ماریہ انعام
مشہور رکن
- شمولیت
- نومبر 12، 2013
- پیغامات
- 498
- ری ایکشن اسکور
- 377
- پوائنٹ
- 164
آپ کے ہاں شاید روایت کے مقابلے میں درایت کا پلہ بھاری ہے
غالبا آپ میرے موقف کو صحیح طرح نہیں سمجھ سکے۔ میں آپ سے کچھ سیدھے سادے اور آسان سوال پوچھتا ہوں۔ کیا تمام راویانِ حدیث ” معصوم عن الخطاء “ ہیں ؟ اور ” محدثین “ نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا ہے ؟ کیا ” بخاری و مسلم “ قرآن کی طرح ؟علمی دلائل! انا للہ وانا الیہ راجعون!
کیا صحیح احادیث کریمہ کے متن کو نا معقول کہنے کی جسارت اللہ ورسول پر ایمان لانے والا شخص کر سکتا ہے؟؟؟
میرے بھائی! اللہ رب العٰلمین نے وحی خفی (احادیث شریفہ) کی حفاظت کیلئے مبارک گروہ کا انتخاب فرمایا۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ان حضرات نے کتاب وسنت کی روشنی میں اس کیلئے الوہی اصول مرتب کیے۔ ان اصولوں میں سند کا دھیان رکھا گیا اور متن کا بھی۔ یہ آپ کی شدید غلط فہمی ہے کہ انہوں نے متن کو نہیں دیکھا۔ اگر انہوں نے متن کو مد نظر نہیں رکھا تو صحیح حدیث کی شرائط میں یہ شاذ اور معلول نہ ہونے کی شرط کیوں شامل ہے؟!! محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو صحیح حدیث کی شرائط کا ہی علم نہیں یا پھر آپ نے اس موضوع کو غیروں نے جو شبہات پیدا کر دئیے ہیں انہی کی عینک سے پڑھا ہے۔
جب احادیث مبارکہ کو ہر لحاظ سے پرکھ لیا گیا۔ سند کے اعتبار سے بھی، متن کے اعتبار سے بھی۔ تمام امت نے ان الوہی اصولوں پر اعتماد واتفاق کا اظہار کیا۔ اب آج ایک شخص اٹھتا ہے اور اعتراض کر دیتا ہے کہ فلاں حدیث تو عقل کے خلاف ہے۔ قرآن کے خلاف ہے، اسے کیا کہا جائے؟؟؟ انکارِ حدیث نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟
اگر آپ کی طرح کوئی بھی شخص آج اٹھ کر یہ اعتراض کر سکتا ہے تو ایک کافر آج اٹھ کر قرآن کی کسی آیت کریمہ پر خلاف سائنس ہونے کا یا کسی دوسری آیت سے متصادم ہونے کا اعتراض کیوں نہ کر سکتا؟؟؟
کیا آپ آج اٹھ کر قرآن کریم کی کسی آیت کریمہ پر خلاف قرآن یا خلافِ عقل ہونے کا اعتراض کر سکتے ہیں؟؟؟!
اللہ سے ہی ہدایت کا سوال ہے!
