محترم خضر حیات صاحب! ابھی بھی ایرر ہی ہیں، جبکہ مجھے اشد ضرورت ہے ان تھریڈز کی۔ بارک اللہ فیک
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک ربط:
حدیث :"تلزم جماعۃ المسلمین و امامہم" اور رجسٹرڈ فرقہ
حدیث :"تلزم جماعۃ المسلمین و امامہم" اور رجسٹرڈ فرقہ
تالیف
ابوالاسجدصدیق رضا حفظہ اللہ
مسعود صاحب اور ان کے بنائے ہوئے رجسڑڈ فرقے "جماعت المسلمین" والوں کا یہ خیال ہے کہ انھوں نے اپنے فرقے کی بنیاد صحیحین کی ایک حدیث پر رکھی ہے، حالانکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے سیدنا حذیفہ سے مروی اس حدیث کو قرآن مجید و دیگر احادیث صحیحہ کی روشنی میں سمجھنے کے بجائے اور انھیں نظر انداز کرتے ہوئے ایک تکفیری فرقہ کی بنیاد رکھ دی۔
جبکہ کسی بھی آیت یا حدیث کو سمجھنے کے لئے یہ بات انہتائی ضروری ہے کہ اس موضوع کے دیگر نصوص کو بھی سامنے رکھا جائے، اور ایسا مفہوم بیان ہو کہ اس سے دیگر نصوص کی مخالفت لازم نہ آئے،جیسا کہ مسعود صاحب نے لکھا :
"عالم کو چاہئے کہ ہر آیت کی تشریح کرتے وقت قرآن مجید اور احادیث صحیحہ پر گہری نظر رکھے اور تمام آیات اور احادیث کے مجموعی نتیجہ کو اپنا رہنما بنائے"
(الجماعۃ ص ۶۹)
اس مسلمہ اصول کے مطابق غور کرتے ہوئے "جماعت" اور "امام" سے متعلق دیگر احادیث کو سامنے رکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ رجسڑڈ فرقہ پرست لوگ حدیث "تلزم جماعۃ المسلمین و امامہم" کو سمجھ ہی نہیں پائے، پھر ان کے طرز عمل اور رویے کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کے درست مفہوم کو سمجھنے کے لئے آمادہ بھی نہیں، ضدو خود آرائی کا یہ عالم ہے کہ ان سے اس حدیث کے مفہوم پر جب بھی گفتگو کی کوشش کی جائے تو راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور سامنے آنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔
مفہوم تو درکنار محض ترجمہ کے مطالبہ پر ہی مسعود صاحب نے تکفیری فتوؤں کی گولہ باری کر دی تھی، چنانچہ ان سے سوال ہوا کہ "آپ جماعت المسلمین کا ترجمہ" مسلمین کی جماعت "کیوں نہیں کرتے؟" تو مسعود صاحب نے کچھ اس طرح غیض و غضب کا اظہار فرمایا:"اردو میں عربی کے سیکڑوں مرکبات استعمال ہوتے ہیں لہذا ترجمہ کرتے وقت مرکب توڑنے کی ضرورت نہیں۔کفایت اللہ صاحب تو اس لئے توڑ رہے ہیں کہ مرکب جماعت المسلمین باقی نہ رہے۔۔۔۔ جو الفاظ رسول اللہ ﷺ کی زبان اقدس سے نکلے تھے آخر ان سے کیا چڑ ہے؟"
(الجماعۃ ص ۷۰،جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک اسلام کی آئینہ دار ہیں ص ۶۳۹)
تنبیہ : یہ دوسرا حوالہ مسعود صاحب وغیرہ کے کتابچوں کا مجموعہ ہے، جس کے پاس کتابچے نہ ہوں وہ اس سے حوالے چیک کر سکتے ہیں اختصار کی خاطر آئندہ اس کے حوالے کے لئے صرف "آئینہ دار" لکھا جائے گا۔
کیا ترجمہ الفاظ حدیث سے چڑ کی علامت ہے؟
قارئین کرام! غور کیجئے سوال صرف اتنا تھا کہ آپ اس حدیث کے الفاظ میں سے "جماعۃ المسلمین" کا ترجمہ کیوں نہیں کرتے۔ مسعود صاحب نے بے دھڑک "الفاظ رسول اللہ ﷺ سے چڑنے" کا فتویٰ ٹھوک دیا۔ گویا الفاظ رسول اللہ ﷺ کا ترجمہ کرنا ان سے چڑ کے مترادف یا چڑ کی علامت ہے ! جیسا کہ مسعود صاحب کے اس طنز سے ظاہر ہوتا ہے۔ تو مسعود صاحب کی ذہنیت کے حامل کوئی فرد ان کے اس انداز کو ان سے مستعار لے کر یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ مسعود اور ان کے بنائے ہوئے رجسڑڈ فرقے کو اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کے ان تمام الفاظ سے "چڑ" ہے جن الفاظ کا وہ ترجمہ کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ حدیث زیر بحث کے دو الفاظ "جماعۃ المسلمین" کے علاوہ باقی تمام الفاظ سے بھی "چڑ" ہے کیونکہ ان دو لفظوں کے علاوہ یہ اس پوری حدیث کا ترجمہ لکھتے اور بیان کردیتے ہیں۔ یہ مسعود صاحب کے بے جا طنز و تشنیع کی عادت اور تکفیری سوچ کا نتیجہ ہے کہ خود سمیت اپنے پورے رجسٹرڈ فرقے کو الفاظ رسول اللہ ﷺ سے "چڑ" میں مبتلا ثابت کر دیا۔
باقی یہ بات محتاج تفصیل نہیں کہ ترجمہ تو سمجھانے کے لئے کیا جاتا ہے نہ کہ چڑ کی وجہ سے، ہاں البتہ یہ رجسٹرڈ فرقے کی اشد مجبوری ہے کہ وہ ان الفاظ کا ترجمہ نہیں کر سکتے کہ مسعود صاحب کی ایجاد کردہ حدیث کے مطابق "مسلمین کی جماعت کا نام اللہ کے رسول ﷺ نے جماعت المسلمین رکھا تھا"(جماعت المسلمین کا تعارف ص ۳، آئینہ دار ص ۱۷)
تو جو یہ حدیث گھڑ کر اسے "نام" بنا چکے ہیں، وہ ترجمہ کیوں کرتے؟ اور اگر ترجمہ کر دیا تو عامۃ الناس کو مغالطہ دینا کس طرح ممکن ہو گا، سو ایسی ہی مجبوریوں کی بنا پر مسعود صاحب نے "چڑ" کی تہمت لگائی، لیکن اس ظلم و تعدی کا نتیجہ ہے کہ اپنے ہی بنے ہوئے جال میں بری طرح پھنس گئے۔
