لوگ، اور اس طرح كے لوگ اہل علم ميں شامل نہيں ہوتے "
جيسا كہ اس پر ابو عمر بن عبد البر وغيرہ نے اجماع نقل كيا ہے كہ يہ اہل علم ميں سے نہيں "
ديكھيں: تيسير العزيز الحميد ( 546 ).
اس بنا پر كوئى حرج نہيں كہ مسلمان شخص كسى معين مذہب اور مسلك كا تابع ہو، ليكن جب اس كے ليے اس كے مذہب كے خلاف حق واضح ہو جائے تو اس كے ليے حق كى اتباع كرنا واجب ہو گى.
دوم:
رہا ابن حزم رحمہ اللہ كا مسئلہ تو وہ امام اور مجتھد تھے اور وہ تقليد كو حرام قرار ديتے ہيںن اور وہ كسى ايك امام كے بھى تابع اور پيروكار نہ تھے، نہ تو امام احمد كے اور نہ ہى كسى دوسرے امام كے، بلكہ وہ اپنے دور اور اب تك كے اہل ظاہر كے امام تھے، ہو سكتا ہے ان كو امام احمد كى طرف منسوب كرنا ( اگر يہ صحيح ہو ) عقيدہ اور توحيد كے مسائل ميں ہے، اس پر كہ اس كے ہاں اسماء و صفات ميں بہت سارى مخالفات پائى جاتى ہيں.
ابن حزم كى سيرت كا مطالعہ كرنے كے ليے سير اعلام النبلاء ( 18 / 184 - 212 ) كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب