اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی! آپ کو یہ پہلے بھی سمجھایا تھا کہ یہ عربی کے بھرم کسی اور محفل میں مارا کیجئے!
اشماریہ بھائی آپ کو قاضی ابو یوسف کا قول بالکل صحیح موقع محل پر یاد آیا ہےکہ:
بالکل یہی کام آپ نے کیا ہے، کہ گمان کیا کہ یہ نکتہ مخفی نکتہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا! مگر افسوس تو اس کے با وجود بھی آپ کے ابتسامہ پر ہے، کہ ایک تو فراڈ کرتے ہو اوپر سے مسکراتے ہو!
اور ہم کو یہ قول یاد آیا جو قاضی ابو یوسف کو اس شخص نے کہا تھا، اور یہی بات ہم آپ سے کہتے ہیں:
اس سے قبل بھی آپ نے مجھ پر یہ اعتراض کیا تھا کہ میں نے ضمیر کا مرجع غلط لیا ہے، اور آپ نے اپنے تئیں ضمیر کا مرجع بیان کیا تھا، اور پھر جب ہم نے آپ کو بتلایا کہ ہمرا بیان کیا ہوا ضمیر کا مرجع ہی درست ہے اور آپ کا بیان کی اہوا ضمیر کا مرجع بالکل غلط ہے اور آپ کی ضمیر الٹی پڑ گئی تھی! تب بھی آپ بجائے اس کے کہ آپ اپنی غلطی تسلیم کرتے ، کہتے ہو کہ '' چلیں جی آپ کی بات مان لیتے ہیں'' اس کے باوجود بھی ابھی تک آپ پر عربی دانی کا بھوت سوار ہے، کوئی بات نہیں ہم آپ کا یہ بھوت بھی ابھی اتار دیتے ہیں! لیکن اس سے قبل آپ کی یاداشت کو پیش نظر رکھتے ہوئی پچھلا معاملہ پھر پیش کرتے ہیں:
اس پر آپ کو بتلایا گیا، باقاعدہ آپ کی ترکیب کا بطلان بھی بتلایا گیا ، اور ہماری بیان کردہ ترکیب کا اثبات بھی بیان کیا گیا:
اور پھر بجائے اس کے کہ اپنی غلطی تسلیم کرتے، آپ فرماتے ہیں:
اس کے باوجود بھی بھائی کے بھرم ہیں کہ ختم ہیں نہیں ہو رہے!
اشماریہ صاحب اوپر سے فرماتے ہیں، کہ واضح ترجمہ کرو! جیسے یہ جو ترجمہ کیا گیاہے واضح نہ ہو! اب کسی کی اردو اس قدر کمزور ہو تو اس میں ہمارا کیا قصور!!
اردو آپ کی ماشاء اللہ سے اتنی زبردست ہے کہ نہ استفسار اور اعتراض کا فرق معلوم ہے، یہ قاضی اور قاضی جیسی حيثیت کا فرق سمجھ آتا ہے، اور حد تو یہ ہوئی کہ مذکورہ ترجمہ میں ضمیر کا مرجع بھی سمجھ نہیں آیا، اور نہ ترجمہ سمجھ آیا کہ واضح ترجمہ کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اب جب میں آپ کو کہتا ہوں کہ آپ کو چاہئے کہ اردو میڈیم پرائمری اسکول میں داخلہ لیں تو اس میں غلط کیا ہے؟
اشماریہ بھائی! یہ بات آپ کو متعدد بار بتلائی گئی ہے کہ ہم آپ کو یہاں لغت تو پڑھانے سے رہے، ہاں ایک کام کر سکتا ہوں کہ آپ کو کچھ لغت کی کتابوں کا لنک دیئے دیتا ہوں، ان کتب سے استفادہ حاصل کریں۔
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ رفاہ عام پریس، لاہور- حصہ اول
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ رفاہ عام پریس، لاہور- حصہ دوم
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ رفاہ عام پریس، لاہور- حصہ سوم
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ رفاہ عام پریس، لاہور- حصہ چہارم
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ اردو سائنس بورڈ ، لاہور
اگر فرہنگ آصفیہ آپ کے لئے مشکل ہو تو بتلایئے گا، آپ کو پھر فیروز اللغات کا لنک دیں گے!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ابن داود بھائی! میں یہاں آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے نہیں بیٹھا۔ لہذا براہ کرم نہ میرے فہم کو آزمانے کی کوشش کریں اور نہ کتب کے لنکس دیں۔ جو چیز پوچھی جائے وہ بتا دیا کریں۔ میں بسااوقات اس لیے پوچھتا ہوں کہ آپ کی بات کا غلط مطلب نہ نکال لوں کیوں کہ پھر آپ خود استفسار کا حکم فرماتے ہیں۔ تو جب پوچھتا ہوں تو اسی وقت بتا دیا کریں۔ شکریہ
اسی ترجمہ میں موجود ہے کہ ان ضمیروں کا مرجع کیا ہے! اور یاد رہے کہ ترجمہ بالکل واضح ہے! میں پھر بھی ان کو مارک کر دیتا!
