قَالَ إِبْرَاهِيْمُ الحَرْبِيُّ: قُلْتُ لِلإِمَامِ أَحْمَدَ: مَنْ أَيْنَ لَكَ هَذِهِ المَسَائِلُ الدِّقَاقُ؟
قَالَ: مَنْ كُتُبِ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 136 جلد 09 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 3390 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية
امام الذہبی نے مذکورہ قول معلقاً بیان کیا ہے، اور امام الذہبی کی یہ گواہی بلکل درست ہے، تاریخ بغداد میں مذکورہ قول با سند موجود ہے۔ لیکن اس قول سے امام محمد کی توثیق کیسے لازم آگئی، جبکہ امام احمد بن حنبل خود اسی محمد بن حسن الشیبانی کو مذہب جہم پر قرار دے رہے ہیں!
أَخْبَرَنَا محمد بن الحسين بن محمد المتوثي، قَالَ: أخبرنا أحمد بن عثمان بن يحيى الأدمي، قَالَ: حدثنا محمد بن إسماعيل أبو إسماعيل، قَالَ: سمعت أحمد بن حنبل، وذكر ابتداء محمد بن الحسن، فقال: كان يذهب مذهب جهم.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 569 جلد 02 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي، دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 179 جلد 02 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية، بيروت
امام احمد بن حنبل تو امام ابو حنیفہ کے اہل لرائے اصحاب سے دین کے متعلق سوال کرنے کا بھی منع فرماتے ہیں!!
سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ.
امام عبداللہ بن احمد ؒ نے کہا میں نے اپنے باپ (امام احمد بن حنبلؒ) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اپنے کسی دینی معاملہ میں پوچھنا چاہتا ہے۔ یعنی وہ طلاق سے متعلق قسم اٹھانے یا اس کے علاوہ کسی اور معاملہ میں مبتلا ہوا اور اس کے شہر میں اصحاب الرائے بھی ہوں اور ایسے اصحاب حدیث بھی ہوں جو ضعیف حدیث کو اور اسناد کے قوی ہونے کی پہچان نہیں رکھتے تو یہ آدمی اس دوطبقوں میں سے کس سے مسئلہ پوچھے ۔ اصحاب الرائے سے یا ان اصحاب الحدیث سے جو معرفت میں کمزور ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ آدمی اصحاب الحدیث سے پوچھے اور اصحاب الرائے سے نہ پوچھے کیوینکہ ضعیف حدیث بھی ابو حنیفہ کے رائے سے بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 179 جلد 02 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام
یہی نہیں، بلکہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا نے فرمایا کہ امام ابو حنیفہ کے اصحاب (جو اہل الرائی ہیں) سے بغض پر اللہ تعالیٰ اجز دے گا!!
قلت: يؤجر الرجل على بغض أصحاب أبي حنيفة؟
قال: إي والله.
میں نے کہا: کیا کسی شخص کو اصحاب ابو حنیفہ سے بغض رکھنے پر اجر ہوگا؟
(امام احمد بن حنبل نے ) کہا: اللہ کی قسم ، ہاں
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 4765 جلد 09 - مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه - إسحاق بن منصور، المعروف بالكوسج - الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 565 جلد 02 - مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه - إسحاق بن منصور، المعروف بالكوسج - دار الهجرة
وَأُخْبِرْتُ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجِ، قَالَ: قُلْتُ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ يُؤْجَرُ الرَّجُلُ عَلَى بُغْضِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ؟ قَالَ: إِي وَاللَّهِ
مجھے اسحاق بن منصور الکوسج کے حوالے سے خبر ملی کہ انہوں نے کہاکہ : میں نے احمد بن حنبل سے کہا: کیا کسی شخص کو ابو حنیفہ اور اصحاب ابو حنیفہ سے بغض رکھنے پر اجر ہوگا؟
(امام احمد بن حنبل نے ) کہا: اللہ کی قسم ، ہاں
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 179 جلد 02 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام
ثابت یہ ہوا کہ امام احمد بن حنبل نے امام محمد کو جہمی مذہب پر قرار دیا، اور امام احمد بن حنبل اہل الرائے سے فتویٰ لینے کا بھی منع کرتے تھے، بلکل امام احمد بن حنبل کا مؤقف یہ تھا کہ اہل الرائے اصحابہ ابو حنیفہ سے بغض بھی باعث اجر ہے۔ یہ محال ہے کہ امام احمد بن حنبل امام محمد کی کتب سے فقہ اخذ کرتے ہوں، امام احمد بن حنبل کے آپ کے پیش کردہ قول کا معنی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ امام احمد بن حنبل سے ثابت ہونے کی صورت میں یہ معنی محال ہے کہ امام احمد بن حنبل امام محمد کی کتب سے فقہ اخذ کرتے تھے، بلکہ یہی کہ ان کی اہل الرائے کی فقہ کو نقل کرنا ، اور اس پر نقد ہی مراد ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے بھی ابھی ''الهدایة''سے فقہ حنفی کا ایک دقیق مسئلہ بیان کیا ہے!! یا پھر ''دلائل خصم'' کے لحاظ سے!!