ابن داود صاحب : میں عقاید کے ساتھ نظری کا قید لگایا ہے اس پر آپ سوچ کر جواب دیں اگر میرا خیال غلط نکلا تو بلاتردد رجوع کرونگا اور کہہ دونگا کہ اس سلسلہ میں بندہ کا مطالعہ ناقص تھا
بہرحال علامہ شامی کے متن جو بات ہے اس سے یہ ثابت نہین ہوتا کہ نظری عقاید میں تقلید ناجائز ہے خصوصا اس عبارت غور فرمائیں : مما يجب اعتقاده على كل مكلف بلا تقليد لأحد
ہر مکلف پر بدیہی عقاید میں( جیسا کہ اللہ ایک ہے) تقلید جائز نہیں اس ضمن اگر مولانا صفدر رحمہ اللہ کی عبارت پر غور کیا جائےاور دوبارہ رجوع کرکے حاشیہ والی عبارت کو بغور پڑھا جائے تو صاف واضح ہوگا کہ بات بدیہی عقاید کی چل رہی ہے تبھی تو کہا گیا ہے کہ تقلیدی ایمان درست ہے لیکن تحقیق نہ کرنے کی وجہ وہ آثم ہوگا ،
اور فیما نحن فیہ نظری عقیدہ ہے تبھی تو یہی فرمایا گیا ہے کہ متاخرین نے عوام کو (غیر مقلدوں کی طرح) تجسیم سے بچانے کیلئے غیر متعین تاویل جائز قرار دیا ہے اور بدیہی عقاید میں کوئی تاویل نہیں ہوتا اگریہی متنازع فیہ مسئلہ بدیہی ہوتا تو اتنے تاویل نہیں کرنے پڑھتے اور ہم پر آپ جیسے مجسمہ جہمیہ کا حکم نہیں لگاتے ،اسی تقلید فی العقیدہ کی وجہ سے تو ہمارے اکابر السادہ الماتریدیہ کہلائےجاتے ہیں ،آپ سے میں گزارش کی تھی کہ ہم جہمیہ کیوں ہیں آپ اتناببانگ دھل دعوی کر رہے ہیں تو کچھ وضاحت فرماکر وجوہات کا تعین کرے اور بہتر ہو گا کہ آپ اس کیلئے کسی اور فورم مین تھریڈ شروع کرے ۔
باقی تقریر ترمذی کے حوالہ کا scan اگر پیش فرمائیں تو نوازش ہوگی دور حاضر اور دور سابق کے احناف کے عقاید ایک ہی ہیں فرق ہے تو بتادیں ،ہمارے علم میں بھی اضافہ ہو جائیگا
اور امام اعظم رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو آپ نے قول پیش کیا ہے اس میں ابن ابی داود کذاب ہے رغم انف المعلمی الیمانی کیونکہ انہوں نے دفاع بہت کوشش کی لیکن کذب کا الزام دفع نہیں کرسکے بلکہ کذب کے علت کا مطالبہ کر بیٹھا کیونکہ اس کے کذب جرح مبہم قرار دیا ہے فیا سبحان اللہ
اب مہربانی ہوگی کہ صرف ابن داود بھائی جواب دیں اور دودو ہاتھ ہوجائیں حضر حیات صاحب !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
بہرحال علامہ شامی کے متن جو بات ہے اس سے یہ ثابت نہین ہوتا کہ نظری عقاید میں تقلید ناجائز ہے خصوصا اس عبارت غور فرمائیں : مما يجب اعتقاده على كل مكلف بلا تقليد لأحد
ہر مکلف پر بدیہی عقاید میں( جیسا کہ اللہ ایک ہے) تقلید جائز نہیں اس ضمن اگر مولانا صفدر رحمہ اللہ کی عبارت پر غور کیا جائےاور دوبارہ رجوع کرکے حاشیہ والی عبارت کو بغور پڑھا جائے تو صاف واضح ہوگا کہ بات بدیہی عقاید کی چل رہی ہے تبھی تو کہا گیا ہے کہ تقلیدی ایمان درست ہے لیکن تحقیق نہ کرنے کی وجہ وہ آثم ہوگا ،
اور فیما نحن فیہ نظری عقیدہ ہے تبھی تو یہی فرمایا گیا ہے کہ متاخرین نے عوام کو (غیر مقلدوں کی طرح) تجسیم سے بچانے کیلئے غیر متعین تاویل جائز قرار دیا ہے اور بدیہی عقاید میں کوئی تاویل نہیں ہوتا اگریہی متنازع فیہ مسئلہ بدیہی ہوتا تو اتنے تاویل نہیں کرنے پڑھتے اور ہم پر آپ جیسے مجسمہ جہمیہ کا حکم نہیں لگاتے ،اسی تقلید فی العقیدہ کی وجہ سے تو ہمارے اکابر السادہ الماتریدیہ کہلائےجاتے ہیں ،آپ سے میں گزارش کی تھی کہ ہم جہمیہ کیوں ہیں آپ اتناببانگ دھل دعوی کر رہے ہیں تو کچھ وضاحت فرماکر وجوہات کا تعین کرے اور بہتر ہو گا کہ آپ اس کیلئے کسی اور فورم مین تھریڈ شروع کرے ۔
باقی تقریر ترمذی کے حوالہ کا scan اگر پیش فرمائیں تو نوازش ہوگی دور حاضر اور دور سابق کے احناف کے عقاید ایک ہی ہیں فرق ہے تو بتادیں ،ہمارے علم میں بھی اضافہ ہو جائیگا
اور امام اعظم رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو آپ نے قول پیش کیا ہے اس میں ابن ابی داود کذاب ہے رغم انف المعلمی الیمانی کیونکہ انہوں نے دفاع بہت کوشش کی لیکن کذب کا الزام دفع نہیں کرسکے بلکہ کذب کے علت کا مطالبہ کر بیٹھا کیونکہ اس کے کذب جرح مبہم قرار دیا ہے فیا سبحان اللہ
اب مہربانی ہوگی کہ صرف ابن داود بھائی جواب دیں اور دودو ہاتھ ہوجائیں حضر حیات صاحب !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!