مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
مجھے فضیل احمد ناصر نام کے ایک حنفی کی "مسئلۂ طلاق پر غیرمقلدین کب تک جھوٹ بولیں گے؟' عنوان پر تحریر ملی ہے ، اس تحریر میں موصوف نے جھوٹ اور کتربیونت سے کام لیا ہے ،سطور ذیل میں اس کا تجزیہ پیش کیا جارہاہے ۔
انہوں نے سب سے پہلے ہمیں غیرمقلد کا طعنہ دیا ہے ا س وجہ سے کہ ہم ائمہ اربعہ کی تقلید نہیں کرتے ۔ پہلے یہ جان لیں کہ مقلد کسے کہا جاتا ہے جو بغیردلیل جانے کسی کی بات مان لیتا ہے اور اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہے وہ مقلد ہوتا ہے اور جس کی بات مانی جاتی ہے وہ مجتہد، فقیہ اور امام ہوتاہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجتہد کا الٹا مقلد ہوتا ہے، بالفاظ دیگرمقلد جاہل، بے وقوف اور نادان کو کہا جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی حنفی خود کو مقلد نہیں لکھتا ، آپ نے تقلید پہ موٹی سے موٹی کتاب دیکھی ہوگی ، اسی کتاب میں اہل حدیثوں کو ہزاروں مرتبہ غیرمقلد لکھاہوگا مگر اپنے نام کے ساتھ یہ مقلد نہیں لگاتے یہی اس کے پیچھے راز ہے ۔
غیرمقلد کے بعد ہمیں "لامذہب" کا بھی طعنہ دیا ہے جبکہ اصل میں "لامذہب" بھی انہیں پر فٹ آتا ہے ۔ عام طور سے احناف بشمول دیوبندی وبریلوی خود کو عامی کہتے ہیں ۔ ان کےعلماءاور ان کی کتابیں عامی کو"لامذہب" قرار دیتے ہیں ۔
فقہ حنفی کی معتبر کتاب ردالمحتار للشامی میں مذکور ہے: ان من التزم مذھبا معینا کابی حنیفۃ والشافعی فقیل یلزمہ و قیل لاوھو الاصح وقد شاع ان العامی لامذہب لہ۔(ردالمحتار للشامی، ۱/۳۳)
ترجمہ : کسی نے اپنے اوپر ایک مذہب لازم کر لیا جیسے حنفی شافعی تو بعض احناف کہتے ہیں: اس پر اس مذہب سے چمٹے رہنا لازمی ہے اور بعض کہتے ہیں لازمی نہیں ہے۔شامی کہتے ہیں کہ دوسری بات زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ مشہور ہے کہ عامی لامذہب ہو ا کرتا ہے۔
اس سے ثابت ہوگیا یہ خود ہی لامذہب ہیں ۔
ہمارے متعلق یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ہم ائمہ کا احترام نہیں کرتے، ان کی بات نہیں مانتے ، ان کی تقلید نہیں کرتے ۔ سو واضح رہے تقلید تو جہالت ہے ۔ رہی بات ماننے اور احترام کرنے کی تو ایک مقلد سے زیادہ ہم اہل حدیث ائمہ اربعہ کا احترام بھی کرتے ہیں اور بات بھی مانتے ہیں ۔ ایک دو نمونہ پیش خدمت ہے۔
(1)احناف ائمہ اربعہ میں سے صرف ایک کی تقلید کرتے ہیں باقی تین کو تقلید کے قابل نہیں سمجھتے۔ اگر اس قابل سمجھتےتو ائمہ اربعہ کو حق پرکہنے والے احناف رفع یدین، قرات خلف الامام، آمین ،سینے پر ہاتھ باندھنے کا انکارنہ کرتے اور اس کے خلاف سیکڑوں کتابیں نہ لکھتے جبکہ ان چاروں ائمہ میں کوئی نہ کوئی رفع یدین کرنے والے، زور سے آمین کہنےوالے، سینہ پرہاتھ باندھنے والے اور امام کے پیچھے مقتدی کو قرات کرنے کا جواز فراہم کرنے والے ہیں۔
(2)ہم اہل حدیث ائمہ کااصل احترام کرتے ہیں ہیں اور ان کی بات بھی مانتے ہیں ۔ امام ابوحنیفہ ؒ کے فرامین ہیں ۔
پہلا قول :اِذَا صَحَّ الْحَدِيثُ فَهُوَ مَذْهَبِی (شامی ص150)
کہ صحیح حدیث میرا مذہب ہے
دوسرا قول : لَا ينْبَغِی لِمَنْ يَعْرِفْ دَلِيْلِی اَنْ يُفْتِیَ بِکَلامِیْ (عقد الجيد)
کسی شخص کو لائق نہیں کہ بغیر دلیل (قرآن اور حدیث اور اجماع) معلوم کرنے کےمیرے کلام پر فتوے دے۔
تیسرا قول : اِذَا کَانَ قَوْلُ الصَّحَابَةِ يُخَالِفُهُ قَالَ اُتْرُکُوا قَوْلِی بِقَوْلِ الصَّحابَةِ (عقد الجيد)
اگر میرا کوئی قول صحابہ کے قول کے خلاف ہو تو میرے قول کو چھوڑ کر ان کے قول پر عمل کیا جائے
آپ کے ان اقوال کی روشنی میں ہم وہی کرتے ہیں جو آپ نے کہا ہے ، امام صاحب کی جو بات قرآن وحدیث کے خلاف ہے ہم اسے چھوڑدیتے ہیں اور جو بات موافق ہے اسے لے لیتے ہیں جبکہ ان اقوال پر کسی مقلد کاعمل نہیں ہے ،اگر ہے توتمام مقلدین کو میرا چیلنج ہے ثابت کرکے دکھائے پھر اس کے بعد مجھے کس پوائنٹ پہ بات کرنی ہے وہ طے کرنا ہے۔
ویسے تو بہت ساری باتیں ہیں مگر صرف ان دو باتوں سے مذکورہ الزام کی حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے ۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف ۔میں یہاں طوالت کے خوف سے صرف دلائل کا جائزہ لوں گا اور جو غیر ضروری بحث ہے ایک سانس میں تین طلاق یا دو سانس میں ، اسی طرح مسلم شریف کے متعلق مدخولہ غیرمدخولہ کی زبردستی بحث سے درگذرکرتا ہوں۔
پہلی دلیل : اخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعاً فقام غضباناً ایلعب بکتاب اللہ وانا بین اظہرکم؟حتی قام رجل وقال: یارسول اللہ الا اقتلہ؟(نسائی)
اس حدیث کا لبِ لباب یہ ہے کہ حضورعلیہ السلام کو بتایا گیا کہ ایک صاحب نے اپنی بیوی کو اکٹھے تین طلاقیں دے دی ہیں،اس پر حضور شدید ناراض ہوے اور فرمایا: کیا میری زندگی میں ہی اللہ کی کتاب سے کھلواڑ کیا جاے گا؟ آپ کی ناراضگی دیکھ کر ایک صحابی نے درخواست کی کہ حضور! آپ اجازت دیں تو اس کی گردن اڑادوں۔
اس حدیث میں ایک ساتھ تین طلاق ، تینوں واقع ہوجاتی ہیں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ اس میں صرف تین طلاق دینے کا ذکر ہے جس پر آپ ﷺ غضبناک ہوگئے ۔ بہت ساری احادیث سے ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہونے کا صراحت کے ساتھ ثبوت ملتا ہے۔
دوسری دلیل : عن ابن عباس کان الطلاق علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر و سنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ فقال عمر بن الخطاب ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لہم فیہ اناۃ فلو امضیناہ علیہم فامضاہ علیہم۔(مسلم)
یعنی حضور علیہ السلام، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی دو سال تک تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا، لیکن جلدبازی میں تین طلاقیں دیا کرتے تھے، اس لیے حضرت عمر نے تین طلاقوں کے نفاذ کا فیصلہ صادر فرما دیا۔
یہ حدیث صریح دلیل ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی ہوتی ہے ،اس پر عہدرسول میں عمل ہوتارہاہے اور اس کے بعد بھی مگر مقلد نے اس حدیث کے متعلق کہا کہ یہ موقوف ہے جبکہ اس حدیث میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے عہد کا عمل بیان کررہے اس لئے یہ مرفوع ہے ۔ دوسری بات موصوف نے کہی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا عمل اس حدیث کے خلاف ہے اوروہ اس حدیث کے خلاف فتوی دیتے ہیں ۔
لاحول ولاقوہ ۔ کبھی تو یہ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ صحابی حدیث کے خلاف عمل ہی نہیں کرسکتے ، یہاں کہتے ہیں حدیث کے خلاف عمل بھی کرتے اور فتوی بھی دیتے ہیں ۔ ایسے عالم میں کیا کہا جائے؟ گویا یہاں صحابی پر صرف اپنی بات منوانے کے لئے دبی زبان کیا حکم لگانا چاہتے ہیں ؟ سوچ لیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ والی مسلم کی حدیث مرفوع ہے یعنی اس میں نبی ﷺ کا عمل بیان کیاگیاہے ، جبکہ موصوف کا کہنا ہے راوی کا عمل اس حدیث کے خلاف ہے اور فتوی بھی اس کے خلاف دیتے تھے۔ موصوف کی پیش کردہ حدیث دیکھیں :
عن مجاھد قال کنت عند ابن عباس فجاءہ رجل فقال انہ طلق امرأتہ ثلاثاً قال فسکت حتی ظننت انہ رادھا الیہ ثم قال ینطلق احدکم فیرکب الحموقۃ ثم یقول یا ابن عباس یا ابن عباس! وان اللہ قال ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا وانک لم تتق اللہ فلا اجد لک مخرجا عصیت ربک وبانت منک امرأتک(ابوداؤد)
ترجمہ: حضرت مجاھد کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس کی خدمت میں تھا کہ ایک صاحب آے اور کہنے لگے: میں نے تین طلاقیں دے دی ہیں. مجاھد کہتے ہیں کہ یہ سن کر ابن عباس خاموش رہے.مجھے ایسا لگا کہ شاید حضرت اس کی بیوی سے رجعت کا فیصلہ سنائیں گے .پھر ابن عباس غصے میں فرمانے لگے! لوگ بڑے عجیب ہیں، حماقت کر جاتے ہیں اور پھر دہائی دیتے ہیں: اے ابن عباس! اے ابن عباس! رحم کیجیے! میں کیا کروں؟ اللہ نے فرمایا ہے کہ جو متقی ہوتا ہے، اسی کے لیے راہیں بنتی ہیں.تم نے خلافِ تقویٰ کام کیا ہے.تیرے لیے کوئی گنجائش نہیںتم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے.جاؤ تمہاری بیوی تم سے علحدہ ہوگئی.تمہارا نکاح ختم ہو چکا ہے۔
موصوف نے تو خود ہی کہہ دیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا عمل مسلم شریف کے خلاف ہے تو میرے کہنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔ یہاں صحابی کا عمل ہے اور مسلم شریف میں نبی ﷺ کا عمل آپ ہی فیصلہ کریں نبی ﷺ کا عمل لیا جائے گا یا صحابی کا؟
تیسری دلیل : حدیث رکانہ جسے اہل حدیث پیش کرتے ہیں جو مسند احمد کی روایت ہے ، موصوف اس روایت کے متعلق ضعف اور علت بیان کرتے ہیں حالانکہ یہ روایت بالکل صحیح ہے اور قابل استدلال ہے ۔
(1)علامہ ابن تیمیہ نے کہا کہ ابوعبداللہ مقدسی نے اپنی کتاب المختارہ میں اسےروایت کیا ہے اور یہ کتاب مستدرک حاکم سے زیادہ صحیح ہے ۔ (مجموع الفتاوی 13/33)
(2) مسند احمد کی تحقیق میں احمد شاکرنے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔ (مسنداحمد4/123)
(3) علامہ ناصرالدین البانی نے اس کے تمام طرق کو جمع کرکے اس پر حسن ہونے کا حکم لگایا ہے ۔(ارواء الغلیل 7/144)
(4) شمس الحق عظیم آبادی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے ۔(عون المعبود 6/138)
(5) علامہ ابن القیم نے اسے صحیح کہا ہے ۔(الصواعق المرسلہ 2/625)
(6) امام شوکانی نے امام احمد سے صحیح ہونے کا قول ذکر کیا ہے ۔ (الفتح الربانی 7/3469)
(7) حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا کہ اس کے شواہد مسلم وغیرہ میں ہے جس سے اس کو تقویت مل جاتی ہے ۔ (فتح الباری 9/275)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا اس حدیث کے متعلق فیصلہ کن تبصرہ دیکھیں :
وھذا الحدیث نص فی المسئلۃ لا یقبل التاویل الذی فی غیرہ من الروایات الاتی ذکرھا(فتح الباری 9/316طبع بیروت)
یعنی ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے میں یہ حدیث نص صریح ہے دیگر روایات میں جو تاویلیں کی جاتی ہیں اس حدیث میں وہ تاویلیں بالکل غیر مقبول ہیں۔
چوتھی دلیل : موصوف نے اپنی تائید میں رکانہ کی ایک دوسری روایت ذکر کی ہے ۔
عن عبداللہ بن یزید بن رکانۃ عن ابیہ عن جدہ قال: اتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقلت یا رسول اللہ انی طلقت امرأتی البتۃ فقال ما اردت بہا؟ قلت واحدۃ قال واللہ؟ قلت واللہ قال فھو ما اردت - (ترمذی)
حضرت رکانہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم علیہ السلام کی خدمت میں گیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو "طلاق البتۃ "دی ہےحضور نے پوچھا، تمہاری کیا نيت تھی؟ میں نے کہا: ایک طلاق دینے کی نیت کی تھی-آپ نے پوچھا: واللہ سچ کہہ رہے ہو؟ تو میں نے کہا واللہ سچ کہہ رہا ہوں.آپ نے فرمایا کہ پھر تمہاری نیت کا اعتبار ہے۔
اولا: یہ حدیث استدلال کے قابل ہی نہیں ہے کیونکہ سخت ضعیف ہے ۔
سند میں زبیربن سعیداورعبداللہ بن علی ضعیف ہیں،اورعلی بن یزیدبن رکانہ مجہول ہیں۔امامترمذی کہتےہیں کہ اس حدیث کوہم صرف اسی طریق سےجانتےہیں،میں نےمحمدبن اسماعیل بخاری سےاس حدیث کےبارےمیں پوچھاتوانہوں نےکہااس میں اضطراب ہے۔
ابن القیم نے اسے غیرصحیح کہا، علامہ البانی نے کہ اس میں علتیں ہیں ، امام بخاری نے کہا اس میں اضطراب ہے ،ابن العربی نے کہا اس میں اضطراب ہے ،حافظ ابن حجر نے کہا اس کی سند میں اختلاف ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت قابل استدلال نہیں ہے ۔
ثانیا: یہاں طلاق بتہ سے مراد ایک طلاق رجعی ہے نہ کہ تین طلاق ، لفظ واحدۃ سے بھی بتہ کی صراحت ہوتی ہے ۔
اس طرح یہ روایت ضعیف بھی ہے ، مضطرب بھی ہے ، اور صحیح حدیث جو مسلم شریف کی ہے اس کے خلاف بھی ہے ۔ رکانہ کی وہی حدیث صحیح ہے جواوپر مسند احمد کے حوالے سے ذکر ہوئی ہے ۔
اب اس کے بعد موصوف نے کہا ہے کہ تمام صحابہ کی نظر میں بھی ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی ہواکرتی تھی ہے ، اس بات کی تائید میں موصوف نے پانچ دلائل دئے ہیں، ان دلائل پہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔
(1) پہلی دلیل: موصوف نے نسائی کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں فاطمہ بنت قیس کے طلاق کا واقعہ ہے ۔ انہیں تین طلاق دی گئی تو ان کا نان ونفقہ دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: لَيْسَ لَكِ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةٌ فَاعْتَدِّي عِنْدَ فُلَانَةَ(نسائی)
ترجمہ: تیرے لیے (دوران عدت میں) رہائش اور خرچہ نہیں ہے۔ تو فلاں عورت (ام شریک) کے ہاں عدت گزارلے۔
یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے ،یہاں تین طلاق کا ذکر ہے ، بعض روایت میں ہے انہیں تین طلاق میں سے آخری طلاق دی گئی ،اور بعض روایت میں ہے انہیں ایک طلاق بھیجی جو باقی رہ گئی تھی ۔ ان تمام روایات کو جمع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ فاطمہ کو اکٹھی تین طلاق نہیں بلکہ ایک طلاق دی گئی تھی جو تیسری یعنی آخری طلاق تھی ۔
(2) دوسری دلیل : عن عائشۃ ان رجلاً طلق امرأتہ ثلاثاً فتزوجت فطلق فسئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم اتحل للاول؟ قال لا، حتی یذوق عسیلتہا کما ذاق الاول رواہ البخاری ( ج، ۲ ص، ۷۹۱)
یعنی ایک شخص نے اپنی بیگم کو تین طلاقیں دے دیں، عورت نے کہیں شادی کر لی اور صحبت سے قبل ہی طلاق پا گئی آپ سے پوچھا گیا کہ یہ عورت اپنے شوہر سابق کے لیے حلال ہوگئی؟ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک کہ شوہر ثانی صحبت نہ کر لے.
تجزیہ: یہ حدیث اصل میں رفاعہ قرظی کے متعلق ہے ، یہاں طلاق کا مختصر ذکرہے جبکہ امام بخاری نے اسی حدیث کو دوسری جگہ مفصل ذکر کیا ہے جس میں صراحت ہے کہ رفاعہ نے اکٹھی تین طلاق نہیں دی تھی بلکہ وقفہ وقفہ سے دی تھی ،بخاری کے یہ الفاظ "فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلاَثِ تَطْلِيقَاتٍ" اس بات کا ثبوت ہے کہ رفاعہ نے پہلے دوطلاقیں دے دی تھی یہ آخری طلاق تھی ۔
(3) تیسری دلیل : حضرت عبداللہ ابن عمر نے اپنی اہلیہ کو حالت حیض میں طلاق دی اور حضور علیہ السلام سے پوچھا: یا رسول اللہ لوطلقتہا ثلاثاً کان لی ان اراجعہا قال: اذاً بانت منک وکانت معصیۃ.
