• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمہوریت ایک دینِ جدید

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ایسا نہ ہو کہ الطاف حسین آپ کو لندن میں اپنا مشیر خاص بنالیں۔ابتسامہ
جو انسان شیعہ سنی بھائی بھائی کا نعرہ لگائے۔۔۔
میں کہتا ہوں کے اللہ کی اس کے رسولﷺ اور فرشتوں کی لعنت کا مستحق ہے وہ۔۔۔
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
محترم بھائ! یہ الا ماشاء اللہ کو ووٹ دیا جا سکتا ہے یا نہیں؟؟
یقیننا آپ کی طرح بہت سے بھائ میری بات سے اختلاف رکھتے ہوں گے۔ لیکن یہ رائے میری ذاتی نہیں وہ علمائے کرام جو برملا جمہوریت کو کفر کہتے تھے جن میں محترم شیخ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ، شیخ بشیر احمد حسیم رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے تھے کہ بڑے شیطان سے بچنے اور اسکے فسق و فجور کو روکنے کے لیے اس کے مد مقابل کو ووٹ دیا جاسکتا ہے۔ ہمارا مقصد یہاں انکی تقلید نہیں لیکن ضمنا عرض کیا ہے۔
رہی بات نظام خلافت کی تو بحیثیت پاکستانی کیا آپ نے نظام خلافت کو نافظ کرنے کے لیے کوئ عملی قدم اٹھایا؟ کیا آپ کے پاس اس ملک میں نظام خلافت نافظ کرنے کے لیے کوئ ایجنڈا ہے؟ اگر ہے تو بتائے، نکلیے میں انشاء اللہ آپکے قدم کے ساتھ قدم ملاؤں گا۔
لو جی اب آپ کے لیے کام اور آسان ہو گیا
Jang Multimedia
اب آپ خالی خانہ پر مہر لگا کر اپنے احتجاج کو نمایاں کر سکتے ہیں۔
برائی چھوٹی ہو یا بڑی جس کو بھی اپنایا جائے گا اس کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
الا ماشاءاللہ کو بھی ووٹ نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ہم اس نظام کے دشمن ہیں لوگوں کے دشمن نہیں ہیں، یہ ایسا گندہ اور پلید نظام ہے کہ اگر اس نظام میں کوئی متقی اور پرہیزگار بھی شامل ہوگا تو وہ اچھائی لانے کی بجائے خود برائی میں پڑ جائے گا اس کی زندہ مثالیں موجود ہیں، جماعت اسلامی ان میں سے ایک ہے مودودی صاحب کی تحریریں اُٹھا کر دیکھ لیں انہوں نے اس نظام کو کفریہ نظام کہا گندہ اور غلیظ نظام کہا مگر جب خود اس میں شامل ہوئے تو یہی کفریہ نظام اسلامی بنا لیا گیا چاہیے تو یہ تھا کہ اس کفریہ نظام کو بدلتے مگر خود بدل گے نظام وہی رہا ، بہت سے جماعتی بھوئیوں سے اس کا جواب مانگا ہے مگر تسلی والا جواب کسی نے بھی نہیں دیا ہے کہ اتنی بڑی تبدیلی کیسے ہوئی؟؟؟ موت کی سزاء ختم کروانے میں شاید اسی تبدیلی نظریہ کا کرشمہ ہے؟؟؟ خیر یہ میرا اندازہ ہے اصل حقائق اللہ ہی جانتا ہے اب مجھے کوئی بتائے کہ ان مصلحت پسندوں نے ایک طاغوتی نظام کو اپنا کر کونسے دین کی خدمت کی ہے؟؟؟ ٦٥ سال میں اگر کوئی اسلام کی خدمت نہیں کرسکے تو لعنت ہے ایسی مصلحت پر جو دنیا میں آسائشیں تو دے مگر آخرت تباہ کردے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بادشاہ بنایا جا رہا تھا اور اس کے صلے میں کہا گیا کہ اسلام کی دعوت دینا چھوڑ دو، اللہ کی لاکھوں کروڑوں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر کہ آپ نے انکار کیا اور بادشاہت ٹھکرا دی، مگر آج کا آپ کا ہی امتی دعوت و تبلیغ کا میدان چھوڑ کر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارک کو چھوڑ کر مصلحتوں میں پڑ کر کفار کے نظاموں کو اپنا رہا ہے اور باطل تاویلات کا سہارا لے کر خود کو اس باطل نظام کے اپنانے پر مطمئن کر رہا ہے، اور کہتا بھی ہے تو کیا خوب کہ جب ہم اکثریت حاصل کر لیں گے تو اسلامی قوانین پاس کروا کر اس ملک کو اسلام کا قلعہ بنا دیں گے، ارے کیا ان لوگوں کی عقلیں ضائع کردی گئیں ہیں؟؟؟ یا ان کی عقلیں دعوت و جہاد کا مشکل سفر دیکھ کر کام کرنا چھوڑ گئیں ہیں؟؟؟ اگر کسی ملک کا صدر وزیر اعظم بن کر ہی اسلام نافذ کیا جاسکتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہت کیوں ٹھکرا دی؟؟؟
اس سنت سے یہی درس ملتا ہے کہ وقت کے طاغوتی نظام میں شرکت نہیں کرنی بلکہ دعوت و تبلیغ سے ان کو اسلام میں لانا ہے جب ان کے دل اسلام قبول کرلیں گے تو اسلام کے نظام کا رستہ کوئی نہیں روک سکے گا ان شاءاللہ
پیارے بھائی جس خبر کا لنک آپ نے دیا تھا اب خبر ملی ہے کہ خالی خانے والا حکم واپس لے لیا گیا ہے، اگر یہ حکم واپس نہ بھی لیا جاتا تو بھی میں اس باطل نظام میں شرکت نہ کرتا کیونکہ یہ بھی ایک جال بنا گیا تھا اسلام پسندوں کو اس نظام میں شرکت کروانے کے لیئے سبھی نہ سہی کچھ نہ کچھ مزید اس ووٹ والے معاملے میں پڑ جاتے الحمدللہ کہ یہ شق انہوں نے ختم کردی ہے۔
رہی بات نظام خلافت کی تو بحیثیت پاکستانی کیا آپ نے نظام خلافت کو نافظ کرنے کے لیے کوئ عملی قدم اٹھایا؟ کیا آپ کے پاس اس ملک میں نظام خلافت نافظ کرنے کے لیے کوئ ایجنڈا ہے؟ اگر ہے تو بتائے، نکلیے میں ان شاء اللہ آپکے قدم کے ساتھ قدم ملاؤں گا۔
بھائی جان بحیثیت مسلم میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیئے کام کرتا ہوں الحمدللہ، آپ بھائیوں کے ساتھ بات چیت بھی خلافت کے قیام کے لیئے ہے اس وقت خلافت کے نظام کی آگاہی دی جارہی ہے لوگ اس نظام کو جانتے تک نہیں ہیں ٩٠ سال ہوگے ہیں خلافت کے نظام کو ختم ہوئے پہلی جنگ عظیم خلافت عثمانیہ کے خلاف لڑی گئی تھی اس کا آپ کو بھی علم ہوگا تو آج حالت یہ ہو گئی ہے کہ ہم لوگوں کو جو درس انگریز دے کر گیا تھا ہم ابھی تک اسی پر ہی کاربند ہیں مثلا کہ
حجام کو انگریز نے خلیفہ کا لقب دیا تھا، کنجر میراثیوں کو قریشی کا لقب دیا گیا تھا وہ آج بھی دیا جاتا ہے
خلیفہ مسلمانوں کا سربراہ ہوتا ہے اور کس کے ساتھ اس نام کو جوڑا گیا؟؟ کیا یہ اتفاقی ہوا؟؟؟ نہیں بلکہ یہ ایک سازش سے ہوا۔
قریش ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کا نام ہے اور خلیفہ بھی قریش سے ہوتا ہے اب اس سید قوم کو میراثٰوں کے ساتھ نسبت دینے والا کون تھا؟؟؟ کیا یہ اتفاقی ہوا؟؟؟ نہیں بہت بڑی سازش اس کے پیچھے ہے، آج پاکستان میں حالت یہ ہے کہ جو قریشی ہیں وہ اپنے آپ کو قریشی نہیں کہلواتے وجہ یہی ہے خیر یہ دوسرا ٹاپک تھا اس پر بھی کبھی تفصیل سے لکھونگا ان شاءاللہ
یعنی ہم لوگوں کو خلافت اور خلیفہ کے ناموں سے ہی دور نہیں کیا گیا بلکہ اصٌ حقیقت بھی ہم سے چھپائی گئی ہے
دس بجے لائٹ چلی جائے گی اس لیے باقی بعد میں ان شاءاللہ
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
ابھی ١٢ بجے لائٹ آئی ہے تو باقی کا جواب حاضر خدمت ہے

رہی بات نظام خلافت کی تو بحیثیت پاکستانی کیا آپ نے نظام خلافت کو نافظ کرنے کے لیے کوئ عملی قدم اٹھایا؟ کیا آپ کے پاس اس ملک میں نظام خلافت نافظ کرنے کے لیے کوئ ایجنڈا ہے؟ اگر ہے تو بتائے، نکلیے میں ان شاء اللہ آپکے قدم کے ساتھ قدم ملاؤں گا۔
پیارے بھائی یہ فریضہ صرف میرا نہیں ہے بلکہ ہم سب کا ہے کہ ہم اللہ کے دیے نظام کو نافذ کرنے کی فکر اور کوشش کریں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ جتنا زیادہ حق اس کام کا اہل علم پر تھا اتنا ہی اس اہم کام سے صرفِ نظر کیا گیا ہے اگر اہل علم لوگ ہی اس نظام کو قائم کرنے کی بجائے کفار کے نظام کو اپنانے کی تاویلیں مصلحتیں تلاش کرنے لگیں تو بتائیں یہ اہم کام کون کرئے گا؟؟؟
اگر کوئی اللہ کا بندہ نظام خلافت کے قیام کی جدوجہد کرتا ہے تو پھر بہت سے کہنے والے انہی اہل علم لوگوں کی ہی باتوں کو پیش کرنے لگتے ہیں کہ جی دیکھیں فلاں علامہ صاحب اور فلاں مفتی صاحب نے کافروں کے نظام کو مصلحتاً اپنانے کو جائز کہا ہے، اگر سبھی اہل علم طاغوتی نظاموں کو ٹھکراتے اور اسلامی نظام کے احیاء کی کوشش کرتے تو آج شاید صورتِ حال تبدیل ہوتی مگر مجھے افسوس ہوتا ہے تب جب ہم کمزوری اور مصلحتوں کا رونا روتے ہیں ہم کو یاد رکھنا چاہیے کہ کمزوری اور مغلوبیت میں نبی ﷺ کی سنت کیا ہے، حق پر قائم رہنا کسی بھی مصلحت کے تحت باطل نظام کو قبول نہ کرنا، کافروں کا ظلم و ستم سہہ جانا مگر کسی بھی طاغوتی عدالت میں مقدمہ داخل نہ کروانا، حق بات کو کہنے، پھیلانے میں کسی ظالم کا ظلم حاطر میں نہ لانا، نظام کافروں کا ہی رہے اور اس میں بادشاہت بھی ملے تو انکار کرنا، آج اسلام بھی مغلوب ہے وجہ یہ نہیں کہ مسلمان نہیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ اسلام کا نظام کہیں بھی قائم نہیں تو ایسی ہی حالت کے لیئے ہم کو مکی زندگی کے واقعات کو مدِنظر رکھ کر کام کرنا چاہیئے اس میں وقت جتنا چاہے لگے مگر حق یہی ہے کہ اسلام کا نظام صرف ایک ہے اور وہ ہے خلافت، جمہوریت کا نظام ایک فی صد بھی اسلامی نہیں ہے اس لیئے بھائیو کسی بھی مصلحت، ڈر، لالچ یا کمزوری کا بہانا نہ بنائیں استقامت دیکھائیں حق پر اور چھوڑ دیں کافروں کے نظام کو یقین جانیں جمہوریت سے کفر کو ہی فائدہ ہوگا کبھی اسلام یا مسلمان اس سے فائدہ حاصؒ نہیں کرسکیں گے۔
اور ہاں، محترم عاصم بھائ! کیا آپ مندرجہ ذیل باتوں کا ثبوت (لنک) فراہم کر سکتے ہیں؟ جو آپ نے اپنی پوسٹ میں لکھی ہیں۔
امریکہ نے یہ کھولی دہشت گردی کرتے ہوئے بیان دیا ہوا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی خلافت کے قیام کی کوشش کو طاقت کے ساتھ کچل دیا جائے گا۔
امریکہ کے صدر کا یہ بیان بھی یاد رکھیں کہ اس نے کہا ہوا ہے کہ ہم پوری دنیا میں نظامِ جمہوریت قائم کرکے رہیں گے
سعودیہ نے تو کچھ سال پہلے بلدیاتی انتخابات بھی کروا دیئے ہیں۔
پیارے بھائی میرے پاس ان کا کوئی بھی لنک نہیں ہے کیونکہ یہ خبریں میں نے اخبارات میں سے پڑھیں ہیں،
صدر بش کا یہ بیان کہ ہم خلافت کے قیام کی کوئی بھی کوشش کچل کر رکھ دیں گے آج سے تقریباً 9 سال پہلے کی ہے جب عراق کے ایک جہادی گروپ نے اعلان کیا تھا کہ ہم عراق میں خلافت قائم کریں گے۔
سعودیہ والی خبر کا آپ کسی ایسے بھائی سے پوچھ لیں جو سعودیہ میں قیام پزیر ہو۔
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
الا ماشاءاللہ کو بھی ووٹ نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ہم اس نظام کے دشمن ہیں لوگوں کے دشمن نہیں ہیں، یہ ایسا گندہ اور پلید نظام ہے کہ اگر اس نظام میں کوئی متقی اور پرہیزگار بھی شامل ہوگا تو وہ اچھائی لانے کی بجائے خود برائی میں پڑ جائے گا اس کی زندہ مثالیں موجود ہیں، جماعت اسلامی ان میں سے ایک ہے مودودی صاحب کی تحریریں اُٹھا کر دیکھ لیں انہوں نے اس نظام کو کفریہ نظام کہا گندہ اور غلیظ نظام کہا مگر جب خود اس میں شامل ہوئے تو یہی کفریہ نظام اسلامی بنا لیا گیا چاہیے تو یہ تھا کہ اس کفریہ نظام کو بدلتے مگر خود بدل گے نظام وہی رہا ، بہت سے جماعتی بھوئیوں سے اس کا جواب مانگا ہے مگر تسلی والا جواب کسی نے بھی نہیں دیا ہے کہ اتنی بڑی تبدیلی کیسے ہوئی؟؟؟ موت کی سزاء ختم کروانے میں شاید اسی تبدیلی نظریہ کا کرشمہ ہے؟؟؟ خیر یہ میرا اندازہ ہے اصل حقائق اللہ ہی جانتا ہے اب مجھے کوئی بتائے کہ ان مصلحت پسندوں نے ایک طاغوتی نظام کو اپنا کر کونسے دین کی خدمت کی ہے؟؟؟ ٦٥ سال میں اگر کوئی اسلام کی خدمت نہیں کرسکے تو لعنت ہے ایسی مصلحت پر جو دنیا میں آسائشیں تو دے مگر آخرت تباہ کردے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک کفریہ نظام میں کیوں عہدہ مانگا؟
قال اجعلني على خزائن الأرض إني حفيظ عليم ۔۔۔ سورة يوسف
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک کفریہ نظام میں کیوں عہدہ مانگا؟
قال اجعلني على خزائن الأرض إني حفيظ عليم ۔۔۔ سورة يوسف
بعون اللہ:
اہل علم میں سے ابو محمد عاصم المقدسی اس شبہے کے جواب میں لکھتے ہیں:
دین جمہوریت کے جواز میں پیش کے جانے والے چند شبہات کاردّ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ ٰایٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّااﷲُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ ٰامَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ، رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَ ہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ۔(آل عمران:۷-۸)
وہی ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری اس کی بعض آیات محکم ہیں جو اصل کتاب ہیں اور دیگر آیات متشابہ ہیں توجن لوگوں کے دلوں میں کجی ہو وہ اس کے مشابہات کی ٹوہ میں رہتے ہیں فتنے کھڑاکرنے اور اس کی حقیقت کو جاننے کی خاطر حالانکہ اس کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور راسخ فی العلم کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں سب ہمارے رب کی جانب سے ہے اور عقلمند ہی نصیحت لیتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہمارے دلوں کو ہمیں ہدایت دینے کے بعد ٹیڑھانہ کر اور اپنی جانب سے ہمیں رحمت دے یقینا توبہت دینے والا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں یہ بتایا کہ اس کے قانون کے متعلق دوطرح کے لوگ ہیں:
1 اہل علم ورسوخ : وہ سب پر ایمان وعمل رکھتے ہیں عام پر اس کے مخصص پر اس کے مقید اور مجمل پر اس کے مبیّن کے ساتھ اور جو انہیں مشکل لگے اسے کتاب اللہ کے محکمات بیّنات اصولوں اور راسیات وراسخات قواعد کی طرف لوٹادیتے ہیں جن کی معاونت شرعی دلائل کرتے ہیں ۔

2 اہل زیغ وضلال: وہ کتاب اللہ کے محکم ومبیّن ومفسر سے اعراض برت کر اس کے مشابہات کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں اورفتنہ بپا کرنے کی خاطر فقط اسی پر عمل کرکے خوش رہتے ہیں ۔یہاں جمہوریت اور شرکیہ نمائندہ نشستوں سے متعلق ایک بات سمجھ لیں کہ لوگ اہل زیغ وضلال کی راہ پر چلتے ہیں اور واقعات وشبہات کو منفرد طور پر لیتے ہیں اورانہیں ان کی وضاحت یا تقیید وتفسیر کرنے والے قواعد واصول دین سے مربوط نہیں کرتے تاکہ آسانی سے حق کو باطل اور نور کو اندھیرے کے ساتھ خلط ملط کردیں لہٰذا اس بارے میں ہم پہلے ان کے مشہور شبہات ذکر کرکے((اللہ مَلِک وہاب مجری السحاب وھازم الاحزاب وحدہ))کی توفیق سے ان کی تحقیق وتردید کردیں۔

پہلاشبہہ: یوسف علیہ السلام کا عزیز مصر کے ہاں عامل ہونا۔
یہ شبہہ وہ لوگ پیش کرتے ہیں جو دلائل سے کورے ہوں لہٰذا کہتے ہیں کہ کیا یوسف علیہ السلام کافر بادشاہ کے پاس منصب وزارت پر فائز نہ تھے جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت وفیصلہ نہیں کرتا تھا؟لہٰذا کافر حکومتوں کے ساتھ شرکت کرنا بلکہ پارلیمنٹ اور قومی اسمبلی میں داخل ہونا جائز ہے ۔

ہم اللہ کی توفیق سے جواب دیتے ہیں :
اوّل: قانون ساز پارلیمنٹ میں دخول اور اس کے جواز پر اس سے دلیل لینا باطل وفاسد ہے کیونکہ یہ شرکیہ پارلیمنٹ اللہ کے دین کے علاوہ دین جمہوریت پر قائم ہے جس میں قانون سازی اور تحریم وتحلیل کا الوہی اختیار عوام کو ہوتا ہے نہ کے اکیلے اللہ کو جبکہ اللہ نے فرمایا:
وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَ ہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔(آل عمران:۸۵)
اور جو اسلام کے علاوہ دین چاہے گا تو و ہ اس سے کبھی بھی قبول نہ کیاجائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔

سوکیا کوئی جراء ت کرے گا کہ یوسف علیہ السلام اللہ کے دین کے علاوہ دین یا اپنے آباء کی ملت کے علاوہ ملت کے پیرو تھے یا اس کا احترام کرتے تھے یا اس کے موافق قانون سازی کرتے تھے جیسا آج کل ان پارلیمنٹوں کے فتنوں میں مبتلا لوگوں کا حال ہے؟(کہ جس کے دستور میں صاف لکھا ہے کہ عوام ہی قوانین کا سرچشمہ ہے ۔ملاحظہ ہو کویتی دستور کا آرٹیکل 6اور اردنی دستور کا آرٹیکل 25)ایسا کیونکر ممکن ہے جبکہ وہ برملاکہتے تھے کہ :
اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ ہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ ٰابَآئِیْٓ اِبْرَاہِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ مَا کَانَ لَنَآ اَنْ نُّّشْرِکَ بِاﷲِ مِنْ شَیْئٍ۔(یوسف:۳۷-۳۸)
میں نے اس قوم کے دین کو چھوڑ دیا جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتی اور وہ آخرت کا انکار کرتی ہے اورمیں اپنے آباء ابراہیم واسحاق ویعقوب کے دین پر چلتا ہوں ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک کریں۔

نیز فرماتے ہیں کہ :
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ، مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَ ٰابَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اﷲُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔(یوسف:۳۹-۴۰)
اے میرے قید کے ساتھیوں کیا بہت سے الگ رب بہتر ہیں یا ایک اللہ قہار تم اس کے سوا عبادت نہیں کرتے مگر ناموں کی جو تم نے اور تمہارے باپوں نے رکھ لئے اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری فیصلہ کرنا جائز نہیں مگر اللہ کے لئے اسی نے حکم دیا کہ تم عبادت نہ کرو مگر اس کی یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔

کیا کمزوری کی اسی حالت میں وہ اس کا پرچار کریں اور شوکت کے زمانے میں اس کو چھپالیں یا اس سے اعراض برتیں گے ؟جائز کہنے والوہمیں جواب دو! اورپھر سیاست کے شہبازوں کیا تم یہ بھی نہیں جانتے کہ وزارت تنفیذی اختیار کو کہتے ہیں جبکہ پارلیمنٹ قانون سازی کے اختیار کو اور ان دونوں میں بہت فرق ہے لہٰذا جائز قرار دینے والوں کا اسی پر قیاس کرنا ہرگز درست نہیں (بعض نام نہاد ملا کہتے ہیں کہ وزارت پارلیمنٹ سے زیادہ خطرناک ہے اور کہتے ہیں پارلیمنٹ حکومت کے خلاف محاذ ہے وہ اس محاذ میں دستوری جہاد کرتے ہیں اور قانونی اور ڈپلومیٹک جدوجہد کرتے ہیں ۔وہ اس بات سے بے بصیرت ہیں کہ قانون سازی اس کے نفاذ سے زیادہ خطرناک ہے خاص طور پر ان کی یہ پارلیمانی قانون سازی جسے وہ جہاد اور جدوجہد کہتے ہیں جمہوری دین کے دستور کے موافق ومطابق ہوملاحظہ ہو اردنی دستور کی دفعہ 24کی شق نمبر 2کہ دستور میں واضح طور پر عوام کوقانون سازی کے اختیارات ہیں ……اور ارکان پارلیمنٹ ان کے زعم کے مطابق دستوری اختیارات کے حامل عوامی نمائندے ہی ہوتے ہیں ۔نیز کویتی غیر شرعی دستور کاآرٹیکل 51ملاحظہ ہو کہ :دستور کے مطابق قانون سازی کا اختیار صدر یا قومی اسمبلی کے پاس ہوتاہے)اس سے واضح ہوا کہ یوسف uکے واقعے سے پارلیمنٹ کے جواز پر دلیل لینا ہرگز درست نہیں ایسے ہی ہمارے زمانے میں وزارتی عہدوں میں شراکت پر اس واقعے سے ان کے دلیل لینے کو کفر قرار دینے سے کوئی چیزمانع نہیں ہے ۔

