جب بات کو ضد اورنفسانیت کی بھینٹ چڑھادی جاتی ہے تواسی طرح کی کج بحثی اورمرغے کی ایک ٹانگ والی بات رونماہوتی ہے کہ
"پنچوں کی بات سرآنکھوں پر لیکن پرنالہ وہیں گڑے گا"
آپ یہ مانتے ہیں کہ جماعت کو چھوڑ نے انسان گناہ گار ہوگا اورسنت کی خلاف ورزی کامرتکب ہوگا لیکن نماز ہوجائے گی
بلاعذر ،جماعت کے ساتھ نماز چھوڑنے سے، گناہ دراصل جماعت کو چھوڑنے کا ہے۔ نماز اگر اس نے سنت طریقہ سے پڑھی ہے تو اس لئے نماز کا فریضہ ادا ہو جائے گا
آخر جس طرح رسول پاک نے تین طلاق کو بیک وقت دینا تلاعب بکتاب اللہ قراردیاہے اسی طرح جماعت چھوڑ کر گھر میں نماز پڑھنے والوں کے گھروں کو جلاڈالنے کی منشاء بھی توظاہر کی ہے دونوں میں حضور پاک کی ناراضگی کے لحاظ سے توکوئی کلام نہیں ہے۔
یہاں تک شاید آنجناب متفق ہوں
اس کے بعد آپ وہی پرانی کج بحثی شروع کردیتے ہیں۔ایک میں تو مان لیتے ہیں کہ نماز ہوجائے گی لیکن جماعت چھوڑنے کا گناہ ہوگا اسی طرح تاخیر سے کوئی نماز پڑھے تو نماز ہوجائے گی لیکن تاخیر سے پڑھنے کا گناہ الگ ہوگا۔
آپ کو بس اس پر اعتراض ہے کہ اگرکوئی کہے کہ کوئی شادی شدہ شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتاہے لیکن سنت طریقے سے نہیں دیتا تو طلاق ہوجائے گی البتہ سنت طریقے سے نہ دینے کا گناہ گار ہوگا۔مجھ کو توماقبل اورمابعد کی مثال میں کوئی وجہ فرق نظرنہیں آتا ۔طلاق کی سنت اگر یہ ہے کہ وہ تین طہر میں تین مرتبہ دی جائے تواسی طرح نماز کی سنت یہ ہے کہ وہ جماعت اوروقت پر اداکی جائے جیساکہ حضور کا طریقہ کار تھا اورجس کی حضور نے تاکید کی تھی۔
لیکن آپ دومیں راضی اورتیسرے میں ناراض ہوجاتے ہیں اوراس ناراضگی کی منشاء سوائے مسلکی عصبیت کے اورکچھ نظرنہیں آتی ۔
اس کے بعد جومزید گلفشانی کی ہے اس نے تودیگر اہل حدیث حضرات کی طرح آپ کی فقاہت کا بھی سکہ دل پر جماناشروع کردیاہے(ابتسامہ)ملاحظہ فرمائیں۔
آپ کے موقف کے مطابق یہ نظیر یوں بنتی ہے کہ بلا عذر جماعت چھوڑنے کے باوجود انفرادی نماز پڑھنے سے بھی، جماعت کا فریضہ ادا ہو جائے گا۔ مثال دیتے وقت آپ جماعت چھڑواتے ہیں اور قبول آپ نماز کرواتے ہیں۔ اس کی بھی درست نظیر یہ بنتی ہے کہ نماز باجماعت سنت طریقے سے نہ پڑھی جائے تب بھی باجماعت نماز کا فریضہ ادا ہو جائے گا یا نہیں؟
مہربان من!جواعتراض آپ نے کیاہے اس پر ذرا سنجیدگی سے غورکرتے تو سمجھتے کہ احناف کا بھی موقف وہی ہے جو آپ نے اپنے اعتراض میں بوجہ لاعلمی بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔آپ جس طرح یہ کہتے ہیں کہ جماعت کی سنت چھوڑنے کے باوجود نماز اداہوجائے گی ۔جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا فریضہ ادانہ ہوگا ۔
اسی طرح احناف بھی تویہی کہتے ہیں کہ طلاق دینے سے طلاق کا حکم واقع ہوجائے گا اورمسنون طریقے سے طلاق دینے کا فریضہ ادانہیں ہوگا۔
