- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امام طحاوی کا تقلید سے متعلق مؤقف بیان کیا تھا:
امام طحاوی کے نزدیک تو تقلید وہی کرتا ہے جو غبي ہو یاعصي ہو!
سمعت أبا الحسن علي بن أبي جعفر الطحاوي يقول سمعت أبي يقول وذكر فضل أبي عبيد بن جرثومة وفقهه فقال كان يذاكرني بالمسائل فأجبته يوما في مسألة فقال لي ما هذا قول أبي حنيفة فقلت له أيها القاضي أو كل ما قاله أبو حنيفة أقول به فقال ما ظننتك إلا مقلدا فقلت له وهل يقلد إلا عصي فقال لي أو غبي
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 626 جلد 01 لسان الميزان - ابن حجر العسقلاني - مكتب المطبوعات الإسلامية
معاملہ کچھ یوں ہےکہ امام محمد نے اپنا مؤقف قرآن ، حدیث، اجماع اور قیاس سے شرعی سے اخذ نہیں کیا، بلکہ اپنے اٹکل کی بنا پر قرآن و حدیث کے احکام کو رد کرتے ہوئے اپنی اٹکل سے مسائل اخذ کئے ہیں!! ایک مثال پیش کرتا ہوں اسی ہدایہ ہے کہ جس کے متعلق آپ نے کہا کہ اس کی بنیاد قدوری و مبسوط ہی ہیں:
(وَإِنْ سَبَقَهُ الْحَدَثُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ تَوَضَّأَ وَسَلَّمَ) لِأَنَّ التَّسْلِيمَ وَاجِبٌ فَلَا بُدَّ مِنْ التَّوَضُّؤِ لِيَأْتِيَ بِهِ (وَإِنْ تَعَمَّدَ الْحَدَثَ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ أَوْ تَكَلَّمَ أَوْ عَمِلَ عَمَلًا يُنَافِي الصَّلَاةَ تَمَّتْ صَلَاتُهُ)
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 386 جلد 01 الهداية في شرح بداية المبتدي - ، أبو الحسن برهان الدين المرغيناني - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، کراتشي، باكستان
اب یہ بتا دیں کہ یہ بات کہ جب کوئی حنفی نماز میں تشہد کے بعد جان بوجھ کر سلام کے بجائے پاد مارے تو اس کی نماز مکمل ہو گئی! اس پر قرآن کی کون سی آیت ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی حدیث ہے، اور اگر یہ قیاسی مسئلہ ہے تو اس کا مقیس علیہ کون سی آیت یا کون سی حدیث ہے؟
جبکہ اگر حادثاتاً کسی کی ہوا خارج ہو جائے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، اسے وضوء کرکے نماز مکمل کرنی ہوتی ہے!!
یقیناً آپ اس پر نہ قرآن کی آیت پیش کر سکتے ہیں، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث، اور نہ ہی اس کو قیاسی شرعی ہونے پر اس قرآن و حدیث سے اس کا مقیس علیہ!!
اور اسی طرح کی فقہ کو ہم قیاس آرائیاں اور اٹکل پچو کہتے ہیں!! یہ ایک وجہ ہے کہ ہم ان کتابوں کو معتبر نہیں سمجھتے!! دوسری وجہ اپنے استدلال و استنباط و قیاس میں نبی صلی اللہ علیہ کی احادیث کو رد کرنا بھی شامل ہیں!! جیسے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو رد کیا گیا :
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ ، عَنْ عَائِشَة ، قَالَتْ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشَخِّصْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِي قَاعِدًا ، وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّاتُ ، وَكَانَ إِذَا جَلَسَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى ، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقِبِ الشَّيْطَانِ وَعَنْ فَرْشَةِ السَّبُعِ ، وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ " .
سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ
حد تو یہ ہے کہ اس باب میں آپ کے امام اعظم کی روایات کردہ حدیث بھی منقول ہے۔ جو آپ کے نزدیک امام صاحب کی روایات ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الأَشْرَسِ السُّلَمِيُّ نَيْسَابُورِيٌّ ، أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ يَزِيدَ , أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ أَبِي نَضْرَةَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْوُضُوءُ مِفْتَاحُ الصَّلاةِ وَالتَّكْبِيرُ تَحْرِيمُهَا , وَالتَّسْلِيمُ تَحْلِيلُهَا , وَلا تُجْزِئُ صَلاةٌ إِلا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَعَهَا غَيْرُهَا " .
مسند أبي حنيفة لابن يعقوب » مُسْنَدُ الإِمَامِ أَبِي حَنِيفَةَ » مَا أَسْنَدَهُ الإِمَامُ أَبُو حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ طَرِيفِ بْنِ شِهَابٍ أَبِي سُفْيَانَ ...
لہٰذا جو نام نہاد ''فقہ'' جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو رد کرنے پر مبنی ہو اسے ہم معتبر نہیں جانتے!!!
وَرُوِيَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِي أَنَّهُ لَمَّا سُئِلَ عَنْ تَفْسِيرِ قَوْلِهِ: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} فَقَالَ: تَفْسِيرُهُ كَمَا يُقْرَأُ هُوَ عَلَى الْعَرْشِ وَعِلْمُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ؛ وَمَنْ قَالَ غَيْرَ هَذَا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ. وَرَوَى أَبُو الْقَاسِمِ اللالكائي " الْحَافِظُ. الطبري؛ صَاحِبُ أَبِي حَامِدٍ الإسفرائيني فِي كِتَابِهِ الْمَشْهُورِ فِي " أُصُولِ السُّنَّةِ " بِإِسْنَادِهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ صَاحِبِ أَبِي حَنِيفَةَ قَالَ: اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ كُلُّهُمْ - مِنْ الْمَشْرِقِ إلَى الْمَغْرِبِ - عَلَى الْإِيمَانِ بِالْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيثِ؛ الَّتِي جَاءَ بِهَا الثِّقَاتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صِفَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ: مِنْ غَيْرِ تَفْسِيرٍ؛ وَلَا وَصْفٍ وَلَا تَشْبِيهٍ؛ فَمَنْ فَسَّرَ الْيَوْمَ شَيْئًا مِنْهَا فَقَدْ خَرَجَ مِمَّا كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ؛ فَإِنَّهُمْ لَمْ يَصِفُوا وَلَمْ يُفَسِّرُوا؛ وَلَكِنْ أَفْتَوْا بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ ثُمَّ سَكَتُوا؛ فَمَنْ قَالَ: بِقَوْلِ جَهْمٍ فَقَدْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ لِأَنَّهُ قَدْ وَصَفَهُ بِصِفَةِ لَا شَيْءَ. مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ أَخَذَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَمَالِكٍ وَطَبَقَتِهِمَا مِنْ الْعُلَمَاءِ. وَقَدْ حَكَى هَذَا الْإِجْمَاعَ وَأَخْبَرَ أَنَّ الْجَهْمِيَّة تَصِفُهُ بِالْأُمُورِ السَّلْبِيَّةِ غَالِبًا أَوْ دَائِمًا. وَقَوْلُهُ مِنْ غَيْرِ تَفْسِيرٍ: أَرَادَ بِهِ تَفْسِيرَ " الْجَهْمِيَّة الْمُعَطِّلَةِ " الَّذِينَ ابْتَدَعُوا تَفْسِيرَ الصِّفَاتِ بِخِلَافِ مَا كَانَ عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ مِنْ الأثبات.
وَرَوَى البيهقي وَغَيْرُهُ بِإِسْنَادِ صَحِيحٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ الْقَاسِمِ بْنِ سلام قَالَ: هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي يَقُولُ فِيهَا {ضَحِكَ رَبُّنَا مِنْ قُنُوطِ عِبَادِهِ وَقُرْبِ غَيْرِهِ} {وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَا تَمْتَلِئُ حَتَّى يَضَعَ رَبُّك فِيهَا قَدَمَهُ} {وَالْكُرْسِيُّ مَوْضِعُ الْقَدَمَيْنِ} وَهَذِهِ الْأَحَادِيثُ فِي " الرُّؤْيَةِ " هِيَ عِنْدَنَا حَقٌّ حَمَلَهَا الثِّقَاتُ بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ؛ غَيْرَ أَنَّا إذَا سُئِلْنَا عَنْ تَفْسِيرِهَا لَا نُفَسِّرُهَا وَمَا أَدْرَكْنَا أَحَدًا يُفَسِّرُهَا.
