السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایسا تو کچھ نہیں ہے۔ بلکہ میں نے تو بھر پور جواب تحریر کیا ہے۔ نظر نہیں آیا تو براہ کرم چشمہ کا انتظام کروا لیجیے۔ البتہ آپ کے ایک عجیب و غریب قیاس پر یہ دریافت کرنے کو دل چاہا تھا کہ "گھاس تو نہیں کھا گئے؟"۔ پھر سوچا کہ محاورہ سہی پر مناسب نہیں معلوم ہوتا۔
ویسے میرے محترم بھائی اس طرح کے جملوں اور ما قبل میں مذکور اشعار وغیرہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں اثر پروف ہوں۔ دلائل آتے ہیں تو ان کی اسکیننگ کرتا ہوں۔ جو مضبوط ہو وہ قبول کرتا ہوں۔ جن میں وائرس ہو یا جن میں کمی ہو ان پر جرح کرتا ہوں۔ انہی کے ضمن میں اپنے دلائل عرض کر دیتا ہوں۔ اس طرح کے جملوں کا اثر نہیں لیا کرتا۔
آپ اس قسم کے الفاظ سے کیا اپنی خفت مٹانا چاہ رہے ہیں یا قاری کو دھوکہ دینا مقصود ہے؟؟؟ یا پھر یہ اپنے دل کو تسلی کی ایک صورت ہے؟؟
معلوم ہوتا ہے چوٹ ذکر سے کسک بڑھ گئی ہے!! ویسے مقلدین احناف کے ''اثر پروف'' ہونے پر میں متفق ہوں۔ آپ کو آثار النبی نبی اللہ علیہ وسلم بھی بتلائے جاتے ہیں لیکن مقلدین احناف اکثر ''اثر پروف'' ہی ثابت ہوتے ہیں!!
اگر آپ کی مراد آگے مذکور حدیث ہے جس میں تورات پر فیصلے کا ذکر ہے تو اس کا جواب بھی وہیں ذکر کرتا ہوں ان شاء اللہ۔ اور اگر کوئی اور حدیث ہے تو تحریر فرمائیے۔ میرے علم میں نہیں ہے۔
بھائی جان یہ دلیل بیان کی ہے، آپ کو ہمارا استدلال سمجھ نہیں آیا، جبکہ ہم نے آپ کو ان الفاظ کو ملون بھی کر کے دکھلایا تھا۔ آپ نے آگے جو جواب دیا ہے اس تو آپ کے جواب کا بتلان بھی وہیں بیان کیا جائے گا۔
نہیں میں نے مثال کے طور پر کہا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک محدث بنا دے امام طحاوی کی طرح۔
آمین! لیکن اس کے لئے آپ کو تقلید ترک پڑے گا ، کیونکہ امام طحاوی کے نزدیک تو تقلید وہی کرتا ہے جو غبي ہو یاعصي ہو!
سمعت أبا الحسن علي بن أبي جعفر الطحاوي يقول سمعت أبي يقول وذكر فضل أبي عبيد بن جرثومة وفقهه فقال كان يذاكرني بالمسائل فأجبته يوما في مسألة فقال لي ما هذا قول أبي حنيفة فقلت له أيها القاضي أو كل ما قاله أبو حنيفة أقول به فقال ما ظننتك إلا مقلدا فقلت له وهل يقلد إلا عصي فقال لي أو غبي
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 626 جلد 01 لسان الميزان - ابن حجر العسقلاني - مكتب المطبوعات الإسلامية
بھائی جان آپ نے فرمایا تھا کہ محدث کی حیثیت قاضی کی حیثیت رکھتا ہے۔ میں نے اس پر عرض کیا کہ قاضی کے سامنے گواہ یا گواہ کے گواہ یا کتابت قاضی بمع ختم ہوتے ہیں۔ محدث کے سامنے کیا ہوتا ہے؟؟ اگر میں ایک محدث ہوں اور یحیی بن معین کے قول پر عمل کرتے ہوئے ایک حدیث کو ضعیف قرار دیتا ہوں تو یہ سب چیزیں کہاں ہیں؟
اس کا تو جواب ملا نہیں۔
مزید یہ ارشاد ہوا کہ "جب کہ اہل حدیث امام يحیی بن معین کا قول ہو، یا امام بخاری کا وہ ان تمام امور کا خیال رکھتے ہوئے، فیصلہ کرتے ہیں، اسی لئے وہ ان کے کئی اقوال کو رد بھی کردیتے ہیں"
تو جناب عالی آخر یہ چیزیں کہاں ہوتی ہیں؟ نظر کیوں نہیں آتیں؟
بھائی جان یہ چیزیں کتابوں میں درج ہوتی ہیں، ان کتابوں کو دیکھو گے تو نظر آئیں گی!! لیکن ابھی تو آپ کتابوں کو ناقابل اعتبار ٹھہرانے پر مصر ہو!
