• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جس نے بھی یہ حدیث سنی پھر بھی رفع الیدین کیا تو وہ شریر گھوڑا ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اس کی تفہیم کے لئے آپ لوگوں نے کوئی صحیح صریح غیر مجروح حدیث تو پیش نہیں کی
کس نے کہا کہ حدیث نہیں پیش کی؟ نہ صرف حدیث بلکہ صحابہ کرام کے عمل اور محدثین کرام کی تشریحات بھی پیش کی ھیں. آپ نے جو فہم اخذ کیا ھے اس فہم کے لۓ کوئ صحیح صریح غیر مجروح حدیث پیش نہیں کی؟ ایسا کیوں؟؟؟
مگر ”اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول“ کے دعویٰ رکھنے کے باوجود کچھ امتیوں کے اقوال کی پناہ لینے کی کوشش کی
محترم! اسکی وضاحت کر چکا ھوں مزید وضاحت کی ضرورت نہیں سمجھتا.
(جس کو
شرک شرک کہتے آپ لوگوں کی زبانیں نہیں تھکتیں)۔
اسکو ثابت کریں یا پھر اپنے اس قول سے رجوع کریں.
مذکورہ حدیث کا فہم اگر آپ کے خیال میں غلط ہے تو اس کا صحیح فہم دینے والی حدیث سامنے لائیں۔ شکریہ
صحیح مسلم کے اسی باب میں حدیث موجود ھے مزید طبرانی میں بھی ھے. جس کو آپ اسی تھریڈ سے حاصل کر سکتے ھیں. رہنمائ کی ضرورت تو شاید نہیں ھے (میرے خیال سے).
ترجمہ باب یا امتیوں کے اقوال یا تشریح و توضیح پیش کر کے مشرک بننے سے اجتناب کیجئے گا۔
اس کو ثابت کرنا آپ کے ذمہ ھے.

جاری......
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اگر تعصب کو تین طلاق (ایک مجلس میں نہیں ۔۔۔ ابتسامہ) دے کر
الحمد اللہ تعصب میرے اندر نہیں ھے. میرے کۓ دوست حنفی المسلک کے ھیں جن سے مجھے بے پناہ محبت ھے. (اللہ مزید استقامت دے.آمین)
اب بھی وقت ہے آپ ان کو خلوص نیت سے پڑھیں اگر حق کھل کر آپ کے سامنے نہ آئے تو کہئے گا۔
ان شاء اللہ ضرور پڑھوں گا. امتحان وتراویح سے فارغ ھونے دیں.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
محترم @عبدالرحمن بھٹی صاحب!
آپ سے کچھ گزارشات ھیں:

  • غیر متفق یا غیر متعلق قرار دینے کی صورت میں اسکی وجہ ضرور لکھۓ گا.
  • رد دلائل سے کیجۓ گا.
جزاکم اللہ خیرا.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
زیر بحث روایت پر ایک اعتراض اسی حوالے سے کیا جاتا ہے کہ یہ فلاں باب میں مذکور ہے تو اس کا جواب عرض ہے کہ آپ کے محدث گوندلوی صاحب نے لکھا کہ محدثین سے ممکن ہے کہ عنوان قائم کرنے میں خطا ہو جائے (تحفہ حنفیہ ص 257)
محترم جناب رانا صاحب!
پوری عبارت نقل کر دیتے تو کیا ھوجاتا. اسکرین شاٹ منسلک کر رھا ھوں. خود دیکھ لیجۓ. جزاکم اللہ خیرا.
 

اٹیچمنٹس

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
بهٹی صاحب

آپ کوئی جوابی پوسٹ کو غور سے پڑہتے ہیں ، یہ بحث یہاں ختم ہوچکی تہی دوسرے اقتباس کی آخری دو سطروں میں :

حاشا و کلا ۔ اس شخص پر آسمان ٹوٹ پڑے ، زمین پاؤں تلے سے سرک جائے ، جو بد بخت قرآن وسنت کے کسی چھوٹے سےچھوٹے حکم کے ساتھ بھی استہزاء کرے ۔
قرآن وسنت کی تعلیمات تو اپنی جگہ روشن اور واضح ہیں ، یہاں بات آپ کے فضول اور مضطرب دعوی کی ہورہی ہے ، کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے والوں کو ’’ شریر گھوڑے ‘‘ کہہ رہے ہیں ، کہنے کو حدیث پیش کر رہے ہیں، لیکن نہ تو حدیث میں آپ کا دعوی ذکر ہے ، اور نہ ہی جو آپ حکم لگارہےہیں ۔ میں نے آپ سے پہلے بھی گزارش کی کہ حضور نے فعل کو فعل سے تشبیہ دی ہے ، آپ فاعل کو فاعل سے تشبیہ دے رہے ہیں ، اب اگر ہم آپ کی عقل پر ماتم کریں تو اس کا رخ حدیث رسول کی طرف کیوں موڑتے ہیں ؟
رہا آپ کا دعوی اور حدیث سے اس کا ثبوت تو میں پہلے واضح کر چکا ہوں :


