• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جس نے یہ حدیث سنی اور رفع الیدین نہ کیا تو اس کی نماز ناقص ہے "

شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
یعنی ”قتادہ“ قابلِ اعتبار راوی نہ رہا!
یقینا وہ قابل اعتبار راوی ہیں مگر جب وہ ’’عنعن‘‘کہ کر روایت کریں اور جس راوی سے وہ عن کہ کر روایت کررہے ہیں اس سے انہوں نے سننے کی صراحت نہ کی ہو تو’’وہ روایت‘‘ قابل حجت نہیں خصوصا جب کہ اس کے خلاف صحیح حدیث مل جائے یا موجود ہو
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
یعنی جو ”مدلس“ ہو وہ ”ضعیف“ ہے۔
محترم! آپ کی تحریر سے جو میں سمجھا ہوں کیا صحیح ہے؟ یا جو صحیح ہے وہ سادہ الفاظ میں بیان فرما دیں تحریر الجھی ہوئی نہ ہو۔[/QUOTE]
اسکا مطلب یہ کہ جس روایت میں ’’مدلس ‘‘راوی کے سننے کی صراحت موجود نہ ہو او’’وہ روایت‘‘ضعیف ہوتی ہے نہ کی اس کی ہر روایت۔۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
ہم نماز میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں

اس لیے کہ ہم ﷲ کے فضل سے اہل حدیث ہیں اورقرآن وحدیث پر عمل کرنا اہل حدیث کا مذہبی شعار ہے۔ جب رفع یدین سنت ہے جو صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے تو ہم اس سنت پر عمل کیوں نہ کریں۔ رفع یدین کی احادیث مختلف صحابہ رضی اللہ عنہما سے تمام کتب احادیث میں مروی ہیں۔
سب سے صحیح حدیث حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ہے جو صحاح ستہ اور دیگر تمام کتب حدیث میں مذکور ہے۔ وھو ہذا:
((عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ عُمَرَ قَالَ رَأیْتُ رَسُوْلَ اللہ اِذَا قَامَ فِی الصَّلاَۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی تَکُوْنَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ وَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ حِیْنَ یُکَبِّرُ لِلرَّکُوْعِ وَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ اِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ مِنَ الرَّکُوْعِ وَ یَقُوْلُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ وَ لاَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فِی السُّجُوْدِ))۱

عبدﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ‘ میں نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم کودیکھا کہ وہ شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سراٹھاتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے اور سجدہ میں آپ ایسا نہیں کرتے تھے۔


ماننے والوں کے لیے رفع یدین کے ثبوت میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم کی ایک یہی حدیث کافی ہے کیونکہ یہ سب سے صحیح ہے ۔ا س کے مقابلے میں کوئی ایک حدیث صحیح تو درکنار اس کے پاسنگ بھی نہیں۔

امام بخاری کے استاد امام علی بن مدینی اسحدیث کے بارے میں فرماتے ہیں۔

رَفْعُ الْیَدَیْنِ حَقٌّ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ حُجَّۃٌ عَلَی الْخَلْقِ کُلُّ مَنْ سَمِعَہ‘ فَعَلَیْہِ اَنْ یَّعْمَلَ بِہِ۔۲

یعنی اس حدیث کی رو سے رفع یدین کرنا ہر مسلمان پر حق ہے۔ یہ حدیث اتنی صحیح ہے کہ مخلوق پر حجت ہے جو اس کو سنے اس کو چاہیے کہ اس پرعمل کرے۔

مولانا انور شاہ کشمیری حنفی دیوبندی جو حنفیوں میں بہت بڑے محدث ہو گزرے ہیں او ر دارالعلوم دیو بند میں حدیث کے استاد رہے ہیں۔ ان کو بھی اپنے رسالہ ’’ نیل الفرقدین‘‘ صفحہ 26میں یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑی ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:


’’اَمَّا حَدِیْثُ ابْنِ عُمَرَ فَھُوَ حُجَّۃٌ عَلَی الْخَلْقِ کَمَا ذَکَرَہ‘ عَنِ ابْنِ الْمَدِیْنِیْ‘‘۳

