• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جواب چاہتا ہوں.

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اب میرے مراسلہ کا جواب دینے کے لیے کوئی دلیل ہے تو وہ پیش کریں!! میرے مراسلہ سے آپ ''غیر متفق'' ہیں یہ تو عیاں ہے۔
پیش کر غافل گر دلیل دفتر میں ہے!!
کیوں نہیں۔ میں نے عرض کیا ہے کہ موقع ملنے دیں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم ابن داود صاحب! اشماریہ کے الفاظ یہ تھے "سوری۔ میں غلط کہہ گیا"۔ یہ کوئی ایسے خطرناک اور بیہودہ و نازیبا الفاظ نہیں تھے جنہیں جناب والا نے دجل کاری اور ڈرامہ بازی سے تعبیر کیا۔ ایک بچہ بھی جانتا ہوگا کہ میرا مطلب یہ تھا کہ ثابت تو تقلید ہی ہو رہی ہے لیکن جناب والا نہیں مان رہے۔
پھر جناب والا کے ان الفاظ پر میں نے عرض کیا کہ "اس سے زیادہ برے الفاظ تو میں شاہد نذیر سے سن چکا ہوں۔ شاید بہت سے لوگوں کا کام ہی یہ ہوتا ہے" تو شاید محترم کی گرم مزاجی نے اس کا جواب بھی محترم کی عادت کے مطابق دینا مناسب جانا جیسا کہ جناب کا یہ ارشاد دوسرے تھریڈ میں گزر چکا ہے کہ "کوفے تک صدائیں جائیں گی" تو جناب نے
شیخ المشائخ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ کی شان میں گستاخی فرمادی۔
مجھے آپ نہیں محترمی @خضر حیات بھائی سے یہ عرض کرنا ہے کہ اس میں میرے کون سے جملے قابل تدوین ہیں جن کی میں تدوین کروں؟؟
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ سوره المائدہ ٧٧
کہہ دو! اے اہلِ کتاب تم اپنے دین میں غلو مت کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی مت کرو جو اس سے پہلے گمراہ ہو چکے اور انہوں نے بہتوں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے دور ہو گئے-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم ابن داود صاحب! اشماریہ کے الفاظ یہ تھے "سوری۔ میں غلط کہہ گیا"۔ یہ کوئی ایسے خطرناک اور بیہودہ و نازیبا الفاظ نہیں تھے جنہیں جناب والا نے دجل کاری اور ڈرامہ بازی سے تعبیر کیا۔ ایک بچہ بھی جانتا ہوگا کہ میرا مطلب یہ تھا کہ ثابت تو تقلید ہی ہو رہی ہے لیکن جناب والا نہیں مان رہے۔
پھر جناب والا کے ان الفاظ پر میں نے عرض کیا کہ "اس سے زیادہ برے الفاظ تو میں شاہد نذیر سے سن چکا ہوں۔ شاید بہت سے لوگوں کا کام ہی یہ ہوتا ہے" تو شاید محترم کی گرم مزاجی نے اس کا جواب بھی محترم کی عادت کے مطابق دینا مناسب جانا جیسا کہ جناب کا یہ ارشاد دوسرے تھریڈ میں گزر چکا ہے کہ "کوفے تک صدائیں جائیں گی" تو جناب نے شیخ المشائخ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ کی شان میں گستاخی فرمادی۔
مجھے آپ نہیں محترمی @خضر حیات بھائی سے یہ عرض کرنا ہے کہ اس میں میرے کون سے جملے قابل تدوین ہیں جن کی میں تدوین کروں؟؟
میرے خیال میں اب نظر انداز کردیں ، امید ہے آئندہ ایسا معاملہ نہیں ہوگا ۔ ان شاءاللہ
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
یہ جو کہا گیا کہ آنکھوں میں دھول صرف قادیانی ہی جھولتے
یہ کسی ایک گروہ کا مخصوص اشارہ ہے خیر مجھے اتنا ہی کہنا ہے کہ اگر بات تھذیب کے دائرے میں ہو تو اچھی ہوتی ہے لیکن اگر کوئی ایک صرف شھد لگا دے اور بعد میں کہے میں نے تو کچھ نہیں کیا شھد ہی لگایا تھا باقی تو کرنے والے نے کیا تو غلط ہے اگر ٹائپنگ کے دوران گمان گزرا کہ یہ بات کچھ نامناسب لگ رہی ہے تو بجائے سوری لکھنے اور علاامات ڈالنے کے اسے حذف بھی تو کیا جا سکتا ہے
علی کل حال
کہا جاتا ہے کہ العاقل تکفيه الاشارۃ
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
سب کے جوابات پڑھے۔ ایک عام مسلمان جو عربی سے بھی ناواقف ہو وہ قرآن و حدیث پر غور کیسے کرے گا عمل کرنے کے لیے؟
مولانا سرفراز خاں صفدر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ کوئی بدبخت اور ضدی مقلد دل میں یہ ٹھان لے کہ میرے امام کے قول کے مخالف اگر قرآن و حدیث سے بھی کوئی دلیل قائم ہو جائے تو میں اپنے مذہب کو نہیں چھوڑوں گا تو وہ مشرک ہے ، ہم بھی کہتے ہیں ، لا شک فیہ(اس میں کوئی شک نہیں)۔‘‘
(الکلام المفید ،ص:۳۱۰)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

نہیں یہاں تک کی تمام باتیں موضوع سے خارج نہیں!
امام طحاوی کا تقلید سے متعلق مؤقف بیان کیا تھا:
امام طحاوی کے نزدیک تو تقلید وہی کرتا ہے جو غبي ہو یاعصي ہو!
سمعت أبا الحسن علي بن أبي جعفر الطحاوي يقول سمعت أبي يقول وذكر فضل أبي عبيد بن جرثومة وفقهه فقال كان يذاكرني بالمسائل فأجبته يوما في مسألة فقال لي ما هذا قول أبي حنيفة فقلت له أيها القاضي أو كل ما قاله أبو حنيفة أقول به فقال ما ظننتك إلا مقلدا فقلت له وهل يقلد إلا عصي فقال لي أو غبي

وعلیكم السلام ورحمۃ الله و بركاتہ
محترم بھائی! وقت کی کمی کی وجہ سے جتنا وقت ملتا جائے گا اتنا جواب دیتا جاؤں گا۔ آپ جواب مکمل ہونے کا انتظار فرما لیں یا مذکور پر پہلے بحث فرمالیں۔ جیسے مناسب معلوم ہو۔

تو آپ نے امام طحاوی کا تقلید سے متعلق آپ نے یہ موقف بیان کیا ہے۔ اگرچہ اس کا شان ورود کچھ اور تھا لیکن جب قائل یہ کہہ رہا ہو تو ہمیں کیا اعتراض! لہذا آپ امام طحاوی رح کے اس موقف کو ہی دیکھ لیجیے۔
امام طحاوی کے نزدیک تو تقلید وہی کرتا ہے جو غبي ہو یاعصي ہو!
تو میں نے بھی یہی عرض کیا ہے کہ:
میرا خیال ہے کہ یہ ایک عقلی غلطی ہے آپ حضرات کی۔ خود آپ میں سے بہت سے حضرات یہ کہتے ہیں کہ ایسا جاہل صرف تقلید ہی کر سکتا ہے۔
امام طحاوی کے حنفی ہونے پر تمام علماء متفق ہیں اور انہیں پہلے شافعی اور پھر بعد میں حنفی ذکر کرتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی بہت دلچسپ ہے لیکن موقع سے غیر متعلق سمجھ کر ذکر نہیں کرتا۔ امام طحاوی کی شرح معانی الآثار پڑھیے۔ فقہ حنفی کے مطابق دلائل پیش کرتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں: وجميع ما بينا في هذا الباب هو قول أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد رحمهم الله تعالى۔ اور یہی ان کا طرز ہے پوری شرح معانی الآثار میں۔ اس کے علاوہ انہوں نے "مناقب ابی حنیفہ" بھی تحریر فرمائی ہے۔
امام طحاویؒ کے بارے میں یہ تفصیل جاننے کے بعد اس کلام کی جانب آئیے:
میں نے انہیں ایک مسئلہ میں ایک دن جواب دیا تو انہوں نے کہا: یہ تو ابو حنیفہؒ کا قول نہیں ہے! (ذرا ابو عبید بن جرثومہ کے الفاظ دیکھیے۔ اگر امام طحاوی حنفی مقلد نہ ہوتے تو انہیں یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟۔۔۔ ناقل) تو میں نے کہا: کیا ہر وہ چیز جو ابوحنیفہ نے کہی ہو میں وہی کہتا ہوں؟ (اب ذرا لفظ "کل" دیکھیے۔ بجائے اس کے کہ وہ یہ کہتے کہ میں ابو حنیفہ کا مقلد نہیں ہوں یا اور کچھ، یہ کہا کہ کیا "ہر وہ چیز جو ابو حنیفہ کہیں۔۔۔"۔ اس سے معلوم ہوا کہ بہت سے مسائل میں طحاوی کا مسلک وہی ہے جو ابو حنیفہ کا ہے اور یہ کوئی استدلال ضعیف نہیں ہے بلکہ شرح معانی الآثار اس پر گواہ ہے۔ ویسے بھی امام طحاوی "اعلم الناس بمذہب ابی حنیفہ" کہا جاتا ہے اور یہ الفاظ غالبا ابن حجر عسقلانیؒ کے ہیں۔۔۔۔ ناقل)۔ تو انہوں نے کہا: میں تو آپ کو مقلد کے سوا کچھ نہیں سمجھتا (الفاظ دیکھیے۔ امام طحاویؒ کا مرتبہ مجتہدین میں مجتہدین فی المسائل کا ہے۔ اور ظاہر ہے وہ نرے مقلد نہیں ہیں۔ جب ابو عبید نے انہیں صرف مقلد محض سمجھا تو انہوں نے اس کا رد فرمایا جسے ذکر کیا گیا ہے۔۔۔۔ ناقل)
تو اس سے معلوم ہوا کہ امام طحاوی "غیر مقلد" ہونے کے قائل نہیں تھے۔ بلکہ وہ تقلید محض اس کے لیے روا جانتے تھے جو یا تو عصی ہو (جب اجتہاد یا استدلال کرنے لگے تو اپنے نفس پر چل کر اپنے خالق کی طاعت سے نکل جائے) اور یا غبی ہو (علم ہی نہ رکھتا ہو کہ استدلال کر سکے)۔ اس کے علاوہ کے لیے وہ تقلید و اجتہاد کے ما بین جو دیگر درجات ہیں ان کے قائل تھے۔
یہاں میں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ ہم لوگ بھی ہر عالم و غیر عالم کی ایک ہی طرح کی تقلید کے قائل نہیں ہیں۔ تفصیل کے لیے "تقلید کی شرعی حیثیت" مصنفہ مولانا تقی عثمانی حفظہ اللہ پڑھیے۔

