• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تین طلاق پر ایک حنفی بھائی کی تحریرکا جائزہ

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
امام ابو حنیفہ شوال کے روزوں کو مکروہ کہتے تھے مگر احناف اس کے استحباب کے قائل ہیں. احناف نے امام ابو حنیفہ کے قول کو صحیح حدیث کی وجہ ترک کیا
لو آپ کے چیلنج کا جواب ہو گیا
ایک مثال تو آپ کو دکھادی کہ احناف امام ابو حنیفہ کے اس قول پر عامل ہیں کہ صحیح حدیث کی وجہ سے امام ابو حنیفہ کے قول کو ترک کردیتے ہیں
آپ کا دعوی ہے کہ احناف امام ابو حنیفہ کا قول نہیں چھوڑتے, حدیث چھوڑ دیتے ہیں تو آپ مجھے صرف ایک حنفی دکھا دیں جس نے ہر شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ کے قول پر عمل کیا ہو اور کسی شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ کی مخالفت نہ کی ہو
آپ کے جواب کا انتظار رہے گا
آپ نے بہت بڑا چیلنج قبول کیا ہے ، آپ کی بات مان لینے سے ایوان تقلید میں زلزلہ برپا ہوجائے گا۔بروقت اتنا کہنا چاہتاہوں کہ آپ کی یہ بات قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یہ تقلید کے خلاف ہے اور فقہائے احناف نے تقلید کی حفاظت اور لوگوں کو امام کے قول سے موئے سر بھی انحراف سے بچانے کے لئے اصول متعین کئے ہیں۔ دیکھ لیں۔
ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء حنفیہ)کے قو ل کے خلاف ہو گی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گااور اولیٰ یہ ہے کہ اس آیت کی تاؤیل کر کے اسے (فقہاء کے قول) کے موافق کر لیا جائے۔
(اصول کرخی، صفحہ 12 )
اسی طرح دیگر علمائے احناف کے چند اقوال دیکھیں:
مولانا اشرف علی تھانوی سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۱کی تفسیر میں فائدہ کے تحت رقم طرا ز ہیں:
یعنی ان کی اطاعت تحلیل اور تحریم میں مثل طاعت خدا کے کرتے ہیں کہ نص پر ان کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسی اطاعت بالکل عبادت ہے۔پس اس حساب سے وہ انکی عبادت کرتے ہیں۔
(القرآن الحکیم مع تفسیر بیان القرآن از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، صفحہ 172 طبع تاج کمپنی لمیٹیڈ پاکستان)
مولانا اشرف علی تھانوی سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۱کی تفسیر میں فائدہ کے تحت رقم طرا ز ہیں:
یعنی ان کی اطاعت تحلیل اور تحریم میں مثل طاعت خدا کے کرتے ہیں کہ نص پر ان کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسی اطاعت بالکل عبادت ہے۔پس اس حساب سے وہ انکی عبادت کرتے ہیں۔
(القرآن الحکیم مع تفسیر بیان القرآن از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، صفحہ 172 طبع تاج کمپنی لمیٹیڈ پاکستان)
مفتی تقی عثمانی دیوبندی رقم طراز ہیں:
بلکہ ایسے شخص کو اگر اتفاقاً کوئی حدیث ایسی نظر آجائے جو بظاہر اس کے امام مجتہد کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام و مجتہد کے مسلک پر عمل کرے...... اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پاکر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے، تو اس کا نتیجہ شدید افراتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 87)

چناچہ اس کا کام صرف تقلیدہے، اور اگر اسے کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف نظر آئے تب بھی اسے اپنے امام کا مسلک نہیں چھوڑنا چاہیے۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 92)

ا ن کا کام یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے امام مجتہد کے قول پر عمل کریں،اور اگر انہیں کوئی حدیث امام کے قول کے خلاف نظر آئے تو اس کے بارے میں سمجھیں کہ اس کا صحیح مطلب یا صحیح محمل ہم نہیں سمجھ سکے۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 94)
ویسے تو اس قسم کے اقوال بہت ہیں مگر آنکھ کھولنے کے لئے یہ کافی ہیں۔
تفصیل کے لئے کلک کریں۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
مجتہد (فقیہ) وہی ہوتا ہے جسے تمام دینی علوم پر عبور حاصل ہو۔ عامی کے لئے کسی مجتہد کی بات مانے بغیر چارہ نہیں۔ علم کے حصول کی ترغیب ہے اور روز مرہ کی ضروریات کے متعلق دین کا علم ہر کسی کو ہونا ضروری ہے مگر اس کے دلائل کا علم حاصل کرنا ہر کسی کو لازم نہیں اور نہ ہی یہ ہر کسی کے لئے ممکن ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے؛
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (التوبة: 122(
جب تک کوئی مجتہد اور فقیہ کا درجہ نہیں پا لیتا کیا وہ عامی یا آپ کے ہاں جاہل ہی کہلائے گا(کیوں کہ جزئیات میں تقلید اس کی مجبوری ہے)؟
آپ کے حساب سے صرف چارمجتہد ہیں باقی ان چاروں کے بعد قیامت تک کوئی مجتہد پیدا نہ ہوگا ، اگر مانتے ہیں ان چار کے علاوہ بھی مجتہدآئے ہیں اور آتے رہیں گے تو پھر دین کی بصیرت ، فہم ، حکمت ،تدبر ان چار میں مقید کرنا سراسر زیادتی ہے بلکہ ان چار کی تقلید سے امت کو مقید کرنے سب سے پہلے صحابہ ہی خارج ہوجاتے ہیں جنہوں کے دین کو سب سے زیادہ سمجھا۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
آپ نے بہت بڑا چیلنج قبول کیا ہے ، آپ کی بات مان لینے سے ایوان تقلید میں زلزلہ برپا ہوجائے گا۔بروقت اتنا کہنا چاہتاہوں کہ آپ کی یہ بات قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یہ تقلید کے خلاف ہے اور فقہائے احناف نے تقلید کی حفاظت اور لوگوں کو امام کے قول سے موئے سر بھی انحراف سے بچانے کے لئے اصول متعین کئے ہیں۔ دیکھ لیں۔
ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء حنفیہ)کے قو ل کے خلاف ہو گی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گااور اولیٰ یہ ہے کہ اس آیت کی تاؤیل کر کے اسے (فقہاء کے قول) کے موافق کر لیا جائے۔
(اصول کرخی، صفحہ 12 )
اسی طرح دیگر علمائے احناف کے چند اقوال دیکھیں:
مولانا اشرف علی تھانوی سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۱کی تفسیر میں فائدہ کے تحت رقم طرا ز ہیں:
یعنی ان کی اطاعت تحلیل اور تحریم میں مثل طاعت خدا کے کرتے ہیں کہ نص پر ان کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسی اطاعت بالکل عبادت ہے۔پس اس حساب سے وہ انکی عبادت کرتے ہیں۔
(القرآن الحکیم مع تفسیر بیان القرآن از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، صفحہ 172 طبع تاج کمپنی لمیٹیڈ پاکستان)
مولانا اشرف علی تھانوی سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۱کی تفسیر میں فائدہ کے تحت رقم طرا ز ہیں:
یعنی ان کی اطاعت تحلیل اور تحریم میں مثل طاعت خدا کے کرتے ہیں کہ نص پر ان کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسی اطاعت بالکل عبادت ہے۔پس اس حساب سے وہ انکی عبادت کرتے ہیں۔
(القرآن الحکیم مع تفسیر بیان القرآن از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، صفحہ 172 طبع تاج کمپنی لمیٹیڈ پاکستان)
مفتی تقی عثمانی دیوبندی رقم طراز ہیں:
بلکہ ایسے شخص کو اگر اتفاقاً کوئی حدیث ایسی نظر آجائے جو بظاہر اس کے امام مجتہد کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام و مجتہد کے مسلک پر عمل کرے...... اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پاکر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے، تو اس کا نتیجہ شدید افراتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 87)

چناچہ اس کا کام صرف تقلیدہے، اور اگر اسے کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف نظر آئے تب بھی اسے اپنے امام کا مسلک نہیں چھوڑنا چاہیے۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 92)

ا ن کا کام یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے امام مجتہد کے قول پر عمل کریں،اور اگر انہیں کوئی حدیث امام کے قول کے خلاف نظر آئے تو اس کے بارے میں سمجھیں کہ اس کا صحیح مطلب یا صحیح محمل ہم نہیں سمجھ سکے۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 94)

ویسے تو اس قسم کے اقوال بہت ہیں مگر آنکھ کھولنے کے لئے یہ کافی ہیں۔
تفصیل کے لئے کلک کریں۔
محترم آپ کا دعوی ہے کہ احناف کہتے ہیں کہ امام کے قول کو چھوڑا نہیں جاسکتا حدیث کو چھوڑا جاسکتا ہے. اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کچھ حنفی علماء کے قول ذکر کیے ہیں
ان اقوال کا وہ مطلب نہیں جو آپ لے رہے ہیں.
