• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توہین رسالت بارے استفسارات اور ان کے جوابات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن کثیر﷫ فرماتے ہیں:
«أی من الأرض وهذا عام المشهور تخصیصه،بتحریم القتال فی الحرم»
’’کہ امان کے مہینوں کے بعد مشرکوں کو جہاں بھی پاؤ قتل کرنے میں دریغ نہ کرو۔ مگر مسجد حرام کے پاس جب تک وہ مسجد حرام کے پاس تم سے جنگ نہ کریں ، ورنہ بصورت دیگر وہاں بھی ان کو تہہ تیغ کردو۔‘‘(تفسیر ابن کثیر: ۲؍۳۴۳)
امام رازی﷫ فرماتے ہیں کہ اس آیت شریفہ کامطلب یہ ہے کہ ان مشرکوں سے صرف میدان جنگ میں لڑنا ہی کافی نہیں بلکہ جس طریقہ سے تم ان پر قابو پاکرانہیں کرسکتے ہو، قتل کرو۔ (تفسیرکبیر) قرآن مجید کی پہلی آیت سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اگر کوئی ذمی شخص دین اسلام میں طعنہ زنی کا مرتکب ہوگا تو اس کا عہد ذمہ کالعدم ہوجاتا ہے اور اس سے جنگ لڑنے کا ہمیں حکم ہے اور یہ امر ہر قسم کے شک و شبہ سے کہیں بالاتر ہے کہ رسول اللہﷺ کو گالی دینے سے بڑھ کر دین اسلام میں کوئی طعن نہیں۔ کیونکہ اس سے شریعت کی توہین اور اسلام کی ہتک ہوتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صاحب سیف و قلم امام ابن تیمیہ حرانی﷫رقم طراز ہیں:
«إن الذمی إذا سبّ الرسول أو سب اﷲ أو عاب الاسلام علانیة فقد نکث یمینه وطعن فی دیننا لا خلاف بین المسلمین أنه یعاتب علی ذلک ویؤدب علیه» (الصارم المسلول: ص۱۶)
’’اگر کوئی ذمی شخص اللہ تعالیٰ یا رسول اللہﷺ کو گالی دے یا علانیہ اسلام میں عیب نکالے تو اس نے اپنی قسم کو توڑ دیا اور ہمارے دین میں طعنہ زنی کا مرتکب ٹھہرا تو اس کو بلا کسی اختلاف اور نزاع کے سزا دی جائے گی اور اس کی تادیب کی جائے گی۔ ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ﷫ مزید رقم طراز ہیں:
«وأما الشافعی فالمنصوص عنه نفسه ان عهده ینتقص بسب النبی وأنه یقتل»(الصارم المسلول)
’’امام شافعی کے نزدیک نبیؐ کوگالی دینے سے معاہدہ ٹوٹ جاتا ہے لہٰذا اگر ذمی رسول اللہﷺ کو گالی دے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔‘‘
امام ابن قیم﷫ ایک مقام پر بحث کرتے ہوئے تصریح فرماتے ہیں:
«فیها تعیین قتل الساب لرسول اﷲ وإن قتله حد لا بد من استیفائه فإن النبی لم یؤمن مقیس بن ضبابة وابن خطل وهاتین الجاریتین وأهدر دم أم ولد الاعمی لها قتلها سیدها لاجل سبها النبی۔»(أخرجه أبوداؤد فی الحدود والنسائی فی تحریم الدم من حدیث ابن عباس سنده قوی،زاد المعاد: ج۳؍۴۳۹،۴۴۰، وقال ابن حجر فی بلوغ المرام رجاله ثقات)
’’یہ طے اور معین ہے کہ رسول اللہﷺ کو گالی دینے والے کی سزا قتل ہی ہے اور یہ تعزیر نہیں بلکہ حد ہے جس پر عمل کرنا فرض اور ضروری ہے، کیونکہ نبیؐ نے مقیس بن ضبابہ ابن خطل اور ان دو لونڈیوں کو جو رسول اللہﷺ کی ہجو کرتی تھیں کو قتل کرا دیا حالانکہ شریک جنگ کافروں کی عورتیں قتل کرنے کی شرعاً اجازت نہیں۔ جیسے کہ بچوں کو قتل نہیں کیا جاتا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آخر میں دو احادیث بھی پڑھتے چلئے:
عن ابن عمر أن رسول اﷲ قال «أمرت أن أقاتل الناس حتی یشهدوا أن لا اله إلا اﷲ وأن محمدا رسول اﷲ ویقیموا الصلوٰة ویؤتوا الزکوٰة»(صحیح البخاري:۲۵) کہ عبداللہ بن عمر﷜ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک برسر پیکار اور معرکہ آراء رہوں جب تک وہ لا إلہ إلا اﷲ اور محمد رسول اﷲ کی صدق دل سے گواہی نہ دیں اور نہ نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے لگ جائیں۔
حضرت علی﷜فرماتے ہیں:قال رسول اﷲ!:
«من سب نبیا قتل ومن سبّ أصحابہ جُلِد»
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص کسی ایک نبی کو گالی دے اسے قتل کردیا جائے اور جس نے رسول کے صحابہ کو گالی دی اسے دُرے لگائے جائیں۔‘‘(معجم الصغیر للطبراني: ۱؍۲۳۶ )
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خلفائے راشدین اور صحابہ کا اجماع
اس بات پر خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کا اجماع ہے کہ گستاخ رسول واجب القتل اور مباح الدم اور اس کا قتل ہدر اور رائیگاں ہے یعنی اس کے قصاص میں قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ امام ابن قیم رقمطراز ہیں:
«هذا اجماع من الخلفاء الراشدین ولا یعلم لهم فی الصحابة مخالف» (زاد المعاد: ۳؍۴۴۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ائمہ اربعہ کا فتوی
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ﷫ اپنی کتاب الصارم المسلولمیں ارقام فرماتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کی ذات و صفات کا گستاخ اور آپ کے لتے لینے والا اور گالی بکنے والا اگرچہ مسلمان ہو یا کافر بالاتفاق علماء اسلام کے نزدیک قتل کیا جائے گا اس میں کوئی بھی مخالف نہیں۔ائمہ اربعہ مالک ،ابوحنیفہ ،شافعی، احمد بن حنبل اور دوسرے ائمہ کا یہی مذہب اور فتویٰ ہے۔
قرآن مجید کی مذکورہ بالا دونوں آیات، حدیث رسول، خلفائے راشدین﷢، تمام صحابہ﷢، ائمہ اربعہ سلف و خلف کی تفسیر اور توضیح سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺکو گالی دینے والا دین اسلام میں عیب نکالنے والا اور قرآن کی توہین کرنے والا رسول اللہﷺ کے توہین آمیز خاکے چھاپنے والا کسے باشد مسلمان ہو یا کافر۔ مرد ہو یا عورت، واجب القتل اور مباح الدم ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ﷫ وغیرہ محققین اور اسلامی قوانین کے غواص ایسے بدنصیب کو توبہ کی مہلت دینے کے بھی قائل نہیں۔ لہٰذا ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ وغیرہ ملکوں کے حکمرانوں کے اس ادعاء میں قطعاً کوئی صداقت نہیں کہ قرآن مطلق انسانی قتل کے خلاف ہے۔ اگر انہوں نے اسلامی قوانین اور حدود کا مطالعہ کیاہوتا تو اس مغالطے کا شکار نہ ہوتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جواب سوال نمبر ۲
جی ہاں عبداللہ بن خطل اور اس کی دو لونڈیوں کو قتل کرا دیا تھا کہ وہ اپنے گیتوں میں رسول اللہﷺ کی ہجو کرتی تھیں۔ اسی طرح حویرث بن نقیذ کو بھی آپﷺ نے قتل کروا دیا تھا کہ وہ آپﷺ کی ہجو کا مرتکب ہوا تھا۔ (صحیح البخاریحاشیہ نمبر۸ص۶۱۴) اسی طرح کعب بن اشرف یہودی کو قتل کرا دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کو ایذا دیتا تھا اور ہجو کرتا تھا ۔(صحیح البخاري :۴۰۳۷) اور ابورافع عبداللہ بن ابی الحقیق کو قتل کروا دیا تھا کہ وہ رسول اللہﷺ کو گالیاں بکتا اور آپ کے دشمنوں کا تعاون کرتا تھا۔ اسی طرح مقیس بن ضبابہ کوبھی آپﷺ کے حکم سے قتل کیا گیا اور نابینا صحابی نے اپنی لونڈی کو قتل کردیا تھا۔ غرضیکہ ایسے اور بھی بہت سے بدنصیب ہیں کہ جنہیں رسول اللہﷺ کو گالی دینے کی پاداش میں قتل کردیا گیا اور یہ عمل آج تک پیہم چلا آرہا ہے اسی طرح عصماء بنت مروان اور انس بن زنیم دیلمی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جواب سوال نمبر ۳