دلیل آپ کو دے دی ہے، مگر اس دلیل کو قبول کرنے کے بجائے آپ حجت بازی سے کام لے رہے ہیں، کبھی ہمارے استدلال کے بجائے اپنے اٹکل کا قیاس کی قیاس آرائی فرما کر خود اس قیاس کا رد کر کے سمجھتے ہو کہ آپ نے ہماری دلیل کو رد کر دیا! اور آگے اس دلیل پر آپ کیا بیان کرتے ہو اس کا جواب اسی مقام پر دے دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ!
میرے محترم میں نے اس دلیل کے بارے میں یہ عرض کیا تھا:
جو دلیل آپ نے حدیث سے دی تو اس میں قاضی تو نبی ﷺ ہیں لیکن وہ گواہ کون ہے جس کی کتاب سے گواہی دی جا رہی ہے اور اس نے کتاب میں وہ گواہی لکھی ہے؟
استدلال کے چار طریقے ہوتے ہیں۔ استدلال بعبارۃ النص، باشارۃ النص، بدلالۃ النص اور باقتضاء النص۔ تو یہ آپ کا استدلال کا کون سا طریقہ ہے؟
ور اگر یہ نہ دکھا سکیں تو یہ حدیث ظاہر ہے صرف آپ پر تو واضح ہوئی نہیں ہے اس لیے محدثین میں سے کسی سے یہ استدلال دکھائیے کہ قاضی ایسے بھی گواہی قبول کرسکتا ہے۔
آپ نے نہ تو اوپر موجود دونوں سوالوں کے جوابات دیے نہ وضاحت کی۔ اور نہ تیسرا مطالبہ پورا کیا۔
اب اگر آپ یہ کہیں کہ بس میں نے دلیل دے دی تم مان لو تو بھلا ایسے کون ذی عقل مان سکتا ہے؟؟ ثابت کیجیے تو ہم مانیں۔ عموما میں صرف یہ سوال کرتا ہوں کہ اس کا حوالہ یا استدلال کسی سے دکھائیے لیکن آپ کو اہل علم میں سے جان کر پچھلے دو سوالات کیے ہیں۔ براہ کرم ان کی وضاحت کیجیے۔ صرف عبارت لکھ کر یہ سمجھنا کہ ہمارا مدعی ثابت ہو گیا تو ناکافی ہوتا ہے۔
درحقیقت آپ کی بات میں اور اس حدیث میں بہت فرق ہے۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ نبی ﷺ کی سنت کے طور پر قاضی کا یہ عمل ثابت ہو رہا ہے تب بھی دعوی یہ ہے کہ "گواہ کی کتاب سے گواہی درست یا قبول ہو جاتی ہے۔" یہ دعوی نہیں کہ "کتاب کی گواہی قبول ہے۔" دوم یہ کہ آپ کی پیش کردہ روایت میں دعوی یہ تھا کہ "تورات میں رجم کا حکم موجود ہے"۔ یہودی نے انکار کیا اور عبد اللہ بن سلام رض نے اسے جھٹلایا یعنی اس بات کی تصدیق کی کہ موجود ہے۔ تو تورات منگوائی گئی اور حکم دیکھا گیا۔ یہ "حکم تورات میں موجود ہونا" تو عین دعوی ہے۔ یہ شہادت تو ہے ہی نہیں۔ شہادت دعوی سے خارج ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر آپ نے خضر حیات بھائی نے اپنی کتاب میں ابجد لکھی ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں لکھی۔ اب شہادت یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنی بات پر شاہد نذیر اور محمد ارسلان بھائی کو بلائیں اور وہ یہ کہیں کہ ہاں یہ لکھی ہے۔ اور میں فلاں اور فلاں کو بلاؤں کہ نہیں یہ نہیں لکھی۔
لیکن اگر کتاب موجود ہے اور وہ منگوا کر دیکھی گئی تو یہ تو عین دعوی ہے۔ یہی تو آپ کا دعوی ہے۔ یہ شہادت تو ہے ہی نہیں۔ اگر یہ شہادت ہے تو پھر دعوی کہاں ہے۔
پھر یہاں بڑے فرق ہیں:
نبی ﷺ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ تورات یا انجیل کے کسی بھی حکم کی تائید یا تردید فرما سکتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی قاضی یہ نہیں کر سکتا۔ تو جب اس معاملے میں خصوصیت نبی ﷺ کا یہ پہلو موجود ہے تو کوئی اور قاضی یہ کام کیسے کر سکتا ہے؟؟
دوم کتاب آسمانی کتاب ہے اگرچہ تحریف شدہ۔ اس میں اور کسی بھی انسان کی کتاب میں واضح فرق ہے۔
سوم جس حکم کی یہاں بات ہوئی وہ بھی منصوص من اللہ ہے قطعی طور پر کیوں کہ نبی ﷺ کی تائید بلکہ اخبار غیبی اسے حاصل ہے کہ یہ حکم تمہاری کتاب میں ہے۔ نیز اس حکم کو قرآن کی تائید بھی حاصل ہے۔

اب بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ:

  1. دعوی یہ ہے کہ محدثین کی کتب کو گواہ کی کتاب مانتے ہوئے ان سے گواہی لینا درست ہے یا نہیں؟
  2. آپ کی دلیل میں گواہ کون ہے؟ یہ تو عین دعوی ہے۔
  3. آپ کے استدلال کا طریقہ کیا ہے؟
  4. کسی محدث نے یہ استدلال کیا بھی ہے یا یہ فقط آپ کی ذہنی رسائی ہے؟
  5. آپ کی پیش کردہ روایت اور مسئلہ میں بہت سے فروق ہیں۔