روایت و درایت دونوں۔ صرف روایت یا صرف درایت نہیں۔ ہاں البتہ آپ کے ہاں صرف روایت کا پلہ بھاری لگتا ہے۔آپ کے ہاں شاید روایت کے مقابلے میں درایت کا پلہ بھاری ہے
کیا راویانِ قرآن (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) معصوم عن الخطا تھے؟؟؟غالبا آپ میرے موقف کو صحیح طرح نہیں سمجھ سکے۔ میں آپ سے کچھ سیدھے سادے اور آسان سوال پوچھتا ہوں۔ کیا تمام راویانِ حدیث ” معصوم عن الخطاء “ ہیں ؟ اور ” محدثین “ نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا ہے ؟ کیا ” بخاری و مسلم “ قرآن کی طرح ؟
کیا " بخاری و مسلم " قرآن کی طرح ؟ اسی میں آپ کے سوال کا جواب ہے۔ اگر آپ کا جواب ” ہاں “ ہے تب میں بحث ختم کر دوں گا اور اگر جواب ” نہیں “ ہے تو پھر بھی کوئی بحث کا جواز نہیں۔کیا راویانِ قرآن (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) معصوم عن الخطا تھے؟؟؟
میرے نزدیک ہر صحیح حدیث ماننے اور عمل کرنے کے اعتبار سے قرآن کریم کی طرح ہے۔ اس اعتبار سے قرآن کریم اور صحیح حدیث مبارکہ میں کوئی فرق نہ کرنا ’عین ایمان‘ جبکہ اس لحاظ سے قرآن وحدیث میں فرق کرنا ’کفر صریح‘ ہے:کیا " بخاری و مسلم " قرآن کی طرح ؟ اسی میں آپ کے سوال کا جواب ہے۔ اگر آپ کا جواب ” ہاں “ ہے تب میں بحث ختم کر دوں گا اور اگر جواب ” نہیں “ ہے تو پھر بھی کوئی بحث کا جواز نہیں۔
اب اگر آپ مناسب سمجھیں تو میرے سوالوں کے جواب بھی دے دیں!اسی میں آپ کے سوال کا جواب ہے۔ اگر آپ کا جواب " ہاں " ہے تب میں بحث ختم کر دوں گا اور اگر جواب " نہیں " ہے تو پھر بھی کوئی بحث کا جواز نہیں۔
یہ بھی تو ممکن ہے کہ حدیث کے متن کا جو مفہوم سلف نے لیا ہو ، آپ کا مفہوم اس سے الگ ہو جس کی وجہ سے وہ آپ کو خلاف قرآن یا کسی دوسری صحیح حدیث کے خلاف نظر آئے ۔بلکہ حدیث کی " سند " کیساتھ ساتھ اس کے " متن " کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ حدیث قرآن کی کسی آیت یا دوسری حدیث سے تو متصادم نہیں۔
مزید بحث کرنے سے بہتر ہے آپ ہمارے نقطہء نظر کو جاننے کےلیے ان تین مضامین کا مطالعہ کریں اگر پھر بھی آپ مطمئن نہیں ہوتے تو کوئی بات نہیں۔ مگر آپ کو اتنا پتہ چل جائے گا کہ ہمارا رجحان”منکرینِ حدیث“ کی جانب ہرگز نہیں۔میرے نزدیک ہر صحیح حدیث ماننے اور عمل کرنے کے اعتبار سے قرآن کریم کی طرح ہے۔ اس اعتبار سے قرآن کریم اور صحیح حدیث مبارکہ میں کوئی فرق نہ کرنا ’عین ایمان‘ جبکہ اس لحاظ سے قرآن وحدیث میں فرق کرنا ’کفر صریح‘ ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ﴿١٥٠﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿١٥١﴾ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُولَـٰئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿١٥٢﴾ ۔۔۔ سورۃ النساء
آپ کے نزدیک کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریمﷺ کی بات سن کر عمل کی طرف لپکنے کی بجائے پہلے اس اُڈھیر پن میں مبتلا ہوجاتے تھے کہ کہیں یہ حدیث قرآن یا عقل کے خلاف تو نہیں؟؟!
اب اگر آپ مناسب سمجھیں تو میرے سوالوں کے جواب بھی دے دیں!
باقی اگر آپ اس موضوع پر بات آگے نہیں بڑھانا چاہتے تو کوئی بات نہیں، میں نے تو خیر خواہی اور اصلاح کے جذبے سے بات کی تھی۔
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچائیں!
عجیب! اپنی مرضی کی احادیث مبارکہ کو مان لیں اور اپنی مرضی کی احادیث مبارکہ کو (اللہ معاف کریں) پاؤں کی ٹھوکر پر رکھ دیں پھر بھی کہیں کہ نہیں ہم حدیث کا انکار نہیں کرتے!مزید بحث کرنے سے بہتر ہے آپ ہمارے نقطہء نظر کو جاننے کےلیے ان تین مضامین کا مطالعہ کریں اگر پھر بھی آپ مطمئن نہیں ہوتے تو کوئی بات نہیں۔ مگر آپ کو اتنا پتہ چل جائے گا کہ ہمارا رجحان”منکرینِ حدیث“ کی جانب ہرگز نہیں۔
forum.mohaddis.com/munkareen-e-hadith-part-1-pdf.1240
forum.mohaddis.com/ahle-hadith-part-2-pdf.1241
forum.mohaddis.com/questions-answers-part-3-pdf.1242