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 50 – 51 جلد 05 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 24 – 25 جلد 05 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء
شيخ الاسلام ابن تيمیہ رحمہ الله نے اس بات کی جو گواہی دی ہے کہ امام محمد سے منقول ایک قول ابو القاسم اللالکائی نے جو اپنی سند سے بیان کیا ہے، بلکل درست گواہی ہے، ابو القاسم اللالکائی کی کتاب میں بالکل یہ قول موجود ہے۔ رہی بات کہ کیا اس سے امام محمد کا یہ قول ثابت ہو گیا، تو نہیں، یہاں شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس قول کے ثابت ہونے کی بات نہیں کی۔ جیسا کہ آگے بیہقی وغیرہ کے متعلق تصریح کی ہے کہ ''بإسناد صحيح''
اور اگر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بالفرض اس کی قول کی سند کو صحیح قرار دے بھی دیتے تو، اس کا ثابت ہونا لازم نہیں آتا ، بلکہ شیخ الاسلام کا یہ فیصلہ غلط قرار پاتا۔ کیونکہ اس کی سند مجہول رایوں پر مبنی ہے؛ ہم آپ کو وہ قول ابو القاسم اللالکائی کی کتاب شرح اصول السنٕة سے پیش کرتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: ثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ حَكِيمٍ السُّلَمِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمَ بْنَ الْمَهْدِيِّ بْنِ يُونُسَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا سُلَيْمَانَ دَاوُدَ بْنَ طَلْحَةَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي حَنِيفَةَ الدَّوْسِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: " اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ كُلُّهُمْ مِنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ عَلَى الْإِيمَانِ بِالْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيثِ الَّتِي جَاءَ بِهَا الثِّقَاتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صِفَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ غَيْرِ تَغْيِيرٍ وَلَا وَصْفٍ وَلَا تَشْبِيهٍ , فَمَنْ فَسَّرَ الْيَوْمَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ , فَقَدْ خَرَجَ مِمَّا كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ , فَإِنَّهُمْ لَمْ يَصِفُوا وَلَمْ يُفَسِّرُوا , وَلَكِنْ أَفْتَوْا بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ ثُمَّ سَكَتُوا , فَمَنْ قَالَ بِقَوْلِ جَهْمٍ فَقَدْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ؛ لِأَنَّهُ قَدْ وَصَفَهُ بِصِفَةِ لَا شَيْءَ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 432 - 433 الجزء 03 شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة - أبو القاسم هبة الله اللالكائي - وزارة الأوقاف السعودية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 254 - 355 الجزء 03 شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة - أبو القاسم هبة الله اللالكائي - مكتب دار البصيرة بالإسكندرية
اگر کوئی مقلد دم خم رکھتا ہے، تو وہ اس سند میں تمام رایوں کا ثقہ ہونا تو بعد میں پوچھیں گے، اسماء الرجال کی کتب سے ان کا تعارف ہی کروادے!! لیکن ان تمام راویوں کا!!
لہٰذا اول تو امام محمد سے ان کا نہ قول ثابت ہوتا ہے، اور نہ ہی امام محمد کے جہمی عقیدہ کی کے خلاف ہونے تصریح!! ایک بات اور عرض کردوں، اگر کہیں امام محمد کا قول صحیح سند سے لے بھی آؤ گے تب بھی اس کے قابل قبول ہونے میں ایک بہت بڑی علت حائل ہوتی ہے، وہ آپ کو اس وقت بیان کریں گے، جب آپ کسی صحیح سند سے امام محمد کا ایسا قول لاؤ گے!!
بھائی جان ! یہ ''مرجئة الفقهاء'' ارجاء سے کب سے خارج ہو گئے!
آپ نے غالباً یہ ''مرجئة الفقهاء '' کی بات بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حوالہ سے لی ہے، جیسا کہ آپ کے پیش کئے گئے لنک سے ظاہر ہے۔
ہم آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا کلام پیش کرتے ہیں:
وَأَنْكَرَ حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ وَمَنْ اتَّبَعَهُ تَفَاضُلَ الْإِيمَانِ وَدُخُولَ الْأَعْمَالِ فِيهِ وَالِاسْتِثْنَاءَ فِيهِ؛ وَهَؤُلَاءِ مِنْ مُرْجِئَةِ الْفُقَهَاءِ وَأَمَّا إبْرَاهِيمُ النَّخَعِي - إمَامُ أَهْلِ الْكُوفَةِ شَيْخُ حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ - وَأَمْثَالُهُ؛ وَمَنْ قَبْلَهُ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ مَسْعُودٍ: كعلقمة وَالْأَسْوَدِ؛ فَكَانُوا مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ مُخَالَفَةً لِلْمُرْجِئَةِ وَكَانُوا يَسْتَثْنُونَ فِي الْإِيمَانِ؛ لَكِنَّ حَمَّادَ بْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ خَالَفَ سَلَفَهُ؛ وَاتَّبَعَهُ مَنْ اتَّبَعَهُ وَدَخَلَ فِي هَذَا طَوَائِفُ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَمَنْ بَعْدَهُمْ. ثُمَّ إنَّ " السَّلَفَ وَالْأَئِمَّةَ " اشْتَدَّ إنْكَارُهُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ وَتَبْدِيعُهُمْ وَتَغْلِيظُ الْقَوْلِ فِيهِمْ؛ وَلَمْ أَعْلَمِ أَحَدًا مِنْهُمْ نَطَقَ بِتَكْفِيرِهِمْ؛ بل هُمْ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّهُمْ لَا يُكَفَّرُونَ فِي ذَلِكَ؛ وَقَدْ نَصَّ أَحْمَد وَغَيْرُهُ مِنْ الْأَئِمَّةِ: عَلَى عَدَمِ تَكْفِيرِ هَؤُلَاءِ الْمُرْجِئَةِ.
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 507 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 311 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء
وَلِهَذَا لَمْ يُكَفِّرْ أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ أَحَدًا مِنْ " مُرْجِئَةِ الْفُقَهَاءِ " بَلْ جَعَلُوا هَذَا مِنْ بِدَعِ الْأَقْوَالِ وَالْأَفْعَالِ؛ لَا مِنْ بِدَعِ الْعَقَائِدِ فَإِنَّ كَثِيرًا مِنْ النِّزَاعِ فِيهَا لَفْظِيٌّ لَكِنَّ اللَّفْظَ الْمُطَابِقَ لِلْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ هُوَ الصَّوَابُ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 394 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 311 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ''مرجئة الفقهاء '' کو سلف کے خلاف قرار دیا، انہیں اعمال و اقوال میں بدعت کا مرتکب قرار دیا، اور عقائد کے باب میں نزاع لفظی قرار دیا اور یہ بھی فرما دیا کہ صواب یہی ہے کہ الفاظ کی کتاب و سنت سے موافقت ہی درست ہے۔ہاں اتنا بیان کیا ہے کہ ان ''مرجئة الفقهاء'' کی سلف نے تکفیر نہیں کی!! فتدبر!!
بلکل یہی ہمارا مؤقف ہے، کہ ارجاء کی گمراہی میں درجات ہیں۔ یہی مؤقف امام بخاری امام احمد بن حنبل اور دیگر کا بھی ہے!! شیخ الاسلام نے اس پر بڑی مفصل بحث کی ہے۔ لیکن ہماری بحث اس تفصیل کی متحمل نہیں ہو سکے گی!!
ارجاء کی جرح کو یہ کہہ کر کہ ''مرجئة الفقهاء'' کو اہل سنت میں داخل رکھا ہے، اس سے ارجاء کی جرح رفع نہیں ہو سکتی۔
یہ بھی زبردست بات ہے کہ'' مرجئة الفقهاء'' کہا جائے، لیکن ارجاء کی جرح رفع ہو گئی!! میاں جی کم سے کم اس ''مرجئة الفقهاء'' کے الفاظ پر ہی غور کرلیتے، اس نام میں ہی ارجاء کی جرح شامل ہے!! فتدبر!!
بھائی جان اگر آپ کو علم الحدیث و علم جرح وتعدیل کا بنیادی علم بھی ہوتا تو ایسی بے سروپا بات نہیں کرتے!! کیونکہ کسی بھی بدعت کا کو مکفرہ نہ ہو، اس کا ''قلیل البدع'' راوی اس سے بھی اس بدعت کے علاوہ کی کوئی حدیث ہو تو لی جاتی ہے، یعنی اسے اہل سنت میں شمار کیا جاتا ہے، مگر اس سے اس پر موجود جرح رفع نہیں ہو جاتی!! فتدبر!!