ان باتوں کو آپ حل کریں گے تو آپ کا استدلال تام اور قابل قبول ہوگا۔ میرے بھائی مجتہدین کے مسائل میں اور ہمارے مسائل میں یہی فرق ہوتا ہے۔ آپ چاروں فقہ میں سے کسی ایک کے مجتہد کے کسی مسئلہ اور دلیل کو تحریر فرمائیں میں آپ کو یہ چیزیں حل کر کے دکھا دوں گا ان شاء اللہ اور اگر کوئی کمزوری یا خامی معلوم ہوئی تو وہ بھی بتا دوں گا۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم وحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی! جواب مکمل ہونے تک آپ اپنے مراسلہ کے آخر میں ''جاری ہے'' لکھ دیں
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اگر ایسا ہوتا! بلکل اسے قبول کیا جاسکتا تھا، مگر جب تک کہ اس کے بطلان کا ثبوت واضح نہ ہوجائے!! مگر صورت حال کچھ اور ہے!!
معاملہ کچھ یوں ہےکہ امام محمد نے اپنا مؤقف قرآن ، حدیث، اجماع اور قیاس سے شرعی سے اخذ نہیں کیا، بلکہ اپنے اٹکل کی بنا پر قرآن و حدیث کے احکام کو رد کرتے ہوئے اپنی اٹکل سے مسائل اخذ کئے ہیں!! ایک مثال پیش کرتا ہوں اسی ہدایہ ہے کہ جس کے متعلق آپ نے کہا کہ اس کی بنیاد قدوری و مبسوط ہی ہیں:
(وَإِنْ سَبَقَهُ الْحَدَثُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ تَوَضَّأَ وَسَلَّمَ) لِأَنَّ التَّسْلِيمَ وَاجِبٌ فَلَا بُدَّ مِنْ التَّوَضُّؤِ لِيَأْتِيَ بِهِ (وَإِنْ تَعَمَّدَ الْحَدَثَ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ أَوْ تَكَلَّمَ أَوْ عَمِلَ عَمَلًا يُنَافِي الصَّلَاةَ تَمَّتْ صَلَاتُهُ)
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 386 جلد 01 الهداية في شرح بداية المبتدي - ، أبو الحسن برهان الدين المرغيناني - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، کراتشي، باكستان
اب یہ بتا دیں کہ یہ بات کہ جب کوئی حنفی نماز میں تشہد کے بعد جان بوجھ کر سلام کے بجائے پاد مارے تو اس کی نماز مکمل ہو گئی! اس پر قرآن کی کون سی آیت ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی حدیث ہے، اور اگر یہ قیاسی مسئلہ ہے تو اس کا مقیس علیہ کون سی آیت یا کون سی حدیث ہے؟
جبکہ اگر حادثاتاً کسی کی ہوا خارج ہو جائے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، اسے وضوء کرکے نماز مکمل کرنی ہوتی ہے!!
یقیناً آپ اس پر نہ قرآن کی آیت پیش کر سکتے ہیں، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث، اور نہ ہی اس کو قیاسی شرعی ہونے پر اس قرآن و حدیث سے اس کا مقیس علیہ!!
اور اسی طرح کی فقہ کو ہم قیاس آرائیاں اور اٹکل پچو کہتے ہیں!! یہ ایک وجہ ہے کہ ہم ان کتابوں کو معتبر نہیں سمجھتے!! دوسری وجہ اپنے استدلال و استنباط و قیاس میں نبی صلی اللہ علیہ کی احادیث کو رد کرنا بھی شامل ہیں!! جیسے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو رد کیا گیا :
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ ، عَنْ عَائِشَة ، قَالَتْ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشَخِّصْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِي قَاعِدًا ، وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّاتُ ، وَكَانَ إِذَا جَلَسَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى ، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقِبِ الشَّيْطَانِ وَعَنْ فَرْشَةِ السَّبُعِ ، وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ " .
سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ
حد تو یہ ہے کہ اس باب میں آپ کے امام اعظم کی روایات کردہ حدیث بھی منقول ہے۔ جو آپ کے نزدیک امام صاحب کی روایات ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الأَشْرَسِ السُّلَمِيُّ نَيْسَابُورِيٌّ ، أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ يَزِيدَ , أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ أَبِي نَضْرَةَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْوُضُوءُ مِفْتَاحُ الصَّلاةِ وَالتَّكْبِيرُ تَحْرِيمُهَا , وَالتَّسْلِيمُ تَحْلِيلُهَا , وَلا تُجْزِئُ صَلاةٌ إِلا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَعَهَا غَيْرُهَا " .
مسند أبي حنيفة لابن يعقوب » مُسْنَدُ الإِمَامِ أَبِي حَنِيفَةَ » مَا أَسْنَدَهُ الإِمَامُ أَبُو حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ طَرِيفِ بْنِ شِهَابٍ أَبِي سُفْيَانَ ...
لہٰذا جو نام نہاد ''فقہ'' جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو رد کرنے پر مبنی ہو اسے ہم معتبر نہیں جانتے!!!
انتہائی معذرت چاہتا ہوں۔ میں نے امام محمدؒ کے موقف کا ذکر کیا ہے اور یہ مسئلہ میری معلومات کی حد تک المبسوط میں موجود نہیں ہے جس کی میں نے بات کی ہے۔
رہ گئی بات یہ کہ ہدایہ کی بنیاد قدوری اور المبسوط ہی ہیں تو یہ میں نے یقینا کہا ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ ہدایہ مکمل انہی پر مشتمل ہے۔ وہاں مثال ہدایہ کی اس لیے دی تھی کہ اگر آپ نے المبسوط نہیں دیکھی تو ہدایہ کا مطالعہ کیا ہوگا وہاں کیا تمام مسائل تحری والے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔
اس لیے چوں کہ پیش کردہ مسئلہ میری بات یعنی امام محمدؒ کے موقف کو قبول کرنے سے متعلق ہی نہیں ہے اس لیے میں اس پر بحث بھی نہیں کرتا۔

ویسے عرض یہ ہے کہ آپ یا تو اس مسئلہ کو غلط سمجھ رہے ہیں یا پھر غلط بیان کر رہے ہیں۔ تمت صلاتہ کا جو مطلب آپ لے رہے ہیں وہ ہمارے یہاں بھی مراد نہیں لیا جاتا۔ بہرحال میں کہہ چکا ہوں کہ یہ اس بحث کا مقام نہیں ہے اس لیے ہم آگے چلتے ہیں۔

ہم آپ کو شیخ السلام ابن تیمیہ کا کلام وسیاق و سباق کے ساتھ پیش کرتے ہیں:
وَرُوِيَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِي أَنَّهُ لَمَّا سُئِلَ عَنْ تَفْسِيرِ قَوْلِهِ: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} فَقَالَ: تَفْسِيرُهُ كَمَا يُقْرَأُ هُوَ عَلَى الْعَرْشِ وَعِلْمُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ؛ وَمَنْ قَالَ غَيْرَ هَذَا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ. وَرَوَى أَبُو الْقَاسِمِ اللالكائي " الْحَافِظُ. الطبري؛ صَاحِبُ أَبِي حَامِدٍ الإسفرائيني فِي كِتَابِهِ الْمَشْهُورِ فِي " أُصُولِ السُّنَّةِ " بِإِسْنَادِهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ صَاحِبِ أَبِي حَنِيفَةَ قَالَ: اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ كُلُّهُمْ - مِنْ الْمَشْرِقِ إلَى الْمَغْرِبِ - عَلَى الْإِيمَانِ بِالْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيثِ؛ الَّتِي جَاءَ بِهَا الثِّقَاتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صِفَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ: مِنْ غَيْرِ تَفْسِيرٍ؛ وَلَا وَصْفٍ وَلَا تَشْبِيهٍ؛ فَمَنْ فَسَّرَ الْيَوْمَ شَيْئًا مِنْهَا فَقَدْ خَرَجَ مِمَّا كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ؛ فَإِنَّهُمْ لَمْ يَصِفُوا وَلَمْ يُفَسِّرُوا؛ وَلَكِنْ أَفْتَوْا بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ ثُمَّ سَكَتُوا؛ فَمَنْ قَالَ: بِقَوْلِ جَهْمٍ فَقَدْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ لِأَنَّهُ قَدْ وَصَفَهُ بِصِفَةِ لَا شَيْءَ. مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ أَخَذَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَمَالِكٍ وَطَبَقَتِهِمَا مِنْ الْعُلَمَاءِ. وَقَدْ حَكَى هَذَا الْإِجْمَاعَ وَأَخْبَرَ أَنَّ الْجَهْمِيَّة تَصِفُهُ بِالْأُمُورِ السَّلْبِيَّةِ غَالِبًا أَوْ دَائِمًا. وَقَوْلُهُ مِنْ غَيْرِ تَفْسِيرٍ: أَرَادَ بِهِ تَفْسِيرَ " الْجَهْمِيَّة الْمُعَطِّلَةِ " الَّذِينَ ابْتَدَعُوا تَفْسِيرَ الصِّفَاتِ بِخِلَافِ مَا كَانَ عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ مِنْ الأثبات.
وَرَوَى البيهقي وَغَيْرُهُ بِإِسْنَادِ صَحِيحٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ الْقَاسِمِ بْنِ سلام قَالَ: هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي يَقُولُ فِيهَا {ضَحِكَ رَبُّنَا مِنْ قُنُوطِ عِبَادِهِ وَقُرْبِ غَيْرِهِ} {وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَا تَمْتَلِئُ حَتَّى يَضَعَ رَبُّك فِيهَا قَدَمَهُ} {وَالْكُرْسِيُّ مَوْضِعُ الْقَدَمَيْنِ} وَهَذِهِ الْأَحَادِيثُ فِي " الرُّؤْيَةِ " هِيَ عِنْدَنَا حَقٌّ حَمَلَهَا الثِّقَاتُ بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ؛ غَيْرَ أَنَّا إذَا سُئِلْنَا عَنْ تَفْسِيرِهَا لَا نُفَسِّرُهَا وَمَا أَدْرَكْنَا أَحَدًا يُفَسِّرُهَا.
میرے محترم بھائی ذرا سا غور فرمایا کریں۔
آپ نے سیاق و سباق تو بہت اچھا پیش کیا ہے لیکن مسئلہ کچھ ایسا ہے کہ مقام آپ کا کچھ اور ہے۔ میں نے حوالہ فتاوی کبری کا دیا تھا مجموع الفتاوی کا نہیں۔ مجموع میرے پاس ہے ہی نہیں۔
فتاوی کبری کی مکمل عبارت یہ ہے:
الْوَجْهُ الثَّامِنُ: أَنَّ هَذَا خِلَافُ إجْمَاعِ سَلَفِ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتِهَا، فَإِنَّهُمْ أَجْمَعُوا فِي هَذَا الْبَابِ وَفِي غَيْرِهِ عَلَى وُجُوبِ إتْبَاعِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، وَذَمِّ مَا أَحْدَثَهُ أَهْلُ الْكَلَامِ مِنْ الْجَهْمِيَّةِ وَنَحْوِهِمْ. مِثْلُ مَا رَوَاهُ أَبُو الْقَاسِمِ اللَّالْكَائِيُّ فِي أُصُولِ السُّنَّةِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ صَاحِبِ أَبِي حَنِيفَةَ، قَالَ: اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ كُلُّهُمْ مِنْ الْمَشْرِقِ إلَى الْمَغْرِبِ عَلَى الْإِيمَانِ بِالْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيثِ الَّتِي جَاءَتْ بِهَا الثِّقَاتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي صِفَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ، مِنْ غَيْرِ تَفْسِيرٍ وَلَا وَصْفٍ وَلَا تَشْبِيهٍ، فَمَنْ فَسَّرَ الْيَوْمَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَقَدْ خَرَجَ مِمَّا كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ، فَإِنَّهُمْ لَمْ يَصِفُوا وَلَمْ يُفَسِّرُوا، وَلَكِنْ أَفْتُوا بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، ثُمَّ سَكَتُوا فَمَنْ قَالَ بِقَوْلِ جَهْمٍ فَقَدْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ لِأَنَّهُ قَدْ وَصَفَهُ بِصِفَةٍ لَا شَيْءٍ.
الْوَجْهُ التَّاسِعُ: فَقَدْ ذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْإِجْمَاعَ عَلَى وُجُوبِ الْإِفْتَاءِ فِي بَابِ الصِّفَاتِ بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، دُونَ قَوْلِ جَهْمٍ الْمُتَضَمِّنِ لِلنَّفْيِ، فَمَنْ قَالَ لَا يُتَعَرَّضُ لِأَحَادِيثِ الصِّفَاتِ وَآيَاتِهَا عِنْدَ الْعَوَامّ، وَلَا يُكْتَبُ بِهَا إلَى الْبِلَادِ، وَلَا فِي الْفَتَاوَى الْمُتَعَلِّقَةِ بِهَا، بَلْ يَعْتَقِدُ مَا ذَكَرَهُ مِنْ النَّفْيِ، فَقَدْ خَالَفَ هَذَا الْإِجْمَاعَ، وَمِنْ أَقَلِّ مَا قِيلَ فِيهِمْ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - حُكْمِي فِي أَهْلِ الْكَلَامِ أَنْ يُضْرَبُوا بِالْجَرِيدِ وَالنِّعَالِ، وَيُطَافُ بِهِمْ فِي الْقَبَائِلِ وَالْعَشَائِرِ، وَيُقَالُ هَذَا جَزَاءُ مَنْ تَرَكَ الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ وَأَقْبَلَ عَلَى الْكَلَامِ.

