• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جب تمام اہلِ حدیث علماء و عوام نے ان کتابوں کا رد کردیا ہے تو ------ !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
عامر بھائی یہ بتانا پسند کریں گے کہ قاری عصمت اللہ خان ملتانی کئی سال اہل حدیث رہنے کے بعد دوبارہ حنفی دیوبندی کیوں ہوا؟ یا میں بتاؤں اور قاری عصمت اللہ ملتانی کا انٹرویو یہاں لگا دوں؟
میرے علم میں تو کئی ایسے اہل حدیث بھی ہیں جو اہل حدیث مذہب چھوڑ کر " مرزائی " ہو گئے تھے تو کیا یہ مرازئیوں کے حق ہونے کی دلیل ہے؟ فیصل آباد میں ایک اہل حدیث کا عالم ایسا بھی ہے جو بریلوی ہوگیا تھا کیا بریلوی مذہب کو حق سمجھ لوں؟
امید ہے طبعیت کافی صاف ہو گئی ہوگی آج کے لئے اتنا کافی ہے باقی آئندہ
میرے بھائی آپ وہ ویڈیو اپلوڈ کر دے تاکہ ھمارے علم میں بھی اضافہ ہو جائے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
عامر بھائی یہ بتانا پسند کریں گے کہ قاری عصمت اللہ خان ملتانی کئی سال اہل حدیث رہنے کے بعد دوبارہ حنفی دیوبندی کیوں ہوا؟ یا میں بتاؤں اور قاری عصمت اللہ ملتانی کا انٹرویو یہاں لگا دوں؟
میرے علم میں تو کئی ایسے اہل حدیث بھی ہیں جو اہل حدیث مذہب چھوڑ کر " مرزائی " ہو گئے تھے تو کیا یہ مرازئیوں کے حق ہونے کی دلیل ہے؟ فیصل آباد میں ایک اہل حدیث کا عالم ایسا بھی ہے جو بریلوی ہوگیا تھا کیا بریلوی مذہب کو حق سمجھ لوں؟
امید ہے طبعیت کافی صاف ہو گئی ہوگی آج کے لئے اتنا کافی ہے باقی آئندہ
قاری عصمت اللہ ملتانی نےمرکزی اشاعت توحیدوسنت سےاستعفی دےکرجمیعت اشاعت میں شامل ھوگۓیہ ان کاذاتی فیصلہ ھےنہ کہ جماعتی :مولانا موصوف پہلے بھی کافی مرتبہ جماعتیں تبدیل کر چکے ہیں.دو تین مرتبہ غیر مقلد بنے پھر مرکزی میں آۓ اور اب پھر جمیعت میں چلےگۓ. واضح رھےان کامرکزی اشاعت توحید و سنت میں کوئ عہدہ نھیں تھا 1 کارکن کے جانے سے جماعت پر کوئ اثرنھیں پڑتا:پہلےبھی مرکزی اشاعت توحیدوسنہ پاکستان کےامیرقاری کلیم اللہ خان تھےاوراب بھی ہیں

آپ اس لنک کو اوپن کریں اور کمنٹس پڑھیں آپ پر واضح ہو جائے گا کہ موصوف کتنی جماعت تبدیل کر چکے ہیں


 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
نسائی نے اپنی سنن میں باب رفع یدین للجسود میں مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے۔ کہ

انه رأی النبی صلی اللہ علیه وسلم رفع یدیه فی صلٰوته و فیه انه کان یرفع ھنا اذ السجد و اذا رفع رأسه من السجود ثم ذکر مثله من طرقٍ ثانیة و من طرق ثالثة فی ہذا الباب و ہی کہا من طریق نصر بن عاصم الالطاکی عن مالک بن الحویرث ثم ذکر النسائی فی باب الرفع من السجدة الاولیٰ عن مالک بن الحویرث مثله۔

اور یہ روایت بھی نصر بن عاصم کے طریق سے ہے۔ پس مالک بن حویرث کے چار طریق ہیں۔ اور چاروں نصر بن عاصم سے ہیں۔ اور یہ نصر بن عاصم ضعیف ہے (لین الحدیث) ایسے راوی سے حجت قائم نہیں ہو سکتی، اگرچہ اس کے متعلق اختلاف ہے۔ چنانچہ امام نسائی رحمہ اللہ نے حدیث نقل کی ہے ۔ جس کی سند اور متن اس طرح ہیں۔

عن عبد الاعلیٰ قال حدثنا خالد قال حدثنا شعبۃ عن قاتدة عن نصر عن مالک ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کان اذا صلیٰ رفع یدیه حین یکبر حیال اذنیه و اذا اراد ان یرکع و اذا رفع رأسه من الرکوع

صرف انہی موطن میں رفع یدین کا ذکر آیا ہے اور سجدہ میں رفع یدین کا ذکر نہیں ہے۔ اسی طرح امام نسائی نے اپنی سنن میں یعقوب اور ابراہیم کی روایت عن ابن عیینۃ عن ابن ابی عروبہ عن قتادہ عن نصر بن مالک نقل کی ہے۔ اس میں بھی رفع یدین فی السجود کا ذکر نہیں ہے۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ مالک بن حویرث کی روایت میں اضطراب ہے۔ اور یہ اضطراب ضعف روایت کا باعث ہے۔ چونکہ اس کا دارو مدار نصر بن عاصم پر ہے۔ اور وہ ضعیف ہے اگریہ کہا جائے کہ نسائی نے باب رفع یدین بین السجدتین میں انہی الفاظ کی حدیث مالک بن حویرث کے طریق کے علاوہ اور طریق سے بھی تخریج کی ہے۔ فرماتے ہیں

اخبرنا موسیٰ ابن عبد اللہ بن موسیٰ البصری قال اخبرنا النصر بن کثیر ابو سہل الازدی قال انه صلی الی جنب عبد اللہ بن طائوس عنی فی المجسد الخیف فکان اذا سجد السجدة الاولیٰ فرفع الرأسه منہا رفع یدیه تلفأ وجہه فانکرت انا ذالک فقلت لوہیب بن خالد ان ہذایصنع شیئا لم او احد یصنعه فقال له وہیب تصنع شیئا لم ار احدًا یصنعه فقال عبد اللہ بن طائوس رائیت ابی یصنعه و قال عبد اللہ بن عباس رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم صنعه

ہم کہتے ہیں کہ یہ نصر بن کثر وہی سعدی بصری ہے کہ ابو حیان نے اس کے متعلق کہا ہے کہ ثقات کی طرف موضوعات منسوب کرتا ہے۔ اس کے ساتھ حجت پکڑنا قطعاً درست نہیں ہے۔ انتہٰی کلام ابو حیان۔
لہذا کوئی سنت نصر بن کثیر جیسے کذاب اورنصر بن عاصم جیسے مختلف فیہ الراوی سے ثابت نہیں ہو سکتی اور یہ اس وقت ہے کہ اس کذاب اور ضعیف آدمی کی روایت قوی رواۃ کی روایتوں کے منافی نہ ہو، حالاں کہ یہ روایت صحابہ کے ایک گروہ کی روایات کے منافی ہے۔ چنانچہ کہا گیا ہے۔ کہ پچاس سے زیادہ صحابہ نے اس روایت کے مخالف حدیث بیان کی ہے۔ یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ ایک اور حدیث میں ہے۔ کہ انہ کان یرفع فی کل خفض و رفع کیوں کہ اگر یہ روایت درجہ صحت تک کو پہنچ بھی جائے تو اس خفض و رفع کو جمہور کی روایت پر محمول کیا جائے گا۔ کذاب اور ضعیف کی روایت پر محمول نہ ہو گا کیوں کہ یہ زیادتی اتنی اہم نہیں ہے۔ کہ اس سے عمل واجب ہو جائے گا، کذاب اور ضعیف کی روایت پر محمول نہ ہو گا کیوں کہ یہ زیادتی اتنی اہم نہیں ہے۔ کہ اس سے عمل واجب ہو جائے گا۔ کسی زیادتی سے وجوب عمل پر استدلال نہیں کیا جا سکتا تاوقتیکہ اس زیادتی پر حجت قائم ہو کر وہ قابل اخذ ہو جائے، ایسی زیادتیوں کے ساتھ حجت پکڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ حافظ ابن قیم ہدی نبوی میں فرماتے ہیں کہ رفع یدین فی السجود کی روایت میں وہم ہے۔ و فی ہذا کفایة لمن له هدایة۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
جہالت کس کی ٹپک رہی ہے یہ صاف ظاہر ہے!
یہاں سجدوں میں رفع یدین کے اثبات کی بات ہورہی ہے اور اہل حدیث کے محقق زبیر علی زئی صاحب کا کہنا ہے کہ (نور العینین ص 140 پر لکھا ہے کہ یہ بات تو عام طالب العلم کو بھی معلوم ہے کہ اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے)جناب نے جو روایت مالک بن حویرث کی پیش کی ہے اس میں سجدوں میں رفع یدین کی نفی نہیں ہے بلکہ عدم ذکر ہے اور یہ بھی اہل حدیث کا اصول ہے کہ عدم ذکر عدم نفی پر دلالت نہیں کرتا؟
یہ لیجئے سن 9ھ کے بعد سن10ھ کی حدیث مبارکہ حاضر ہے