اس ایک مشال سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جو ترجمہ کے مطالبہ پر ہی اس قدر غیض و غضب کا شکار ہو جائیں وہ مفہوم پر بحث کے لئے کس طرح آمادہ ہو سکتے ہیں، الاماشاءاللہ۔یہ لوگ تو بس اپنی ہی باتیں دہراتے چلے جاتے ہیں، حالانکہ رسول اللہﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں بس یہی ایک بات تو بیان نہیں کی، اس معاملہ میں بہت کچھ ارشاد فرمایا ہے اور مسلمہ اصول "ان الحدیث یفسر بعضہ بعضا" کے مطابق ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا درست مفہوم سمجھا جا سکتا ہے۔
اس مضمون میں رجسٹرڈ فرقہ کے لٹریچر میں موجود اس موضوع کی دیگر آیات و احادیث سے حدیث "تلزم جماعۃ المسلمین و امامہم" کے الفاظ "جماعۃ" اور امام کی وضاحت کی جائے گئ،دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی حق سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین، یا رب العالمین۔
تنبیہ : یاد رہے کہ "جماعت" کے مفہوم پر گفتگو کے دوران میں "نماز کی جماعت" اور جنت میں جانے والی "جماعت" نیز امام پر بحث کے دوران میں نماز کا امام ، انبیاء کی امام، نیز علم کا امام اس بحث سے خارج ہے۔
۱: جماعت کا مفہوم: حدیث زیر بحث ، نیز وہ تمام احادیث جن میں "لزوم جماعت " کا ذکر ہے ان میں جماعت سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں مسعود صاحب نے لکھا:
"رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :
مَنْ كَرِهَ مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا فَلْيَصْبِرْ، فَإِنَّهُ مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً (صحيح بخاري كتاب الفتن باب قول النبى ﷺ سترون بعدي اموراتنكرونها جزء ۹ ص ۵۹ و صحيح مسلم كتاب الامارة باب الامر بلزوم الجماعة جزءٍ ۲ ص ۱۳۴ )
جس شخص کو امیر کی کوئی بات ناگوار گزرے تو صبر کرے کیونکہ جو شخص سلطان سے ایک بالشت بھی علیحدہ ہو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی"
(امیر کی اطاعت ص ۴، اشاعت جدید ص ۲ آئینہ دار ص ۲۲۰)
چند سطور بعد مسعود صاحب نے لکھا :
"حدیث مذکور کے پہلے جزء میں امیر کا لفظ ہے اور دوسرے جزء میں سلطان کا لفظ ہے جو امیر ہی کے لئے استعمال ہوا"
(حوالہ بالا ص ۵ ، آئینہ دار ص ۲۲۱)
ان کی یہ بات درست نہیں تفصیل آگے آرہی ہے ۔ابن عباس سے مروی اس حدیث کے دوسرے طریق کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں۔ جو مسعود صاحب نے بھی نقل کرتے ہوئے لکھا : "رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ، إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً
(صحيح بخاري كتاب جزء ۹ ص ۵۹ و صحيح مسلم كتاب الامارة باب الامر بلزوم الجماعة جزءٍ ۲ ص ۱۳۶ )
جو شخص اپنے امیر کی کوئی ایسی بات دیکھے جو اسے ناپسند ہو تو اس پر صبر کرے اس لئے کہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہوا اور (اسی حالت میں) مر گیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔ نوٹ: جاہلیت سے مراد اسلام سے پہلے کا زمانہ یعنی کفر کا زمانہ ہے۔ اس حدیث کے پہلے جزء میں امیر کا لفظ ہے اور دوسرے جزء میں جماعت کا لفظ ہے گویا امیر کو چھوڑنا جماعت کو چھوڑنا ہے۔"
(امیر کی اطاعت ص ۵-۶،آئینہ دار ص ۲۲۱-۲۲۲)
اب دیکھئے کہ مسعود صاحب کی وہ بات درست کیوں نہیں؟ اس لئے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی اس حدیث کیے دونوں طرق کے پہلے حصے میں "امیر" کا لفظ موجود ہے۔
پہلے طریق کے الفاظ ہیں:" مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ "
دوسرے طریق کے الفاظ ہیں:"مَنْ كَرِهَ مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا "
جبکہ حدیث کے دوسرے حصے میں:
پہلے طریق کے الفاظ ہیں: " مَنْ فَارَقَ الجَمَاعَةَ شِبْرًا "
دوسرے طریق کے الفاظ ہیں: " مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا "
ظاہر ہے کہ اس حدیث کے دونوں طریق میں امیر کے مقابل امیر ہی کا لفظ ہے،البتہ "الجماعۃ" کے مقابل "السلطان" کا لفظ ہے۔ معلوم ہوا کہ اس حدیث میں"جماعت" سے مراد "السلطان" ہے، کہ ان سے علیحدگی کا ذکر ہے۔امام بخاری و امام مسلم بھی یہ دونوں حدیثیں اوپر نیچے ساتھ ساتھ لائے ہیں۔
رجسٹرڈ فرقہ کے امام ثانی محمد اشتیاق صاحب نے ۱۳ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے "جماعۃ" لفظ والی مختلف احادیث نقل کرنے کے بعد اعتراف کیا :
"صحابہ کرام جماعۃ" کا لفظ استعمال کر رہے ہیں ۔اگر کسی ایک روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے "سلطان " کا لفظ استعمال کیا تو ان تمام احادیث کی روشنی میں لفظ "سلطان " کو جماعت کے معنی پر منطبق کیا جائے گا۔لہذا سلطان اور جماعت ایک ہی چیز ہے"
(ایک معترض کی غلط فہمیاں ص ۳۳)
یہ کتابچہ ۱۴۱۸ھ میں شائع ہوا، جو کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں وہ بات آج سے تقریبا سولہ سال پہلے اشتیاق اور ان کا رجسٹرڈ فرقہ بڑے صاف اور واضح لفظوں میں صرف تسلیم ہی نہیں بلکہ بیان بھی کر چکا ہے۔ظاہر ہے کہ ہمارے مابین اس حد تک تو کوئی اختلاف نہیں رہا کہ "جماعت" اور "سلطان" کے الفاظ ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر بیان ہوئے، دونوں ایک ہی چیزکے دو نام ہیں۔ دو علیحدہ علیحدہ چیزیں نہیں ہیں۔ فالله الحمد