تحفظ ناموس رسالت کے لئے موجودہ جلوس۔ دھرنے، ہڑتالیں اور مظاہرے موجودہ جمہوری و معروضی حالت میں شرعاً جائز لگتے ہیں۔ مشہور عام صحیح حدیث ہے جواز کسی حد تک ممکن لگتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
«من رأی منکم منکرا فلیغیره بیده فان لم یستطع فبلسانه فان لم یستطع فبقلبه وذلک أضعف الایمان» (صحیح مسلم:۴۹)
’’کہ تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے تو اس کو زور بازو کے ساتھ ختم کرے، اگر اس کے بازو میں اتنی طاقت نہ ہو تو زبان کے ساتھ اس کے خلاف صدائے احتجاج بلندکرے اور اگر صدائے احتجاج کی طاقت اور اجازت نہ ہو تو دل سے اس بُرائی کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرے اور یہ کمزور ترین ایمان کی علامت ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اور یہ بات’ عیاں راچہ بیاں‘ کی مکمل مصداق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات برکات کے انکار کے بعد رسول اللہﷺ کی ذات والاصفات کی گستاخی، اسلام اور قرآن کی توہین، اکبر المنکرات اور تمام برائیوں سے بڑی بُرائی ہے۔
لہٰذا اس بُرائی کے خلاف مسلمانوں کا یہ احتجاج اور اشتعال وہیجان ان کی حب رسولﷺ اور قومی غیرت کا اظہار نہ صرف فطری اور طبعی امر ہے بلکہ روشن ضمیر مسلمانوں کے ایمان کی شناخت اور پہچان بھی ہے اور ہمارا یہ طرز احتجاج اسلام کے تعارف کا ایک اچھا ذریعہ بھی ہے اگر یہ پوری طرح اسلامی احکام کے تابع ہو تو غیر جانبدار لوگوں کے دل جیتنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ توہین آمیز خاکوں اور قرآن کی بے ادبی کے واقعات کوئی اتفاقی حادثہ نہیں، بلکہ یہ اس طے شدہ پلان کا حصہ ہیں جن کے ذریعے اہل توحید کی اسلامی غیرت ، ملی جذبات اور حب رسولؐ، سیاسی صلاحیت اور حربی قوت کا جائزہ لینے کے لئے اسلام اور رسول اللہﷺ (فداہ أبی وأمی وروحی وأولادی) کے توہین آمیز خاکے بار بار شائع کئے جارہے ہیں اور فلمیں نشر کی جارہی ہیں تاکہ یہ پتہ چلے کہ مسلمانان عالم کتنے پانی میں ہیںاور مناسب وقت پراسلام اور عالم اسلام پرہمہ جہتی شب خون مارکر ان کی افرادی قوت کمزور کردی جائے، ان کے ملکوں کو اپنی کالونیاں بنا لیں اور حرمین شریفین پرقبضہ جما لیں یعنی یہ فری میسن اور صیہونی تحریک کی ابتدائی کارروائی بطور ٹیسٹ کے لگتی ہے، لہٰذا ان توہین آمیز خاکوں کے خلاف اہل توحید، غیور مسلمانوں اور رسالت کے پروانوں کے یہ جلوس ، دھرنے، ہڑتالیں اور مظاہرے چونکہ جمہوری دور میں صدائے احتجاج کے مختلف انداز اور مظاہرہیں اس لئے الضرورات تبیح المحظورات کے تحت یہ نہ صرف شرعاً جائز ہیں بلکہ مسلمانوں کا ملی ، شرعی، آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے اور بقائے باہمی کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ مگر توڑ پھوڑ کے ہم حامی نہیں۔ یہ ملکی املاک کا اِتلاف ہے جس کی تائید نہیں کی جاسکتی۔
 
Top