یہ کس حنفی عالم نے کہاکہ اگرکوئی غیرمسنون طریقہ سے طلاق دے توبھی مسنون طریقہ سے طلاق دینے کا فریضہ اداہوجائے گا۔اگرکسی نے کہاکہ تواس کا نام وپتہ ہمیں بھی ایڈریس کریں تاکہ ہم بھی توجانیں۔
اب خود غورکریں کہ احناف کے موقف میں اورآپ کے موقف میں کیافرق بنتاہے۔
آپ کہتے ہیں کہ اگرکسی نے جماعت کے بغیر بلاعذر نمازپڑھی تونماز ہوجائے گی نماز باجماعت کا فریضہ ادانہیں ہوگا۔
احناف کہتے ہیں کہ اگرکسی نے غیرمسنون طریقہ سے طلاق دی تو طلاق واقع ہوجائے گی طلاق مسنون طریقے سے دینے کا فریضہ ادانہیں ہوگا۔
اگراس پر سنجیدگی سے غورکریں گے توشاید اپنے موف کی غیرمعقولیت خود سمجھ میں آجائے اورسمجھانے کی زیادہ کاوش سے ہمیں بھی نجات مل جائے گا۔
بہت مشکل ہے سمجھاناکسی کا
سمجھ لینے میں دشواری نہیں ہے
مثلاً رکوع بعد میں کر لیں، سجدہ پہلے کر لیں۔ یہ بدعی طریقہ نماز ہے۔ اب بتائیے کہ ایسے شخص کی نماز ہو جائے گی؟ یا کوئی نماز پہلے پڑھ لے اور وضو بعد میں کر لے تو، سنت کی مخالفت کی وجہ سے ایسے شخص کی نماز ادا ہو جائے گی کہ نہیں؟
محترم اگربحث کو یوں ہی مناظرہ کی بھینٹ چڑھانی ہے تو پی ایم کرکے واقفیت کرادیں راقم الحروف دست بردار ہوجائے گا اورچاہیں تواپنے کچھ ہم مسلکوں کی طرح اس کو اپنی فتح اورمیری شکست مان لیں۔مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
مثال دیتے وقت کچھ سنجیدگی توبرتئے ۔رکوع اورسجدہ میں ترتیب سنت ہے واجب ہے یافرض ہے اس پر غورکیاہے جورکوع اورسجدہ کی مثال پیش کردی ہے۔اسی طرح وضو اورنماز کی مثال پیش کرنے سے پہلے اس پر غورکیاہے کہ وضو کی حیثیت نماز کیلئے کیاہے اورکمال لاعلمی سے اس کو محض سنت کی مخالفت قراردے دیاہے۔
یہی مسئلہ آپ کی حج والی نظیر کے ساتھ بھی ہے۔ آپ حج اور قرض کے دو احکام کو لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ اللہ کے بندے یہ بتا دیں کہ حج میں اگر سنت طریقہ کو فالو نہ کیا جائے تو حج ہو جائے گا یا نہیں؟ اگر طواف الٹا کر لیا جائے؟ میقات سے احرام نہ باندھیں؟ ننگے ہو کر طواف کر لیں؟ کتنے نظائر پیش کئے جائیں جو آپ تک ہمارا موقف درست ٹون میں پہنچا سکیں؟
آپ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ کسی عبادت کے فرائض ارکان شروط واجبات اورسنن میں کوئی امتیاز نہیں کرتے جب کہ دیگر لوگ امتیاز کرتے ہیں اورآپ سبھی کو ایک طرف سے مسنونیت کا لباس پہنادیتے ہیں۔ آپ سے ہی ایک سوال ہے کہ ایک شخص کوئی سنت چھوڑدیتاہے یاد رہے سنت تو اس کاحج اداہوگایانہیں ہوگا؟
کیا نکاح کی درست نیت کے ساتھ، نکاح کا طریقہ سنت نہ ہو، تو نکاح واقع ہو جائے گا؟آپ راہ چلتے کسی لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر کہہ دیں کہ میں نے تجھ سے نکاح کیا، تو کیا آپ کا نکاح واقع ہو گیا؟ (اگرچہ سنت کی مخالفت پر آپ کو آثم و عاصی بھی مان لیا جائے)