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْجُشَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: كُنْتُ غُلَامًا لَا أَعْقِلُ صَلَاةَ أَبِي قَالَ: فَحَدَّثَنِي وَائِلُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ أَبِي وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ " إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ، قَالَ: ثُمَّ الْتَحَفَ، ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ وَأَدْخَلَ يَدَيْهِ فِي ثَوْبِهِ قَالَ: فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْه(حكم الألباني صحيح ) ابوداؤد،

سیدنا وائل بن حجر نبی اکرم کی وفات سے چھے ماہ پہلےدوسری مرتبہ مدینہ منورہ تشریف لائے تھے اور نبی اکرم کو سجدوں سے اُٹھتے ہوئے رفع یدین کرتے دیکھا ۔
اس سے پہلے سن 9ھ کی حدیث مبارکہ پیش کی تھی سن 9ھ کے بعد ابھی تک کوئی بھائی سجدوں کے رفع یدین کی منسوخی ثابت نہیں کر سکا اب بندہ نے سن 10ھ میں سجدوں سے اٹھتے ہوئے کے رفع یدین کی حدیث مبارکہ پیش کی ہے ہمت کریں نبی اکرم کی وفات سے پہلے نبی اکرم کا سجدوں میں رفع یدین منع ہونا یا منسوخ ہونا ثابت کریں
مسلم کہلاتے ہیں ان احادیث پر عمل کر کے مسلم بننے کی کوشش کریں
٭ آپ بھی جانتے ہیں کہ جہالت کس کی ٹپک رہی ہے؟ ماشاءاللہ۔ تو اس سے اور اچھی بات کیا ہوسکتی ہے۔ لیکن حیرانگی اس بات میں ہے کہ جانتے بوجھتے بھی اپنی جہالت کو مزید واضح کرتے چلے جا رہے ہیں۔
٭ ہاہاہاہاہا عدم ذمر عدم نفی پر دال نہیں ہوتا؟ تو پھر آپ لوگ کس منہ سے ایسی روایات اپنے حق میں پیش کرتے چلے جاتے ہوتے ہیں جس میں عدم ذکر ہوتا ہے؟ یہ دوگلا پالیسی ذرا مجھے بتائیں گے؟
٭ اثبات نفی پہ مقدم ہوتا ہے تو جناب ہم نے آپ کو کہا تھا کہ (آپ بھی جب مانتے ہیں کہ اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے تو پھر عامر بھائی نے جمیع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے اثبات رفع یدین کا دعویٰ نقل کیا ہے۔ تو آپ اس اثبات کو کیوں نہیں مان رہے؟) اس بات کو آپ ہضم کرگئے؟
٭ محترم جناب جس طرح آپ کتب کے حوالہ جات غلط دینے میں ماہر ہیں، اسی طرح ترجمہ وتشریح میں بھی ڈنڈی مارنے کے ماہر ہیں۔ اعلیٰ حضور سے گزارش ہے کہ اس ٹکڑے کا ترجمہ ہی پیش فرما دیں ۔ ثُمَّ سَجَدَ وَوَضَعَ وَجْهَهُ بَيْنَ كَفَّيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ أَيْضًا رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنے والئ حدیث کی صحت
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ الأُولَى. (مصنف ابن ابی شیبۃ
امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ الْأُولَى»[مصنف ابن أبي شيبة (1/ 243)]
یہ روایت شاذ ہے کیونکہ ان الفاظ‌ میں اس کی روایت میں‌ ابواسامہ منفرد ہیں‌ ، دیگر رواۃ نے اسی طریق سے اسی روایت کو دوسرے الفاظ میں بیان کیا ہے ، ملاحظہ ہو:
عبدَ الوهاب الثقفي کی روایت :
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ , حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ , عَنْ نَافِعٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ , وَإِذَا رَكَعَ , وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ , وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ يَرْفَعُهُمَا [رفع اليدين في الصلاة ص: 66]
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے کہا:
حدثنا يونس بن عبد الله ثنا أحمد بن عبد الله بن عبد الرحيم ثنا أحمد بن خالد ثنا محمد بن عبد السلام الخشني ثنا محمد بن بشار ثنا عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي عن عبيدالله ابن عمر عن نافع عن ابن عمر: أنه كان يرفع يديه إذا دخل في الصلاة، وإذا ركع، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، وإذا سجد، وبين الركعتين، يرفعهما إلى ثدييه [المحلى 4/ 93]۔
تنبیہ اول:
ابن حزم کی روایت میں ’’ وإذا قال: سمع الله لمن حمده، وإذا سجد‘‘ سے مراد رکوع اورسجدہ کے بیچ والی حالت ہے۔
یاد رہے کہ رکوع کے بعد والے رفع الیدین کا بیان کبھی رکوع کے لفظ کو ذکر کرکے کیا جاتا ہے اورکبھی کبھی رکوع کے بعد والے سجدہ کا ذکر کرکے کیا جاتا ہے ۔