خدا کا شکر ہے ، حدیث بھی جانتے ہیں اور اس کا معنی بھی جانتے ہیں ، لہذا کوئی لفظ حدیث میں ہیرا پھیری کرے یا معنی حدیث میں ، اہل حدیث ہیں دھوکہ نہیں چلنے دیں گے ۔
حدیث کا غلط معنی کرکے سنت رسول پر عمل کرنے والوں کو ’’ شریر گھوڑے ‘‘ کہنے کی جسارت کی ، اللہ کی توفیق سے جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کے مصداق اس طرح کے حوالے آپ کے ہاں سے برآمد ہوگئے ۔ اب یا تو اہل حدیث کے ساتھ اس کی گئی شرارات سے باز آئیں یا پھر اپنے بزرگوں کو بھی یہ لقب عطا کریں ۔
جبکہ ہمارے نزدیک حدیث کا جو صحیح مصداق ہے ، وہ فعل نہ اہل حدیث کرتے ہیں نہ دیگر اہل سنت مسالک و مذاہب ۔

جس طرح آپ نے ’’ رفع الیدین ‘‘ اور ’’ اسکنوا فی الصلاۃ ‘‘ کا لفظ لے کر شریر گھوڑوں والی جسارت کی تھی ، اب لفظ ’’ ذکر ‘‘ اور ’’ صلاۃ ‘‘ لے کر ایک نیا کھاتہ کھول رہے ہیں ، ذرا پہلے کو سنبھال لیں ۔ صرف اتنی گزارش ہے کہ ہم نماز بھی قائم کرتے ہیں ، ذکر بھی کرتے ہیں ، اور نماز میں بھی ذکر کرتے ہیں ۔ حدیث کے بعد اب آیت کے ساتھ من مانی نہ کریں ۔
ورنہ اگر آپ اسے رفع الیدین کے ساتھ نتھی کرنے پر مصر ہوئے تو یہ فاتحہ والے مسئلہ پر بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ امام صاحب تو اللہ کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں ، لیکن آپ بغیر کسی ذکر کے خاموشی اختیار کرکے اس کی مخالفت کر رہے ہیں ہوتے ہیں ۔

بعض جہلا کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو بھی اپنے جیسا ہی سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ دعوی اور دلیل کا فرق آپ کے نزدیک واضح نہیں ہوگا ، لیکن کم از کم ہم یا دیگر قارئین اس سے بخوبی واقف ہوں گے ۔ ہم نے جو بھی کہا آپ کے دعوی کو کہا ہے ، جب کہ آپ اس سب کو دلیل پر منطبق کر رہے ہیں ۔
میرے خیال میں آپ کا ہدف یہی ہے کہ بات کو کسی اور طرف لے جائیں ، اسی لیے ادھر ادھر کی ہانک رہے ہیں ، فی الوقت شریر گھوڑوں کی پہچان کرلیں ، ہاتھ باندھنے والے موضوع پر متعلقہ تھریڈ میں یہ بات کریں ۔

یہ کسی عالم کا قول نہیں ہوسکتا ، یہ جہلا کا قول ہے ، جو خود کو شاید عالم سمجھتے ہوں گے ۔ ورنہ کوئی عالم دین ہو چاہے کسی مسلک و مذہب کا ہو ، وہ اس طرح کے ہذیان سے پرہیز کرتا ہے ۔ غیر یہ بھی غیر متعلق بات ہے ، کسی الگ تھریڈ میں اس پر بات کریں ۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے ، اور فرمایا :کیا ہے کہ تمہیں ایسے ہاتھ بلند کیے ہوئے دیکھ رہا ہوں گویا کہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں ، نماز میں سکون اختیار کرو ۔۔
یہ ہے حدیث کے متعلقہ حصے کا ترجمہ ، اب آپ اپنا ترجمہ ملاحظہ کرلیں :

