• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تين طلاق كي حقيقت

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
محترم گڈ مسلم بھائی!
غیر ضروری باتوں سے اجتناب کرتےہوئے براہ راست موضوع اور مقصد پر آتے ہیں۔
لیکن ایک چھوٹی بات ذاتی طور پر کرنا چاہتا ہوں۔
میں بحث ومباحثوں کا قائل نہیں ہوں اور نہ پوسٹ پر پوسٹ مقابلے پر یقین رکھتا ہوں، جب محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی بات مکمل کرچکا، فوائد سمیٹ چکا ہوں اور مقصد پورا ہوگیا ہے تو پھر اپنی بات اس حد تک ختم کردیتا ہوں۔ عموما دیکھا گیا ہے کہ اس مسئلہ طلاق میں دونوں فریق دلائل سے تھک جاتے ہیں تو پھر جذباتی انداز اختیار کیا جاتا ہے اور لوگوں کو مشتعل کیا جاتا ہے۔ان کے جذبات ابھارے جاتے ہیں ۔ پھر بحث لڑائی جھگڑے کی نظر ہوجاتی ہے۔ ایسے وقت میں عموما اہل حدیث مکتبہ فکر کے مناظر یا وکیل کی طرف سے احناف کے استعمال شدہ لفظ بدعت کی غلط تشریح کرتے ہوئے بار بار بڑی شدت سے یہ کہا جاتا ہے اور سوال کیا جاتا ہے کہ
کیا قرآن نے بدعت کا حکم دیا ہے۔ کیا قرآن بدعت کے جائز ہونے کا حکم دیتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس موضوع کو سلیکٹ کرنے کا مقصد لفظ بدعت کی تشریح اور وضاحت ہے۔ تاکہ ایسے الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے ہم احتیاط کریں۔
اگر آپ نے بھی کوئی ذاتی وضاحت کرنی ہے تو کرسکتے ہیں۔(ابتسامہ) شکریہ
اب موضوع کی طرف آتے ہیں
اب آپ کے مطالبے پر سوال کا جواب پیش ہے کہ ہم اس کو '' لغو '' کہتے ہیں۔ اور مولانا نے بھی جو اس کےلیے '' بدعت '' کا لفظ استعمال کیا ہے۔ وہ بھی '' لغو '' کے معنیٰ میں ہے۔۔۔ ہاں مولانا آکر خود وضاحت کردیں، کہ میں نے یہاں پر لفظ بدعت سے مراد یہ لی ہے۔۔۔ تب مولانا کی بات مانی جائے گی۔
محترم بھائی!
اس بات کو ذہن نشین فرمالیں ہمارے درمیان بات لفظ بدعت پر ہورہی ہے، یعنی طلاق کے وقوع اور عدم وقوع پر لفظ بدعت کا اثرکا مرتب ہونا نہ ہونا ہے۔
آپ کی طرف سے طلاق پر لائے گئے لفظ بدعت کی معنوی تعریف یا وضاحت لغو بیان ہوا ہے۔ یعنی آپ کے مطابق یہاں بدعت کا استعمال لغو کے معنوں میں ہوا ہے۔ شکریہ
لیکن میری نظر میں وضاحت مکمل نہیں ہوئی۔
نمبر ایک : کیا آپ لفظ بدعت کو یہاں لغوی معنی میں استعمال کرتے ہیں یا شرعی معنی میں ؟؟؟
( یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ آپ نے خود دوسرے دھاگہ میں بدعت کو دوحصوں میں بیان کیا ہے ۔ )
بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ کی تقسیم مولانا عبدالہادی مدنی ملاحظ فرمائیں
بدعتِ شرعی اور بدعتِ لغوی میں بہت فرق ہے اور اِس فرق کو سمجھنے والا کبھی"بدعتِ حسنہ اورسیئہ"کی تقسیم کو درست نہیں جانتا،
وضاحت فرمادیں۔
نمبر دو: آپ کے ہاں اس لفظ بدعت کا اثر واقع ہوتا ہے، اگر ہوتا ہے تو کس صورت اور کس حد تک؟؟؟
1۔ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے کو آپ سنت سمجھتے ہیں یا بدعت ؟
اسی طرح آپ نے جو حنفی بھائی صاحب کاسوال پوسٹ کیا کہ
2۔آپ کے نزدیک اس طریقہ پر دی گئی طلاق سنت ہے یا بدعت ؟
3۔طلاق کس طرح دی جائے تو سنت ہوتی ہے۔ اور کس کس طرح دی جائے تو بدعت میں آجاتی ہے؟
محترم بھائی!
یہی سوال جو آپ نے مجھ سے پوچھے ہیں آپ کی طرف لوٹاتا ہوں۔ آپ بھی انہی سوالات پر اپنا واضح موقف بیان فرمادیں۔
میرا موقف:
قرآن وسنت میں شرعی طریقہ اور سنت طریقہ طلاق دینے کا جو بیان ہوا ہے اسے ہم طلاق سنت کہتے ہیں، اور اس کے علاوہ باقی صورتوں میں طلاق بدعت کہتے ہیں۔ لیکن ان تمام صورتوں میں طلاق واقع ہوجائے گی۔
مختصر تفصیل ملاحظہ فرمائیں
01.jpg

01.jpg


اس کے علاوہ آپ نے مجھ سے طلاق پر لائے گئے لفظ بدعت کی معنوی تعریف پوچھی ہے۔
میں پہلے بھی بیان کرچکا، دوبارہ آسان انداز میں وضاحت کردیتا ہوں۔
طلاق بدعت کو ہم لغوی معنوں میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ اصل اصطلاحی معنوں میں اس جگہ لفظ بدعت کےاستعمال کی کوئی گنجائش ہی نہیں، جس کی تفصیل میں پہلے ہی دے چکا ہوں ، اہل حدیث عالم دین مولانا محمد اقبال کیلانی صاحب کی کتاب کے ایک اقتباس سے۔
لہذا لغوی معنوں میں بدعت سے مراد وہ طلاق جو ناپسندیدہ ہے، معصیت ہے، اور طلاق دینے والا گنہگار ہے۔

محترم گڈ مسلم بھائی !
مجھے امید ہے آپ غیر ضروری باتوں سے اجتناب فرمائیں گے اور آپ سے کئے گئے سوال کی مزید وضاحت فرمائیں گے۔
شکریہ
 

اٹیچمنٹس

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
شاکر
بھائی غلطی سے ایک ہی صفحہ دوبار اپلوڈ ہوگیا۔
دوسرے صفحہ کو ہٹا کر یہ صفحہ لگا دیں تاکہ ترتیب درست ہوجائے۔
02.jpg
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محترم جناب ideal_man آپ کی غیر ضروری باتوں پر کچھ نہیں لکھا جارہا ۔لیکن ایک بات کہنا چاہونگا جو آپ نے حقائق کا خون کرتے ہوئے کہی۔ محترم بھائی مناظرہ میں اشتعال انگیزی ہمیشہ مقلدین کی ہی طرف سے دیکھنے کو ملی ہے۔۔۔ اور ذاتی طور اس کا تجربہ بھی کئی بار ہوچکا ہے۔۔۔ اس لیے دونوں فریق کو ایک پلڑے میں نہ رکھیں۔۔۔شکریہ ہوگا۔
جناب من '' لفظ بدعت '' کا جو مفہوم اس لفظ کے سنتے ہی ذہن میں آجاتا ہے وہ یہ کہ '' شریعت میں کوئی ایسی نئی بات/عمل جس کا قرآن و سنت میں وجود نہ ہو ۔ '' اور لفظ بدعت کے معانی کو اگر دیکھا جائے تو ان کے معانی میں نئی رسم، نیا دستور، اختراع، احداث وغیرہ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔
جب آپ نے مجھ سے پوچھا کہ مولانا نے '' بدعی '' کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اور آصف بھائی نے مولانا نے اسی لفظ '' بدعت '' کی وضاحت چاہی تھی، لیکن مولانا صاحب اپنی مصروفیت کیوجہ سے ابھی تک اس کا جواب نہیں دےسکے۔
اور اس پر آپ نے یہ بھی لکھا کہ
'' اہل حدیث کی یہ جماعت اس مقام پر لفظ بدعت کو کن معنوں میں بیان کرتے ہیں؟؟؟ ''
جس کا جواب میں نے آپ کو یوں دیا
'' ہم اس کو '' لغو '' کہتے ہیں۔ اور مولانا نے بھی جو اس کےلیے '' بدعت '' کا لفظ استعمال کیا ہے۔ وہ بھی '' لغو '' کے معنیٰ میں ہے۔۔۔ ہاں مولانا آکر خود وضاحت کردیں، کہ میں نے یہاں پر لفظ بدعت سے مراد یہ لی ہے۔۔۔ تب مولانا کی بات مانی جائے گی۔''
اور پھر اس پر میں نے قرآن پاک سے ایک آیت بھی پیش کی کہ
'' لَّا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ‌ حَلِيمٌ ''
اب اگر آپ لفظ '' لغو '' پر غور کریں تو اس کے معنی میں بے ہودہ، واہیات، بے فائدہ، بکواس، وغیرہ شامل ہیں۔
جب ہم کہتے ہیں کہ یہ طلاق بدعی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ بکواس ہے، فضول ہے، واہیاتی لگائی گئی ہے۔، بے فائدہ ہے۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔
محترم جناب اب میرا مؤقف آپ کے سامنے تفصیل سے آچکا ہے۔۔۔ کہ جب بولا جاتا ہے کہ یہ طلاق '' طلاق بدعت '' ہے تو پھر بدعت یہاں '' لغو '' کے معنی میں ہوتی ہے اور لغو سے جو مراد ہے، اس کی بھی وضاحت کردی گئی ہے۔ کہ اس کا کوئی شمار ہی نہیں ہوتا۔۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے لغو قسموں پر کوئی مواخذہ نہیں رکھا۔یعنی وہ فضول ہوتی ہیں۔ ان کی کوئی حیثیت یا گنتی میں آتی ہی نہیں۔ اسی طرح طلاق بدعی بھی ہے۔
لفظ بدعت پر جو میں نے لغو کا معنی بیان کیا ہے۔ تو اس پر آپ نے وضاحت نامکمل ہونے کا بیان دیا اور نمبر ایک لکھ کر دوبارہ وہی سوال پوچھ لیا جس کا جواب پہلے آپ کو دیا جاچکا ہے۔۔۔
محترم بھائی گزارش ہے کہ ذرا غور سے پڑھ لیا کریں۔۔۔شکریہ۔۔۔آپ نے لکھا کہ
'' نمبر ایک : کیا آپ لفظ بدعت کو یہاں لغوی معنی میں استعمال کرتے ہیں یا شرعی معنی میں ؟؟؟ ''
پہلی بات جناب آپ مجھے یہ بتائیں کہ جب میں نے '' بدعی '' کی وضاحت '' لغو '' سے کی تو آپ اس وضاحت سے لغوی معنیٰ سمجھے یا شرعی ؟ ۔۔۔کیونکہ ان دونوں معنوں میں سے وضاحت میں ایک معنیٰ تو پایا جارہا ہے۔۔۔یہ بعد کا سوال ہے جو کیا بھی جاسکتا ہے اور نہیں بھی کہ اگر آپ لغوی معنیٰ سمجھے تو کیسے اور اگر آپ شرعی معنیٰ سمجھے تو کیسے؟
دوسری بات آپ مجھے بتائیں کہ آپ کے نزدیک لفظ بدعت کا شرعی معنی کیا ہے اور لغوی معنی کیا ہے؟
پھر آپ نے لکھا کہ
'' نمبر دو: آپ کے ہاں اس لفظ بدعت کا اثر واقع ہوتا ہے، اگر ہوتا ہے تو کس صورت اور کس حد تک؟؟؟ ''
طلاق کے مسئلہ میں لفظ بدعت کی وضاحت میں نے لفظ لغو سے کی ہے۔۔۔اور ساتھ آسانی کےلیے لغو کی وضاحت بھی کردی ہے۔۔۔آپ کا یہ سوال دو صورتوں سے خالی نظر نہیں آتا
1۔ یا تو آپ کو معلوم نہیں کہ '' لغو '' ہوتا کیا ہے؟
2۔ یا پھر آپ جان بوجھ کر لغو کو بدعت سے جوڑ رہے ہیں۔ اور پھر اس کے کاندھے پہ سر رکھ کر مجھ سے سوال کیے جارہے ہیں کہ '' آپ کے ہاں اس لفظ بدعت کا اثر واقع ہوتا ہے، اگر ہوتا ہے تو کس صورت اور کس حد تک؟؟؟ ''
جناب من یہ بحث الگ ہے کہ بدعت کا اثر واقع ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ اس بحث کاحصہ نہیں۔یہ بحث صرف اس نقطہ پر تھی جس کو آپ نے یوں بیان بھی کیا تھا
'' اہل حدیث کی یہ جماعت اس مقام پر لفظ بدعت کو کن معنوں میں بیان کرتے ہیں؟؟؟ ''
میرے خیال میں میری طرف سے لفظ بدعت کی مکمل وضاحت پیش کی جاچکی ہے۔کہ ہم اس کو واہیاتی سے تعبیر کرتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ لغو قسموں پر معاملہ کرتے ہیں۔۔۔
جب میں نے آپ سے یوں سوال کیے کہ
1۔ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے کو آپ سنت سمجھتے ہیں یا بدعت ؟ اسی طرح آپ نے جو حنفی بھائی صاحب کاسوال پوسٹ کیا کہ
2۔آپ کے نزدیک اس طریقہ پر دی گئی طلاق سنت ہے یا بدعت ؟
3۔طلاق کس طرح دی جائے تو سنت ہوتی ہے۔ اور کس کس طرح دی جائے تو بدعت میں آجاتی ہے؟
اس پر آپ نے جو ماقبل پوسٹ میں وضاحت کی ہے وہ یہ کہ
'' قرآن وسنت میں شرعی طریقہ اور سنت طریقہ طلاق دینے کا جو بیان ہوا ہے اسے ہم طلاق سنت کہتے ہیں، اور اس کے علاوہ باقی صورتوں میں طلاق بدعت کہتے ہیں۔ لیکن ان تمام صورتوں میں طلاق واقع ہوجائے گی۔ ''
1۔ قرآن وسنت میں طلاق دینے کا کیا شرعی طریقہ وارد ہوا ہے؟ اس پر ہماری بحث نہیں
2۔ ہماری بحث اس پر ہے کہ جس کو طلاق بدعت کہا جاتا ہے۔ یہاں اس لفظ بدعت سے کیا معنی لیا جاتا ہے۔
آپ نے جو معنیٰ لیا وہ ہے
'' لہذا لغوی معنوں میں بدعت سے مراد وہ طلاق جو ناپسندیدہ ہے، معصیت ہے، اور طلاق دینے والا گنہگار ہے۔ ''
اور میں نے معنیٰ لیا لغو کا ۔
میرے خیال میں اب ہمارے سامنے یہ بات آچکی ہے کہ آپ لفظ بدعت سے کیا معنیٰ مراد لیتے ہیں اور ہم لفظ بدعت سے کیا معنیٰ مراد لیتے ہیں۔۔۔اس پر مزید بات کرنا ٹائم کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں۔۔ لیکن اس سے متعلقہ دو موضوع پر بات ہوسکتی ہے۔

1۔ آپ طلاق بدعی سے جو معنیٰ لے رہے ہیں وہ کیوں لے رہے ہیں اور میں طلاق بدعی سے جو معنی ٰ لے رہا ہوں وہ کیوں لے رہا ہوں۔
2۔ آپ جو طلاق بدعی کا معنی لے رہے ہیں اور جس پر یہ بھی فرمارہے ہیں کہ یہ واقع بھی ہوجاتی ہے۔۔۔آپ اس کو بادلائل ثابت کردیں۔۔۔۔ باقی چونکہ میں اس کو لغو کہہ رہا ہوں، لہٰذا جب میں اس بات کی وضاحت کردونگا کہ میں اس کو لغو کیوں کہہ رہا ہوں، تو پھر میرا اس پر دلائل دینا کہ طلاق بدعی بمعنی طلاق لغو اثر انداز بھی ہوگی یا نہیں۔۔فضول ہے۔ کیونکہ جب ہے ہی لغو تو اثر انداز ہونے پر بات کرنا چہ معنی دارد؟

اس لیے اب آپ سے گزارش ہے کہ ان دو پوائنٹس میں سے پہلے پوائنٹ پر اپنی گزارشات پیش کریں۔شکریہ
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
محترم گڈ مسلم صاحب!
بہت شکریہ آپ نے کھینچ تان کے غیر ضروری تشریح ہی صحیح، لیکن آپ نے لفظ بدعت اور اس کی معنوی تعریف لفظ لغو کی تشریح کردی۔آپ کی اس تشریح سے مجھے ذاتی طور پر بڑی خوشی ہوئی۔
آپ کے موقف کو میں آسان انداز میں بیان کردیتا ہوں اگر میں نے صحیح سمجھا ہے تو تصدیق کردیجئے گا۔ اور اگر ضرورت ہو تو مختصر انداز میں اسے درست کردیجئے گا۔​
جناب من '' لفظ بدعت '' کا جو مفہوم اس لفظ کے سنتے ہی ذہن میں آجاتا ہے وہ یہ کہ '' شریعت میں کوئی ایسی نئی بات/عمل جس کا قرآن و سنت میں وجود نہ ہو ۔ '' اور لفظ بدعت کے معانی کو اگر دیکھا جائے تو ان کے معانی میں نئی رسم، نیا دستور، اختراع، احداث وغیرہ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔​

لفظ بدعت پر آپ کا موقف واضح ہوگیا چاہے وہ بدعت لغوی ہو یا بدعت شرعی ۔ شکریہ
اب اگر آپ لفظ '' لغو '' پر غور کریں تو اس کے معنی میں بے ہودہ، واہیات، بے فائدہ، بکواس، وغیرہ شامل ہیں۔
جب ہم کہتے ہیں کہ یہ طلاق بدعی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ بکواس ہے، فضول ہے، واہیاتی لگائی گئی ہے۔، بے فائدہ ہے۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔
اسی لفظ بدعت کی معنوی تعریف لغو بیان کی چاہے وہ بدعت لغوی ہو یا بدعت شرعی آپ کے نزدیک کوئی بھی بدعت ہو وہ لغو ہی کے معنی میں ہے۔
محترم جناب اب میرا مؤقف آپ کے سامنے تفصیل سے آچکا ہے۔۔۔ کہ جب بولا جاتا ہے کہ یہ طلاق '' طلاق بدعت '' ہے تو پھر بدعت یہاں '' لغو '' کے معنی میں ہوتی ہے اور لغو سے جو مراد ہے، اس کی بھی وضاحت کردی گئی ہے۔ کہ اس کا کوئی شمار ہی نہیں ہوتا۔۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے لغو قسموں پر کوئی مواخذہ نہیں رکھا۔یعنی وہ فضول ہوتی ہیں۔ ان کی کوئی حیثیت یا گنتی میں آتی ہی نہیں۔ اسی طرح طلاق بدعی بھی ہے۔
بہت بہت شکریہ میرے بھائی۔ وضاحت ہوچکی اب مزید اس کی تشریح کی ضرورت نہیں اگر آپ اس کی تصدیق کرتے ہیں تو۔ بہت شکریہ
محترم گڈ مسلم صاحب!
آپ نے آتے ہی یہ سوال مجھ سے کئے تھے۔
ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے کو آپ سنت سمجھتے ہیں یا بدعت ؟
اسی طرح آپ نے جو حنفی بھائی صاحب کاسوال پوسٹ کیا کہ
آپ کے نزدیک اس طریقہ پر دی گئی طلاق سنت ہے یا بدعت ؟
طلاق کس طرح دی جائے تو سنت ہوتی ہے۔ اور کس کس طرح دی جائے تو بدعت میں آجاتی ہے؟
میں آپ کے ان سوالات کا جواب دے چکاہوں ، وضاحت کرچکا ہوں۔
پھر میں نے آپ سے انہی سوال پر جواب طلب کیا آپ اپنا موقف بتائیں لیکن تاحال مجھے آپ کے جواب کا انتظار ہے۔​
1۔ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے کو آپ سنت سمجھتے ہیں یا بدعت ؟
اسی طرح آپ نے جو حنفی بھائی صاحب کاسوال پوسٹ کیا کہ
2۔آپ کے نزدیک اس طریقہ پر دی گئی طلاق سنت ہے یا بدعت ؟
3۔طلاق کس طرح دی جائے تو سنت ہوتی ہے۔ اور کس کس طرح دی جائے تو بدعت میں آجاتی ہے؟
یہ آپ ہی کے مرتب کردہ سوال ہیں ، بڑی ناانصافی ہوگی اگر آپ جواب نہیں دینگے۔
آپ کے علماء کی کتابوں میں ، بحثوں میں مناظروں میں یہ موقف موجود ہے، لیکن آپ لوگ بیچ راستے میں اپنے علماء کو چھوڑ کرچلے جاتے ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ آپ خود یہاں ان سوالات کا جواب تحریر فرمائیں،
یہ یاد رکھیں طلاق بدعی اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب طلاق سنی کی حد سے تجاوز ہوتا ہے، یہ اس کا لازمی جز ہے۔ اسی لئے آپ نے مجھ سے سوال کئے ہیں، اگر یہ موضوع بحث نہیں تو آپ نے مجھ سے سوال کیوں کئے۔
چلیں اگر آپ ان سوالات کو موضوع بحث نہیں سمجھتے کسی وجہ سے تو ویسے ہی اپنا موقف بتادیں ہمارے علم کے لئے۔ آپ کی بڑی نوازش ہوگی۔​
1۔ آپ طلاق بدعی سے جو معنیٰ لے رہے ہیں وہ کیوں لے رہے ہیں اور میں طلاق بدعی سے جو معنی ٰ لے رہا ہوں وہ کیوں لے رہا ہوں۔
2۔ آپ جو طلاق بدعی کا معنی لے رہے ہیں اور جس پر یہ بھی فرمارہے ہیں کہ یہ واقع بھی ہوجاتی ہے۔۔۔آپ اس کو بادلائل ثابت کردیں۔
آپکی تصدیق اور آپ ہی کے مرتب کردہ سوالات کا جواب آپ ہی کی طرف سے آنے کے بعدان سوالات پر دلائل کا آغاز کردیا جائے گا۔​
۔۔۔ باقی چونکہ میں اس کو لغو کہہ رہا ہوں، لہٰذا جب میں اس بات کی وضاحت کردونگا کہ میں اس کو لغو کیوں کہہ رہا ہوں، تو پھر میرا اس پر دلائل دینا کہ طلاق بدعی بمعنی طلاق لغو اثر انداز بھی ہوگی یا نہیں۔۔فضول ہے۔ کیونکہ جب ہے ہی لغو تو اثر انداز ہونے پر بات کرنا چہ معنی دارد؟

بڑی آسانی اور معصومیت سے اسے فضول کہدیا اور خوش ہوگئے کہ۔۔۔۔ گئی بھینس پانی میں۔
بھینس کو پانی سے نکالنا جانتے ہیں۔ (ابتسامہ)
شکریہ​
آپ کی تصدیق اور آپ کے مرتب کردہ سوالات کے جواب کا انتظار رہے گا، اور امید ہے آپ اپنی اگلی پوسٹ میں اپنی بات تصدیق اور سوال کے جواب تک محدود رکھیں گے۔​
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محترم گڈ مسلم صاحب!
بہت شکریہ آپ نے کھینچ تان کے غیر ضروری تشریح ہی صحیح، لیکن آپ نے لفظ بدعت اور اس کی معنوی تعریف لفظ لغو کی تشریح کردی۔آپ کی اس تشریح سے مجھے ذاتی طور پر بڑی خوشی ہوئی۔
1۔ جناب کھینچ تان کر نہیں۔ اور نہ ہی غیر ضروری۔۔۔ اس طرح کے الفاظ رعب، دبدبہ اور پھر دھوکہ دھی کےلیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
2۔ مجھے بھی اس بات پر خوشی ہورہی ہے کہ آپ کو اس پر خوشی ہے۔
آپ کے موقف کو میں آسان انداز میں بیان کردیتا ہوں اگر میں نے صحیح سمجھا ہے تو تصدیق کردیجئے گا۔ اور اگر ضرورت ہو تو مختصر انداز میں اسے درست کردیجئے گا۔
1۔ ویسے اس عمل کی ضرورت تو تھی ہی نہیں۔ کیونکہ اتنے آسان الفاظ میں سمجھایا ہے تاکہ عام سے عام قاری کو بھی بآسانی سمجھ آسکے۔
2۔ جی جناب ضرور تصدیق کیے دیتے ہیں
3۔ کہیں پر اگر آپ نے پلٹی کھائی یا غلط مفہوم سمجھا تو ضرور درست بھی کردیا جائے گا۔
لفظ بدعت پر آپ کا موقف واضح ہوگیا چاہے وہ بدعت لغوی ہو یا بدعت شرعی ۔ شکریہ
جس ضمن میں، جس مسئلہ میں، اور مسئلہ کی جس نوعیت پر بات ہورہی ہے، آپ اسی دائرہ میں ہی لیں۔ بات کو پھیلانے اور زیادہ چلاکی دکھانے کی کوشش مت کریں۔۔۔ ابتسامہ
بات ہورہی ہے کہ طلاق بدعی جب بولا جاتا ہے، تو یہاں بدعی سے مراد کیا ہوتا ہے۔؟۔۔میں نے کہا کہ یہاں بدعت سے مراد وہ بدعت نہیں جس کا لفظ سنتے ہی عام تصور ذہن میں آجاتا ہے۔ بلکہ یہاں لفظ بدعت لغو کے معنیٰ میں ہے۔
گزارش ہے بات کو عموم پر نہ لے جائیں۔ اور اگر عمومی مؤقف جاننا چاہتے ہیں تو پھر میرا وہی مؤقف ہے، جو لفظ بدعت سنتے ہی ذہن میں اجاگر ہوجاتا ہے۔۔۔ ان باتوں کے ساتھ آپ اپنے ماقبل جاری بیانات پر بھی غور کرلیا کریں۔
بیان نمبر1
اس بات کو ذہن نشین فرمالیں ہمارے درمیان بات لفظ بدعت پر ہورہی ہے، یعنی طلاق کے وقوع اور عدم وقوع پر لفظ بدعت کا اثرکا مرتب ہونا نہ ہونا ہے۔
بیان نمبر2
آپ کی طرف سے طلاق پر لائے گئے لفظ بدعت کی معنوی تعریف یا وضاحت لغو بیان ہوا ہے۔ یعنی آپ کے مطابق یہاں بدعت کا استعمال لغو کے معنوں میں ہوا ہے۔ شکریہ
ان دونوں بیانوں کے ہوتے ہوئے آپ کا یوں سوال کرنا مجھے سمجھ نہیں آیا۔؟
اسی لفظ بدعت کی معنوی تعریف لغو بیان کی چاہے وہ بدعت لغوی ہو یا بدعت شرعی آپ کے نزدیک کوئی بھی بدعت ہو وہ لغو ہی کے معنی میں ہے۔
مکرر بات نئے انداز میں۔۔ جواب دیا جاچکا ہے۔ پھر بھی اگر جواب چاہیے تو جواب ہے ۔۔۔ نہیں
اچھا جناب آپ یہاں پر بدعت لغوی اور بدعت شرعی کی وضاحت بھی کردیں۔اور یہی بات پہلے بھی ان الفاظ میں پوچھ چکا ہوں
'' دوسری بات آپ مجھے بتائیں کہ آپ کے نزدیک لفظ بدعت کا شرعی معنی کیا ہے اور لغوی معنی کیا ہے؟ ''
بہت بہت شکریہ میرے بھائی۔ وضاحت ہوچکی اب مزید اس کی تشریح کی ضرورت نہیں اگر آپ اس کی تصدیق کرتے ہیں تو۔ بہت شکریہ
جی محترم جناب اس بات کی تصدیق کی جاتی ہے کہ طلاق بدعی ایسی طلاق ہوتی ہے جو لغو ہوتی ہے۔
محترم گڈ مسلم صاحب!
آپ نے آتے ہی یہ سوال مجھ سے کئے تھے۔
1۔ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے کو آپ سنت سمجھتے ہیں یا بدعت ؟
اسی طرح آپ نے جو حنفی بھائی صاحب کاسوال پوسٹ کیا کہ
2۔آپ کے نزدیک اس طریقہ پر دی گئی طلاق سنت ہے یا بدعت ؟
3۔طلاق کس طرح دی جائے تو سنت ہوتی ہے۔ اور کس کس طرح دی جائے تو بدعت میں آجاتی ہے؟
میں آپ کے ان سوالات کا جواب دے چکاہوں ، وضاحت کرچکا ہوں۔
پھر میں نے آپ سے انہی سوال پر جواب طلب کیا آپ اپنا موقف بتائیں لیکن تاحال مجھے آپ کے جواب کا انتظار ہے۔
میں آپ کی اس بات '' جواب دے چکا ہوں '' کو کم از کم جھوٹ نہیں لکھ سکتا۔ کیونکہ ہوسکتا ہے، آپ نے ناجانے میں یا جلدی میں، یا بے توجہگی میں لکھا ہو۔۔ جناب من آپ نے یہ جواب دیا تھا
قرآن وسنت میں شرعی طریقہ اور سنت طریقہ طلاق دینے کا جو بیان ہوا ہے اسے ہم طلاق سنت کہتے ہیں، اور اس کے علاوہ باقی صورتوں میں طلاق بدعت کہتے ہیں۔ لیکن ان تمام صورتوں میں طلاق واقع ہوجائے گی۔
اور سوالات کیا تھے
1۔ ایک مجلس میں تین طلاق دینا سنت ہے یا بدعت
2۔ہر روز ایک طلاق یعنی تین روز میں تین طلاقیں دینا سنت ہے یا بدعت
3۔ ہر ہفتہ ایک طلاق یعنی تین ہفتوں میں تین طلاق دینا سنت ہے یا بدعت
4۔ اسی طرح چوتھا سوال یہ بھی تھا جو نقل نہ کرسکا تھا کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں، پھر دوسری مجلس میں تین طلاقیں اور پھر تیسری مجلس میں تین طلاقیں۔۔ یہ سنت ہے یا بدعت
اب آپ بتائیں کہ آپ کا سوال سوالات کے مطابق ہے یا نہیں ؟۔۔۔ صرف تصدیق کردیں۔شکریہ ہوگا۔
یہ آپ ہی کے مرتب کردہ سوال ہیں ، بڑی ناانصافی ہوگی اگر آپ جواب نہیں دینگے۔
1۔ جناب آپ کی اطلاع کےلیے عرض ہے کہ یہ میرے سوالات نہیں ہیں۔۔۔ بلکہ آپ خود اس بات کا اقرار ماقبل پوسٹ میں کرچکے ہیں کہ یہ سوال ہمارے حنفی بھائی کے ہیں۔ اور پھر پتہ نہیں آپ کیوں یہاں کہہ رہے ہیں کہ آپ کے مرتب کردہ سوالات ہیں۔ اس کو میں حافظہ کی کمزوری کہوں یا کچھ اور ؟
2۔ جب آپ نے ان سوالات پر مجھے یوں لکھا کہ
'' گڈ مسلم بھائی میں نے بھی اس کا بغور مطالعہ کیا ہے مجھے ان سوالوں کا جواب نظر نہیں آیا ذرا آپ میری مدد فرمائیں گے؟ ''
تو اس پر میں نے پوسٹ نمبر34 میں آپ سے پوچھا کہ پہلے آپ ہمیں بتائیں کہ آپ ان صورتوں میں دی جانے والی طلاق کو کیا نام دیتے ہیں۔؟
ظاہر ہے آپ بھی تو کوئی نہ کوئی نام دیتے ہونگے۔۔ اس لیے ناانصافی کے الفاظ استعمال کرنے سے بہتر ہے کہ جناب جواب ہی مرہمت فرمادیں۔ شکریہ
آپ کے علماء کی کتابوں میں ، بحثوں میں مناظروں میں یہ موقف موجود ہے، لیکن آپ لوگ بیچ راستے میں اپنے علماء کو چھوڑ کرچلے جاتے ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ آپ خود یہاں ان سوالات کا جواب تحریر فرمائیں،
1۔ ضرور موجود ہے
2۔ ہم مقلد نہیں۔۔ متبع کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
3۔ سوالات کے جوابات بارے لکھ چکا ہوں
یہ یاد رکھیں طلاق بدعی اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب طلاق سنی کی حد سے تجاوز ہوتا ہے، یہ اس کا لازمی جز ہے۔ اسی لئے آپ نے مجھ سے سوال کئے ہیں، اگر یہ موضوع بحث نہیں تو آپ نے مجھ سے سوال کیوں کئے۔
مجھے آپ کے انداز، بیان، سوچ، وغیرہ دی ککھ وی سمجھ نہیں آرہی۔ کبھی کیا کہتے ہیں اور کبھی کیا کہتے ہیں۔ جناب ایک بات پر رہی، کیوں ادھر ادھر کی مارتے چلے جارہے ہیں۔۔۔ میں بتاتا ہوں آپ کیسے ادھر ادھر کی مارتے چلے جارہے ہیں
1۔ پوسٹ نمبر32 میں آپ نے سوالوں کے جوابات طلب کیے اور مدد کی اپیل کی۔
2۔جب آپ سے پوچھا گیا کہ ان تمام صورتوں میں دی جانے والی طلاق سنت کہلائے گی یا بدعت؟ تو پھر جناب نے پوسٹ نمبر35 میں کہا کہ '' ایک طہر میں مختلف مجالس میں وقفہ سے دی گئی طلاق سنت ہے یا بدعت؟ اس پر بحث تو اس وقت ممکن ہے جب پہلے یہ واضح ہو کہ تین طلاق پر لفظ بدعت کا جو استعمال ہوتا ہے وہ بدعت اصل کے معنوں میں ہوتا ہے یا لغوی یعنی ناپسندیدہ عمل کے معنوں میں۔''۔۔یعنی یہاں سے آپ نے پوچھی گئی بات کو ٹالنے کےلیے اور راستہ اختیار کیا۔۔ کہ اب پہلے لفظ بدعت کا معنیٰ متعین کر لیا جائے۔
3۔ جب آپ سے آپ کی انہی باتوں پر وضاحت طلب کرنے اور پھر ان کا جواب دینے کی کوشش کی گئی تو آپ نے کہنا شروع کردیا کہ '' اس بات کو ذہن نشین فرمالیں ہمارے درمیان بات لفظ بدعت پر ہورہی ہے، یعنی طلاق کے وقوع اور عدم وقوع پر لفظ بدعت کا اثرکا مرتب ہونا نہ ہونا ہے۔'' ۔۔۔ یعنی اب آپ اس بات پہ آگئے کہ ہماری بات بدعت کے اثر پر ہورہی ہے۔ انا للہ
4۔ اور گھوم گھما کر اب آپ پھر ایک سے شروع ہونے لگے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ
یہ یاد رکھیں طلاق بدعی اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب طلاق سنی کی حد سے تجاوز ہوتا ہے، یہ اس کا لازمی جز ہے۔ اسی لئے آپ نے مجھ سے سوال کئے ہیں، اگر یہ موضوع بحث نہیں تو آپ نے مجھ سے سوال کیوں کئے۔
ویسے کمال کے آدمی ہو، اور ماشاءاللہ حافظہ بھی بہت پختہ ہے۔۔۔ جناب اگر یہی سوالات موضوع بحث ہیں (جب کہ میں نے ان سوالات بارے کہیں نہیں لکھا کہ یہ سوالات موضوع بحث نہیں۔ جس بات کو میں نے غیر موضوع بحث کہا ہے وہ آپ دوبارہ میری پوسٹ کا مطالعہ کریں، تو معلوم ہوجائے گی۔ ان شاءاللہ) تو پھر آپ نے اب تک جو آپ سے پوچھا گیا ہے۔ کیوں نہیں جواب دیا ؟
چلیں اگر آپ ان سوالات کو موضوع بحث نہیں سمجھتے کسی وجہ سے تو ویسے ہی اپنا موقف بتادیں ہمارے علم کے لئے۔ آپ کی بڑی نوازش ہوگی۔
پوسٹ نمبر34 کی طرف رجوع کریں۔
آپکی تصدیق اور آپ ہی کے مرتب کردہ سوالات کا جواب آپ ہی کی طرف سے آنے کے بعدان سوالات پر دلائل کا آغاز کردیا جائے گا۔
دلائل کا آغاز نہ کریں۔ اور فی الحال دلائل سنبھال کر رکھیں۔ جس ٹائم آئے گا۔ آپ سے دلائل بھی طلب کرلیے جائیں گے۔ ان شاءاللہ ۔۔۔ آپ کی باتوں سے اب معلوم ہوگیا کہ اب پھر ایک سے شروع ہونے لگے ہیں۔ اور ان سوالات پہ آگئےہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ پوسٹ نمبر34 میں جو پوچھا ہے اس کا جواب دے دیں۔ شکریہ ہوگا۔
بڑی آسانی اور معصومیت سے اسے فضول کہدیا اور خوش ہوگئے کہ۔۔۔۔ گئی بھینس پانی میں۔
بھینس کو پانی سے نکالنا جانتے ہیں۔ (ابتسامہ)
شکریہ
فضول کیوں اور کس دائرہ میں کہا۔ اس پر بھی نظر کریں۔ اور پھر شاید آپ کو یہ بھی معلوم ہوجائے کہ جو بھینس کو پانی سے نکالنا جانتے ہیں وہ ڈبونا بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔
آپ کی تصدیق اور آپ کے مرتب کردہ سوالات کے جواب کا انتظار رہے گا، اور امید ہے آپ اپنی اگلی پوسٹ میں اپنی بات تصدیق اور سوال کے جواب تک محدود رکھیں گے۔
1۔طلاق بدعی میں بدعت کو بمعنی لغو لیا ہے۔ اور اس پر آپ کی باتوں کی تصدیق وتکذیب ووضاحت بھی کردی ہے۔
2۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بات پھر نئے سرے سے شروع کریں، تو آپ پوسٹ نمبر34 کا جواب دیں۔
 
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
95
پوائنٹ
64
یہاں دو باتیں قابل غور ہیں:

1۔ اگر ہم تمام دلائل پر غور کریں جوکہ جمہور کی طرف سے دیے جاتے ہیں تو یہ تمام دلائل تین طلاقوں کے ایک ہی واقع ہونے کی نفی میں ہیں۔ کیا قرآن و سنت یا اقوال صحابہ میں سے کوئ ایسی دلیل بھی ہے جو کہ جمہور کے قول کے اثبات پر دلیل ہو؟ یعنی جمہور کے پاس ہمارے قول کی نفی میں تو دلائل موجود ہیں لیکن اپنے قول کے اثبات میں بھی کیا ان کے پاس کوئ دلیل ہے؟

2۔ کیا جسکو طلاق پہلے ہی دی جاچکی ہے اسپر ایک اور طلاق کا اضافہ ہو سکتا ہے؟ یعنی مطلقہ کو طلاق دینا کیا عجیب نہیں اگر چہ وہ اپنی عدت ایام میں ہی کیونہ ہو؟
قرآن مجید کی یہ آیت بہت سے پیچیدہ مسلے حل کرتی ہے:"الطلاق مرتان" لفظ ’مرتان’ کا استعمال تب ہوتا ہے جبکہ پہلے کی تکمیل ہوجائے۔ اسکی مثال ویسے تو اوپر مضمون میں بہی دی جاچکی ہے لیکن میں ایک اور دیے دیتا ہوں۔ اگر کوئ یہ کہے کہ میں لاہور دوبار گیا تو کیا دوبار جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دن وہاں ٹہرا رہا یا دو ہفتے یا دو مہینے یا دو سال۔ وہ جتنی دیر بھی وہاں رہے، جب تک وہ واپس آکے دوبارہ نہ چلا جائے ’دوبار’ جانے کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے دوبار طلاق بھی اس بات کو متقاضی ہے کہ جب تک رجوع نہ ہو جائے پہلی طلاق سے تو دوسری کا شمار کرنا فضول ہے۔ لفظ کی تکرار چاہے سو دفعہ کردی جائے۔
اسی طرح لفظ طلق کا معنی عربی زبان میں ’تحرّر من قید’ یعنی قید سے آزاد ہونے کے ہیں جیسا کہ مؤرخین نے یہ روایت ذکر کی ہے:"إذهبوا فأنتم الطلقاء" يعنى جاؤ آج تم سب آزاد ہو۔
تو جو پہلے ہی آزاد ہوچکا ہے اسے دوبارہ آزاد کردینے کا کیا معنی ہے؟ ہاں اگر اسکو دوبارہ قید کردیا جائے تو پہر اسے آزادی کا پروانہ دینے کا معنی بنتا ہے۔

هذا ما عندي والله تعالى أعلم بالصواب!
 
Top