یہاں ابن تیمیہ نے امام محمدؒ کے قول کو اپنے دعوی اجماع پر بطور دلیل و شاہد کے بیان کیا ہے۔ اعتماد گر نہیں تھا تو پھر یہ دلیل کیسے ہوا؟
اور اگلی وجہ وجہ تاسع میں جزم کے ساتھ کہا ہے: فَقَدْ ذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْإِجْمَاعَ عَلَى وُجُوبِ الْإِفْتَاءِ فِي بَابِ الصِّفَاتِ بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، دُونَ قَوْلِ جَهْمٍ الْمُتَضَمِّنِ لِلنَّفْيِ
اب یہ دونوں چیزیں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ ابن تیمیہؒ کے نزدیک یہ قول امام محمدؒ سے ثابت تھا جبھی بطور دلیل ذکر کیا اور جبھی جزم فرمایا۔
اب آپ اپنے اصول پر آئیے کہ محدث کا یہ فیصلہ یا گواہی ہے۔ قبول کیجیے تو امام محمد پر سے یہ جرح ختم ہو جاتی ہے کہ جب قائل ہی وضاحت سے کہہ رہا ہے تو پھر کسی اور کی کیا حیثیت رہتی ہے۔
(میں کافی حیران ہوا تھا ابتداء آپ کا یہ سیاق و سباق پڑھ کر۔ کیوں کہ میں پوسٹنگ سے پہلے سیاق و سباق اور بعض اوقات پوری بحث پڑھتا ہوں پھر پوسٹ کرتا ہوں۔)
مزید یہ اسی پر بس نہیں ہے کہ ابن تیمیہؒ نے اس بات پر جزم کیا ہے بلکہ امام طحاویؒ بھی اپنی العقیدۃ الطحاویۃ کے شروع میں فرماتے ہیں:
هذا ذكر بيان عقيدة أهل السنة والجماعة على مذهب فقهاء الملة : أبي حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي وأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاري وأبي عبدالله محمد بن الحسن الشيباني رضوان الله عليهم أجمعين وما يعتقدون من أصول الدين ويدينون به رب العالمين
اور آگے جو عقیدہ بیان فرماتے ہیں وہ بھی جہمیہ کا نہیں بلکہ اہلسنت و الجماعت کا ہے۔
تیسری بات میں نے حوالہ دیا تھا مغراوی کا۔ یہ البانی اور ابن باز رحمہما اللہ کے شاگرد ہیں اور یقینا آپ سے زیادہ ہی علم رکھتے ہوں گے۔ انہوں نے بھی اپنی مذکورہ کتاب میں جزم کے ساتھ امام محمد کے موقف کے طور پر ان روایات کو نقل کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ کی مانوں یا ان تین کی؟

شيخ الاسلام ابن تيمیہ رحمہ الله نے اس بات کی جو گواہی دی ہے کہ امام محمد سے منقول ایک قول ابو القاسم اللالکائی نے جو اپنی سند سے بیان کیا ہے، بلکل درست گواہی ہے، ابو القاسم اللالکائی کی کتاب میں بالکل یہ قول موجود ہے۔ رہی بات کہ کیا اس سے امام محمد کا یہ قول ثابت ہو گیا، تو نہیں، یہاں شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس قول کے ثابت ہونے کی بات نہیں کی۔ جیسا کہ آگے بیہقی وغیرہ کے متعلق تصریح کی ہے کہ ''بإسناد صحيح''
اور اگر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بالفرض اس کی قول کی سند کو صحیح قرار دے بھی دیتے تو، اس کا ثابت ہونا لازم نہیں آتا ، بلکہ شیخ الاسلام کا یہ فیصلہ غلط قرار پاتا۔ کیونکہ اس کی سند مجہول رایوں پر مبنی ہے؛ ہم آپ کو وہ قول ابو القاسم اللالکائی کی کتاب شرح اصول السنٕة سے پیش کرتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: ثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ حَكِيمٍ السُّلَمِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمَ بْنَ الْمَهْدِيِّ بْنِ يُونُسَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا سُلَيْمَانَ دَاوُدَ بْنَ طَلْحَةَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي حَنِيفَةَ الدَّوْسِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: " اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ كُلُّهُمْ مِنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ عَلَى الْإِيمَانِ بِالْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيثِ الَّتِي جَاءَ بِهَا الثِّقَاتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صِفَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ غَيْرِ تَغْيِيرٍ وَلَا وَصْفٍ وَلَا تَشْبِيهٍ , فَمَنْ فَسَّرَ الْيَوْمَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ , فَقَدْ خَرَجَ مِمَّا كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ , فَإِنَّهُمْ لَمْ يَصِفُوا وَلَمْ يُفَسِّرُوا , وَلَكِنْ أَفْتَوْا بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ ثُمَّ سَكَتُوا , فَمَنْ قَالَ بِقَوْلِ جَهْمٍ فَقَدْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ؛ لِأَنَّهُ قَدْ وَصَفَهُ بِصِفَةِ لَا شَيْءَ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 432 - 433 الجزء 03 شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة - أبو القاسم هبة الله اللالكائي - وزارة الأوقاف السعودية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 254 - 355 الجزء 03 شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة - أبو القاسم هبة الله اللالكائي - مكتب دار البصيرة بالإسكندرية

اگر کوئی مقلد دم خم رکھتا ہے، تو وہ اس سند میں تمام رایوں کا ثقہ ہونا تو بعد میں پوچھیں گے، اسماء الرجال کی کتب سے ان کا تعارف ہی کروادے!! لیکن ان تمام راویوں کا!!
لہٰذا اول تو امام محمد سے ان کا نہ قول ثابت ہوتا ہے، اور نہ ہی امام محمد کے جہمی عقیدہ کی کے خلاف ہونے تصریح!! ایک بات اور عرض کردوں، اگر کہیں امام محمد کا قول صحیح سند سے لے بھی آؤ گے تب بھی اس کے قابل قبول ہونے میں ایک بہت بڑی علت حائل ہوتی ہے، وہ آپ کو اس وقت بیان کریں گے، جب آپ کسی صحیح سند سے امام محمد کا ایسا قول لاؤ گے!!
اس سند کے رواۃ کی تحقیق و بحث کی تو اب غالبا ضرورت نہیں رہی کیوں کہ ابن تیمیہ کی گواہی موجود ہے اس کے امام محمد کے قول ہونے پر۔ البتہ یہ جو آپ نے آخری جملہ فرمایا ہے تو مہربانی فرما کر وہ علت بھی میدان میں لے ہی آئیے۔ میں کون سا یہاں چھولے بیچ رہا ہوں۔ آپ کے اشکالات حل کرنے کے لیے ہی تو حاضر ہوں۔

