• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تین طلاق پر ایک حنفی بھائی کی تحریرکا جائزہ

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
طبیعت ساتھ نہیں دے رہی ہے ، مختصر یہ کہ بدستور میرا مطالبہ یہی ہے کہ شوال کے روزوں کے متعلق مجھے متعبرحنفی کتاب سے بحیثیت اصول حوالہ چاہئے کہ شوال کے روزوں کے متعلق امام ابوحنیفہ سے غلطی ہوئی یا ان کا قول صحیح حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے امام صاحب کے اس موقف کوہم حنفی تسلیم نہیں کرتے یا پھر ایسا اصول لائیں کہ امام صاحب کی بات صحیح حدیث سے ٹکرانے پر ہم حنفی چھوڑدیں گے ۔ یہ مطالبہ اس وجہ سے ہے کہ آپ جو مثال پیش کررہے ہیں وہ تقلید اور تقلیدی اصول کے خلاف ہے ۔ ایک طرف شوال کا روزہ پیش کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف اپنے ہی حنفی علماء کی بات تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہ حنفی مذہب کے خلاف ہے مثلا بعض احناف آمین بالجہر کے قائل ہیں ، بعض رفع یدین کے قائل ہیں ، بعض قرات خلف الامام کے قائل ہیں ، بعض منی پاک ہونے کے قائل ہیں ، بعض ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک تسلیم کرتے ہیں ۔ ہزاروں ایسے مسائل ہیں آپ لوگ اپنے ہی علماء کی ان باتوں کو حجت نہیں مانتے کیونکہ یہ تقلید اور تقلیدی مذہب کے خلاف ہے توپھر بغیر اصول کے شوال والی بات میں کیسے تسلیم کرلوں ۔ میں تو چاہتاہوں کہ کچھ ثبوت اس قسم کے مجھے ہاتھ لگے کہ تقلید کا جمود توڑا جاسکے اور لوگوں کو ہلاکت سے بچایاجاسکے ۔ جس چیز کا مطالبہ ہے اسے دلیل سے ثابت کریں ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
خیر القرون میں اہل سنت مجتہدین کافی تعداد میں تھے۔ کچھ کی فقہیں ایک دوسرے میں ضم ہو گئیں۔ اس طرح ہوتے ہوتے اہلِ سنت کی صرف چار فقہیں رہ گئیں۔ یہ آپس میں ضم نہ ہوسکیں۔ اس کی وجہ شائد یہ ہو کہ افہام و تفہیم والے بعد میں نہ آ سکے۔
اجتہاد بند تو نہیں لیکن جن امور پر اجتہادات ہوچکے ان سے ہٹ کر فی زمانہ اجتہادی فتنہ گر بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ آئے روز کوئی نہ کوئی اجتہادات میں ترمیم کا واویلا مچاتا ہی رہتا ہے۔
ہاں البتہ نئے پیش آمدہ مسائل کا حل کتاب و سنت کی روشنی میں بتایا جائے۔
فقہی اختلاف کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ احادیث کے فہم میں اختلاف ہو، یا کسی حدیث کے ناسخ و منسوخ میں اختلاف ہو، یا کسی حدیث کے راجح اور مرجوح کا اختلاف ہو یعنی کسی حدیث کے سنت ہونے یا سرف جواز مہیا کرنا وغیرہ۔
یہ نعرہ کہ جس کا اجتہاد قرآن و حدیث کے موافق ہو اسے اپنا لو انتہائی خطرناک ہے۔ وہ اس طرح کہ کوئی شاطر منسوخ احادیث لے کر عامیوں میں پھلانا شروع ہو جائے تو اکثر متفق علیہ اجتہادات سے بھی لوگوں کو برگشتہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور ایسا ہورہا ہے۔
آپ کے اس قتباس کے ہرجملے پر مجھے لکھنے کا دل کررہاہے مگر میری طبیعت ساتھ نہیں دے رہی ہے اس لئے مجبور ہوں، خلاصہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس میں آپ کی کسی بات سے متفق نہیں ہوں سوائے فقہی اختلاف کے اسباب کے ، اس میں بھی کچھ صحیح اور کچھ غلط ہے ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
