• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توہین رسالت بارے استفسارات اور ان کے جوابات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کتاب و سنت کی رو سے حضرات انبیاء عليهم السلام کی تصویر کشی کرنا یا کے مجسمے بنانا بذات خود خلاف شرع ہے۔ خواہ اس تصویر یا مجسمے میں اہانت یا رسوائی کا کوئی پہلو بھی نہ پایا جاتا ہو، انبیاء کرام کی مبارک صورتوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص وقار عطا فرمایا ہے اور شیطان کو بھی اس امر پر قدرت نہیں دی کہ وہ ان شخصیات کی صورت اختیار کرسکے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’’جو شخص خواب میں میری زیارت سے مشرف ہوا، اس نے مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت اختیار کرنے پر قادر نہیں۔‘‘ (صحیح مسلم:۲۲۶۶)
قرآن و سنت کی روشنی میں توہین رسالت کا جرم معمولی نوعیت کا نہیں ہے کہ اس سے چشم پوشی کی جائے۔
اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
’’بلاشبہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں، ان پر دنیا و آخرت میں اللہ کی طرف سے لعنت ہے اور قیامت کے دن ان کے لئے رسوا کن عذاب مہیا کیا جائے گا۔‘‘ (الأحزاب :۵۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
غزوہ ٔ تبوک کے سفر میں منافقین نے آپس میں اسلام او راہل اسلام کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا، کبھی رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کرتے، رسول اللہﷺ کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع مل جاتی، جب آپﷺ ان سے جواب طلبی فرماتے تو کہتے کہ ہم تو صرف سفر کی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے ہنسی مذاق کررہے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دل بہلانے کے لئے صرف ایسی باتیں ہی رہ گئی ہیں جن میں رسول اللہﷺ کی ذات ستودہ صفات کو ملوث کیا جائے،کسی دوسری چیز سے تمہاری دل لگی نہیں ہوتی، قرآن کے الفاظ یہ ہیں:
’’اور اگر آپ ان سے دریافت کریں (کہ کیا تم ایسی باتیں کرتے ہو) تو کہیں گے ہم تو صرف مذاق اور دل لگی کررہے تھے، آپ کہہ دیں، کیا تمہاری ہنسی اور دل لگی اللہ ، اس کی آیات اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ ہی ہوتی ہے؟ بہانے نہ بناؤ تم واقعی ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔‘‘ (التوبۃ :۶۵،۶۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس نص صریح سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کی ذات اور دیگر شعائر اسلام کو اپنے مذاق کا موضوع بنانا بہت خطرناک عمل ہے، اس راستہ پر چل کر انسان براہ راست کفر تک پہنچ سکتا ہے، چنانچہ کتب حدیث میں متعدد ایسے واقعات مروی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے متعلق گستاخی کے مرتکب کو فوراً جہنم واصل کردیا گیا اور اسے کیفر کردار تک پہنچانے والے سے کسی قسم کی باز پرس نہیں کی گئی، اس سلسلہ میں چند واقعات حسب ذیل ہیں:
حضرت علی﷜ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کی توہین کیاکرتی تھی،اسے ایک شخص نے موقع پا کر قتل کردیاتو رسو ل اللہﷺ نے اسکے خون کابدلہ، قصاص یا دیت کسی بھی صورت میں نہیں دلوایا۔ (سنن أبي داؤد :۴۳۶۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت ابن عباس﷜ اس واقعہ کی تفصیل بایں الفاظ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں ایک نابینا شخص تھا، اس کی لونڈی رسول اللہﷺ کو گالیاں دیتی تھی اور آپ کی ذات کے متعلق حرف گری کرتی تھی، اس کا مالک نابینا شخص اسے منع کرتا اور سختی سے روکتا تھا، لیکن وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پرقائم رہتی، ایک رات ایساہوا کہ وہ حسب عادت رسول اللہﷺ کو گالیاں دینے لگی اور آپ کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا تو اس غیرت مند نابینا شخص نے گھر میں پڑی ہوئی کدال اٹھائی اور اسے اس گستاخ لونڈی کے پیٹ پررکھ کر اوپر سے دباؤ ڈالا، جس سے اس کا پیٹ پھٹ گیا اور مرگئی، صبح کے وقت جب رسو ل اللہﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ رات جو واقعہ ہوا ہے، ا س کا مرتکب سامنے آجائے، وہ نابینا شخص کھڑا ہوا اور ہانپتا کانپتا، گرتا پڑتا رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا۔ یارسول اللہﷺ میں نے اسے قتل کیاہے۔ اس قتل کی وجہ یہ تھی کہ یہ لونڈی آپؐ کو گالیاں دیتی تھی اور آپ کو بُرا بھلا کہتی تھی، میرے باربار کہنے اور سمجھانے پر باز نہیں آتی تھی، اس کے بطن سے میری موتیوں جیسے دو خوبصورت بیٹے بھی پیدا ہوئے ہیں، آج رات اس نے پھر وہی نازیبا حرکت کر ڈالی، مجھے غیرت آئی اور میں نے اسے قتل کر ڈالا۔ واقعہ سننے کے بعد رسول اللہﷺ نے فرمایا تم سب گواہ رہو، اس گستاخ لونڈی کا قتل ضائع اور خون رائیگان ہے، اس کا کوئی بدلہ نہیں دیا جائے گا۔ (سنن أبي داؤد: ۴۳۶۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرات صحابہ کرام﷢ کا یہی موقف تھا کہ رسول اللہﷺ کی گستاخی کرنے والی کی سزا قتل ہے اور ا س کا خون ضائع ہے، چنانچہ حضرت ابوبرزہ اسلمی﷜ کا بیان ہے کہ ہم ایک دفعہ حضرت ابوبکر صدیق﷜ کی مجلس میں تھے، کسی بات پر آپ کو ایک شخص کے متعلق غصہ آیا، پھر آپ کا غصہ زیادہ ہونے لگا، میں نے عرض کیا اگر آپ مجھے اجازت دیں تو اسے قتل کردوں؟ جب میں نے اسے قتل کرنے کا عندیہ دیا تو حضرت ابوبکر﷜ نے مجلس کو برخاست کردیا۔ جب لوگ منتشر ہوگئے تو آپ نے مجھے بلایا کہ اس وقت تو نے کیا کہا تھا،۔ جبکہ میرے ذہن سے یہ واقعہ محو ہوچکا تھا۔ ان کے یاد دلانے پرمجھے یاد آیا آپ نے فرمایا کہ واقعی تو نے اسے قتل کردینا تھا؟ میں نے عرض کیا اگر آپ مجھے اجازت دیتے تو میں اسے ضرور قتل کردیتا تھا آپ اگر اب بھی مجھے حکم دیں تو اسے کیفر کردار تک پہنچا سکتا ہوں، حضرت ابوبکر﷜ نے فرمایا یہ منصب صرف رسول اللہﷺ کو حاصل ہے کہ آپ کے حق میں گستاخی کرنے والے کو قتل کردیا جائے، آپ کے بعد کسی اور کے لئے نہیں ہے۔ (سنن النسائي :۴۰۸۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے ہاں یہ متفقہ فیصلہ تھا کہ رسول اللہﷺ کی گستاخی کرنا ایک ایسا جرم ہے کہ اس کے مرتکب کو قرار واقعی سزا دی جائے اور اسے فوراً کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ چنانچہ کعب بن اشرف رسول اللہﷺ کے خلاف توہین آمیز اشعار کہتا تھا، رسو ل اللہﷺ نے فرمایا: اس کعب یہودی کو کون قتل کرے گا، حضرت محمد بن مسلمہ﷜ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ اس کام کو میں خود سرانجام دوں گا، چنانچہ اسے قتل کردیا گیا جس کی تفصیل صحیح بخاری میں ہے۔ (دیکھئے: رقم الحدیث:۴۰۳۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت ابن عباس﷜ کے متعلق بھی روایات میں ہے کہ انہوںنے اپنے ایک غلام کوقتل کرا دیا تھا، کیونکہ وہ رسول اللہﷺ کے خلاف گستاخی کا ارتکاب کرتاتھا۔ (مصنف عبدالرزاق:۵؍۳۰۷)
اسلام نے یہ اِعزاز صرف رسول اللہﷺ کی ذات کے ساتھ مخصوص نہیں کیا بلکہ ناموس رسالت کے اس تحفظ میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی شامل کیا ہے۔ایک طرف مسلمانوں کو ہرقوم کی مقدس شخصیات اور شعائر کے احترام کا درس دیا اور دوسری طرف تمام انبیاء کرام کا یہ حق بنا دیا کہ ان کی شان میں توہین کرنے والوں کو زندگی کے حق سے محروم کردیا جائے، اس سلسلہ میں امام ابن تیمیہ﷫ نے اپنی کتاب الصارم المسلول میں تفصیلی بحث کی ہے انہوں نے ثابت کیا ہے کہ ناموس رسالت کی حفاظت کا یہ حق دیگر انبیاءعلیہم السلام کو بھی ہے جو شخص بھی ان کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرے گا، اس کوبھی شدید سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ انہوں نے حضرت علی﷜ کے حوالہ سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جس نے کسی نبیؐ کو گالی دی اسے قتل کیا جائے اور جس نے صحابہ کو گالی دی تو اسے کوڑے مارے جائیں۔‘‘ (الصارم المسلول: ص۹۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پاکستان میں نافذ العمل توہین رسالت کی سزا تمام انبیاءعلیہم السلام کی توہین کرنے والوں کے لئے عام ہے جس کے لفاظ یہ ہیں:
’’جو کوئی عملاً زبانی یا تحریری طور پر یا بطور طعنہ زنی یا بہتان تراشی بالواسطہ یا بلا واسطہ، اشارۃً یا کنایۃً رسول اللہﷺ کی توہین یا تنقیص یابے حرمتی کرے وہ سزائے موت کا مستوجب ہوگااور اسے سزائے جرمانہ بھی دی جائے گی اگر وہی اعمال اور چیزیں دوسرے پیغمبروں کے متعلق کہے جائیں تو وہ بھی اس سزا کا مستوجب جرم ہوگا۔‘‘
لیکن اس سلسلہ میں کسی عام انسان کو قتل کرنے کا اختیارنہیں دیاجاسکتا بلکہ اسے حکومت کے نوٹس میں لانا ہوگا اگر واقعی کسی نے بددیانتی کی بنا پر کسی نبی کی توہین کی ہے تو اسے کیفر کردار تک پہنچانا حکومت کا کام ہے، ہر آدمی کویہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ گستاخ رسول کو قتل کردے کیونکہ اس سے انارکی اور فساد پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ ھذا ماعندی واﷲ أعلم بالصواب۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
1. ڈنمارک، ناروے اور جرمنی وغیرہ کے حکمرانوں نے کہا ہے کہ قرآن قتل انسانی سے منع کرتا ہے۔ لہٰذا گستاخانہ خاکوں کے کارٹونسٹوں کے قتل کا مطالبہ قرآن کے حکام سے مطابقت نہیں رکھتا کیا ان حکمرانوں کا یہ موقف صحیح ہے؟
2. کیا رسول اللہ ﷺاور خلفاء راشدین نے کسی گستاخ رسول کو قتل کیا تھا؟
3. مسلمانان عالم تحریک تحفظ ناموس رسالت مآب کے سلسلہ میں جو مختلف انداز میں سراپا احتجاج ہے۔ کیا یہ مظاہرے،دھرنے، جلوس شرعاً جائز ہیں؟
4. آپ کے نزدیک اس نازک اور شرعی مسئلہ کا کامیاب حل کیا ہے؟
الجواب:ڈنمارک، ناروے اور جرمنی وغیرہ کے ان حکمرانوں کا یہ موقف از سرتاپا غلط ہے اس میں صداقت نام کی کوئی چیزموجود نہیں۔ قرآن بلا شبہ ناحق قتل انسانی سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی روک تھام کے لئے قصاص کا قانون بھی پیش کرتا ہے۔ ﴿وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰاُولِی الاَلْبَابِ﴾ (البقرۃ:۱۷۹) حتیٰ کہ زخموں میں قصاص پیش کرنا ﴿وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ﴾(المائدۃ:۴۵) مگر یہ قتل انسانی کی ممانعت کا حکم اور قانون علی الاطلاق نہیں بلکہ مشروط ہے یعنی جب کوئی شخص قرآن کی توہین کرتا ہے یا حامل قرآن کی گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کو ایذا پہنچاتا ہے ، یا دین اسلام پرطعنہ زنی کرتاہے تو وہ قرآن کے احکام اور نصوص کے مطابق واجب القتل ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جیسا کہ ائمہ کفر، سرکش، معاندین اسلام، اللہ تعالیٰ اور سول اللہﷺ کے گستاخ انسانوں کو قرآن واجب القتل اور مباح الدم قرار دیتا ہے۔ تفصیل کا موقعہ ہے اور نہ فرصت، سرے دست صرف دو آیات بطور نمونہ مشتے از خروارے پیش خدمت ہیں۔
1.
﴿وَاِنْ نَکَثُوْا اَیْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُوْا اَئِمَّةَ الْکُفْرِ﴾ (التوبۃ:۱۲)
’’اور اگر عہد کرکے یہ لوگ اپنی قسمیں توڑ ڈالیں اور تمہارے دین (اسلام) پر طعنہ زنی کریں (اسلام کی توہین یا قرآن یا رسول اللہﷺ کی گستاخی کریں) تو کفر کے ان پیشواؤں سے جنگ لڑو۔‘‘
امام المفسرین ابن کثیر﷫ اس آیت کی تفسیر میں اِرقام فرماتے ہیں:
«أی عابوه انتقصوه ومن ههنا أخذ قتل من سبّ الرسول أو من طعن فی دین الاسلام أو ذکره بنقص» (تفسیر ابن کثیر:۱۲؍۳۴۶) کہ جب کفر کے لیڈر اسلام میں عیب چینی کریں اور تنقیص کے مرتکب ہوں تو ان سے جنگ کرو۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ جو بھی باطن رسول اللہﷺ کو گالی دے یا اسلام پر طعن کرے یا اس میں نقص نکالے تو وہ نام نہاد مسلمان ہو یا کافر، مرد ہو یا عورت، مغربی ہو یا مشرقی، جنوبی ہو یا شمالی، لیڈر ہو یا حکمران، بش ہو یا اس کے چیلے چانٹے واجب القتل مباح الدم اور اس کا قتل ہدر اور رائیگاں ہے۔
2.
﴿فَاِذَا انْسَلَخَ الاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوْا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ﴾(التوبۃ:۵)
’’پھر جب امان کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کوجہاں پاؤ قتل کرو اور پکڑو ان کو ان کا گھراؤ کرو اور ان کی تاک میںہر گھات کی جگہ بیٹھو۔بالفاظ دیگر ان کا جینا دو بھر کردو۔‘‘
 
Top