محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
اسلام و علیکم
الله نے قرآن میں پرہیز گاروں کی تعریف اس انداز میں فرمائی ہے -
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ سوره البقرہ ١
یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں پرہیز گارو ں کے لیے ہدایت ہے
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ٢
جو ایمان لاتے ہیں غیب کی باتوں پر اور نماز قائم کرتے ہیں ا ور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں خرچ کرتے ہیں
یعنی پرہیز گارو ں کی شان یہ ہے کہ وہ الله کی وہ باتیں جو غیب سے متعلق ہیں ان پر بغیر کسی پس و پیش کے ایمان لاتے ہیں -ان غیب کی باتوں میں الله تعالیٰ کی اپنی ذات، تقدیر کے معاملات ، عذاب اور انعام قبر، عالم برزخ ، جنّت دوزخ ، عالم حشر ، پل صراط وغیرہ شامل ہیں -
ہمارے اکثر علما ء کرام دین کی فہم و فراست رکھنے کے باوجود ان غیب کے معاملات میں صرف اپنی علمی قابلیت ثابت کرنے کے لیے طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں -جس کی وجہ سے خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں - یہ جاننے کے باوجود کہ ان غیب سے متعلق امور کی حقیقت صرف الله تعالیٰ ہی کی ذات جانتی ہے - ہمیں صرف اس حد تک ان چیزوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے جتنا الله نے قرآن میں یا رسول صل الله علیہ وسلم نے اپنی احادیث کے ذریے ہمیں بتایا ہے -
ڈاکٹر اسرار نے بھی یہی کیا کہ بلا وجہ وحدت الوجود کے عقیدے پر طبع آزمائی کر کے اپنے معتقدین اور غیر معتقدین کو شک میں مبتلا کر دیا -
ڈاکٹر صاحب کا عقیدہ صحیح ہے یا غلط یہ تو الله ہی بہتر جانتا ہے لیکن ان کا ایسے معاملات میں صفحے سیاہ کرنا اور ابن عربی کی تائید یا مبہم الفاظ میں تنقید کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟؟ - کیا ڈاکٹر صاحب کو نہیں پتا تھا کہ الله نے قرآن میں متشابھات کے پیچھے پڑنے سے سختی سے منع فرمایا ہے - اللہ ان پر رحم فرماے- لیکن بہت سے ایسے موضوعات پر انھوں نے طبع آزمائی کر کے اپنی شخصیت کو لوگوں میں مشکوک اور متنازع بنا لیا -
الله ہم سب کو صحیح عقیدے پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرماے (آ مین )
الله نے قرآن میں پرہیز گاروں کی تعریف اس انداز میں فرمائی ہے -
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ سوره البقرہ ١
یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں پرہیز گارو ں کے لیے ہدایت ہے
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ٢
جو ایمان لاتے ہیں غیب کی باتوں پر اور نماز قائم کرتے ہیں ا ور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں خرچ کرتے ہیں
یعنی پرہیز گارو ں کی شان یہ ہے کہ وہ الله کی وہ باتیں جو غیب سے متعلق ہیں ان پر بغیر کسی پس و پیش کے ایمان لاتے ہیں -ان غیب کی باتوں میں الله تعالیٰ کی اپنی ذات، تقدیر کے معاملات ، عذاب اور انعام قبر، عالم برزخ ، جنّت دوزخ ، عالم حشر ، پل صراط وغیرہ شامل ہیں -
ہمارے اکثر علما ء کرام دین کی فہم و فراست رکھنے کے باوجود ان غیب کے معاملات میں صرف اپنی علمی قابلیت ثابت کرنے کے لیے طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں -جس کی وجہ سے خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں - یہ جاننے کے باوجود کہ ان غیب سے متعلق امور کی حقیقت صرف الله تعالیٰ ہی کی ذات جانتی ہے - ہمیں صرف اس حد تک ان چیزوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے جتنا الله نے قرآن میں یا رسول صل الله علیہ وسلم نے اپنی احادیث کے ذریے ہمیں بتایا ہے -
ڈاکٹر اسرار نے بھی یہی کیا کہ بلا وجہ وحدت الوجود کے عقیدے پر طبع آزمائی کر کے اپنے معتقدین اور غیر معتقدین کو شک میں مبتلا کر دیا -
ڈاکٹر صاحب کا عقیدہ صحیح ہے یا غلط یہ تو الله ہی بہتر جانتا ہے لیکن ان کا ایسے معاملات میں صفحے سیاہ کرنا اور ابن عربی کی تائید یا مبہم الفاظ میں تنقید کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟؟ - کیا ڈاکٹر صاحب کو نہیں پتا تھا کہ الله نے قرآن میں متشابھات کے پیچھے پڑنے سے سختی سے منع فرمایا ہے - اللہ ان پر رحم فرماے- لیکن بہت سے ایسے موضوعات پر انھوں نے طبع آزمائی کر کے اپنی شخصیت کو لوگوں میں مشکوک اور متنازع بنا لیا -
الله ہم سب کو صحیح عقیدے پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرماے (آ مین )