صرف آپ کی علمی لیاقت واضح کرنے کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ نمایاں الفاظ عربی متن میں موجود نہیں ، جناب نے اپنی طرف یا کسی سے لے کر مکھی پر مکھی ماری ہے ۔
گو اس اضافے سے نفس موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، لیکن ایسی چیزوں سے گفتگو کرنے والے کی اہلیت و استطاعت خوب واضح ہوجاتی ہے کہ جو شخص ڈیڑھ سطر کا سلیم ترجمہ نہیں کرسکتا وہ اس کے صحیح معنی و محمل کو کیا سمجھتا ہوگا ؟
یہی وجہ ہے کہ بار بار وضاحت کے باوجود آپ کی پکڑ میں یہ بات نہیں آرہی کہ حدیث میں فعل کو فعل سے تشبیہ دی گئی ہے ، جبکہ آپ پوری ڈھٹائی کے ساتھ فاعل کو فاعل سے تشبیہ دے کر ساتھ حدیث کی مخالفت اور اس پر وعیدیں نقل کر رہے ہیں ۔

ہمیں کسی بات سے کوئی اختلاف نہیں ، جان بوجھ کر آپ متفقہ باتوں کو متنازعہ بنا رہے ہیں ، البتہ یہ حدیث آپ کے دعوی پر صریح نہیں ہے ۔ میں حیران ہوں کہ آپ الفاظ استعمال کرتے ہیں ، لیکن ان کے مدلول سے جاہل ہیں ، لگتا ہے کسی سے لفظ سن لیے ، یا کہیں پڑھ لیے ہیں لیکن یہ لفظ کس لیے بولے جاتے ہیں ، ان کی بالکل شد بد نہیں ۔
اس لیے بار بار صریح صریح کہہ رہے ہیں ، حالانکہ یہ بات آپ اپنے قریبی کسی عالم سے بھی پوچھیں تو کم از کم وہ اس حدیث کو عدم رفع الیدین عند الرکوع و الرفع منہ ۔۔ پر صریح کہنے کی جرأت نہیں کرے گا ۔

انا للہ و انا الیہ رجعون ۔
جهلت و لا تدري بأنك جاهل
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
بحث کو سمیٹتے ہوئے؛

صحيح مسلم : كِتَاب الصَّلَاةِ
جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ الحدیث
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’ کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں نماز میں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں، جیسے وہ بدکتے ہوئے سرکش گھوڑوں کی دُمیں ہوں؟ نماز میں پرسکون رہو ‘‘۔ (ترجمہ محدث حدیث پراجیکٹ)

تفہیم حدیث
خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

رسول اللہﷺ نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے (ترجمہ محدث حدیث پراجیکٹ)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد نبوی میں جس وقت آمد ہوئی اس وقت صحابہ کرام نماز پڑھ رہے تھے۔

فَقَالَ مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ
فرمایا: ’’ کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں نماز میں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں،(ترجمہ محدث حدیث پراجیکٹ)۔
رفع الیدین عربی کا لفظ ہے جس کو اردو میں ہاتھ اٹھانا کہتےہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو اس وقت صحابہ کرام کو رفع الیدین کرتے دیکھا اور اس پر غصہ کا اظہار کیا۔
اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ
نماز میں پرسکون رہو (ترجمہ محدث حدیث پراجیکٹ)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں کی جانے والی رفع الیدین کو سکون کے خلاف قرار دیا اور سکون سے رہنے کا ھکم فرمایا اور اس رفع الیدین کرنے والوں کو سرکش گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی۔

اب آئیے ان احادیث کی طرف جن سے دھوکا کھا اور دے رہے ہیں۔

پہلی؛
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْجَانِبَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ إِنَّمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مَنْ عَلَى يَمِينِهِ، وَشِمَالِهِ»
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی، انہوں نے کہا کہ جب ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم کہتے: السلام عليكم ورحمة الله، السلام عليكم ورحمة الله اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے دونوں جانب اشارہ کیا، چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ اپنے ہاتھوں کے ساتھ اشارہ کیوں کرتے ہو، جیسے وہ بدکتے ہوئے سرکش گھوڑوں کی دُمیں ہوں؟ تم میں سے (ہر) ایک کے لیے بس یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھ اپنی ران پر رکھے، پھر اپنے بھائی کو سلام کرے جو دائیں جانب ہے اور (جو) بائیں جانب (ہے)‘‘ ۔