دوم: اللہ کے دین سے متحارب اور اعداء اسلام کی حامی مملکتوں کے ماتحت وزارتوں کے فتنے میں مبتلا لوگوں سے دوستی کو یوسف uکے اس فعل پر قیاس کرنا بہت سی وجوہات کی بناء پر فاسد اور باطل ہے:
1 وزیر بننے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان حکومتوں کے ماتحت رہے جو اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرتی ہیں اور ان کے وضعی دستور کا احترام کرے اور طاغوت کو اخلاص و ہمدردی کے ساتھ دین بنائے جبکہ اللہ نے سب سے پہلے جس چیز کے ساتھ کفر کرنے کا حکم دیا ہے وہ طاغوت ہے فرمایا:
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ۔ (نساء:۶۰)
وہ چاہتے ہیں کہ طاغوت کے پاس فیصلے کے لئے جائیں جبکہ انہیں حکم کیاگیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کفر کریں ۔

بلکہ اس منصب پر باقاعدہ فائز ہونے سے قبل ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کفر کا حلفیہ اقرار کریں جیسا ہر پارلیمانی رکن کے لئے ضروری ہے(اردنی دستور کے آرٹیکل 43میں لکھا ہے کہ :وزیر اعظم ودیگر وزراء کے لئے ضروری ہے کہ چارج سنبھالنے سے قبل صدر کے سامنے مندرجہ الفاظ میں حلف اٹھائیں کہ میں اللہ عظیم کی قسم کھاکرکہتا ہوں کہ صدر کا وفادار رہوں گا اور دستور کی حفاظت کروں گا … ایسے ہی آرٹیکل79میں ہے کہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ہر رکن کے لئے چارج سنبھالنے سے قبل ضروری ہے کہ وہ صدر کے سامنے ان الفاظ میں حلف اٹھائے کہ میں اللہ عظیم کی قسم اٹھاکرکہتا ہوں کہ صدر کا وفادار رہوں گا اور دستور کی حفاظت کروں گا …کویتی دستور کے آرٹیکل 126اور 91میں بھی اسی طرح ہے ۔سوال یہ ہے کیا یوسف علیہ السلام نے ایسا کچھ بھی کیا تھا؟اور فتنوں میں گرفتار ان لوگوں کی اس بات کا اعتبارنہیں جو کہتے ہیں کہ حلف اٹھاتے وقت ہم اپنے دل میں یہ مستثنیٰ کرلیتے ہیں کہ شرع کی حدود میں رہتے ہوئے کیونکہ قسم کااعتبار قسم اٹھانے والے کی نیت پر نہیں ہوتا کیونکہ اگر ایسا ہوتو لوگوں کے سارے ہی معاملات بگاڑ کاشکار ہوجائیں اور یہ عمل ایک کھیل بن جائے بلکہ قسم اٹھوانے والے کی نیت کے مطابق ہوتا ہے جیسا کہ نبی علیہ السلام نے فرمایاکہ :’’قسم حلف اٹھوانے والے کی نیت کے مطابق ہوگی‘‘لہٰذا ان کی قسمیں ان کی نیتوں کی تابع نہیں بلکہ اس طاغوت کی نیت کے مطابق ہوتی ہیں جو ان سے قسم اٹھواتا ہے )اب جو یوسف کریم ابن کریم کے متعلق اس طرح کی بدگمانی رکھے جبکہ اللہ نے انہیں اس سے بری قرار دہتے ہوئے فرمایاکہ :
کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓئَ وَ الْفَحْشَآئَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ۔ (یوسف:۲۴)
ایسے ہی تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائیوں کو پھیر دیں بے شک وہ ہمارے مخلص بندوں سے ہے۔

توبلاشبہ مخلوق میں سب سے بڑا کافر اور غلیظ شخص ہوا جس کا دین سے دور سے بھی واسطہ نہیں بلکہ وہ ابلیس ملعون سے بھی بدتر ہواکیونکہ اس نے بھی قسم کھاتے وقت چند لوگوں کو مستثنیٰ کیا:
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ،اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ۔ (ص:۸۲-۸۳)
پس تیری عزت کی قسم میں ان سب کو گمراہ کروں گا سوائے ان میں تیرے مخلص بندوں کے ۔

اور اللہ کے فرمان کے مطابق یوسف علیہ السلام ان مخلص بندوں کے سرداروں میں سے ہیں ۔

2 ان حکومتوں کے ماتحت وزیر بننے والادستور کے مطابق حلف اٹھائے یا نہ اٹھائے اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وضعی اور کفری قانون کا پابند رہے نہ اس سے تجاوز کرے نہ اس کی خلاف ورزی کرے لہٰذاوہ اس دستور کا مخلص بندہ اور خادم ہوا اور ان لوگوں کا تابعدار جنہوں نے اسے بنایاخواہ وہ حق ہو یا باطل فسق وظلم ہویا کفر…۔

توکیا یوسف علیہ السلام نے ایسا کچھ کیا کہ ان کے فعل کو کفری مناصب کے جواز کی دلیل بنایاجائے ؟یقینا جو بھی اللہ کے نبی ابن نبی ابن نبی ابن خلیل اللہ کے متعلق اس طرح کی معمولی سی بدگمانی بھی کرے ہم اس کے کفر وزندقہ اور اسلام سے خروج میں قطعاً شک نہیں کرسکتے کیونکہ اللہ نے فرمادیا کہ :
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔ (نحل:۳۶)
اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔

جبکہ یوسف علیہ السلام کے لئے اس کائنات میں اللہ کا بیان کردہ یہ اصول ہی سب سے بڑا اصول اور سب سے بڑی مصلحت تھی جیسا کہ دیگر انبیاء ورسل علیہم السلام کے لئے ہے ۔کیا یوسف علیہ السلام لوگوں کو مخفی طور پر اور تنگی اور کمزوری اور قوت وقدرت میں اس اصل کی طرف پہلے توخود دعوت دیں اور پھر خود ہی اس کی مخالت کرکے مشرکین میں سے ہوجائیں کیا عقل اسے مان سکتی ہے؟یہ کیونکر ممکن ہو جبکہ اللہ نے انہیں اپنے مخلص بندوں میں گردانا ہے علاوہ ازیں بعض مفسرین اللہ کے فرمان:
مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ۔(یوسف:۷۶)
وہ بادشاہ کے دین میں ہرگز اپنے بھائی کونہ لے سکتا تھا۔

کو اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ وہ بادشاہ کے نظام اور قانون کو نہیں مانتے تھے نہ ہی ان کے مطابق فیصلے کرتے تھے ۔توکیا آج کل کی وزارتوں اور پارلیمنٹوں میں ایسا ممکن ہے کہ کسی وزیر کی عادت ایسی ہو کہ یوں کہاجائے کہ اس نے ریاست کے اندر ریاست بنائی ہوئی ہے ؟لہٰذا ان مناصب کو یوسف علیہ السلام کے فعل پر قیاس کرتے ہوئے جائز کہنا باطل ہے ۔
3 یوسف علیہ السلام اس وزارت پر منجانب اللہ ،اللہ کی قدرت سے فائز ہوئے ارشاد فرمایا:
وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ۔(یوسف:۵۶)
اورایسے ہی ہم نے یوسف کو زمین پر حکومت عطاکی ۔

اور یہ تمکن اللہ کی طرف سے ہوا نہ کہ بادشاہ یا کسی اور کی طرف سے کہ وہ ان کو اس منصب سے معزول کرسکے خواہ وہ بادشاہ کی مخالفت کرتے رہیں ۔توکیا آج کل کے ان طاغوتی عہدیداروں کے پاس اس طرح کا کچھ اختیارہے کہ یوسف علیہ السلام کی تمکین وولایت پر انہیں قیاس کرنا درست ہوسکے؟

4 یوسف علیہ السلام بادشاہ کی طرف سے ملنے والی مکمل اور حقیقی تحفظ کی بناء پر وزیر بنے ارشاد فرمایا:
فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔(یوسف:۵۴)
پھر جب انہوں نے اس سے گفتگو کی توکہنے لگاکہ بے شک آج آپ ہمارے ہاں محفوظ مہمان ہیں۔

اس طرح انہیں اپنی وزارت میں کامل وغیر ناقص حریت وتصرف کا اختیار حاصل ہوا اسی لئے فرمایا:
وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ۔(یوسف:۵۶)
اورایسے ہی ہم نے یوسف کو زمین پر حکومت عطاکی ۔

سو نہ تو ان سے کوئی حساب لے سکتا تھا نہ ہی ان کی نگرانی کرسکتا تھا خواہ وہ کچھ بھی کریں …توکیا آج کل کی طاغوتی وزارتوں میں اس طرح کا کچھ ہے یا یہ محض جھوٹے اور باطل اختیارات ہیں جو اس وقت ختم ہوجاتے ہیں جب وزیر ان کے دامن سے کھیلنے لگے یا صدر کی اطاعت سے ہٹ کر ان کی خلاف ورزی کرے اس اعتبار سے یہ وزیر درحقیقت صدر یا بادشاہ کا سیاسی خادم ہوا جو اس کے احکامات کا مکمل پابندہوتا ہے اور اسے صدر یا دستور کی مخالفت کا بالکل حق حاصل نہیں ہوتا اگرچہ اس میں اللہ سبحانہ اور اس کے دین کی مخالفت ہی ہو ۔اب اگر کوئی یہ گمان کرے کہ یوسف علیہ السلام بھی اسی طرح کچھ نہ کچھ پابند ضرور تھے توبلاشبہ وہ کافر ہے کیونکہ یوسف علیہ السلام کا جو تزکیہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایااس کا منکر بن رہا ہے لہٰذا جب آج کل کی طاغوتی وزارتوں میں یوسف علیہ السلام جیسی کیفیت موجود نہیں توانہیں ان پر قیاس کرنا ہی باطل ہی ہے۔

سوم: اس باطل شبہہ کے ردّ میں بعض مفسرین کا یہ قول بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ بادشاہ اسلام لے آیاتھا جیسا کہ مجاہد تلمیذ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس قول کے مطابق اس مقدمے سے دلیل لینا ہی اصلاً باطل ہوجاتا ہے ۔نیز ہمارا طریقہ اور عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کے ظاہر اور عموم کی اتباع مختلف تفسیرات اور رقیق تشکیکات وتاویلات سے بدرجہ اولیٰ ہے کیونکہ بہر طور وہ ادلہ معتبر ہ سے عاری ہوتی ہیں اب جس آیت سے یہ قول پایہ ثبوت کو پہنچتا ہے وہ یہ ہے فرمایا:
وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ۔(یوسف:۵۶)
اورایسے ہی ہم نے یوسف کو زمین پر حکومت عطاکی ۔

اس اجمال کی وضاحت اللہ دوسرے مقام پر اس طرح کرتا ہے فرمایا:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ ٰاتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۔(حج:۴۱)
وہ لوگ جنہیں ہم زمین پر حکومت عطا کریں وہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکاۃ دیتے اور امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کرتے ہیں اور معاملات کاانجام اللہ کے لئے ہے۔

یہاں اللہ نے یہ تفصیل کردی کہ اہل ایمان حکومت ملنے کے بعد کیا کرتے ہیں اور بلاشبہ یوسف علیہ السلام اہل ایمان کے سردار ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ دین اسلام میں سب سے بڑا معروف توحید اور سب سے بڑا منکر شرک ہے جیسا کہ یوسف علیہ السلام اور ان کے آباء واجداد یعقوب ،اسحاق ،ابراہیم علیہم السلام کی دعوت کا پرچار کیا اور اس کے مخالفین کی بیخ کنی کی لہٰذا یہ اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت نہ ہوئی نہ ہی ایسے کسی حاکم کی معاونت اورنہ ہی ان سے تعلق استوار کرنا یا ان کی طرف میلان ہوا جیسا کہ آج کل کے مفتون وزراء کا طرز عمل ہے بلکہ بالیقین انہوں نے اس صورت حال کو تبدیل کیا اور توحید کی حاکمیت قائم کی اور اسی کی طرف دعوت دی اور اس کے ہر مخالف کو شکست دی خواہ وہ کوئی بھی ہو ۔جیسا کہ اللہ کی سنن جاریہ فی الانبیاء سے متعلق آیات ونصوص سے ثابت ہوتا ہے اب اگر کوئی یوسف صدیق کریم ابن کریم ابن کریم کو ان سے متضاد صفات سے متصف کرے تووہ کافراور خبیث اور دین اسلام سے خارج وبری ہے۔ایسے ہی اللہ کے فرمان:
وَ قَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖٓ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِیْ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔(یوسف:۵۴)
بادشاہ نے کہا تم اسے میرے پاس لاؤ میں اسے اپنے لئے خاص کرلوں پھر جب انہوں نے اس سے گفتگو کی تو وہ کہنے لگا آج آپ ہمارے پاس محفوظ مہمان ہیں۔