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 130 - 131 جلد01 سؤالات البرقاني للدارقطني رواية الكرجي عنه - أبو بكر بالبرقاني - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر
بالکل یہ بات سؤالات البرقانی للدارقطنی میں موجود ہیں؛ لیکن اس سے امام محمد کی توثیق کہا ثابت ہوتی ہے، یہاں امام دارقطنی نے صرف اتنا بیان کیا ہے کہ امام دارقطنی کے نزدیک امام محمد بالکل ہی ترک کئے جانے کے مستحق نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امام محمد کی امام مالک سے کی گئی روایات دوسرے طرق سے ، یعنی دوسرے روایوں سے ثابت ہے، لہٰذا ان کی وہ روایات تسلیم کی جائیں تو اس میں حرج نہیں، لیکن اس سے امام محمد کا فی نفسہ ثقہ ہونا ثابت نہیں ہوتا! اس کا ثبوت آپ نے خود نقل کیا ہے، ابھی آگے آرہا ہے!! وگرنہ تو امام محمد نہ صرف ترک کئے جانے کے مستحق ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کے!!
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 136 جلد 09 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 3390 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية
اشماریہ! بھائی یہ علم الحدیث کا میدان ہے، فقہ حنفی کے اٹکل پچّو کا نہیں!! کہ آپ یہاں بھی اپنے اٹکل کے گھوڑے دوڑانے لگے ہو!!
اب کوئی پوچھے، کہ جابر جعفی ، جس کے متعلق آپ کے امام اعظم نے فرمایا کہ انہوں نے جابر جعفی سے بڑا جھوٹا کوئی نہیں دیکھا، تو پھر اس سے حدیث کیوں روایت کی!! آپ کے اس اٹکل کی رو سے تو امام آپ کے امام اعظم کو جھوٹا استاد جابر جعفی بھی کذاب نہیں رہا!! اشماریہ صاحب اس طرح کی اٹکل آپ اپنی فقہ حنفی کے لئے محفوظ رکھیں!!
لہٰذا امام محمد پر نہ جہمی ہونے کی جرح رفع ہوئی، نہ مرجئی ہونے کی اور نہ کذاب ہونے کی!!
میں نے تو ابھی صرف آپ کے پیش کئے ہوئے حوالاجات سے بیان کیا ہے، باقی جو ثبوت ہم رکھتے ہیں، انہیں تو ابھی پیش کرنے کی حاجت بھی نہیں!!
قَالَ: مَنْ كُتُبِ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 136 جلد 09 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 3390 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية
امام الذہبی نے مذکورہ قول معلقاً بیان کیا ہے، اور امام الذہبی کی یہ گواہی بلکل درست ہے، تاریخ بغداد میں مذکورہ قول با سند موجود ہے۔ لیکن اس قول سے امام محمد کی توثیق کیسے لازم آگئی، جبکہ امام احمد بن حنبل خود اسی محمد بن حسن الشیبانی کو مذہب جہم پر قرار دے رہے ہیں!
أَخْبَرَنَا محمد بن الحسين بن محمد المتوثي، قَالَ: أخبرنا أحمد بن عثمان بن يحيى الأدمي، قَالَ: حدثنا محمد بن إسماعيل أبو إسماعيل، قَالَ: سمعت أحمد بن حنبل، وذكر ابتداء محمد بن الحسن، فقال: كان يذهب مذهب جهم.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 569 جلد 02 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي، دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 179 جلد 02 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية، بيروت
امام احمد بن حنبل تو امام ابو حنیفہ کے اہل لرائے اصحاب سے دین کے متعلق سوال کرنے کا بھی منع فرماتے ہیں!!
سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ.
امام عبداللہ بن احمد ؒ نے کہا میں نے اپنے باپ (امام احمد بن حنبلؒ) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اپنے کسی دینی معاملہ میں پوچھنا چاہتا ہے۔ یعنی وہ طلاق سے متعلق قسم اٹھانے یا اس کے علاوہ کسی اور معاملہ میں مبتلا ہوا اور اس کے شہر میں اصحاب الرائے بھی ہوں اور ایسے اصحاب حدیث بھی ہوں جو ضعیف حدیث کو اور اسناد کے قوی ہونے کی پہچان نہیں رکھتے تو یہ آدمی اس دوطبقوں میں سے کس سے مسئلہ پوچھے ۔ اصحاب الرائے سے یا ان اصحاب الحدیث سے جو معرفت میں کمزور ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ آدمی اصحاب الحدیث سے پوچھے اور اصحاب الرائے سے نہ پوچھے کیوینکہ ضعیف حدیث بھی ابو حنیفہ کے رائے سے بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 179 جلد 01 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام
یہی نہیں، بلکہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا نے فرمایا کہ امام ابو حنیفہ کے اصحاب (جو اہل الرائی ہیں) سے بغض پر اللہ تعالیٰ اجز دے گا!!
قلت: يؤجر الرجل على بغض أصحاب أبي حنيفة؟
قال: إي والله.
میں نے کہا: کیا کسی شخص کو اصحاب ابو حنیفہ سے بغض رکھنے پر اجر ہوگا؟
(امام احمد بن حنبل نے ) کہا: اللہ کی قسم ، ہاں
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 4765 جلد 09 - مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه - إسحاق بن منصور، المعروف بالكوسج - الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 565 جلد 02 - مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه - إسحاق بن منصور، المعروف بالكوسج - دار الهجرة
وَأُخْبِرْتُ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجِ، قَالَ: قُلْتُ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ يُؤْجَرُ الرَّجُلُ عَلَى بُغْضِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ؟ قَالَ: إِي وَاللَّهِ
مجھے اسحاق بن منصور الکوسج کے حوالے سے خبر ملی کہ انہوں نے کہاکہ : میں نے احمد بن حنبل سے کہا: کیا کسی شخص کو ابو حنیفہ اور اصحاب ابو حنیفہ سے بغض رکھنے پر اجر ہوگا؟
(امام احمد بن حنبل نے ) کہا: اللہ کی قسم ، ہاں
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 179 جلد 02 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام
ثابت یہ ہوا کہ امام احمد بن حنبل نے امام محمد کو جہمی مذہب پر قرار دیا، اور امام احمد بن حنبل اہل الرائے سے فتویٰ لینے کا بھی منع کرتے تھے، بلکل امام احمد بن حنبل کا مؤقف یہ تھا کہ اہل الرائے اصحابہ ابو حنیفہ سے بغض بھی باعث اجر ہے۔ یہ محال ہے کہ امام احمد بن حنبل امام محمد کی کتب سے فقہ اخذ کرتے ہوں، امام احمد بن حنبل کے آپ کے پیش کردہ قول کا معنی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ امام احمد بن حنبل سے ثابت ہونے کی صورت میں یہ معنی محال ہے کہ امام احمد بن حنبل امام محمد کی کتب سے فقہ اخذ کرتے تھے، بلکہ یہی کہ ان کی اہل الرائے کی فقہ کو نقل کرنا ، اور اس پر نقد ہی مراد ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے بھی ابھی ''الهدایة'' سے فقہ حنفی کا ایک دقیق مسئلہ بیان کیا ہے!! یا پھر ''دلائل خصم'' کے لحاظ سے!!
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 135 جلد 09 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 3390 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية
ہاں تو اس سے کیا ثابت ہوا؟ کیا اس سے امام محمد کا ثقہ ہونا لازم آتا ہے؟ بڑی عجیب بات کی ہے؟ معلوم نہیں کون آپ کو یہ پٹی پڑھاتاہے، اگر عربی لغت کی فصاحت و بلاغت سے کوئی ثقہ ثابت ہو سکتا، اور اس پر موجود جرح رفع ہو سکتی، تو آپ کے زمغشری کیونکر معزلی ٹھہرتے، جبکہ زمخشری کی عربی لغت میں فصاحت و بلاغت کے سبھی معترف ہیں، یہی نہیں بلکہ نہج البلاغہ کے مصنف کی بھی۔ اور کیا ابو جہل ابو الحکم نہیں کہلایا جاتا تھا؟ اسے لغت عربی میں مہارت نہیں تھی؟
اشماریہ صاحب، پھر کہتا ہوں، یہ علم الحدیث کا میدان ہے، فقہ حنفیہ کے اٹکل پچّو کا نہیں!
سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجا ست
اشماریہ بھائی! آپ میرے مراسلہ کو ذرا غور سے پڑھا کریں!! ہم نے آپ کو بتلایا تھا:
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 60 - 61 جلد 07 لسان الميزان - ابن حجر العسقلاني - مكتب المطبوعات الإسلامية
جی بلکل درست ہے کہ امام ابن حجر نے اسے لسان المیزان میں بیان کیا ہے۔ یوں تو اسی لسان المیزان میں اسی سے آگے بہت سخت جراح بھی بیان کی ہیں، مگر طوالت مراسلہ کی وجہہ سے اسے ذکر نہیں کرتا۔
مگر یہ تو بتائیے، کہ اپ کے ذکر کردہ کلام میں امام محمد کا ثقہ ہونا کہاں ثابت ہوتا ہے؟
یہ بحور العلم ہونے سے کسی کا ثقہ ہونے کب سے لازم آگیا؟
اسی طرح کی بات الیاس گھمن نے لکھی ہے؛ اس کا جواب فورم پر ہی لکھا ہے، یہاں بھی پیش کردیتا ہوں:
عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.