یعنی امام علی ابن مدینی نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ یہ حدیث ہر لحاظ سے اتنی صحیح ہے کہ سچ مچ ہی مسلمانوں پر رفع الیدین کو لازم کرتی ہے۔

کتاب الام میں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’لاَ یَجُوْزُ لِاَحَدٍ عَلِمَہ‘ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عِنْدِیْ اَنْ یَّتْرُکَہ‘‘‘

امام ابن جوزی بھی اپنی کتاب ’’نزہۃ الناظر‘‘ میں امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک ایسا ہی قول نقل کرتے ہیں:

’’لاَ یَحِلُّ لِاَحَدٍ سَمِعَ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ رَفْعِ الْیَدَیْنِ اَنْ یَّتْرُکَ الْاِقْتِدَاءَ بِفِعْلِہ وَ ھٰذَا صَرِیْحٌ اِنَّہ‘ یُوْجِبُ ذٰلِکَیعنی

کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی صحیح حدیث سنے اور پھر رفع یدین نہ کرے۔

ایسی صحیح حدیث ہو تو اس پر عمل کرنا خود بخود واجب ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض ائمہ نماز میں رفع یدین کو واجب قرار دیتے ہیں۔ ایسی صحیح اور صریح حدیث کے بعد کسی اور حوالے کی ضرورت تو نہ تھی ‘


لیکن حنفیوں کے مزید اطمینان کے لیے ترمذی شریف سے ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے۔

امام ترمذی فرماتے ہیں رفع الیدین کی حدیث کے راوی صرف حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ‘ حضرت کعب بن مالک بن الحویرثؓ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابواسید رضی اللہ عنہ ‘ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ‘ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ‘ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ حضرت عمیر اللیثی رضی اللہ عنہ ۔۔۔ یہ صحابہ کرام بھی رفع الیدین کی حدیث کے راوی ہیں۔ دیگر کتابوں میں اور بہت سے صحابہ سے رفع یدین کی روایات آتی ہیں‘ لیکن سب کے نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ مسئلے کے ثبوت کے لیے تو ایک ہی صحیح حدیث کافی ہے


رفع یدین منسوخ بھی نہیں

حنفی علما یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ حدیث تو صحیح ہے ‘ لیکن رفع یدین شروع میں تھی‘ پھر منسوخ ہو گئی‘ کیوں کہ:

1- جن صحابہ سے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا رفع یدین کرنا مروی ہے ‘ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے بعد میں ترک کر دی تھی۔

2- حضرت عبد ﷲ بن عمررضی ﷲ عنہ جو رفع یدین کی صحیح ترین روایت کے راوی ہیں حضور ﷺ کی وفات کے بعد بھی رفع یدین کیا کرتے تھے۔۶بلکہ جو رفع یدین نہ کرتا تو وہ اس کو کنکر مارتے۷

3- حضرت مالک بن الحویرث 9 ھ میں گرمی میں مسلمان ہوئے‘ انھوں نے رسول ﷲ ﷺ کو متنازعہ رفع یدین کرتے دیکھا۔۸

4- حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ 9ھ میں سردی میں مسلمان ہوئے انھوں نے اس وقت بھی رسول ﷲ ﷺ کو رفع یدین کرتے دیکھا۔ پھر جب اگلے سال 10ھ میں وہ سردیوں میں دوبارہ مدینہ آئے تو انھوں نے اس وقت بھی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو رفع یدین کرتے دیکھا۔

اس سے ثابت ہوا کہ رسول ﷲ ﷺ 10ھ یعنی اپنی آخری زندگی میں رفع الیدین کرتے تھے۔

5- رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کا رفع یدین کرنا ۔


چنانچہ امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام حمید بن ہلال رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

((کَانَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اﷲِ یَرْفَعُوْنَ))۱۰قریباً تمام صحابہ رفع یدین کرتے تھے۔


6- حضرت سعید بن جبیر جو جلیل القدر تابعی ہیں وہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ حضور ﷺ کے صحابہ نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔

7- حضرت ابوحمید ساعدی کا دس صحابہ کی موجودگی میں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر دکھانا اور اس میں رفع یدین کرنا اسی طرح حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا رفع یدین کے ساتھ نماز پڑھنا اور پھر کہنا کہ اس طرح نماز پڑھا کرو اور خاص کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رفع یدین کرکے نماز پڑھنا (تلخیص اور بیھقی )


یہ سب ایسے دلائل ہیں جن سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہوتا ہے کہ رفع یدین منسوخ نہیں ہوئی۔ اسی وجہ سے مولانا انور شاہ کشمیری کو ماننا پڑا۔

’لَمْ یُنْسَخْ وَ لاَ حَرفٌ مِنْہُ‘‘

رفع یدین کی سنت کا منسوخ ہونا تو درکنار‘ رفع یدین کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا۔


یعنی ان کو بھی تسلیم ہے کہ رفع یدین رسول ﷲ ﷺ کی دائمی اورمستقل سنت ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب رفع یدین رسول ﷲ ﷺ کی مستقل اور دائمی سنت ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہے اور منسوخ بھی قطعاً نہیں تو پھر حنفی نماز میں رفع یدین کیوں نہیں کرتے‘ کیا حنفی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی احادیث کو نہیں مانتے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حنفی ‘ حنفی مذہب کا پابند ہوتا ہے ۔ چونکہ حنفی مذہب میں رفع یدین نہیں اس لیے حنفی رفع یدین نہیں کرتے۔ رہ گیا احادیث کے ماننے کا سوال تو حنفی صرف ان حدیثوں کو مانتے ہیں جو ان کے مذہب کے مطابق ہوں ‘ جو احادیث ان کے مذہب کے خلاف ہوں خواہ وہ کتنی بھی صحیح کیوں نہ ہوں حنفی ان کو نہیں مانتے۔ اگر حنفی احادیث کو مانیں تو وہ حنفی نہیں رہ سکتے۔ اگر انھوں نے احادیث کو ماننا ہو تو وہ حنفی کیوں بنیں؟ یہی وجہ ہے حنفیوں کے بہت سے مسائل حدیث کے خلاف ہیں۔ حنفیوں کا اصل مذہب حنفی ہے‘ وہ فقہ حنفی پر ہی چلتے ہیں خواہ وہ حدیث کے موافق ہو یا مخالف۔ حنفی اہل حدیث نہیں جو وہ حدیث پر چلیں۔ حدیث پر چلنا تو اہل حدیث کا کام ہے۔ اہل حدیث کسی کی تقلید نہیں کرتے کہ کسی کی فقہ ان کا مذہب ہو۔ ان کا مذہب تو حدیث ہے‘ جب حدیث صحیح ثابت ہو گئی تو وہ اس پر عمل کریں گے۔

انتباہ :

بعض حنفی مولوی یہ کہہ کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ رفع یدین شروع اسلام میں تھی پھر منسوخ ہو گئی۔ اب ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ 10ھ تک بلکہ وفات تک رسول ﷲ ﷺ کا رفع یدین کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت وائل اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ خاص کر


عبدﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل اور بیان سے واضح ہے۔

فَمَا زَالَتْ تِلْکَ صَلٰوتُہ‘ حَتّٰی لَقِیَ اﷲَ۱۵یعنی ’’ رسول اﷲﷺ دنیا سے رخصت ہونے تک رفع یدین کرتے رہے‘‘ ۔۔۔


ملاحظہ ہو حنفیوں کی مشہور کتاب ’’ نصب الرایۃ فی تخریج احایث الھدایۃ‘‘ اب جس مولوی یا مفتی کا یہ دعویٰ ہو کہ رفع یدین منسوخ ہے تو اس کا فرض ہے کہ 10ھ کے بعد کی کوئی ایسی صحیح حدیث دکھائے جس میں یہ صراحت ہو کہ 10ھ کے بعد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے رفع یدین بالکل ترک کردی تھی۔ رہ گئی عبدﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایات جن کو اکثر حنفی مولوی پیش کرتے ہیں تو اولا تو وہ سخت ضعیف ہیں‘ بڑے بڑے ائمہ محدثین