سلطان کا معنی و مفہوم
جب یہ واضح ہو چکا کہ دونوں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں،اور حدیث میں ایک دوسرے کی جگہ واقع ہوئے ہیں تو جو معنی سلطان کا ہو گا وہی جماعت کا ہو گا۔ اب مسعود صاحب کے قلم سے اس کا معنی و مفہوم ملاحظہ کیجئے۔
۱: مسعود صاحب نے لکھا:
"سلطان کے معنی دلیل، حجت ،اختیار اور قوت کے ہیں"
(امیر کی اطاعت ص ۴ آئینہ دار ص ۲۲۰)
۲: نیز لکھا: "(سلطان / دلیل ،قوت ،بادشاہ)"
(تفسیر قرآن عزیز ج ۵ ص ۴۱۸)
۳: ایک اور مقام پر لکھا :
"اللہ تعالٰی نے رسول اللہﷺ کو ہجرت کا حکم دیا اور اس طرح دعا کرنے کی ہدایت کی (وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا) اور (اے رسول) اس طرح دعا کیجئے: اے میرے رب مجھے اچھی طرح ہجرت گاہ میں داخل کرنا اور اچھی طرح (اس) بستی سے نکالنا اور اپنے پاس سے قوت و غلبہ کو میرا مددگار بنانا۔رسول اللہﷺ نے جب ہجرت کی تو دعاء کے اثرات پوری طرح ظاہر ہوئے آپ دارالہجرت مدینہ میں داخل ہوئے تو بڑی شان سے داخل ہوئے اور جب مکہ سے نکلے تو بخیر و عافیت نکلے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر اللہ تعالٰی نے آپ کو قوت و غلبہ عطا فرمایا"
(تفسیر قرآن عزیز ج ۶ ص ۱۶۴)
آیت بالا کے متعلق اشتیاق صاحب نے لکھا:
"اللہ تعالٰی رسول اللہﷺ کو ہجرت کے موقع پر ایک دعا بتا رہا ہے کہ .... جب آپ مدینہ منورہ میں داخل ہوں تو اس طرح دعا کرتے رہیے اور آپ دعاٰ کرتے رہے اور اللہ تعالٰی نے مدینہ منورہ میں آپ کی دعاء کی برکت سے حکومت قائم کر دی۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ پھر صاحب اقتدار و حکومت ہو گئے۔اس سے ہمیں کب اختلاف ہے ہم بھی تو یہی کہتے ہیں"
(ایک معترض کی غلط فہمیاں ص ۳۴)
قارئین کرام! غور کیجئے ، آیت میں لفظ "سلطان" وارد ہوا، مسعود صاحب نے تفسیر میں لکھا: "مدینہ پہنچ کر اللہ تعالٰی نے آپ کو قوت و غلبہ عطا فرمایا۔" اس"قوت و غلبہ" سے کیا مراد ہے؟
اشتیاق صاحب نے عام فہم الفاظ میں بتا دیا کہ "اللہ تعالٰی نے مدینہ منورہ میں...... حکومت قائم کر دی پھر آپ صاحب اقتدار و حکومت ہو گئے" گویا قوت و غلبہ سے مراد "حکومت و اقتدار" ہے اور یہ سب لفظ "سلطان " ہی کا مفہوم بیان کیا ہے۔ رجسڑڈ فرقہ کے دونوں اماموں نے۔
۴: مسعود صاحب نے مسئلہ بیان کرتے ہوئے لکھا:
"کوئی شخص دوسرے کی جائے حکومت یا اس کے گھر میں بغیر اس کی اجازت کے امامت نہ کرے"
(صلٰوۃ المسلمین ص ۱۴۸)
پھر بطور دلیل حاشیہ نمبر : ۳ میں یہ حدیث نقل کی:
"قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَوَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ..... إِلَّا بِإِذْنِهِ....
(صحیح مسلم عن ابی مسعود رضی اللہ عنہ)
۵: مسعود صاحب نے اپنی "منہاج " میں اسی حدیث کے تحت مسئلہ اس طرح لکھا:
"کسی دوسرے کی حکومت کی جگہ یا دوسرے کے گھر میں بغیر اجازت کے کوئی شخص امامت نہ کرے"
(منہاج المسلمین ص ۱۴۶)
مسعود صاحب کی ان تحریروں سے معلوم ہوا کہ سلطان کا معنی ہے "جائے حکومت" جسے سلطنت بھی کہتے ہیں۔
۶: اسی طرح اہنی منہاج میں لکھا:
"حکام سے دور رہے، جھوٹ میں ان کی تصدیق نہ کرے"
پھر حاشیہ میں یہ حدیث بھی نقل کی:
"قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَمَنْ أَتَى أَبْوَابَ السُّلْطَانِ افْتَتَنَ (رواہ الترمذی و حسنہ)"
(منہاج ص ۶۷۴)
دیکھئے مسعود صاحب نے "حکام " لکھا اور حدیث وہ نقل کی جس میں "سلطان" کا لفظ ہے ۔ تو سلطان کا معنی "حاکم" بھی ہے اور جس کے پاس اقتدار ہو حکومت ہو وہ حاکم ہی ہوتا ہے۔اقتباسات تو مزید بھی نقل کئے جا سکتے ہیں لیکن اختصار کی خاطر انھیں چند ایک پر اکتفا کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
مسعود صاحب کی تحریرات سے "سلطان" کے مختلف معانی سامنے آتے ہیں جیسے: دلیل، حجت، قوت، اختیار، غلبہ، حکومت، جائے حکومت، بادشاہ اور حکام اور سوائے دلیل و حجت کے باقی تمام معانی یکساں ہیں۔اگرچہ "سلطان "کا معنی دلیل و حجت بھی ہے لیکن حدیث "من خرج من السلطان " میں یہ دلیل و حجت کے معنی میں نہیں۔اگر یہی معنی لئے جائیں تو حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہو گا " جو شخص دلیل یا حجت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہوا وہ جاہلیت کی ایک خصلت پر مرے گا۔"
یہ مفہوم قطعا درست نہیں، چونکہ نصوص سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تمام کے تمام اہل اسلام علماء نہیں ہو سکتے۔(دیکھئے سورۃ توبہ: ۱۲۲،النحل: ۴۳)
تو ایسی صورت میں بہت سے اہل ایمان "دلیل و حجت" سے دور ہو سکتے ہیں ۔عدم علم یا بر وقت استحضار نہ ہونے کے سبب تو کیا ایسی صورت میں اس کی موت جاہلیت کی ہوگی؟ اس کا تو کوئی بھی قائل نہیں،تو سلطان کا معنی حکومت و اقتدار ہی بنتا ہے۔ جب رجسٹرڈ فرقہ کو بھی یہ تسلیم ہے کہ "سلطان اور جماعت ایک ہی چیز ہے" اور سلطان کا معنی حکومت ہے تو جماعت کا معنی بھی حکومت و اقتدار ہی ہے۔ جیسا کہ رجسٹرڈ جماعت کے ایک کتابچہ میں صاف صاف لکھا ہے۔