آپ کے خیال میں یوسف علیہ السلامنے اس سے کیا گفتگوکی ہوگی کہ متاثر ہوکر اس نے آپ کو حکومت کی پیشکش کردی ؟کیا عزیز مصر کی بیوی کا قصہ سنایا ہوگاجو کہ اپنے اختتام کو بخیروخوبی پہنچ چکا تھایا ملکی اتحاد یا اقتصادی مشکلات سے متعلق یا کچھ اور ؟غیب دانی کا دعویٰ توکوئی نہیں کرسکتا البتہ دلیل کے ساتھ بات سچاکرتا ہے سو جو اللہ کے فرمان{ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ }’’پھر جب انہوں نے اس سے گفتگو کی ‘‘کے اجمال کو اللہ کا یہ فرمان مدد کرتا ہے۔فرمایا:
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔ (نحل:۳۶)
اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔

نیز:
وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَ اِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔(زمر:۶۵)
اور البتہ آپ کی اور آپ سے پہلے والوں کی طرف یہ وحی کی گئی کہ اگرتونے شرک کرلیا توتیرے سارے عمل برباد ہوجائیں گے اور تو ضرور نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔

نیزیوسف علیہ السلام کی ترجیحی دعوت سے متعلق اللہ کا یہ فرمان:
اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ ہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ ٰابَآئِیْٓ اِبْرَاہِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ مَا کَانَ لَنَآ اَنْ نُّّشْرِکَ بِاﷲِ مِنْ شَیْئٍ ۔(یوسف:۳۷-۳۸)
یقینا میں نے ان لوگوں کے دین کو چھوڑ دیا جو اللہ پر یقین نہیں رکھتے اور وہ آخرت کے منکر ہیں اور میں نے اپنے آباء ابراہیم واسحاق ویعقوب کی اتباع کی ہے ہمارے لئے اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک کرنا ہرگزجائز نہیں ہے ۔

نیز:
ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ، مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَ ٰابَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اﷲُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔(یوسف:۳۹-۴۰)
کیا بہت سے مختلف رب بہتر ہیں یا ایک غالب اللہ کے سوا تم محض ناموں کی عبادت کرتے ہوجو تم نے اورتمہارے آباء نے رکھ لئے اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری حکم صرف اللہ ہی کا حق ہے اس نے حکم دیا کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی سیدھا دین لیکن اکثر لوگ نابلد ہیں ۔

یقینا یوسف علیہ السلام کے نزدیک سب سے معیاری گفتگو اور ان کی اور ان کے آباء کی دعوت کا سب سے بنیادی اصول یہی ہے یہی سب سے بڑا معروف اور جو چیز اس کے متضاد ہو وہی سب سے بڑا منکر ہے اس بات کے تقرر وتعین کے بعد کہ یوسف علیہ السلامنے ان سے کیاگفتگو کی تھی بادشاہ کا یہ جواب کہ: {اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ}’’یقینا آج آپ ہمارے محفوظ مہمان ہیں ‘‘بڑی ہی واضح دلیل ہے کہ بادشاہ نے ان کی تابعداری اختیار کرلی تھی اور دین کفر کوترک کرکے ملت ابراہیمی کا پیروبن چکاتھا اور پھر انہیں ہرطرح کے کلام اور دعوت کی مکمل آزادی دے دی تھی اور اس بات کی بھی کہ اس دعوت ے مخالفین کی سرکوبی کریں …تویوسف علیہ السلام کی حالت اور عصر حاضر کے طاغوتی مفتون وزراء کی حالت میں فرق کرنے کے لئے فقط اتنا ہی کافی ہے (ہماری اس گفتگو کے خلاف سورہ غافر کی اس آیت کو دلیل بناناجائز نہیں جس میں آل فرعون میں سے موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے شخص نے فرعون وغیرہ سے کہا تھا کہ :
وَ لَقَدْ جَآءَ کُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّمَّا جَآئَ کُمْ بِہٖ حَتّٰیٓ اِذَا ہَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اﷲُ مِنْم بَعْدِہٖ رَسُوْلًا۔(غافر:۳۴)
اورالبتہ تمہارے پاس اس سے پہلے یوسف بھی واضح معجزات لے کر آیاپر تم اس کے پیش کردہ میں شک کرتے رہے حتی کہ جب وہ مرگیا توتم کہنے لگے کہ اللہ اس کے بعد اب کبھی رسول نہ بھیجے گا۔

(جاری ہے)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
(گذشتہ سے پیوستہ)

عدم جواز استدلال کی چند وجوہات درج ذیل ہیں :
1 آیت میں یہ صراحت نہیں کہ یہ یوسف علیہ السلام بن یعقوب ہیں ممکن ہے اور ہوں جیسا کہ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ مراد یوسف بن افرانیم بن یوسف بن یعقوب ہیں جو ان میں 20سال نبی رہے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے نیز ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی وغیرہ اور جب احتمال آجائے تودلیل قابل استدلال نہیں رہتی ۔

2 اگر یہ مان لیاجائے کہ یوسف علیہ السلام ہی مراد ہیں تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بادشاہ ایمان نہ لایاتھا کیونکہ ممکن ہے کہ اس شخص کا کلام اکثریت کے متعلق ہو۔

3 اس آیت میں کفر بواح علانیہ کانہیں بلکہ شک کا تذکرہ ہے اور شک کسی وقت دل میں ہوتا ہے توکسی دوسرے وقت میں ظاہر ہوجاتا ہے…اور یہ بات طے شدہ ہے کہ یوسف علیہ السلام حاکم بن گئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنے لگے پھر کوئی آپ کے سامنے اپنے شرک کا اظہار کرے اور آپ خاموش رہیں ایسا ناممکن ہے کسی میں یہ جراء ت بھی کیونکر ہوجب کہ آپ حاکم اور رسول تھے اور شرک آپ کے نزدیک سب سے بڑا منکر تھا لیکن اگر دل میں کفرو شرک چھپا کر اہل ایمان کے سامنے حاکم کے خوف سے ایمان کا اظہار کیا جائے تویہ نفاق ہوتا ہے اور لوگوں کے ساتھ ان کے ظاہر کے مطابق برتاؤ ہوتا ہے بلکہ اس شخص کے اس قول کہ :{حَتّٰیٓ اِذَا ہَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اﷲُ مِنْم بَعْدِہٖ رَسُوْلًا}’’حتی کہ جب وہ مرگیا توتم کہنے لگے کہ اللہ اب اس کے بعد کبھی رسول نہ بھیجے گا‘‘میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ بظاہر اس پر ایمان لے آئے تھے اگرچہ دل سے نہ لائے ہوں۔یہاں ایک اور شبہہ کا بھی ازالہ کردینا مناسب ہے جو کہ مفتون وزراء اس شخص کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ اس نے اپنے ایمان کو چھپاکررکھا تھا لہٰذا یہ جائز ہے ۔اس کا ردّ یہ ہے کہ ہم جن حالات سے دوچار ہیں ان میں اور وہ جن حالات سے دوچار تھا اس میں کیا مطابقت ومناسبت ہے ؟کمزور کے ایمان چھپانے اور شرک وکفر اور قانون سازی اور اللہ کے دین کو بگاڑنے اور روندنے میں برابر شریک ہونے میں بڑا ہی واضح فرق ہے کیا وہ شخص ان مفتون وزراء کی طرح قانون سازی یا اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرنے یا جمہوریت کی حمایت کرنے میں ان کا برابر کا شریک رہا تھا؟لہٰذا پہلے اس بات کو ثابت کیا جائے پھر کوئی دوسرا دعویٰ کیا جائے وگرنہ ان فضولیات سے اجتناب کیاجائے)

چہارم: گذشتہ بحث سے جب یہ حقیقت عیاں ہوچکی کہ یوسف علیہ السلام توحید کی مخالفت کرکے یا دین ابراہیمی کو پس پشت ڈال کر وزیر نہیں بنے تھے جیسا کہ آج کل بنتے ہیں تواب اگر یہ مان لیاجائے کہ بادشاہ اپنے کفر پر باقی رہا تھا تو یوسف علیہ السلام کی وزارت اس صورت میں ایک فرعی مسئلہ کی شکل اختیار کرجائے گی جس کااصول دین سے کچھ بھی تعلق نہ ہو جیسا کہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ یوسف علیہ السلام سے شرک وکفر یا کفار سے تعلقات یا اللہ کے ساتھ قانون سازی وغیرہ نواقض ایمان کچھ بھی صادر نہ ہوا تھا بلکہ آپ ہمہ وقت توحید کاپرچار اور شرک کی تردید کرتے رہے۔اور اللہ تعالیٰ فروعی مسائل کے متعلق فرماتا ہے کہ:{لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْہَاجًا}(مائدہ:۴۸)’’او رہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے (الگ)شریعت اورمنہج بنایاہے‘‘لہٰذا انبیاء کی شریعتیں احکام فروعی میں تومختلف ہوتی ہیں البتہ اصول دین میں متفق و متحد جیسا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:’’ہم انبیاء کی جماعت علاتی (باپ ایک ماں الگ )بھائی ہیں ہمارا دین ایک ہے ۔بخاری عن ابی ہریرہ t)یعنی اصول دین توحید وغیرہ میں ایک ہیں البتہ شریعت کے مسائل واحکام میں مختلف ہیں ہم سے پہلے کی شریعت میں ایک شئے حرام ہو پھر ہمارے لئے حلال ایسا ممکن ہے مثلامال غنیمت کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے یاہم سے پہلے والوں پر سختی ہو پھر ہمارے لئے نرمی کردی جائے لہٰذا گزشتہ شریعت کی ہربات ہمارے لئے شریعت نہیں خاص طور پر جبکہ ہماری شریعت میں اس کے خلاف دلیل بھی ہو اور ہماری شریعت میں اس عمل کی حرمت پر دلیل موجود ہے جو یوسف علیہ السلام کی شریعت میں حلال تھا۔ابن حبان،ابویعلیٰ اورطبرانی نقل کرتے ہیں کہ’’ نبی علیہ السلام نے فرمایا:تم پر بے وقوف حاکم آئیں گے جو بدترین لوگوں کو قریب کریں گے اور نماز تاخیر سے پڑھیں گے سو تم میں سے جو ایسا وقت پائے وہ ہرگز کوئی ناظم یا سپاہی یا ٹیکس آفیسر یا خزانچی نہ بنے)اور راجح بات یہ ہے کہ ان حکمرانوں سے فاسق امراء مراد ہیں جو کافر نہ ہوں کیونکہ ڈرانے والا جب کسی چیز سے ڈراتا ہے تو عام طور پر اس چیزکا سب سے براپہلو بیان کرتاہے لہٰذا اگر وہ کافر ہوتے تو آپ ضرور بتاتے جب کہ آپ نے ان کی سب سے بڑی برائی یہ بیان کی کہ وہ بدترین لوگوں کو قریب کریں گے اورنماز تاخیر سے پڑھیں گے اس کے باوجود نبی uنے واضح طور پر منع فرمایا کہ کوئی ان کا خازن یعنی خزانچی بنے توجب فاسق حاکم کا خزانچی بننا ہماری شریعت میں حرام ہوتو کسی کافر کا وزیر خزانہ بننا کس طرح جائز ہوسکتاہے لہٰذا یوسف علیہ السلام کا تقاضاکہ :{قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ}(یوسف:۵۵)’’تومجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردے کیونکہ میں محافظ اور ماہر ہوں‘‘اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ ان کی شریعت میں جائز تھا لیکن ہماری شریعت میں منسوخ ہے۔واللہ تعالی اعلم