مثلا امام بخاری‘ امام احمد‘ امام ابوداؤد ‘ امام دار قطنی‘ وغیرھم ان کو ضعیف کہتے ہیں۔ ثانیا ان ضعیف احادیث کی تاریخ کا کوئی پتا نہیں کہ وہ 10ھ سے پہلے کی ہیں یا بعد کی۔ رفع یدین کو منسوخ ثابت کرنے کے لیے 10ھ کے بعد کی کوئی صحیح حدیث ہونی چاہیے۔ پہلے کی کسی حدیث کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر حنفی مولوی یہ ثابت نہ کر سکیں کہ یہ حدیث10ھ کے بعد کی ہے اور صحیح ہے جس سے ان کا دعویٰ ثابت ہوتا ہے۔ اور وہ ہر گز ثابت نہیں کر سکتے(لَوْ کاَنَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا)[17:الاسراء:88]

تو ان کو اللہ سے ڈرنا چاہیے ۔ انھیں رسول ﷲ ﷺ کی ثابت شدہ سنت رفع یدین کی مخالفت ہر گز نہیں کرنی چاہیے۔ جب رسولؐ ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت کا ترک بہت بڑا جرم ہے تو اس کی مخالفت کرنا کتنا بڑا جرم ہوگا۔ترک سنت کی سزا


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:

((سِتَّۃٌ لَعَنْتُھُم وَ لَعْنَھُمُ ﷲُ وَ کُلُّ نَبِیٍّ کَانَ الزاءِدُ فِی کِتَابِ ﷲِ وَالْمُکَذِّبُ بِقَدَرِ ﷲِ وَالْمُتَسَلِّطُ بِالْجَبَرُوْتِ لِیُعِزَّمَنْ اَذَلَّ ﷲُ وَ یُذِلَّ مَنْ اَعَزَّ ﷲُ وَالْمُسْتَحِّلُ لِحَرَمِ ﷲِ وَالْمُسْتَحِلُّ مِن عِتْرَتِیْ مَا حَرَّمَ ﷲُ وَالتَّارِکُ لِسُنَّتِیْ))۱۶

یعنی چھ شخصوں پر ﷲ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی لعنت کرتا ہے اور ﷲ بھی لعنت کرتا ہے اور ان چھ شخصوں میں سے ایک وہ شخص ہے جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تارک ہو۔


کیا ان کو ﷲ اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کی لعنت سے ڈر نہیں لگتا جو رفع یدین جیسی اہم اور دائمی سنت کے صرف تارک ہی نہیں بلکہ مخالف بھی ہیں۔ جو اس سنت پر عمل کرتا ہے وہ اس کو برا جانتے ہیں۔ انجام بخیر چاہنے والے ہر حنفی کو چاہیے کہ وہ تعصب کوچھوڑ کر ٹھنڈے دل سے اس رسالہ کو پڑھے اور اپنے مولوی اور مفتی کو بھی پڑھائے پھر ان سے قرآن پر ہاتھ رکھوا کر قسم د ے کر پوچھے کہ کیا رفع یدین سنت نبوی نہیں ؟ کیا واقعی یہ منسوخ ہے جس مولوی یا مفتی کے دل میں ذرا بھی آخرت کا خوف ہوگا وہ یہ رسالہ پڑھ کر کبھیبھی قرآن پر ہاتھ کر قسم نہیں کھائے گا کہ رفع یدین سنت نبوی نہیں۔یا یہ منسوخ ہے۔ برعکس اس کے کہ ہم اہل حدیث ہر وقت قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا سکتے ہیں اور بڑے دعوے سے کہ سکتے ہیں کہ مذہب اہل حدیث ﷲ اور رسول کا مذہب ہے جو یقیناً حق ہے۔