یہ ایک حدیث ہے جسے میں سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ سے نقل کر رہا ہوں:
زينوا موائدكم بالبقل فإنه مطردة للشيطان مع التسمية
اس پر جرح اس مقام پر لکھی ہے۔ آپ مجھے گواہ دکھائیے جو البانی رح کے پاس آئے ہوں اور انہوں نے گواہی دی ہو؟ نیز وہ حکومت دکھائیے جس نے البانی کو یہ عہدہ دیا ہو۔
نیز وہ گواہ بھی دکھائیے جو آپ کے پاس آئے ہوں۔ البانی رح کی مہر شدہ کتاب بھی پیش فرمائیے جسے کھولا نہ گیا ہو۔
اسی کو کہتے ہیں حکمت چین اور حجت بنگال!!
بھائی جان ! صاحب کتاب کی گواہی ہے، صاحب کتاب بھی ثقہ ہے اس کی گواہی مقبول ہوتی ہے!
اور شیخ البانی نے وہاں ثقہ شیوخ کی کتب کے حوالے درج کئے ہیں۔ آپ کو کسی کتاب یا کسی صاحب کتاب ، پر اعتراض ہےکہ اس کی گواہی مقبول نہیں تو اعتراض پیش کریں!!
ہاں، اگر صاحب کتاب ضعیف ہو ، تو اس کی گواہی قبول نہ ہوگی: ایک مثال پیش کئے دیتا ہوں اگر طبیعت پر ناگوار نہ گذرے تو !!
فقہ احناف کے بہت بڑے امام محمد بن حسن الشیبانی، ان کی متعدد کتب معروف ہیں، جس میں
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني، الحجة على أهل المدينة، الأصل المعروف بالمبسوط شامل ہیں، لیکن ان کتب میں امام محمد بن حسن الشیبانی اپنا مؤقف بیان کریں ، وہ تو ان کا مؤقف ہوا، مگر وہ کوئی روایت بیان کریں، یا کسی کا قول روایت کریں، تو وہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچے گا، کیونکہ محمد بن حسن شیبانی ایک ضعیف راوی ہیں، اور ان کی گواہی قبول نہیں، خیر سے محمد بن حسن شیبانی کی گواہی تو قاضی شریک بھی اس لئے قبول نہیں کرتے تھے کہ محمد بن حسن الشیبانی نماز کو ایمان نہیں سمجھتے تھے!!
البانی رح کی مہر شدہ کتاب بھی پیش فرمائیے جسے کھولا نہ گیا ہو۔
یہ مطالبہ بھی کر دیجئے کہ پھر اللہ تعالی آسمان سے فرشتے نازل کرے، جو آپ کو نظر بھی آئیں، اور وہ گواہی دیں کہ واقعی یہ شیخ البانی کی کتاب ہے!
کتاب اور حکومت کے سلسلے میں جو جوابات آپ نے تحریر فرمائیے ان کے بارے میں آگے آتا ہے۔ اس لیے انہی کو نہ دہرائیے گا۔
آپ جب جب جو اشکال پیش کریں گے، ہم تب تب اس کا ازالہ کریں گے! آپ اشکال نہین دہرائیں گے، ہمیں اس کا جواب دہرانے کی حاجت بھی نہیں ہو گی!!