ان اقوال کے مفہوم پر بات کے لئے ایک طویل وقت چاہئے. اس بات کا مختصر حل کا ایک سیدھا سادھا طریقہ میں نے ذکر کیا تھا مجھے ایک حنفی دکھا دیں جس نے کسی شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ کے قول کو نہ چھوڑا ہو. لیکن آپ نے اس بات پر کچہ نہیں کہا آخر احناف کیوں شوال کے روزوں کے معاملہ پر امام ابو حنیفہ کے قول کو چھوڑتے ہیں آپ صرف اس کا جواب دے دیں
اس طرح کی کئی مثالیں اور بھی دی جاسکتی ہیں۔
اگر ان اقوال کا وہی مطلب ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں تو ان علماء نے بعض معاملات میں کیو ں امام ابو حنیفہ سے اختلاف کیا
آخر عملا ایسا کیوں نہیں کہ احناف ہر معاملہ پر امام ابو حنیفہ کے قول پر عمل کرتے ہوں سوچئے گا ضرور
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
آپ نے بہت بڑا چیلنج قبول کیا ہے ، آپ کی بات مان لینے سے ایوان تقلید میں زلزلہ برپا ہوجائے گا۔بروقت اتنا کہنا چاہتاہوں کہ آپ کی یہ بات قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یہ تقلید کے خلاف ہے اور فقہائے احناف نے تقلید کی حفاظت اور لوگوں کو امام کے قول سے موئے سر بھی انحراف سے بچانے کے لئے اصول متعین کئے ہیں۔ دیکھ لیں۔
ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء حنفیہ)کے قو ل کے خلاف ہو گی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گااور اولیٰ یہ ہے کہ اس آیت کی تاؤیل کر کے اسے (فقہاء کے قول) کے موافق کر لیا جائے۔
(اصول کرخی، صفحہ 12 )
اسی طرح دیگر علمائے احناف کے چند اقوال دیکھیں:
مولانا اشرف علی تھانوی سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۱کی تفسیر میں فائدہ کے تحت رقم طرا ز ہیں:
یعنی ان کی اطاعت تحلیل اور تحریم میں مثل طاعت خدا کے کرتے ہیں کہ نص پر ان کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسی اطاعت بالکل عبادت ہے۔پس اس حساب سے وہ انکی عبادت کرتے ہیں۔
(القرآن الحکیم مع تفسیر بیان القرآن از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، صفحہ 172 طبع تاج کمپنی لمیٹیڈ پاکستان)
مولانا اشرف علی تھانوی سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۱کی تفسیر میں فائدہ کے تحت رقم طرا ز ہیں:
یعنی ان کی اطاعت تحلیل اور تحریم میں مثل طاعت خدا کے کرتے ہیں کہ نص پر ان کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسی اطاعت بالکل عبادت ہے۔پس اس حساب سے وہ انکی عبادت کرتے ہیں۔
(القرآن الحکیم مع تفسیر بیان القرآن از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، صفحہ 172 طبع تاج کمپنی لمیٹیڈ پاکستان)