یعنی اگر میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دے دوں تو حقِ رجعت باقی رہے گا؟ فرمایا: نہیں، عورت کا رشتہ ختم ہو جاے گا اور حالت حیض میں طلاق دینے کی وجہ سے گناہ ہوگا.یہ حدیث امام طبرانی نے نقل کی ہے ( مجمع الزوائد، ج 4, ص، ۳۳۶ )
یہاں حدیث کو مختصر بیان کیا ہے اسی حدیث میں پہلے والا ٹکڑا دلالت کرتا ہے کہ ابن عمر نے حالت حیض میں بیوی کو ایک طلاق دی تھی اور بقیہ دو طلاق ،دوالگ الگ طہریا حیض میں دینے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ اس حدیث کے الفاظ دیکھیں:أنَّهُ طلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً وهِيَ حائِضٌ ثمَّ أرادَ أنْ يُتْبِعَها بطلْقَتَيْنِ أُخْرَاوَيْنِ عندَ القُرْءَيْنِ الباقِيَيْنِ۔
موصوف نے اپنی مرضی کی بات لے لیا اور مخالف کو چھوڑ دیاہے۔ یہ حدیث دراصل اسی کے موقف کے خلاف ہے ۔ نیز یہ حدیث ضعیف بھی ہے ، اسی مجمع الزوائد میں ہے کہ دارقطنی نے اس کے ایک روای علی بن سعید رازی پر کلام کیا ہے۔ البانی نے اسے منکراورابن القیم نے ضعیف کہا ہے۔
(4) چوتھی دلیل : معجم طبرانی میں حضرت عبادہ ابن صامت کی روایت آئی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میرے کسی باپ دادا نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دیں ،ان کے بیٹے حضور علیہ السلام کے پاس آے اور صورت حال بتا کر پوچھا کہ اب کوئی راستہ بچا ہے؟ آپ نے فرمایا: ان اباکم لم یتق اللہ تعالیٰ فیجعل لہ من امرہ مخرجاً بانت منہ بثلاث علی غیرالسنۃ و تسع مائۃ وسبع و تسعون اثم فی عنقہ.
تمہارے آبا نے تقویٰ کی راہ اختیار نہیں کی، اس لیے کوئی صورت نہیں رہی،عورت تین طلاقوں سے ہی رشتے سے الگ ہوگئی اور بقیہ نو سو ستانوے طلاقوں کا گناہ طلاق دینے والے کی گردن پر ہوگا.
یہ روایت انتہائی ضعیف ہے ۔
٭دارقطنی نے کہا اس کے رواۃ مجہول اور ضعیف ہیں( سنن الدارقطنی 3/271)
٭ہیثمی نے کہا اس میں عبید بن ولید وصافی عجلی ضعیف ہے ۔(مجمع الزوائد4/341)
٭ علامہ البانی نے اسے سخت ضعیف کہا۔(السلسلۃ الضعیفہ :1211)
٭علامہ شوکانی نے کہا اس میں یحی بن علاء ضعیف ہے ، عبیداللہ بن ولید برباد ہونے والاہے، ابراہیم بن عبیداللہ مجہول ہے ،پھر عبادہ بن صامت کے والد نے اسلام نہیں لایا تو ان کے دادا کا کیا حال ہوگا؟ (نیل الاوطار7/17)
٭ محمد امین شنقیطی نے کہا کہ اس میں یحی بن علا، عبیداللہ بن ولید،ابراہیم بن عبیداللہ ہیں ان میں سے کسی سے حجت نہیں پکڑی جائے گی۔(اضواء البیان 1/200)
٭ ابن عدی نے کہا اس میں عبیداللہ وصافی بہت ضعیف ہے۔ (الکامل فی الضعفاء 5/522)
٭ حافظ ابن حجر نے کہا اس میں بہت سے ضعیف راویوں کی ایک جماعت ہے ۔(الکافی الشاف :296)
(5) پانچویں دلیل: حضرت سوید ابن غفلۃ کہتے ہیں کہ عائشہ خثعمیہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں.حضرت علی شہید ہوگئے تو انہوں نے اپنے شوہر سے کہا: خلافت مبارک ہو!! حضرت حسن نے کہا: کیا تم میرے والد کی شہادت پر خوشی منا رہی ہو؟ جاؤ، تجھے تین طلاق....راوی کہتے ہیں کہ عورت نے ان سے علحدہ ہو گئی .عدت گزر گئی تو حضرت حسن نے بقیہ مہر اور دس ہزار درہم بطور صدقہ بھجوایا .جب قاصد اس کے پاس آیا تو عورت نے کہا: متاع قلیل من حبیب مفارق .جدا ہونے والے محبوب کی طرف سے دیا جانے والا تحفہ بے حد کم ہےیعنی دوبارہ شادی کرلیں.یہ بات جب حضرت حسن تک پہونچی تو رونے لگے اور فرمایا: لولا انی سمعت جدی یقول ایما رجل طلق امرأتہ ثلاثاً عندالاقراءاو ثلاثاً مبھمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ لراجعتہا، رواہ البیہقی ( سنن الکبریٰ، ج 7، ص، 336) اگر میں اپنے نانا کو یہ فرماتے نہ سنا ہوتا تو اس سے رجوع کر لیتا ....نانا جان نے فرمایا تھا: جو شخص اپنی بیوی کو حیض کے وقت تین طلاقیں دے تو یہ عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی، جب تک کہ وہ دوسری جگہ شادی نہ کر لے.
