اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ حق کی اتباع کرنے والوں کا حامی و ناصر ہو۔ آمینجی واقعی مجھ سے غلطی ہوگئی
محترم بھٹی صاحب!اوپر نمایاں کی گئی عبارت چونکہ اصل عبارت کو نہ تو صحیح ترجمہ تھا اور نہ ہی صحیح مفہوم۔ اس لئے میں نے کہا کہ؛
محترم!اس پر بجائے موصوف”محمد طارق عبد اللہ“ کے ”عمر اثری صاحب“ میدان میں آ گئے
یہ واقعی ایک غلطی تھی کہ میں نے زیادہ لکھا. اسکے لۓ معافی چاہتا ھوں.اصل مطالبہ کے جواب میں مزید باتیں بھی لکھ دیں۔
یہاں پھر سے گذارش کرتا ھوں کہ آپ میری رہنمائ کرتے ھوۓ اس کا صحیح ترجمہ اور صحیح مفہوم لکھ دیں. آپ کا ممنون ومشکور ھوں گا.س میں صرف وہ تحریر میرے لئے مطلوب تھی جس کا ترجمہ موصوف ”محمد طارق عبد اللہ“ نے غلط لکھا تھا جیسا کہ عربی جاننے والا اس پر فریب ترجمہ کو اچھی طرح جان سکتا ہے۔ میں نے اوپر عربی تحریر میں جس کو نمایاں کیا ہے اس کا مفہوم اور موصوف ”محمد طارق عبد اللہ“ کے ترجمہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
محترم جو آپ نے پہلے لکھا اسکو میں نے پہلے لکھا. اب آپ تاویلات کریں تو میں کیا کر سکتا ھوں؟؟؟یہ قول عمل میں تضاد تو نہ تھا مگر موصوف ”عمر اثری صاحب“ نے جو کمال دکھلایا وہ ملاحظہ فرما لیں۔ انہوں نے پوسٹ نمبر 361 کا اقتباس پہلے رکھا اور پوسٹ نمبر 354 کو بعد میں
تو کیا غلط کہا؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں اہلحدیث کہلانے والوں کے فہم کو مانا جائے۔جب عمر بھائی نے آپ کو محدثین کے اقوال پیش کیے حدیث کی تشریح میں تو آپ نے کہا امتیوں کے قول پیش کرتے ہو نبی کے مقابلے میں
اللہ ثابت قدم رکھے. آمین.ضد، ہٹ دھرمی، بغض ،عناد جیسی مذموم باتوں سے الحمد للہ مبرا ہوں۔
فتوی لگانے میں اتنی جلدی نہ مچائیں محترم. آپکے کچھ علماء نے بھی صحیح مسلم کی اس حدیث سے یہی فہم اخذ کیا ہے جو ھم نے کیا ھے. (یعنی کہ صحیح مسلم کی یہ حدیث تشہد کے سلسلے میں ھے) مزید محدثین کرام رحمہم اللہ کی ایک بڑی جماعت نے اس حدیث کو تشہد کے باب میں ذکر کیا ھے. (بلکہ اجماع بھی ذکر کیا جاتا ھیکہ یہ حدیث سلام کے وقت ھاتھ کے اٹھانے کے متعلق ھے. چونکہ اجماع کا حوالہ مجھے نہیں معلوم اس لۓ میں نے اسکو اصل عبارت میں نقل نہیں کیا)رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے والوں کا چہرہ یہاں اس تھریڈ میں نمایا نظر آتا ہے۔
کہاں صراحت ھے جناب؟؟؟صحیح صریح غیر مجروح حدیث سے انکار کے جو جتن ممکن ہین وہ عمل میں لا رہے ہیں۔
خط کشیدہ الفاظ کے متعلق میں اوپر عرض کر چکا ھوں. اب آئیۓ آپ کی اس صحیح مسلم کی حدیث کے متعلق عرض کرتا چلوں. (حالانکہ پہلے ھی میں وضاحت کے ساتھ عرض کر چکا ھوں اب بس رہنائ کر رھا ھوں)بھلا یہ حدیث اپنے مدلول میں کیا واضح نہیں؛
صحيح مسلم : كِتَاب الصَّلَاةِ
جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ الحدیث
جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس (مسجد میں) آئے اور (ہمیں نماز میں رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھ کر) فرمایا کہ یہ کیا ہے کہ میں تمہیں شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح رفع الیدین کرتے دیکھ رہا ہوں نماز میں سکون سے رہو ـــــــــ الحدیث۔
محترم بھٹی صاحب!
دعوی تھا آپ کا نسخ کا لیکن یہ الگ بات ھیکہ آپ رفع الیدین کے منسوخ ھونے پر کوئ دلیل نہ دے سکے.
آپ نے ترک رفع الیدین پر صحیح مسلم کی حدیث پیش کی اور کہا کہ اس حدیث سے رفع الیدین منسوخ ھو چکا ھے. یہ کیا بات ھوئ؟ جس کو من چاہا منسوخ کہ دیا ؟ کوئ قاعدہ وغیرہ ھے حنفیہ کے پاس؟ یا ایسے ھی جو مسلک کے خلاف ھو وہ منسوخ؟
میں نے کل بھی آپ سے کہا تھا کہ آپ کی پیش کردہ صحیح مسلم کی روایت ترک رفع الیدین پر یا رفع الیدین کے منسوخ ھونے پر دلیل نہیں بن سکتی. آپ میری باتوں کو دھیان سے پڑھیں اور غیر جانبدارانہ انداز سے اس پر سوچیں:
بھٹی صاحب!