تفہیم حدیث
كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

جب ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے جبکہ پہلی زیر بحث حدیث میں صحابہ انفرادی نماز پڑھ رہے تھے۔

قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْجَانِبَيْنِ
ہم کہتے: السلام عليكم ورحمة الله، السلام عليكم ورحمة الله اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے دونوں جانب اشارہ کیا۔
اس میں بالکل وضاحت کے ساتھ یہ بات بتائی جارہی ہے کہ جب صحابہ کرام نماز کی تکمیل پر سلام پھیرتے تو اس وقت دونوں طرف ہاتھ سے بھی اشارہ کرتے۔

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ اپنے ہاتھوں کے ساتھ اشارہ کیوں کرتے ہو، جیسے وہ بدکتے ہوئے سرکش گھوڑوں کی دُمیں ہوں؟
یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ رفع الیدین کا ذکر کیا اور نہ ہی سکون اختیار کرنے کا بلکہ کہا کہ تم میں سے (ہر) ایک کے لیے بس یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھ اپنی ران پر رکھے، پھر اپنے بھائی کو سلام کرے جو دائیں جانب ہے اور (جو) بائیں جانب (ہے)۔
دونوں حدیثیں الگ الگ موقعہ اور محل کی ہیں۔ قدرِ مشترک جو ہے وہ صرف یہ کہ دونوں میں سرکش گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی اور راویٔ اول جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما ہیں۔

دوسری؛
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُنَّا إِذَا سَلَّمْنَا قُلْنَا بِأَيْدِينَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَنَظَرَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا شَأْنُكُمْ تُشِيرُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ إِذَا سَلَّمَ أَحَدُكُمْ فَلْيَلْتَفِتْ إِلَى صَاحِبِهِ، وَلَا يُومِئْ بِيَدِهِ»
حضرت جابر سمرہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی، کہا: میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ہم لوگ جب سلام پھیرتے تو ہاتھوں کے اشارے سے السلام عليكم، السلام عليكم کہتے تھے، رسول اللہﷺ نے ہماری طرف دیکھا اور فرمایا: ’’کیا وجہ ہے کہ تم ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو، جیسے وہ بدکتے ہوئے سرکش گھوڑوں کی دمیں ہوں؟ تم میں سے کوئی جب سلام پھیرے تو اپنے ساتھی کی طرف رخ کرے اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرے۔‘‘
یہ حدیث اور اس سے پہلے والی حدیث دونوں ایک ہی موقعہ کی ہیں اور زیرِ بحث حدیث اس سے بالکل مختلف موقعہ کی۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
بحث کو سمیٹتے ہوئے؛

صحيح مسلم : كِتَاب الصَّلَاةِ
جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ الحدیث
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’ کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں نماز میں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں، جیسے وہ بدکتے ہوئے سرکش گھوڑوں کی دُمیں ہوں؟ نماز میں پرسکون رہو ‘‘۔ (ترجمہ محدث حدیث پراجیکٹ)

تفہیم حدیث
خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

رسول اللہﷺ نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے (ترجمہ محدث حدیث پراجیکٹ)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد نبوی میں جس وقت آمد ہوئی اس وقت صحابہ کرام نماز پڑھ رہے تھے۔

فَقَالَ مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ
فرمایا: ’’ کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں نماز میں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں،(ترجمہ محدث حدیث پراجیکٹ)۔
رفع الیدین عربی کا لفظ ہے جس کو اردو میں ہاتھ اٹھانا کہتےہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو اس وقت صحابہ کرام کو رفع الیدین کرتے دیکھا اور اس پر غصہ کا اظہار کیا۔
اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ
نماز میں پرسکون رہو (ترجمہ محدث حدیث پراجیکٹ)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں کی جانے والی رفع الیدین کو سکون کے خلاف قرار دیا اور سکون سے رہنے کا ھکم فرمایا اور اس رفع الیدین کرنے والوں کو سرکش گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی۔