تجزیہ : یہ روایت بھی ناقابل استدلال ہے کیونکہ اس میں سخت ضعف پایا جاتا ہے ۔ بیہقی نے اس حدیث کو دو سندوں سے ذکرکیاہے پہلی سند میں محمد بن حمید رازی اور سلمہ بن فضل قرشی پر کلام ہے اور دوسری سند کے راوی پر بھی سخت قسم کی جرح ہے ۔
آخر میں موصوف نےزنا اور حلالہ کا شوشہ چھوڑا ہے ، بحث لمبی ہوجائے گی ،اس پہ میں اپنے مضمون کا رابطہ دے دیتا ہوں کہ کون زنا کی راہ ہموار کررہا ہے اور حلالہ کا حکم اور اس کا انجام کتنا بھیانک ہے ؟ واضح ہوجائے گا۔
ایک ساتھ تین طلاقوں کا قہر
فضیل احمد ناصر کی پوسٹ "مسئلۂ طلاق پر غیرمقلدین کب تک جھوٹ بولیں گے؟" کا مطالعہ کرنے کے لئے یہاں پر کلک کریں ۔
تجزیہ نگار: مقبول احمد سلفی
انہوں نے سب سے پہلے ہمیں غیرمقلد کا طعنہ دیا ہے ا س وجہ سے کہ ہم ائمہ اربعہ کی تقلید نہیں کرتے ۔ پہلے یہ جان لیں کہ مقلد کسے کہا جاتا ہے جو بغیردلیل جانے کسی کی بات مان لیتا ہے اور اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہے وہ مقلد ہوتا ہے اور جس کی بات مانی جاتی ہے وہ مجتہد، فقیہ اور امام ہوتاہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجتہد کا الٹا مقلد ہوتا ہے، بالفاظ دیگرمقلد جاہل، بے وقوف اور نادان کو کہا جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی حنفی خود کو مقلد نہیں لکھتا ، آپ نے تقلید پہ موٹی سے موٹی کتاب دیکھی ہوگی ، اسی کتاب میں اہل حدیثوں کو ہزاروں مرتبہ غیرمقلد لکھاہوگا مگر اپنے نام کے ساتھ یہ مقلد نہیں لگاتے یہی اس کے پیچھے راز ہے ۔
غیرمقلد کے بعد ہمیں "لامذہب" کا بھی طعنہ دیا ہے جبکہ اصل میں "لامذہب" بھی انہیں پر فٹ آتا ہے ۔ عام طور سے احناف بشمول دیوبندی وبریلوی خود کو عامی کہتے ہیں ۔ ان کےعلماءاور ان کی کتابیں عامی کو"لامذہب" قرار دیتے ہیں ۔
فقہ حنفی کی معتبر کتاب ردالمحتار للشامی میں مذکور ہے: ان من التزم مذھبا معینا کابی حنیفۃ والشافعی فقیل یلزمہ و قیل لاوھو الاصح وقد شاع ان العامی لامذہب لہ۔(ردالمحتار للشامی، ۱/۳۳)
ترجمہ : کسی نے اپنے اوپر ایک مذہب لازم کر لیا جیسے حنفی شافعی تو بعض احناف کہتے ہیں: اس پر اس مذہب سے چمٹے رہنا لازمی ہے اور بعض کہتے ہیں لازمی نہیں ہے۔شامی کہتے ہیں کہ دوسری بات زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ مشہور ہے کہ عامی لامذہب ہو ا کرتا ہے۔
اس سے ثابت ہوگیا یہ خود ہی لامذہب ہیں ۔
ہمارے متعلق یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ہم ائمہ کا احترام نہیں کرتے، ان کی بات نہیں مانتے ، ان کی تقلید نہیں کرتے ۔ سو واضح رہے تقلید تو جہالت ہے ۔ رہی بات ماننے اور احترام کرنے کی تو ایک مقلد سے زیادہ ہم اہل حدیث ائمہ اربعہ کا احترام بھی کرتے ہیں اور بات بھی مانتے ہیں ۔ ایک دو نمونہ پیش خدمت ہے۔
(1)احناف ائمہ اربعہ میں سے صرف ایک کی تقلید کرتے ہیں باقی تین کو تقلید کے قابل نہیں سمجھتے۔ اگر اس قابل سمجھتےتو ائمہ اربعہ کو حق پرکہنے والے احناف رفع یدین، قرات خلف الامام، آمین ،سینے پر ہاتھ باندھنے کا انکارنہ کرتے اور اس کے خلاف سیکڑوں کتابیں نہ لکھتے جبکہ ان چاروں ائمہ میں کوئی نہ کوئی رفع یدین کرنے والے، زور سے آمین کہنےوالے، سینہ پرہاتھ باندھنے والے اور امام کے پیچھے مقتدی کو قرات کرنے کا جواز فراہم کرنے والے ہیں۔
(2)ہم اہل حدیث ائمہ کااصل احترام کرتے ہیں ہیں اور ان کی بات بھی مانتے ہیں ۔ امام ابوحنیفہ ؒ کے فرامین ہیں ۔
پہلا قول :اِذَا صَحَّ الْحَدِيثُ فَهُوَ مَذْهَبِی (شامی ص150)
کہ صحیح حدیث میرا مذہب ہے
دوسرا قول : لَا ينْبَغِی لِمَنْ يَعْرِفْ دَلِيْلِی اَنْ يُفْتِیَ بِکَلامِیْ (عقد الجيد)
کسی شخص کو لائق نہیں کہ بغیر دلیل (قرآن اور حدیث اور اجماع) معلوم کرنے کےمیرے کلام پر فتوے دے۔
تیسرا قول : اِذَا کَانَ قَوْلُ الصَّحَابَةِ يُخَالِفُهُ قَالَ اُتْرُکُوا قَوْلِی بِقَوْلِ الصَّحابَةِ (عقد الجيد)
اگر میرا کوئی قول صحابہ کے قول کے خلاف ہو تو میرے قول کو چھوڑ کر ان کے قول پر عمل کیا جائے
آپ کے ان اقوال کی روشنی میں ہم وہی کرتے ہیں جو آپ نے کہا ہے ، امام صاحب کی جو بات قرآن وحدیث کے خلاف ہے ہم اسے چھوڑدیتے ہیں اور جو بات موافق ہے اسے لے لیتے ہیں جبکہ ان اقوال پر کسی مقلد کاعمل نہیں ہے ،اگر ہے توتمام مقلدین کو میرا چیلنج ہے ثابت کرکے دکھائے پھر اس کے بعد مجھے کس پوائنٹ پہ بات کرنی ہے وہ طے کرنا ہے۔
ویسے تو بہت ساری باتیں ہیں مگر صرف ان دو باتوں سے مذکورہ الزام کی حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے ۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف ۔میں یہاں طوالت کے خوف سے صرف دلائل کا جائزہ لوں گا اور جو غیر ضروری بحث ہے ایک سانس میں تین طلاق یا دو سانس میں ، اسی طرح مسلم شریف کے متعلق مدخولہ غیرمدخولہ کی زبردستی بحث سے درگذرکرتا ہوں۔