مثلا:
امام ابوداؤد نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِذَا كَبَّرَ لِلصَّلَاةِ جَعَلَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَإِذَا رَفَعَ لِلسُّجُودِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ»[سنن أبي داود (1/ 197) یہ حدیث صحیح ہے علامہ البانی رحمہ اللہ کا اسے ضعیف قراردینا درست نہیں، حافظ زبیرعلی زئی نے بھی اسے صحیح کہا ہے]۔
اس حدیث میں رکوع والے رفع الیدین کو ’’وَإِذَا رَفَعَ لِلسُّجُودِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ‘‘ کہہ کر بیان کیا گیاہے۔
معلوم ہوا کہ ابن حزم کی راویت میں ’’وإذا سجد‘‘ کے ذریعہ رکوع والے رفع الیدین ہی کو بیان کیا گیا
اب رہی یہ بات کہ پھر اس سے پہلے ’’وإذا قال: سمع الله لمن حمده،‘‘ ہے ۔
تو عرض ہے کہ اس پوری عبارت ’’’وإذا قال: سمع الله لمن حمده، وإذا سجد‘‘ سے مراد رکوع کے بعد اورسجدہ سے قبل کا وقت مراد ہے جیساکہ اوپر بخاری کی روایت میں ہے ۔
اس طرح کی مثالیں دیگر مقامات پربھی ملتی ہیں‌ ۔
مثلا:
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:
أَخْبَرَنَا مَحْمُودٌ , أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , أَخْبَرَنِي نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُكَبِّرُ بِيَدَيْهِ حِينَ يَسْتَفْتِحُ وَحِينَ يَرْكَعُ , وَحِينَ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ , وَحِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ , وَحِينَ يَسْتَوِي قَائِمًا قُلْتُ لِنَافِعٍ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَجْعَلُ الْأَوْلَى أَرْفَعَهُنَّ قَالَ: لَا .[رفع اليدين في الصلاة ص: 40]
اس حدیث میں ’’ وَحِينَ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ , وَحِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ ‘‘ سے مراد اس دونوں کے بیچ کا وقت ہے ، یہی معاملہ اوپر کی حدیث میں بھی ہے۔
تنبیہ ثانی :
ابن حزم کی روایت میں ’’ وبين الركعتين ‘‘ سے مراد دوسری اورتیسری رکعت کے بیچ کی حالت مراد ہے یعنی پہلے تشھد سے اٹھنے کا وقت ہے ۔
یاد رہے کہ پہلے تشھد کے بعد والی حالت کوبھی ان الفاظ میں بیان کیا جاتاہے ۔
مثلا:
بیھقی کی ایک روایت میں ہے :
إذا جلستم بين الركعتين فقولوا التحيات لله والصلوات والطيبات السلام [السنن الكبرى ت :محمد عبد القادر عطا 2/ 148]
یہاں ’’ بين الركعتين ‘‘ سے مراد تشہد کے بعد کا وقت مراد ہے ۔
یہی مفہوم ابن حزم کی روایت میں‌ بھی ہے ، امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اي بعد القيام من التشهد [ الديباج :2/ 243 ]۔
عَبْدُ الْأَعْلَى کی روایت :
اما م بخاری رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا قَامَ مِنْ الرَّكْعَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَرَفَعَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَوَاهُ ابْنُ طَهْمَانَ عَنْ أَيُّوبَ وَمُوسَى بْنِ عُقْبَةَ مُخْتَصَرًا [صحيح البخاري 2/ 150]۔
ان دو رواۃ ’’عبدَ الوهاب الثقفي ‘‘ اور ’’عَبْدُ الْأَعْلَى‘‘ نے جو روایت کیا ہے وہی راجح ہے کیونکہ طریق ایک ہی ہے ۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ بخاری کی روایت میں‌ انہیں ابن عمررضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدوں میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے، ظاہر ہے ابن عمررضی اللہ عنہ جیسے صحابی جو چن چن کر سنتوں پرعمل کرنے میں معروف ہیں ۔
یہاں تک بعض احناف نے اپنی اصطلاح کے مطابق انہیں ’’ فنا فی الاتباع ‘‘ کا لقب دیا ہے۔
ایسے صحابی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کیسے عمل کرسکتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ ابواسامہ کی روایت دو ثقہ رواۃ کی مخالفت کی وجہ سے شاذ ہے اورشاذ روایت مردود ہوتی ہے۔
ان سب کے ساتھ یہ مت بھولیں کہ یہ روایت موقوف ہے اورصحیح اورصریح حدیث‌ رسول کے خلاف ہے لہٰذا اگر اس کی صحت ثابت بھی ہوجائے تب بھی حدیث رسول کے مقابلہ میں اس پرعمل نہیں کیا جاسکتا۔

نقل کردہ
 
Top