پھرایک بار اہل حدیثی فقاہت کا سکہ دل پر جم رہاہے۔بندہ خدا نکاح کی مثال پیش کرنے سے پہلے یہ بھی توسوچ لیتے کہ نکاح میں فریقین کے ایجاب وقبول کو اصل حیثیت ہے ۔آپ لاکھ کسی سے کہتے ہیں کہ میں نے تجھ سے نکاح کیا اوردوسراقبول نہ کرے تونکاح کس طرح منعقد ہوسکتاہے آپ نکاح کی کوئی ایک سنت لیں، یاد رہے سنت ہو فرض ،رکن اورشرط نہ ہو ۔توکیااس سنت کے ترک سے نکاح کا انعقاد نہیں ہوگا؟مثلاحضور کاارشاد ہے کہ نکاح میں لڑکی کی دینداری کامدنظررکھاکرو،ایک شخص اس حکم کاخیال نہیں رکتھا اورمال ومنال کی بناء پر کسی سے نکاح کرتاہے اس کا نکاح ہوگایانہیں؟
یر بحث بدعی طلاق کے ضمن میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح نکیر کے باوجود آپ اسے دنیاوی لحاظ سے وقوع پذیر مان رہے ہیں۔ تو یہ فرمائیے کہ ابدی حرام رشتے داروں سے نکاح کی بھی ممانعت ہے۔ اب آپ کے موقف کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی ماں، بہن، بیٹی سے نکاح کر لے تو اگرچہ حکم کی مخالفت کی وجہ سے گناہ گار ہوگا، لیکن اس کا نکاح واقع ہو جائے گا؟
ضد اوراناانسان کوبحث میں ایسے ہی مقام تک پہنچادیتے ہیں جہاں عقل وہوش بھی رخصت ہوجاتے ہیں۔ بات سنت کی ہورہی ہے اورموصوف مثال میں ایسی چیزیں پیش کررہے ہیں جوفرض اورحرام کے درجے کی ہیں ۔محرمات سے نکاح حرام ہے اس کی حرمت پر قرآن شاہد ہے لیکن موصوف کولگتاہے کہ یہ ازقبیل مسنون ہے۔
ویسے آپ کاکیاخیال ہے کہ امام شافعی جوبقول اہل حدیث حضرات اہل حدیث کے امام ہیں وہ تو زیر بحث مسئلہ میں کسی گناہ کے بھی قائل نہیں کیاآپ ان پر بھی محرمات ابدیہ کی مثال منطبق کرناچاہیں گے؟ویسے آپ حضرات کی جسارت سے یہ بعید بھی نہیں ہے ۔
ویسے آنجناب سے یہ ضرور جانناچاہوں گاکہ کیامحرمات سے نکاح نہ کرنا آپ کے نزدیک حرام عمل ہے یاغیرمسنون عمل ہے؟یاآپ کے نزدیک فرض ،حرام اورسنت سبھی ایک درجے کے ہیں کسی میں کوئی فرق نہیں ؟
ہم اس کے قائل ہیں کہ نماز میں اگرکوئی شخص کسی سنت کو چھوڑدیتاہے تواس کی نماز ہوجائے گی سنت کا ثواب نہیں ملے گا۔ فرض کو چھوڑے گاتونماز نہیں ہوگی۔ واجب کو چھوڑے گا توسجدہ سہو سے اس کی تلافی کرنی ہوگی۔ویسے آپ کاکیاخیال ہے کہ نماز میں اگرکوئی مسنون عمل چھوڑدے تواس کی نماز نہیں ہوگی ۔
جی ان شاء اللہ۔ ہم تو خود اسی کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ آپ بھی کسی کی تقلید نہ کرتے ہوئے کتاب و سنت پر غور کریں، تاکہ ان شاء اللہ بہت سی گرہیں کھل جائیں اور بہت سے عقدے وا ہو جائیں۔
اسی کا توروناہےاوریہ روناصرف ہمارانہیں ہے آپ کے اکابر حضرات بھی یہ رونا روچکے ہیں ۔
اگر اصول فقہ سے آپ کو کچھ شغف ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ حکم وضعی کی بحث میں ایک بحث ’سبب‘ کی بھی ہے یعنی سبب حکم شرعی کی ایک قسم ہے۔اس کو ایک مثال سے سمجھیں کہ سورج کے ڈھلنے کو ظہر کی نماز کا سبب بنایا گیاہے یا آسان الفاظ میں فجر ، ظہر اور عصر کی نمازوں کے اوقات متعین ہیں۔ اگر کوئی شخص فجر کے وقت میں ظہر اور عصر کی نماز پڑھ لے تو اسے یہی کہا جائے گا کہ تمہاری نماز نہیں ہوئی ہے کیونکہ ہر نماز کی ادائیگی اس کے شریعت کی طرف سے طے کردہ وقت میں ضروری ہے۔ پس تین طلاقوں کے لیے تین اوقات مثل سبب کے ہیں اور جب سبب موجود ہو گا تو مسبب ہو گا یعنی شرعی حکم ہو گا۔ سبب کی عدم موجودگی میں مسبب بھی نہیں ہو گا کیونکہ سبب کی تعریف ہی یہی ہے کہ جس کے وجود سے حکم کا وجود اور جس کے عدم سےحکم کا عدم لازم آئے۔جب یہ مان لیا جائے کہ اللہ تعالی نے دوسری طلاق کے لیے کسی دوسرے طہر کو بطور وقت مقرر کیا ہے تو جب دوسری طلاق کا وقت نہیں آیا ہے یعنی دوسرا طہر تو وہ طلاق کیسے واقع ہو جائے گی ۔ یا تو یہ مانا جائے کہ اللہ تعالی نے دوسری طلاق کے کسی دوسری طہر کو بطور وقت مقرر نہیں کیا ہے تو پھر ایک مجلس کی تین طلاقوں کا نتیجہ نکالنا درست معلوم ہوتا ہے۔
مجھے حیرت ہے کہ ابوالحسن علوی صاحب مثال پیش کرتے وقت ایک بات بھول گئے کہ نماز کیلئے وقت کا سبب تو فرض کے درجے میں کیونکہ قرآن میں کہاگیاان الصلوۃ کانت علی المومنین کتاباموقوتا۔ لیکن کیاطلاق کیلئے طہر کاسبب بھی حالت فرض کے درجے میں ہے؟اس پر شاید انہوں نے غورنہیں کیا۔
بیشتر علماء اورجمہور علماء اس کے قائل ہیں کہ طلاق کا سبب ایک عاقل بالغ مسلمان شادی شدہ مرد کا اپنی زبان سے طلاق کالفظ نکالناہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ یہ تومانتے ہیں کہ طلاق مسنون طورپر نہ دینے کاگناہ ہوگا امام شافعی اس گناہ کے بھی قائل نہیں ہیں لیکن طلاق ہوجائے گی کیونکہ فاعل پایاگیا ہے یعنی طلاق دینے والا۔مفعول موجود ہے جس پر طلاق واقع ہورہی ہے یعنی اس کی بیوی اور طلاق کا سبب یعنی شوہر کااپنی بیوی کو طلاق دیناپایاگیاتوطلاق واقع ہوجائے گی۔ وقت کی قید جمہورعلماء کے نزدیک فرض اورواجب کے درجے میں نہیں ہے صرف مسنون طورپر ہے تو جیساکہ عرض کیاگیاکہ وہ سنت کی مخالفت کاقصوروار ہوگا لیکن طلاق ہوجائے گی جیساکہ جمہورعلماء کامسلک ہے۔
کسی شرعی حکم کی تفہیم کے لیے بعض حضرات دنیاوی مثالیں دینا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ دنیا کے احکام کو دین پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ پس شرعی حکم کی تفہیم کے لیے کسی دوسرے شرعی حکم ہی کی مثال دی جائے اور دوسرا شرعی حکم بھی ایسا ہو جو اسی ضابطہ کے تحت ہو جس ضابطہ کے تحت پہلا حکم بیان ہو رہا ہے۔ ہم نے مذکورہ بالا مثال میں یہ بات واضح کی ہے کہ ایک وقت میں تین نمازوں کو جمع کرنا اور ایک وقت میں تین طلاقوں کو جمع کرنا ایک ہی شرعی ضابطہ کے تحت داخل ہے جسے ہم سبب ومسبب یا حکم وضعی کی بحث کہتے ہیں۔ اگر کسی کو اس مثال سےاختلاف ہو تو اصول فقہ کے اس ضابطہ اور اس کی تعریف کی روشنی میں ان دونوں مثالوں کے مابین فرق کی وضاحت کرے۔
