• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جدید تحقیق کے مطابق زمین چپٹی ہے ۔قران سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ کروی ہے

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے۔کہ زمین چپٹی ہےیا ناشپاتی جیسی ہے ۔ اب قرانی دلائل کی کیا تفسیر کی جائے
زمین کی شکل کروی ہے
پرانے زمانے میں یہ خیال کیا جاتاتھا کہ زمین چوڑی ہے اور صدیوں تک لوگ اسی وجہ سے دور دراز تک سفر کرنے سے ڈرتے تھے کہ مبادا وہ کہیں زمین کے کناروں سے نیچے نہ گر پڑیں۔ سر فرانسسکو وہ پہلا شخص تھا کہ جس نے 1597 ء میں دنیا کا چکر لگایا اور اس بات کو ثابت کیاکہ زمین کی بناوٹ کُروی ہے۔ [1]اللہ تعالیٰ نے زمین کی اس بناوٹ کے متعلق درج ذیل آیت میں اشارہ دیا ہے۔
( اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فَی النَّھَارِ وَیُوْلِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ)
” کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتاہے …”[2]
یہاں داخل ہونے سے مراد رات کا بتدریج دن میں تبدیل ہونا اور اسی طرح دن کا رات میں بتدریج تبدیل ہوناہے۔ یہ عمل اسی وقت ممکن ہے اگر زمین کروی ہواور اگر زمین چوڑی ہو تی تو یہ عمل بتدریج نہ ہوتا بلکہ شاید رات فوراً دن میں اور دن فوراً رات میں تبدیل ہوتا۔
قرآن کریم میں ایک اور مقام پر ارشاد ربّانی ہے:
( یُکَوِّرُ الَّیْلَ عَلَی النَّھَارِ وَیُکَوِّرُ النَّھَارَ عَلَی الَّیْلِ)
” وہ رات کو دن پر اورد ن کو رات پر لپیٹتا ہے.. ” [3]
مولانا عبدالرحمان کیلانی اس آیت کی تشریح کر تے ہوئے لکھتے ہیں: ” یعنی شام کے وقت اگر مغرب کی طرف نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ ادھر سے اندھیرا اوپر کو اٹھ رہا ہے جو بتدریج بڑھتا جاتاہے تاآنکہ سیاہ رات چھا جاتی ہے۔ اسی طرح صبح کے وقت اجالا مشرق سے نمودار ہوتاہے جو بتدریج بڑھ کر پورے آسمان پرچھاجاتاہے۔اور سورج نکل آتا ہے تو کائنات جگمگا اٹھتی ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ رات کو دن پر اور دنکو رات پر لپیٹا جارہاہے”۔دن اور رات کو ایک دوسرے پر لپیٹنا اسی صورت ممکن ہے جب زمین گول ہو۔ زمین گیند کی طرحگول بھی نہیں ہے بلکہ یہ انڈے کی طرح بیضوی ہے۔ فرمایا گیا:
(وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰھَا)
” اور اس کے بعد زمین کو بچھادیا ”[4]
مولانا عبدالرحمان کیلانی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ” دحیٰ اور طحیٰ دونوں ہم معنی بلکہ ایک ہی لفظ ہے۔ صرف مختلف علاقوں کے الگ الگ تلفظ کی وجہ سے یہ دو لفظ بن گئے ہیں۔ قرآن میں یہ دونوں الفاظ صرف ایک ایک بار ہی استعمال ہوئے ہیں اور ایک ہی معنی میں آئے ہیں، کہتے ہیں دحی المطر الحصٰی یعنی بارش کنکریوں کو دور دور تک بہا کر لے گئی۔ گویا ان دونوں الفاظ کامعنی دور دور تک بچھا دینا ہے نیز دحیٰ کے مفہوم میں گولائی کاتصور پایاجاتاہے۔ دحوہ شتر مرغ کے انڈے کو کہتے ہیں۔ اس سے بعض لوگوں نے زمین کے گول ہونے پر استدلال کیاہے۔”