""الجماعۃ" یعنی منزل من اللہ دین کو قائم کرنے والی اسلامی حکومت موجود نہیں ہے"
(جماعت المسلمین پر اعتراضات اور ان کے جوابات ص ۲ طبع ۱۴۱۶ھ)
یہ تو معلوم و معروف ہے کہ عربی اور اردو زبان میں "یعنی" کہہ کر کسی لفظ کا معنی و مفہوم بیان کیا جاتا ہے۔اور مسعود صاحب کے مرتب کردہ اس کتابچہ میں "یعنی" کہہ کر "الجماعۃ" کا مطلب و مفہوم " دین کو قائم کرنے والی اسلامی حکومت" بیان کیا گیا ہے۔ فللہ الحمد
قارئیں کرام! قرآن مجید ،احادیث صحیحہ اور خود رجسٹرڈ فرقے کی مسلمات کی روشنی میں "جماعت" کا مفہوم آپ کے سامنے ہے۔ ان دلائل کی روشنی میں علی وجہ البصیرت عرض ہے کہ لزوم جماعت والی احادیث میں "جماعت " سے مراد مسلمین کی اسلامی حکومت و اقتدار ہے۔ یہ حکومت واقتدار سے محروم و محکوم لوگوں کی کسی رجسٹرڈ یا غیر رجسٹرڈ پارٹی اور تنظیم کا نام نہیں۔
اشتیاق صاحب کے نوادرات
اس استدلال کے جواب میں رجسٹرڈ فرقے کے امام اشتیاق صاحب نے مسعود صاحب کی خود ساختہ "جماعت" کے دفاع میں جو نوادرات پیش کئے ہیں اور ان کے جوابات بھی ملاحظہ کر لیں:
۱: حدیث میں خلیفہ یا حاکم مروی نہیں۔ اشتیاق صاحب نے لکھا:
"سلطان کے معنی حاکم کرنا یا خلیفہ کرنا غلط ہے۔کیونکہ کسی حدیث میں لفظ خلیفہ یا حاکم نہیں روایت کیا گیا اور جب روایت نہیں کیا گیا تو سلطان کے معنی خلیفہ یا حاکم کیسے ہو گئے"
(ایک معترض کی غلط فہمیاں ص ۳۰)
عرض: اس مختصر سی عبارت میں دو واضح غلطیاں ہیں:
اول: اشتیاق صاحب کی اس "کیونکہ" سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطان کے معنی حاکم یا خلیفہ بیان کرنا اس لئے غلط ہے کہ حاکم و خلیفہ کے لفظ حدیث میں مروی نہیں، جب نہیں تو یہ معنی بھی نہیں ہو سکتے۔ سبحان اللہ، کیا جواب ہے!!! اشتیاق صاحب کی ایسی عجیب و غریب باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ علم تو درکنار جناب کو صاحب عقل کی صحبت تک میسر نہیں آئی،اسی لئے ایسی جہالت سے بھر پور غلط باتوں کو بے دھڑک لکھ کر شائع کر دیتے ہیں۔
سوچئے! کیا کسی لفظ کے معنی کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ معنی والا لفظ حدیث میں مروی ہو ورنہ ہو معنی غلط ہو گا؟اگر ان کا اصرار ہو کہ ہاں تو بتائیے مسعود صاحب نے سلطان کے معنی "بادشاہ" بھی لکھے ہے۔کیا اشتیاق صاحب کو "بادشاہ" لفظ بھی حدیث میں نظر آیا؟ نہیں آیا اور نہ ہی آئے گا تو یہ غلط معنی کیوں آپ کے لڑیچر کا حصہ ہے؟ اور یہ بھی واضح کریں کہ خود جناب بھی اپنے اس خود ساختہ اصول کی پابندی کیوں نہیں کرتے کہ جناب نے اپنی "تحقیق کا فقدان " میں لکھا : "فرض کا ترجمہ...... کپڑے کا ایک ٹکٹرا یا پھٹن بھی ہے (المنجد )"
(تحقیق کا فقدان ص ۳۱)
بتائیے کپڑے کا ایک ٹکٹرا اور پھٹن کون سی حدیث میں مروی ہے؟
المختصر! اشتیاق صاحب کو چاہیے کہ اردو ترجمہ نہ کیا کریں تا کہ کم از کم خود تو اپنے اصول کے پابند رہیں۔ اگر وہ پابندی نہ کر سکیں اور ہرگز نہ کر سکیں گے تو اپنے اس باطل و فضول قاعدے کو اپنے کتابچہ سے نکال دیں۔
اشتیاق صاحب کی صریح غلط بیانی
دوم: یہ کہ اشتیاق صاحب نے اس مقام پر "صریح غلط بیانی" سے کام لیتے ہوئے کہا کہ "کسی حدیث میں لفظ خلیفہ یا حاکم نہیں روایت کیا گیا" حالانکہ نہ صرف یہ کہ روایت کیا گیا ہے بلکہ اشتیاق صاحب کی تحریرات میں نقل بھی ہو چکا ہے۔ چنانچہ اشتیاق صاحب نے فیض احمد کی کتاب "نماز مدلل" سے اقتباس نقل کرتے ہوئے لکھا:
"حضرت عبداللہ بن عمرؤ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما دونوں بزرگوں سے یہ مرفوع حدیث مروی ہے قال رسول اللہ ﷺ اذا حکم الحاکم فاجتھد.... الخ (نماز مدلل ص ۷)"
(تحقیق صلاۃ ص ۲۸)
پھر اشتیاق صاحب نے جواب دیتے ہوئے یہ بھی لکھا:
"مندرجہ بالا حدیث میں لفظ "حاکم" وارد ہوا ہے۔لفظ عالم نہیں ہے۔اس حدیث کا اطلاق حاکم یا بادشاہ وقت ہا خلیفۃ المسلمین یا قاضی پر تو ہوتا ہے"
(تحقیق صلاۃ بجواب نماز مدلل ص ۲۹، شائع شدہ ۱۹۹۵ء)
دیکھ لیجئے! اشتیاق صاحب نے "حاکم" والی روایت کی نفی کی کہ حدیث میں روایت نہیں جبکہ ان کی اپنی کتاب میں لفظ حاکم والی متفق علیہ روایت موجود ہے۔
(صحیح البخاری ، کتاب الاعتصام بالکتاب و النسۃ،باب اجرالحاکم اذا اجتھد، رقم : ۷۳۵۲،و صحیح مسلم، کتاب الاقفیہ، باب الجرالحاکم اذا اجتھد رقم ۴۴۸۷)
جس کا اطلاق اشتیاق صاحب کے خیال سے خلیفہ ، قاضی، حاکم یا بادشاہ پر ہی ہوتا ہے۔قطع نظر اس سے کہ اس کا اطلاق عالم پر ہوتا ہے یا نہیں۔حدیث میں لفظ حاکم موجود ہے۔ اشتیاق صاحب کا انکار صریح غلط بیانی ہے۔ اب انھیں کے قلم سے "خلیفہ " والی حدیث ملاحظہ کیجئے!لکھا ہے:
"حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
قال النبی ﷺ لا یزال ھذا الامر عزیزا الی اثنی عشر خلیفہ.....(صحیح مسلم ۳/۱۴۵۴) نبی ﷺ نے فرمایا: یہ دین بارہ خلفاء تک غالب ہی رہے گا"
(کیا امیر کا قریشی ہونا ضروری ہے؟ ص ۲)
غلط فہمی سے اتفاق!