اگراس پیراگراف کی کچھ باتوں سے اتفاق کربھی لیاجائے کہ شرعی حکم کی تفہیم کیلئے دنیاوی مثالیں دینادرست نہیں حالانکہ دنیاوی مثال صرف ایک ہی تھی یعنی قرض اورحج کی بات اوربھی بہرحال شرعی مثال ہی تھی غیرشرعی بات تونہیں تھی ۔کمال یہ ہے کہ آپ ایک وقت میں تین نمازوں کی مثال دے رہے ہیں تین کی شرط کیوں رکھی حضرت دوکی شرط کیوں نہ رکھی۔کیاآپ حضرات کے یہاں بیک وقت دوطلاق بیک وقت دیناجائز ہے۔ اگروقت کو سبب مانیں توایک وقت میں دوطلاق بھی دیناجائز نہیں ہوناچاہئے ۔
آپ بڑی آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ تین نمازوں کوجمع کرنا اورتین طلاقوں کو جمع کرنا ایک ہی شرعی ضابطہ کے تحت داخل ہے لیکن دوسرے اس سے قطعامتفق نہیں ہیں ۔وہ وقت یاطہر کو طلاق کیلئے سبب اورشرط نہیں مانتے اورجب اسی بنیادی بات پر اتفاق نہیں ہے توپھر آگے کی تمام باتیں بے نتیجہ ہوجاتی ہیں۔
آپ آگے کہتے ہیں کہ کسی کواختلاف ہے تو واضح کرے۔
1اختلاف کی باتیں کئی ہیں نماز کیلئے وقت کا سبب یاشرط فرض کے درجے میں ہے۔کیاطلاق کیلئے بھی طہر یاوقت کی قید فرض کے درجے میں ہے؟
2نماز کے بارے میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں مطلقا وقت کی قید سے آزاد ہوکر نمازپرھی گئی ہو اوراسے کسی نے درست مانا ہو۔جب کہ طلاق کے بارے میں ہمیں کئی حدیثیں ایسی ملتی ہیں صحابہ کرام کے اقوال ملتے ہیں کہ تین طلاق بیک وقت دی گئی اوراس کودرست ماناگیا۔
3نماز میں جمع بین الصلواتین سفر میں جائز ہے عندالاکثر اورعندالاحناف جمع بین الصلواتین صوری ہے نہ کہ حقیقی ۔کیاآپ کے نزدیک طلاق میں کوئی شق ایسی ہے جس میں کسی حالت میں بغیر طہر کے بھی اوراکٹھے طلاق دی جاسکتی ہے ۔
پہلی طلاق کا وقت یا سبب طہر ہے جبکہ دوسری طلاق کا وقت یا سبب دوسرا طہر ہے اور تیسری طلاق کا وقت یا سبب تیسرا طہر ہے لہذا جب آپ نے یہ مان لیا کہ شریعت نے تین طلاقوں کے لیے متفرق تین طہر کو بطور وقت مقرر کیا ہے تو جب وہ طہر یعنی سبب موجود ہو گا تو طلاق واقع ہو گی اور اگر تو آپ یہ نہ مانتے ہوں کہ تین طلاق کے لیے تین متفرق طہر کو وقت یا سبب بنایا گیا ہے تو پھر آپ اس نتیجے میں حق بجانب ہیں جو آپ نکال رہے ہیں۔
طلاق کا وقت یاسبب طہر آپ مان رہے ہیں اورکچھ اسی طرح دوسرے مان رہے ہیں ۔تمام لوگ بلکہ اکثر لوگ طلاق کا وقت یاسبب طہر کو نہیں مانتے ۔پہلے تویہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ طلاق کا وقت یاسبب طہر ہے اوریہ صرف مسنون نہیں بلکہ شرط کے درجے میں ہے کہ اس کے بغیر اس کا تحقق نہیں ہوگا ۔
اس کیلئے محض کسی روایت میں تلاعب بکتاب اللہ کا لفظ ناکافی ہے کیونکہ جماعت چھوڑنے والوں کے گھروں کو جلاڈالنے کا منشاء حضور نے ظاہر کیاتھا وہ بھی کچھ کم نہیں لیکن اس کے بغیر اگرنمازہوسکتی ہے اور وہ صرف مسنون عمل رہ سکتاہے تو ظاہر سی بات ہے کہ تلاعب بکتاب اللہ کے شدید الفاظ کے باوجود یہ محض مسنون عمل قرارپاسکتاہے اوراس کے بغیر بھی طلاق واقع ہوسکتی ہے اگرچہ ایساکرنے والاسنت کی مخالفت کاقصوروار ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب