• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قرآن … روایات کے آئینے میں

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبعہ اَحرف بمعنی سات لغت یا سات محاورے
اس ضمن میں مندرجہ ذیل امور قابل ملاحظہ ہیں:
(١) سبعۃ أحرف کی تعبیر میں علماء نے اختلاف کیاہے۔سب سے راجح قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ مختلف لغات ہیں جو عرب قبائل میں رائج تھیں۔ قرآن بنیادی طور پر قریش کی زبان اور محاورہ کے مطابق نازل ہوا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قول سے واضح ہوتا ہے تاہم تنزیل قرآن کے دوران رسو ل اللہﷺکی استدعا پرنزول قرآن میں دوسرے قبائل کے لغت بھی شامل کیے تھے۔محاورہ قریش کے بعد دوسرا نمبر بنو سعد کاہے۔ آپ کی اسی قبیلہ میں بچپن میں تربیت ہوئی تھی۔ پھر اس میں کنانہ ، ہذیل ، ثقیف، خزاعہ، اور اسد کے لغت شامل ہوئے ہیں۔ (تبیان:۶۴)
(٢) بعض علماء سبعۃ کے عدد سے محض سات نہیں بلکہ کثرت کا عدد مراد لیتے ہیں۔ اور مندرجہ بالا قبائل میں قیس، ضبہ، اورتیم الرباب کو بھی شامل کرتے ہیں۔ (حوالہ ایضا)
اور معنی کے لحاظ سے بھی سبعہ کا لفظ صرف سات سے ہی مختص نہیں بلکہ اس کا اطلاق محض محاورتاً ہوا ہے۔ یعنی یہ لفظ محض ایک سے زیادہ لغتوں کے لیے آیا ہے۔ خواہ وہ دو ہی کیوں نہ ہوں چنانچہ پورے قرآن میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جو سات مختلف لغتوں میں پڑھاگیا ہو۔ (ص۴۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) مختلف قراء ات کی اجازت کے دو فائد ے تھے:
(١) مختلف قبائل کے لیے قرآن پڑھنے میں آسانی
(٢) مختلف قبائل کے لیے قرآنی الفاظ کے ترجمہ وتفسیر کی عدم ضرورت
(٤) اَوامر ونواہی اور حلال وحرام میں اس اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے جہاں یہ سبعۃ أحرف والی روایت درج کی وہاں بخاری کی روایت سے درج ذیل زائد الفاظ کا اضافہ بھی کیا۔
زاد مسلم :قال ابن شہاب بلغنی أن تلک السبعۃ إنما ہی فی الأمر الذی یکون واحداً لایختلف فی حلال وحرام (ایضا:۳۵)
’’مسلم رحمہ اللہ نے یہ الفاظ زیادہ کیے ہیں کہ ابن شہاب زہری رحمہ اللہ نے کہا کہ سبعۃ أحرف کی اجازت صرف ایسے امر میں تھی کہ اس سے حلال وحرام میں اختلاف واقع نہ ہو۔‘‘
مزید وضاحت یہ ہے کہ اس اختلاف قراء ات میں حلال وحرام کے علاوہ اوامر ونواہی کے معاملہ میں بھی کوئی گنجائش نہیں ۔ (تبیان:ص۴۲)
اور اس اختلاف قراء ات کی تعریف مندرجہ ذیل الفاظ سے کی جاتی ہے:
’’فی حرف واحد کلمۃ واحد باختلاف الفاظ واتفاق المعانی‘‘ (ص۴۴)
یعنی کسی حرف میں یاکلمہ میں اختلاف کی صرف اس حد تک گنجائش کہ اس سے معانی میں چنداں فرق نہ پڑے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) اختلاف الفاظ کی مند رجہ ذیل دو صورتیں تھیں:
(١) تلفظ کا اختلاف۔ جیسے قبیلہ قیس کے لوگ مؤنث کے کاف کوش سے ادا کرتے تھے۔ اسے (کشکشہ کہتے تھے) مثلاً وہ لوگ قد جعل ربک تحتک ثریا کو قد جعل ربش تحتش سریا پڑھتے تھے۔
(٢) قبیلہ تمیم کے لوگ إن کو عن پڑھتے تھے ( اسے عنعنہ کہتے تھے) وہ لوگ عسی اﷲ أن یأتی بالفتح وعسی اﷲ عن یأتی بالفتح پڑھتے تھے۔
(٣) بعض قبائل س کی بجائے ت پڑھتے تھے یعنی الناس کو النات کہتے تھے اسی طرح صراط کو سراط اور طلح کو طلع بھی پڑھا جاتا تھا۔ (ایضا: ۵۰)
ب مرادفات کا استعمال: یعنی ایسے الفاظ جو کسی خاص معنی کیلے مختلف قبائل میں مختلف تھے۔ جیسے اقبل ہلم اور تعال۔ عجل اور اسرع ،انظر ،اخر، اور امہل سبعہ احرف کی رعائت کے لحاظ سے قرآن کی تلاوت میں ایسے مترادفات کے استعمال کی ان قبائل کو حسب ضرورت اجازت تھی۔ ( ایضا:۴۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حرف واحد
ہم بخاری کی روایت کے حوالہ سے بتلا چکے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ والے جمع کردہ مصحف کوسامنے رکھ کر قرآن کی سورتوں کے لحاظ سے از سرنو ترتیب دی۔ اور قرآن کو صرف قریش کے لغت پر لکھوایا۔ پھر مختلف دیار وامصار میں اس کی مختلف نقول بھجوائیں ۔ اور ساتھ ہی یہ حکم نامہ جاری کیا کہ پہلے مصاحف (جو سبعۃ احرف کے آئینہ دار تھے) کو جلا دیا اورتلف کر دیا جائے۔ اس طرح آپ نے امت کو ایک عظیم فتنہ سے بچالیا۔ یہ کام آپ نے صحابہ کے اجماع سے کیا۔ اور آپ کے اس کارنامہ کوتمام امت نے سراہا۔
اس مقام پر صاحب تبیان چند بنیادی سوال اٹھاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ
’’آخر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس وہ کو نسا اختیار تھا۔ جس کی بنا پر انہوں نے باقی چھ محاوروں جو کہ ساتویں اور باقی رہنے والے کی طرح منزل من اللہ ہی تھے ، کو موقوف یا ختم کر دیا؟ اور اس سے معاملہ میں امت آپ سے متفق کیسے ہو گئی ؟ کیا اسی کا نام حفاظت وحی الہی ہے جس کے لیے یہ امت مامور تھی؟ نیز یہ کہ باقی چھ محاورہ سے منسوخ ہوگئے یا اٹھا لیے گئے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پھر اس کاجواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لغت قریش کے علاوہ باقی چھ حروف محض اجازت ورخصت تھی۔ ان ساتوں قر اء ات میں کسی ایک کوپسند کر لینا امت کے لئے ایک اختیاری امر تھا۔ اور اس خاص قراء ات کو اختیار کر لینے سے باقی کا ضیاع یا ابطال یا تغلیط قطعاً لازم نہیں آتی۔ اس کی مثال یہ دیتے ہیں کہ قسم کا کفارہ غلام آزاد کرنا بھی ہے ، دس مسکینوں کوکھانا کھلانا بھی انہیں پوشاک مہیاکرنا بھی اور تین روزے رکھنا بھی ہے (اب اگر کوئی شخص ان سب میں سے کوئی ایک کفارہ ادا کر دیتا ہے تو اللہ کے حکم کی تعمیل بھی ہو گئی اوردوسرے متبادل اختیاری احکام میں سے کسی کی بھی تغلیط ، ابطال یا ضیاع بھی نہیں ہوا۔ لہٰذا اگر امت نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اپنے لیے ایک حر ف (لغت قریش جو اس کی زیادہ مستحق تھی) کو پسند کر کے اسے اختیار کر لیا تو اس سے دوسرے حروف کا ضیاع یا ابطال یا تغلیط قطعاً لازم نہیں آتا۔
رہا یہ سوال کہ آیا باقی چھ حروف جو چھوڑ دئیے گئے وہ اٹھا لیے گئے یامنسوخ ہوگئے ہیں ؟ تو اس کاجواب یہ ہے کہ وہ حروف نہ اٹھا ئے گئے ہیں نہ منسوخ ہوئے ہیں اب بھی اگر کوئی قاری ان حروف میں سے کسی حرف پر پڑھنا چاہے تو اس پر کوئی پابندی نہیں۔٭ (ص۴۶) تاہم مناسب یہی ہے کہ مسلمان اسی قراء ات کا تتبع کریں جو مصاحف عثمانی میں متفق علیہ طور پر پائی جاتی ہے۔ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں۔
’’فلا قراء ۃ الیوم للمسلمین الا بالحرف الواحد الذی اختارہ لہم امامہم الشفیق الناصح دون ما عداہ من الاحرف الستۃ الباقیۃ‘‘ (ص۴۶)
’’آج مسلمانوں کے لئے یہ مناسب نہیں کہ اس حرف واحد کے سوا جسے ان کے مشفق اور ہمدرد امام نے ان کے لیے پسند کیا۔ باقی چھ حروف میں کسی کے مطابق قرآن پڑھیں۔‘‘
ابن عبد البررحمہ اللہ کہتے ہیں کہ باقی چھ قر اء توں کو نماز کے علاوہ تو پڑھا جا سکتاہے، لیکن نماز میں پڑھنا درست نہیں۔(ص۴۰)اور امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں جو شخص نماز میں قرآن مصحف عثمان کے مطابق نہیں پڑھتا اس کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔ (ص۴۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) موجودہ قراء ات مختلفہ
آج کل جومختلف قاریوں میں اختلاف پایا جاتا ہے تواس کا اصل ماخذ صرف وہ حرف واحد ہے۔ جو دور عثمانی میں اختیار کیاگیا تھا۔اور ان میں موجودہ قراء توں کے اختلاف کاتعلق محض تلفظ یا حروف کی ادائیگی سے ہے۔ جیسے مد، لین، تخفیف، تسہیل، اظہار، ادغام، امالہ وغیرہ ، ایسے اختلافات کے متعلق امت کافیصلہ یہ ہے کہ اس کی بنا پر کسی دوسرے سے جھگڑا نہیں کیا جا سکتا۔ (ص۴۷)
یہ قراء اتیں بنیادی طور پر سات ہیں جو سبع قراء سے منسوب ہیں۔ یہ قراء حرمین ، عراق ، اور شام سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے نام یہ ہیں۔ نافع، عبد اللہ بن کثیر، ابوعمرو بن العلاء البصری، عبد اللہ بن عامر، عاصم،حمزہ، کسائی رحمہم اللہ ان تمام قاریوں میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی قراء ت بہت سے صحابہ اور تابعین سے سیکھی ۔ پھر جن حضرات نے ان سے روایت کی ان کی تفصیل یہ ہے۔
(١) نافع بن عبد الرحمان المدنی رحمہ اللہ ان کے مشہور راوی بلا واسطہ (۱) قالون( عیسی بن منار اور(۲)ورش(عثمان بن سعید المصری)رحمہم اللہ ہیں۔
(٢) عبد اللہ بن کثیر المکی رحمہ اللہ ان کے راوی بوسائط(۱) بزی، ( احمد بن محمد المکی) اور (۲)قنبل ( محمد بن عبد الرحمن المخزومی المکی)رحمہم اللہ ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) ابوعمرو العلاء البصری المازنی رحمہ اللہ ان کے راوی جو یحییٰ بن مبارک الیزیدی رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں دو ہیں: (۱)الدوری ( ابوعمرو حفص بن عمر اور(۲) السوسی (ابو شعیب صالح بن زیاد)رحمہم اللہ
(٤) عبد اللہ بن عامر الیحصبی رحمہ اللہ یمنی ثم الدمشقی ان سے بوسائط دو راوی ہیں۔ (۱) ہشام بن عمار(۲) ابن ذکوان ( عبد اللہ بن احمد بن بشیر بن ذکوان)رحمہم اللہ
(٥)عاصم بن النجود الکوفی رحمہ اللہ ان سے بلا واسطہ دو راوی ہیں: (۱) حفص بن سلیمان الاسدی الکوفی (۲) ابوبکر شعبہ بن عیاش الکوفی رحمہم اللہ۔
(٦) حمزہ بن حبیب الزیات الکوفی رحمہ اللہ ان سے سلیم کے واسطہ سے دو راوی ہیں: (۱)خلف بن ہشام البزار (۲) خلاد بن خالد الکوفی رحمہم اللہ
(٧) علی بن حمزہ الکوفی رحمہ اللہ المعروف الکسائی ان سے بغیر واسطہ دو راوی ہیں: (۱) ابو الحارث اللیث بن خالد (۲) ابو عمرو حفص بن عمر الدوری رحمہم اللہ ۔ (تبیان:۸۱،۸۳)
ہمارے ہاں روایت حفص رائج ہے، جو پانچویں قاری سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ سبعہ احرف کی ایک ضمنی بحث تھی جو خاصی طویل ہوگئی ۔ اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے اور طلوع اسلام کے دوسرے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) مصحف عمر رضی اللہ عنہ تین مقامات پر۔
(٢) حضرت علی رضی اللہ عنہ میں ایک مقام پر۔
(٣) ابی بن کعب رضی اللہ عنہ میں چار مقامات پر۔
(٤) عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ میں۱۳۸ مقامات پر۔
(٥) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ میں ۱۶ مقامات پر۔
(٦) عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ میں ۶ مقامات پر۔
(٧) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مصحف میں ۲ مقام پر اختلاف پایا گیا ہے۔
اب دیکھیے یہ ’الامام ‘ کے مکمل اور تیار ہوجانے کا ہی ثمرہ تھا۔ کہ اس سے دوسرے مصاحف کا تقابل کر کے ان اغلاط کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اگر یہ الامام ہی تیار نہ ہوتا تو کسی بھی مصحف کی اغلاط پرکھنے کا کوئی معیار تھا؟پھر ان مصحح حضرات نے جو جو اغلاط دیکھیں نہایت دیانتداری سے وہ اختلاف بیان کر دیا۔ اب وہ حضرات تو ان اختلافات سے مراد سہو ونسیان کی وجہ سے سرزد ہونے والی غلطیاں لیتے تھے او رہمارے یہ کرم فرما اس اختلاف کے لفظ سے انتشار مراد لے کر مسلمانوں کو احادیث سے برگشتہ کرنے کے لئے در پے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف امام کی اغلاط
ہر چند کہ بارہ رکنی کمیٹی نے انتہائی احتیاط سے کام لیا ۔ تاہم اس میں تین یا چار اغلاط پھر بھی رہ گئیں۔ اب غور فرمائیے کہ قرآن کی ۶۶۶،۶ آیات ہیں اور ۸۶۴۳۰ الفاظ ہیں۔ان میں تین یا چار اغلاط کے باقی رہ جانے کو بشریت کے تقاضوں پر ہی محمول کیا جا سکتاہے۔ ’الامام‘ سے نقول بھی تیار ہو گئیں۔ پھر جب ’الامام‘ کی خود دوبارہ سہ بارہ چیکنگ کی گئی تو اس میں سے تین چار اغلاط نکل آئیں۔جوقریش کے لہجہ سے متعلق تھیں مگر ان سے معانی میں چنداں فرق نہیں پڑتاتھا۔چنانچہ عروۃ بن زبیررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے قرآن کی غلطیوں کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ (١) إن ہذان لساحران (٢) والمقیمین الصلوٰۃ والموتون الزکوٰۃ (٣) والذین ہادوا والصائبون کے متعلق کیا فرماتی ہیں؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’بھتیجے یہ کاتبوں کا کام ہے انہوں نے لکھنے میں غلطی کر ڈالی۔‘‘
ان اغلاط کی توجیہ میں ایک روایت بھی کتاب المصاحف میں آتی ہے جس کو مقام حدیث میں بھی ص۲۹۰ پر درج کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ
’’جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس مصحف لایا گیا تو اس میں انہیں کچھ غلطیاں نظر آئیں ۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر لکھانے والا بنوہذیل کا اور لکھنے والا بنو ثقیف کا کوئی آدمی ہوتا تو اس میں یہ غلطیاں نہ پائی جاتیں۔‘‘
 
Top