۲: اس استدلال کے خلاف اشتیاق صاحب کا ایک اور جواب ملاحظہ کیجئے لکھا ہے:
"غلط فہمی: رسول اللہ ﷺ کو جب مکہ سے ہجرت کا حکم دیا گیا تب سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۸۰ نازل ہوئی(ترمذی ابواب التفسیر ج ۲ ص ۳۸۸ عن ابن عباس و سندہ صحیح) وہ آیت اور مسعود صاحب کا ترجمہ صفحہ ۳۱ پر ملاحظہ کر لیں اور یہ بات پیش نظر رہے کہ مدینہ میں اسلامی حکومت قائم ہوئی تھی..... وہاں مسعود صاحب نے سلطان کا ترجمہ قوت و غلبہ کیا مدینہ میں آپ کو اللہ تعالٰی نے حکومت و اقتدار عطا کیا معلوم ہوا یہاں سلطان کے معنی حکومت و اقتدار کے ہیں۔
اذالہ: جناب خیراتی صاحب نے پھر استدلال کرنے میں غلطی کی۔اللہ تعالٰی رسول اللہ ﷺ کو ہجرت کے موقع پر ایک دعا بتا رہا ہے ...... آپ دعاء کرتے رہے اور اللہ تعالٰی نے مدینہ منورہ میں آپ کی دعاء کی برکت سے حکومت قائم کر دی۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ پھر صاحب اقتدار و حکومت ہو گئے۔ اس سے ہمیں کب اختلاف ہے۔"
(ایک معترض کی غلط فہمیاں ص ۳۴)
عرض : قارئیں کرام ! اشتیاق صاحب کی عقل اور سوجھ بوجھ ملاحظہ کیجئے، جس بات کو "غلط فہمی" کا عنوان دے کر بزعم خود "ازالہ" کرنے چلے تھے اسی بات کو تسلیم کر گئے۔آپ مندرجہ بالا غلط فہمی و ازالہ دونوں پر غور فرما کر فیصلہ کریں کہ مفہوم و مطلب کے اعتبار سے دونوں عنونات کی عبارات میں کیا فرق ہے؟
رضوان اللہ خیراتی سابق رکن رجسٹرڈ فرقہ نے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت : ۸۰ میں لفظ سلطان کا مفہوم "حکومت و اقتدار" قرار دے کر لکھا:
"مدینہ میں آپ کو اللہ تعالٰی نے حکومت و اقتدار عطاء کیا"
تو اشتیاق صاحب نے بھی لکھا:
"اللہ تعالٰی نے مدینہ منورہ میں......حکومت قائم کر دی..... اس سے ہمیں کب اختلاف ہے"
جب اختلاف نہیں تو اتفاق ہی ہوا، پھر اسے "غلط فہمی" قرار دینے کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں:
(۱) اشتیاق صاحب اور رجسٹرڈ فرقہ کو "غلط فہمی" اور "درست فہمی" کا مطلب تک معلوم نہیں۔
(۲) ا ن لوگوں کو بڑا شوق ہے دوسروں کی درست باتوں کو بھی "غلط قرار دینے کا"
کیا لفظ سلطان یا اس سے استدلال بے ثبوت ہے؟
۳: اس استدلال کے خلاف ایک اور جواب کچھ اس طرح لکھا:
"خیراتی صاحب نے حکومت اور اقتدار کو ثابت کرنے کے لئے جس لفظ سلطان سے استدلال کیا ہے وہ بےثبوت اور محض کھینچا تانی ہے"
(ایک معترض کی غلط فہمیاں ص ۳۰)
عرض: نہ تو لفظ سلطان بے ثبوت ہے نہ ہی استدلال، استدلال کی بحث تو آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ "غلط فہمی" قرار دینے کے باوجود جناب خود بھی تسلیم کر چکے ہیں۔
اب لفظ کے سلسلے میں اشتیاق صاحب کی تردید ان کے اپنے قلم سے ملاحظہ فرما لیجئے،لکھا ہے :"اگر کسی ایک روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے "سلطان" کا لفظ استعمال کیا ہے تو ان احادیث کی روشنی میں لفظ "سلطان" کو جماعت کے معنی پر منطبق کیا جائے گا۔لہذا سلطان اور جماعۃ ایک ہی چیز ہے"
(ایک معترض کی غلط فہمیاں ص ۳۳)
لیجئے ص ۳۰ پر بے ثبوت کہا ص ۳۳ پر ثبوت تسلیم کر لیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے روایت کیا ہے تو یہ بے ثبوت کہاں رہا؟ المختضر کے صحیحین کی متفق علیہ حدیث میں لفظ سلطان موجود ہے اور استدلال بھی اشتیاق صاحب نے تسلیم کر لیا ہے، انکا ر محض ضد ہے اور کچھ نہیں۔
امام سے کیا مراد ہے؟
جماعت کے مفہوم کی وضاحت کے بعد "امام" کے مفہوم پر غور کرتے ہیں،اس سے حدیث: تلزم جماعۃ المسلمین او امامہم" کا مفہوم بالکل واضح ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
مسعود صاحب نے لکھا :"امام جماعت اور امیر جماعت ہم معنی ہیں(۱) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: الا کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ فالامام الذی علی الناس راع و ھو مسؤل عن رعیتہ.....خبردار تم میں سے ہر شخص حکمران ہے اور تم میں سے ہر شخص سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہو گی۔امام جو لوگوں پر حکمراں ہوتا ہے اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی(صحیح البخاری.....جزء۹ص۷۷)(امیر کی اطاعت ص ۱۴،طبع جدید ص ۸،آئینہ دار ص ۲۲۹)
مسعود صاحب کی نقل کردہ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ "امام" لوگوں کے حکمران کو کہتے ہیں۔
"راع" کا مفہوم: مسعود صاحب نے لکھا:
"اس حدیث میں لفظ راع استعمال ہوا ہے۔اس کے معنی درج ذیل ہیں:
(۱) اسم فاعل و کل من ولی امر قوم،وفی الاصطلاح ھو المتحق فی معرفۃ الامور السیاسۃ المتعلقۃ بالمدنیۃ المتمکن علی تدبیر النظامالموجب لصلاح العالم(محیط المیط قاموس مطول للغۃ العربیۃ ص ۳۴۱)
ترجمہ (یہ لفظ رعایۃ سے ) اسم فاعل(ہے،اس سے مراد ) ہر وہ شخص ہے جو کسی قوم کا امر کا والی ہو اور اصطلاح میں (اس سے مراد وہ شخص ہے جو) مدنیت کے متعلق امور سیاست کو واجب اور قائم کرنے والا (ہو یا) جو صلاح عالم کے لئے انتظامی تدابیر پر قدرت رکھنے والا (ہو)......ہر وہ شخص جو کسی قوم کے امر کا والی ہو جیسے اسقف(بادشاہ یا عالم) اور بطریرک (سردار یا رئیس)(۳) والی،امیر......الغرض مندرجہ بالا تصریحات کے لحاظ سے "راع" کا صحیح ترجمہ حکمراں ہے۔(امیر کی اطاعت ص ۱۵ طبع جدید ص ۸ آئینہ دار ص ۲۲۹)
مسعود صاحب نے "راع" سے متعلق جو لغوی بحث کتب لغت سے نقل کی ہے اس سے چند امور واضح ہوتے ہیں:
(۱) امام وہ ہے جو کسی قوم کے امر کا والی ہو۔
(۲) امام وہ ہے جو مدنیت سے متعلق امور سیاست پر قدرت و استطاعت رکھنے والا ہو۔
(۳) امام وہ ہے جو اصلاح عالم کے لئے انتظامی تدابیر پر قدرت رکھنے والا ہو۔
ایسے شخص کو لغت عرب میں "راع" کہتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ امام لوگوں پر "راع" مطلب حکمران ہوتا ہے۔کیا رجسٹرڈ فرقہ کے امام میں ایسی قدرت و استطاعت پائی جاتی ہے؟یقینا نہیں پائی جاتی تو پھر یہ کس بنیاد پر "امام" ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں؟ بہرحال حدیث بالا،لغوی بحث اور خود اپنی ہی تصریحات و توضیحات کے مطابق یہ لوگ مخالفت حدیث پر کمر بستہ اور مصر ہیں۔
اگر یہ لوگ واضح غلط بیانی کے مرتکب ہوکر یہ کہہ دیں کہ ہمارے امام امیر فرقہ رجسٹرڈ میں یہ ساری صلاحیتیں موجود ہیں تو پھر ہم ان سے پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ پھر وہ اپنے ملک کم از کم اپنے شہر کراچی سے شرک و بدعات کا قلع قمع کیوں نہیں کرتے؟ اقامت صلاۃ و زکٰوۃ کیوں نہیں کرتے؟ فحاشی و عریانی کے ٹھکانے ختم کیوں نہیں کراتے؟ ظلم و جور کے غیر اسلامی نظام کا خاتمہ کیوں نہیں کرتے؟ یقینا یہ سب کچھ ان کے بس کی بات نہیں کہ فی الحال یہ اس پر اختیار نہیں رکھتے تو اس کا واضح مطلب یہی ہوا کہ رجسڑڈ فرقے کا امام بھی دیگر جماعتوں اور تنظیموں کے امام کی طرح بے بس و مجبور اور محکوم ہی ہے، راع یعنی حکمران نہیں۔جب کہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ امام "راع" مطلب حکمران ہوتا ہے۔جب یہ تمام تنظیموں کے امراء حکمران نہیں تو لوگوں کے امام بھی نہیں ہیں۔
ایک اشکال اور اس کا جواب
جب ان کے سامنے یہ حدیث رکھی جائے تو کہتے ہیں: اس حدیث میں آگے یہ بھی بیان ہوا ہے کہ "مرد اپنے اہل بیت پر حکمران ہے اور اس سے اس کے اہل بیت کے متعلق باز پرس ہو گی۔عورت اپنے شوہر کے اہل بیت اور اس کی اولاد پر حکمران ہے۔ان کے پاس تو حکومت نہیں ہوتی۔"
جواب: بلاشبہ حدیث میں یہ باتیں بھی ہیں،لیکن غور سے دیکھئے اس میں جن لوگوں کو جس چیز کا حکمران بتایا گیا ہے ان کا دائزہ حکومت بھی بیان فرما دیا گیا۔مرد اپنے گھر والوں پر حکمران اس گھر والوں پر معروف میں اس کی اطاعت لازم ہے۔گھر سے باہر والوں پر نہیں اس طرح دیگر مذکور لوگوں کا معاملہ ہے۔مگر امام تو تمام لوگوں پر حکمران ہوتا ہے اس کا دائزہ کار اور حکومت محدود نہیں وسیع ہے۔جو دیگر نصوص سے ثابت ہیں،ان شاءاللہ وہ عنقریب بیان کی جائیں گی۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور امام کا مفہوم
مسعود صاحب نے لکھا:"حضرت ابو بکر نے فرمایا"امام سے وہی لوگ مراد ہیں جو لوگوں پر حاکم ہوتے ہیں"(صحیح تاریخ الاسلام و المسلمین ص ۶۸۷ بحوالہ صحیح بخاری )
جو بات رسول اللہ ﷺ نے بیان کی بالکل وہی بات سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیان کی کہ "امام جو لوگوں پر حاکم ہو" اور محکوم تو حاکم قطعا نہیں ہوتا۔لیکن رجسٹرڈ فرقہ پر ست ان تصریحات کے برعکس ایک محکوم محض شخص کو امام بنائے بیٹھے ہیں۔المختصر کہ ان کا مؤقف قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔جماعت سے مراد اسلامی حکومت اور امام سے مراد مسلم حکمران ہے۔مزید وضاحت کے لئے درج ذیل عنوان ملاحظہ کیجئے:
امیر کے حقوق (رعایا کے فرائض)
مسعود صاحب نے اپنی منہاج میں عنوان بالا کے تحت چند احکامات لکھے ہیں، ان سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امیر یا ا مام کسے کہتے ہیں:
۱: مسعود صاحب نے لکھا:"رعایا کو چاہئے کہ امیر کی اطاعت کرے خواہ امیر حبشی غلام ہواور بدصورت ہی کیوں نہ ہو"(منہاج ص ۶۷۲)
اس کے ثبوت میں مسعود صاحب نے حاشیہ نمبر ۳ میں سورۃ نساء :۵۹ اور صحیح بخاری کی ایک حدیث نقل کی ہے۔
۲: اسی طرح لکھا: "امیر اگر حق تلفی بھی کرے تو رعایا کو چاہئے کہ اس کا حق اسے دے۔"(منہاج ص ۶۷۴ بحوالہ صحیح بخاری)
ان دونوں مقامات پر نقل کردہ احادیث میں امیر کا اور عایا کا ذکر ہے،امیر حاکم ہوتا ہے اور رعایا محکوم ان بلکہ کسی بھی حدیث میں تیسری قسم "محکوم حاکم" یعنی وہ شخص جو خود کسی رعایا میں شامل ہوتے ہوئے بھی "حاکم" ہونے کا مدعی ہو ، اس کا ذکر نہیں۔
من ادعی فعلیہ البیان
رجسٹرڈ فرقہ پرستوں کے امام اشتیاق صاحب حاکم تو نہیں اور ان کے محکوم ہونے کی واضح دلیل یہ ہے کہ موضوف "حدود آردیننس" کے ایک کیس میں کچھ عرصہ جیل کی ہوا بھی کھا چکے ہیں،جب پاکستانی عدالت میں ان پر کیس بنا،عدالت نے ان کی گرفتاری کے احکام جاری کئے تو وہ جیل میں ڈال دئیے گئے،اگر وہ حکومت پاکستان کے محکوم نہ ہوتے تو جیل میں کبھی نہ ڈالے جاتے۔تو محکوم شخص حاکم نہیں ہو سکتا۔
۳: مسعود صاحب نے لکھا:
"حکام سے دور رہے،جھوٹ میں ان کی تصدیق نہ کرے،ظلم میں ان کی مدد نہ کرے" (منہاج ص ۶۷۲)
ثبوت کے طور پر مسعود صاحب نے حاشیہ نمبر : میں دو احادیث نقل کی ہیں، ایک میں "امراء" کا لفظ ہے اور دوسرے میں "سلطان" کا۔امراء امیر کی جمع ہے۔اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ امیر حاکم کو کہتے ہیں۔
رعایا کے حقوق (امیر کے فرائض)
یہ عنوان بھی مسعود صاحب کا قائم کردہ ہے اس کے تحت جو احکام لکھے ہیں ان سے بھی خوب وضاحت ہوتی ہے کہ امیر حاکم کو کہتے ہیں نہ کہ محکوم کو۔
۱: اقامت صلٰوۃ.......! مسعود صاحب نے لکھا:
"امیر کو چاہئے کہ رعایا میں نماز کی اقامت کا انتظام کرے،زکوۃ کی وصولیابی کا بندوبست کرے،نیکی کا حکم کرے اور برائی سے روکے۔"
(منہاج ص ۶۷۵)
اس کی دلیل جو مسعود صاحب نے نقل کی حاشیہ نمبر ۴ میں وہ بھی ملاحظہ کیجئے:
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ.....................(منہاج ص ۶۷۵)
مسعود صاحب نے اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا:
"یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر اللہ زمیں میں ان کو استحکام و غلبہ عطاء کرے تو یہ نماز کو قائم کریں زکوۃ ادا کریں،نیک بات کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔"
(تفسیر قرآن عزیز ۶/۸۸۶)
اور اس آیت کی تفسیر میں لکھا: "اس آیت میں اللہ تعالٰی نے واضح طور پر صحابہ کرام کے دور خلافت کی تعریف فرمائی ہے۔یہ آیت بتاتی ہے کہ صحابہ کرام کے دور خلافت میں اقامت صلٰوۃ اور ادائے زکوۃ کا معقول انتظام تھا، صحابہ کرام معروف کاموں کا حکم دیتے تھے اور برے کام سے روکتے تھے۔"(حوالہ بالا ص ۹۰۷)
بلاشبہ اس آیت کا اولین مصداق صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہی تھے،مسعود صاحب نے "امیر کے فرائض" میں یہ آیت نقل کرکے انجانے میں ہی سہی ثابت کر دیا کہ امیر وہ ہوتا ہے جس کے پاس "خلافت" ہو۔ زمین پر استحکام و غلبہ حاصل ہو،جس نے صلوۃ و زکوۃ کا،امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا نظام قائم کر رکھا ہو۔اس حقیقت سے مسعود صاحب بھی بخوبی آگاہ تھے یہی وجہ ہے کہ اپنی منہاج میں"خلافت علی منہاج النبوت" کے تحت لکھا:
"خلافت علی منہاج النبوت کی علامت یہ ہے کہ دین مستحکم ہو ،امن وا مان قائم ہو،اللہ تعالٰی کا قانون نافذ ہو اور صرف اللہ اکیلے کی حکومت قائم ہو،اس کے قانون و اطاعت میں کسی دوسرے کی شرکت نہ ہو پوری سلطنت میں اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کیا جائے۔ نظام صلوۃ اور نظام زکوۃ قائم ہو نیک باتوں کا حکم دیا جائے اور بری باتوں سے روکا جائے۔"
پھر حاشیہ نمبر :۳ میں سورۃ النور:۵۵ اور الحج:۴۱ نقل کردی۔(منہاج ص ۶۷۱)
دیکھئے جو آیت (الحج:۴۱) خلیفہ و خلافت کی ذمہ داریاں ثابت کرتی ہے وہی آیت "امیر کے فرائض" بھی ثابت کرتی ہے،مسعود صاحب کے اپنے طرز عمل سے واضح ہو جاتا ہے "خلافت و امارت" یا"امیر و خلیفہ" دو مختلف و متضاد چیزوں کا نام نہیں بلکہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ان میں فرق ثابت کرنا خود ساختہ بات ہے۔
سود خوروں سے جنگ
۲: مسعود صاحب نے "امیر کے فرائض" بیان کرتے ہوئے مزید لکھا:
"امیر کو چاہئے کہ رعایا میں سے جو لوگ سود لینا شراب پینا نہ چھوڑیں ان سے جنگ کرے۔"(منہاج ص ۶۷۵)
بات تو بالکل واضح ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کے لئے جناب نے دلیل کیا نقل کی ، تاکہ امارت و خلافت کا خود ساختہ فرق اور امارت کا مصنوعی تصور منہدم ہو۔مسعود صاحنب نے اس کی دلیل میں کہا:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ(البقرۃ : ۲۷۸-۲۷۹) اے ایمان والو،اللہ سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو تو سود میں سے جو کچھ باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم ایسا نہ کرو تو پھر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان سن لو۔(ترجمہ از مسعود احمد،تفسیر قرآن عزیز ج ۱ ص ۱۰۳۳)
اسی آیت کی تفسیر میں مسعود صاحب نے لکھا:
"تمہارے لئے اعلان جنگ ہے،تم جنگ کے لئے تیار رہو، اسلامی حکومت میں سودی کاروبار جاری رہے یہ نہیں ہو سکتا۔ اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو باغی قرار دےکر ان کے خلاف سخت کارروائی کرے اور اگر فوج کشی کی ضرورت پیش آ جائے تو اس میں بھی کوتاہی نہ کرے"(حوالہ بالا ج ۱ ص ۱۰۳۵)
قارئین کرام! غور کیجئے مسعود صاحب نے اپنی منہاج میں "شراب و سود خوروں سے جنگ،امیر کے فرائض" میں لکھ کر امیر کی ذمہ داری بتلائی اور تفسیر میں "اسلامی حکومت " کا فرض قرار دیا ،کیا اس سے واضح نہیں ہو جاتا کہ "امیر" اسلامی حکومت کے سربراہ کو کہتے ہیں، جس کے پاس قوت و غلبہ ہو۔یہ سب کچھ کرنے کا اختیار ہو،تنظیم و پارٹی کے سربراہ کو نہیں کہتے جو خود محکوم ہو۔افسوس کہ اس حقیقت سے آگاہی کے باوجود مسعود صاحب خود کو امیر ،امام اور سلطان باور کراتے تھے نئے امیر کا بھی اپنے بارے میں یہی خیال ہے،لیکن اسلا می حکومت نہ ان کے پاس تھی نہ ان کے نئے امیر کے پاس،"امیر کے فرائض" نہ مسعود صاحب نے ادا کئے نہ نئے امیر صاحب ان فرائض کو ادا کرنے کے موڈ میں ہیں،چونکہ اس کی قوت ہی نہیں رکھتے۔
سوچیے! ایک معلم کا فریضہ ہے کہ وہ طلبا کو تعلم دے لیکن جو معلمی کے منصب کا مدعی ہو لیکن پڑھانے ،تعلیم دینے کی صلاحیت سے محروم ہو،کیا کوئی عقل مند آدمی اسے "معلم" کہے اور سمجھے گا؟ یقینا نہیں،تو جو اس کے مقابلے میں کئ گنا بڑھ کر "امیر" ہونے کا مدعی ہو اور "امیر کے فرائض" و ذمہ داریاں ادا کرنے سے بالکل قاصر و عاجز ہو اسے شرعی "امیر" کہنا،سمجھنا اور باور کرانے کی کوشش کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ حالانکہ ایک معلم کی ذمہ داری تو صرف گنتی کے چند طلبا تک محدود ہوتی ہے اور رجسٹرڈ فرقہ کے امام تو "امیر کل عالم" ہونے کے مدعی ہیں۔
فوج و پولیس کے محکمے
۳: "امیر کے فرائض" میں سے ایک فرض بیان کرتے ہوئے مسعود صاحب نے لکھا: "امیر کو چاہئے کہ فوج اور پولیس کے محکمے قائم کرے۔" (منہاج ص ۶۷۷)
اشتیاق صاحب اور ان کے رجسٹرڈ فرقے کے لوگ مدعی ہیں کہ اشتیاق ان کے امیر ہیں۔
بتائیے ان کی فوج کے محکمے کہاں ہیں، فوج کا G.H.Q "جنرک ہیڈکوارٹر" کہاں ہے؟ اور ان کی پولیس کے تھانے اور دفاتر کہاں ہیں؟ فوج و پولیس کے سربراہ کون ہیں؟اور جب حکومت پاکستان کی پولیس اشتیاق صاحب کو گرفتار کرکے لے گئ اور جیل میں ڈال دیا تھا تع اشتیاق صاحب کی فوج اور پولیس والے کہاں تھے؟ اگر رجسٹرڈ فرقہ پرستوں کی فوج اور پولیس کے محکمے نہیں اور یقینا نہیں تو جواب دیں کہ ان کا امیر اپنا یہ فرض کیوں ادا نہیں کرتا؟
اونچی قبریں اور امیر کا فرض
۴: مسعود صاحب نے "امیر کے فرائض" بیان کرتے ہوئے لکھا:
"امیر کو چاہیے کہ مورتوں کو توڑنے اونچی قبروں کو زمین کے برابر کرنے کا انتظام کرے۔" (منہاج ص ۶۷۷)
یہ "انتظام" کیسے ہو گا، اس کا طریقہ کیا ہے؟ مسعود صاحب نے حاشیے کے ذریعے سے اس حکم کی دلیل میں جو حدیث نقل کی اس سے واضح ہو جاتا ہے۔ملاحظہ کیجئے لکھا ہے:
"عن ابی الھیاج الاسدی عن علی قال ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ ﷺ لا تدع تمثالا ال طمستہ ولا قبرا مشرفا الا سویتہ(صحیح مسلم)"(منہاج ص ۶۷۷)
(ترجمہ) ابو الھیاج الاسدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایاؒ: کیا میں تجھے اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کام کے لئے رسول اللہﷺ نے مجھے بھیجا (جاؤ) تم کسی بت کو توڑے بغیر اور کسی اونچی قبر کو برابر کیےبغیر نہ چھوڑنا۔"
ملک بھر کے قبرستانوں کی طرح شہر کراچی میں بھی اونچی قبروں کی بھرمار ہے۔کتنے ہی شاپنگ سینٹر ہیں جن میں مورتیوں اور پتلیوں کا طومار ہے۔رجسٹرڈ فرقے کے امام جو امیر ہونے اور خلیفہ جیسے حقوق حاصل ہونے کے مدعی "امیر کل عالم" کہلاتے ہیں۔ مگر مجبور اتنے ہیں کہ اپنے شہر کی قبروں کو زمین کے برابر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے،آخر کیوں وہ دیگر فرائض کی طرح اپنا یہ فریضہ بھی ادا نہیں کررہے؟
سرکاری عہدے اور امیر
۵: اسی ضمن میں مسعود صاحب نے لکھا:"امیر کو چاہئے کہ اس شخص کو سرکاری عہدہ نہ دے جو اس کا طلب گار ہو۔(منہاج ص ۶۷۷،۶۷۸)
"سرکاری عہدہ" کیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے پہلے "سرکار" کا مطلب دیکھئے ،علمی لغت میں لکھا ہے:"سرکار ،حکومت،سلطنت ،گورنمنٹ (۲) دربار شاہی (۳) سردار،حاکم..."