غلطی قاضی شریک کی نہیں بلکہ امام محمد میں ہی بدعت تھی!! ذرا غور فرمائیے!!
بھائی جان ! یہ ''مرجئة الفقهاء'' ارجاء سے کب سے خارج ہو گئے!
آپ نے غالباً یہ ''مرجئة الفقهاء '' کی بات بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حوالہ سے لی ہے، جیسا کہ آپ کے پیش کئے گئے لنک سے ظاہر ہے۔
ہم آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا کلام پیش کرتے ہیں:
وَأَنْكَرَ حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ وَمَنْ اتَّبَعَهُ تَفَاضُلَ الْإِيمَانِ وَدُخُولَ الْأَعْمَالِ فِيهِ وَالِاسْتِثْنَاءَ فِيهِ؛ وَهَؤُلَاءِ مِنْ مُرْجِئَةِ الْفُقَهَاءِ وَأَمَّا إبْرَاهِيمُ النَّخَعِي - إمَامُ أَهْلِ الْكُوفَةِ شَيْخُ حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ - وَأَمْثَالُهُ؛ وَمَنْ قَبْلَهُ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ مَسْعُودٍ: كعلقمة وَالْأَسْوَدِ؛ فَكَانُوا مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ مُخَالَفَةً لِلْمُرْجِئَةِ وَكَانُوا يَسْتَثْنُونَ فِي الْإِيمَانِ؛ لَكِنَّ حَمَّادَ بْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ خَالَفَ سَلَفَهُ؛ وَاتَّبَعَهُ مَنْ اتَّبَعَهُ وَدَخَلَ فِي هَذَا طَوَائِفُ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَمَنْ بَعْدَهُمْ. ثُمَّ إنَّ " السَّلَفَ وَالْأَئِمَّةَ " اشْتَدَّ إنْكَارُهُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ وَتَبْدِيعُهُمْ وَتَغْلِيظُ الْقَوْلِ فِيهِمْ؛ وَلَمْ أَعْلَمِ أَحَدًا مِنْهُمْ نَطَقَ بِتَكْفِيرِهِمْ؛ بل هُمْ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّهُمْ لَا يُكَفَّرُونَ فِي ذَلِكَ؛ وَقَدْ نَصَّ أَحْمَد وَغَيْرُهُ مِنْ الْأَئِمَّةِ: عَلَى عَدَمِ تَكْفِيرِ هَؤُلَاءِ الْمُرْجِئَةِ.
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 507 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 311 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء

وَلِهَذَا لَمْ يُكَفِّرْ أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ أَحَدًا مِنْ " مُرْجِئَةِ الْفُقَهَاءِ " بَلْ جَعَلُوا هَذَا مِنْ بِدَعِ الْأَقْوَالِ وَالْأَفْعَالِ؛ لَا مِنْ بِدَعِ الْعَقَائِدِ فَإِنَّ كَثِيرًا مِنْ النِّزَاعِ فِيهَا لَفْظِيٌّ لَكِنَّ اللَّفْظَ الْمُطَابِقَ لِلْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ هُوَ الصَّوَابُ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 394 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 311 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء

شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ''مرجئة الفقهاء '' کو سلف کے خلاف قرار دیا، انہیں اعمال و اقوال میں بدعت کا مرتکب قرار دیا، اور عقائد کے باب میں نزاع لفظی قرار دیا اور یہ بھی فرما دیا کہ صواب یہی ہے کہ الفاظ کی کتاب و سنت سے موافقت ہی درست ہے۔ہاں اتنا بیان کیا ہے کہ ان ''مرجئة الفقهاء'' کی سلف نے تکفیر نہیں کی!! فتدبر!!
بلکل یہی ہمارا مؤقف ہے، کہ ارجاء کی گمراہی میں درجات ہیں۔ یہی مؤقف امام بخاری امام احمد بن حنبل اور دیگر کا بھی ہے!! شیخ الاسلام نے اس پر بڑی مفصل بحث کی ہے۔ لیکن ہماری بحث اس تفصیل کی متحمل نہیں ہو سکے گی!!
ارجاء کی جرح کو یہ کہہ کر کہ ''مرجئة الفقهاء'' کو اہل سنت میں داخل رکھا ہے، اس سے ارجاء کی جرح رفع نہیں ہو سکتی۔
یہ بھی زبردست بات ہے کہ'' مرجئة الفقهاء'' کہا جائے، لیکن ارجاء کی جرح رفع ہو گئی!! میاں جی کم سے کم اس ''مرجئة الفقهاء'' کے الفاظ پر ہی غور کرلیتے، اس نام میں ہی ارجاء کی جرح شامل ہے!! فتدبر!!
بھائی جان اگر آپ کو علم الحدیث و علم جرح وتعدیل کا بنیادی علم بھی ہوتا تو ایسی بے سروپا بات نہیں کرتے!! کیونکہ کسی بھی بدعت کا کو مکفرہ نہ ہو، اس کا ''قلیل البدع'' راوی اس سے بھی اس بدعت کے علاوہ کی کوئی حدیث ہو تو لی جاتی ہے، یعنی اسے اہل سنت میں شمار کیا جاتا ہے، مگر اس سے اس پر موجود جرح رفع نہیں ہو جاتی!! فتدبر!!
مجھے حیرت ہے کہ میں تو ابن تیمیہؒ کا مقلد ہوں نہیں۔ اور جناب والا خود کو ویسے ہی تقلید سے دور بتاتے ہیں۔ تو پھر ابن تیمیہؒ کا یہ فتوی کہ یہ اقوال و افعال کی بدعت ہے کس کے لیے ذکر کیا ہے؟؟؟
بہر صورت مرجئہ کی دو قسمیں ہیں: ایک مرجئۃ البدعۃ اور دوسری مرجئۃ السنۃ۔
اس دوسری قسم کو مرجئۃ الفقہاء بھی کہا جاتا ہے۔ اور انہیں مرجئہ کہنے کی وجہ یہ بنی کہ یہ ایمان کے بسیط ہونے کے قائل تھے۔ ان کے پاس اس سلسلے میں اپنے مضبوط دلائل ہیں۔ اور ان دلائل کی روشنی میں ظاہر ہے انہیں بدعتی نہیں کہا جا سکتا۔ لہذا ابن تیمیہؒ کا یہ فتوی درست نہیں ہے۔
علامہ شہرستانی (548ھ) الملل و النحل میں لکھتے ہیں:
ومن العجيب أن غسان كان يحكي عن أبي حنيفة رحمه الله مثل مذهبه، ويعده من المرجئة، ولعله كذب كذلك عليه، لعمري! كان يقال لأبي حنيفة وأصحابه مرجئة السنة. وعده كثير من أصحاب المقالات من جملة المرجئة، ولعل السبب فيه أنه لما كان يقول: الإيمان هو التصديق بالقلب، وهو لا يزيد ولا ينقص، ظنوا أنه يؤخر العمل عن الإيمان. والرجل مع تخريجه في العمل كيف يفتي بترك العمل؟ وله سبب آخر، وهو أنه كان يخالف القدرية، والمعتزلة الذين ظهروا في الصدر الأول. والمعتزلة كانوا يلقبون كل من خالفهم في القدر مرجئا، وكذلك الوعيدية من الخوارج. فلا يبعد أن اللقب إنما لزمه من فريقي المعتزلة والخوارج، والله أعلم.
(انڈر لائن لفظ کو علامہ لکھنویؒ نے "تبحرہ فی العلم" نقل کیا ہے اور عبد الفتاح ابو غدہؒ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔)
امام محمدؒ اس تصریح کے مطابق مرجئۃ السنۃ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ان کے اقوال و افعال کو اگر کوئی بدعت ثابت کرنا چاہے تو اسے ایک باقاعدہ خطرناک بحث سے گزرنا پڑے گا کیوں کہ اعمال کے جزو ایمان ہونے نہ ہونے کی بحث ہر زمانے میں رہی ہے۔

ویسے عرض کچھ یہ ہے کہ جناب نے فرمایا:
بھائی جان اگر آپ کو علم الحدیث و علم جرح وتعدیل کا بنیادی علم بھی ہوتا تو ایسی بے سروپا بات نہیں کرتے!! کیونکہ کسی بھی بدعت کا کو مکفرہ نہ ہو، اس کا ''قلیل البدع'' راوی اس سے بھی اس بدعت کے علاوہ کی کوئی حدیث ہو تو لی جاتی ہے، یعنی اسے اہل سنت میں شمار کیا جاتا ہے، مگر اس سے اس پر موجود جرح رفع نہیں ہو جاتی!! فتدبر!!
تو مجھے تو اس قاعدہ کا بخوبی علم ہے لیکن اگر بالفرض و المحال ہم مرجئہ السنہ ہونے کو بدعت سمجھ بھی لیں تب بھی میں نے کب ان روایات کے قبول کرنے کا ذکر کیا ہے؟ میں نے مسائل کے قبول کرنے کا ذکر کیا ہے اور مسائل (یعنی عملی مسائل) میں غالبا کوئی ایسی روایت نہیں جو ان کے اس ارجاء کی تصدیق کرتی ہو۔ آپ یہ جرح باقی رکھیں تب بھی آپ کو موجودہ بحث میں کیا نفع ہے؟؟؟