- آپکے دعوے اور دلیل میں کوئی مطابقت نہیں‘ آپ نے دعویٰ تو یہ کیا ہے کہ قبل الرکوع اور بعد الرکوع والی رفع الیدین منسوخ ھے حالانکہ صحیح مسلم والی حدیث میں نہ رکوع کا ذکر ہے اور نہ رکوع والی رفع الیدین کا.
- بھٹی صاحب! اس حدیث سے قبل الرکوع اور بعد الرکوع والے رفع الیدین کے نسخ پر کس محدث نے استدلال کیا ھے؟ کیا تمام جلیل القدر محدثین رحمہم اللہ کو آپ جیسا حدیث کا علم نہ تھا جو وہ اس حدیث کو رفع الیدین کے نسخ پر دلیل نہ بنا سکے؟؟؟ اور تو اور صحيح مسلم كی تبویب کرنے والے ائمہ کو بھی علم نہ ھو سکا کہ یہ حدیث رفع الیدین کے منسوخ ھونے پر دلیل ھے اور انھوں نے اس حدیث پر کیا باب باندھا خود ھی ملاحظہ فرما لیں: باب الأمر بالسكون في الصلاة والنهي عن الإشارة باليد ورفعها عند السلام وإتمام الصفوف الأول والتراص فيها والأمر بالاجتماع. مزید برآں کہ امام نووی رحمہ اللہ کو بھی اسکا علم نہ ھو سکا کہ یہ حدیث رفع الیدین کے تعلق سے ھے اور انھوں نے کیا فرمایا خود ملاحظہ فرما لیں: قوله - صلى الله عليه وسلم - : ( ما لي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس ) هو بإسكان الميم وضمها وهي التي لا تستقر بل تضطرب وتتحرك بأذنابها وأرجلها ، والمراد بالرفع المنهي عنه هنا رفعهم أيديهم عند السلام مشيرين إلى السلام من الجانبين كما صرح به في الرواية الثانية . (لنک)
- ائمہ اربعہ رحمہم اللہ میں سے کسی نے بھی اس حدیث سے رفع الیدین کے منسوخ ھونے پر استدلال نہیں کیا اور تو اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ جو کہ رفع الیدین کے قائل نہ تھے انھوں نے بھی اس حدیث سے رفع الیدین کے نسخ کی دلیل نہیں پکڑی کیا امام صاحب کو اس حدیث کا علم نہ تھا؟ اگر تھا تو ان کو رفع الیدین کے منسوخ ھونے کی خبر کیوں نہ ملی؟ مزید برآں یہ کہ کیا ائمہ احناف کو حدیث کا علم کم تھا یا ان کو یہ حدیث نہ ملی یا ان کی قوت استنباط و اجتہاد وہ نہ تھی جو آج کل کے ہر گئے گزرے اور بے علم مقلد کو حاصل ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ائمہ احناف نے اس حدیث سے رفع الیدین کے منسوخ ھونے پر دلیل نہیں پکڑی جیسا کہ آج کل کے حنفی کرتے ہیں۔
- حضرت جابر بن سمرہؓ جو اس حدیث کے راوی ہیں وہ خود بیان کرتے ہیں کہ یہ تشبیہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سلام والی رفع یدین کے لیے دی تھی۔ کیوں کہ ہم لوگ سلام پھیرتے وقت ہاتھوں کو اٹھا کر دائیں بائیں اشارے کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تشبیہ دے کر ہمیں سلام والی رفع یدین سے منع فرما دیا۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں حدیث موجود ھے: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْجَانِبَيْنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ إِنَّمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مَنْ عَلَى يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ
- کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع والی رفع الیدین سے صراحتاً منع فرمایا ہو۔ اسکے برعکس سلام والی رفع الیدین سے آپ نے صراحتاً منع فرمایا ہے جو قوی قرینہ ہے اس بات کا کہ جس حدیث میں رفع الیدین سے ممانعت ہے۔ وہ حدیث سلام والی رفع الیدین کے بارے میں ہے۔ رکوع والی رفع الیدین وہاں قطعاً مراد نہیں لی جا سکتی.
- اس حدیث کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الاستدلال به على النهى عن الرفع عند الركوع وعندالرفع منه جهل قبيح.
- حدیث منسوخ ھوگئ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خبر تک نہ ھوئ اور وہ رفع الیدین کرتے رھے؟؟؟
آپ ھوش کے ناخن لیں اور اپنے مسلک کی تائید میں تاویلات سے کام نہ لیں.
یہ تو منافقین کا شیوہ ھے کہ وہ اپنی مطلب کی بات سنتے ھیں تو دوڑے چلے آتے ھیں:
وَإِذَا دُعُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم مُّعْرِضُونَ
وَإِن يَكُن لَّهُمُ ٱلْحَقُّ يَأْتُوٓا۟ إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ
ترجمہ: جب یہ اس بات کی طرف بلائے جاتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے جھگڑے چکا دے تو بھی ان کی ایک جماعت منھ موڑنے والی بن جاتی ہے
ہاں اگر ان ہی کو حق پہنچتا ہو تو مطیع وفرماں بردار ہو کر اس کی طرف چلے آتے ہیں.
اسکے برعکس مومنین کا شیوہ کیا ھے وہ بھی سن لیں:
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا۟ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
ترجمہ: ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کردے تو وه کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا۔ یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں.
لہذا بھٹی صاحب غیر جانبدارانہ طور پر غور وفکر کریں اور تاویلات سے کام نہ لیں.
وما علينا الا البلاغ
یہ حدیث یقینا سلام کے وقت تشہد میں ھاتھ اٹھانے پر صریح ھے لیکن رفع الیدین کے نسخ پر کتنی صریح ھے اسکی وضاحت کر چکا ھوں.میں نے جو صحیح مسلم سے صحیح صریح مرفوع غیر مجروح حدیث پیش کی ہے