رفع یدین سنت رسول ہے صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے جس پر آپ صلی ﷲ علیہ وسلم آخر تک عمل کرتے رہے۔ یہ سنت ہر گز منسوخ نہیں جو جھوٹ پر قسم کھائے گا اس پر یقیناً اللہ کی لعنت ہوگی۔ ﷲ ہر مسلمان کو حق پر چلنے اور رفع یدین جیسی سنت نبوی صلی ﷲ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ وہ ترک سنت کی وجہ سے ﷲ اور رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کی لعنت سے بچ جائے۔


والھدایۃ بیداﷲ ولا حول و لا قوۃ الا باﷲ

*****************************************

۱ (بخاری ‘ کتاب الاذان‘ باب الی این یرفع یدیہ ‘رقم 736:۔۔۔ مسلم: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب استحباب رفع الیدین حذوالمنکبین مع تکبیرہ الاحرام والرکوع و فی الرفع من الرکوع و انہ لا یفعلہ اذا رفع من السجود ‘ رقم 211:۔۔۔ ابوداؤد: کتاب الصلوۃ‘ باب رفع الیدین فی الصلوۃ ‘رقم721:۔۔۔ ترمذی: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع ‘ رقم 255:۔۔۔ نسائی : کتاب الافتتاح ‘ باب رفع الیدین حذوا المنکبین ‘رقم879: ۔۔۔ ابن ماجۃ : کتاب ابواب اقامۃ الصلوات و السنۃ فیھا ص2548‘ رقم (858:

۲ (جزء رفع الیدین رقم (2:

۳ (نیل الفرقدین ص (26:

۴ (کتاب الام ‘ باب رفع الیدین فی التکبیر فی الصلٰوہ ج 1 ص(91

۵ (ترمذی :ابواب الصلٰوہ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع ‘ رقم(256:

۶ (بخاری:کتاب الاذان‘ باب رفع الیدین اذا قام من الرکعتین‘ رقم (739:

۷ (جزء رفع الیدین رقم (15:

۸ (بخاری : کتاب الاذان ‘ باب رفع الیدین اذا کبر و اذا رکع وا ذا رفع‘ رقم 737۔۔۔مسلم: کتاب الصلوۃ ‘ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام والرکوع و فی الرفع من الرکوع و انہ لا یفعلہ اذا رفع من السجود‘ عن مالک بن حویرث ‘رقم (23:

۹ (نسائی :کتاب التطبیق ‘ باب مکان الیدین من السجود ‘رقم 1103:۔۔ ابوداؤد: ابواب تفریع استفتاح الصلوۃ ‘ باب رفع الیدین فی الصلوۃ ‘ رقم (726:

۱۰(جزء رفع الیدین رقم (30:۱۱(جزء رفع الیدین رقم (39:

۱۲ (ابوداؤد: ابواب تفریع استفتاح الصلوۃ ‘ باب افتتاح الصلوۃ ‘ رقم 73:۔۔۔صحیح ابن خزیمہ کتاب الصلوۃ ‘ باب الاعتدال فی الرکوع والتجانی و وضع الیدین علی الرکبتین 297/1رقم 587: عن ابی حمید الساعدی )

۱۳(بیہقی کتاب الصلوۃ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع و عند رفع الراس منہ ج 2ص 73

( ۱۴ (نیل الفرقدین ص (22:

۱۵ (تلخیص الحبیر 218/1‘کتاب الصلوۃ ‘ باب صفۃ الصلوۃ رقم 328:‘ نصب الرایۃ ‘کتاب الصلٰوۃ ‘ باب صفۃ الصلٰوۃ ‘ ج 1ص 483)

۱۶ (ترمذی‘ کتاب القدر‘ باب اعظام امرالایمان بالقدر‘ ص 1868‘رقم الحدیث2154: ۔۔ مشکٰوۃ المصابیح ‘ کتاب الایمان ‘ باب الایمان بالقدر‘ 38/1 رقم الحدیث109:)


السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
عامر بھائی اگر ملٹی پل اقباسات ہوں تو ان کو کیسے ون بائی ون کاپی کیا جاسکتا ہے اور کس طرح ان میں سے کسی ایک کا جواب دیا جا سکتا ہے یہاں پر۔برائے مہربانی رہنمائی کریں۔جزاک اللہ خیر۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
یقینا وہ قابل اعتبار راوی ہیں مگر جب وہ ’’عنعن‘‘کہ کر روایت کریں اور جس راوی سے وہ عن کہ کر روایت کررہے ہیں اس سے انہوں نے سننے کی صراحت نہ کی ہو تو’’وہ روایت‘‘ قابل حجت نہیں خصوصا جب کہ اس کے خلاف صحیح حدیث مل جائے یا موجود ہو
اسکا مطلب یہ کہ جس روایت میں ’’مدلس ‘‘راوی کے سننے کی صراحت موجود نہ ہو او’’وہ روایت‘‘ضعیف ہوتی ہے نہ کی اس کی ہر روایت۔
محترم! میں، آپ، محدث فورم کے اراکین اور قارئین مل کر اس بات کی تفہیم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ؛
ایک ہی شخصیت کسی وقت قابلِ اعتماد اور کسی وقت ناقابلِ اعتماد
یہ کیوں کر ممکن ہے کہ تدلیس کرنے والا جب ”حدثنا، اخبرنا“ جیسے الفاظ سے رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کی بات بیان کرے تو وہ ”سچا“ اور جب وہی راوی ”عن فلاں، عن فلاں“ سے رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کی بات کرے تو وہ ”جھوٹا“؟
یہ کیوں ممکن نہیں کہ وہی راوی جب کوئی غلط بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کرنا چاہے تو ”حدثنا، اخبرنا“ سے روایت کر ے ”عن فلاں، عن فلاں“ سے وہ کیوں روایت کرے گا؟
ٹھنڈے دماغ کے ساتھ اس پر سوچئے گا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
محترم! میں، آپ، محدث فورم کے اراکین اور قارئین مل کر اس بات کی تفہیم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ؛
ایک ہی شخصیت کسی وقت قابلِ اعتماد اور کسی وقت ناقابلِ اعتماد
یہ کیوں کر ممکن ہے کہ تدلیس کرنے والا جب ”حدثنا، اخبرنا“ جیسے الفاظ سے رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کی بات بیان کرے تو وہ ”سچا“ اور جب وہی راوی ”عن فلاں، عن فلاں“ سے رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کی بات کرے تو وہ ”جھوٹا“؟
یہ کیوں ممکن نہیں کہ وہی راوی جب کوئی غلط بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کرنا چاہے تو ”حدثنا، اخبرنا“ سے روایت کر ے ”عن فلاں، عن فلاں“ سے وہ کیوں روایت کرے گا؟
ٹھنڈے دماغ کے ساتھ اس پر سوچئے گا۔
ٹھنڈے دماغ سے آپ ہی ایک کام کر لیجئے اور اپنے حنفی علماء سے رابطہ کر کے ان سے مدلس راوی کے بارے میں اصول حدیث سمجھ لیجئے۔ اصول حدیث کی کسی ابتدائی کتاب کا مطالعہ کر لیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مدلس راوی کی عن سے روایت کردہ حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ اگر آپ کو اس اصول سے اختلاف ہے تو علیحدہ دھاگا بنا کر وہاں بحث کیجئے۔

بہت پیچھے پوسٹ 32 میں آپ نے یہ حدیث پیش کی تھی:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم!آپ کو رفع یدین کے ثبوت میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم کی ایک یہی حدیث کافی ہے باقی احادیث کی ضرورت ہی نہیں!!!!!
اہلِ حدیثِ نفس زندہ باد

ہے تو ناکام سی جسارت، مگر کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ یہ ایک حدیث پیشِ خدمت ہے اس پر عمل کیوں نہیں؟؟؟؟؟

سنن النسائي - (ج 4 / ص 244)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ
أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ فِي صَلَاتِهِ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ وَإِذَا سَجَدَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ السُّجُودِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ


مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنی نماز میں جب رکوع کرتے یا رکوع سے سر اٹھاتے یا سجدے میں جاتے یا سجدے سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے حتی کہ انھیں کانوں کے کناروں کے برابر کرتے۔