بس اسی طرح کے اٹکل کے گھوڑے دوڑا کر فقہ حنفی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث کو رد کیا گیا ہے، جیسے اسی یہودیوں کو رجم کرنے کی حدیث کو بھی فقہ حنفیہ نے رد کردیا، فقہ حنفیہ میں یہودیوں (یا کسی اور کافر) کے لئے رجم کی سزا نہیں ہے اور ذرا غور کیجئے گا کہ امام محمد خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کر کے کس طرح اس حدیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو رد فرمارہے ہیں:
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَجُلا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ» ؟ فَقَالُوا: نَفْضَحُهُمَا، وَيُجْلَدَانِ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ، فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ، فَنَشَرُوهَا، فَجَعَلَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، ثُمَّ قَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: ارْفَعْ يَدَكَ، فَرَفَعَ يَدَهُ، فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَالَ: صَدَقْتَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، «فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا» .قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ ".
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، أَيُّمَا رَجُلٍ حُرٍّ مُسْلِمٍ زَنَى بِامْرَأَةٍ وَقَدْ تَزَوَّجَ بِامْرَأَةٍ قَبْلَ ذَلِكَ حُرَّةٍ مُسْلِمَةٍ وَجَامَعَهَا فَفِيهِ الرَّجْمُ، وَهَذَا هُوَ الْمُحْصَنُ، فَإِنْ كَانَ لَمْ يُجَامِعْهَا إِنَّمَا تَزَوَّجَهَا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، أَوْ كَانَتْ تَحْتَهُ أَمَةٌ يَهُودِيَّةٌ أَوْ نَصْرَانِيَّةٌ لَمْ يَكُنْ بِهَا مُحْصَنًا، وَلَمْ يُرْجَمْ، وَضُرِبَ مِائَةً.وَهَذَا هُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني » كِتَابُ الْحُدُودِ وَالسَّرِقَةِ » بَابُ الْحُدُودِ فِي الزِّنَا
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ یہودی آئے اور آپ کو بتایا کہ ان میں سے ایک آدمی اور عورت نے زنا کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: رجم کے بارے میں تمہیں تورات میں کیا حکم ملا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان دونوں کو رسوا کیا جائے۔ کوڑے لگائے جائیں، حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ علہ نے فرمایا تم نے جھوٹ بولا۔ اس میں تو رجم کا حکم ہے وہ (یہودی) تورات لے آئے انہوں نے اس کھولا ان میں سے ایک آدمی نے رجم والی آیت ہر پاتھ رکھ دیااور اس کے ماقبل اور مابعد کو پڑھا۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا اپنا ہاتھ اُٹھاؤ، اس نے اپنا ہاتھ اُٹھایا تو اس میں آیت رجم موجود تھی۔ وہ کہنے لگے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سچ فرمایا ہے اس میں آیت رجم موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان دونوں کو سنگسار کردیا گیا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے دیکھا کہ (وہ) آدمی اس عورت کو بچانے کیلئے اس کے اوپر جھک جاتا تھا۔
حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں، اگر کوئی آزاد مسلمان کسی عورت سے زنا کرے جبکہ وہ پہلے کسی مسلمان آزاد عورت سے نکاح کر چکا ہو اور اس سے اس نے ہم بستری بھی کر لی ہو، اس صورت میں رجم کا حکم ہے کیونکہ وہ محصن ہے اگر اس نے مجامعت نہ کی ہو صرف نکاح کیا اور ہم بستری نہ کی ہو یا اس کے نکاح میں یہودی یا نصرانی لونڈی ہو تو وہ محصن نہیں اس کو سنگسار نہ کیا جائے گا، اس کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ہمارے اکثر فقہاء کرام کا یہی قول ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 166 – 168 جلد 02 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – مكتبة البشری، كراتشي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 307 – 308 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – الميزان، لاهور
میں اس مسئلہ میں زیادہ لمبی چوڑی بحث نہیں کرتا، بس اتنا سوال ہے کہ رجم تو یہاں یہودیوں کا کیا گیا، اور فقہ حنفیہ صرف مسلمانوں کو رجم کرنے کا کہتی ہے، اور اب اشماریہ صاحب یہ محمد بن الحسن الشیبانی سے پوچھ کر بتلائیں کہ یہ حدیث تو یہودیوں سے متعلق تھی، اس حدیث مین یہودی کی جگہ مسلمان کیسے آ گئے؟ دوسری احادیث میں تو مسلمانوں کا ذکر ہے، مگر معاملہ کچھ یوں ہے کہ اس حدیث کا صاف انکار کرنے کے باوجود بھی محمد بن الحسن الشیبانی فرماتے ہیں کہ ''ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں''مجھے پھر وہی قاضی ابو یوسف کا قصہ یاد آیا کہ''تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''
لیجئے جناب اب اعتراض کیجئے! بتایئے اب کہ ہم نے غلط مرجع بتلایا ہے! مگر بھائی جان ! یاد رہے کہ مجھ کہ یہ ترجمہ بھی آپ کے حنفی بھائی کا ہے!