اب آئیے ان احادیث کی طرف جن سے دھوکا کھا اور دے رہے ہیں۔

پہلی؛
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْجَانِبَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ إِنَّمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مَنْ عَلَى يَمِينِهِ، وَشِمَالِهِ»
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی، انہوں نے کہا کہ جب ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم کہتے: السلام عليكم ورحمة الله، السلام عليكم ورحمة الله اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے دونوں جانب اشارہ کیا، چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ اپنے ہاتھوں کے ساتھ اشارہ کیوں کرتے ہو، جیسے وہ بدکتے ہوئے سرکش گھوڑوں کی دُمیں ہوں؟ تم میں سے (ہر) ایک کے لیے بس یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھ اپنی ران پر رکھے، پھر اپنے بھائی کو سلام کرے جو دائیں جانب ہے اور (جو) بائیں جانب (ہے)‘‘ ۔

تفہیم حدیث
كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

جب ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے جبکہ پہلی زیر بحث حدیث میں صحابہ انفرادی نماز پڑھ رہے تھے۔

قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْجَانِبَيْنِ
ہم کہتے: السلام عليكم ورحمة الله، السلام عليكم ورحمة الله اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے دونوں جانب اشارہ کیا۔
اس میں بالکل وضاحت کے ساتھ یہ بات بتائی جارہی ہے کہ جب صحابہ کرام نماز کی تکمیل پر سلام پھیرتے تو اس وقت دونوں طرف ہاتھ سے بھی اشارہ کرتے۔

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ اپنے ہاتھوں کے ساتھ اشارہ کیوں کرتے ہو، جیسے وہ بدکتے ہوئے سرکش گھوڑوں کی دُمیں ہوں؟
یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ رفع الیدین کا ذکر کیا اور نہ ہی سکون اختیار کرنے کا بلکہ کہا کہ تم میں سے (ہر) ایک کے لیے بس یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھ اپنی ران پر رکھے، پھر اپنے بھائی کو سلام کرے جو دائیں جانب ہے اور (جو) بائیں جانب (ہے)۔
دونوں حدیثیں الگ الگ موقعہ اور محل کی ہیں۔ قدرِ مشترک جو ہے وہ صرف یہ کہ دونوں میں سرکش گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی اور راویٔ اول جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما ہیں۔

دوسری؛
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُنَّا إِذَا سَلَّمْنَا قُلْنَا بِأَيْدِينَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَنَظَرَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا شَأْنُكُمْ تُشِيرُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ إِذَا سَلَّمَ أَحَدُكُمْ فَلْيَلْتَفِتْ إِلَى صَاحِبِهِ، وَلَا يُومِئْ بِيَدِهِ»
حضرت جابر سمرہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی، کہا: میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ہم لوگ جب سلام پھیرتے تو ہاتھوں کے اشارے سے السلام عليكم، السلام عليكم کہتے تھے، رسول اللہﷺ نے ہماری طرف دیکھا اور فرمایا: ’’کیا وجہ ہے کہ تم ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو، جیسے وہ بدکتے ہوئے سرکش گھوڑوں کی دمیں ہوں؟ تم میں سے کوئی جب سلام پھیرے تو اپنے ساتھی کی طرف رخ کرے اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرے۔‘‘
یہ حدیث اور اس سے پہلے والی حدیث دونوں ایک ہی موقعہ کی ہیں اور زیرِ بحث حدیث اس سے بالکل مختلف موقعہ کی۔
اقتباس لیکر اگر کچھ عرض کرنا ھے تو کریں. ورنہ خاموشی ھی بہتر ھے. اسکے بعد ان شاء اللہ آپکی اس تحریر کا جواب بھی دیا جاۓ گا. (حالانکہ حدیث کا ایک ادنی سا بھی طالب علم آپ کی طرح استدلال نہیں کرے گا. اور آپ کی یہ تحریر بھی قابل توجہ نہیں ھے. خیر آپ پہلے اقتباسات لیکر جوابات دیں.)
جزاکم اللہ خیرا
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحیح صریح مرفوع غیر مجروح فرمان سے انکار کرنے والوں نے جہاں اور حیلے بہانے اختیار کیئے وہاں یہ بھی کہا کہ پھر وتر اور عیدین کی رفع الیدین پر کیا حکم ہوگا؟ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی نے اعراض ہی کرنا ہو تو ”خوئے بد را بہانہ ہا بسیار“ کے مصداق خواہ مخواہ کے اعتراضات ذہن میں گھر کر آتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو روکا تو اس وقت نہ تو وہ وتر پڑھ رہے تھے اور نہ ہی عیدین کی نماز۔ لہٰذا ان پر اس کے اطلاق کا قرینہ چاہیئے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top