محترم! حنفیت کو استعفیٰ دینے سے پہلے آپ نے دوسری ”جاب“ اختیار کرنے سے پہلے کیا قرآن مجید فرقانِ حمید کا مطالعہ کیا؟ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کن کن احادیث کی کتب کا مطالعہ کیا جو استعفیٰ کی بنیاد بنیں؟
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مقلد رہتے ہوئے ایک عامی قرآن و حدیث سے استفادہ نہیں کرسکتا، سوائے اس کے، کہ پہلے غالباً اٹھارہ علوم پر دسترس حاصل کرلے، یا پھر جس امام کا وہ مقلد ہے اسی سے چمٹ کر قرآن و حدیث کی تفسیر و فقہ کو مانتا ہی چلاجائے بنا چوں و چراں کیئے، تو آپ کا یہ کہنا کہ استعفیٰ دینے بعد مطالعہ کیا یا نہیں کیا، تو عرض یہ ہے کہ اوپر بیان کی گئی اشکال کی بناء پر آپ کا سوال بے تُکا بھی ہے، اور آپ کے سوال ہی میں آپ کے مذھب کی حقیقت کا پردہ چاک معلوم ہوتا ہے، آپکے مذھب میں رہتے ہوئے ایک عامی مقلد بنا اٹھارہ علوم حاصل کیئے اسفتادہِ قرآن کر ہی نہیں سکتا، بصورت دیگر عامی مقلد پر لازم ہے کہ امامِ مذکور ہی سے ایلفی طرح چمٹا رہے،
تو ثابت یہی ہوا کہ آپ بھی مانتے ہیں کہ مقلد رہ کر یقیناً میں نے قرآن و حدیث کا مطالعہ نہیں کیا ہوگا، جبھی آپ نے مقلدیت کو استعفیٰ دینے کا سن کر یہ اعتراض اٹھایا،
آپکو یہ ظن آپکے مذھب کے قواعد کی وجہ سے مرحمت ہوا، لیکن بحرحال آپکا یہ ظنِ باطل ہی ہے چونکہ مقلد رہ کر بھی میں تقلید سے باغی ہی تھا (اور ہر انسان تقلید سے باغی ہی ہے، کیونکہ یہ تقلید صفت انسانی ہی کے برخلاف ہے)ِ اور مطالعہ و مکالمہ صد شوق کیا کرتا تھا، امید ہے بات سمجھ آگئی ہوگی
رہی یہ بات کہ استعفیٰ کی بنیادی وجہ کیا بنی، (اس تھریڈ ہی میں بےشمار اختلافات موجود ہیں، ہر اختاف استعفیٰ کی وجہ ہے) تو اب وجہ بتاکر میں ایک نیا محاز نہیں کھولنا چاہتا نہ ہی میرے پاس اتنا وقت ہے کہ میں مکالمے کرتا پھروں، اپنی روداد کا خلاصہ بیان کیا اور ابن داود بھائی کی حاصلہ افزائی کے ساتھ پیار بھری نصیحت کی،
والسلام