ندوہ بھی پہلے ایک غیر متعصب ادارہ تھا۔ اس کے بانیان میں اہل حدیث علماء بھی شامل ہے ۔ علامہ ثناء اللہ امرتسری ندوہ اصلاح کمیٹی کے رکن رہ چکے ہیں ۔ مشہور اہل حدیث سید امیر علی ملیح آبادی ندوہ کے ناظم بھی رہ چکے ہیں پر اب وہاں پر بھی سلمان ندوی جیسے متعصبین کا قبضہ ہے ۔ اللہ رحم فرمائے
ندوہ اب بھی غیرمتعصب ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں ہرفرقہ اورمسلک کے لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں اوراساتذہ میں احناف کی کثرت کے باوجود شوافع اوراہل حدیث بھی ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتاکہ وہاں اس کے اہل حدیث یاغیرمقلد ہونے کی بناء پر اس سے کچھ امتیاز برتاگیاہو۔
بات جہاں تک مولانا سلمان صاحب کے متعصب ہونے کی ہے تو وہ اپنی آنکھوں کے شہتیر کو نظرانداز کرنے والوں کا طرز عمل ہے۔ رئیس ندوی اورانہی جیسے دیگر غیرمقلدین امام ابوحنیفہ کے خلاف ادب اورشائستگی کی حد سے گزر کرکلام کریں تو وہ متعصب نہیں ہوسکتے کیوں کہ اپنی جماعت کے لوگ ہیں اپنے مدرسہ سلفیہ بنارس کے شیخ الحدیث ہیں اورپتہ نہیں کیاکچھ ہیں۔
البتہ مولانا سلمان صاحب نے اگرغیرمقلدین کی روش پر تنقید کی توہ وہ متعصب ہوگئے ۔
ہوسکتاہے کہ دیگر امور کی طرح اب غیرمقلدین نے تعصب اورعدم تعصب پر بھی کچھ خود ساختہ معیار قائم کرلیاہو۔ ورنہ جس معیار پر مولاناسلمان صاحب کو متعصب قراردیاجائے گااسی معیار پر غیرمقلدین کو اس سے زیادہ متعصب ماننا پڑے گا۔لیکن اس کو ماننے میں ان کا اپناتعصب آڑے آجائے گا۔