پہلی دلیل : اخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعاً فقام غضباناً ایلعب بکتاب اللہ وانا بین اظہرکم؟حتی قام رجل وقال: یارسول اللہ الا اقتلہ؟(نسائی)
اس حدیث کا لبِ لباب یہ ہے کہ حضورعلیہ السلام کو بتایا گیا کہ ایک صاحب نے اپنی بیوی کو اکٹھے تین طلاقیں دے دی ہیں،اس پر حضور شدید ناراض ہوے اور فرمایا: کیا میری زندگی میں ہی اللہ کی کتاب سے کھلواڑ کیا جاے گا؟ آپ کی ناراضگی دیکھ کر ایک صحابی نے درخواست کی کہ حضور! آپ اجازت دیں تو اس کی گردن اڑادوں۔
اس حدیث میں ایک ساتھ تین طلاق ، تینوں واقع ہوجاتی ہیں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ اس میں صرف تین طلاق دینے کا ذکر ہے جس پر آپ ﷺ غضبناک ہوگئے ۔ بہت ساری احادیث سے ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہونے کا صراحت کے ساتھ ثبوت ملتا ہے۔
دوسری دلیل : عن ابن عباس کان الطلاق علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر و سنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ فقال عمر بن الخطاب ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لہم فیہ اناۃ فلو امضیناہ علیہم فامضاہ علیہم۔(مسلم)
یعنی حضور علیہ السلام، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی دو سال تک تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا، لیکن جلدبازی میں تین طلاقیں دیا کرتے تھے، اس لیے حضرت عمر نے تین طلاقوں کے نفاذ کا فیصلہ صادر فرما دیا۔
یہ حدیث صریح دلیل ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی ہوتی ہے ،اس پر عہدرسول میں عمل ہوتارہاہے اور اس کے بعد بھی مگر مقلد نے اس حدیث کے متعلق کہا کہ یہ موقوف ہے جبکہ اس حدیث میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے عہد کا عمل بیان کررہے اس لئے یہ مرفوع ہے ۔ دوسری بات موصوف نے کہی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا عمل اس حدیث کے خلاف ہے اوروہ اس حدیث کے خلاف فتوی دیتے ہیں ۔
لاحول ولاقوہ ۔ کبھی تو یہ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ صحابی حدیث کے خلاف عمل ہی نہیں کرسکتے ، یہاں کہتے ہیں حدیث کے خلاف عمل بھی کرتے اور فتوی بھی دیتے ہیں ۔ ایسے عالم میں کیا کہا جائے؟ گویا یہاں صحابی پر صرف اپنی بات منوانے کے لئے دبی زبان کیا حکم لگانا چاہتے ہیں ؟ سوچ لیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ والی مسلم کی حدیث مرفوع ہے یعنی اس میں نبی ﷺ کا عمل بیان کیاگیاہے ، جبکہ موصوف کا کہنا ہے راوی کا عمل اس حدیث کے خلاف ہے اور فتوی بھی اس کے خلاف دیتے تھے۔ موصوف کی پیش کردہ حدیث دیکھیں :
عن مجاھد قال کنت عند ابن عباس فجاءہ رجل فقال انہ طلق امرأتہ ثلاثاً قال فسکت حتی ظننت انہ رادھا الیہ ثم قال ینطلق احدکم فیرکب الحموقۃ ثم یقول یا ابن عباس یا ابن عباس! وان اللہ قال ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا وانک لم تتق اللہ فلا اجد لک مخرجا عصیت ربک وبانت منک امرأتک(ابوداؤد)
ترجمہ: حضرت مجاھد کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس کی خدمت میں تھا کہ ایک صاحب آے اور کہنے لگے: میں نے تین طلاقیں دے دی ہیں. مجاھد کہتے ہیں کہ یہ سن کر ابن عباس خاموش رہے.مجھے ایسا لگا کہ شاید حضرت اس کی بیوی سے رجعت کا فیصلہ سنائیں گے .پھر ابن عباس غصے میں فرمانے لگے! لوگ بڑے عجیب ہیں، حماقت کر جاتے ہیں اور پھر دہائی دیتے ہیں: اے ابن عباس! اے ابن عباس! رحم کیجیے! میں کیا کروں؟ اللہ نے فرمایا ہے کہ جو متقی ہوتا ہے، اسی کے لیے راہیں بنتی ہیں.تم نے خلافِ تقویٰ کام کیا ہے.تیرے لیے کوئی گنجائش نہیںتم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے.جاؤ تمہاری بیوی تم سے علحدہ ہوگئی.تمہارا نکاح ختم ہو چکا ہے۔
موصوف نے تو خود ہی کہہ دیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا عمل مسلم شریف کے خلاف ہے تو میرے کہنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔ یہاں صحابی کا عمل ہے اور مسلم شریف میں نبی ﷺ کا عمل آپ ہی فیصلہ کریں نبی ﷺ کا عمل لیا جائے گا یا صحابی کا؟
تیسری دلیل : حدیث رکانہ جسے اہل حدیث پیش کرتے ہیں جو مسند احمد کی روایت ہے ، موصوف اس روایت کے متعلق ضعف اور علت بیان کرتے ہیں حالانکہ یہ روایت بالکل صحیح ہے اور قابل استدلال ہے ۔
(1)علامہ ابن تیمیہ نے کہا کہ ابوعبداللہ مقدسی نے اپنی کتاب المختارہ میں اسےروایت کیا ہے اور یہ کتاب مستدرک حاکم سے زیادہ صحیح ہے ۔ (مجموع الفتاوی 13/33)
(2) مسند احمد کی تحقیق میں احمد شاکرنے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔ (مسنداحمد4/123)
(3) علامہ ناصرالدین البانی نے اس کے تمام طرق کو جمع کرکے اس پر حسن ہونے کا حکم لگایا ہے ۔(ارواء الغلیل 7/144)
(4) شمس الحق عظیم آبادی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے ۔(عون المعبود 6/138)
(5) علامہ ابن القیم نے اسے صحیح کہا ہے ۔(الصواعق المرسلہ 2/625)