اگرچہ ہدایت کے لئے اتنا ہی کافی ہے لیکن اگر کوئی اپنے فہم وتدبر اور آراء الرجال ادلہ وبراہین پر مقدم کرتا ہوتو اگر اس کے سامنے پہاڑ بھی ریزہ ریزہ کردیا جائے وہ ہدایت حاصل نہیں کرسکتا:{وَ مَنْ یُّرِدِ اﷲُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اﷲِ شَیْئًا}(مائدہ:۴۱)’’اور جسے اللہ فتنے میں ڈالنا چاہے تو آپ اللہ کے مقابل اس کے لئے ہرگز کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے ‘‘

اس شبہے کے متعلق بحث کے اختتام سے قبل ہم اس پارلیمانی اور وزارتی شرک وکفرکو اپنے فہم وتدبرسے جائز قرار دینے والوں کے متعلق ایک تنبیہ کردیں کے وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے یوسف علیہ السلامکے وزیر بننے سے متعلق کلام کو توڑ مروڑکر پیش کرتے ہیں جبکہ یہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر افتراء وبہتان سے زیادہ کچھ بھی نہیں کیونکہ انہوں نے اس قصے سے قانون سازی کے محل یا کفر یا اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرنے کے جواز پر دلیل نہیں لی ہے ان جیسے راسخ العقیدہ اور عقل مند شخص سے اس بد عقیدگی اوربے عقلی کی توقع نہیں کی جاسکتی ایسی بات تو عام عقل مند بھی نہیں کہہ سکتا چہ جائیکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسے عاقل وعالم ربانی یہ بات کریں یہ ناممکن ہے کیونکہ اس سلسلے میں ان کا عقیدہ واضح او رمعروف ہے کیونکہ اس بات کا دارومدار جلب المصالح اور درء المفاسد کے قاعدے پر ہے اور اس کائنات کی سب سے بڑی مصلحت توحید اور سب سے بڑا مفسدہ شرک و تندید ہے اور پھر وہ یوسف علیہ السلام کے متعلق اس عہدے کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ:’’ان سے جس قدر انصاف اور خیرخواہی ہوسکی انہوں نے کی اور حتی الامکان انہیں ایمان کی دعوت دی ۔(مجموع الفتاوی:۲۸/۶۸)

انہوں نے مطلق طور پر کہیں نہیں کہا کہ یوسف علیہ السلام اللہ کے ساتھ قانون سازی کرتے یا اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرنے والے کے ساتھ شریک ہوتے یا جمہوریت وغیرہ ادیان باطلہ کی اتباع کرتے جیسا کہ آج کل کے مفتون وزراء کی حالت ہے جو ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام کو اپنے شبہات کے پردوں میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو گمراہ اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کرسکیں ۔اور پھر اے میرے موحد بھائی اس سب کو چھوڑدیں ہمارا قائد اور ہماری دلیل جس کی طرف ہم بوقت اختلاف رجوع کرتے ہیں وہ وحی ہے نہ کہ کچھ اور وہ اللہ اور اس کے رسول کاکلام ہے اور اللہ کے رسول کے بعد ہر ایک کے قول کو قبول یا ردّ کیا جاسکتا ہے لہٰذا اگر بفرض محال ابن تیمیہ رحمہ الللہ نے ایسا کچھ کہا بھی ہو تو ہم اسے ان سے کیا اگر ان سے بڑھ کر کوئی آجائے اس سے بھی قبول نہ کریں گے حتی کہ وہ ہمارے پاس اس کی واضح دلیل نہ لے آئے جو وحی سے ہو:
قُلْ اِنَّمَآ اُنْذِرُکُمْ بِالْوَحْیِ۔(انبیاء:۴۵)
اے نبی کہہ دیجئے درحقیقت میں تمہیں بذریعہ وحی ڈراتا ہوں ۔

قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔(بقرہ:۱۱۱)
اے نبی کہہ دیجئے اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔

لہٰذا باخبررہیں اور توحید پر ڈٹے رہیں اور شرک وکفر کے دوستوں اور توحید وسنت کے دشمنوں کی چالوں میں نہ آئیں بلکہ اس گروہ میں شامل رہیں جو اللہ کے دین کو قائم رکھے جن کے متعلق نبی uنے فرمایا:’’جو ان کی مخالفت کرے یا ان کی مدد نہ کرے وہ انہیں نقصان نہ دے سکے گا حتی کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور وہ اسی طرح ہوں‘‘۔(فتح الباری:۱۳/۲۹۵)

نوٹ : مشہور سلفی عالم حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے بھی اپنی مایہ ناز تفسیر احسن البیان میں اس بات کو راحج قرار دیا ہے کہ وہ بادشاہ یوسف علیہ السلام کی تبلیغ سے متاثر ہوکر مسلم ہوگیا تھا۔ دیکھئے احسن البیان
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک کفریہ نظام میں کیوں عہدہ مانگا؟
قال اجعلني على خزائن الأرض إني حفيظ عليم ۔۔۔ سورة يوسف
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ پہلے انبیاء و رسل کے جو حالات و واقعات قرآن میں اللہ نے ذکر کیئے ہیں ان کے کئی ایک مقاصد ہوسکتے ہیں مگر ان میں جو قوانین اور حکم ہیں ان میں سے بعض تو شریعت محمدی ﷺ میں ویسے کے ویسے ہیں اور کچھ قوانین دینِ محمد ﷺ میں تبدیل ہوچکے ہیں مثلاً سورہ یوسف میں ہی اللہ تعالیٰ یوسف علیہ السلام کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ
قَالَ ارْجِعْ اِلٰي رَبِّكَ سورۃ یوسف آیت نمبر 50
پہلی شریعتوں میں اپنے مالک، آقا کو رب کہنا جائز تھا مگر دینِ محمد ﷺ میں اس کی ممانعت ہے
ولا يقل العبد ربي ولكن ليقل سيدي، کوئی غلام اپنے مالک کو میرا رب نہ کہے بلکہ میرا سردار کہے۔۔۔صحیح مسلم
اسی سورہ میں چور کی سزاء جو دینِ یعقوب علیہ السلام میں تھی وہ بیان کی گئی ہے کہ
قَالُوْا جَزَاۗؤُهٗ مَنْ وُّجِدَ فِيْ رَحْلِهٖ فَهُوَ جَزَاۗؤُهٗ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ 75؀
::یوسف کے بھائی::بولے اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے اسباب میں ملے وہی اس کے بدلے میں غلام بنے ، ہمارے یہاں ظالموں کی یہی سزا ہے ۔ یوسف: آیت:75
مگر اب شریعت محمدیﷺ میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے اس طرح کے اور بھی بہت سے قوانین ہیں جو شریعت محمدی ﷺ میں وہ نہیں ہیں جو پہلے انبیاء و رسل کی شریعتوں میں تھے اس لیئے اب ہمیں اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیئے پہلے انبیاء کے قوانین نہیں لینے بلکہ دین محمد ﷺ میں جو قوانین ہیں ان پر عمل کرنا ہے۔
اب معاملہ آتا ہے یوسف علیہ السلام کا کافر بادشاہ سے عہدہ مانگنا،
اس معاملے کی وضاحت ایک مفسر کی بہتر اور آسان فہم لگی وہی آپ بھائیوں کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔

اس سے پہلے جو توضیحات گزرچکی ہیں ان کی روشنی میں دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ کوئی نوکری کی درخواست نہیں تھی جو کسی طالبِ جاہ نے وقت کے بادشاہ کی اشارہ پاتے ہی جھٹ سے پیش کردی ہو۔ درحقیقت یہ اس انقلاب کا دروازہ کھولنے کے لیے آخری ضرب تھی جو حضرت یوسف ؑ کی اخلاقی طاقت سے پچھلے دس بارہ سال کے اندر نشونما پاکر ظہور کے لیے تیار ہوچکا تھا اور اب جس کا فتح باب صرف ایک ٹھونکے ہی کا محتاج تھا۔ حضرت یوسف ؑ آزمائشوں کے ایک طویل سلسلے سے گزر کر آرہے تھے۔ اور یہ آزمائشیں کسی گمنامی کے گوشے میں پیش نہیں آئی تھیں بلکہ بادشاہ سے لے کر عام شہریوں تک مصر کا بچہ بچہ ان سے واقف تھا۔ ان آزمائشوں میں انہوں نے ثابت کردیا تھا کہ وہ امانت، راستبازی، حِلم، ضبط نفس، عالی ظرفی، ذہانت و فراست اور معاملہ فہمی میں کم از کم اپنے زمانہ کے لوگوں کے درمیان تو اپنا نظیر نہیں رکھتے۔ ان کی شخصیت کے یہ اوصاف اس طرح کھل چکے تھے کہ کسی کو ان سے انکار کی کجال نہ رہی تھی۔ زبانیں ان کی شہادت دے چکی تھیں۔ دل ان سے مسخر ہوچکے تھے۔ خود بادشاہ ان کے آگے ہتھیار ڈال چکا تھا۔ اُن کا ”حفیظ“اور”علیم“ہونا اب محض ایک دعویٰ نہ تھا بلکہ ایک ثابت شدہ واقعہ تھا جس پر سب ایمان لاچکے تھے۔ اب اگر کچھ کسر باقی تھی تو وہ صرف اتنی کہ حضرت یوسف ؑ خود حکومت کے اُن اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے پر رضامندی ظاہر کریں جن کے لیے بادشاہ اور اس کے اعیان سلطنت اپنی جگہ بخوبی جان چکے تھے کہ ان سے زیادہ موزوں آدمی اور کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ یہی وہ کسر تھی جو انہوں نے اپنے اس فقرے سے پوری کردی۔ ان کی زبان سے اس مطالنے کے نکلتے ہی بادشاہ اور اس کی کونسل نے جس طرح اسے بسروچشم قبول کیا وہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پھل اتنا پک چکا تھا کہ اب ٹوٹنے کے لیے ایک اشارے ہی کا منتظر تھا۔ (تلمود کا بیان ہے کہ حضرت یوسف ؑ کو حکومت کے اختیارات سونپنے کا فیصلہ تنہا بادشاہ ہی نے نہیں کیا تھا بلکہ پوری شاہی کونسل نے بالاتفاق اس کے حق میں رائے دی تھی)۔
یہ اختیارات جو حضرت یوسف ؑ نے مانگے اور ان کے سونپے گئے ان کو نوعیت کیا تھی؟ ناواقف لوگ یہاں ”خزائن ارض“کے الفاظ اور آگے چل کر غلہ کی تقسیم کا ذکر دیکھ کر قیاس کرتے ہیں کہ شاید یہ افسر خزانہ، یا افسر مال، یا قحط کمشنر، یا وزیر مالیات، یا وزیر غذائیات کی قسم کا کوئی عہدہ ہوگا۔لیکن قرآن، بائیبل، اورتلمود کی متفقہ شہادت ہے کہ درحقیقت حضرت یوسف ؑ سلطنت مصر کے مختار کل (رومی اصطلاح میں ڈکٹیٹر) بنائے گئے تھے اور ملک کا سیاہ و سپید سب کچھ ان کے اختیار میں دے دیا گیا تھا۔قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت یعقوب ؑ مصر پہنچے ہیں اس وقت حضرت یوسف ؑ تخت نشین تھے (ورفع ابویہ علی العرش)۔ حضرت یوسف ؑ کی اپنی زبان سے نکلا ہُوا یہ فقرہ قرآن میں منقول ہے کہ”اے میرے رب، تو نے مجھے بادشاہی عطا کی“(رَبَّ قداٰ تَیتنی مِنَ الملک)۔ پیالےکی چوری کے موقع پر سرکاری ملازم حضرت یوسف ؑ کے پیالے کو بادشاہ کا پیالہ کہتے ہیں(قالو انفقد صواع الملک)۔ اور اللہ تیالیٰ مصر پر ان کے اقتدار کی کیفیت یہ بیان فرماتا ہے کہ ساری سرزمین مصر اُن کی تھی (یتبو أ مِنھا حیث یشآء)۔ رہی بائیبل تو دہ شہادت دیتی ہے کہ فرعون نے یوسف ؑ سے کہا:
”سو تو میرے گھر کا مختار ہوگا اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا ……… اور تیرے حکم کے بغیر کوئی آدمی اس سارے ملک مصر میں اپنا ہاتھ یا پاوٴں نہ ہلانے پائے گا۔ اور فرعون نے یوسف ؑ کا نام ضَفِنَات فَعِیحَ (دنیا کا نجات دہندہ)رکھا“۔ (پیدائش ۴١:۳۹ - ۴۵)
اور تلمود کہتی ہے کہ یوسف ؑ کے بھائیوں نے مصر سے واپس جاکر اپنے والد سے حاکم مصر (یوسف ؑ )کی تعریف کرتے ہوئے بیان کیا:
”ہم اپنے ملک کے باشندوں پر اس کا اقتدا سب سے بالا ہے۔ اس کے حکم پر وہ نکلتے اور اسی کے حکم پر وہ داخل ہوتے ہیں۔ اس کی زبان سارے ملک پر فرمانروا۴ی کرتی ہے۔ کسی معملہ میں فرعون کے اذن کی ضرورت نہیں ہوتی“۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے یہ اختیارات کس غرض کے لیے مانگے تھے؟ انہوں نے اپنی خدمات اس لیے پیش کی تھیں کہ ایک کافر حکومت کے نظام کو اس کے کافرانہ اصول و قوانین ہی پر چلائیں؟ یا ان کے پیش نظر یہ تھا کہ حکومت کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کے نظام تمدن و اخلاق و سیاست کو اسلام کے مطابق ڈھال دیں؟ اس سوال کا بہترین جواب وہ ہے جو علامہ مخشری نے اپنی تفسیر ”کشاف“میں دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”حضرت یوسف ؑ نے اجعلنی علیٰ خزائن الارض جو فرمایا تو اس سے ان کی غرض صرف یہ تھی کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرنے اور حق قائم کرنے اور عدل پھیلانے کا موقع مل جائے اور وہ اس کام کو انجام دینے کی طاقت حاصل کرلیں جس کے لیے انبیاء بھیجے جاتے ہیں۔ انہوں نے بادشاہی کی محبت اور دنیا کے لالچ میں یہ مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ جانتے ہوئے کیا تھا کہ کوئی دوسرا شخص ان کے سوا ایسا نہیں ہے جو اس کام کو انجام دے سکے“۔
اور سچ یہ ہے کہ یہ سوال دراصل ایک اور سوال پیدا کرتا ہے جو اس سے بھی زیادہ اہم اور بنیادی سوال ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ آیا پیغمبر بھی تھے یا نہیں؟ اگر پیغمبر تھے تو کیا قرآن میں ہم کو پیغمبری کا یہی تصور ملتا ہے کہ اسلام کا داعی خود نظام کفر کو کافرانہ اصولوں پر چلانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرے؟ بلکہ یہ سوال اس پر بھی ختم نہیں ہوتا، اس سے بھی زیادہ نازک اور سخت ایک دوسرے سوال پر جاکر ٹھیرتا ہے، یعنی یہ کہ حضرت یوسف ؑ ایک راستباز آدمی بھی تھے یا نہیں؟ اگر راستباز تھے تو کیا ایک راستباز انسان کا یہی کام ہے کہ قید خانے میں تو وہ اپنی پیغمبرانہ دعوت کا آغاز اس سوال سے کرے کہ ”بہت سے رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے“، اور بار بار اہل مصر پر بھی واضح کردے کہ تمہارے اِن بہت سے متفرق خود ساختہ خداوٴں میں سے ایک یہ شاہ؟ مصر بھی ہے، اور صاف صاف اپنے مشن کا بنیادی عقیدہ یہ بیان کرے کہ ”فرمانروائی کا اقتدار خدائے واحد کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے“، مگر جب عملی آزمائش کا وقت آئے تو وہی شخص خود اس نظامِ حکومت کا خادم، بلکہ ناظم اور محافظ اور پشت پناہ تک بن جائے جو شاہ مصر کی ربوبیت میں چل رہا تھا اور جس کا بنیادی نظریہ ”فرمانروائی کے اختیارات خدا کے لیے نہیں بلکہ بادشاہ کے لیے ہیں“تھا؟
حقیقت یہ ہے کہ اس مقام کی تفسیر میں دورالخطاط کے مسلمانوں نے کچھ اُسی ذہنیت کا اظہار کیا ہے جو کچھی یہودیوں کی خصوصیت تھی۔ یہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب وہ ذہنی و اخلاقی پستی میں مبتلا ہوئے تو پچھلی تاریخ میں جن جن بزرگوں کی سیرتیں ان کو بلندی پر چڑھنے کا سبق دیتی تھیں ان سب کو وہ نیچے گراکر اپنے مرتبے پر اتار لائے تاکہ اپنے لیے اورزیادہ نیچے گرنے کا بہانہ پیدا کریں۔ افسوس کہ یہی کچھ مسلمانوں نے بھی کیا۔ انہیں کافر حکومتوں کی چاکری کرنی تھی، مگر اس پستی میں گرتے ہوئے اسلام اور اس کے علمبرداروں کی بلندی دیکھ کر انہیں شرم آئی، لہٰذا اس شرم کو مٹنے اور اپنے ضمیر کو راضی کرنے کے لیے یہ اپنے ساتھ اس جلیل القدر پیغمبر کو بھی خدمتِ کفر کی گہرائی میں لے گرے جس کی زندگی دراصل انہیں یہ سبق دے رہی تھی کہ اگر کسی ملک میں ایک اور صرف ایک مرد مومن بی خالص اسلامی اخلاق اور ایمانی فراست و حکمت کا حامل ہو تو وہ تن تنہا مجرد اپنے اخلاق اور اپنی حکمت کے زور سے اسلامی انقلاب برپارسکتا ہے، اور یہ کہ مومن کی اخلاقی طاقت (بشرطیکہ وہ اس کا استعمال جانتا ہو اور اسے استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتاہے) فوج اور اسلحہ اور سروسامان کے بغیر بھی ملک فتح کرسکتی ہے اور سلطنتوں کو مسخر کرلیتی ہے۔
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
حضرت یوسف کے حوالے سے درج بالا معروضات کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتاہےکہ ایک انسان جب حقائق کی غلط توجیہ کرتاہےتو پھر اسے اپنامؤقف ثابت کرنےکے لئے کس قدر بعید تاویلات کرناپڑتی ہیں بلکہ محکم علمی مسائل میں بھی وہ ظن و تخمین پر اپنی بنائے استدلال رکھنےسے بھی نہیں چوکتا۔ سادہ سی بات ہےکہ حضرت یوسف نے وزارت خزانہ کا مانگی تھی قرآن کے الفاظ بھی یہی کہہ رہےہیں رہی یہ بات کہ ایک کفریہ نظام کا وہ حصہ کیوں کر بن گئے تو یہی بات ہم کہتے ہیں کہ حالات میں جس قدر اصلاح کی گنجائش موجود ہو اس قدر ضرور کریں دین کا مقصد عبادت رب اور تزکیہ نفس ہےیہ اصلا پورا ہوناچاہیے اور یہ نظام یا قانون وغیرہ کی حیثیت مقصد دین کےلازمی تقاضوں میں سے ہے یہ تقاضے جس قدر پورے ہورہے ہوں اسی قدر بہتر ہےہاں اگر کسی قانون یانظام کی شکل ایسی ہےکہ اس کی وجہ سے اصل مقصد مٹ رہاہےتو پھر اسے قبول نہیں کرناچاہئے جیسے قرئش مکہ رسولﷺ کو خود اقتدار کی پیش کش کرتےتھےلیکن ساتھ ہی اصل مقصد سے منحر ف ہونےکا بھی کہتے تھے تو آپﷺنے انکار کر دیاکیونکہ اس میں وہ کہتے تھے کہ آپ اصل دین یعنی توحید کوہی چھوڑ دیں آخر میں ہم گزارش کریں گے کہ یہ نظام او رقانون کی بذات خود مستقل کوئی حیثیت نہیں بلکہ یہ تو اصل مقصد کیلئے معاون ہیں لہذا اگر اصل مقصد پر کوئی حرف نہی آرہا تو ایک کافرانہ ماحول میں (نظام اورقانون)میں جس قدر اصلاح ہوسکتی ہو کرنی چاہئے۔
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
بعون اللہ:
اہل علم میں سے ابو محمد عاصم المقدسی اس شبہے کے جواب میں لکھتے ہیں:
پہلاشبہہ: یوسف علیہ السلام کا عزیز مصر کے ہاں عامل ہونا۔
یہ شبہہ وہ لوگ پیش کرتے ہیں جو دلائل سے کورے ہوں لہٰذا کہتے ہیں کہ کیا یوسف علیہ السلام کافر بادشاہ کے پاس منصب وزارت پر فائز نہ تھے جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت وفیصلہ نہیں کرتا تھا؟لہٰذا کافر حکومتوں کے ساتھ شرکت کرنا بلکہ پارلیمنٹ اور قومی اسمبلی میں داخل ہونا جائز ہے ۔

ہم اللہ کی توفیق سے جواب دیتے ہیں :
اوّل: قانون ساز پارلیمنٹ میں دخول اور اس کے جواز پر اس سے دلیل لینا باطل وفاسد ہے کیونکہ یہ شرکیہ پارلیمنٹ اللہ کے دین کے علاوہ دین جمہوریت پر قائم ہے جس میں قانون سازی اور تحریم وتحلیل کا الوہی اختیار عوام کو ہوتا ہے نہ کے اکیلے اللہ کو
اور بادشاہِ مصر نے شائد دین اسلام (اللہ کے قانون) کو نافذ کر رکھا تھا؟؟! یا شائد بادشاہِ مصر نے تحلیل وتحریم کا اختیار اکیلے اللہ رب العٰلمین کو دے رکھا تھا؟؟؟ واعجباہ!
بھئی یہ لوگ تو پھر اسلام کا نام لیتے ہیں وہ تو اسلام کا نام بھی نہ لیتے تھے۔

دوم: اللہ کے دین سے متحارب اور اعداء اسلام کی حامی مملکتوں کے ماتحت وزارتوں کے فتنے میں مبتلا لوگوں سے دوستی کو یوسف uکے اس فعل پر قیاس کرنا بہت سی وجوہات کی بناء پر فاسد اور باطل ہے:
1 وزیر بننے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان حکومتوں کے ماتحت رہے جو اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرتی ہیں اور ان کے وضعی دستور کا احترام کرے اور طاغوت کو اخلاص و ہمدردی کے ساتھ دین بنائے جبکہ اللہ نے سب سے پہلے جس چیز کے ساتھ کفر کرنے کا حکم دیا ہے وہ طاغوت ہے فرمایا:
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ۔ (نساء:۶۰)
وہ چاہتے ہیں کہ طاغوت کے پاس فیصلے کے لئے جائیں جبکہ انہیں حکم کیاگیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کفر کریں ۔

بلکہ اس منصب پر باقاعدہ فائز ہونے سے قبل ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کفر کا حلفیہ اقرار کریں جیسا ہر پارلیمانی رکن کے لئے ضروری ہے(اردنی دستور کے آرٹیکل 43میں لکھا ہے کہ :وزیر اعظم ودیگر وزراء کے لئے ضروری ہے کہ چارج سنبھالنے سے قبل صدر کے سامنے مندرجہ الفاظ میں حلف اٹھائیں کہ میں اللہ عظیم کی قسم کھاکرکہتا ہوں کہ صدر کا وفادار رہوں گا اور دستور کی حفاظت کروں گا … ایسے ہی آرٹیکل79میں ہے کہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ہر رکن کے لئے چارج سنبھالنے سے قبل ضروری ہے کہ وہ صدر کے سامنے ان الفاظ میں حلف اٹھائے کہ میں اللہ عظیم کی قسم اٹھاکرکہتا ہوں کہ صدر کا وفادار رہوں گا اور دستور کی حفاظت کروں گا …کویتی دستور کے آرٹیکل 126اور 91میں بھی اسی طرح ہے ۔سوال یہ ہے کیا یوسف علیہ السلام نے ایسا کچھ بھی کیا تھا؟اور فتنوں میں گرفتار ان لوگوں کی اس بات کا اعتبارنہیں جو کہتے ہیں کہ حلف اٹھاتے وقت ہم اپنے دل میں یہ مستثنیٰ کرلیتے ہیں کہ شرع کی حدود میں رہتے ہوئے کیونکہ قسم کااعتبار قسم اٹھانے والے کی نیت پر نہیں ہوتا کیونکہ اگر ایسا ہوتو لوگوں کے سارے ہی معاملات بگاڑ کاشکار ہوجائیں اور یہ عمل ایک کھیل بن جائے بلکہ قسم اٹھوانے والے کی نیت کے مطابق ہوتا ہے جیسا کہ نبی علیہ السلام نے فرمایاکہ :’’قسم حلف اٹھوانے والے کی نیت کے مطابق ہوگی‘‘لہٰذا ان کی قسمیں ان کی نیتوں کی تابع نہیں بلکہ اس طاغوت کی نیت کے مطابق ہوتی ہیں جو ان سے قسم اٹھواتا ہے )اب جو یوسف کریم ابن کریم کے متعلق اس طرح کی بدگمانی رکھے جبکہ اللہ نے انہیں اس سے بری قرار دہتے ہوئے فرمایاکہ :
کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓئَ وَ الْفَحْشَآئَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ۔ (یوسف:۲۴)
ایسے ہی تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائیوں کو پھیر دیں بے شک وہ ہمارے مخلص بندوں سے ہے۔