مگر میں آپ کے اٹکل کے گھوڑوں کو پہلے ہی باند ھ دیتا ہوں لیجئے جناب! اپنے دیوبندی علماء کا ترجمہ ، جس پر آپ کے عبد الرشید نعمانی صاحب کا مقدمہ بھی ہے:
مالک ۔ نافع ۔ عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان سے بیان کیا کہ ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں سے پوچھا کہ رجم کے متعلق تم توریت میں کیا پاتے ہو تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ ان دونوں کو رسوا کرتے اور کوڑے لگاتے ہیں، تو ان سے عبد اللہ بن سلام نے کہا تم جھوٹے ہو، تورات میں سنگسار کر دینے کا حکم ہے۔ تم توریت لاؤ جب ان لوگوں نے لایا اور اسے کھولا تو ان میں سے ایک نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ دیا اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی آیتیں پڑھیں عبد اللہ بن سلام نے فرمایا اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ جب ہاتھ اٹھایا تو وہیں پر رجم کر دینے کی آیت تھی۔ عبد اللہ بن سلام نے کہا آپ نے سچ کہا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اس میں رجم کی آیت ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو سنگسار کر دینے کا حکم صادر فرمایا اور انہیں سنگسار کیا۔ حضرت ابن رعمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے اس مرد کو دیکھا کہ اس عورت کو پتھر سے بچانے کیلئے اس عورت پر جھک جاتا تھا۔
امام محمد نے کہا کہ ہم ان سب پر عمل کرتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان آزاد مرد کسی عورت سے زنا کرے اور وہ اس سے پہلے کسی عورت سے نکاح کرچکا ہو اور اس کے ساتھ جماع بھی کرچکا ہو تو اس صورت میں سنگسار کرنے کا حکم ہے۔ اور یہی شخص محصن ہے اور اگر اس کے ساتھ جماع نہ کیا ہو بلکہ صرف نکاح کیا ہو اور جماع نہ کیا ہو یا اس کے پاس یہودی یا نصرانی لونڈی ہے تو اس کے سبب سے محصن نہ ہوگا اور سنگسار نہیں کیا جائے گا بلکہ سو کوڑے مارے جائیں گے۔ امام ابو حنیفہ ؒ اور اکثر فقہائے احناف کا یہی قول ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 316 – 317 موطا امام محمد مع ترجمہ اردو ۔ خواجہ عبد الوحید – محمد سعید اینڈ سنز ، کراچی
اشماریہ بھائی ! یہاں ایک ایسا نکتہ اٹھانا چاہتے ہیں، جس کا ہمارے اعتراض سے کوئی تعلق نہیں، یہ نکتہ تو ہم نے اٹھایا ہی نہیں؛ کہ کسی آزاد مسلمان کو جس نے نکاح کیا اور جماع نہ کیا ہو، یا جس کے پاس یہودی یا عیسائی لونڈی ہو اس کو رجم نہیں کیا جائے گا! کیونکہ وہ محصن شمار نہ ہوگا!
یہاں سے اشماریہ صاحب ! کا ارادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ کہہ کر جان چھڑا لیں گے کہ یہاں تو مسلمان کو محصن نہ ہونے کی صورت میں رجم نہ کرنے کی بات ہے!