سألته عن محمد بن الحسن صاحب أبي حنيفة رحمه الله, فقال: قال يحي بن معين كذاب, وقال فيه أحمد يعني بن حنبل نحو هذا, قال أبو الحسن: وعندي لا يستحق الترك.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 63 سؤالات البرقاني للدارقطني رواية الكرجي عنه - أبو بكر بالبرقاني - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر
بالکل یہ بات سؤالات البرقانی للدارقطنی میں موجود ہیں؛ لیکن اس سے امام محمد کی توثیق کہا ثابت ہوتی ہے، یہاں امام دارقطنی نے صرف اتنا بیان کیا ہے کہ امام دارقطنی کے نزدیک امام محمد بالکل ہی ترک کئے جانے کے مستحق نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امام محمد کی امام مالک سے کی گئی روایات دوسرے طرق سے ، یعنی دوسرے روایوں سے ثابت ہے، لہٰذا ان کی وہ روایات تسلیم کی جائیں تو اس میں حرج نہیں، لیکن اس سے امام محمد کا فی نفسہ ثقہ ہونا ثابت نہیں ہوتا! اس کا ثبوت آپ نے خود نقل کیا ہے، ابھی آگے آرہا ہے!! وگرنہ تو امام محمد نہ صرف ترک کئے جانے کے مستحق ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کے!!
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ میرے بھائی میرا آپ کو کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ہے نہ ہی امام محمد نے آپ کی مرغیاں چرائی تھیں۔
اب میں اگر کہوں کہ "ذرا دکھائیے تو کہ کسی اور نے بھی دارقطنی کی اس عبارت کا یہ مطلب لیا ہے؟ ابن تیمیہ نے؟ ذہبی نے؟ ابن حجر نے؟ کسی نے بھی؟" تو براہ کرم ناراض مت ہوئیے گا۔
اس عبارت کا ترجمہ یہ ہے:
میں نے ان (دارقطنی) سے محمد بن الحسن ابو حنیفہ کے صاحب کے بارے میں پوچھا تو کہا: یحیی بن معین نے کذاب کہا ہے اور احمد یعنی ابن حنبل نے بھی ان کے بارے میں ایسا ہی کہا ہے۔ ابو الحسن (دارقطنی) نے کہا: میرے نزدیک وہ ترک (چھوڑے جانے کے) مستحق نہیں ہیں۔
اب یہاں کہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ مراد یہ ہے کہ بالکل ہی ترک کے مستحق نہیں ہیں؟ یہ تو واضح ہے کہ دارقطنی نے ابن معین اور احمد کی جرح بیان کی جس کا لازمی سبب ترک تھا تو اپنا فیصلہ بیان کر دیا کہ میرے نزدیک ترک کے مستحق نہیں ہیں۔
پھر اس پر جناب نے دلیل کیا خوب دی ہے:
اس کی وجہ یہ ہے کہ امام محمد کی امام مالک سے کی گئی روایات دوسرے طرق سے ، یعنی دوسرے روایوں سے ثابت ہے، لہٰذا ان کی وہ روایات تسلیم کی جائیں تو اس میں حرج نہیں، لیکن اس سے امام محمد کا فی نفسہ ثقہ ہونا ثابت نہیں ہوتا! اس کا ثبوت آپ نے خود نقل کیا ہے، ابھی آگے آرہا ہے!! وگرنہ تو امام محمد نہ صرف ترک کئے جانے کے مستحق ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کے!!
کیا آپ کوئی ایسا راوی دکھا سکتے ہیں کہ جسے کذاب کہا گیا ہو اس کی بعض روایات دوسرے طرق سے صحیح ہونے کی وجہ سے اسے ترک نہ کیا جائے؟ یا ایسا کوئی قاعدہ آپ کے علم میں ہے علم جرح و تعدیل میں؟؟
یہ تو ہوتا ہے کہ روایت دوسرے طریق سے آنے کی وجہ سے روایت قبول کر لی جاتی ہے لیکن یہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ راوی کو ہی ترک کا مستحق نہ سمجھا جائے۔
کوئی قاعدہ یا کم از کم نظیر دکھائیے۔ لیکن کسی محدث کی وضاحت کے ساتھ۔ نظیر پر آپ کا استدلال قبول نہیں ہوگا۔
آپ کے الفاظ آپ کو لوٹاتا ہوں! لاؤ دلیل غافل اگر دفتر میں ہے!!

وَقَالَ ابْنُ مَعِيْنٍ: كَتَبْتُ عَنْهُ "الجَامِعَ الصَّغَيْرَ".
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 136 جلد 09 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 3390 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية
اشماریہ! بھائی یہ علم الحدیث کا میدان ہے، فقہ حنفی کے اٹکل پچّو کا نہیں!! کہ آپ یہاں بھی اپنے اٹکل کے گھوڑے دوڑانے لگے ہو!!
اب کوئی پوچھے، کہ جابر جعفی ، جس کے متعلق آپ کے امام اعظم نے فرمایا کہ انہوں نے جابر جعفی سے بڑا جھوٹا کوئی نہیں دیکھا، تو پھر اس سے حدیث کیوں روایت کی!! آپ کے اس اٹکل کی رو سے تو امام آپ کے امام اعظم کو جھوٹا استاد جابر جعفی بھی کذاب نہیں رہا!! اشماریہ صاحب اس طرح کی اٹکل آپ اپنی فقہ حنفی کے لئے محفوظ رکھیں!!
لہٰذا امام محمد پر نہ جہمی ہونے کی جرح رفع ہوئی، نہ مرجئی ہونے کی اور نہ کذاب ہونے کی!!
میں نے تو ابھی صرف آپ کے پیش کئے ہوئے حوالاجات سے بیان کیا ہے، باقی جو ثبوت ہم رکھتے ہیں، انہیں تو ابھی پیش کرنے کی حاجت بھی نہیں!!
ایک، دو، دس، بیس روایات کرتے۔ پوری جامع صغیر ایک کذاب سے اتنی بڑی لکھ ڈالی۔ کیا بہت فارغ وقت تھا؟
میرے محترم میں جانتا ہوں کہ امام اعظمؒ نے جابر جعفی سے اور اسی طرح سفیان ثوریؒ وغیرہ نے بہت سے اپنے مجروحین رواۃ سے روایات کی ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں نہیں۔ اور ان روایات کی وجہ علماء حدیث یہ بتاتے ہیں کہ یہ غلط روایات بھی محفوظ ہو جائیں تا کہ لوگ دھوکہ نہ کھائیں۔ لیکن بھلا فقہ کی کتاب جامع صغیر نقل کرنے میں ایسا کون سا فائدہ تھا؟ وہ تو دوسروں نے پہلے سے نقل کی ہوئی تھی۔
یحیی بن معین کی جرح امام محمد پر ہے لیکن حدیث میں اور اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں جن کی بنا پر دارقطنی اور ذہبی وغیرہ نے اس جرح کو قبول نہیں کیا۔ فقہ میں ابن معین نے ان پر جرح نہیں کی اور ہم نے بات کی ہے فقہ کی۔ تو دو باتیں ہو گئیں: ایک تو جرح فقہ میں نہیں اور موضوع فقہ ہے۔ اور وہ جرح بھی ائمہ کو قبول نہیں۔

البتہ جو باقی ثبوت آپ رکھتے ہیں وہ پیش فرما دیجیے۔ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔

قَالَ إِبْرَاهِيْمُ الحَرْبِيُّ: قُلْتُ لِلإِمَامِ أَحْمَدَ: مَنْ أَيْنَ لَكَ هَذِهِ المَسَائِلُ الدِّقَاقُ؟
قَالَ: مَنْ كُتُبِ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 136 جلد 09 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 3390 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية
امام الذہبی نے مذکورہ قول معلقاً بیان کیا ہے، اور امام الذہبی کی یہ گواہی بلکل درست ہے، تاریخ بغداد میں مذکورہ قول با سند موجود ہے۔ لیکن اس قول سے امام محمد کی توثیق کیسے لازم آگئی، جبکہ امام احمد بن حنبل خود اسی محمد بن حسن الشیبانی کو مذہب جہم پر قرار دے رہے ہیں!
أَخْبَرَنَا محمد بن الحسين بن محمد المتوثي، قَالَ: أخبرنا أحمد بن عثمان بن يحيى الأدمي، قَالَ: حدثنا محمد بن إسماعيل أبو إسماعيل، قَالَ: سمعت أحمد بن حنبل، وذكر ابتداء محمد بن الحسن، فقال: كان يذهب مذهب جهم.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 569 جلد 02 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي، دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 179 جلد 02 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية، بيروت

