جناب الیاس ستار صاحب قطعا منکر حدیث نھی ایک دفعہ میں خود ان سے یہ سوال کیا تو جناب الیاس ستار صاحب نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ دیکھو میں کیسے منکر حدیث ہو جب میں رفع یدین کرتاھو نماز میں تو یہ رفع یدین قرآن شریف میں کھاھے یہ تو میں حدیث کی وجہ سے کررھا ھو میں پانچے اوپر رکھتا ھو یہ قرآن شریف میں کھا لکھا ھواھے یہ تو حدیث میں ھے اسی طرح انھوں نے بھت سارے مثالیں مجھے بتادییے قاریین جناب الیاس ستار صاحب نے فرمایا میں ھرصحیح حدیث کو مانتا ھو جو قرآن شریف کے خلاف نا ھو
امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ کوئی صحیح حدیث قرآن پاک کے متضاد نہیں ہو سکتی۔
میرے بھائی! جو لوگ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کو اللہ کی کلام نہیں سمجھتے (مثلاً مستشرقین) تو وہ آیات قرآنیہ یا احادیث مبارکہ کا آپس تضاد دکھا کر انہیں ردّ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، یہی کام منکرین حدیث کا ہے، وہ احادیث کا قرآن سے تضاد دکھاتے ہیں، حالانکہ یہ تضاد ان کے فہم کا ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر قرآن وحدیث دونوں اللہ کی طرف سے ہیں تو ان میں کبھی تضاد نہیں ہو سکتا ۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ٨٢ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے (
82)
ثابت ہوا کہ جو چیز اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، اس میں کبھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔
نبی کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے
قرآن کریم کی مخالفت کرنے کیلئے مبعوث نہیں فرمایا تھا، بلکہ اس لئے آپ کو نبی بنایا تھا کہ آپ امت کو قرآن بھی پہنچائیں اور پھر اس قرآن کریم کی تشریح بھی امت کے سامنے واضح کریں! فرمانِ باری ہے:
﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ٤٤ ﴾ ۔۔۔ سورة النحل کہ یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وه غور وفکر کریں (
44)
الله تعالیٰ نے آپﷺ تک قرآن پہنچانے کی ذمہ داری بھی خود اٹھائی تھی اور پھر اس کی تشریح آپ تک وحی کرنے کی ذمہ داری بھی خود ہی لی تھی، لہٰذا
قرآن کریم بھی وحی ہے، اس کی
تشریح (احادیث مبارکہ) بھی اللہ کی طرف وحئ الٰہی ہے، فرمانِ باری ہے:
﴿ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ١٦ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ١٧ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ١٨ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ١٩ ﴾ ۔۔۔ سورة القيامة کہ (اے نبی) آپ قرآن کو جلدی (یاد کرنے) کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں (
16) اس کا جمع کرنا اور (آپ کی زبان سے) پڑھنا ہمارے ذمہ ہے (
17) ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں (
18) پھر
اس کا واضح کر دینا ہمارے ذمہ ہے (
19)
لہٰذا قرآن کریم اور احادیث میں آپس میں تعلق
ٹکراؤ اور مخالفت کا نہیں بلکہ اجمال وبیان، اور تشریح وتبیین کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ حدیث کو قرآن پر پیش کرو اور جو قرآن سے مخالف ہو اسے ردّ کر دو، نہ ہی کبھی صحابہ کرام نے ایسا کیا کہ انہیں نبی کریمﷺ کے کسی کام کا حکم دیا ہو اور انہوں نے جواب میں یہ کہہ کر انکار کر دیا ہو کہ نہیں ہم نہیں مانتے، آپ کا یہ حکم قرآن کے مخالف ہے۔
بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں یہ حکم دیا ہے:
﴿ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ٧ ﴾ ۔۔۔ سورة الحشر
اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے (
7)
نیز فرمایا:
﴿ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ٣٦ ﴾ ۔۔۔ سورة الأحزاب
اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وه صریح گمراہی میں پڑے گا (
36)
قاریین جناب الیاس ستار صاحب کا ایک معمول ہے کہ وہ ھر نییے کام شروع کرنے سے اللہ تعالی کے تمام نام بسم اللہ کے بعد برکت کیلیے ضرورپڑھ لیتے ہیں ان کی پاس اسماے حسنی کے کارڈ ہے اب جناب الیاس ستار صاحبنے فرمایا کہ اللہ تعالی کے یہ ننانوے نام قرآن شریف میں تو نھی یہ تو حدیث مبارکہ سے ثابت ہے اس لیے میں پڑھتا ھو بلکہ انھوں نے فرمایا کہ یہ میں صحیح مسلم شریف کی حدیث کی وجہ سے پڑھ رھاھو اڑتیس سال سے ان کا یھی معمول ھے کہ ھر صبح کا آغاز صحیح مسلم شریف کی اس حدیث کے وجہ سے اللہ تعالی کے ننانوے نام کی وجہ سے کردیتے ہیں اسی طرح اسماے حسنی کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ کچھ احادیث کے بھی کارڈ ہیں جو ان کو بھی ھمیشہ پڑھتے رھتے ھیں تو ایسا پاکیزہ انسان منکر حدیث کیسے ھوسکتا ھے ؟؟ ایسے لوگ جو ان پر منکر حدیث ھونے کا الزام لگاتے ہیں ان کو فورا توبہ کرنا چاھیے اور ان کو اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرنا چاھیے
سبحان اللہ! کیا زبردست دلیل ہے منکر حدیث نہ ہونے کی؟؟؟
ویسے کیا یہ عمل مسنون ہے؟؟؟