• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جنت پکارتی ہے

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۱۷) وَ مَنْ یَّاْتِہٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِِ فَاُولٰٓئِکَ لَہُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰیلاo جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَاط وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰی ع o
''اور جو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے پیش ہوگا اور اس نے نیک عمل کئے ہوں گے ایسے تمام لوگوں کے لئے بلند درجے اور سدا بہار باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ جزا ہے ان لوگوں کی جنہوں نے (دنیا کی زندگی میں) تزکئے کا رویہ اختیار رکھا۔ (پارہ۱۶۔ طٰہٰ ۷۵۔۷۶)
(۱۸) اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓیلا اُولٰٓئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَلاo لاَیَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَہَاج وَ ہُمْ فِیْ مَا اشْتَہَتْ اَنْفُسُہُمْ خٰلِدُوْنَ ج o لاَیَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ وَ تَتَلَقّٰہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ط ہٰذَا یَوْمُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o
''رہے وہ لوگ جن کے لئے ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہوگا تو وہ یقینا اس (جہنم) سے دور رکھے جائیں گے۔ وہ وہاں اس کی سرسراہٹ تک نہ سن سکیں گے۔ اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں کے درمیان ہوں گے۔ انتہائی گھبراہٹ کا وہ وقت انہیں ذرا پریشان نہ کرے گا اور ملائکہ بڑھ کر انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے (اور کہیں گے) کہ ''یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔'' (پارہ۱۷۔ انبیاء۔۱۰۱۔۱۰۳)
وضاحت: یہاں جہنم سے محفوظ رہنے کی ایک مختصر کیفیت بیان کی گئی ہے۔ نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فرشتے ساکنانِ جنت کو بڑھ کر ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ جنتیوں کے درجات بلند کرنے کے لئے وہاں کس کس طرح اہتمام کیا جا رہا ہوگا۔ حتیٰ کہ دوزخ کی سرسراہٹ سے بھی جنتیوں کو محفوظ رکھا جائے گا تاکہ ان پر خوف اور غم غالب نہ ہو۔ موجودہ اور گزری ہوئی تمام آیتوں میں اسی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔
(۱۹) اِنَّ اﷲَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْھَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّ لُؤْلُؤًاط وَ لِبَاسُہُمْ فِیْھَا حَرِیْرٌ o وَ ہُدُوْآ اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِصلے ج وَ ہُدُوْآ اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ o
''جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے، انہیں اللہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ وہاں وہ سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کئے جائیں گے جب کہ ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔ کیونکہ انہیں پاکیزہ بات قبول کرنے کی ہدایت بخشی گئی اور انہیں خدائے ستودہ صفات کا راستہ دکھایا گیا۔ (پارہ ۱۷۔ حج ۲۳۔۲۴)
(۲۰) اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ یَوْمَئِذٍ خَیْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَّ اَحْسَنُ مَقِیْلاً o
''بس وہی لوگ اس دن عمدہ مقام پر ٹھہریں گے جو جنت کے مستحق ہوں گے اور دوپہر گزارنے کو وہ عمدہ جگہ پائیں گے۔'' (پارہ ۱۹۔ فرقان۔۲۴)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وضاحت: دوپہر کا وقت عموماً تپش اور لُو کا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس موقع پر انہیں اس عذاب سے بھی بچالے گا۔ یہ بات اسی کو بہتر طورپر معلوم ہے کہ جنت میں دوپہر ہونے سے اس کی کیا مراد ہے؟
(۲۱) وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ لا o
''اور جنت متقیوں کے قریب لے آئی جائے گی۔'' (پارہ ۱۹۔ شعراء ۹۰)
وضاحت: جنت میں داخل ہونے کے لئے متقیوں کو پیدل چل کر نہیں جانا پڑے گا بلکہ جنت خود ان کے قریب لے آئی جائے گی۔ اللہ اللہ یہ اہتمام کہ صالح بندوں کو چلنے پھرنے کی بھی تکلیف نہ اُٹھانی پڑے۔
(۲۲) مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیْرٌ مِّنْہَاج وَ ہُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍ اٰمِنُوْنَ o
''جو شخص بھلائی لے کر آئے گا، اسے اس سے زیادہ صلہ ملے گا، اور ایسے لوگ اس دن کے ہول سے محفوظ ہوں گے۔'' (پارہ ۲۰۔ نمل ۸۹)
وضاحت: رب کائنات ضمانت دے رہا ہے کہ نیک بندوں کو وہ ان کی توقعات سے بڑھ کر صلہ دے گا۔ نیز اس دن وہ انہیں حشر اور جہنم کی ان تمام تر ہولناکیوں سے محفوظ رکھے گا جو بدکار اور متکبرین کا انجام ہے۔
(۲۳) تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لاَ یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلاَ فَسَادًاط وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ o
''آخرت کا گھر تو ہم نے ان لوگوں کے لئے مخصوص کردیا ہے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے، اور نہ ہی فساد برپا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اچھا انجام تو متقیوں ہی کے لئے وقف ہے۔'' (پارہ ۲۰ ۔ قصص ۸۳)
وضاحت: جنت کی زمین تو محض عاجزی کرنیوالوں اور امن قائم رکھنے والوں کیلئے ہے، متکبرین اور مفسدوں کیلئے نہیں۔ عاجز اور پرامن افراد کیلئے اللہ نے جنت وقف کردی ہے۔
(۲۴) وَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَ لَنَجْزِیَنَّہُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o
'' جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کئے ہیں، جنت میں ہم انہیں بلند و بالا عمارتوں میں رکھیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہاں وہ ہمیشہ کیلئے رہیں گے۔ تو کتنا اچھا اجر ہے یہ عمل کرنے والے لوگوں کیلئے۔'' (پارہ۲۰۔ عنکبوت۔۷)
وضاحت: اہل جنت کیلئے باغ اور بلند و بالا عمارتوں کی بھی پیشکش کی گئی ہے، اب یہ عمارتیں کتنی بلند ہونگی، اس کا جواب اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ پچاس ساٹھ منزلہ پلازہ ہوںیا اس سے بھی اونچی۔ دنیا میں جو لوگ مکان سے بالکل محروم رہے، آخرت میں انہیں پلازہ اور کمپلیکس نصیب ہوں گے۔ سبحان اللہ کیا شان ہے جنتیوں کی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۲۵) فَاَمَّا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِِ فَہُمْ فِیْ رَوْضَۃٍ یُّحْبَرُوْنَ O
''جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کئے ہیں، وہ ایک باغ میں شاداں و فرحاں رکھے جائیں گے۔'' (پارہ ۲۱۔ روم ۱۵)
(۲۶) جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا یُحَلَّوْنَ فِیْھَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّ لُؤْلُؤًاج وَلِبَاسُہُمْ فِیْھَا حَرِیْرٌ O وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ط اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَکُوْرُ لاO نِ الَّذِیْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَۃِ مِنْ فَضْلِہٖج لاَیَمَسُّنَا فِیْھَا نَصَبٌ وَّ لاَ یَمَسُّنَا فِیْھَا لُغُوْبٌ O
''اہل ایمان کے لئے ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے۔ وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا۔ وہاں ان کا لباس ریشم کا ہوگا۔ اور وہ کہیں گے کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کردیا۔ یقینا ہمارا رب معاف کرنے والا اور قدر فرمانے والا ہے جس نے ہمیں اپنے فضل سے ابدی قیام کی جگہ میں ٹھہرایا۔ اب یہاں ہمیں نہ تو کوئی مشقت پیش آتی ہے، نہ کوئی تھکان لاحق ہوتی ہے۔'' (پارہ ۲۲۔ فاطر ۳۳۔۳۵)
وضاحت: ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مومنوں کو جنت میں باقاعدہ ڈیکوریٹ کیا جائے گا اور انہیں ایوارڈز دیئے جائیں گے۔ یہ ایوارڈز انہیں ریشم کے لباس اور سونے و موتی کے کنگنوں کی صورت میں ملیں گے۔ اہل جنت جب یہ کہیں گے کہ ہمارا رب ہمیں معاف کرنے والا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے ہماری چھوٹی بڑی تمام خطائیں معاف کردیں اور ان کا احتساب نہیں کیا۔
(۲۷) اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فَاکِہُوْنَجO ہُمْ وَ اَزْوَاجُہُمْ فِیْ ظِلٰلٍ عَلَی الْاَرَآئِکِ مُتَّکِئُوْنَجO لَہُمْ فِیْھَا فَاکِہَۃٌ وَّ لَہُمْ مَّا یَدَّعُوْنَصلے جO سَلٰمٌ قف قَوْلاً مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ O
''آج جنتی لوگ مزے کرنے میں مشغول ہیں۔ وہ اور ان کی بیویاں (i)گھنے سایوں میں ہیں (ii) مسندوں پر تکئے لگائے بیٹھے ہیں (iii) ان کے کھانے پینے کے لئے ہر قسم کی لذیذ چیز وہاں موجود ہے (iv) جو کچھ وہ طلب کریں گے، وہ ان کے لئے حاضر ہے، اور (v) رب رحیم کی طرف سے انہیں سلام کہا گیا ہے۔'' (پارہ ۲۳۔ یس ٓ ۵۵۔۵۸)
وضاحت: اگر کسی کو خوشیاں اور راحتیں میسر ہوں، ایک وسیع و عریض جائیداد ان کی ملکیت میں ہو اور حسین و خوشنما مناظر آنکھوں کے سامنے دور دور تک پھیلے ہوئے ہوں تو دل خود بخود شریک ِ حیات کو طلب کرنے لگتا ہے۔ ''کاش میرے ساتھ میرے بیوی بچے بھی موجود ہوں۔ وہ جن کے لئے میں زندگی بھر جدوجہد کرتا رہا۔'' اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر کیا ہے کہ ایسے موقعوں پر نیک بیویاں بھی اہالیانِ جنت کے ہمراہ ہوں گی تاکہ خوشیوں کا لطف دوبالا ہوسکے۔ کسی اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے صالح اولاد کو بھی والدین کے ساتھ ملا دینے کا ذکر کیا ہے۔ غرض ایسا انتظام کیا ہے کہ مایوسی و غم کا کہیں سے بھی گزر نہ ہوسکے۔ آخر میں پروردگار یعنی رب رحیم ان کے اعزاز میں خود سلام پیش کرے گا تاکہ عزت افزائی اپنی بلندیوں پر پہنچ جائے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۲۸) اِلَّا عِبَادَ اﷲِ الْمُخْلَصِیْنَ o اُولٰٓئِکَ لَہُمْ رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌلاo فَوَاکِہُج وَہُمْ مُّکْرَمُوْنَلاo فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِلاo عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ o یُطَافُ عَلَیْہِمْ بِکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍملاo بَیْضَآئَ لَذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَج صلےo لاَفِیْھَا غَوْلٌ وَّلاَہُمْ عَنْہَا یُنْزَفُوْنَ o وَ عِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِیْنٌلاo کَاَنَّہُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ o
''اللہ کے چیدہ بندے (اس انجام بد سے) محفوظ ہوں گے۔ ان کے لئے (وہاں) جانا بوجھا رزق ہے۔ ہر طرح کی لذیذ چیزیں اور (ان کے علاوہ) نعمت بھری جنتیں جن میں وہ عزت کے ساتھ رکھے جائیں گے۔ پھر وہ تختوں پر آمنے سامنے بیٹھیں گے، شراب کے چشموں سے بھر بھر کے ساغران کے درمیان گردش کرائے جائیں گے۔ ایسی چمکتی ہوئی شراب جو پینے والوں کے لئے لذت کا سبب ہوگی۔ اس سے نہ ان کی عقل خراب ہوگی اور نہ ان کے جسم کو کوئی ضرر پہنچے گا۔ اور ان کے پاس نگاہیں بچانے والی خوبصورت آنکھوں والی عورتیں ہوں گی۔ ایسی نازک جیسے انڈے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی۔'' (پارہ ۲۳۔ صافات ۴۰۔۴۹)
وضاحت: یہاں جنت کی نعمتوں کا ایک بار پھر تفصیلی بیان کیا گیا ہے۔ یہاں ایک ایسی شراب کا تعارف پیش کیا گیا ہے جس کے اندر چمک پائی جاتی ہے۔ نیز آنکھوں کی خوبصورتی کے علاوہ جنتی عورتوں کی ایک اور خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اتنی نازک ہوں گی جتنی انڈے کی جھلی نازک ہوتی ہے۔ یعنی ہر قسم کی نزاکت ان پر ختم ہو گی۔