اس پر عمل پیرا ہونے سے کونسی چیز مانع ہے؟؟؟؟؟
والسلام
اور @محمد کاشف بھائی نے کئی مرتبہ آپ کو دلیل سے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ کیوں ضعیف ہے وجہ یہ ہے کہ اس میں ایک راوی قتادہ ہیں، جن کے بارے میں حافظ حافظ ابن عبدالبرؒ فرماتے ہیں:

''قتادة إذا لم یقل: سمعت وخُولف في نقله، فلا تقوم به حجة لأنه یدلس کثیرًا عمن لم یسمع منه، ورُبّما کان بینھم غیر ثقة''

'' قتادہ جب (سمعتُ) نہ کہیں اور ان کی حدیث دوسروں کے مخالف ہو توقابل حجت نہیں ہوگی،کیونکہ وہ بکثرت ایسوں سے بھی تدلیس کرتے ہیں جن سے سماع نہیں ہوتا اور بسا اَوقات اس (تدلیس) میں غیر ثقہ راوی بھی ہوتا ہے۔'' (التمہید لابن عبدالبر:۳؍۳۰۷)

اب اگر آپ کو اصول حدیث ہی پر اعتراض ہے تو علیحدہ دھاگا بنا کر وہاں بحث کیجئے۔ یہاں پر آپ اپنی ہی پیش کردہ حدیث کی صحت کسی محدث سے نقل کر سکتے ہوں تو اس پر بحث کیجئے۔ راوی قتادہ کو مدلس کہنے پر اعتراض ہے تو اس پر بات کیجئے۔ اور اگر بات کرنے کے لئے دلائل نہیں یا ان کا علم نہیں، تو خاموش رہئے۔ غیر متعلق بحث کر کے دھاگے کا موضوع ڈی ریل کرنا ہرگز کوئی خدمت خلق نہیں کہ آپ اپنا بھی وقت ضائع کریں اور دوسروں کا بھی۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
محترم! میں، آپ، محدث فورم کے اراکین اور قارئین مل کر اس بات کی تفہیم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ؛
ایک ہی شخصیت کسی وقت قابلِ اعتماد اور کسی وقت ناقابلِ اعتماد
یہ کیوں کر ممکن ہے کہ تدلیس کرنے والا جب ”حدثنا، اخبرنا“ جیسے الفاظ سے رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کی بات بیان کرے تو وہ ”سچا“ اور جب وہی راوی ”عن فلاں، عن فلاں“ سے رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کی بات کرے تو وہ ”جھوٹا“؟
یہ کیوں ممکن نہیں کہ وہی راوی جب کوئی غلط بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کرنا چاہے تو ”حدثنا، اخبرنا“ سے روایت کر ے ”عن فلاں، عن فلاں“ سے وہ کیوں روایت کرے گا؟
ٹھنڈے دماغ کے ساتھ اس پر سوچئے گا۔
محترم! میں، آپ، محدث فورم کے اراکین اور قارئین مل کر اس بات کی تفہیم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ؛
ایک ہی شخصیت کسی وقت قابلِ اعتماد اور کسی وقت ناقابلِ اعتماد
یہ کیوں کر ممکن ہے کہ تدلیس کرنے والا جب ”حدثنا، اخبرنا“ جیسے الفاظ سے رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کی بات بیان کرے تو وہ ”سچا“ اور جب وہی راوی ”عن فلاں، عن فلاں“ سے رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کی بات کرے تو وہ ”جھوٹا“؟
یہ کیوں ممکن نہیں کہ وہی راوی جب کوئی غلط بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کرنا چاہے تو ”حدثنا، اخبرنا“ سے روایت کر ے ”عن فلاں، عن فلاں“ سے وہ کیوں روایت کرے گا؟
ٹھنڈے دماغ کے ساتھ اس پر سوچئے گا۔