اگر اس کا نفاذ اس طرح نہیں ہوتا تو پھر اس کی قاضی جیسی حیثیت کس چیز میں ہے؟
اس کی قاضی جیسی حیثیت فیصلہ صادر کرنے میں ہے!
صرف گواہی سننے اور فیصلہ کرنے میں؟ وہ حیثیت تو ثالث کی بھی ہوتی ہے۔ پھر یوں کہیے نا کہ محدث کی حیثیت ثالث جیسی ہے۔
بھائی جان! ثالث کا کام صلح کروانا ہوتا ہے، ثالث کا کام دو فریق کو درمیانی راہ پر قائل کرنا ہوتا ہے، اگر اسے فیصل نہ مانا جائے!! اور جب ثالث کو فیصل مانا جائے گا تو وہ قاضی کی حیثیت میں ہی ہو گا!!
نیز شریعت کا قانون شہادت صرف قاضی کے لیے خاص تو نہیں ہے لیکن کی شریعت کا قانون قضا اتنا عام ہے کہ آپ کسی کو بھی قاضی مقرر کر سکتے ہیں؟
بلکل جناب متفق! اسی لئے ہم کسی مقلد کو یہ حثیت نہیں دیتے کہ وہ حدیث و علم حدیث میں کوئی فیصلہ صادر کرے، ہم تو مقلدین کے فیصلوں سے بالکل برأت کا اعلان کرتے ہیں، اور ان مقلدین کے فیصلہ کو ہم قابل اعتماد نہیں سمجھتے۔ ایک بات ذہن میں رہے، کہ جب ہم آپ کو مقلدین احناف کے حوالہ پیش کرتے ہیں، تو یہ دلائل خصم کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں!!
یعنی آپ کا مطلب یہ ہوا کہ جیسے اس آیت سے محدث کی "تقلید" ثابت ہے۔۔۔۔۔۔ اوہ سوری۔ میں غلط کہہ گیا۔
دیکھیں بھائی جان! اس طرح کی دجل کاری کہ پہلے اسے تقلید باور کروانا اور پھر ''سوری'' لکھ کر ڈرامہ بازی کرنا، تو یاد رکھیں ، میرے قلم سے جو الفاط نکلیں گے، اس کی تاب لانا آپ کو مشکل ہو جائے گا، اور میں تو ''سوری'' بھی نہیں کروں گا، کیونکہ میں بلکل اپنا مؤقف با دلیل بیان کروں گا!! لہٰذا یہ ڈرامہ بازی آیندہ نہ کرنا وہ کہتے ہیں کہ:
بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے
جیسے اس آیت سے محدث کے حدیث پر صحیح ہونے کے حکم کو بلا دلیل ماننا ثابت ہے اسی طرح مجتہد کے کسی مسئلے میں حکم کو بلا دلیل ماننا بھی ثابت ہے؟
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان:
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!اب تو میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تقلید کی تعریف کا مطالعہ کر لیں!! وہاں موجود ہے کہ عامی کا مفتی کے کے فتوی پر عمل تقلید نہیں!!