(۲۹) فَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَآئَلُوْنَ o قَالَ قَآئِلٌ مِّنْہُمْ اِنِّیْ کَانَ لِیْ قَرِیْنٌ لاo یَّقُوْلُ اَئِنَّکَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِیْنَo ئَ اِذَا مِتْنَا وَ کُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ئَ اِنَّا لَمَدِیْنُوْنَ o قَالَ ہَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ o فَاطَّلَعَ فَرَاٰہُ فِیْ سَوَآئِ الْجَحِیْمِ o قَالَ تَاﷲِ اِنْ کِدْتَّ لَتُرْدِیْنِلاo وَ لَوْ لاَنِعْمَۃُ رَبِّیْ لَکُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ o اَفَمَا نَحْنُ بِمَیِّتِیْنَ لاo اِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰی وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ o اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o لِمِثْلِ ہٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ o
''پھر وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر حالات پوچھیں گے۔ ان میں سے ایک کہے گا کہ دنیا میں میرا ایک ہم نشین تھا جو مجھ سے کہا کرتا تھا کہ کیا تم بھی تصدیق کرنے والوں میں سے ہو؟ کیا واقعی جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے او رہڈیوں کا پنجر رہ جائیں گے تو ہمیں جزا و سزا دی جائے گی؟ تو اب کیا آپ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ صاحب کہاں ہیں؟ یہ کہہ کر جونہی وہ ـ(جنتی) جھکے گا تو اسے جہنم کی گہرائی میں دیکھ لے گا اور اس سے مخاطب ہو کر کہے گا کہ خدا کی قسم تونے تو مجھے تباہ ہی کردیا ہوتا۔ اگر خدا کا فضل میرے ساتھ شامل نہ ہوتا تو تو مجھے تباہ ہی کردینے والا تھا۔ میرے رب کا فضل اگر میرے ساتھ شامل نہ ہوتا تو آج میں بھی ان لوگوں میں سے ہوتا جو (یہاں) پکڑے ہوئے آئے ہیں۔ اچھا تو کیا اب ہم مرنے والے نہیں ہیں؟ موت جو آنی تھی، وہ بس پہلے آچکی؟ کیا اب ہمیں کوئی عذاب نہیں ہوگا؟ بے شک یہی بڑی کامیابی ہے۔ عمل کرنے والوں کو اسی کامیابی کے لئے عمل کرنے چاہیئے۔ (پارہ ۲۳۔ صافات ۵۰ تا ۶۱)
وضاحت: جنتی لوگ عیش و آرام کی زندگی گزارتے ہوئے ایک دوسرے سے دنیا کی سرگزشت بھی معلوم کریں گے اور پھر جب دیکھیں گے کہ دنیا میں جو آدمی انہیں بہکاتا تھا وہ دوزخ میں گرا ہوا ہے۔ تو یہ دیکھ کر انہیں بے حد خوشی ہوگی۔ وہ اس دوزخی سے کہیں گے کہ ظالم شخص تونے تو ہمیں تباہ کردیا تھا۔ اگر تیری بات مان لیتے تو آج ہم بھی تیرے ساتھ جہنم میں جھلس رہے ہوتے۔ اس کے بعد مذکورہ آیتوں میں جنتی کے ابدی زندگی کے بارے میں جو تابڑ توڑ سوالات ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسے یہ جان کر کتنی خوشی ہو رہی ہے کہ اس راحت و آرام والی زندگی میں اب یہاں اسے کوئی موت نہیں ہے۔ پھر یا تو اللہ تعالیٰ یا وہ جنتی خوش ہو کر خود کہے گا کہ بھلا اتنی اچھی نعمتوں کو چھوڑ کر لوگ دوسری چیزوں کے لئے خواہ مخواہ کیوں جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۳۰) ہٰذَا ذِکْرٌط وَ اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَاٰبٍلاO جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّہُمُ الْاَبْوَابُجO مُتَّکِئِیْنَ فِیْھَا یَدْعُوْنَ فِیْھَا بِفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ وَّ شَرَابٍO وَعِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ اَتْرَابٌO ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِیَوْمِ الْحِسَابِO اِنَّ ہٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَہٗ مِنْ نَّفَادٍج صلےO
''یہ ہے نصیحت۔ اور متقی لوگوں کیلئے یقینا بہترین ٹھکانہ ہے۔ ہمیشہ رہنے والی جنتیں، جن کے دروازے ان کیلئے کھلے ہوں گے۔ ان میں وہ تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ میوہ جات اور مشروبات خوب خوب طلب کررہے ہوں گے اور ان کے پاس شرمیلی اور ہم سن بیویاں موجود ہوں گی۔ یہ ہیں وہ انعامات جنہیں حساب کے دن تمہیں عطا کرنے کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔ ہمارا یہ رزق کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ تو یہ ہے (ہمارے) متقی بندوں کا انجام۔'' (پارہ ۲۳۔ ص ۴۹۔ ۵۴)
وضاحت: ان آیات میں بے تکلفی کا ایک منظر دکھایا گیا ہے۔ یعنی اہالیانِ جنت شراب اور میوہ جات بڑھ چڑھ کے طلب کررہے ہیں۔ گویا اب یہاں وہ At Home محسوس کررہے ہیں اور ان کی جھجک اور اجنبی پن دور ہوچکا ہے۔ جنت کے دروازے ان کے لئے سدا کھلے ہوئے ہوں گے۔ کوئی انہیں یہاں جنتوں میں آنے جانے سے نہیں روک سکے گا۔ یہ کل جائیداد اب انہی کی ہوجائے گی۔
(۳۱) ٰلکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ لَہُمْ غُرَفٌ مِّنْ فَوْقِہَا غُرَفٌ مَّبْنِیَّۃٌلا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۵ط وَعْدَ اﷲِ لاَ یُخْلِفُ اﷲُ الْمِیْعَادَ O
''البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈر کر رہے، ان کے لئے بلند عمارتیں ہیں، منزل پر منزل بنی ہوئی، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔'' (پارہ ۲۳۔ زمر ۲۰)
وضاحت: ان آیات میں ایک نئی چیز ہمارے سامنے لائی جا رہی ہے یعنی بلند ترین عمارتیں، منزلوں پر منزلیں بنی ہوئی۔ گویا پورے کا پورا ایک پلازہ یا اسکائی کریپر بلڈنگ۔ یہ ہے وہ جاگیر جو ساکنانِ جنت کو عطا کی جائے گی۔ وہ جن کے پاس رہنے کے لئے دنیا میں کوئی مکان نہ تھا۔ یا جن کا مکان بہت کم حیثیت کا تھا۔ آج وہ فلک شگاف پلازاؤں کے مالک بنائے جا رہے ہیں۔ اس عزت افزائی پر کیوں نہ قربان ہوا جائے۔
(۳۲) وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًاط حَتّٰیٓ اِذَا جَآئُ وْہَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَ قَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِیْنَO وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآئُ ج فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ O
''اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے، انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے۔ اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جاچکے ہوں گے۔ تو اس کے منتظمین پکارکر کہیں گے ''سلام ہو تم پر۔ تم بہت اچھے رہے۔ اب داخل ہوجاؤ اس میں ہمیشہ کے لئے''۔ جواب میں وہ کہیں گے کہ ''شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کردکھایا اور ہمیں زمین کا وارث بنایا۔ اب ہم جنت میں جہاں چاہیں، اپنی جگہ بناسکتے ہیں، تو عمل کرنے والوں کے لئے بہترین اجر ہے۔'' (پارہ ۲۴۔ زمر ۷۳۔۷۴)
(۳۳) وَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِِ فِیْ رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِج لَہُمْ مَّایَشَآئُ وْْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ط ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الکَبِیْرُ O
''بخلاف اس کے جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے، وہ جنت کے گلستانوں میں ہوں گے۔ اپنے رب کے ہاں وہ سب کچھ پائیں گے جو وہ لینا چاہیں گے۔ اور یہی سب سے بڑا فضل ہے۔'' (پارہ ۲۵۔ شوریٰ ۲۲)
(۳۰) ہٰذَا ذِکْرٌط وَ اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَاٰبٍلاO جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّہُمُ الْاَبْوَابُجO مُتَّکِئِیْنَ فِیْھَا یَدْعُوْنَ فِیْھَا بِفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ وَّ شَرَابٍO وَعِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ اَتْرَابٌO ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِیَوْمِ الْحِسَابِO اِنَّ ہٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَہٗ مِنْ نَّفَادٍج صلےO
''یہ ہے نصیحت۔ اور متقی لوگوں کیلئے یقینا بہترین ٹھکانہ ہے۔ ہمیشہ رہنے والی جنتیں، جن کے دروازے ان کیلئے کھلے ہوں گے۔ ان میں وہ تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ میوہ جات اور مشروبات خوب خوب طلب کررہے ہوں گے اور ان کے پاس شرمیلی اور ہم سن بیویاں موجود ہوں گی۔ یہ ہیں وہ انعامات جنہیں حساب کے دن تمہیں عطا کرنے کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔ ہمارا یہ رزق کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ تو یہ ہے (ہمارے) متقی بندوں کا انجام۔'' (پارہ ۲۳۔ ص ۴۹۔ ۵۴)
وضاحت: ان آیات میں بے تکلفی کا ایک منظر دکھایا گیا ہے۔ یعنی اہالیانِ جنت شراب اور میوہ جات بڑھ چڑھ کے طلب کررہے ہیں۔ گویا اب یہاں وہ At Home محسوس کررہے ہیں اور ان کی جھجک اور اجنبی پن دور ہوچکا ہے۔ جنت کے دروازے ان کے لئے سدا کھلے ہوئے ہوں گے۔ کوئی انہیں یہاں جنتوں میں آنے جانے سے نہیں روک سکے گا۔ یہ کل جائیداد اب انہی کی ہوجائے گی۔
(۳۱) ٰلکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ لَہُمْ غُرَفٌ مِّنْ فَوْقِہَا غُرَفٌ مَّبْنِیَّۃٌلا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۵ط وَعْدَ اﷲِ لاَ یُخْلِفُ اﷲُ الْمِیْعَادَ O
''البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈر کر رہے، ان کے لئے بلند عمارتیں ہیں، منزل پر منزل بنی ہوئی، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔'' (پارہ ۲۳۔ زمر ۲۰)
وضاحت: ان آیات میں ایک نئی چیز ہمارے سامنے لائی جا رہی ہے یعنی بلند ترین عمارتیں، منزلوں پر منزلیں بنی ہوئی۔ گویا پورے کا پورا ایک پلازہ یا اسکائی کریپر بلڈنگ۔ یہ ہے وہ جاگیر جو ساکنانِ جنت کو عطا کی جائے گی۔ وہ جن کے پاس رہنے کے لئے دنیا میں کوئی مکان نہ تھا۔ یا جن کا مکان بہت کم حیثیت کا تھا۔ آج وہ فلک شگاف پلازاؤں کے مالک بنائے جا رہے ہیں۔ اس عزت افزائی پر کیوں نہ قربان ہوا جائے۔
(۳۲) وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًاط حَتّٰیٓ اِذَا جَآئُ وْہَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَ قَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِیْنَO وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآئُ ج فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ O
''اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے، انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے۔ اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جاچکے ہوں گے۔ تو اس کے منتظمین پکارکر کہیں گے ''سلام ہو تم پر۔ تم بہت اچھے رہے۔ اب داخل ہوجاؤ اس میں ہمیشہ کے لئے''۔ جواب میں وہ کہیں گے کہ ''شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کردکھایا اور ہمیں زمین کا وارث بنایا۔ اب ہم جنت میں جہاں چاہیں، اپنی جگہ بناسکتے ہیں، تو عمل کرنے والوں کے لئے بہترین اجر ہے۔'' (پارہ ۲۴۔ زمر ۷۳۔۷۴)
(۳۳) وَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِِ فِیْ رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِج لَہُمْ مَّایَشَآئُ وْْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ط ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الکَبِیْرُ O
''بخلاف اس کے جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے، وہ جنت کے گلستانوں میں ہوں گے۔ اپنے رب کے ہاں وہ سب کچھ پائیں گے جو وہ لینا چاہیں گے۔ اور یہی سب سے بڑا فضل ہے۔'' (پارہ ۲۵۔ شوریٰ ۲۲)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وضاحت: اس آیت میں باغ کیلئے ''رَوْضٰتِ'' کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اول تو جنت کے معنی خود ہی باغ کے ہیں۔ اس پر ''رَوْضٰتِ الْجَنّٰت'' کہا گیا ہے۔ یعنی باغوں کے باغ۔ گلستان درگلستان! خود اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِکی کیا شان ہوگی!