ایک طرف شوال کا روزہ پیش کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف اپنے ہی حنفی علماء کی بات تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہ حنفی مذہب کے خلاف ہے
اختلاف ”اجتہادی “ امور میں ہی جائز ہے اور اس میں ”مجتہد“ کی بات مانی جاتی ہے نہ کہ ”عالم“ کی کیونکہ مجتہد کو ہر دو صورت اجر ہی ملتا ہے اور اس پر عامل بھی مستحق اجر ہوتا ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
بعض احناف آمین بالجہر کے قائل ہیں ، بعض رفع یدین کے قائل ہیں ، بعض قرات خلف الامام کے قائل ہیں ، بعض منی پاک ہونے کے قائل ہیں ، بعض ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک تسلیم کرتے ہیں ۔
پہلی بات یہ کہ یہ ”بعض “احناف ”مجتہد“ نہیں اور ”تقلید“ مجتہد کی کِی جاتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ کیا ان کی بات حدیث کے مطابق اور دسروں کی مخالف کس طرح ہے؟
کسی غیر مجتہد کی بات کیوں کر تسلیم کی جائے؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
طبیعت ساتھ نہیں دے رہی ہے ، مختصر یہ کہ بدستور میرا مطالبہ یہی ہے کہ شوال کے روزوں کے متعلق مجھے متعبرحنفی کتاب سے بحیثیت اصول حوالہ چاہئے کہ شوال کے روزوں کے متعلق امام ابوحنیفہ سے غلطی ہوئی یا ان کا قول صحیح حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے امام صاحب کے اس موقف کوہم حنفی تسلیم نہیں کرتے یا پھر ایسا اصول لائیں کہ امام صاحب کی بات صحیح حدیث سے ٹکرانے پر ہم حنفی چھوڑدیں گے ۔ یہ مطالبہ اس وجہ سے ہے کہ آپ جو مثال پیش کررہے ہیں وہ تقلید اور تقلیدی اصول کے خلاف ہے ۔
مخصوص الفاظ جب مانگے جاتے ہیں جب بات نہ ماننی ہو. میں نےاشرف علی تھانوی کا قول پیش کردیا. اس کا مفھوم وہی ہے جو آپ ہم سے مانگ رہے ہیں. اگر جواب مطالبہ شدہ والے الفاظ میں چاھئے تو پھر ایسے مطالبات ہم بھی کرسکتے کہ آپ ہمیں رفع الیدین میں تا حیات کا لفظ دکھا دو اگر نہیں دکھا گے تو اس کا مطلب رفع الیدین منسوخ ہے آخر آپ اپنے الفاظ والے اقوال کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں جب کی اشرف علی تھانوی واضح کہ رہے ہیں کہ صحیح منصوص حدیث کی وجہ سے امام کا قول چھوڑا جائے گا.
۔
ایک طرف شوال کا روزہ پیش کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف اپنے ہی حنفی علماء کی بات تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہ حنفی مذہب کے خلاف ہے مثلا بعض احناف آمین بالجہر کے قائل ہیں ، بعض رفع یدین کے قائل ہیں ، بعض قرات خلف الامام کے قائل ہیں ، بعض منی پاک ہونے کے قائل ہیں ، بعض ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک تسلیم کرتے ہیں ۔ ہزاروں ایسے مسائل ہیں آپ لوگ اپنے ہی علماء کی ان باتوں کو حجت نہیں مانتے کیونکہ یہ تقلید اور تقلیدی مذہب کے خلاف ہے توپھر بغیر اصول کے شوال والی بات میں کیسے تسلیم کرلوں ۔ میں تو چاہتاہوں کہ کچھ ثبوت اس قسم کے مجھے ہاتھ لگے کہ تقلید کا جمود توڑا جاسکے اور لوگوں کو ہلاکت سے بچایاجاسکے ۔ جس چیز کا مطالبہ ہے اسے دلیل سے ثابت کریں
میں نے پہلی بھی کہا کہ ہر مسلک میں شاذ اقوال ہوتے ہیں. ہم شاذ اقوال پر عمل نہیں کرتے بلکہ مفتی بہ اقوال پر عمل کرتے ہیں . آپ کو اس لئے یہ لگ رہا ہے کہ ہم قرآن و حدیث پر عامل نہیں کیوں کہ آپ صرف اپنے مسلک کو حق پر سمجھتے ہیں.
اگر ہم رفع الیدین کر نا شروع کردیں, امام کے پیچھے قرآت شروع کردیں تو آپ پھر مانیں گے ہم قرآن وسنت پر عامل ہیں اور ہم امام کا قول چھوڑ سکتے ہیں اگر آپ کی یی سوچ ہے تو بات آگے بڑھانے کا کوئی فائدہ نہی
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
مخصوص الفاظ جب مانگے جاتے ہیں جب بات نہ ماننی ہو. میں نےاشرف علی تھانوی کا قول پیش کردیا. اس کا مفھوم وہی ہے جو آپ ہم سے مانگ رہے ہیں. اگر جواب مطالبہ شدہ والے الفاظ میں چاھئے تو پھر ایسے مطالبات ہم بھی کرسکتے کہ آپ ہمیں رفع الیدین میں تا حیات کا لفظ دکھا دو اگر نہیں دکھا گے تو اس کا مطلب رفع الیدین منسوخ ہے آخر آپ اپنے الفاظ والے اقوال کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں جب کی اشرف علی تھانوی واضح کہ رہے ہیں کہ صحیح منصوص حدیث کی وجہ سے امام کا قول چھوڑا جائے گا.
اس میں میرا مطالبہ ہے ہی نہیں ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
میں نے پہلی بھی کہا کہ ہر مسلک میں شاذ اقوال ہوتے ہیں. ہم شاذ اقوال پر عمل نہیں کرتے بلکہ مفتی بہ اقوال پر عمل کرتے ہیں . آپ کو اس لئے یہ لگ رہا ہے کہ ہم قرآن و حدیث پر عامل نہیں کیوں کہ آپ صرف اپنے مسلک کو حق پر سمجھتے ہیں.
اگر ہم رفع الیدین کر نا شروع کردیں, امام کے پیچھے قرآت شروع کردیں تو آپ پھر مانیں گے ہم قرآن وسنت پر عامل ہیں اور ہم امام کا قول چھوڑ سکتے ہیں اگر آپ کی یی سوچ ہے تو بات آگے بڑھانے کا کوئی فائدہ نہی
آپ کی بات حقیقت کا ترجمان نہیں ہے بلکہ دائیں بائیں سے کترانا ہے ۔ میرے مطالبہ کی وجہ بھی صاف ہے ۔
اسی قسم کی باتیں ناقابل قبول ہیں ، شوال کے روزوں کی بات آپ نے لے لی ، عبدالحی لکھنوی کی رفع یدین ثابت اور مشروع والی بات چھوڑدی (الٹے مجھ سے دلیل مانگنے لگے جبکہ یہاں میں اس موضوع پہ اہل حدیث کی طرف سے موقف کی بات ہی نہیں کی بلکہ حنفی مذہب کے عالم کا موقف پیش کیا) آپ نے مجھ سے رفع یدین کی تاحیات کی دلیل مانگی ،اگر نہ دے سکا تو منسوخ۔ یہیں پر آپ کا تضاد واضح ہوجاتا ہے ۔ شاذ کہہ کے کترانے سے نہیں ہوگا۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
اختلاف ”اجتہادی “ امور میں ہی جائز ہے اور اس میں ”مجتہد“ کی بات مانی جاتی ہے نہ کہ ”عالم“ کی کیونکہ مجتہد کو ہر دو صورت اجر ہی ملتا ہے اور اس پر عامل بھی مستحق اجر ہوتا ہے۔
جان بوجھ کر دین میں اختلاف کرنا جائز نہیں ہے ،ہاں کسی اجتہادی مسئلہ میں مجتہد سے اختلاف ہوجائے تو اور بات ہے اسے اختلاف کرنا نہیں کہیں گے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ" شوال کا چھ روزہ " یہ کونسا اجتہادی مسئلہ ہے ؟ نص صریح موجود ہے۔ یہاں مجتہد کی ضرورت ہی نہیں ۔عالم ہو، محدث ہو، مفتی ہو کوئی بھی حدیث دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ شوال کے شش روزوں کی بڑی فضیلت ہے ۔
اس وجہ سے میری اس بات پر
ایک طرف شوال کا روزہ پیش کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف اپنے ہی حنفی علماء کی بات تسلیم نہیں کرتے
آپ کا یہ جواب بالکل غلط ہے ۔
اختلاف ”اجتہادی “ امور میں ہی جائز ہے اور اس میں ”مجتہد“ کی بات مانی جاتی ہے نہ کہ ”عالم“ کی کیونکہ مجتہد کو ہر دو صورت اجر ہی ملتا ہے اور اس پر عامل بھی مستحق اجر ہوتا ہے۔
 
Top