مفتی تقی عثمانی دیوبندی رقم طراز ہیں:
بلکہ ایسے شخص کو اگر اتفاقاً کوئی حدیث ایسی نظر آجائے جو بظاہر اس کے امام مجتہد کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام و مجتہد کے مسلک پر عمل کرے...... اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پاکر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے، تو اس کا نتیجہ شدید افراتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 87)

چناچہ اس کا کام صرف تقلیدہے، اور اگر اسے کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف نظر آئے تب بھی اسے اپنے امام کا مسلک نہیں چھوڑنا چاہیے۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 92)

ا ن کا کام یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے امام مجتہد کے قول پر عمل کریں،اور اگر انہیں کوئی حدیث امام کے قول کے خلاف نظر آئے تو اس کے بارے میں سمجھیں کہ اس کا صحیح مطلب یا صحیح محمل ہم نہیں سمجھ سکے۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 94)

ویسے تو اس قسم کے اقوال بہت ہیں مگر آنکھ کھولنے کے لئے یہ کافی ہیں۔
تفصیل کے لئے کلک کریں۔
محترم ان سب کے ”سکین پیج“ لگا دیں تاکہ اصل عبارات سیاق و سباق کے ساتھ دیکھی جاسکیں۔ شکریہ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
یہ تو آپ کے بھائی فضیل احمد ناصر کی دی ہوئی دلیل ہے۔
یہ میں نے اس لئے پوچھا ہے کہ آپ نے ”پہلی دلیل“ پر یوں تبصرہ کیا ہے؛
اس حدیث کا لبِ لباب یہ ہے کہ حضورعلیہ السلام کو بتایا گیا کہ ایک صاحب نے اپنی بیوی کو اکٹھے تین طلاقیں دے دی ہیں،اس پر حضور شدید ناراض ہوے اور فرمایا: کیا میری زندگی میں ہی اللہ کی کتاب سے کھلواڑ کیا جاے گا؟ آپ کی ناراضگی دیکھ کر ایک صحابی نے درخواست کی کہ حضور! آپ اجازت دیں تو اس کی گردن اڑادوں۔
اس حدیث میں ایک ساتھ تین طلاق ، تینوں واقع ہوجاتی ہیں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ اس میں صرف تین طلاق دینے کا ذکر ہے جس پر آپ ﷺ غضبناک ہوگئے ۔ بہت ساری احادیث سے ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہونے کا صراحت کے ساتھ ثبوت ملتا ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کو حدیث کی صحت پر اعتراض نہیں ہے۔
کیا ایسا ہی ہے؟
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
محترم آپ کا دعوی ہے کہ احناف کہتے ہیں کہ امام کے قول کو چھوڑا نہیں جاسکتا حدیث کو چھوڑا جاسکتا ہے. اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کچھ حنفی علماء کے قول ذکر کیے ہیں
ان اقوال کا وہ مطلب نہیں جو آپ لے رہے ہیں.
ان اقوال کے مفہوم پر بات کے لئے ایک طویل وقت چاہئے. اس بات کا مختصر حل کا ایک سیدھا سادھا طریقہ میں نے ذکر کیا تھا مجھے ایک حنفی دکھا دیں جس نے کسی شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ کے قول کو نہ چھوڑا ہو. لیکن آپ نے اس بات پر کچہ نہیں کہا آخر احناف کیوں شوال کے روزوں کے معاملہ پر امام ابو حنیفہ کے قول کو چھوڑتے ہیں آپ صرف اس کا جواب دے دیں
اس طرح کی کئی مثالیں اور بھی دی جاسکتی ہیں۔
اگر ان اقوال کا وہی مطلب ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں تو ان علماء نے بعض معاملات میں کیو ں امام ابو حنیفہ سے اختلاف کیا
آخر عملا ایسا کیوں نہیں کہ احناف ہر معاملہ پر امام ابو حنیفہ کے قول پر عمل کرتے ہوں سوچئے گا ضرور
ظاہر سی بات ہے کسی بھی امر کو اصول کی کسوٹی پرپرکھا جاتا ہے،جب میں نے کرخی کےاصول پر آپ کی پیش کردہ بات تولی تو قابل رد معلوم ہوئی اس وجہ سے پہلے بھی بتایا تھا اور اب بھی بتارہاہوں کہ آپ کی یہ بات قابل قبول نہیں ہے ۔ یہ بات اس وقت قبول ہوگی جب آپ اپنے معتبر علماء نے یہ اقوال پیش کریں کہ شوال کے روزوں کے متعلق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے غلطی ہوئی یا امام صاحب کا یہ قول صحیح حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے ہم احناف امام صاحب کا یہ قول اختیار نہیں کریں گے صحیح حدیث پر عمل کریں گے ۔یا پھر معتبرعلمائے احناف سےیہ اصول لے کر آئیں کہ اگر امام کا کوئی قول قرآن وحدیث کے خلاف ہوتو اسے چھوڑدیں گے تاکہ جب بھی ہمارے اور آپ کے درمیان اختلافی بات ہوتو بطورسند ہم اس اصول کو پیش کرسکیں اور مسلمانوں کو صرف قرآن وحدیث پر عمل کرنے کی طرف بلاسکیں نہ کہ تقلیدکی طرف۔اس کے بعد لوگوں کو یہ بات سمجھانا آسان ہوگا کہ ایک مجتہد سے غلطی ہوسکتی ہے ،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بھی غلطی ہوئی اس لئے ایک متعین امام ومجتہد کی تقلید لازم قرار دینا اور اسے ذریعہ نجات قرار دینا لغو ٹھہرے گا۔ یعنی ان باتوں سے تقلید کا بطلان ثابت ہوجائے گا۔
آپ نے اصرار کیا ہے کہ احناف کیوں شوال کے روزوں پر امام ابوحنیفہ کا قول چھوڑ دیتے ہیں؟ اس کا معقول جواب تو آپ کو دینا ہے کیونکہ اسے آپ ہی پیش کررہے ہیں ،مجھے تو آپ کی پیش کردہ بات سے متعلق سوالات کرنے ہیں جواب آپ کو دینا ہے ۔
آپ سے ایک سوال ہے کہ علمائے احناف رفع یدین کومنسوخ مانتے ہیں جبکہ مولاناعبدالحی حنفی لکھنوی کہتے ہیں کہ رفع یدین منسوخ نہیں بلکہ ثابت اور مشروع ہے۔ کیا آپ اپنے اس عالم کی اس بات کو دلیل وحجت مانتے ہیں ؟ ایسی بہت سی مثالیں ہیں بس اس کا جواب دیں ہاں یا نہیں میں بات گھمانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
آپ کے حساب سے صرف چارمجتہد ہیں باقی ان چاروں کے بعد قیامت تک کوئی مجتہد پیدا نہ ہوگا ، اگر مانتے ہیں ان چار کے علاوہ بھی مجتہدآئے ہیں اور آتے رہیں گے تو پھر دین کی بصیرت ، فہم ، حکمت ،تدبر ان چار میں مقید کرنا سراسر زیادتی ہے بلکہ ان چار کی تقلید سے امت کو مقید کرنے سب سے پہلے صحابہ ہی خارج ہوجاتے ہیں جنہوں کے دین کو سب سے زیادہ سمجھا۔
خیر القرون میں اہل سنت مجتہدین کافی تعداد میں تھے۔ کچھ کی فقہیں ایک دوسرے میں ضم ہو گئیں۔ اس طرح ہوتے ہوتے اہلِ سنت کی صرف چار فقہیں رہ گئیں۔ یہ آپس میں ضم نہ ہوسکیں۔ اس کی وجہ شائد یہ ہو کہ افہام و تفہیم والے بعد میں نہ آ سکے۔
اجتہاد بند تو نہیں لیکن جن امور پر اجتہادات ہوچکے ان سے ہٹ کر فی زمانہ اجتہادی فتنہ گر بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ آئے روز کوئی نہ کوئی اجتہادات میں ترمیم کا واویلا مچاتا ہی رہتا ہے۔
ہاں البتہ نئے پیش آمدہ مسائل کا حل کتاب و سنت کی روشنی میں بتایا جائے۔
فقہی اختلاف کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ احادیث کے فہم میں اختلاف ہو، یا کسی حدیث کے ناسخ و منسوخ میں اختلاف ہو، یا کسی حدیث کے راجح اور مرجوح کا اختلاف ہو یعنی کسی حدیث کے سنت ہونے یا سرف جواز مہیا کرنا وغیرہ۔
یہ نعرہ کہ جس کا اجتہاد قرآن و حدیث کے موافق ہو اسے اپنا لو انتہائی خطرناک ہے۔ وہ اس طرح کہ کوئی شاطر منسوخ احادیث لے کر عامیوں میں پھلانا شروع ہو جائے تو اکثر متفق علیہ اجتہادات سے بھی لوگوں کو برگشتہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور ایسا ہورہا ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے تمام مسائل قرآن و حدیث ہی سے اخذ کیئے ہیں جس طرح کہ باقی آئمہ نے کیئے ہیں۔ اختلاف صرف ان میں ہے جس کے ناسخ و منسوخ کا اختلاف ہے یا تفہیم میں فرق ہے۔
ابو حنفہ رحمۃ اللہ علیہ کو ”اہل الرائے“ اس لئے نہیں کہا جاتا کہ انہوں نے مسائل کو صرف رائے سے لکھوایا ہے بلکہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بہت سے ایسے مسائل کا حل بھی (قرآن و سنت کی روشنی میں) بتایا جن کا وقوع ممکن تھا۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ظاہر سی بات ہے کسی بھی امر کو اصول کی کسوٹی پرپرکھا جاتا ہے،جب میں نے کرخی کےاصول پر آپ کی پیش کردہ بات تولی تو قابل رد معلوم ہوئی اس وجہ سے پہلے بھی بتایا تھا اور اب بھی بتارہاہوں کہ آپ کی یہ بات قابل قبول نہیں ہے ۔ یہ بات اس وقت قبول ہوگی جب آپ اپنے معتبر علماء نے یہ اقوال پیش کریں کہ شوال کے روزوں کے متعلق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے غلطی ہوئی یا امام صاحب کا یہ قول صحیح حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے ہم احناف امام صاحب کا یہ قول اختیار نہیں کریں گے صحیح حدیث پر عمل کریں گے ۔یا پھر معتبرعلمائے احناف سےیہ اصول لے کر آئیں کہ اگر امام کا کوئی قول قرآن وحدیث کے خلاف ہوتو اسے چھوڑدیں گے تاکہ جب بھی ہمارے اور آپ کے درمیان اختلافی بات ہوتو بطورسند ہم اس اصول کو پیش کرسکیں اور مسلمانوں کو صرف قرآن وحدیث پر عمل کرنے کی طرف بلاسکیں نہ کہ تقلیدکی طرف۔اس کے بعد لوگوں کو یہ بات سمجھانا آسان ہوگا کہ ایک مجتہد سے غلطی ہوسکتی ہے ،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بھی غلطی ہوئی اس لئے ایک متعین امام ومجتہد کی تقلید لازم قرار دینا اور اسے ذریعہ نجات قرار دینا لغو ٹھہرے گا۔ یعنی ان باتوں سے تقلید کا بطلان ثابت ہوجائے گا۔
۔
ما شاء اللہ آپ نے ہمارے علماء کے قول سے اپنا مفہوم اخذ کیا اور جو بات میں نے پیش کی اس کو اس مفہوم پر پیش کر کے میری بات رد کردی ہونا تو یہ چاہئے جو عملی ثبوت میں نے پیش کیا اس کی بنیاد پر اپنا مفہوم رد کرتے اور سمجھتے یہاں سمجھنے میں کچھ غلطی ہوئی ہے.