جبکہ ہمارا اعتراض یہ نہیں ہے، ہمارا اعتراض یہ ہے کہ یہاں صرف مسلمان کے رجم کرنے کا ذکر کیا گیا ہے، اور یہودی کو رجم نہ کیا جائے گا!
اشماریہ بھائی! اب آپ خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں؟ کہ امام ابو حنیفہ ؒ، محمد بن الحسن الشیبانی کے نزدیک اور فقہ حنفیہ میں يہودیوں کے لئے رجم نہیں ہے؟
جزاک اللہ۔ آپ کے مارک کرنے پر میں آپ کا شکرگزار ہوں۔ آپ کی بات درست ہے کہ یہاں مسلمان کو رجم نہ کرنے کا ذکر ہے۔ رہ گئے یہود تو ان کا یہاں ذکر ہی نہیں ہے۔ لہذا صرف یہ پیش کر کے یہ کہنا درست نہیں فقہ حنفیہ میں یہودی کو رجم نہیں کیا جائے گا۔
البتہ یہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ اپنے موقف پر آگے فقہ حنفی کا حوالہ پیش کر دیا۔
آپ کی آسانی کے لئے ایک دو عبارات آپ کے فقہاء کی پیش کر ہی دیتا ہوں:
بَاب الْإِحْصَان
مُحَمَّد عَن يَعْقُوب عَن أبي حنيفَة (رَضِي الله عَنْهُم) قَالَ لَا يكون الْإِحْصَان إِلَّا بَين الحرين الْمُسلمين العاقلين الْبَالِغين قد جَامعهَا بعد بلوغهما وهما على هَذِه الصّفة قَالَ أَرْبَعَة شهدُوا على رجل بِالزِّنَا فَأنْكر الْإِحْصَان وَله امْرَأَة قد ولدت مِنْهُ فَإِنَّهُ يرْجم فَإِن لم تكن ولدت مِنْهُ وَشهد عَلَيْهِ بالإحصان رجل وَامْرَأَتَانِ رجم وَإِن رَجَعَ شُهُود الاحصان فَلَا شَيْء عَلَيْهِم وَالله اعْلَم
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 279 جلد 01 الجامع الصغير وشرحه النافع الكبير لمن يطالع الجامع الصغير - محمد بن الحسن الشيباني - محمد عبد الحي اللكنوي - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي
اشماریہ بھائی! اب کرو خود اس کا ترجمہ، اور بتاو کہ یہاں مسلمان ہونا رجم کی شروط میں شامل ہے یا نہیں؟ یعنی کسی غیر مسلم کو رجم نہیں کیا جائے گا!
اشماریہ صاحب ! یہ فنکاری آپ اپنے مقلدین کو دکھایا کیجئے!
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
اشماریہ بھائی! یہ تو وہ مسئلہ ہے کہ ابن ابی شیبہ رحہمہ اللہ نے آپ کے امام اعظم ابو حنیفہؒ کے رد میں جو کتاب، ''كِتَابُ الرَّدِّ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ'' اپنی مصنف میں لکھی ہے اس کا سب سے پہلا مسئلہ یہی بیان کیا ہے، اور ابن ابی شیبہ کس دور کے عالم و محدث تھے، یہ بتانی کی ضرورت تو نہیں!
ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے پہلے چار احادیث درج کیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کا رجم کیا، اور پھر امام شعبی ؒ کا قول آپ کے امام صاحب کے مؤقف پر پیش کیا:
كِتَابُ الرَّدِّ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ
یہ کتاب ابو حنیفہ کی تردید میں ہے
هَذَا مَا خَالَفَ بِهِ أَبُو حَنِيفَةَ الْأَثَرَ الَّذِي جَاءَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یہ وہ مسائل ہیں جن میں ابو حنیفہ نے ان آثار کی مخالفت کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔
مَسْأَلَةُ رَجْمِ الْيَهُودِيِّ وَالْيَهُودِيَّةِ
یہودی مرد اور یہودیہ عورت کو رجم کرنے کا مسئلہ
حَدَّثَنَاأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَقِيُّ بْنُ مَخْلَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً»
جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودیہ عورت کو سنگسار (کرنے کاحکم ) فرمایا۔
حَدَّثَنَاأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» رَجَمَ يَهُودِيًّا "
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کو سنگسار (کرنے کا حکم ) فرمایا۔
حَدَّثَنَاعَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً "
جابر بن عبداللہ رضی اللل عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودیہ عورت کو سنگسار (کرنے کا حکم) فرمایا
حَدَّثَنَاابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيَّيْنِ أَنَا فِيمَنْ رَجَمَهُمَا»
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یہودیوں کو سنگسار (کرنے کا حکم) فرمایا اور میں نے ان یہودیوں پر سنگ باری کی۔
حَدَّثَنَاجَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً " وَذُكِرَ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: لَيْسَ عَلَيْهِمَا رَجْمٌ
شعبیؒ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نئ ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو سنگسار (کرنے کا حکم) فرمایا۔ اور ابو حنیفہ کا یہ قول ذکر کیا گیا ہے کہ یہودی مرد و عورت پر سنگساری کا حکم نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 277 جلد 07 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - دار التاج، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 351 - 352 جلد 12 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر ، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 80 - 81 جلد 13 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - مكتبة الرشد، الرياض
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 53 - 54 جلد 20 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - دار القبلة - مؤسسة علوم القرآن، الرياض
جو روایت یہاں آپ نے رجم یہودی و یہودیہ سے متعلق پیش کی اس میں راوی حضرت عبد اللہ بن عمر رض ہیں۔ اور علامہ زیلعیؒ نے نصب الرایہ میں مسند اسحاق بن راہویہ کے حوالے سے یہ روایت نقل فرمائی ہے:
رواه إسحاق بن راهويه في "مسنده" أخبرنا عبد العزيز بن محمد ثنا عبيد الله عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من أشرك بالله فليس بمحصن"، انتهى. قال إسحاق: رفعه مرة، فقال: عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ووقفه مرة، انتهى.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " مَنْ أَشْرَكَ بِاللهِ فَلَيْسَ بِمُحْصَنٍ "
"ابن عمر رض سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو وہ محصن نہیں۔ اسحاق فرماتے ہیں: راوی نے کبھی مرفوعا ذکر کیا تو عن رسول اللہﷺ فرمایا اور کبھی موقوفا ذکر کیا۔"
3۔327 ط ریان
اس روایت کے تمام رواۃ متفقہ طور پر ثقات ہیں سوائے عبد العزیز بن محمد الدراوردی کے، جن کے بارے میں بعض نے جرح کی ہے۔ لیکن امام مالکؒ علامہ مزی کی تخریج کے مطابق انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں اور اسی طرح ابن معینؒ بھی۔ دراوردیؒ مدینہ کے ہیں اور ہیں بھی امام مالکؒ کے زمانے کے اس لیے امام مالکؒ کی توثیق ان کے بارے میں نہایت مضبوط ہے۔
ان کے زمانے میں ان کی حدیث کے مطابق امام مالک اور امام ابو حنیفہ نے اپنا مسلک مدون کیا (الفقہ علی المذاہب الائمۃ الاربعہ) اور امام مالک نے ان کی توثیق بھی کی اس لیے بعد کے لوگ اگر ان پر جرح کریں تب بھی مالک اور ابو حنیفہ کے مسلک کو یہ جرح کوئی ضرر نہیں دے سکتی۔
اس روایت پر اعتراض ہے رفع اور وقف کا۔ اولا تو زیادتی ثقہ کے قاعدہ کے مطابق جب راوی ثقہ نے اسے مرفوع ذکر کر دیا تو یہ مرفوعا قبول ہے۔
اور ثانیا اگر یہ موقوف ہو تب بھی دو وجہ سے مضر نہیں:
اول: یہ حدود کا معاملہ ہے اور اس میں قیاس کا دخل نہیں اور غیر قیاسی چیز میں قول صحابی سنت رسول ﷺ کے مرتبہ میں ہوتا ہے۔
ثانی: یہ موقوف ہونے کی صورت میں ابن عمر رض کا فتوی ہے اور راوی حدیث کا جب فتوی اس کی روایت کے خلاف ہو تو وہ حدیث قبول نہیں ہوتی۔
اس حدیث کے دیگر متابعات یہ ہیں۔ ان میں سے بعض کے رواۃ کمزور ہیں لیکن متابع بننے کے لیے کافی ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " مَنْ أَشْرَكَ بِاللهِ فَلَيْسَ بِمُحْصَنٍ "
شرح معانی الآثار للطحاوی 11۔446 ط رسالہ
نا دَعْلَجٌ , نا ابْنُ شِيرَوَيْهِ , نا إِسْحَاقُ , نا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنْ نَافِعٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَشْرَكَ بِاللَّهِ فَلَيْسَ بِمُحْصَنٍ».