۔۔۔۔۔۔۔۔
قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة. متروك. قلت لا ريب في ضعفه.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن
ہم نے عرض کیا ہے نا آپ کو کہ یہ علم الحدیث کا میدان ہے، فقہ حنفیہ کے اٹکل پچّو کا نہیں!!
اور امام مالک سے روایات میں قوی ہونے کا مطلب ہم پہلے بیان کر آئے ہیں، اس سے امام محمد کا فی نفسہ ثقہ ہونا ثابت نہیں ہوتا، وگرنہ روایات امام مالک کی قید چہ معنی دارد!!
وہ کہتے ہیں کہ:
سخن شناس نئی دلبرا خطا ائنجا ست
نہیں یہاں تک کی تمام باتیں موضوع سے خارج نہیں!بھائی جان! یہاں تک تو جو کچھ بھی ہے وہ تھریڈ کے موضوع سے غیر متعلق ہے۔ لہذا اس کا جواب نہیں دیتا۔ امام طحاوی جیسا بننے کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا اور کیا نہیں یہ ایک الگ موضوع ہے۔ ذاتی مشورہ یہ ہے اقسام مجتہدین میں امام طحاوی کا درجہ اور شرح معانی الآثار میں امام طحاوی کا احناف کے ائمہ ثلاثہ کا دفاع اور حنفی ہونے کے بارے میں امام طحاوی کا بیان بھی پڑھ لیجیے گا۔ بہر حال غیر متعلق ہونے کی وجہ سے پھر کبھی۔
امام طحاوی کا تقلید سے متعلق مؤقف بیان کیا تھا:
امام طحاوی کے نزدیک تو تقلید وہی کرتا ہے جو غبي ہو یاعصي ہو!
سمعت أبا الحسن علي بن أبي جعفر الطحاوي يقول سمعت أبي يقول وذكر فضل أبي عبيد بن جرثومة وفقهه فقال كان يذاكرني بالمسائل فأجبته يوما في مسألة فقال لي ما هذا قول أبي حنيفة فقلت له أيها القاضي أو كل ما قاله أبو حنيفة أقول به فقال ما ظننتك إلا مقلدا فقلت له وهل يقلد إلا عصي فقال لي أو غبي
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 626 جلد 01 لسان الميزان - ابن حجر العسقلاني - مكتب المطبوعات الإسلامية
دلیل آپ کو دے دی ہے، مگر اس دلیل کو قبول کرنے کے بجائے آپ حجت بازی سے کام لے رہے ہیں، کبھی ہمارے استدلال کے بجائے اپنے اٹکل کا قیاس کی قیاس آرائی فرما کر خود اس قیاس کا رد کر کے سمجھتے ہو کہ آپ نے ہماری دلیل کو رد کر دیا! اور آگے اس دلیل پر آپ کیا بیان کرتے ہو اس کا جواب اسی مقام پر دے دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ!نہیں مجھے یہ اعتراض نہیں۔ بلکہ یہ اعتراض ہے کہ جب محدث کی حیثیت قاضی کی سی ہے۔ اور قاضی کی عدالت میں گواہ کو خود پیش ہوکر گواہی دینی ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ گواہ چند سو سال پہلے گزر چکا ہو اور اس کی کتاب پڑھ کر گواہی قبول کی جائے۔ تو یہاں گواہ آپ محدث کی عدالت میں خود کہاں ہے؟؟
اور اگر یہ درست ہے کہ گواہ کی صرف کتاب پڑھ کر گواہی قبول کی جائے تو اس کی دلیل دیجیے۔
جو دلیل آپ نے حدیث سے دی تو اس میں قاضی تو نبی ﷺ ہیں لیکن وہ گواہ کون ہے جس کی کتاب سے گواہی دی جا رہی ہے اور اس نے کتاب میں وہ گواہی لکھی ہے؟ باقی بات اس روایت پر آگے۔
اگر ایسا ہوتا! بلکل اسے قبول کیا جاسکتا تھا، مگر جب تک کہ اس کے بطلان کا ثبوت واضح نہ ہوجائے!! مگر صورت حال کچھ اور ہے!!تو میں انہی کے موقف کی بات کر رہا ہوں۔ البتہ آپ جو یہ فرماتے ہیں کہ کتاب میں مجتہد جو لکھتا ہے وہ اس کا اجتہاد ہوتا ہے تو اگر آپ کا مطلب اس سے یہ ہے کہ صرف تحری اور غور وفکر ہوتا ہے تو یہ بات درست نہیں۔ بلکہ مجتہد نے دلائل سے یعنی قرآن و حدیث و اجماع سے جو مسائل اخذ کیے ہوتے ہیں وہ لکھتا ہے اور وہ مسائل لکھتا ہے جن میں ان ادلہ ثلاثہ پر قیاس کیا گیا ہو۔ پھر بعض مسائل وہ ہوتے ہیں جو فقط اجتہاد و تحری ہو۔ کیا آپ نے کبھی المبسوط کا مطالعہ کیا ہے؟ اگر نہیں تو ہدایہ تو پڑھی ہی ہوگی جس کا آپ بار بار ذکر کر رہے ہیں۔ اس کی بنیاد قدوری اور مبسوط ہی ہیں۔ تو کیا صرف تحری والے مسائل ہیں اس میں؟؟؟
تو اب امام محمد نے جو موقف قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس سے اخذ کر کے لکھا ہم اسے تو قبول کرسکتے ہیں نا آپ کے اصول کے مطابق؟
معاملہ کچھ یوں ہےکہ امام محمد نے اپنا مؤقف قرآن ، حدیث، اجماع اور قیاس سے شرعی سے اخذ نہیں کیا، بلکہ اپنے اٹکل کی بنا پر قرآن و حدیث کے احکام کو رد کرتے ہوئے اپنی اٹکل سے مسائل اخذ کئے ہیں!! ایک مثال پیش کرتا ہوں اسی ہدایہ ہے کہ جس کے متعلق آپ نے کہا کہ اس کی بنیاد قدوری و مبسوط ہی ہیں:
(وَإِنْ سَبَقَهُ الْحَدَثُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ تَوَضَّأَ وَسَلَّمَ) لِأَنَّ التَّسْلِيمَ وَاجِبٌ فَلَا بُدَّ مِنْ التَّوَضُّؤِ لِيَأْتِيَ بِهِ (وَإِنْ تَعَمَّدَ الْحَدَثَ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ أَوْ تَكَلَّمَ أَوْ عَمِلَ عَمَلًا يُنَافِي الصَّلَاةَ تَمَّتْ صَلَاتُهُ)
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 386 جلد 01 الهداية في شرح بداية المبتدي - ، أبو الحسن برهان الدين المرغيناني - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، کراتشي، باكستان
اب یہ بتا دیں کہ یہ بات کہ جب کوئی حنفی نماز میں تشہد کے بعد جان بوجھ کر سلام کے بجائے پاد مارے تو اس کی نماز مکمل ہو گئی! اس پر قرآن کی کون سی آیت ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی حدیث ہے، اور اگر یہ قیاسی مسئلہ ہے تو اس کا مقیس علیہ کون سی آیت یا کون سی حدیث ہے؟
جبکہ اگر حادثاتاً کسی کی ہوا خارج ہو جائے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، اسے وضوء کرکے نماز مکمل کرنی ہوتی ہے!!
یقیناً آپ اس پر نہ قرآن کی آیت پیش کر سکتے ہیں، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث، اور نہ ہی اس کو قیاسی شرعی ہونے پر اس قرآن و حدیث سے اس کا مقیس علیہ!!
اور اسی طرح کی فقہ کو ہم قیاس آرائیاں اور اٹکل پچو کہتے ہیں!! یہ ایک وجہ ہے کہ ہم ان کتابوں کو معتبر نہیں سمجھتے!! دوسری وجہ اپنے استدلال و استنباط و قیاس میں نبی صلی اللہ علیہ کی احادیث کو رد کرنا بھی شامل ہیں!! جیسے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو رد کیا گیا :
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ ، عَنْ عَائِشَة ، قَالَتْ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشَخِّصْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِي قَاعِدًا ، وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّاتُ ، وَكَانَ إِذَا جَلَسَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى ، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقِبِ الشَّيْطَانِ وَعَنْ فَرْشَةِ السَّبُعِ ، وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ " .
سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ
حد تو یہ ہے کہ اس باب میں آپ کے امام اعظم کی روایات کردہ حدیث بھی منقول ہے۔ جو آپ کے نزدیک امام صاحب کی روایات ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الأَشْرَسِ السُّلَمِيُّ نَيْسَابُورِيٌّ ، أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ يَزِيدَ , أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ أَبِي نَضْرَةَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْوُضُوءُ مِفْتَاحُ الصَّلاةِ وَالتَّكْبِيرُ تَحْرِيمُهَا , وَالتَّسْلِيمُ تَحْلِيلُهَا , وَلا تُجْزِئُ صَلاةٌ إِلا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَعَهَا غَيْرُهَا " .
مسند أبي حنيفة لابن يعقوب » مُسْنَدُ الإِمَامِ أَبِي حَنِيفَةَ » مَا أَسْنَدَهُ الإِمَامُ أَبُو حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ طَرِيفِ بْنِ شِهَابٍ أَبِي سُفْيَانَ ...
لہٰذا جو نام نہاد ''فقہ'' جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو رد کرنے پر مبنی ہو اسے ہم معتبر نہیں جانتے!!!
ہم آپ کو شیخ السلام ابن تیمیہ کا کلام وسیاق و سباق کے ساتھ پیش کرتے ہیں:رہ گئی بات امام محمد پر اوپر لکھی جرح کی۔ تو آپ نے اس پوسٹ میں تین جرحیں کیں۔ جہمی، مرجی، کذاب
اب سنیے! پہلی جرح جہمی ہونے کی تو امام ابن تیمیہؒ نے امام محمدؒ سے نقل کیا ہے اپنے فتاوی الکبری (6۔334 ط دار الکتب العلمیہ) میں:
عن محمد بن الحسن صاحب أبي حنيفة، قال: اتفق الفقهاء كلهم من المشرق إلى المغرب على الإيمان بالقرآن والأحاديث التي جاءت بها الثقات عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في صفة الرب عز وجل، من غير تفسير ولا وصف ولا تشبيه، فمن فسر اليوم شيئا من ذلك فقد خرج مما كان عليه النبي - صلى الله عليه وسلم - وفارق الجماعة، فإنهم لم يصفوا ولم يفسروا، ولكن أفتوا بما في الكتاب والسنة، ثم سكتوا فمن قال بقول جهم فقد فارق الجماعة لأنه قد وصفه بصفة لا شيء.
اب میں آپ کے بقول جو گواہی یا فیصلہ ہے وہ آپ کا قبول کروں یا ابن تیمیہ کا؟
علامہ مغراوی موسوعۃ مواقف السلف میں ابن تیمیہؒ کے فتاوی سے نقل کرتے ہیں:
قال ابن تيمية: قوله: من غير تفسير: أراد به تفسير الجهمية المعطلة الذين ابتدعوا تفسير الصفات بخلاف ما كان عليه الصحابة والتابعون من الإثبات.
اسی طرح اصول الاعتقاد سے امام محمدؒ کا یہ قول نقل کیا ہے:
وجاء في أصول الاعتقاد عنه قال: والله لا أصلي خلف من يقول القرآن مخلوق، ولا أستفتى في ذلك إلا أمرت بالإعادة.
تو ان پر جو جہمی ہونے کا الزام ہے وہ تو خود ان کی تصریحات کے خلاف ہے۔
وَرُوِيَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِي أَنَّهُ لَمَّا سُئِلَ عَنْ تَفْسِيرِ قَوْلِهِ: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} فَقَالَ: تَفْسِيرُهُ كَمَا يُقْرَأُ هُوَ عَلَى الْعَرْشِ وَعِلْمُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ؛ وَمَنْ قَالَ غَيْرَ هَذَا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ. وَرَوَى أَبُو الْقَاسِمِ اللالكائي " الْحَافِظُ. الطبري؛ صَاحِبُ أَبِي حَامِدٍ الإسفرائيني فِي كِتَابِهِ الْمَشْهُورِ فِي " أُصُولِ السُّنَّةِ " بِإِسْنَادِهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ صَاحِبِ أَبِي حَنِيفَةَ قَالَ: اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ كُلُّهُمْ - مِنْ الْمَشْرِقِ إلَى الْمَغْرِبِ - عَلَى الْإِيمَانِ بِالْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيثِ؛ الَّتِي جَاءَ بِهَا الثِّقَاتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صِفَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ: مِنْ غَيْرِ تَفْسِيرٍ؛ وَلَا وَصْفٍ وَلَا تَشْبِيهٍ؛ فَمَنْ فَسَّرَ الْيَوْمَ شَيْئًا مِنْهَا فَقَدْ خَرَجَ مِمَّا كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ؛ فَإِنَّهُمْ لَمْ يَصِفُوا وَلَمْ يُفَسِّرُوا؛ وَلَكِنْ أَفْتَوْا بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ ثُمَّ سَكَتُوا؛ فَمَنْ قَالَ: بِقَوْلِ جَهْمٍ فَقَدْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ لِأَنَّهُ قَدْ وَصَفَهُ بِصِفَةِ لَا شَيْءَ. مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ أَخَذَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَمَالِكٍ وَطَبَقَتِهِمَا مِنْ الْعُلَمَاءِ. وَقَدْ حَكَى هَذَا الْإِجْمَاعَ وَأَخْبَرَ أَنَّ الْجَهْمِيَّة تَصِفُهُ بِالْأُمُورِ السَّلْبِيَّةِ غَالِبًا أَوْ دَائِمًا. وَقَوْلُهُ مِنْ غَيْرِ تَفْسِيرٍ: أَرَادَ بِهِ تَفْسِيرَ " الْجَهْمِيَّة الْمُعَطِّلَةِ " الَّذِينَ ابْتَدَعُوا تَفْسِيرَ الصِّفَاتِ بِخِلَافِ مَا كَانَ عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ مِنْ الأثبات.
وَرَوَى البيهقي وَغَيْرُهُ بِإِسْنَادِ صَحِيحٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ الْقَاسِمِ بْنِ سلام قَالَ: هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي يَقُولُ فِيهَا {ضَحِكَ رَبُّنَا مِنْ قُنُوطِ عِبَادِهِ وَقُرْبِ غَيْرِهِ} {وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَا تَمْتَلِئُ حَتَّى يَضَعَ رَبُّك فِيهَا قَدَمَهُ} {وَالْكُرْسِيُّ مَوْضِعُ الْقَدَمَيْنِ} وَهَذِهِ الْأَحَادِيثُ فِي " الرُّؤْيَةِ " هِيَ عِنْدَنَا حَقٌّ حَمَلَهَا الثِّقَاتُ بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ؛ غَيْرَ أَنَّا إذَا سُئِلْنَا عَنْ تَفْسِيرِهَا لَا نُفَسِّرُهَا وَمَا أَدْرَكْنَا أَحَدًا يُفَسِّرُهَا.
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 50 – 51 جلد 05 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 24 – 25 جلد 05 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء
شيخ الاسلام ابن تيمیہ رحمہ الله نے اس بات کی جو گواہی دی ہے کہ امام محمد سے منقول ایک قول ابو القاسم اللالکائی نے جو اپنی سند سے بیان کیا ہے، بلکل درست گواہی ہے، ابو القاسم اللالکائی کی کتاب میں بالکل یہ قول موجود ہے۔ رہی بات کہ کیا اس سے امام محمد کا یہ قول ثابت ہو گیا، تو نہیں، یہاں شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس قول کے ثابت ہونے کی بات نہیں کی۔ جیسا کہ آگے بیہقی وغیرہ کے متعلق تصریح کی ہے کہ ''بإسناد صحيح''
اور اگر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بالفرض اس کی قول کی سند کو صحیح قرار دے بھی دیتے تو، اس کا ثابت ہونا لازم نہیں آتا ، بلکہ شیخ الاسلام کا یہ فیصلہ غلط قرار پاتا۔ کیونکہ اس کی سند مجہول رایوں پر مبنی ہے؛ ہم آپ کو وہ قول ابو القاسم اللالکائی کی کتاب شرح اصول السنٕة سے پیش کرتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: ثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ حَكِيمٍ السُّلَمِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمَ بْنَ الْمَهْدِيِّ بْنِ يُونُسَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا سُلَيْمَانَ دَاوُدَ بْنَ طَلْحَةَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي حَنِيفَةَ الدَّوْسِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: " اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ كُلُّهُمْ مِنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ عَلَى الْإِيمَانِ بِالْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيثِ الَّتِي جَاءَ بِهَا الثِّقَاتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صِفَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ غَيْرِ تَغْيِيرٍ وَلَا وَصْفٍ وَلَا تَشْبِيهٍ , فَمَنْ فَسَّرَ الْيَوْمَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ , فَقَدْ خَرَجَ مِمَّا كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ , فَإِنَّهُمْ لَمْ يَصِفُوا وَلَمْ يُفَسِّرُوا , وَلَكِنْ أَفْتَوْا بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ ثُمَّ سَكَتُوا , فَمَنْ قَالَ بِقَوْلِ جَهْمٍ فَقَدْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ؛ لِأَنَّهُ قَدْ وَصَفَهُ بِصِفَةِ لَا شَيْءَ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 432 - 433 الجزء 03 شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة - أبو القاسم هبة الله اللالكائي - وزارة الأوقاف السعودية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 254 - 355 الجزء 03 شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة - أبو القاسم هبة الله اللالكائي - مكتب دار البصيرة بالإسكندرية
اگر کوئی مقلد دم خم رکھتا ہے، تو وہ اس سند میں تمام رایوں کا ثقہ ہونا تو بعد میں پوچھیں گے، اسماء الرجال کی کتب سے ان کا تعارف ہی کروادے!! لیکن ان تمام راویوں کا!!
لہٰذا اول تو امام محمد سے ان کا نہ قول ثابت ہوتا ہے، اور نہ ہی امام محمد کے جہمی عقیدہ کی کے خلاف ہونے تصریح!! ایک بات اور عرض کردوں، اگر کہیں امام محمد کا قول صحیح سند سے لے بھی آؤ گے تب بھی اس کے قابل قبول ہونے میں ایک بہت بڑی علت حائل ہوتی ہے، وہ آپ کو اس وقت بیان کریں گے، جب آپ کسی صحیح سند سے امام محمد کا ایسا قول لاؤ گے!!
غلطی قاضی شریک کی نہیں بلکہ امام محمد میں ہی بدعت تھی!! ذرا غور فرمائیے!!دوسری جرح ہے مرجی ہونے کی۔ تو مرجئہ کی دو مشہور قسمیں ہیں: مرجئۃ الفقهاء اور مرجئہ عام۔ اور نہ صرف امام محمد بلکہ اور بھی بہت سے ائمہ کا تعلق مرجئۃ الفقہاء سے رہا ہے۔ مرجئۃ الفقہاء کا تعلق اہل سنت سے ہی ہے اور یہ ایک اجتہادی اختلاف ہے۔ اگر اجتہادی اختلاف کی بنیاد پر قاضی شریک ان کی گواہی قبول نہیں کرتے تھے تو یہ قاضی شریک کی غلطی تھی امام محمد کی نہیں۔ اس اختلاف کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے۔ دل چاہے تو اس لنک سے پڑھ لیجیے۔
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=180774
بھائی جان ! یہ ''مرجئة الفقهاء'' ارجاء سے کب سے خارج ہو گئے!
آپ نے غالباً یہ ''مرجئة الفقهاء '' کی بات بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حوالہ سے لی ہے، جیسا کہ آپ کے پیش کئے گئے لنک سے ظاہر ہے۔
ہم آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا کلام پیش کرتے ہیں:
وَأَنْكَرَ حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ وَمَنْ اتَّبَعَهُ تَفَاضُلَ الْإِيمَانِ وَدُخُولَ الْأَعْمَالِ فِيهِ وَالِاسْتِثْنَاءَ فِيهِ؛ وَهَؤُلَاءِ مِنْ مُرْجِئَةِ الْفُقَهَاءِ وَأَمَّا إبْرَاهِيمُ النَّخَعِي - إمَامُ أَهْلِ الْكُوفَةِ شَيْخُ حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ - وَأَمْثَالُهُ؛ وَمَنْ قَبْلَهُ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ مَسْعُودٍ: كعلقمة وَالْأَسْوَدِ؛ فَكَانُوا مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ مُخَالَفَةً لِلْمُرْجِئَةِ وَكَانُوا يَسْتَثْنُونَ فِي الْإِيمَانِ؛ لَكِنَّ حَمَّادَ بْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ خَالَفَ سَلَفَهُ؛ وَاتَّبَعَهُ مَنْ اتَّبَعَهُ وَدَخَلَ فِي هَذَا طَوَائِفُ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَمَنْ بَعْدَهُمْ. ثُمَّ إنَّ " السَّلَفَ وَالْأَئِمَّةَ " اشْتَدَّ إنْكَارُهُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ وَتَبْدِيعُهُمْ وَتَغْلِيظُ الْقَوْلِ فِيهِمْ؛ وَلَمْ أَعْلَمِ أَحَدًا مِنْهُمْ نَطَقَ بِتَكْفِيرِهِمْ؛ بل هُمْ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّهُمْ لَا يُكَفَّرُونَ فِي ذَلِكَ؛ وَقَدْ نَصَّ أَحْمَد وَغَيْرُهُ مِنْ الْأَئِمَّةِ: عَلَى عَدَمِ تَكْفِيرِ هَؤُلَاءِ الْمُرْجِئَةِ.
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 507 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 311 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء
وَلِهَذَا لَمْ يُكَفِّرْ أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ أَحَدًا مِنْ " مُرْجِئَةِ الْفُقَهَاءِ " بَلْ جَعَلُوا هَذَا مِنْ بِدَعِ الْأَقْوَالِ وَالْأَفْعَالِ؛ لَا مِنْ بِدَعِ الْعَقَائِدِ فَإِنَّ كَثِيرًا مِنْ النِّزَاعِ فِيهَا لَفْظِيٌّ لَكِنَّ اللَّفْظَ الْمُطَابِقَ لِلْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ هُوَ الصَّوَابُ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 394 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 311 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ''مرجئة الفقهاء '' کو سلف کے خلاف قرار دیا، انہیں اعمال و اقوال میں بدعت کا مرتکب قرار دیا، اور عقائد کے باب میں نزاع لفظی قرار دیا اور یہ بھی فرما دیا کہ صواب یہی ہے کہ الفاظ کی کتاب و سنت سے موافقت ہی درست ہے۔ہاں اتنا بیان کیا ہے کہ ان ''مرجئة الفقهاء'' کی سلف نے تکفیر نہیں کی!! فتدبر!!
بلکل یہی ہمارا مؤقف ہے، کہ ارجاء کی گمراہی میں درجات ہیں۔ یہی مؤقف امام بخاری امام احمد بن حنبل اور دیگر کا بھی ہے!! شیخ الاسلام نے اس پر بڑی مفصل بحث کی ہے۔ لیکن ہماری بحث اس تفصیل کی متحمل نہیں ہو سکے گی!!
ارجاء کی جرح کو یہ کہہ کر کہ ''مرجئة الفقهاء'' کو اہل سنت میں داخل رکھا ہے، اس سے ارجاء کی جرح رفع نہیں ہو سکتی۔
یہ بھی زبردست بات ہے کہ'' مرجئة الفقهاء'' کہا جائے، لیکن ارجاء کی جرح رفع ہو گئی!! میاں جی کم سے کم اس ''مرجئة الفقهاء'' کے الفاظ پر ہی غور کرلیتے، اس نام میں ہی ارجاء کی جرح شامل ہے!! فتدبر!!
بھائی جان اگر آپ کو علم الحدیث و علم جرح وتعدیل کا بنیادی علم بھی ہوتا تو ایسی بے سروپا بات نہیں کرتے!! کیونکہ کسی بھی بدعت کا کو مکفرہ نہ ہو، اس کا ''قلیل البدع'' راوی اس سے بھی اس بدعت کے علاوہ کی کوئی حدیث ہو تو لی جاتی ہے، یعنی اسے اہل سنت میں شمار کیا جاتا ہے، مگر اس سے اس پر موجود جرح رفع نہیں ہو جاتی!! فتدبر!!
سألته عن محمد بن الحسن صاحب أبي حنيفة رحمه الله, فقال: قال يحي بن معين كذاب, وقال فيه أحمد يعني بن حنبل نحو هذا, قال أبو الحسن: وعندي لا يستحق الترك.تیسری جرح ہے ان پر کذاب ہونے کی تو اس جرح کی مضبوطی تو دیکھیے کہ امام ابو الحسن دارقطنی باوجود اپنی شدت کے ان کے بارے میں اسی جرح کو نقل کر کے کہتے ہیں کہ میں تو ان کو چھوڑے جانے کا مستحق نہیں سمجھتا۔
قال البَرْقانِيّ: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن محمد بن الحسن صاحب أبي حنيفة، فقال: قال يحيى بن معين كذاب، وقال فيه أحمد، يعني ابن حنبل نحو هذا.
قال أبو الحسن الدَّارَقُطْنِيّ: وعندي لا يستحق الترك.
موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله (2۔566 ط عالم الکتب)
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 130 - 131 جلد01 سؤالات البرقاني للدارقطني رواية الكرجي عنه - أبو بكر بالبرقاني - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر
بالکل یہ بات سؤالات البرقانی للدارقطنی میں موجود ہیں؛ لیکن اس سے امام محمد کی توثیق کہا ثابت ہوتی ہے، یہاں امام دارقطنی نے صرف اتنا بیان کیا ہے کہ امام دارقطنی کے نزدیک امام محمد بالکل ہی ترک کئے جانے کے مستحق نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امام محمد کی امام مالک سے کی گئی روایات دوسرے طرق سے ، یعنی دوسرے روایوں سے ثابت ہے، لہٰذا ان کی وہ روایات تسلیم کی جائیں تو اس میں حرج نہیں، لیکن اس سے امام محمد کا فی نفسہ ثقہ ہونا ثابت نہیں ہوتا! اس کا ثبوت آپ نے خود نقل کیا ہے، ابھی آگے آرہا ہے!! وگرنہ تو امام محمد نہ صرف ترک کئے جانے کے مستحق ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کے!!
وَقَالَ ابْنُ مَعِيْنٍ: كَتَبْتُ عَنْهُ "الجَامِعَ الصَّغَيْرَ".اور جن کی یہ اصل جرح ہے یعنی ابن معین ان کا قول علامہ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء (9۔136 ط الرسالۃ) میں یہ نقل کیا ہے:
وَقَالَ ابْنُ مَعِيْنٍ: كَتَبْتُ عَنْهُ (الجَامِعَ الصَّغَيْرَ) .
اگر یہ کذاب تھے تو ابن معین نے ان سے جامع صغیر کیوں لکھی تھی؟
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 136 جلد 09 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 3390 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية
اشماریہ! بھائی یہ علم الحدیث کا میدان ہے، فقہ حنفی کے اٹکل پچّو کا نہیں!! کہ آپ یہاں بھی اپنے اٹکل کے گھوڑے دوڑانے لگے ہو!!
اب کوئی پوچھے، کہ جابر جعفی ، جس کے متعلق آپ کے امام اعظم نے فرمایا کہ انہوں نے جابر جعفی سے بڑا جھوٹا کوئی نہیں دیکھا، تو پھر اس سے حدیث کیوں روایت کی!! آپ کے اس اٹکل کی رو سے تو امام آپ کے امام اعظم کو جھوٹا استاد جابر جعفی بھی کذاب نہیں رہا!! اشماریہ صاحب اس طرح کی اٹکل آپ اپنی فقہ حنفی کے لئے محفوظ رکھیں!!
لہٰذا امام محمد پر نہ جہمی ہونے کی جرح رفع ہوئی، نہ مرجئی ہونے کی اور نہ کذاب ہونے کی!!
میں نے تو ابھی صرف آپ کے پیش کئے ہوئے حوالاجات سے بیان کیا ہے، باقی جو ثبوت ہم رکھتے ہیں، انہیں تو ابھی پیش کرنے کی حاجت بھی نہیں!!
قَالَ إِبْرَاهِيْمُ الحَرْبِيُّ: قُلْتُ لِلإِمَامِ أَحْمَدَ: مَنْ أَيْنَ لَكَ هَذِهِ المَسَائِلُ الدِّقَاقُ؟قَالَ إِبْرَاهِيْمُ الحَرْبِيُّ: قُلْتُ لِلإِمَامِ أَحْمَدَ: مَنْ أَيْنَ لَكَ هَذِهِ المَسَائِلُ الدِّقَاقُ؟ قَالَ: مَنْ كُتُبِ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ.
قَالَ: مَنْ كُتُبِ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 136 جلد 09 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 3390 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية
امام الذہبی نے مذکورہ قول معلقاً بیان کیا ہے، اور امام الذہبی کی یہ گواہی بلکل درست ہے، تاریخ بغداد میں مذکورہ قول با سند موجود ہے۔ لیکن اس قول سے امام محمد کی توثیق کیسے لازم آگئی، جبکہ امام احمد بن حنبل خود اسی محمد بن حسن الشیبانی کو مذہب جہم پر قرار دے رہے ہیں!
أَخْبَرَنَا محمد بن الحسين بن محمد المتوثي، قَالَ: أخبرنا أحمد بن عثمان بن يحيى الأدمي، قَالَ: حدثنا محمد بن إسماعيل أبو إسماعيل، قَالَ: سمعت أحمد بن حنبل، وذكر ابتداء محمد بن الحسن، فقال: كان يذهب مذهب جهم.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 569 جلد 02 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي، دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 179 جلد 02 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية، بيروت
امام احمد بن حنبل تو امام ابو حنیفہ کے اہل لرائے اصحاب سے دین کے متعلق سوال کرنے کا بھی منع فرماتے ہیں!!
سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ.
امام عبداللہ بن احمد ؒ نے کہا میں نے اپنے باپ (امام احمد بن حنبلؒ) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اپنے کسی دینی معاملہ میں پوچھنا چاہتا ہے۔ یعنی وہ طلاق سے متعلق قسم اٹھانے یا اس کے علاوہ کسی اور معاملہ میں مبتلا ہوا اور اس کے شہر میں اصحاب الرائے بھی ہوں اور ایسے اصحاب حدیث بھی ہوں جو ضعیف حدیث کو اور اسناد کے قوی ہونے کی پہچان نہیں رکھتے تو یہ آدمی اس دوطبقوں میں سے کس سے مسئلہ پوچھے ۔ اصحاب الرائے سے یا ان اصحاب الحدیث سے جو معرفت میں کمزور ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ آدمی اصحاب الحدیث سے پوچھے اور اصحاب الرائے سے نہ پوچھے کیوینکہ ضعیف حدیث بھی ابو حنیفہ کے رائے سے بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 179 جلد 01 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام
یہی نہیں، بلکہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا نے فرمایا کہ امام ابو حنیفہ کے اصحاب (جو اہل الرائی ہیں) سے بغض پر اللہ تعالیٰ اجز دے گا!!
قلت: يؤجر الرجل على بغض أصحاب أبي حنيفة؟
قال: إي والله.
میں نے کہا: کیا کسی شخص کو اصحاب ابو حنیفہ سے بغض رکھنے پر اجر ہوگا؟
(امام احمد بن حنبل نے ) کہا: اللہ کی قسم ، ہاں
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 4765 جلد 09 - مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه - إسحاق بن منصور، المعروف بالكوسج - الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 565 جلد 02 - مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه - إسحاق بن منصور، المعروف بالكوسج - دار الهجرة
وَأُخْبِرْتُ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجِ، قَالَ: قُلْتُ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ يُؤْجَرُ الرَّجُلُ عَلَى بُغْضِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ؟ قَالَ: إِي وَاللَّهِ
مجھے اسحاق بن منصور الکوسج کے حوالے سے خبر ملی کہ انہوں نے کہاکہ : میں نے احمد بن حنبل سے کہا: کیا کسی شخص کو ابو حنیفہ اور اصحاب ابو حنیفہ سے بغض رکھنے پر اجر ہوگا؟
(امام احمد بن حنبل نے ) کہا: اللہ کی قسم ، ہاں
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 179 جلد 02 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام
ثابت یہ ہوا کہ امام احمد بن حنبل نے امام محمد کو جہمی مذہب پر قرار دیا، اور امام احمد بن حنبل اہل الرائے سے فتویٰ لینے کا بھی منع کرتے تھے، بلکل امام احمد بن حنبل کا مؤقف یہ تھا کہ اہل الرائے اصحابہ ابو حنیفہ سے بغض بھی باعث اجر ہے۔ یہ محال ہے کہ امام احمد بن حنبل امام محمد کی کتب سے فقہ اخذ کرتے ہوں، امام احمد بن حنبل کے آپ کے پیش کردہ قول کا معنی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ امام احمد بن حنبل سے ثابت ہونے کی صورت میں یہ معنی محال ہے کہ امام احمد بن حنبل امام محمد کی کتب سے فقہ اخذ کرتے تھے، بلکہ یہی کہ ان کی اہل الرائے کی فقہ کو نقل کرنا ، اور اس پر نقد ہی مراد ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے بھی ابھی ''الهدایة'' سے فقہ حنفی کا ایک دقیق مسئلہ بیان کیا ہے!! یا پھر ''دلائل خصم'' کے لحاظ سے!!