توبلاشبہ مخلوق میں سب سے بڑا کافر اور غلیظ شخص ہوا جس کا دین سے دور سے بھی واسطہ نہیں بلکہ وہ ابلیس ملعون سے بھی بدتر ہواکیونکہ اس نے بھی قسم کھاتے وقت چند لوگوں کو مستثنیٰ کیا:
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ،اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ۔ (ص:۸۲-۸۳)
پس تیری عزت کی قسم میں ان سب کو گمراہ کروں گا سوائے ان میں تیرے مخلص بندوں کے ۔

اور اللہ کے فرمان کے مطابق یوسف علیہ السلام ان مخلص بندوں کے سرداروں میں سے ہیں ۔

2 ان حکومتوں کے ماتحت وزیر بننے والادستور کے مطابق حلف اٹھائے یا نہ اٹھائے اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وضعی اور کفری قانون کا پابند رہے نہ اس سے تجاوز کرے نہ اس کی خلاف ورزی کرے لہٰذاوہ اس دستور کا مخلص بندہ اور خادم ہوا اور ان لوگوں کا تابعدار جنہوں نے اسے بنایاخواہ وہ حق ہو یا باطل فسق وظلم ہویا کفر…۔

توکیا یوسف علیہ السلام نے ایسا کچھ کیا کہ ان کے فعل کو کفری مناصب کے جواز کی دلیل بنایاجائے ؟یقینا جو بھی اللہ کے نبی ابن نبی ابن نبی ابن خلیل اللہ کے متعلق اس طرح کی معمولی سی بدگمانی بھی کرے ہم اس کے کفر وزندقہ اور اسلام سے خروج میں قطعاً شک نہیں کرسکتے کیونکہ اللہ نے فرمادیا کہ :
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔ (نحل:۳۶)
اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔

جبکہ یوسف علیہ السلام کے لئے اس کائنات میں اللہ کا بیان کردہ یہ اصول ہی سب سے بڑا اصول اور سب سے بڑی مصلحت تھی جیسا کہ دیگر انبیاء ورسل علیہم السلام کے لئے ہے ۔کیا یوسف علیہ السلام لوگوں کو مخفی طور پر اور تنگی اور کمزوری اور قوت وقدرت میں اس اصل کی طرف پہلے توخود دعوت دیں اور پھر خود ہی اس کی مخالت کرکے مشرکین میں سے ہوجائیں کیا عقل اسے مان سکتی ہے؟یہ کیونکر ممکن ہو جبکہ اللہ نے انہیں اپنے مخلص بندوں میں گردانا ہے
دینی مسائل پر ٹھوس دلائل کے ذریعے بات چیت ہوتی ہے نہ کہ جذباتیات اور ظن وتخمین کی بناء پر!

علاوہ ازیں بعض مفسرین اللہ کے فرمان:
مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ۔(یوسف:۷۶)
وہ بادشاہ کے دین میں ہرگز اپنے بھائی کونہ لے سکتا تھا۔

کو اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ وہ بادشاہ کے نظام اور قانون کو نہیں مانتے تھے نہ ہی ان کے مطابق فیصلے کرتے تھے ۔ توکیا آج کل کی وزارتوں اور پارلیمنٹوں میں ایسا ممکن ہے کہ کسی وزیر کی عادت ایسی ہو کہ یوں کہاجائے کہ اس نے ریاست کے اندر ریاست بنائی ہوئی ہے ؟لہٰذا ان مناصب کو یوسف علیہ السلام کے فعل پر قیاس کرتے ہوئے جائز کہنا باطل ہے ۔
عجیب! ایک آیت جو آپ کے مخالف ہے اسے آپ اپنے موقف کیلئے استعمال کر رہے ہیں ۔۔۔ آپ نے اس آیت کریمہ کا جو مفہوم بیان کیا ہے اصل مفہوم تو اس کے بالکل الٹ ہے۔

جو یہ ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام بادشاہ کے قانون کے مطابق تو اپنے بھائی بنیامین کو انکے بھائیوں کی رضامندی کے بغیر نہیں لے سکتے تھے الا ما شاء اللہ! (ورنہ اسی قانون کے مطابق لے لیتے) لہٰذا اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو دوسری تدبیر سجھادی ۔
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ان آیات کریمہ کی تشریح میں فرماتے ہیں:
’’یعنی بادشاہ کا مصر میں جو قانون اور دستور رائج تھا ، اس کی رو سے بنیامین کو اس طرح روکنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے اہل قافلہ سے ہی پوچھا کہ بتلاؤ اس جرم کی کیا سزا ہو؟‘‘
3 یوسف علیہ السلام اس وزارت پر منجانب اللہ ،اللہ کی قدرت سے فائز ہوئے ارشاد فرمایا:
وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ۔(یوسف:۵۶)
اورایسے ہی ہم نے یوسف کو زمین پر حکومت عطاکی ۔

اور یہ تمکن اللہ کی طرف سے ہوا نہ کہ بادشاہ یا کسی اور کی طرف سے کہ وہ ان کو اس منصب سے معزول کرسکے خواہ وہ بادشاہ کی مخالفت کرتے رہیں ۔توکیا آج کل کے ان طاغوتی عہدیداروں کے پاس اس طرح کا کچھ اختیارہے کہ یوسف علیہ السلام کی تمکین وولایت پر انہیں قیاس کرنا درست ہوسکے؟
یہ موضوع تو زیر بحث ہی نہیں نہ ہی اس میں کسی کو اختلاف ہے کہ اصل اختیارات کے مالک اللہ رب العٰلمین ہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو جو اقتدار عطا کیا وہ اقتدار سیدنا یوسف علیہ السلام کو کیسے ملا؟؟؟ (جواب یہ ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے کفریہ حکومت میں (نیک مقاصد کے تحت) عہدہ طلب کرنے سے یا بادشاہ کی پیشکش قبول کرکے)

سوم: اس باطل شبہہ کے ردّ میں بعض مفسرین کا یہ قول بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ بادشاہ اسلام لے آیاتھا جیسا کہ مجاہد تلمیذ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس قول کے مطابق اس مقدمے سے دلیل لینا ہی اصلاً باطل ہوجاتا ہے ۔نیز ہمارا طریقہ اور عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کے ظاہر اور عموم کی اتباع مختلف تفسیرات اور رقیق تشکیکات وتاویلات سے بدرجہ اولیٰ ہے کیونکہ بہر طور وہ ادلہ معتبر ہ سے عاری ہوتی ہیں اب جس آیت سے یہ قول پایہ ثبوت کو پہنچتا ہے وہ یہ ہے فرمایا:
وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ۔(یوسف:۵۶)
اورایسے ہی ہم نے یوسف کو زمین پر حکومت عطاکی ۔
تقریباً تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے کافر حکومت میں عہدہ لیا۔ جس سے درج بالا قول کا ضعف ثابت ہوجاتا ہے، ملاحظہ ہو۔ تفسیر طبری، بغوی، قرطبی، فتح القدیر وغیرہ
تفسیر طبری میں ہے:
حدثني يونس قال : أخبرنا ابن وهب قال قال ابن زيد في قوله : ( اجعلني على خزائن الأرض ) ، قال : كان لفرعون خزائن كثيرة غير الطعام قال : فأسلم سلطانه كله إليه ، وجعل القضاء إليه ، أمره وقضاؤه نافذ .
یہاں عزیز مصر کو فرعون قرار دیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کافر تھا۔

امام قرطبی نے لکھتے ہیں: في هذه الآية ما يبيح للرجل الفاضل أن يعمل للرجل الفاجر ، والسلطان الكافر ، بشرط أن يعلم أنه يفوض إليه في فعل لا يعارضه فيه ،
کہ ایک عالم فاضل شخص کیلئے جائز ہے کہ وہ فاجر شخص اور کافر بادشاہ کیلئے کام کرے بشرطیکہ اسے مکمل اختیار دے دیا جائے ۔۔۔۔

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وقد استدل بهذه الآية على أنه يجوز تولي الأعمال من جهة السلطان الجائر بل الكافر لمن وثق من نفسه بالقيام بالحق
اس آیت کریمہ سے استدلال کیا گیا ہے کہ ظالم بلکہ کافر سلطان کی حکومت میں عہدہ لینا جائز ہے اس شخص کیلئے جسے اپنے اوپر اعتماد ہو کہ وہ حق پر قائم رہے گا۔

ویسے بھی آیت کریمہ مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ۔(یوسف:۷۶) سے اشارہ ملتا ہے کہ بادشاہ مسلمان نہیں ہوا تھا وگرنہ اگر وہ مسلمان ہوا ہوتا تو پھر بادشاہ کا قانون نہ چلتا بلکہ اللہ کا قانون چلتا۔ اور اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام بھی ان قوانین کے پابند تھے۔ واللہ اعلم!
اور اگر بادشاہ واقعی ہی مسلمان ہوگیا ہوتا تو یہ اتنی اہم بات تھی جسے سورۃ یوسف میں صراحت سے ذکر ہونا چاہیے تھا، کیونکہ معروف قاعدہ ہے: تأخير البيان عن وقت الحاجة لا يجوز جیسے اللہ رب العٰلمین نے سیدنا سلیمان علیہ السلام ملکۂ سبا کے قصہ کے آخر میں ملکۂ سبا کے اسلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: قالت رب إني ظلمت نفسي وأسلمت مع سليمٰن لله رب العٰلمين ۔۔۔ سورة النمل

ایسے ہی اللہ کے فرمان:
وَ قَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖٓ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِیْ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔(یوسف:۵۴)
بادشاہ نے کہا تم اسے میرے پاس لاؤ میں اسے اپنے لئے خاص کرلوں پھر جب انہوں نے اس سے گفتگو کی تو وہ کہنے لگا آج آپ ہمارے پاس محفوظ مہمان ہیں۔

آپ کے خیال میں یوسف علیہ السلامنے اس سے کیا گفتگوکی ہوگی کہ متاثر ہوکر اس نے آپ کو حکومت کی پیشکش کردی ؟کیا عزیز مصر کی بیوی کا قصہ سنایا ہوگاجو کہ اپنے اختتام کو بخیروخوبی پہنچ چکا تھایا ملکی اتحاد یا اقتصادی مشکلات سے متعلق یا کچھ اور ؟غیب دانی کا دعویٰ توکوئی نہیں کرسکتا البتہ دلیل کے ساتھ بات سچاکرتا ہے سو جو اللہ کے فرمان{ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ }’’پھر جب انہوں نے اس سے گفتگو کی ‘‘کے اجمال کو اللہ کا یہ فرمان مدد کرتا ہے۔فرمایا:
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔ (نحل:۳۶)
اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔

نیز:
وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَ اِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔(زمر:۶۵)
اور البتہ آپ کی اور آپ سے پہلے والوں کی طرف یہ وحی کی گئی کہ اگرتونے شرک کرلیا توتیرے سارے عمل برباد ہوجائیں گے اور تو ضرور نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔

نیزیوسف علیہ السلام کی ترجیحی دعوت سے متعلق اللہ کا یہ فرمان:
اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ ہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ ٰابَآئِیْٓ اِبْرَاہِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ مَا کَانَ لَنَآ اَنْ نُّّشْرِکَ بِاﷲِ مِنْ شَیْئٍ ۔(یوسف:۳۷-۳۸)
یقینا میں نے ان لوگوں کے دین کو چھوڑ دیا جو اللہ پر یقین نہیں رکھتے اور وہ آخرت کے منکر ہیں اور میں نے اپنے آباء ابراہیم واسحاق ویعقوب کی اتباع کی ہے ہمارے لئے اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک کرنا ہرگزجائز نہیں ہے ۔

نیز:
ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ، مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَ ٰابَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اﷲُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔(یوسف:۳۹-۴۰)
کیا بہت سے مختلف رب بہتر ہیں یا ایک غالب اللہ کے سوا تم محض ناموں کی عبادت کرتے ہوجو تم نے اورتمہارے آباء نے رکھ لئے اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری حکم صرف اللہ ہی کا حق ہے اس نے حکم دیا کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی سیدھا دین لیکن اکثر لوگ نابلد ہیں ۔

یقینا یوسف علیہ السلام کے نزدیک سب سے معیاری گفتگو اور ان کی اور ان کے آباء کی دعوت کا سب سے بنیادی اصول یہی ہے یہی سب سے بڑا معروف اور جو چیز اس کے متضاد ہو وہی سب سے بڑا منکر ہے اس بات کے تقرر وتعین کے بعد کہ یوسف علیہ السلامنے ان سے کیاگفتگو کی تھی بادشاہ کا یہ جواب کہ: {اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ}’’یقینا آج آپ ہمارے محفوظ مہمان ہیں ‘‘بڑی ہی واضح دلیل ہے کہ بادشاہ نے ان کی تابعداری اختیار کرلی تھی اور دین کفر کوترک کرکے ملت ابراہیمی کا پیروبن چکاتھا اور پھر انہیں ہرطرح کے کلام اور دعوت کی مکمل آزادی دے دی تھی اور اس بات کی بھی کہ اس دعوت ے مخالفین کی سرکوبی کریں …تویوسف علیہ السلام کی حالت اور عصر حاضر کے طاغوتی مفتون وزراء کی حالت میں فرق کرنے کے لئے فقط اتنا ہی کافی ہے
اس ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے فرعون مصر کو اسلام کی دعوت دی اور اس نے اسلام قبول کر لیا۔
اس کا جواب اوپر آچکا ہے۔
عرض یہ ہے کہ احتمالات کی بناء پر یہ فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ آیات میں تو یہ موجود ہی نہیں تو آپ نے ان آیات کریمہ سے یہ نتیجہ کیسے اخذ کر لیا؟ جیل کے ساتھیوں کو سیدنا یوسف نے دعوت الی الاسلام دی تھی، جس کا ذکر سورۃ یوسف میں صراحت سے موجود ہے۔ لیکن یہاں ایسی کوئی صراحت موجود نہیں۔مفسرین کرام رحمہم اللہ بھی ان آیات کریمہ سے یہ نہیں سمجھے بلکہ سب مفسرین نے ان آیات کی تفسیر میں اس مسئلے پر بحث کی ہے کہ کافر سلطان اور فاجر شخص کیلئے کام کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ جبکہ کچھ مفسرین اسے شرع من قبلنا سے قبیل سے قرار دیتے ہیں۔ امام قرطبی رحمہ اللہ اس کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
في هذه الآية ما يبيح للرجل الفاضل أن يعمل للرجل الفاجر ، والسلطان الكافر ، بشرط أن يعلم أنه يفوض إليه في فعل لا يعارضه فيه ، فيصلح منه ما شاء ; وأما إذا كان عمله بحسب اختيار الفاجر وشهواته وفجوره فلا يجوز ذلك . وقال قوم : إن هذا كان ليوسف خاصة ، وهذا اليوم غير جائز ; والأول أولى إذا كان على الشرط الذي ذكرناه . والله أعلم
کہ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک عالم فاضل شخص کیلئے جائز ہے کہ وہ فاجر شخص اور کافر بادشاہ کیلئے کام کرے بشرطیکہ اسے مکمل اختیار دے دیا جائے ۔۔۔۔ جبکہ بعض کا خیال یہ ہے کہ یہ سیدنا یوسف علیہ السلام کیلئے جائز تھا، ہمارے لئے نہیں (یعنی ہماری شریعت میں نہیں) پہلا قول ہی راجح ہے اگر اس میں وہ شرط پائی جائے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔
مزید فرماتے ہیں:
إن يوسف - عليه السلام - إنما طلب الولاية لأنه علم أنه لا أحد يقوم مقامه في العدل والإصلاح وتوصيل الفقراء إلى حقوقهم فرأى أن ذلك فرض متعين عليه فإنه لم يكن هناك غيره ، وهكذا الحكم اليوم ، لو علم إنسان من نفسه أنه يقوم بالحق في القضاء أو الحسبة ولم يكن هناك من يصلح ولا يقوم مقامه لتعين ذلك عليه ، ووجب أن يتولاها ويسأل ذلك ، ويخبر بصفاته التي يستحقها به من العلم والكفاية وغير ذلك ، كما قال يوسف - عليه السلام - : فأما لو كان هناك من يقوم بها ويصلح لها وعلم بذلك فالأولى ألا يطلب
جس کا مفہوم یہ ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے یہ عہدہ اس لئے طلب کیا تھا کہ انہیں معلوم تھا کہ کوئی شخص ایسا موجود نہیں جو اس کام کو ان سے بہتر انداز سے کر سکے، لہٰذا انہوں نے عہدہ طلب کیا اور آج بھی اسی عمل کیا جائے گا ۔۔۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وسأل العمل لعلمه بقدرته عليه ، ولما في ذلك من المصالح للناس
انہوں نے عہدہ کی طلب اس لئے کی کہ وہ اس کے اہل تھے اور اس لئے کہ اس میں لوگوں کی مصلحت تھی۔
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
چہارم: گذشتہ بحث سے جب یہ حقیقت عیاں ہوچکی کہ یوسف علیہ السلام توحید کی مخالفت کرکے یا دین ابراہیمی کو پس پشت ڈال کر وزیر نہیں بنے تھے جیسا کہ آج کل بنتے ہیں تواب اگر یہ مان لیاجائے کہ بادشاہ اپنے کفر پر باقی رہا تھا تو یوسف علیہ السلام کی وزارت اس صورت میں ایک فرعی مسئلہ کی شکل اختیار کرجائے گی جس کااصول دین سے کچھ بھی تعلق نہ ہو جیسا کہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ یوسف علیہ السلام سے شرک وکفر یا کفار سے تعلقات یا اللہ کے ساتھ قانون سازی وغیرہ نواقض ایمان کچھ بھی صادر نہ ہوا تھا بلکہ آپ ہمہ وقت توحید کاپرچار اور شرک کی تردید کرتے رہے۔اور اللہ تعالیٰ فروعی مسائل کے متعلق فرماتا ہے کہ:{لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْہَاجًا}(مائدہ:۴۸)’’او رہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے (الگ)شریعت اورمنہج بنایاہے‘‘لہٰذا انبیاء کی شریعتیں احکام فروعی میں تومختلف ہوتی ہیں البتہ اصول دین میں متفق و متحد جیسا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:’’ہم انبیاء کی جماعت علاتی (باپ ایک ماں الگ )بھائی ہیں ہمارا دین ایک ہے ۔بخاری عن ابی ہریرہ t)یعنی اصول دین توحید وغیرہ میں ایک ہیں البتہ شریعت کے مسائل واحکام میں مختلف ہیں ہم سے پہلے کی شریعت میں ایک شئے حرام ہو پھر ہمارے لئے حلال ایسا ممکن ہے مثلامال غنیمت کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے یاہم سے پہلے والوں پر سختی ہو پھر ہمارے لئے نرمی کردی جائے لہٰذا گزشتہ شریعت کی ہربات ہمارے لئے شریعت نہیں خاص طور پر جبکہ ہماری شریعت میں اس کے خلاف دلیل بھی ہو اور ہماری شریعت میں اس عمل کی حرمت پر دلیل موجود ہے جو یوسف علیہ السلام کی شریعت میں حلال تھا۔ابن حبان،ابویعلیٰ اورطبرانی نقل کرتے ہیں کہ’’ نبی علیہ السلام نے فرمایا:تم پر بے وقوف حاکم آئیں گے جو بدترین لوگوں کو قریب کریں گے اور نماز تاخیر سے پڑھیں گے سو تم میں سے جو ایسا وقت پائے وہ ہرگز کوئی ناظم یا سپاہی یا ٹیکس آفیسر یا خزانچی نہ بنے)اور راجح بات یہ ہے کہ ان حکمرانوں سے فاسق امراء مراد ہیں جو کافر نہ ہوں کیونکہ ڈرانے والا جب کسی چیز سے ڈراتا ہے تو عام طور پر اس چیزکا سب سے براپہلو بیان کرتاہے لہٰذا اگر وہ کافر ہوتے تو آپ ضرور بتاتے جب کہ آپ نے ان کی سب سے بڑی برائی یہ بیان کی کہ وہ بدترین لوگوں کو قریب کریں گے اورنماز تاخیر سے پڑھیں گے اس کے باوجود نبی uنے واضح طور پر منع فرمایا کہ کوئی ان کا خازن یعنی خزانچی بنے توجب فاسق حاکم کا خزانچی بننا ہماری شریعت میں حرام ہوتو کسی کافر کا وزیر خزانہ بننا کس طرح جائز ہوسکتاہے لہٰذا یوسف علیہ السلام کا تقاضاکہ :{قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ}(یوسف:۵۵)’’تومجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردے کیونکہ میں محافظ اور ماہر ہوں‘‘اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ ان کی شریعت میں جائز تھا لیکن ہماری شریعت میں منسوخ ہے۔واللہ تعالی اعلم
اس کے جواب میں پیچھے امام قرطبی کا قول گزر چکا ہے، ویسے بھی اگر یہ اتنی سیدھی بات ہوتی تو علماء ومفسرین کرام رحمہم اللہ کو اس کے متعلق اتنی لمبی بحثیں کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جان چھڑانے کیلئے سیدھا کہہ دیتے کہ یہ پرانی شریعت کا مسئلہ ہے جو ہماری شریعت میں جائز نہیں۔

نوٹ : مشہور سلفی عالم حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے بھی اپنی مایہ ناز تفسیر احسن البیان میں اس بات کو راحج قرار دیا ہے کہ وہ بادشاہ یوسف علیہ السلام کی تبلیغ سے متاثر ہوکر مسلم ہوگیا تھا۔ دیکھئے احسن البیان
مجھے احسن البیان میں یہ بات نہیں ملی کہ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے اس بات کو راجح قرار دیا ہو کہ بادشاہ مسلمان ہوگیا تھا۔ ازراہ کرم اپنے دعوے کا ثبوت پیش کریں۔

البتہ حافظ صاحب نے ذاتی رائے کی بجائے بعض کی نسبت کرتے ہوئے ایک قول ذکر کیا ہے کہ بادشاہ مسلمان ہوگیا تھا۔ (احسن البیان ص ٦٥٨)

چونکہ آپ نے حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کا حوالہ دیا ہے تو انہوں نے بھی اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ یہ حکم پرانی شریعت ہونے کی بناء پر منسوخ نہیں بلکہ اس پر آج بھی عمل ہوسکتا ہے۔ حافظ صاحب حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
عام حالات میں اگرچہ عہدہ ومنصب کے طلب کی اجازت نہیں ہے لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے اس اقدام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاص حالات میں اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ قوم اور ملک کو جو خطرات درپیش ہیں اور ان سے نمٹنے کی اچھی صلاحتیں میرے اندر موجود ہیں جو دوسروں میں نہیں ہیں، تو وہ اپنی اہلیت کے مطابق اس مخصوص عہدے اور منصب کی طلب کر سکتا ہے۔ (احسن البیان: ص ٦٥٧)
 
Top