نہ جانے کیوں آپ تقلید کی تعریف سے کنّی کترا رہے ہیں۔ خیر میں اب ایک بار پھر تقلید کی تعریف پیش کرتا ہوں:
التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه وكذا العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول لإ يجاب النص ذلك عليهما لكن العرف على أن العامي مقلد للمجتهد قال الإمام وعليه معظم الاصوليين
(نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ) غیر (یعنی امتی) کے قول پر بغیر حجت (دلیل) کے عمل (کا نام) ہے۔ جیسے عامی (جاہل) اپنے جیسے عامی اور مجتہد دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔ پس نبی صلی اللہ علیہ الصلاۃ والسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید میں سے نہیں ہے)
کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔ امام (امام الحرمین) نے کہا: اور اسی (تعریف) پر علم اصول کے علماء (متفق) ہیں۔۔۔۔۔۔۔
(التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة) متعلق بالعمل، والمراد بالحجة حجة من الحجج الأربع، وإلا فقول المجتهد دليله وحجته (كأخذ العامي) من المجتهد (و) أخذ (المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه) وآله وأصحابه (الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه) فإنه رجوع إلى الدليل (وكذا) رجوع (العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول) ليس هذا الرجوع نفسه تقليداً وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً (لإ يجاب النص ذلك عليهما) فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد) بالرجوع إليه (قال الإمام) إمام الحرمين (وعليه معظم الاصوليين) وهو المشتهر المعتمد عليه
"تقلید کسی غیر (غیر نبی) کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔ یہ عمل سے متعلق ہے، اور حجت سے (شرعی) ادلہ اربعہ ہیں ، ورنہ عامی کے لئے تو مجتہد کا قول دلیل اور حجت ہوتا ہے۔ جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتہد کسی دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة والسلام اور آل و اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں، کیونکہ یہ دلیل کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید نہیں)
کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، پس وہ دلیل پر عمل کرنا ہے نہ کہ محض غیر کے قول پر، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں اور یہ بات قابل اعتماد اور مشہور ہے"۔
ملاحظہ فرمائیں :عکس: مجلد 02 صفحه 432 - فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت - دار الكتب العلمية
ملون الفاظ پر غور فرمائیں کہ عامی کا مفتی کے فتوی پر اور قاضی کا گواہوں کی گواہی کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے، اور ان کے تقلید نہ ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اسے نص نے واجب کیا ہے،
یعنی جسے نص واجب کرے وہ تقلید نہیں ہوتی!!
دوم کہ محدث کی بات بلا دلیل نہی مانی جاتی بلکہ محدث کی گواہی مانی جاتی ہے، اور گواہی کو ماننا تقلید نہیں، جیسا کہ اس تعریف میں صراحتاً موجود ہے!!
لہٰذا آپ کا یہ ''بلا دلیل'' کہنا بھی باطل ٹھہرا!! لہٰذا اس دھوکہ بازی اور فریب سے کام نہ لیں، ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ محدث کی بات بلا دلیل مانی جاتی ہے، ہم نے یہ کہا ہے کہ ثقہ محدث کی گواہی مانی جاتی ہے!!
لہٰذا محدث کی گواہی اور اس کا فیصلہ ماننے کو مجتہد کی بلا دلیل بات ماننے پر قیاس نہ کریں!!
یا یوں کہہ لیں کہ امام بخاری کا اپنی صحیح میں حدیث کو ذکر کرنا اس آیت کے ذریعے اس کے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے
بلکل جناب ! امام بخاری کا اپنی صحیح میں حدیث کو ذکر کرنا اس آیت کے ذریعے اس کے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے، یہ بات آپ بلکل صحیح سمجھے!
اسی طرح امام محمد کا اپنی مبسوط میں مسئلہ کو ذکر کرنا اسی آیت سے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے؟
اس بات کو سمجھئے کہ کسی مجتہد کا کسی مسئلہ کو ذکر کرنا اس کی گواہی کو قبول کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اس کے اجتہاد کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ اور اجتہاد میں اگر اختلاف ہو جائے تو جس کا اجتہاد درست معلوم ہو اسے ہی قبول کیا جائے گا اور دوسرے کو مخطئ قرار دیا جائے گا۔ یہ بالکل اس آیت کے ذریعے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے۔ لیکن یہ اس بات کا پابند نہیں کرتا کہ جب، کسی مجتہد کی خطاء بیان کردی جائے تب بھی اسی مجتہد کے قول سے چمٹا جائے!! بلکہ اسے ترک کرنا لازم آتا ہے۔ یہ تو رہی ایک بات۔ دوسری کہ آپ نے امام محمد اور ان کی کتاب مبسوط کے حوالہ سے جو سوال کیا ہے اس کا معاملہ بھی بتلادیتے ہیں!
وہ اس لئے کہ اول تو امام محمد اپنے استدلال میں بھی قابل اعتماد نہیں، کیونکہ ان میں ارجاء بھی پا جاتا تھا اور خیر سے جہمیہ کی بدعت بھی تھی!
