ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,378
- پوائنٹ
- 635
امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
امام رازی فرماتے ہیں کہ اس آیت شریفہ کامطلب یہ ہے کہ ان مشرکوں سے صرف میدان جنگ میں لڑنا ہی کافی نہیں بلکہ جس طریقہ سے تم ان پر قابو پاکرانہیں کرسکتے ہو، قتل کرو۔ (تفسیرکبیر) قرآن مجید کی پہلی آیت سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اگر کوئی ذمی شخص دین اسلام میں طعنہ زنی کا مرتکب ہوگا تو اس کا عہد ذمہ کالعدم ہوجاتا ہے اور اس سے جنگ لڑنے کا ہمیں حکم ہے اور یہ امر ہر قسم کے شک و شبہ سے کہیں بالاتر ہے کہ رسول اللہﷺ کو گالی دینے سے بڑھ کر دین اسلام میں کوئی طعن نہیں۔ کیونکہ اس سے شریعت کی توہین اور اسلام کی ہتک ہوتی ہے۔«أی من الأرض وهذا عام المشهور تخصیصه،بتحریم القتال فی الحرم»
’’کہ امان کے مہینوں کے بعد مشرکوں کو جہاں بھی پاؤ قتل کرنے میں دریغ نہ کرو۔ مگر مسجد حرام کے پاس جب تک وہ مسجد حرام کے پاس تم سے جنگ نہ کریں ، ورنہ بصورت دیگر وہاں بھی ان کو تہہ تیغ کردو۔‘‘(تفسیر ابن کثیر: ۲؍۳۴۳)