السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ جناب ابن داود صاحب وسب اھل ذوق واھل علم حضرات وخواتین اسلام تعصب سے ھٹ کر میرے بات پر غور فرماے پہلی آپ ذھن سے زبیر علی زی صاحب یا کسی بھی مسلک کی تابعداری سے چند منٹ کیلیے ذھن کو خالی کریں پھر میرے استفسار پر غور فرماے اگر میں غلطی پر ھوں توپلیز میرا اصلاح کریں۔
مفتی صاحب! ہم اہل الحدیث ہیں،اور ہمارا ذہن خالی نہیں قرآن و حدیث کی اتباع ہمیشہ اس میں رہتی ہے!!
١ ) ان راویات سے معلوم ہوا کہ شدید ضرورت اور شرعی عذر کی بنا پر حضر میں بھی کبھی کبھار جمع بین الصلاتین جائز ہے (٢) (زع) یعنی نا گزیر قسم کے حالات (شرعی عذر) میں حالت اقامت میں بھی دو نمازیں جمع کر کے پڑھی جا سکتی ہیں۔١١١١١١١ یہ دونوں عبارات نماز نبوی کی ھے آپ خود سوچیں اور فیصلہ کریں کہ کیا حدیث میں عذر کا لفظ ھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟کیاحدیث میں شدید ضرورت کا لفط ھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟کیاحدیث میں ناگزیر حالات کا ذکرھے؟؟؟؟؟؟؟؟ تویہ تاویل نھی تو اور کیا؟؟؟؟؟؟؟؟ تحریف نھی تو اور کیاھے؟؟؟؟؟؟؟؟تاویلون کا طوفان نھی تو اور کیاھے؟؟؟؟؟؟؟؟ پھر کھتاھے ضرورت بھی شدید ھو استغفراللہ پیغمبر اآسانی کیلیے حکم دے رھاھے اور شیخ زبیر صاحب ان کو مشکل بنارھاھے
میرے بھائی! آپ کو غالبا سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے، یا یہ عبارت بعض لوگوں کے لئے مبہم ہے!
ایک وہ عذر ہیں جن کا ذکرقرآن و حدیث میں موجود ہے،جیسے بارش، جن کی بنیاد پر جمع بین الصلاتین ثابت ہے۔
حدیث میں ان عذر کے نہ ہونے کا ذکر ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی سستی و آرام کے لئے بھی جمع بین الصلاتین کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ کوئی ایسا معقول عذر ہو یا ضرورت ہو جن کا ذکر جمع بین الصلاتین کے حوالے سے حدیث میں بیان نہ کیا گیا ہو ۔
یعنی اس عبارت میں جو شرعی عذر کہا گیا ہے یہ وہ شرعی عذر نہیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے، بلکہ وہ عذر ہیں جو معقول عذر ہیں ، جس سے نماز وقت پر ادا کرنے کے حکم سےمستثنی قرار پائے!!
ان شاءاللہ ! اب آپ کو یہ عذر کا معاملہ سمجھ آگیا ہوگا!!!
پھر صحیح نماز نبوی والے نے اوپر والی کتاب پر رد کیاھے ملاحظہ فرماے ان کی عبارت!!!!!!!!!!!!!!!!!!!بعض علماء حضر میں بغیر عذر کے دو نمازیں جمع کرنے کو کبیرہ گناہ شمار کرتے ہیں، ایسی کوئی بات نہیں، رسول اللہ ﷺ سے حضر میں بغیر عذر کے دو نمازیں جمع کرنا ثابت ہے۔
یہاں بھی آپ کو سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ یہاں عذر سے مراد وہ عذر ہیں جن کا ذکر احادیث میں موجود ہیں! اور جن کا یہ خیال ہے کہ ان مذکورہ عذر کے بغیر دو نمازیں جمع کرنا گناہ کبیرہ ہے وہ واقعی غلط ہے!!
"سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں بغیر خوف اور بغیر سفر کے ظہر و عصر کو اکھٹا کر کے پڑھا۔" ابو زبیر کہتے ہیں کہ میں نے سعید سے پوچھا کہ آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے جواب دیا کہ یہی سوال میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کیا تھا تو انھوں نے فرمایا: آپ ﷺ چاہتے تھے کہ میری امت میں سے کوئی شخص مشکل میں نہ پڑے۔" [ مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب الجمع بین الصلاتين فی الحضر 50/705 ]!!!!!١١١!!!!!!!! کیا یہ اوپر والی کتاب کی قول کا تردید نھی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اچھا جی غور کریں حدیث میں صاف الفاظ ھے کہ نا بارش تھی نا خوف یعنی کوی عذر نھی تھا بلکہ تاکہ امت پر آسانی ھو
اب فیصلہ ناظرین وقاریین ناظرات وقاریات کریں
مفتی عبداللہ بھائی!ناظرین اور قارئین تو ان شاء اللہ غور فکر کریں گے!! آپ بھی ذرا قرآن و حدیث احکام کے استنباط کو سمجھنے کی کوشش کریں!
جزاک اللہ!
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