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے ” علاوہ ازیں زمین کو اس نے انڈے کی شکل میں بنایایہاں لفظ دحھا استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں Ostrich Egg یعنی شترمرغ کے انڈے کی طرح”۔[5]
وکی آن لائن ڈکشنری پر بھی ان الفاظ ، دحی اور دحیہ کے معانی دیکھے جاسکتے ہیں۔جبکہ سائنسدان زمین کی شکل کو “Oblate Spheroid “ کی طرح کا قرار دیتے ہیں یعنی ایسی چیزجو قطبین پر شلجم کی طرح چپٹی ہو۔ اب ذیل میں زمین ،شترمرغ کے انڈے اور “Oblate Spheroid “ کی شکلیں دی گئی ہیں جن سے آپ اندازہ کرسکتےہیں کہ ان میں کچھ فرق نہیں ہے۔
علاوہ ازیں یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمان روزاول سے زمین کے کروی ہونے پر یقین رکھتے تھے ۔ اس کا ثبوت ماہرجغرافیہ دان محمد الادریسی (1099–1165 or 1166) کاوہ پہلہ عالمی نقشہ ہے جو اس نے 1154ء میں بنایاتھا۔اس میں زمین کے جنوبی حصے کو اوپر کی جانب دکھایا گیا تھا۔
چنانچہ قرآن مجید زمین کی شکل کے متعلق وہی اطلاعات فراہم کرتاہے جو آج سا ئنس نے ہمیں بتائی ہیں جبکہ قرآن کے نزول کے وقت یہ خیال کیاجاتا تھا کہ زمین چوڑی ہے۔
[1] بحوالہ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک ،صفحہ 8
[2] لقمان، 31:29
[3] الزمر، 39-05 ۔ ”تیسیرالقرآن” جلد چہارم
[4] النازعات،79-30
[5] بحوالہ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک ،صفحہ 9
درمیانی مراحل
عملِ تخلیق کے آغاز کے بعد زمین جن مختلف مراحل سے گزری، قرآن ان کو اشاراتی طور پر زمانی ترتیب کے ساتھ بیان کرتا ہے : ﴿والارض بعد ذلک دحٰھا، اخرج منھا مآء ھا ومرعھا، والجبال ارسٰھا﴾․ (النازعات:32-30)
ترجمہ: اور زمین کو اس کے بعد پھیلایا، اس سے اس کا پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو قائم کر دیا۔
اس آیت سے زمین کے عملِ تخلیق کے درمیانی مراحل پر روشنی پڑتی ہے کہ زمین کا مادہ جو عالم آب میں مستور تھا، وہ ظاہر ہونے کے بعد پھلینا شروع ہوا اور پھر سطح ارض کے نشیبی حصوں میں پانی اترنے لگا، جس سے نہریں اور سمندر بنتے چلے گئے ، اس کے بعد اس کے اندر سے پہاڑی چٹانیں برآمد ہوئیں، جو بتدریج اونچے پہاڑوں کی شکل میں تبدیل ہو گئیں۔
زمین کا قالب
قرآن نے زمین کے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا کہ زمین کی شکل وصورت کیسی ہے ؟ آج کے جدید سائنسی دور میں یہ مشہور سی بات ہے کہ زمین کرہ ( گیند) کی طرح گول ہے۔ یعنی خط استوا سے دیکھا جائے تو وسیع ترین نظر آتی ہے او راس کے قطبین سے دیکھا جائے تو وہ چھوٹی اور معمولی نظر آتی ہے، مگر سائنس کا بیان قرآن کے بیان پر اضافہ نہیں ہے ، قرآن نے بھی زمین کے قالب کا یہی نقشہ اپنے الفاظ میں کھینچا ہے :﴿اولم یروا انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا والله یحکم لا معقب لحکمہ وھو سریع الحساب﴾․ (رعد:41)
ترجمہ: کیا انہو نے غور نہیں کیا کہ زمین کو ان پر ہم اس کے کناروں سے کم کرتے ہیں؟حکم صرف الله کا ر ہے گا، کوئی اس کے حکم کوٹال نہیں سکتا اورحساب لینے میں اسے کچھ بھی دیرنہیں لگے گی۔
﴿ بل متعنا ھؤلاء واباء ھم حتی طال علیھم العمر افلا یرون انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا افھم الغالبون﴾․ (انبیاء:44)