(6) امام شوکانی نے امام احمد سے صحیح ہونے کا قول ذکر کیا ہے ۔ (الفتح الربانی 7/3469)
(7) حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا کہ اس کے شواہد مسلم وغیرہ میں ہے جس سے اس کو تقویت مل جاتی ہے ۔ (فتح الباری 9/275)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا اس حدیث کے متعلق فیصلہ کن تبصرہ دیکھیں :
وھذا الحدیث نص فی المسئلۃ لا یقبل التاویل الذی فی غیرہ من الروایات الاتی ذکرھا(فتح الباری 9/316طبع بیروت)
یعنی ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے میں یہ حدیث نص صریح ہے دیگر روایات میں جو تاویلیں کی جاتی ہیں اس حدیث میں وہ تاویلیں بالکل غیر مقبول ہیں۔
چوتھی دلیل : موصوف نے اپنی تائید میں رکانہ کی ایک دوسری روایت ذکر کی ہے ۔
عن عبداللہ بن یزید بن رکانۃ عن ابیہ عن جدہ قال: اتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقلت یا رسول اللہ انی طلقت امرأتی البتۃ فقال ما اردت بہا؟ قلت واحدۃ قال واللہ؟ قلت واللہ قال فھو ما اردت - (ترمذی)
حضرت رکانہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم علیہ السلام کی خدمت میں گیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو "طلاق البتۃ "دی ہےحضور نے پوچھا، تمہاری کیا نيت تھی؟ میں نے کہا: ایک طلاق دینے کی نیت کی تھی-آپ نے پوچھا: واللہ سچ کہہ رہے ہو؟ تو میں نے کہا واللہ سچ کہہ رہا ہوں.آپ نے فرمایا کہ پھر تمہاری نیت کا اعتبار ہے۔
اولا: یہ حدیث استدلال کے قابل ہی نہیں ہے کیونکہ سخت ضعیف ہے ۔
سند میں زبیربن سعیداورعبداللہ بن علی ضعیف ہیں،اورعلی بن یزیدبن رکانہ مجہول ہیں۔امامترمذی کہتےہیں کہ اس حدیث کوہم صرف اسی طریق سےجانتےہیں،میں نےمحمدبن اسماعیل بخاری سےاس حدیث کےبارےمیں پوچھاتوانہوں نےکہااس میں اضطراب ہے۔
ابن القیم نے اسے غیرصحیح کہا، علامہ البانی نے کہ اس میں علتیں ہیں ، امام بخاری نے کہا اس میں اضطراب ہے ،ابن العربی نے کہا اس میں اضطراب ہے ،حافظ ابن حجر نے کہا اس کی سند میں اختلاف ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت قابل استدلال نہیں ہے ۔
ثانیا: یہاں طلاق بتہ سے مراد ایک طلاق رجعی ہے نہ کہ تین طلاق ، لفظ واحدۃ سے بھی بتہ کی صراحت ہوتی ہے ۔
اس طرح یہ روایت ضعیف بھی ہے ، مضطرب بھی ہے ، اور صحیح حدیث جو مسلم شریف کی ہے اس کے خلاف بھی ہے ۔ رکانہ کی وہی حدیث صحیح ہے جواوپر مسند احمد کے حوالے سے ذکر ہوئی ہے ۔
اب اس کے بعد موصوف نے کہا ہے کہ تمام صحابہ کی نظر میں بھی ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی ہواکرتی تھی ہے ، اس بات کی تائید میں موصوف نے پانچ دلائل دئے ہیں، ان دلائل پہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔
(1) پہلی دلیل: موصوف نے نسائی کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں فاطمہ بنت قیس کے طلاق کا واقعہ ہے ۔ انہیں تین طلاق دی گئی تو ان کا نان ونفقہ دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: لَيْسَ لَكِ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةٌ فَاعْتَدِّي عِنْدَ فُلَانَةَ(نسائی)
ترجمہ: تیرے لیے (دوران عدت میں) رہائش اور خرچہ نہیں ہے۔ تو فلاں عورت (ام شریک) کے ہاں عدت گزارلے۔
یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے ،یہاں تین طلاق کا ذکر ہے ، بعض روایت میں ہے انہیں تین طلاق میں سے آخری طلاق دی گئی ،اور بعض روایت میں ہے انہیں ایک طلاق بھیجی جو باقی رہ گئی تھی ۔ ان تمام روایات کو جمع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ فاطمہ کو اکٹھی تین طلاق نہیں بلکہ ایک طلاق دی گئی تھی جو تیسری یعنی آخری طلاق تھی ۔
(2) دوسری دلیل : عن عائشۃ ان رجلاً طلق امرأتہ ثلاثاً فتزوجت فطلق فسئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم اتحل للاول؟ قال لا، حتی یذوق عسیلتہا کما ذاق الاول رواہ البخاری ( ج، ۲ ص، ۷۹۱)
یعنی ایک شخص نے اپنی بیگم کو تین طلاقیں دے دیں، عورت نے کہیں شادی کر لی اور صحبت سے قبل ہی طلاق پا گئی آپ سے پوچھا گیا کہ یہ عورت اپنے شوہر سابق کے لیے حلال ہوگئی؟ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک کہ شوہر ثانی صحبت نہ کر لے.
تجزیہ: یہ حدیث اصل میں رفاعہ قرظی کے متعلق ہے ، یہاں طلاق کا مختصر ذکرہے جبکہ امام بخاری نے اسی حدیث کو دوسری جگہ مفصل ذکر کیا ہے جس میں صراحت ہے کہ رفاعہ نے اکٹھی تین طلاق نہیں دی تھی بلکہ وقفہ وقفہ سے دی تھی ،بخاری کے یہ الفاظ "فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلاَثِ تَطْلِيقَاتٍ" اس بات کا ثبوت ہے کہ رفاعہ نے پہلے دوطلاقیں دے دی تھی یہ آخری طلاق تھی ۔
(3) تیسری دلیل : حضرت عبداللہ ابن عمر نے اپنی اہلیہ کو حالت حیض میں طلاق دی اور حضور علیہ السلام سے پوچھا: یا رسول اللہ لوطلقتہا ثلاثاً کان لی ان اراجعہا قال: اذاً بانت منک وکانت معصیۃ.