(۳۴) یٰعِبَادِ لاَخَوْفٌ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ وَ لَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَجo اَلَّذِیْنَ ٰامَنُوْا بِاٰٰیتِنَا وَکَانُوْا مُسْلِمِیْنَجo اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ اَنْتُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ تُحْبَرُوْنَo یُطَافُ عَلَیْہِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَہَبٍ وَّ اَکْوَابٍج وَ فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْاَنْفُسُ وَ تَلَذُّ الْاَعْیُنُج وَ اَنْتُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَجo وَ تِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْٓ اُوْرِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo لَکُمْ فِیْھَا فَاکِہَۃٌ کَثِیْرَۃٌ مِّنْہَا تَاْکُلُوْنَo
''اس روز ان لوگوں سے جو ہماری آیات پر ایمان لائے تھے، اور مطیع فرمان بن کر رہے تھے، کہا جائے گا کہ اے میرے بندو، آج تمہارے لئے کوئی خوف نہیں اور نہ تمہیں کوئی غم لاحق ہوگا۔ داخل ہوجاؤ تم اور تمہاری بیویاں جنت میں۔ (آج) تمہیں خوش کردیا جائے گا۔ (پھر) ان کے آگے سونے کے تھال اور پیالے گردش کرائے جائیں گے اور وہاں ہر من بھاتی شے اور نگاہوں کو لطف دینے والی چیز موجود ہوگی۔ ان سے کہا جائے گا کہ اب تم یہاں ہمیشہ رہو گے۔ اپنے ان اعمال کے بدلے میں جو دنیا میں کرتے رہے ہو، تم اس جنت کے وارث بنے ہو۔ بکثرت میوے یہاں تمہارے لئے موجود ہیں جنہیں تم کھاسکو۔'' (پارہ ۲۵۔ زخرف ۶۸۔۷۳)
وضاحت: یہاں اہلیانِ جنت کے سامنے ایک نئی چیز لائی جا رہی ہے۔ وہ ہے سونے کے پیالے اور تھال۔ اسی طرح نیک بیویوں کو بھی دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ بھی اپنے شوہروں کے ساتھ راحت افزا مقام میں داخل ہوجائیں۔ اور یہ کہ وہاں انہیں اس قدر انعام دیا جائے گا کہ وہ خوش ہوجائیں گے۔ الفاظ کتنے خوبصورت ہیں کہ ''آج تمہیں خوش کردیا جائے گا'' یعنی آج تمہیں ہر چیز کا مالک و وارث بنا دیا جائے گا۔ اگر بادشاہ ہی یہ کہہ دے کہ میں تمہیںاتنا دوں گا کہ تم خوش ہوجاؤ گے تو پھر انعامات کی گنتی کا کیا سوال؟
(۳۵) اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامٍ اَمِیْنٍلاo فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍج لا o یَلْبَسُوْنَ مِنْ سُنْدُسٍ وَّ اِسْتَبْرَقٍ مُّتَقٰبِلِیْنَج لاo کَذٰلِکَقف وَ زَوَّجْنٰہُمْا بِحُوْرٍ عِیْنٍطo یَدْعُوْنَ فِیْھَا بِکُلِّ فَاکِہَۃٍ اٰمِنِیْنَلاo لاَ یَذُوْقُوْنَ فِیْھَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَۃَ الْاُوْلٰیج وَ وَقٰہُمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِلاo فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکَط ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o
''خدا ترس لوگ امن کی جگہ میں ہوں گے۔ باغوں اور چشموں میں حریر و دیبا کے لباس پہنے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ یہ ہو گی (وہاں) ان کی شان! اور ہم گوری گوری آہو چشم عورتوں کو ان سے بیاہ دیں گے۔ وہ وہاں اطمینان سے ہر طرح کی لذیذ چیزیں طلب کریں گے۔ وہ وہاں موت کا مزہ نہ چکھیں گے۔ بس دنیا میں ان کی جو موت آچکی سو آچکی۔ اور اللہ اپنے فضل سے انہیں جہنم کے عذاب سے بچادے گا۔ اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔'' (پارہ ۲۵۔ دخان ۵۱۔۵۷)
وضاحت: ان آیات میں جنت کے ایک نئے لباس کا تعارف ہوتا ہے۔ یعنی حریر و دیبا جو ساکنانِ جنت زیبِ تن کئے ہوئے اونچی اونچی مسندوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ پھر بتایا گیا ہے کہ تمام نعمتیں دیئے جانے کے باوجود دوزخ کی آگ سے محفوظ کرا دینا ہی دراصل تمام نعمتوں سے بڑی نعمت ہے۔ جنت میں اگر کوئی بھی نعمت نہ ملے تب بھی محض آتش دوزخ سے محفوظ رہ جانا ہی عظیم ترین کامیابی ہے مگر یہ اللہ کا فضل ہے کہ اس کے باوجود لاتعداد انعامات ان کے منتظر ہوں گے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے مطابق جنت اور اس کے انعامات تو دراصل متقیوں کی اپنی اصل وراثت ہیں یعنی ان کا حق ہیںجو ان کے والد حضرت آدم کے ورثے کے نتیجے میں انہیں ملے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۳۶) مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَط فِیْھَآ اَنْہٰرٌ مِّنْ مَّآئٍ غَیْرِ اٰسِنٍج وَ اَنْہٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗج وَ اَنْہٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۵ج وَ اَنْہٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّیط وَ لَہُمْ فِیْھَا مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَ مَغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّہِمْط
''جس جنت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا جا رہا ہے، اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی، ایسے دودھ کی، جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہوگا۔ نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسی شراب کی، جو پینے والوں کے لئے ذائقہ دار ہوگی۔ نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے شہد کی جو صاف اور شفاف ہو گا۔ اس میں ان کے لئے ہر طرح کے پھل ہوں گے، نیز ان کے رب کی طرف سے بخشش بھی۔ (پارہ ۲۶۔ محمد ۱۵)
وضاحت: یہاں جنت کی بیشتر نہروں کا ذکر کر کے جنت کی طلب مزید تیز کی گئی ہے (i) دودھ کی نہر (ii) شراب کی نہر (iii) شہد کی نہر۔ جنتی جس نہر سے چاہیں، کام و دہن کا ذائقہ بدلیں۔ اس کے علاوہ جنت کے پھل اور اللہ تعالیٰ کی بخشش مزید شاملِ حال ہوگی جس سے جنت کا لطف مزید دوبالا ہوگا۔ کتنا خوبصورت پیرایہ بیان ہے سورئہ محمد کی اس آیت میں۔ پھر کس کا دل نہ چاہے گا کہ جنت میں داخل ہوا جائے۔
(۳۷) وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ O ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ O مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَ جَآئَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِلاO نِ ادْخُلُوْہَا بِسَلٰمٍط ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُلُوْدِO لَہُمْ مَّا یَشَآئُ وْْنَ فِیْھَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ O
''اور جنت متقیوں کے قریب لے آئی جائے گی اور وہ ان سے کچھ بھی دور نہ ہوگی۔ ارشاد ہو گا ''یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ یہ ہر اس شخص کے لئے ہے جو (i) بہت رجوع کرنے والا اور(ii) بڑی نگہداشت کرنے والا تھا (iii) جو بن دیکھے خدائے رحمان سے ڈرتا تھا، اور (iv) جو (ہمارے پاس دلِ گرویدہ لے کر آیا ہے۔ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ۔ وہ دن حیات ِ ابدی کا دن ہوگا۔ وہاں ان کے لئے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے (بلکہ) ہمارے پاس اُن کے لئے اس سے بھی بہت کچھ زیادہ ہوگا۔'' ـ(پارہ ۲۶۔ ق ۳۱۔۳۵)
(۳۸) اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍلاO اٰخِذِیْنَ مَآ ٰاٰتہُمْ رَبُّہُمْط اِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَطO کَانُوْا قَلِیْلاً مِّنَ الَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَO وَبِالْاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَO وَفِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِO
''البتہ متقی لوگ اس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے اور جو کچھ ان کا رب انہیں دے رہا ہوگا، وہ اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے (کیونکہ) وہ اس دن کے آنے سے پہلے بہت نیک کار تھے، راتوں کو کم ہی سوتے تھے، رات کے پچھلے پہروں میں (اپنے رب سے) معافی مانگتے تھے اور ان کے ذرائع و وسائل میں سائلوں اور محروموں کا حق وقف تھا۔'' (پارہ ۲۶۔ ذاریات ۱۵۔۱۹)
وضاحت: آگاہ کیا جا رہا ہے کہ وہ جنت جس میں ایسی اور ایسی نعمتیں ہیں، کن لوگوں کا حق ہے (i) وہ جو دنیا میں نیکیوں کے حریص تھے (ii) راتوں کو کم ہی سوتے تھے (iii) نیکیوں کے باوجود پچھلے پہروں میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے اور (iv) اپنے مالوں میں سائلوں اور حق داروں کا حصہ محفوظ رکھتے تھے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۳۹) اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ نَعِیْمٍلاo فٰکِہِیْنَ بِمَآ ٰاٰتہُمْ رَبُّہُمْج وَ وَقٰہُمْ رَبُّہُمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ o کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا ہَنِیْٓئًام بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَلاo مُتَّکِئِیْنَ عَلٰی سُرُرٍ مَّصْفُوفَۃٍج وَ زَوَّجْنٰـہُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍo وَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ مَآ اَلَتْنٰـہُمْا مِّنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَیْئٍط کُلُّ امْرِیٍٔم بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌo وَ اَمْدَدْنٰہُمْ بِفَاکِہَۃٍ وَّ لَحْمٍ مِّمَّا یَشْتَہُوْنَ o یَتَنَازَعُوْنَ فِیْھَا کَاْسًا لَّا لَغْوٌ فِیْھَا وَ لاَ تَاْثِیْمٌo وَیَطُوْفُ عَلَیْہِمْ غِلْمَانٌ لَّہُمْ کَاَنَّہُمْ لُؤْلُؤٌ مَّکْنُوْنٌo وَ اَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَآئَ لُوْنَo قَالُوْآ اِنَّا کُنَّا قَبْلُ فِیْٓ اَہْلِنَا مُشْفِقِیْنَo فَمَنَّ اﷲُ عَلَیْنَا وَوَقٰـنَا عَذَابَ السَّمُوْمِo اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوْہُط اِنَّہٗ ہُوَ الْبَرُّ الرَّحِیْمُ عo
''متقی لوگ وہاں باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے۔ لطف لے رہے ہوں گے ان چیزوں سے جو ان کا رب انہیں دے رہا ہو گا۔ اور ان کا رب انہیں دوزخ کے عذاب سے بچالے گا۔ (ان سے کہا جائے گا کہ) کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے ان اعمال کے بدلے میں جو تم (ماضی میں) کرتے رہے ہو۔ وہ آمنے سامنے بچھے ہوئے تختوں پر تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ (اسی کے ساتھ) ہم خوبصورت آنکھوں والی حوریں بھی ان سے بیاہ دیں گے۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں، اور ان کی اولاد بھی کسی درجے میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے، ان کی اس اولاد کو بھی ہم جنت میں ان کے ساتھ ملا دیں گے اور (اس کے عوض) ان کے عمل میں ہم انہیں کوئی گھاٹا نہ دیں گے۔ ہر شخص اپنی اپنی کمائی کے عوض رہن ہے۔ ہم انہیں ہر طرح کے پھل اور گوشت، جس چیز کو بھی ان کا جی چاہے گا، خوب دیئے چلے جائیں گے۔ وہاں وہ ایک دوسرے سے جام شراب لپک لپک کے لے رہے ہوں گے جس میں یا وہ گوئی ہو گی نہ بدکرداری۔ اور ان کی خدمت میں وہ لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو انہی کے لئے مخصوص ہوں گے۔ ایسے خوبصورت جیسے چھپا کر رکھے گئے موتی۔ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے (دنیا میںگزرے ہوئے) حالات پوچھیں گے۔ کہیںگے کہ ہم پہلے اپنے گھر والوں میں ڈرتے ہوئے زندگی گزارا کرتے تھے۔ آخرکا اللہ نے ہم پر اپنا فضل فرمایا اور ہمیں جھلسا دینے والی ہوا کے عذاب سے بچالیا۔ اپنی پچھلی زندگی میں ہم اسی سے دعائیں مانگا کرتے تھے۔ واقعی وہ بڑا محسن اور رحیم ہے۔ '' (پارہ ۲۷۔ طور ۱۷۔۲۸)
وضاحت: یہ آیات جنت کا مزید تفصیلی نقشہ کھینچ رہی ہیں۔ ان میں انعامات کا ذکر بھی ہے اور اہالیانِ جنت کی بے تکلفی کا بھی۔ وہ لپک لپک کر ایک دوسرے سے جام شراب چھین رہے ہوں گے۔ اور ایسا وہ اسی وقت کریں گے جب کہ ان کے دل ہر لحاظ سے مطمئن اور بے فکر ہوچکے ہوںگے۔ ان کی خدمت کے لئے چھپا کر رکھے گئے موتیوں کی طرح خوبصورت لڑکے وقف کئے گئے ہوں گے جو چہک چہک اور لپک لپک کر ان کی خاطر مدارات کررہے ہوں گے۔ انہی آیات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی نیک بیویوں کی طرح اہل جنت سے ان کے بیٹے بھی ملا دیئے جائیں گے تاکہ ان کا خاندان ایک بار پھر یکجا ہوجائے اور انعامات ِ جنت سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہوا جا سکے۔ بیوی بچوں کے بغیر انعامات شاید آدمی کو پوری طرح محظوظ نہ کرسکیں۔ فرصت کے اوقات میں (جبکہ جنت میں فرصتیں ہی فرصتیں ہوں گی) وہ گاؤتکئے لگائے ایک دوسرے سے گزرے ہوئے حالات پوچھیں گے کیونکہ وہ بڑے کٹھن دن تھے۔ اور تب ہی بے اختیار ہو کر ان کی زبان پر کلمۂ شکر آئے گا کہ ''واقعی وہ بڑا محسن اور رحیم ہے۔''