ترجمہ: بلکہ ہم نے ان کو اور ان کے باپ داداؤں کو ایک مدت تک برتنے کو سامانِ زندگی دیا اور طویل عمر گزرنے پر بھی حق بات ان کی سمجھ میں نہ آسکی ، کیا وہ نہیں دیکھتے کہ زمین کو ہم چاروں طرف سے ان پر کم کرتے ہیں توکیا اب بھی کچھ امکان رہ گیا ہے کہ یہ غالب آجائیں گے۔
﴿ننقص من اطرافھا ﴾کا مطلب اگر یہ لیا جائے کہ زمین اپنے کناروں سے چھو ٹی معلوم ہوتی ہے ، تو زمین کا کروی قالب ہونا صاف ثابت ہوتا ہے ، اس لیے کہ ہر گول جسم خطِ استوا سے وسیع اور طرفین سے چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔​
 
شمولیت
اگست 13، 2011
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
172
پوائنٹ
82
السلام علیکم
یہ سب باتیں اپنی جگہ، لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں کہ قرآن کتاب ہدایت ہے سائنس کی کتاب نہیں ہے۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے۔کہ زمین چپٹی ہےیا ناشپاتی جیسی ہے ۔ اب قرانی دلائل کی کیا تفسیر کی جائے
زمین کی شکل کروی ہے
پرانے زمانے میں یہ خیال کیا جاتاتھا کہ زمین چوڑی ہے اور صدیوں تک لوگ اسی وجہ سے دور دراز تک سفر کرنے سے ڈرتے تھے کہ مبادا وہ کہیں زمین کے کناروں سے نیچے نہ گر پڑیں۔ سر فرانسسکو وہ پہلا شخص تھا کہ جس نے 1597 ء میں دنیا کا چکر لگایا اور اس بات کو ثابت کیاکہ زمین کی بناوٹ کُروی ہے۔ [1]اللہ تعالیٰ نے زمین کی اس بناوٹ کے متعلق درج ذیل آیت میں اشارہ دیا ہے۔
( اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فَی النَّھَارِ وَیُوْلِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ)
” کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتاہے …”[2]
یہاں داخل ہونے سے مراد رات کا بتدریج دن میں تبدیل ہونا اور اسی طرح دن کا رات میں بتدریج تبدیل ہوناہے۔ یہ عمل اسی وقت ممکن ہے اگر زمین کروی ہواور اگر زمین چوڑی ہو تی تو یہ عمل بتدریج نہ ہوتا بلکہ شاید رات فوراً دن میں اور دن فوراً رات میں تبدیل ہوتا۔
قرآن کریم میں ایک اور مقام پر ارشاد ربّانی ہے:
( یُکَوِّرُ الَّیْلَ عَلَی النَّھَارِ وَیُکَوِّرُ النَّھَارَ عَلَی الَّیْلِ)
” وہ رات کو دن پر اورد ن کو رات پر لپیٹتا ہے.. ” [3]
مولانا عبدالرحمان کیلانی اس آیت کی تشریح کر تے ہوئے لکھتے ہیں: ” یعنی شام کے وقت اگر مغرب کی طرف نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ ادھر سے اندھیرا اوپر کو اٹھ رہا ہے جو بتدریج بڑھتا جاتاہے تاآنکہ سیاہ رات چھا جاتی ہے۔ اسی طرح صبح کے وقت اجالا مشرق سے نمودار ہوتاہے جو بتدریج بڑھ کر پورے آسمان پرچھاجاتاہے۔اور سورج نکل آتا ہے تو کائنات جگمگا اٹھتی ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ رات کو دن پر اور دنکو رات پر لپیٹا جارہاہے”۔دن اور رات کو ایک دوسرے پر لپیٹنا اسی صورت ممکن ہے جب زمین گول ہو۔ زمین گیند کی طرحگول بھی نہیں ہے بلکہ یہ انڈے کی طرح بیضوی ہے۔ فرمایا گیا:
(وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰھَا)
” اور اس کے بعد زمین کو بچھادیا ”[4]
مولانا عبدالرحمان کیلانی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ” دحیٰ اور طحیٰ دونوں ہم معنی بلکہ ایک ہی لفظ ہے۔ صرف مختلف علاقوں کے الگ الگ تلفظ کی وجہ سے یہ دو لفظ بن گئے ہیں۔ قرآن میں یہ دونوں الفاظ صرف ایک ایک بار ہی استعمال ہوئے ہیں اور ایک ہی معنی میں آئے ہیں، کہتے ہیں دحی المطر الحصٰی یعنی بارش کنکریوں کو دور دور تک بہا کر لے گئی۔ گویا ان دونوں الفاظ کامعنی دور دور تک بچھا دینا ہے نیز دحیٰ کے مفہوم میں گولائی کاتصور پایاجاتاہے۔ دحوہ شتر مرغ کے انڈے کو کہتے ہیں۔ اس سے بعض لوگوں نے زمین کے گول ہونے پر استدلال کیاہے۔”
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے ” علاوہ ازیں زمین کو اس نے انڈے کی شکل میں بنایایہاں لفظ دحھا استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں Ostrich Egg یعنی شترمرغ کے انڈے کی طرح”۔[5]
وکی آن لائن ڈکشنری پر بھی ان الفاظ ، دحی اور دحیہ کے معانی دیکھے جاسکتے ہیں۔جبکہ سائنسدان زمین کی شکل کو “Oblate Spheroid “ کی طرح کا قرار دیتے ہیں یعنی ایسی چیزجو قطبین پر شلجم کی طرح چپٹی ہو۔ اب ذیل میں زمین ،شترمرغ کے انڈے اور “Oblate Spheroid “ کی شکلیں دی گئی ہیں جن سے آپ اندازہ کرسکتےہیں کہ ان میں کچھ فرق نہیں ہے۔
علاوہ ازیں یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمان روزاول سے زمین کے کروی ہونے پر یقین رکھتے تھے ۔ اس کا ثبوت ماہرجغرافیہ دان محمد الادریسی (1099–1165 or 1166) کاوہ پہلہ عالمی نقشہ ہے جو اس نے 1154ء میں بنایاتھا۔اس میں زمین کے جنوبی حصے کو اوپر کی جانب دکھایا گیا تھا۔
چنانچہ قرآن مجید زمین کی شکل کے متعلق وہی اطلاعات فراہم کرتاہے جو آج سا ئنس نے ہمیں بتائی ہیں جبکہ قرآن کے نزول کے وقت یہ خیال کیاجاتا تھا کہ زمین چوڑی ہے۔
[1] بحوالہ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک ،صفحہ 8
[2] لقمان، 31:29
[3] الزمر، 39-05 ۔ ”تیسیرالقرآن” جلد چہارم
[4] النازعات،79-30
[5] بحوالہ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک ،صفحہ 9
درمیانی مراحل
عملِ تخلیق کے آغاز کے بعد زمین جن مختلف مراحل سے گزری، قرآن ان کو اشاراتی طور پر زمانی ترتیب کے ساتھ بیان کرتا ہے : ﴿والارض بعد ذلک دحٰھا، اخرج منھا مآء ھا ومرعھا، والجبال ارسٰھا﴾․ (النازعات:32-30)
ترجمہ: اور زمین کو اس کے بعد پھیلایا، اس سے اس کا پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو قائم کر دیا۔
اس آیت سے زمین کے عملِ تخلیق کے درمیانی مراحل پر روشنی پڑتی ہے کہ زمین کا مادہ جو عالم آب میں مستور تھا، وہ ظاہر ہونے کے بعد پھلینا شروع ہوا اور پھر سطح ارض کے نشیبی حصوں میں پانی اترنے لگا، جس سے نہریں اور سمندر بنتے چلے گئے ، اس کے بعد اس کے اندر سے پہاڑی چٹانیں برآمد ہوئیں، جو بتدریج اونچے پہاڑوں کی شکل میں تبدیل ہو گئیں۔
زمین کا قالب