امام احمد بن حنبل تو امام ابو حنیفہ کے اہل لرائے اصحاب سے دین کے متعلق سوال کرنے کا بھی منع فرماتے ہیں!!
سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ.
امام عبداللہ بن احمد ؒ نے کہا میں نے اپنے باپ (امام احمد بن حنبلؒ) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اپنے کسی دینی معاملہ میں پوچھنا چاہتا ہے۔ یعنی وہ طلاق سے متعلق قسم اٹھانے یا اس کے علاوہ کسی اور معاملہ میں مبتلا ہوا اور اس کے شہر میں اصحاب الرائے بھی ہوں اور ایسے اصحاب حدیث بھی ہوں جو ضعیف حدیث کو اور اسناد کے قوی ہونے کی پہچان نہیں رکھتے تو یہ آدمی اس دوطبقوں میں سے کس سے مسئلہ پوچھے ۔ اصحاب الرائے سے یا ان اصحاب الحدیث سے جو معرفت میں کمزور ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ آدمی اصحاب الحدیث سے پوچھے اور اصحاب الرائے سے نہ پوچھے کیوینکہ ضعیف حدیث بھی ابو حنیفہ کے رائے سے بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 179 جلد 02 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام
یہی نہیں، بلکہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا نے فرمایا کہ امام ابو حنیفہ کے اصحاب (جو اہل الرائی ہیں) سے بغض پر اللہ تعالیٰ اجز دے گا!!
قلت: يؤجر الرجل على بغض أصحاب أبي حنيفة؟
قال: إي والله.
میں نے کہا: کیا کسی شخص کو اصحاب ابو حنیفہ سے بغض رکھنے پر اجر ہوگا؟
(امام احمد بن حنبل نے ) کہا: اللہ کی قسم ، ہاں
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 4765 جلد 09 - مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه - إسحاق بن منصور، المعروف بالكوسج - الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 565 جلد 02 - مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه - إسحاق بن منصور، المعروف بالكوسج - دار الهجرة

وَأُخْبِرْتُ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجِ، قَالَ: قُلْتُ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ يُؤْجَرُ الرَّجُلُ عَلَى بُغْضِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ؟ قَالَ: إِي وَاللَّهِ
مجھے اسحاق بن منصور الکوسج کے حوالے سے خبر ملی کہ انہوں نے کہاکہ : میں نے احمد بن حنبل سے کہا: کیا کسی شخص کو ابو حنیفہ اور اصحاب ابو حنیفہ سے بغض رکھنے پر اجر ہوگا؟
(امام احمد بن حنبل نے ) کہا: اللہ کی قسم ، ہاں
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 179 جلد 02 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام

ثابت یہ ہوا کہ امام احمد بن حنبل نے امام محمد کو جہمی مذہب پر قرار دیا، اور امام احمد بن حنبل اہل الرائے سے فتویٰ لینے کا بھی منع کرتے تھے، بلکل امام احمد بن حنبل کا مؤقف یہ تھا کہ اہل الرائے اصحابہ ابو حنیفہ سے بغض بھی باعث اجر ہے۔ یہ محال ہے کہ امام احمد بن حنبل امام محمد کی کتب سے فقہ اخذ کرتے ہوں، امام احمد بن حنبل کے آپ کے پیش کردہ قول کا معنی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ امام احمد بن حنبل سے ثابت ہونے کی صورت میں یہ معنی محال ہے کہ امام احمد بن حنبل امام محمد کی کتب سے فقہ اخذ کرتے تھے، بلکہ یہی کہ ان کی اہل الرائے کی فقہ کو نقل کرنا ، اور اس پر نقد ہی مراد ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے بھی ابھی ''الهدایة''سے فقہ حنفی کا ایک دقیق مسئلہ بیان کیا ہے!! یا پھر ''دلائل خصم'' کے لحاظ سے!!
اگر امام احمدؒ کے ان اقوال کو نقل کرنے سے پہلے آپ امام احمد کا یہ قول بھی دیکھ لیتے تو شاید آپ کو اتنی غلط فہمی نہ ہوتی:
قال أحمد بن حنبل ما زلنا نلعن أهل الرأي ويعلنوننا حتى جاء الشافعي فمزج بيننا
ترتیب المدارک (1، 22)
"احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں: ہم مستقل اہل رائے کو لعن کرتے تھے اور وہ ہمیں یہاں تک کہ شافعی آئے تو انہوں نے ہمیں جمع کر دیا"
امام احمدؒ کا یہ قول بتاتا ہے کہ اہل رائے کے بارے میں موجود ان کے عجیب و غریب اقوال جن میں سے بعض جناب والا نے ذکر کیے ہیں اس زمانے کے تھے جب امام شافعیؒ نے ان کی غلطی کی اصلاح نہیں کی تھی۔ اور بعد میں ان کے یہ اقوال تبدیل ہو گئے۔
لہذا اوپر جو آپ نے اصحاب الرائے اور اصحاب ابو حنیفہ کے بغض وغیرہ کے بارے میں ذکر کیا ہے وہ اس قول کے بعد قطعا بے فائدہ ہے۔ ویسے تو اس میں اور بھی علل ہیں لیکن جب اس سے قائل نے رجوع کر لیا تو پھر ان کے بیان کا کوئی فائدہ نہیں۔
رہ گئی بات جہمی ہونے کی تو جب قائل خود اس کے خلاف کہہ رہا ہے تو کسی اور کی بات کی کیا حیثیت ہے؟
اور رہا آپ کا عجیب و غریب فیصلہ کہ امام احمد کی مراد نقد ہے تو میرے بھائی! امام احمد کے الفاظ میں تو یہ موجود نہیں ہے۔ لہذا یا تو اسے ثابت کریں کسی محدث سے اور یا پھر امام احمد کی کتب سے یہ ثابت کریں کہ انہوں نے فقہ حنفی کے تمام دقیق مسائل میں نقد و رد کیا ہو۔ فقط آپ کے قول کا کیا فائدہ؟؟؟

جاری ہے۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
كَانَ الشَّافِعِيُّ يَقُوْلُ: كَتَبْتُ عَنْهُ وَقْرَ بُخْتِيّ، وَمَا نَاظَرتُ سَمِيْناً أَذكَى مِنْهُ، وَلَوْ أَشَاءُ أَنْ أَقُوْلَ: نَزَلَ القُرْآنُ بِلُغَةِ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ، لقُلْتُ؛ لِفِصَاحَتِهِ.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 135 جلد 09 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 3390 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية
ہاں تو اس سے کیا ثابت ہوا؟ کیا اس سے امام محمد کا ثقہ ہونا لازم آتا ہے؟ بڑی عجیب بات کی ہے؟ معلوم نہیں کون آپ کو یہ پٹی پڑھاتاہے، اگر عربی لغت کی فصاحت و بلاغت سے کوئی ثقہ ثابت ہو سکتا، اور اس پر موجود جرح رفع ہو سکتی، تو آپ کے زمغشری کیونکر معزلی ٹھہرتے، جبکہ زمخشری کی عربی لغت میں فصاحت و بلاغت کے سبھی معترف ہیں، یہی نہیں بلکہ نہج البلاغہ کے مصنف کی بھی۔ اور کیا ابو جہل ابو الحکم نہیں کہلایا جاتا تھا؟ اسے لغت عربی میں مہارت نہیں تھی؟
اشماریہ صاحب، پھر کہتا ہوں، یہ علم الحدیث کا میدان ہے، فقہ حنفیہ کے اٹکل پچّو کا نہیں!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میرے محترم بھائی! ایک تو فقہ حنفیہ میں اٹکل پچو نہیں ہیں۔ بلکہ میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ اصول فقہ (چاہے کسی بھی فقہ کے ہوں) کی بنیاد اصول حدیث کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے۔
نیز میں علم الحدیث سے ناواقف بھی نہیں ہوں۔ اس لیے میں جو کہہ رہا ہوں یا حوالہ دے رہا ہوں تو سوچ سمجھ کر دے رہا ہوں۔
میں نے اس عبارت سے امام محمدؒ کی فصاحت پر استدلال نہیں کیا ان کی ذکاوت پر استدلال کیا ہے۔ کیوں کہ بات ہماری چلی ہے فقہ کے بارے میں اور فقہ کا ڈائریکٹ تعلق ذکاوت سے ہوتا ہے۔ میرا استدلال وَمَا نَاظَرتُ سَمِيْناً أَذكَى مِنْهُ سے تھا۔
امام شافعی کا ہی ایک اور قول ان کے بارے میں یہ ہے:
ما رأیت أعلم بكتاب الله من محمد، كأنه علیه نزل
مناقب ابی حنیفہ و صاحبیہ للذہبی (1، 81 ط احیاء المعارف)
یہ قول امام محمدؒ کے فقہ و علم کے بارے میں انتہائی واضح ہے۔

