محترم بھائی ہر بات اس طرح آپ قران سے ثابت نہیں کر سکتے ورنہ پھر یہی بریلوی تو کہتے ہیں کہ جیسے کتاب کا علم رکھنے والے عالم نے سلیمان علیہ السلام کو تخت لا دیا تھا اسی طرح ہمارے عالم بھی بگڑی بنا سکتے ہیں
صاحب مضمون نے یہ موقف اختیار کیا اللہ کا قانون ہے کہ کوئی شخص بھی مرنے کے بعد واپس نہیں آسکتا اور اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے جو اپنے پردادا کے زندہ ہونے کا واقعہ بیان کیا ہے وہ اس قانون کے مخالف ہے ۔ جب کہ میں کہ رہا ہوں مرنے کے بعد زندہ ہونے کے واقعات جب قرآن میں ہیں تو اشرف علی تھانوی پر اعتراض کیوں
حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالی نے مرنے کے سو سال بعد زندہ کیا
فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ
نہ صرف ان کو بلکہ ان کے گدھے کو بھی زندہ کیا
وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا
ایک جماعت کے متعلق بھی قرآن میں ذکر ہے جس کو مرنے کے بعد زندہ کیا گيا
: ألم تر إلى الذين خرجوا من ديارهم وهم ألوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا ثم أحياهم إن الله لذو فضل على الناس ولكن أكثر الناس لا يشكرون
نبی اسرائیل کے واقعہ میں ایک شخص کو ذندہ کیا گيا
فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيي الله الموتى ويريكم آياته لعلكم تعقلون
واقعہ ابراھیم علیہ السلام میں اللہ تبارک و تعالی نے چار پرندوں کو زندہ کیا
{وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِـي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَى وَلَـكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءاً ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْياً وَاعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ }
سورة البقرة260
اس کو بریلویوں کے طرز استدلال قرار دینا سمجھ سے بالا تر ہے
بات ہر معجزہ یا کرامت کے انکار کی نہیں بلکہ اس کرامت کا انکار ہے جس میں دو باتیں بیک وقت پائی جائیں
1۔فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ما تشابہکے تحت لوگ اس سے مدد کی دلیل نکال لیں جیسے سلیمان علیہ السلام کے واقعہ سے نکالتے ہیں
یہاں کسی نے بھی اشرف علی تھانوی کی کرامت سے کوئی عقیدہ یا مسئلہ استباط نہیں کیا
2۔اوپر سے اسکی سند پر محدثین کے اصول ہی لاگو نہ کیے گئے ہوں بس یہ کہ کر کہ یہ واقعہ خاندان میں مشہور ہے سب کچھ ٹھیک کر دیا گیا ہو
محترم بھائی ہم یہ نہیں کہتے کہ اس طرح کی باتیں خالی آپ لوگوں میں ہیں بلکہ ہم اقرار کرتے ہیں ہم اہل حدیث بھی اس طرح کی باتیں کرتے ہیں جیسے کرامات اہل حدیث وغیرہ تو ہم اسکو اہل حدیث ہی نہیں سمجھتے کہ جب باقیوں سے ہم اسماء الرجال کی بحثیں کر رہے ہوتے ہیں اور اہل حدیث کی کرامات کے وقت اصول حدیث کو پتا نہیں کیوں بھول جاتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر ہوتا ہے یہ اللہ جانتا ہے میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ جو غلط ہے اسکا میں کیوں دفاع کروں
محترم لگتا ہے اسماء الرجال اور اصول حدیث کا مطالعہ آپ نے نہیں کیا ۔ اگر امام بخاری رحمہ اللہ اگر دو صحابہ کی ملاقات یا عدم ملاقات کے متعلق کچھ کہیں تو آپ حضرات وہاں سند نہیں مانتے بلکہ من و عن تسلیم کرلیتے ہیں وہاں سند کا مطالبہ کہاں چلا جاتا ہے
اگر بغیر سند کے بات کسی مسئلہ کے استنباط کیے بغیر کوئي واقعہ یا قول نقل کرنا اہل حدیث کا شیوا نہیں تو پھر آپ نے امام بخاری کو بھی اپنی جماعت سے نکال دیا ہے کیوں کہ بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد مقامات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال بلا سند نقل کیا ہے
Dua
آپ نے قرآنی واقعات کی دلیل مانگی تھی وہ واقعات اوپر نقل کردیے گئے ہیں