محترم اگر احناف ہر صورت میں امام کا قول نہیں چھوڑتے تو شوال کے روزوں کے بارے میں کیوں اپنے امام کا قول چھوڑ رہے ہیں. یہ صرف ایک مثال ہے مذید مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں
آپ نے کچہ مخصوص اقوال کا مطالبہ کیا ہے یہ الفاظ دکھاؤ. محترم آپ کی بات سے جو مفہوم نکلتا ہے میں وہ مفہوم والے اقوال ذکر دیتا ہوں
اشرف علی تھانوی کا قول پیش خدمت ہے
اگر کسی اور جزئی میں بھی ہم کو معلوم ہوجائے کہ حدیث صریح منصوص کے خلاف ہے تو اس کو بھی چھوڑ دیں گے اور تقلید کے خلاف نہیں آخر بعض مواقع میں امام صاحب کے اقوال کو بھی چھوڑا گیا ھے
آگے چل کر مزید کہتے ہیں
اور خود امام صاحب ہوتے اور اس وقت اس سے دریافت کیا جاتا تو وہ بھی یہی فرماتے تو گویا اس چھوڑنے میں بھی امام صاحب کی اطاعت ہے
فقہ حنفی کے اصول و ضوابط صفحہ 32
تقلید کی شرعی حیثیت کا آپ نے حوالہ دیا. لیکن لگتا ہے کہ آپ نے پوری کتاب نہیں پڑہی محترم تقی عثمانی نے متبحر عالم کے بارے میں یہی بات کی ہے. اگر کہیں گے کہ تو کتاب سے اصل الفاظ لکھ دوں گا ان شاء اللہ
آپ نے اصرار کیا ہے کہ احناف کیوں شوال کے روزوں پر امام ابوحنیفہ کا قول چھوڑ دیتے ہیں؟ اس کا معقول جواب تو آپ کو دینا ہے کیونکہ اسے آپ ہی پیش کررہے ہیں ،مجھے تو آپ کی پیش کردہ بات سے متعلق سوالات کرنے ہیں جواب آپ کو دینا ہے ۔
آج کوئی جدت پسند قرآن یا حدیث سے ایسا مفہوم اخذ کرتے ہیں یا کوئی نیا عمل سنت ثابت کرتے ہیں تو ہم ایک جواب یہ دیتے ہیں کیا کہ اگر یہ بات درست ہوتی تو ہمارے اسلاف ضرور اس پر عمل کرتے . میں نے بھی یہی بات کی ہے. اگر آپ کا اخذ کردہ ایسا ہوتا تو کبھی بھی امام کا قول نہ چھوڑتے لیکن عملا ایسا نہیں
چیلنج آپ نے کیا ہے مطالبات مجھ سے کر رہے ہیں کہ یہ الفاظ دکھاؤ وہ الفاظ دکھاؤ
اگر اپنے چیلج پر قائم ہیں تو مجھے ایک حنفی دکھائیں جس نے کسی معاملہ میں امام ابو حنیفہ کے قول کو نہ چھوڑا ہو.
آپ سے ایک سوال ہے کہ علمائے احناف رفع یدین کومنسوخ مانتے ہیں جبکہ مولاناعبدالحی حنفی لکھنوی کہتے ہیں کہ رفع یدین منسوخ نہیں بلکہ ثابت اور مشروع ہے۔ کیا آپ اپنے اس عالم کی اس بات کو دلیل وحجت مانتے ہیں ؟ ایسی بہت سی مثالیں ہیں بس اس کا جواب دیں ہاں یا نہیں میں بات گھمانے کی ضرورت نہیں ہے
ہر مسلک میں بعض علماء ہوتے ہیں جن کاکوئی قول مسلک کے جمہور علماء کے خلاف ہوتا ہے. ایسے شاذ اقوال آپ کے مسلک میں بھی ہیں
لیکن یہاں بھی میری بات ثابت ہو رہی ہے کہ ایک حنفی عالم اپنی تحقیق کی روشنی میں امام ابو حنیفہ سے اختلاف کر رہے ہیں . اور آپ کہتے ہیں حنفی اپنے امام کے قول کو نہیں چھوڑتے
 
Top