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۴۰) اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ نَہَرٍلاo فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍعo
''نافرمانی سے پرہیز کرنے والے، یقینا باغوں اور نہروں میںہوں گے۔ سچی عزت کی جگہ اور بڑے ذی اقتدار بادشاہ کے قریب۔'' (پارہ ۲۷۔ قمر۵۴۔۵۵)
وضاحت: کتنی عزت افزائی کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں خاص اپنے قریب بٹھائے گا ۔ ''عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ'' یعنی بڑے ذی اقتدار بادشاہ کے قریب ... مومنین کا یہ سب سے اعلیٰ مقام ہوگا۔
(۴۱) وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِجo فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِلاo ذَوَاتَآ اَفْنَانٍجo فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِo فِیْہِمَا عَیْنٰنِ تَجْرِیٰنِجo فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِo فِیْہِمَا مِنْ کُلِّ فَاکِہَۃٍ زَوْجٰنِجo فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِo مُتَّکِئِیْنَ عَلٰی فُرُشٍ بَطَآئِنُہَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍط وَ جَنَا الْجَنَّتَیْنِ دَانٍطo فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِo فِیْہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِلا لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلاَ جَآنٌّطo فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِجo کَاَنَّہُنَّ الْیَاقُوْتُ وَ الْمَرْجَانُجo فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِo ہَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُجo فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِo وَ مِنْ دُوْنِہِمَا جَنَّتٰنِجo فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِلاo مُدْہَآمَّتٰنِجo فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِجo فِیْہِمَا عَیْنٰنِ نَضَّاخَتٰنِجo فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِo فِیْہِمَا فَاکِہَۃٌ وَّ نَخْلٌ وَّ رُمَّانٌجo فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِجo فِیْہِنَّ خَیْرٰتٌ حِسَانٌجo فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِجo حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِجo فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِجo لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلاَجَآنٌّجo فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِجo مُتَّکِئِیْنَ عَلٰی رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّ عَبْقَرِیٍّ حِسَانٍجo فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِo تَبَارَکَ اسْمُ رَبِّکَ ذِی الْجَلٰلِ وَ الْاِکْرَامِ عo
''اور ہر اس شخص کے لئے جو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا خوف رکھتا ہو، دو باغ ہیں۔ تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟ ہری بھری ڈالیوں سے بھرپور۔ تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟ دونوں باغوں میں دو چشمے رواں۔ تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟ دونوں باغوں میں ہر پھل کی دو قسمیں۔ تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟ جنتی افراد ایسے فرشوں (قالینوں) پر تکئے لگا کے بیٹھیں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے اورباغوں کی ڈالیاں پھلوں سے جھکی پڑ رہی ہوں گی۔ تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟ خیموں کے اندر مقیم شرمیلی نگاہوں والیاں ہوں گی جنہیں ان جنتیوں سے پہلے کسی انسان یا جن نے نہ چھوا ہوگا۔ تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟ ایسی خوبصورت جیسے ہیرے اور موتی۔ تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہے؟ پھر اے جن و انس۔ تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟ ان دو باغوں کے علاوہ دو باغ اور ہیں۔ تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟ دونوں باغوں میں دو چشمے فواروں کی طرح ابلتے ہوئے۔ تو تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ ان نعمتوں کے درمیان خوب صورت اور خوب سیرت بیویاں۔ تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟ ان جنتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جن نے انہیں نہیں چھوا ہوگا۔ تو تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ جنتی لوگ سبز قالینوں اور نفیس و بے مثال فرشوں پر تکئے لگا کے بیٹھیں گے۔ تو تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ بڑی برکت والا ہے تیرے رب جلیل و کریم کا نام۔'' (پارہ ۲۷۔ رحمن ۴۶۔۷۸)
وضاحت: یہاں گویا انعامات کے بیان کی انتہا کردی گئی ہے۔ ایک تو سورئہ رحمان ویسے ہی بڑی مترنم اور دلکش ہے، اس پر جنت کی نعمتوں کا اس قدر تفصیلی بیان! دل بے اختیار وجد میں آجاتا ہے۔ ان انعامات کی تفصیل نمبر وار جو ان آیات میں بیان کی گئی ہیں، ہم ایک بار پھر ان کا جائزہ لیتے ہیں:
(۱) ہری بھری ڈالیوں سے بھرپور دو باغ (۲) دو باغوں میں بہتے ہوئے چشمے (۳) ان کے اندر ہر پھل کی دو قسمیں (۴) جنتیوں کی نشستیں ایسے قالینوں پر جن پر تکئے پڑے ہوں گے (۵) جن کے استر دبیز ریشم (نہ کہ ہلکے ریشم) کے ہونگے (۶) ہیرے اور موتی کی طرح خوبصورت اور شرمیلی نگاہوں والیاں جنہیںپہلے نہ کبھی انسان اور نہ جن نے چھوا ہوگا (۷) دو باغوں کے علاوہ دو باغ مزید (۸) باغوں کی ڈالیوں کا ان پر جھکاؤ (۹) دو نئے چشمے فواروں کی طرح ابلتے ہوئے (۱۰) خوب صورت اور خوب سیرت بیویاں اور (۱۱) سبز قالین اور بے مثال فرش جن پر تکئے لگے ہوں گے۔
تاہم اتنی طویل فہرست کے باوجود، جنت کے تحائف ختم نہیں ہوئے کیونکہ مزید بے شمار تحفوں کا ذکر ہم پیچھے کرآئے ہیں۔ ان آیات میں دو قسم کے چشمو ں کا بیان پہلی بار کیا گیا ہے۔ ایک بہتے ہوئے چشمے اور دوسرے فوارے کی طرح ابلتے ہوئے چشمے۔ دونوں طرح کے رواں پانی انسانی آنکھوں اور دل و دماغ کو بے حد سرور و تازگی بخشتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں کہہ دیا ہے کہ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہے یعنی اہلیانِ جنت نے دنیا میں نیکیاں ہی نیکیاں کمائی ہیں تو ہم بھی انہیں نیکیوں کے علاوہ اور کیا اجر دیں گے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۴۲) اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُلاo لَیْسَ لِوَقْعَتِہَا کَاذِبَۃٌوقف لازم o خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌلاo اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا لاo وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا لاo فَکَانَتْ ہَبَآئً مُّنْبـَثًّام لا o وَّکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰـثَۃًطo فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ۵لا مَآ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِطo وَ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ۵لا مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِطo وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَج لاo اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَجo فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِo ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَلاo وَقَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَطo عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍلاo مُّتَّکِئِیْنَ عَلَیْہَا مُتَقٰبِلِیْنَo یَطُوْفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَلاo بِاَکْوَابٍ وَّاَبَارِیْقَ۵لا وَکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍلاo لَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَ لاَ یُنْزِفُوْنَلاo وَفَاکِہَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَلاo وَ لَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَہُوْنَطo وَ حُوْرٌ عِیْنٌلاo کَاَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَکْنُوْنِجo جَزَآئًم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo لاَیَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّ لاَ تَاْثِیْمًالاo اِلَّا قِیْلاً سَلٰمًا سَلٰمًاo وَ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ۵لا مَا اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِطo فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍلاo وَّ طَلْحٍ مَّنْضُوْدٍلاo وَّ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍلاo وَّ مَآئٍ مَّسْکُوْبٍلاo وَّ فَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍلاo لَّا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلاَ مَمْنُوْعَۃٍٍلاo وَّ فُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍطo اِنَّآ اَنْشَاْٰنہُنَّ اِنشَآئًلاo فَجَعَلْنٰـہُنَّا اَبْکَارًالاo عُرُبًا اَتْرَابًالاo لّاَِصْحٰبِ الْیَمِیْنِط عo ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَلاo وَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ طo
''دائیں بازو والے۔ تو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا! اور آگے والے تو پھر آگے والے ہیں۔ وہی تو مقرب لوگ ہیں۔ نعمت بھری جنتوں میں رہیں گے۔ اگلوں میں سے بہت ہوں گے اور پچھلوں میں سے کم۔ مرصع تختوں پر تکئے لگائے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ ان کی مجلسوں میں ابدی لڑکے، چشمہ جاری کی شراب سے لبریز پیمانے اور کنٹر اور ساغر لئے دوڑتے پھررہے ہوں گے۔ (یہ ایک ایسی شراب ہوگی) جسے پی کر نہ ان کا سر چکرائے گا اور نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔ وہ ان کے سامنے طرح طرح کے لذیذ پھل پیش کریں گے کہ جسے چاہیں چن لیں۔ اور پرندوں کے گوشت پیش کریں گے کہ جس پرندے کا (گوشت) چاہیں استعمال کرلیں۔ ان کے لئے (وہاں) خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوں گی، ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔ یہ سب کچھ انہیں ان اعمال کی جزا کے طور پر ملے گا جو وہ دنیا میں کرتے رہے تھے۔ وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے۔ جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی۔
اور دائیں بازو والے! دائیں بازو والوں کی خوش نصیبی کا کیا کہنا؟ وہ (۱) بے خار بیریوں اور (۲) تہہ بہ تہہ چڑھے ہوئے کیلوں اور (۳) دور دور تک پھیلی ہوئی چھاؤں (۴) اور ہر دم رواں دواں پانی (۵) اور کبھی نہ ختم ہونے والے بے روک ٹوک ملنے والے کثیر پھلوں اور (۶) اونچی نشست گاہوں میں ہوں گے (۷) انکی بیویوں کو ہم خاص طور سے نئے سرے سے پیدا کرینگے اور (۸) انہیں باکرہ (کنواری) بنا دیں گے جو اپنے شوہروں کی عاشق اور عمر میں ہم سن ہوں گی۔
یہ سب کچھ دائیں بازو والوں کی ضیافت کے لئے ہے جو اگلوں میں سے بھی بہت ہوں گے اور پچھلوں میں سے بھی بہت!'' (پارہ ۲۷۔ واقعہ ۱۔۴۰)
وضاحت: جنت کے بارے میں یہ بہت تفصیلی آیات ہیں۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ صف ِ اول کے جنتیوں کی دو قسمیں ہوں گی۔ ایک وہ جنہیں اللہ تعالیٰ آگے کی صفوں میں جگہ دے گا اور دوسرے وہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی دائیں طرف نشست دے گا۔ یہ لوگ اس کے مقرب جنتی ہوں گے۔ اس کے بعد ہر دو قسم کے جنتیوں کے انعامات کی ایک پوری تفصیل فراہم کی گئی ہے جس میں جواہرات جڑی ہوئی نشست گاہیں، پاکیزہ شراب، ہر طرح کے لذیذ پھل، نازک پرندوں کے گوشت، اور حسین و جمیل آنکھوں والی حوریں شامل ہیں۔
 
Top