قرآن نے زمین کے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا کہ زمین کی شکل وصورت کیسی ہے ؟ آج کے جدید سائنسی دور میں یہ مشہور سی بات ہے کہ زمین کرہ ( گیند) کی طرح گول ہے۔ یعنی خط استوا سے دیکھا جائے تو وسیع ترین نظر آتی ہے او راس کے قطبین سے دیکھا جائے تو وہ چھوٹی اور معمولی نظر آتی ہے، مگر سائنس کا بیان قرآن کے بیان پر اضافہ نہیں ہے ، قرآن نے بھی زمین کے قالب کا یہی نقشہ اپنے الفاظ میں کھینچا ہے :﴿اولم یروا انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا والله یحکم لا معقب لحکمہ وھو سریع الحساب﴾․ (رعد:41)
ترجمہ: کیا انہو نے غور نہیں کیا کہ زمین کو ان پر ہم اس کے کناروں سے کم کرتے ہیں؟حکم صرف الله کا ر ہے گا، کوئی اس کے حکم کوٹال نہیں سکتا اورحساب لینے میں اسے کچھ بھی دیرنہیں لگے گی۔
﴿ بل متعنا ھؤلاء واباء ھم حتی طال علیھم العمر افلا یرون انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا افھم الغالبون﴾․ (انبیاء:44)
ترجمہ: بلکہ ہم نے ان کو اور ان کے باپ داداؤں کو ایک مدت تک برتنے کو سامانِ زندگی دیا اور طویل عمر گزرنے پر بھی حق بات ان کی سمجھ میں نہ آسکی ، کیا وہ نہیں دیکھتے کہ زمین کو ہم چاروں طرف سے ان پر کم کرتے ہیں توکیا اب بھی کچھ امکان رہ گیا ہے کہ یہ غالب آجائیں گے۔
﴿ننقص من اطرافھا ﴾کا مطلب اگر یہ لیا جائے کہ زمین اپنے کناروں سے چھو ٹی معلوم ہوتی ہے ، تو زمین کا کروی قالب ہونا صاف ثابت ہوتا ہے ، اس لیے کہ ہر گول جسم خطِ استوا سے وسیع اور طرفین سے چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔
@اسحاق سلفی
@خضر حیات
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
شیخ ابن باز بھی زمیں کو چپٹی کہتے تھے
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم
یہ سب باتیں اپنی جگہ، لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں کہ قرآن کتاب ہدایت ہے سائنس کی کتاب نہیں ہے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ. اس کا کیا مطلب؟؟؟؟
کیا قرآن تحقیق کی دعوت نہیں دیتا؟؟؟؟
اگر قرآن سے حقائق کا اثبات ہوتا ہے تو اسمیں کیا حرج ہے؟؟؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
شیخ ابن باز بھی زمیں کو چپٹی کہتے تھے
شیخ بن باز رحمہ اللہ کو ''فریم آف ریفرنس '' کے تناظر میں خطاء ہوئی ہے، کیونکہ شیخ کو سائنسی علوم کے علوم نہ تھے، ہمارے لئے زمین بچھی ہوئی ہے، یہ بات درست ہے، لیکن جب زمین کو شمسی نظام وغیرہ کے ''فریم آف ریفرنس'' میں دیکھا جائے گا تو زمیں بچھی ہوئی نہ پائے جائے گی!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ. اس کا کیا مطلب؟؟؟؟
کیا قرآن تحقیق کی دعوت نہیں دیتا؟؟؟؟
اگر قرآن سے حقائق کا اثبات ہوتا ہے تو اسمیں کیا حرج ہے؟؟؟؟
عمر بھائی! یہ جدید تحقیق کہاں سے اخذ کی گئی ہے کہ زمین چپٹی ہے؟
یہ اسی طرح کی بات ہے جیسے، ایک پاکستانی نے پانی سے گاڑی چلانے کا دعوی کیا، اور ہمارے ملک کے بڑے بڑے صحافی وزیر وغیرہ نے نہ صرف اس پر یقین و اعتماد کرلیا، بلکہ اس سے بڑھ کر اپنے نمبر بڑھانے کے لئے جھوٹ بھی بولا! اور تو اور مجھے تو ڈاکٹر عبد القدیر کی بات سن کر حیرت ہوئی تھی! اس دن مین نے کہا تھا : میاں اپنے ایٹم بن چیک کرواو، کہیں وہ بھی ''پانی کے بم'' نہ ہوں، جیسے غبارہ میں پانی بھر کر بچے بناتے ہیں!