(علمی لغت ص ۹۰۶)
"سرکاری عہدہ" کا مطلب ہو گا حکومتی اور گورنمنٹ کے عہدے، جب حکومت ہی نہیں تو حکومتی عیدے کیا ہوں گے،اور کیا کسی کو دیں گے۔تنظیمی اور پارٹی عہدوں کو "حکومتی عہدے" سمجھنا دل کے بہلاوے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا....بہرحال مسعود صاحب کی اس تحریر سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ "امیر" کسے کہتے ہیں۔
حدودو تعزیرات
۶: " امیر کے فرائض" بیان کرتے ہوئے مسعود صاحب نے لکھا:
"حدود اللہ کے علاوہ کسی جرم میں دس کوڑے سے زیادہ نہ مارے۔"
(منہاج ص ۶۷۶)
بات واضح ہے کہ "حدود و تعزیرات " کا نفاد بھی امیر کی ذمہ داری ہے،اور اس میں قصاص دیت ،چوری،زنا وغیرہ کی سزائیں بھی شامل ہیں۔البتہ جس جرم کی سزا دین میں مقرر نہیں اس میں دس سے زیادہ کوڑے نہ مارے اور ایسی سزا کو تعزیر کہتے ہیں۔یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ رجسٹرڈ فرقے کے "امیر کل عالم" حدودوقصاص اور دیت کے احکام بھی نافذ نہیں کرتے۔
جزیہ
۷: مسعود صاحب نے لکھا:
"اگر کفار اسلام قبول کرنے سے انکار کریں تو ان سے جزیہ لیا جائے۔"(منہاج ص ۶۷۹)
دیگر تمام کاغذی جماعتوں کے کاغذی امراء کی طرح رجسٹرڈ فرقہ پرستوں کے امیر کے بھی بس میں نہیں ہے کہ وہ یہ کام کر سکیں،اگرچہ "امیر کل عالم" ہونے کا زعم ہو۔
قیمتیں مقرر کرنا
۸: مسعود صاحب نے "امیر کے فرائض" بیان کرتے ہوئے لکھا:
"رعایا کو کسی خاص نرخ پر بیچنے پر مجبور نہ کرے"(منہاج ص ۶۷۶)
"امیر" ایسا تب کرسکتا ہے جب اس کے پاس طاقت و قوت ہو اور تب ہی اسے اس کام سے روکا جا سکتا ہے،لیکن جب وہ خود ہی مجبور و محکوم ہو تو کسی کو کیا مجبور کر سکتا ہے؟!
خلاف شرع کام اور امیر
۹: "امیر کے فرائض" میں مسعود صاحب نے لکھا:
"امیر کو چاہیے کہ رعایا کے دینی و دنیوی امور کی نگرانی کرے،رعایا کو خلاف شرع کام کرنے سے باز رکھے۔(منہاج ص ۶۷۶)
کون نہیں جانتا کہ معاشرے میں خلاف شرع کاموں کی کثرت ہے، مسعود صاحب کے بیان کے مطابق ان تمام کاموں سے روکنا، باز رکھنا "امیر" کا فرض ہے۔ لیکن ان کا امیر اس سلسلے میں کچھ کرنے سے قاصر ہے۔
شراب خوروں سے جنگ
۱۰: مسعود صاحب نے "امیر کے فرائض" بیان کرتے ہوئے لکھا:
"امیر کو چاہئے کہ رعایا میں سے جو لوگ..... شراب پینا نہ چھوڑیں ان سے جھنگ کرے۔"
اس کی دلیل میں مسعود صاحب نے سنن ابی داود کی حدیث (۳۶۸۳) نقل کی جس میں گندم کی شراب کے متعلق دیلم الحمیری رضی اللہ عنہ نے کہا:
"النَّاسَ غَيْرُ تَارِكِيهِ، قَالَ: «فَإِنْ لَمْ يَتْرُكُوهُ فَقَاتِلُوهُمْ»لوگ اسے نہیں چھوٹیں گے تو نبی ﷺ نے فرمایا: اگر وہ اسے نہ چھوڑیں تو ان سے قتال (جنگ) کریں۔
مسعود صاحب نے لکھا: "سندہ صحیح"
سوال پھر وہی اٹھتا ہے کہ ہمارے ملک میں ہر جگہ شراب کے اڈے ہیں،شراب عام بکتی ہے ،شراب پینے والوں کی بھی کثرت ہے۔مسعود صاحب نے خود کو "امیر کل عالم" سمجھتے ہوئے بھی شرابیوں سے جنگ نہیں کی نہ اشتیاق صاحب ہی کر رہے ہیں۔ تو یہ امیر کیسے ہوئے؟
قارئین کرام ! امیر کے فرائض و ذمہ داریوں سے متعلق یہ دس شرعی احکامات خود رجسٹرڈ فرقہ کے بانی مسعود صاحب کے قلم سے آپ کے سامنے ہیں، ان میں سے ایک آدھ استدلال پر مسعود صاحب سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے لیکن "امیر کے فرائض" پر مبنی ان احکامات کا غالب حصہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں۔ ان فرائض سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے "امیر" حاکم وقت کو کہتے ہیں، جس کے پاس امارت و حکومت ہو،قوت و غلبہ اور اقتدار ہو۔ جس کے ذریعے سے وہ اپنی تمام ذمہ داریاں اور فرائض بحسن و خوبی انجام دے سکے۔ جو ان فرائض کو ادا کرنے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو محکوم، مغلوب اور مجبور ہو وہ امیر نہیں ہو سکتا۔