بات یہ ہے کہ آپ کو راویوں کے متعلق ہی علم نہیں ہے کہ مدلس کس راوی کو کہتے ہیں ثقہ کون سا ہوتا ہے یا’’کذاب‘‘ راوی کون سا ہوتا ہے اسی لئے آپ نے مدلس کو کذاب میں شمار کر لیا حالانکہ ہر مدلس کذاب نہیں ہوتا اور اسکی بھی بہت سی اقسام اور درجات ہیں جس میں سے قتادہؒ کو حافظ ابن حجر ؒ تیسرے طبقہ میں شمار کرتے ہیں۔۔۔اس میں قتادہ کا عنعنہ ہے ۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں تیسرے طبقہ کا مدلس کہا ہے دیکھئے: [طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 43]
اب رہا آپکا یہ اعتراض کہ ایک ہی وقت میں ’’سچا‘‘اور ایک ہی وقت میں’’جھوٹا‘‘تو بھائی یہ بھی آپکی کم علمی کی وجہ سے ہے ہر مدلس راوی کو کذاب اور منکر نہیں کہا کسی بھی محدث نے۔۔۔
اب آپ اصل موضوع کی طرف آئیں اس حدیث پر آپکو یہ اعتراض تھا کہ ہمارا عمل اس پر کیوں نہیں تو یہاں سب بھائیوں نے جواب دیا مگر آپ نے اسے اہلحدیث نفس زندہ باد کہ کر جھٹلانے کی کوشش کی پھر آپکو سکین لگا کر ثابت کیا گیا کہ یہ حدیث ضعیف ہے اس لئے قابل حجت نہیں آپ نے اسے بھی ہمیں’’لا مذہب‘‘کہ نزدیک ضعیف کہ کر جھٹلانے کی کوشش کی جس پر میں نے آپکو ثبوت دیا کہ یہ صرف آج کے اہلحدیث علماء کی بات نہیں قدیم محدثین اس کو ضعیف قرار دے چکے ہیں اس پر آپ نے ایک نئی بحث شروع کی کہ مدلس کون ہوتا ہے میں نے اسکا بھی جواب دے دیا اس سے بھی آپ مطمئن نہ ہوئے اور ایک اور اعتراض اٹھایا کہ یہ تو پھر ایک ہی وقت میں ایک انسان کو سچا اور جھوٹا مان کر اس کی ایک حدیث کو تسلیم اور ایک حدیث کو رد کرتے ہیں آپ لوگ۔۔۔۔۔حالانکہ یہ اعتراض تو دراصل آپ محدثین پر کررہے ہیں اور غلط کررہے ہیں کیونکہ آپ کے پاس علم ہی نہیں ہے بس عقلی دلیلوں سے حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سچے تو ہوتے ہیں مگر خطا کر جاتے ہیں کسی بات میں تو انہیں جھوٹا نہیں شمار کر لیا جاتا جب تک ثابت نہ ہو جائے کہ اس نے جان بوجھ کر جھوٹ بولاہے یا جان بوجھ کر کچھ چھپایا ہے۔مدلس کی پہلے سے زیادہ تفصیل سے میں یہیں پیسٹ کر دیتا ہوں۔امید کرتا ہوں کہ اس کے بعد آپ بار بار نئے سے نئے سوال کے بجائے یا تو حق کو قبول کر لیں گے یا پھر آپکو چاہئے کہ تفصیل سے ثبوت کے ساتھ یہاں بتائیں کس محدث نے اسے صحیح کہا اور کیا اس نے پر عمل بھی کیا!
 

Usman Ali

مبتدی
شمولیت
جنوری 01، 2016
پیغامات
41
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
سجدوں میں رفعدین کی حدیث۔۔۔۔ صحیح اسناد
wail-bin-hajar-rafayden.gif
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
سجدوں میں رفعدین کی حدیث۔۔۔۔ صحیح اسناد
15747 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
سجدوں میں رفعدین کی حدیث۔۔۔۔ صحیح اسناد
15747 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
السلام علیکم
اس کاسکین لگا دیں۔۔۔۔۔۔۔مجھے اس نام سے کوئی باب نہیں ملا ہو سکتا ہے میں غلط ہوں!اور نہ لگا سکتے ہوں تو بتا دیں میں لگا دونگا سکین رفع الیدین سے متعلق مکمل باب کے۔۔۔ان شاء اللہ
 
Top