اب کوئی شخص قرآنی آیات کی ایسی تاویل کرکے کے جس سے زمیں کو حقیقتاً چپٹی قرار دیا جائے اور بعد میں یہ ''تحقیق'' ایک ڈرامہ معلوم ہو ا تو کیا کریں گے!
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عمر بھائی! یہ جدید تحقیق کہاں سے اخذ کی گئی ہے کہ زمین چپٹی ہے؟
محترم شیخ!
میں نے مطلقا کہا تھا. یہ زمین چپٹی ہے اس تناظر میں نہیں کہا تھا. ورنہ بندہ سائنس میں بہت کمزور ہے.
 

ادب دوست

مبتدی
شمولیت
جولائی 23، 2015
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
22
میرا خیال ہے کرہ ارض کی ساخت سے متعلق قران کی جو آیات یہاں درج کی گئی ہیں، ان کے علاوہ آیات کو بھی مدِ نظر رکھا جائے تو زیادہ بہترہے ۔
وللہ اعلم۔۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
عمر بھائی! ممکن ہے کہ کوئی دہریہ ایسی بات کرے کہ جدید تحقیق کے مطابق زمین چپٹی ہے، کوئی قرآنی آیات کی تاویل سے زمین کے چپٹی ہونے کا ذکر قرآن سے ثابت کرے، کل کو وہی دہریہ کہے کہ یہ تحقیق کہ زمین چپٹی ہے غلط ثابت ہوئی ہے۔
اب قرآن کی آیات سے تاویل کرکے جو قرآن سے ثابت کیا گیا ہے، اس کا کیا ہوگا۔
اس دہریہ کا تو کچھ نہ گیا ، قرآن کی آیات پر سوال کھڑا ہو جائے گا!
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
شیخ ابن باز بھی زمیں کو چپٹی کہتے تھے
جی نہیں ، شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ زمین کو ’’ کرویہ ‘‘ یعنی بیضوی مانتے ہیں ،
ان کی رسمی یعنی (official ) ویب سائیٹ پر ان کا اپنا یہ بیان ہے کہ :
’’ الأرض كروية عند أهل العلم، قد حكى ابن حزم وجماعة آخرون إجماع أهل العلم على أنها كروية، يعني أنها منضمٌ بعضها إلى بعض مدرمحة، كالكرة، لكن الله بسط أعلاها لنا فجعل فيها الجبال الرواسي، وجعل فيها الحيوان والبحار رحمةً بنا، ولهذا قال: وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ [(20) سورة الغاشية]. فهي مسطوحة الظاهر لنا ليعيش عليها الناس ويطمئن عليها الناس، فكونها كروية لا يمنع تسطيح ظاهرها ؛ لأن الشيء الكبير العظيم إذا سُطح صار له ظهرٌ واسع ‘‘
یعنی اہل علم کے نزدیک زمین کروی (گول ، بیضوی ) ہے ، امام ابن حزم ؒ اوردیگر کئی حضرات نے بیان کیا ہے کہ زمین کے کرویہ ہونے پر اجماع ہے ،رابطہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور ان کے مجموع فتاوی ابن باز میں کم از کم تین مقامات پر انکی یہ تردید موجود ہے کہ میں کبھی زمین کے کروی ہونے کی نفی نہیں کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top