اس پر طرہ یہ کہ اپنے استدلال میں خبر واحد کے منکر تھے، اور سونے پر سہاگہ یہ کہ جن احادیث و آثار سے وہ استدلال کر رہیں ہیں ، اس پر بھی وہ بھی قابل اعتماد نہیں کہ وہ خود ضعیف راوی ہیں، اور بوجہ حافظہ کی کمزوری کے نہیں بلکہ ان کی عدالت مجروح ہے!
(امام محمد پر جرح کی بات آگے)
بصد شوق!
یہاں تو ذکر ہے تورات کا اور فیصلہ کرنے والے ہیں محمد رسول اللہ ﷺ۔ جن کا فیصلہ بذات خود ایک حکم ہے چاہے وہ کسی کتاب اور گواہ کے بغیر ہی کر دیں۔ یہ ان کی خصوصیت ہے۔
ہماری بات چل رہی ہے محدث جیسے البانی، مسلم، بخاری، ترمذی وغیرہ کے "فیصلے" کے بارے میں جو وہ سابقہ محدثین کے اقوال ان کی یا کسی اور کی کتب میں دیکھ کر ان کے مطابق کریں۔
اس قیاس کے ارکان یہ ہوئے:
اصل: رسول اللہ ﷺ، تورات میں حکم رجم
فرع: یہ محدثین، کتب محدثین
علت: کتابت ہونا
حکم: کتابت پر گواہی کو قبول کرنا۔
میں لاحول نہ پڑھوں تو کیا کروں؟ کیا آپ محدثین کو حضور ﷺ پر قیاس کر رہے ہیں اور کتب محدثین کو آسمانی کتاب کے اس حکم پر جس کی تائید خود قرآن کریم نے کی ہوئی ہے؟ اور علت اس کی صرف کتابت ہونا ہے؟
کیسا عجیب قیاس ہے!!!
بالکل جناب یہ انتہائی عجیب قیاس ہے، اس قیاس پر صد ہزار بار لا حول پڑھنا چاہئے!
مگر میرے بھائی جان! یہ ہمارا قیاس نہیں ہے، بلکہ یہ آپ کا قیاس ہے کہ ہم نے یہ قیاس کیا ہوگا!!
اب آپ کو قیاس کا اتنا شوق ہے کہ اپنے ہی گمان میں دوسروں کے قیاس کو قیاس کر کرکے اپنا شوق پورا کر لیتے ہو!
بھائی جان! اس قیاسی خول سے خود کو آزاد کروا کر دیکھو تو، پھر آپ کو معلوم ہو گا کہ دلیل کسے کہتے ہیں ، استدلال کیا ہوتا ہے، ااستنباط کیا ہوتا ہے اور قیاس شرعی کیا ہوتا ہے،۔ مگر آپ کو قیاس آرائیوں سے فرصت ملے تو یہ سمجھنے کی توفیق ہو!!
پہلے آپ ہمارا استدلال سمجھئے:
یاد رہے کہ میں نے آپ کو کوئی دلیل میں کوئی قیاس پیش نہیں کیا تھا، بلکہ میرا استدلال صحیح بخاری کی ایک حدیث سے تھا۔ یاد رہے استدلال تھا قیاس نہیں!!
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا : أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ وَامْرَأَةٍ قَدْ زَنَيَا ، فَقَالَ لَهُمْ : " كَيْفَ تَفْعَلُونَ بِمَنْ زَنَى مِنْكُمْ ؟ " قَالُوا : نُحَمِّمُهُمَا وَنَضْرِبُهُمَا ، فَقَالَ : " لَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ الرَّجْمَ ؟ " فَقَالُوا : لَا نَجِدُ فِيهَا شَيْئًا ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ : كَذَبْتُمْ ، فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ سورة آل عمران آية 93 ، فَوَضَعَ مِدْرَاسُهَا الَّذِي يُدَرِّسُهَا مِنْهُمْ كَفَّهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ ، فَطَفِقَ يَقْرَأُ مَا دُونَ يَدِهِ وَمَا وَرَاءَهَا ، وَلَا يَقْرَأُ آيَةَ الرَّجْمِ ، فَنَزَعَ يَدَهُ عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ ، فَقَالَ : مَا هَذِهِ ، فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ ، قَالُوا : هِيَ آيَةُ الرَّجْمِ ، فَأَمَرَ بِهِمَا ، فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ حَيْثُ مَوْضِعُ الْجَنَائِزِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ ، فَرَأَيْتُ صَاحِبَهَا يَحْنِي عَلَيْهَا يَقِيهَا الْحِجَارَةَ .
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہودی اپنی قوم کے ایک آدمی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائے اور ایک عورت کو بھی جنہوں نے زنا کیا تھا آپ نے فرمایا تمہارے یہاں زنا کی کیا سزا ہے؟ کہنے لگے دونوں کا منہ کالا کر کے اچھی طرح مارتے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم کو تورات میں زانی کے سنگسار کرنے کا حکم نہیں ملا ہے؟ کہنے لگے کہ نہیں، عبداللہ بن سلام نے اس موقعہ پر کہا کہ تم غلط کہتے ہو تورات لا کر پڑھو اگر تم سچے ہو تو، وہ تورات لے کر آئے تو جب ان کے عالم نے پڑھا تو رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ لیا اور ادھر ادھر سے پڑھنا شروع کردیا عبداللہ بن سلام نے ان کے ہاتھ کو ہٹا کر کہا دیکھو! یہ کیا ہے انہوں نے اسے دیکھا تو وہ آیت رجم تھی۔ کہنے لگے کہ یہ آیت رجم ہے آنحضرت نے اس کے بعد ان کو سنگسار کرنے کا حکم دیا چنانچہ مسجد میں ایک علیحدہ جگہ بنی تھی وہ سنگسار کئے گئے راوی کا بیان ہے کہ میں دیکھ رہا تھا کہ زانیہ کا ساتھی زانیہ پر جھک جاتا تھا تاکہ پتھروں سے اسے بچا لے۔
صحيح البخاري » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » سُورَةُ آلِ عِمْرَانَ
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے سوال کیا کہ تمہاری تورات میں رجم کا حکم ہے، یہودی نے انکار کیا، جبکہ عبد اللہ بن سلام نے کہا کہ یہ یہودی جھوٹ بول رہا ہے، اب اس کی تصدیق کے لئے کہ کس کی بات صحیح ہے، عبد اللہ بن سلام کی یا یہودی کی، تورات لائی گئی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ اس تورات میں رجم کا حکم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ نے کتاب کی شہادت کو تسلیم کیا! کہ تورات میں آیت رجم ہے! اور عبد اللہ بن سلام کی بات درست ہے۔
لہٰذا کتاب کی شہادت تسلیم کرنا نبی صلی اللہ علیہ سے ثابت ہے۔
یہ ہے ہمارا استدلال ، یہ کوئی قیاس نہیں!!
اب آتے ہیں آپ کے بیان کردہ قیاس کی طرف!
میں لاحول نہ پڑھوں تو کیا کروں؟ کیا آپ محدثین کو حضور ﷺ پر قیاس کر رہے ہیں اور کتب محدثین کو آسمانی کتاب کے اس حکم پر جس کی تائید خود قرآن کریم نے کی ہوئی ہے؟ اور علت اس کی صرف کتابت ہونا ہے؟
کیسا عجیب قیاس ہے!!!
نہیں جناب ہم محدثین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس نہیں کر رہے، بلکہ جیسا ہم نے بتلایا ہم نے تو کوئی قیاس کیا ہی نہیں۔ لیکن اب آپ یہ بتلائیے، کہ کیا امتی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا چاہئے کہ نہیں!! کل کوآپ یہ نہ کہہ دینا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اعمال کیوں کریں؟ نبی صلی اللہ علیہ کی طرح نماز کیوں پڑھیں ، ہم بھی وہی اعمال کریں گے تو نبی پر خود کو قیاس کرنا ٹھہرے گا!!
کہیں یہی وجہ تو نہیں کہ نبي صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے اپنے اعمال امتی کے اعمال کو بنا لیا ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروری کر کے کہیں خود کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کرنا لازم نہ آجائے؟
ایک عجیب بات آپ نے اور کردی کہ جو تورات لائی گئی تھی اس کی تائید قرآن کریم نے کی ہے۔ قرآن کریم نے تو اسے محرف قرار دیا ہے!
یہ واقعی موقع سے غیر متعلق ہے۔ ہاں موضوع کو غلط سمت میں لے جانا مقصود ہو تو الگ بات ہے۔
المرغنیانی کی مثال آپ کے اس سوال پر پیش کی تھی:
دوسرا سوال یہ کہ قاضی کے سامنے تو گواہ ہوتے ہیں یا یمین۔ یہ کیسا قاضی ہے جو سالوں پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے اقوال سے دنیا کے سب سے عظیم شخص کی جانب اقوال کو منسوب کر رہا ہے؟ نہ تو تزکیہ ہوا نہ تعدیل۔ کتابوں میں لکھے اور استادوں سے سنے ہوئے اقوال کی بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ؟؟
اس کے جواب میں یہ مثال پیش کی گئی تھی:
صاحب الہدایہ المرغنیانی نے کئی ائمہ پر افترا اندازی کی ہے، نہ جانے کس کے سنے سنائے اقوال کبھی امام شافعی کے سر لگا دیئے، کبھی کس کے، حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اسے الفاظ منسوب کردیئے ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ بے اصل ہیں۔ بس اس بلا سند سنی سنائی پر فقہ حنفیہ کی بنیادی کتاب الہدایہ لکھ ماری، جسے اس کتاب کے مقدمہ میں قرآن کی مانند قرار دیا گیا!
اور اس پر بلکل صحیح مثال تھی، بعین یہی کام المرغنیانی نے کیا ہے!
جناب ہم نے تو آپ کے سوال کا جواب دیا! اگر آپ کو ہمارے جواب میں نقص نظر آئے بلکل آپ اس کی نشاندہی کیجئے!!
اول: تو جس جس کے کہنے پر تسلیم کیا جاتا ہے وہ کب ایک ایک راوی کی تحقیق شہادت و قضا کے اصولوں کے مطابق ہر حدیث کے تحت لکھتا ہے؟ وہ تو صرف اپنا فیصلہ بتاتا ہے بلا دلیل۔
بھائی جان! محدث جب کسی حدیث پر صحیح کا حکم لگاتا ہے تو وہ ان اتصال سند، عدالت الرواۃ، ضبط الراوة ، عدم علت اور عدم شذوذ کا حکم لگاتا ہے، جو اس نے کتب سے حاصل کی ہوتی ہیں یا اسے روایت ہوتی ہے۔ کسی راوی کے بارے میں جانے بغیر فیصلہ نہیں دیتا!! محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
ہاں اب یہ جو مقلدین حنفیہ نے ایک نیا اصول ایجاد کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے گمنام شیوخ ، کہ جن کا نام بھی نہیں معلوم، وہ حدیث بھی صحیح ہوگی!!
دوم: امام بخاری محدث ہیں اور محدث کی گواہی نہیں یہ اس کا فیصلہ ہے جو آپ کے بقول اس نے قاضی کی سی حیثیت سے کیا ہے۔ اس فیصلہ کے دلائل کہاں ہیں؟؟ اور بغیر دلیل کے ماننا کیا ہے؟؟؟
امام بخاری کا سند ذکر کرنا امام بخاری کی گواہی ہے، اور اس حدیث کو امام بخاری کا اپنی سند کے راویوں کی شہادت کو قبول کرنا امام بخاری کا فیصلہ، اور امام بخاری کا یہ فیصلہ ان راویوں کے ثقہ ہونے کی شہادت پر ہے، جو امام بخاری نے اپنے شیوخ سے حاصل کی۔ اور امام بخاری کے فیصلہ کی دلیل امام بخاری کی بیان کردہ سند ہے!!
آپ نے امام محمد کے بارے میں بہت غلط مثال دی ہے۔ ایسے نہیں کرتے۔ فورم کے کچھ قوانین بھی اس سے منع کرتے ہیں۔ آپ تو رکن انتظامیہ ہیں۔
بھائی جان! اگر آپ کو برا لگا ہے تو کیا کہوں! آپ نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ:
جب امام محمد بن حسن الشیبانی اپنی المبسوط میں یہی طرز مسائل کے لیے اختیار کرتے ہیں تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
یہ مثال غلط نہيں یہ مثال بالکل صادق آتی ہے! ایک طرف امیر المومنین في الحدیث ، اور ایک طرف ضعیف و مرجئی و جہمی!
بجائے اس کے کہ میں ان پر جرح کی وضاحت کروں میں یہ عرض کرتا ہوں کہ امام محمد پر جو جرح آپ نے ذکر کی ہے وہ محدثین نے ذکر کی ہے علم حدیث میں۔ میں نے جس کتاب کا ذکر کیا ہے وہ علم فقہ میں ہے۔ اور علم فقہ میں تو امام شافعی نے ان کی تعریف کی ہے۔
ماشاء اللہ کیا بات ہے آپ کی! یعنی آپ کے نزدیک کوئی جہمی ہے تو کیا فرق پڑتا ہے، اس سے فقہی مسائل لے سکتے ہیں!!
جہاں تک بات رہی امام شافعی نے علم فقہ میں محمد بن حسن شیبانی کی تعریف کی ہے، تو ذرا یہ تو بتائیے کہ امام شافعی نے ''الرسالہ'' کس کے رد میں لکھی تھی؟
اس لیے میں دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ:
امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
آپ نے سوال دہرایا ہے تو مجھے پھر سے جواب بھی دہرانا پڑ رہا ہے:
امام بخاری کا سند ذکر کرنا امام بخاری کی گواہی ہے، اور اس حدیث کو امام بخاری کا اپنی سند کے راویوں کی شہادت کو قبول کرنا امام بخاری کا فیصلہ، اور امام بخاری کا یہ فیصلہ ان راویوں کے ثقہ ہونے کی شہادت پر ہے، جو امام بخاری نے اپنے شیوخ سے حاصل کی۔ اور امام بخاری کے فیصلہ کی دلیل امام بخاری کی بیان کردہ سند ہے!!
اور جب امام محمد بن حسن الشیبانی اپنی المبسوط میں یہی طرز مسائل کے لیے اختیار کرتے ہیں تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
اس بات کو سمجھئے کہ کسی مجتہد کا کسی مسئلہ میں کو ذکر کرنا اس کی گواہی کو قبول کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اس کے استدلال و اسنباط و قیاس شرعی کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ اور اجتہاد میں اگر اختلاف ہو جائے تو جس کا اجتہاد درست معلوم ہو اسے ہی قبول کیا جائے گا اور دوسرے کو مخطئ قرار دیا جائے گا۔ یہ بالکل اس آیت کے ذریعے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے۔ لیکن یہ اس بات کا پابند نہیں کرتا کہ جب، کسی مجتہد کی خطاء بیان کردی جائے تب بھی اسی مجتہد کے قول سے چمٹا جائے!! بلکہ اسے ترک کرنا لازم آتا ہے۔ یہ تو رہی ایک بات۔ دوسری کہ آپ نے امام محمد اور ان کی کتاب مبسوط کے حوالہ سے جو سوال کیا ہے اس کا معاملہ بھی بتلادیتے ہیں!
وہ اس لئے کہ اول تو امام محمد اپنے استدلال میں بھی قابل اعتماد نہیں، کیونکہ ان میں ارجاء بھی پا جاتا تھا اور خیر سے جہمیہ کی بدعت بھی تھی!
اس پر طرہ یہ کہ اپنے استدلال میں خبر واحد کے منکر تھے، اور سونے پر سہاگہ یہ کہ جن احادیث و آثار سے وہ استدلال کر رہیں ہیں ، اس پر بھی وہ بھی قابل اعتماد نہیں کہ وہ خود ضعیف راوی ہیں، اور بوجہ حافظہ کی کمزوری کے نہیں بلکہ ان کی عدالت مجروح ہے!
چلیں آخر میں آپ کی بات رکھ لیتے ہیں، وہ محاورہ نہیں دہراتا!! ابتسامہ