سنن الدارقطنی 4۔178 ط رسالہ
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «مَنْ أَشْرَكَ بِاللَّهِ، فَلَيْسَ بِمُحْصَنٍ»
مصنف ابن ابی شیبہ 5۔536 ط الرشد
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُضَارِبِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، ثنا أَبِي، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، أنبأ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَشْرَكَ بِاللهِ فَلَيْسَ بِمُحْصَنٍ "
السنن الکبری للبیہقی 8۔375 ط العلمیۃ
اب یہاں تعارض ہو گیا رجم یہود کی حدیث اور اس حدیث کا (کیوں کہ یہود کا شرک تو قرآن کریم سے ثابت ہے) تو اس تعارض کو دفع بیہقیؒ نے یہ کہہ کر کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس حدیث میں مراد احصان قذف ہے لیکن ان کی اس بات پر کوئی دلیل نہیں۔ بلکہ صحیح دفع تعارض یہ ہے کہ یہود کے رجم کی حدیث نبی کریم ﷺ کی خصوصیت تھی۔ اس پر دو دلیلیں ہیں:
اول: قولی حدیث فعلی حدیث پر راجح ہوتی ہے۔
ثانی: حدیث رجم یہود میں نبی ﷺ کی اور بھی خصوصیات ہیں جیسے تورات میں موجود حکم کی بالغیب خبر دینا اور تورات کے حکم کی تائید عملا کرنا۔
اگر اس پر کوئی رد کرنا ہو تو باحوالہ کیجیے گا۔ صرف آپ کی آراء قابل قبول نہیں ہوں گی۔
کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ ان الفاظ کی کیا وجہ ہے؟ میں نے اس مندرجہ بالا مسئلہ کے بارے میں پیچھے ایسی کون سی بات کی تھی جو مجھے اس طرح کے الفاظ سنائے جارہے ہیں؟؟اشماریہ بھائی! اب میں اسے آپ کا تجاہل عارفانہ کہوں؟ یا ڈرامہ مقلدانہ؟
اشماریہ بھائی! اللہ کو جان دینی ہے، کچھ اللہ کا خوف کرو! اختلاف الگ چیز ہے، فہم و استدلال میں اختلاف ہو سکتا ہے، مگر اس طرح کی ڈرامے بازی تو نہ کرو!
آپ تو ماشاء اللہ! تخصص فی الفقہ کے طالب علم ہو! اب ایسے تو آپ نہیں ہو جیسے ایک عام تبلیغی ہوتا ہے! جنید جمشید اگر اسی بے سرو پا کی مار بھی دے تو وہ تو خیر معذور ہے، اسے کیا معلوم فقہ حنفی کیا ہے، محصن کسے کہتے ہیں؟ لیکن آپ ایسی باتیں کرو تو پھر اندازہ یہ ہوتا ہے کہ آپ دانستہ دھوکہ دے رہے ہو! یا پھر ایک اتنہائی نکمے طالب العلم ہو، اور درس نظامی بس رٹہ لگا کر یا نقل کر کے پاس کیا ہے؟ کیونکہ فقہ حنفیہ کا درس نظامی کا فارغ، یہ تو عین ممکن ہے کہ وہ علم الحدیث میں کورا ہو، بلکل یوں وسمجھو کہ متقاضی ہی اس بات کا ہے، الا ماشاء اللہ! لیکن فقہ حنفی جو سات سال تک رگڑ رگڑ کر پڑھتے ہو، اور پھر آخر ی سال دور حدیث میں فقہ حنفی کو احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ترجیح دینے کے لئے اٹکلی اسباب تلاش کرتے پھرتے ہو، تو فقہ حنفی سے تو اچھی طرح پڑھتے ہیں!
سجن سے جھوٹ مت بولو، خدا کے پاس جانا ہے
نہ ہاتھی ہے نہ گھوڑا ہے، وہاں پیدل ہی جانا ہے
شرم آنی چاہیے اس طرح بولتے ہوئے۔ کیا اس طرح آپ اپنے متبعین کو یہ دھوکہ دینا چاہتے ہیں کہ آپ نے بہت مضبوط بات کی ہے اور آپ ہی حق پر ہیں؟
کیا یہ آپ کا فورم ہے تو آپ اس زعم میں آکر اس طرح کے جملے بول رہے ہیں؟