اور آپ نے یہ کہاں سے اخذ کر لیا کہ سند سے مستغنی ہو گئے؟؟
میرے محترم یہ میں نے یہاں سے اخذ کر لیا!
محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
"محمد" بن الحسن الشيباني أبو عبد الله أحد الفقهاء لينه النسائي وغيره من قبل حفظه يروي عن مالك بن أنس وغيره وكان من بحور العلم والفقه قويا في مالك انتهى
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 60 - 61 جلد 07 لسان الميزان - ابن حجر العسقلاني - مكتب المطبوعات الإسلامية
جی بلکل درست ہے کہ امام ابن حجر نے اسے لسان المیزان میں بیان کیا ہے۔ یوں تو اسی لسان المیزان میں اسی سے آگے بہت سخت جراح بھی بیان کی ہیں، مگر طوالت مراسلہ کی وجہہ سے اسے ذکر نہیں کرتا۔
مگر یہ تو بتائیے، کہ اپ کے ذکر کردہ کلام میں امام محمد کا ثقہ ہونا کہاں ثابت ہوتا ہے؟
یہ بحور العلم ہونے سے کسی کا ثقہ ہونے کب سے لازم آگیا؟
ایک بات تو یہ کہ لسان المیزان میں "انتہی" سے قبل کی عبارت علامہ ذہبی کی ہوتی ہے جو میزان الاعتدال سے ماخوذ ہوتی ہے۔ لہذا یہ علامہ ذہبی کا قول ہے ابن حجر کا نہیں۔
ذہبی نے سب سے پہلے ان کے بارے میں کہا ہے: احد الفقہاء۔ یہ ان کے فقہ کی تصدیق ہے۔
اس کے بعد جرح ذکر کی ہے ان کے بارے میں صرف ان الفاظ سے لينه النسائي وغيره من قبل حفظه۔ یعنی بغیر کوئی لفظ ذکر کیے انتہائی کمزور و مختصر جرح۔ حالانکہ انہی سے ذرا آگے محمد بن الحسن بن زبالہ المخزومی ہیں۔ ان کے بارے میں جب جرح ذکر کی ہے تو اس طرح کی ہے:
محمد بن الحسن بن زبالة المخزومي المدني.
عن مالك وذويه.
قال أبو داود: كذاب.
وقال يحيى: ليس بثقة.
وقال النسائي والازدى: متروك.
وقال أبو حاتم: واهى الحديث.
وقال الدارقطني وغيره: منكر الحديث.

اس طرز سے ذکر یہ بتاتا ہے ذہبی کے نزدیک ان کی جرح زیادہ اہم نہیں۔ پھر آگے اپنا فیصلہ یوں فرمایا ہے: كان من بحور العلم والفقه۔ یہ امام محمدؒ کے علم و تفقہ میں اعلی درجہ کی توثیق ہے لیکن یہ درست ہے کہ یہ جملہ ذکاوت، علم اور تفقہ پر تو دلالت کرتا ہے لیکن ثقاہت پر دلالت نہیں کرتا۔ اس لیے اگلا جملہ ارشاد فرمایا ہے: قويا في مالك۔ ایک شخص ایک طرف تو کذاب ہو، دنیا بھر پر جھوٹ باندھے، اس کی احادیث مقبول نہ ہوں اور دوسری طرف وہ امام مالک سے روایت میں مقبول نہیں بلکہ قوی ہو۔ کیا یہ ممکن ہے؟ اور جو وجہ آپ نے بیان کی کہ امام مالک سے ان کی روایات دوسرے طرق سے ثابت ہوتی ہیں اس لیے یہ قبول ہیں تو یہ تو صریح البطلان ہے اور اس کو میں بیان کر چکا ہوں کہ ایسا کوئی قاعدہ نہیں کہ کسی کذاب راوی کو صرف اس بنا پر قبول کر لیا جائے کہ اس کی بعض روایات دوسرے طرق سے ثابت ہیں۔
آگے آپ نے فرمایا کہ لسان المیزان میں ان پر اور بھی جرح موجود ہیں۔ تو ظاہر ہے میں نے جب وہاں سے حوالہ دیا ہے تو وہ پڑھی بھی ہوں گی۔ وہ تمام جروحات معلول ہیں اسی وجہ سے ذہبی نے انہیں قبول نہیں کیا۔ ابن حجر نے اپنا فیصلہ یہاں تحریر نہیں کیا لیکن الإیثار فی معرفۃ رواۃ الآثار میں امام محمدؒ کا نام اس طرح ادب سے لفظ "الامام" اور کنیت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں:
فَإِن بعض الإخوان التمس مني الْكَلَام على رُوَاة كتاب الْآثَار للْإِمَام أبي عبد الله مُحَمَّد بن الْحسن الشَّيْبَانِيّ الَّتِي رَوَاهَا عَن الإِمَام أبي حنيفَة فأجبته إِلَى ذَلِك مسارعا ووقفت عِنْد مَا اقترح طَائِعا
واضح رہے کہ اوپر آپ نے ایک راوی کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے یہ بھی ذکر کردیا ہے کہ "الحافظ" اور "الامام" تعدیل نہیں ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ دونوں الفاظ انتہائی اہم معانی رکھتے ہیں۔ الحافظ سے مراد حافظ حدیث ہوتا ہے اور الامام مقتدی کو کہتے ہیں۔ ایک جانب کسی کو الامام کہہ کر مقتدی کہیں اور دوسری جانب یہ کہیں کہ یہ مجروح ہے؟ چہ معنی دارد۔ پھر الامام کا لقب کیوں لائے تھے؟
نیز اگر ابن حجر کے نزدیک محمد بن الحسن الشیبانی پر جروحات قبول ہوتیں تو واضح فرما دیتے کہ راوی اصل ہی ضعیف بلکہ کذاب ہے۔ آگے رواۃ کا کیا ذکر کروں؟؟ لیکن یہ نہیں فرمایا بلکہ اپنے شوق کا اظہار فرمایا کہ میں نے جلدی سے اس کام کو قبول کیا۔
عمر بن ہارون پر گفتگو کا یہ موقع نہیں ہے نہ ان پر میری کوئی تحقیق ہے لیکن عرض کرتا چلوں کہ وہاں الفاظ ہیں: علی ضعف فیہ۔ اور ضعف کی تنوین تقلیل کے لیے ہے جیسے کہ سباق کلام سے ظاہر ہے۔ معنی ہوا: وہ اپنے میں تھوڑے سے ضعف کے باوجود حافظ الحدیث، امام، مکثر وغیرہ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ان دونوں چیزوں میں کوئی منافاۃ نہیں ہے۔ ایک شخص میں یہ تمام صفات ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت ضعف ہونا ممکن ہے۔ کوئی انسان بھی کامل نہیں ہوتا۔ جب امام بخاری تدلیس کر سکتے ہیں (چاہے بعد میں آنے والوں نے لاکھ توجیہات کی ہوں) تو یہاں بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں جب ضعف کثیر ہو، جب حافظہ کمزوری کی حد کو پہنچ جائے، اور جب انسان کی غلطیاں کثیر ہو جائیں تو اس وقت انسان حافظ کے درجے پر نہیں رہتا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ایک چیز ابھی دوران مطالعہ اور نظر آئی کہ اسی الایثار میں ابن حجر نے امام محمد کا ذکر بطور راوی کے بھی کیا ہے۔ وہاں الفاظ یہ ہیں:
وَقَالَ ابْن الْمُنْذر سَمِعت الْمُزنِيّ يَقُول سَمِعت الشَّافِعِي يَقُول مَا رَأَيْت سمينا أخف روحا من مُحَمَّد بن الْحسن
حمل جمل من الْعلم
قَالَ عبد الله بن عَليّ بن الْمَدِينِيّ عَن أَبِيه صَدُوق
وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيّ لَا يتْرك
وَتكلم فِيهِ يحيى ابْن معِين فِيمَا حَكَاهُ مُعَاوِيَة بن صَالح
وعظمه أَحْمد وَالشَّافِعِيّ قبله
وَكَانَ من أَفْرَاد الدَّهْر فِي الذكاء

یہاں ان ساری جروحات کو ابن حجر نے بھی چھوڑ دیا جو لسان المیزان میں لکھی تھیں۔ صرف ابن معین کا ذکر کیا اور وہ بھی وضاحت سے نہیں بلکہ تکلم فیہ کے الفاظ سے۔ (شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ابن معین ایک تو متشدد ہیں اور دوسرے امام محمد کے ہم عصر بھی۔ اور اقران کی جروح کے قبول نہ ہونے کے بارے میں ضابطہ مشہور ہے۔)
اور یہاں ایک چیز اور بھی ذکر کی ہے عظمه أَحْمد۔ احمد نے ان کی تعظیم کی ہے (معنی یقینا تعظیم ہی ہے کیوں کہ آگے شافعی کا ذکر اس کے ساتھ ہی ہے اور شافعیؒ سے ان پر کوئی جرح ثابت نہیں ہے)۔ جبکہ آپ کہتے ہیں کہ امام احمد نے اصحاب ابی حنیفہ کی مذمت کی ہے تو ظاہر ہے کہ ابن حجر کے نزدیک باوجود احمد کی جروحات کے سامنے ہونے کے ایسا نہیں ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔
 
Top