یعنی اگر میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دے دوں تو حقِ رجعت باقی رہے گا؟ فرمایا: نہیں، عورت کا رشتہ ختم ہو جاے گا اور حالت حیض میں طلاق دینے کی وجہ سے گناہ ہوگا.یہ حدیث امام طبرانی نے نقل کی ہے ( مجمع الزوائد، ج 4, ص، ۳۳۶ )
یہاں حدیث کو مختصر بیان کیا ہے اسی حدیث میں پہلے والا ٹکڑا دلالت کرتا ہے کہ ابن عمر نے حالت حیض میں بیوی کو ایک طلاق دی تھی اور بقیہ دو طلاق ،دوالگ الگ طہریا حیض میں دینے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ اس حدیث کے الفاظ دیکھیں:أنَّهُ طلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً وهِيَ حائِضٌ ثمَّ أرادَ أنْ يُتْبِعَها بطلْقَتَيْنِ أُخْرَاوَيْنِ عندَ القُرْءَيْنِ الباقِيَيْنِ۔
موصوف نے اپنی مرضی کی بات لے لیا اور مخالف کو چھوڑ دیاہے۔ یہ حدیث دراصل اسی کے موقف کے خلاف ہے ۔ نیز یہ حدیث ضعیف بھی ہے ، اسی مجمع الزوائد میں ہے کہ دارقطنی نے اس کے ایک روای علی بن سعید رازی پر کلام کیا ہے۔ البانی نے اسے منکراورابن القیم نے ضعیف کہا ہے۔
(4) چوتھی دلیل : معجم طبرانی میں حضرت عبادہ ابن صامت کی روایت آئی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میرے کسی باپ دادا نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دیں ،ان کے بیٹے حضور علیہ السلام کے پاس آے اور صورت حال بتا کر پوچھا کہ اب کوئی راستہ بچا ہے؟ آپ نے فرمایا: ان اباکم لم یتق اللہ تعالیٰ فیجعل لہ من امرہ مخرجاً بانت منہ بثلاث علی غیرالسنۃ و تسع مائۃ وسبع و تسعون اثم فی عنقہ.
تمہارے آبا نے تقویٰ کی راہ اختیار نہیں کی، اس لیے کوئی صورت نہیں رہی،عورت تین طلاقوں سے ہی رشتے سے الگ ہوگئی اور بقیہ نو سو ستانوے طلاقوں کا گناہ طلاق دینے والے کی گردن پر ہوگا.
یہ روایت انتہائی ضعیف ہے ۔
٭دارقطنی نے کہا اس کے رواۃ مجہول اور ضعیف ہیں( سنن الدارقطنی 3/271)
٭ہیثمی نے کہا اس میں عبید بن ولید وصافی عجلی ضعیف ہے ۔(مجمع الزوائد4/341)
٭ علامہ البانی نے اسے سخت ضعیف کہا۔(السلسلۃ الضعیفہ :1211)
٭علامہ شوکانی نے کہا اس میں یحی بن علاء ضعیف ہے ، عبیداللہ بن ولید برباد ہونے والاہے، ابراہیم بن عبیداللہ مجہول ہے ،پھر عبادہ بن صامت کے والد نے اسلام نہیں لایا تو ان کے دادا کا کیا حال ہوگا؟ (نیل الاوطار7/17)
٭ محمد امین شنقیطی نے کہا کہ اس میں یحی بن علا، عبیداللہ بن ولید،ابراہیم بن عبیداللہ ہیں ان میں سے کسی سے حجت نہیں پکڑی جائے گی۔(اضواء البیان 1/200)
٭ ابن عدی نے کہا اس میں عبیداللہ وصافی بہت ضعیف ہے۔ (الکامل فی الضعفاء 5/522)
٭ حافظ ابن حجر نے کہا اس میں بہت سے ضعیف راویوں کی ایک جماعت ہے ۔(الکافی الشاف :296)
(5) پانچویں دلیل: حضرت سوید ابن غفلۃ کہتے ہیں کہ عائشہ خثعمیہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں.حضرت علی شہید ہوگئے تو انہوں نے اپنے شوہر سے کہا: خلافت مبارک ہو!! حضرت حسن نے کہا: کیا تم میرے والد کی شہادت پر خوشی منا رہی ہو؟ جاؤ، تجھے تین طلاق....راوی کہتے ہیں کہ عورت نے ان سے علحدہ ہو گئی .عدت گزر گئی تو حضرت حسن نے بقیہ مہر اور دس ہزار درہم بطور صدقہ بھجوایا .جب قاصد اس کے پاس آیا تو عورت نے کہا: متاع قلیل من حبیب مفارق .جدا ہونے والے محبوب کی طرف سے دیا جانے والا تحفہ بے حد کم ہےیعنی دوبارہ شادی کرلیں.یہ بات جب حضرت حسن تک پہونچی تو رونے لگے اور فرمایا: لولا انی سمعت جدی یقول ایما رجل طلق امرأتہ ثلاثاً عندالاقراءاو ثلاثاً مبھمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ لراجعتہا، رواہ البیہقی ( سنن الکبریٰ، ج 7، ص، 336) اگر میں اپنے نانا کو یہ فرماتے نہ سنا ہوتا تو اس سے رجوع کر لیتا ....نانا جان نے فرمایا تھا: جو شخص اپنی بیوی کو حیض کے وقت تین طلاقیں دے تو یہ عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی، جب تک کہ وہ دوسری جگہ شادی نہ کر لے.
تجزیہ : یہ روایت بھی ناقابل استدلال ہے کیونکہ اس میں سخت ضعف پایا جاتا ہے ۔ بیہقی نے اس حدیث کو دو سندوں سے ذکرکیاہے پہلی سند میں محمد بن حمید رازی اور سلمہ بن فضل قرشی پر کلام ہے اور دوسری سند کے راوی پر بھی سخت قسم کی جرح ہے ۔
آخر میں موصوف نےزنا اور حلالہ کا شوشہ چھوڑا ہے ، بحث لمبی ہوجائے گی ،اس پہ میں اپنے مضمون کا رابطہ دے دیتا ہوں کہ کون زنا کی راہ ہموار کررہا ہے اور حلالہ کا حکم اور اس کا انجام کتنا بھیانک ہے ؟ واضح ہوجائے گا۔
ایک ساتھ تین طلاقوں کا قہر
فضیل احمد ناصر کی پوسٹ "مسئلۂ طلاق پر غیرمقلدین کب تک جھوٹ بولیں گے؟" کا مطالعہ کرنے کے لئے یہاں پر کلک کریں ۔
تجزیہ نگار: مقبول احمد سلفی