كَانَ الشَّافِعِيُّ يَقُوْلُ: كَتَبْتُ عَنْهُ وَقْرَ بُخْتِيّ، وَمَا نَاظَرتُ سَمِيْناً أَذكَى مِنْهُ، وَلَوْ أَشَاءُ أَنْ أَقُوْلَ: نَزَلَ القُرْآنُ بِلُغَةِ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ، لقُلْتُ؛ لِفِصَاحَتِهِ.اور امام شافعی فرماتے ہیں:
كَتَبْتُ عَنْهُ وَقْرَ بُخْتِيٍّ ، وَمَا نَاظَرتُ سَمِيْناً أَذكَى مِنْهُ، وَلَوْ أَشَاءُ أَنْ أَقُوْلَ: نَزَلَ القُرْآنُ بِلُغَةِ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ، لقُلْتُ؛ لِفِصَاحَتِهِ.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 135 جلد 09 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 3390 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية
ہاں تو اس سے کیا ثابت ہوا؟ کیا اس سے امام محمد کا ثقہ ہونا لازم آتا ہے؟ بڑی عجیب بات کی ہے؟ معلوم نہیں کون آپ کو یہ پٹی پڑھاتاہے، اگر عربی لغت کی فصاحت و بلاغت سے کوئی ثقہ ثابت ہو سکتا، اور اس پر موجود جرح رفع ہو سکتی، تو آپ کے زمغشری کیونکر معزلی ٹھہرتے، جبکہ زمخشری کی عربی لغت میں فصاحت و بلاغت کے سبھی معترف ہیں، یہی نہیں بلکہ نہج البلاغہ کے مصنف کی بھی۔ اور کیا ابو جہل ابو الحکم نہیں کہلایا جاتا تھا؟ اسے لغت عربی میں مہارت نہیں تھی؟
اشماریہ صاحب، پھر کہتا ہوں، یہ علم الحدیث کا میدان ہے، فقہ حنفیہ کے اٹکل پچّو کا نہیں!
یہ بھی عجیب کہی!! جناب من! آپ کو یہ کس نے کہا کہ گواہی کو ماننا سند سے مستغنی کر دیتا ہے؟ بھائی جان یہی سند تو گواہی ہوتی ہے!! اور اس سند پر حکم فیصلہ!! کیا کریں کہاور ہاں سند نہیں مانگیے گا۔ کیوں کہ جس طرح آپ نے بلا سند اقوال اٹھا کر پیش کیے تھے اسی طرح میں نے بھی کر دیے ہیں۔ نیز میں نے علامہ ذہبی کی گواہی پر اعتماد کیا ہے آپ کے اصول کے مطابق۔
سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجا ست
اشماریہ بھائی! آپ میرے مراسلہ کو ذرا غور سے پڑھا کریں!! ہم نے آپ کو بتلایا تھا:
بھائی جان! یہی معاملہ ہے کہ مقلدین احناف حضرات جب امام ابو حنیفہ کے قول پر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ سب چیزیں نہیں ہوا کرتی!! جب کہ اہل حدیث امام يحیی بن معین کا قول ہو، یا امام بخاری کا وہ ان تمام امور کا خیال رکھتے ہوئے، فیصلہ کرتے ہیں، اسی لئے وہ ان کے کئی اقوال کو رد بھی کردیتے ہیں!! فتدبر!!
اول تو صحيح بخاری کو صرف امام بخاری کے کہنے پر ہی صحیح تسلیم نہیں کیا جاتا، دوم کہ اگر صرف اس بنیاد پر بھی کیا جائے، تو امام بخاری کی تصحيح کی گواہی ماننا درست ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف قرائین آجائیں، اور اس کے خلاف ایسے قرائین ثابت نہ ہو سکے!!
بھائی جان! محدث جب کسی حدیث پر صحیح کا حکم لگاتا ہے تو وہ ان اتصال سند، عدالت الرواۃ، ضبط الراوة ، عدم علت اور عدم شذوذ کا حکم لگاتا ہے، جو اس نے کتب سے حاصل کی ہوتی ہیں یا اسے روایت ہوتی ہے۔ کسی راوی کے بارے میں جانے بغیر فیصلہ نہیں دیتا!! محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
ہاں اب یہ جو مقلدین حنفیہ نے ایک نیا اصول ایجاد کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے گمنام شیوخ ، کہ جن کا نام بھی نہیں معلوم، وہ حدیث بھی صحیح ہوگی!!
اور آپ نے یہ کہاں سے اخذ کر لیا کہ سند سے مستغنی ہو گئے؟؟امام بخاری کا سند ذکر کرنا امام بخاری کی گواہی ہے، اور اس حدیث کو امام بخاری کا اپنی سند کے راویوں کی شہادت کو قبول کرنا امام بخاری کا فیصلہ، اور امام بخاری کا یہ فیصلہ ان راویوں کے ثقہ ہونے کی شہادت پر ہے، جو امام بخاری نے اپنے شیوخ سے حاصل کی۔ اور امام بخاری کے فیصلہ کی دلیل امام بخاری کی بیان کردہ سند ہے!!
"محمد" بن الحسن الشيباني أبو عبد الله أحد الفقهاء لينه النسائي وغيره من قبل حفظه يروي عن مالك بن أنس وغيره وكان من بحور العلم والفقه قويا في مالك انتهىایک اور چیز بھی بتاتا چلوں کہ لسان المیزان میں امام محمدؒ کے ترجمہ میں مذکور ہے:
يروي عن مالك بن أنس، وَغيره , وكان من بحور العلم والفقه قويا في مالك
یہاں تین چیزیں مذکور ہیں۔ وہ بحر علم تھے، وہ بحر فقہ تھے، وہ مالک کے سلسلے میں قوی تھے۔ تو جو بحر علم و فقہ ہو اور موطا مالک کی روایت میں قوی ہو وہ ضعیف یا کذاب ہو سکتا ہے؟
یہ فیصلہ ہے ان علماء کا جن کے سامنے ان پر جرحیں موجود تھیں اور انہوں نے اس کے باوجود یہ فیصلہ کیا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 60 - 61 جلد 07 لسان الميزان - ابن حجر العسقلاني - مكتب المطبوعات الإسلامية
جی بلکل درست ہے کہ امام ابن حجر نے اسے لسان المیزان میں بیان کیا ہے۔ یوں تو اسی لسان المیزان میں اسی سے آگے بہت سخت جراح بھی بیان کی ہیں، مگر طوالت مراسلہ کی وجہہ سے اسے ذکر نہیں کرتا۔
مگر یہ تو بتائیے، کہ اپ کے ذکر کردہ کلام میں امام محمد کا ثقہ ہونا کہاں ثابت ہوتا ہے؟
یہ بحور العلم ہونے سے کسی کا ثقہ ہونے کب سے لازم آگیا؟
اسی طرح کی بات الیاس گھمن نے لکھی ہے؛ اس کا جواب فورم پر ہی لکھا ہے، یہاں بھی پیش کردیتا ہوں:
اول تو ''الحافظ'' ''الإمام'' ،''المكثر'' ''عالم خراسان'' ،''من أوعية العلم'' ؛ یہ کلمات توثیق نہیں، یہ بات امام الذهبی نے انہیں کلمات سے ظاہر ہوتی ہے ، جو کلمات امام الذهبي نے ان کے ساتھ ہی بالکل متصل لکھے ہیں اور وہ کلمات ہیں؛ على ضعف فيه.۔ مگر الیاس گھمن صاحب نے انہیں حذف کردیا۔ کیونکہ اگر الیاس گھمن صاحب ان لفاظ کو بیان کردیتے تو ان کی فنکاری کیا کرتے۔ فتدبر!!یہی نہیں امام الذهبي نے اسی کتاب میں، اسی باب میں اگلی چند سطور میں، یہاں تک کہا ہے کہ عمر بن هارون کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں۔الیاس گھمن صاحب عمر بن هارون کی توثیق ثابت کرنے کے لئے فرماتے ہیں:
علامہ ذہبی: الحافظ،الامام ،المکثر، عالم خراسان ،من اوعیۃ العلم“ [علم کا خزانہ تھے ]المحدث ، وارتحل و صنف و جمع [حصول علم کے اسفار کئے، کتب تصنیف کیں اور احادیث جمع کیں](تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج:1ص:248،249،سیر اعلام النبلاء ج:7ص:148تا 152)
عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.
۔۔۔۔۔۔۔۔
قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة. متروك. قلت لا ريب في ضعفه.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن
ہم نے عرض کیا ہے نا آپ کو کہ یہ علم الحدیث کا میدان ہے، فقہ حنفیہ کے اٹکل پچّو کا نہیں!!
اور امام مالک سے روایات میں قوی ہونے کا مطلب ہم پہلے بیان کر آئے ہیں، اس سے امام محمد کا فی نفسہ ثقہ ہونا ثابت نہیں ہوتا، وگرنہ روایات امام مالک کی قید چہ معنی دارد!!
وہ کہتے ہیں کہ:
سخن شناس نئی دلبرا خطا ائنجا ست
Last edited: