بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
فضیلۃ الشیخ عبدالمالک الرمضانی الجزائری (حفظہ اللہ)
ترجمہ
طارق علی بروہی
جہادِافغانستان سے متعلق حقائق
اور
سلفی تجزیہ
اور
سلفی تجزیہ
فضیلۃ الشیخ عبدالمالک الرمضانی الجزائری (حفظہ اللہ)
ترجمہ
طارق علی بروہی
مختصر تعارف فضیلۃ الشیخ عبدالمالک بن احمد الرمضانی الجزائری (حفظہ اللہ)
یہ تحریر شیخرمضانی حفظہ اللہ کی تقریر کا اردو ترجمہ ہے، تقریر کو یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتاہے۔
تقریرکا آغاز
سائل: الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وبعد:
ہم اللہ تعالی کی حمد بیان کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں فضیلۃ الشیخ ابوعبداللہ عبدالمالک الرمضانی الجزائری حفظہ اللہ کے ساتھ اس اچھی ومبارک مجلس کو منعقد کرنے کی توفیق عنایت فرمائی، اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے اور توفیق مزید سے نوازے۔کیونکہ یہ اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں میں سے ہے کہ اس نے بالخصوص نوجوانوں کو ایسے علماء کرام کے ساتھ بیٹھنے کی توفیق دی اور خصوصاً اس پرفتن ودہشتگردی کے اس دور میں۔ جس میں ہما قسم کی بدعات نے سراٹھایا ہوا ہے(۔۔۔کلام غیر مفہوم۔۔۔)[1]۔ پس یہ اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے کہ ہمیں ایسی بہترین مجلس کی توفیق عطاء فرمائی۔ ہم نے کچھ ایسے سوالات کو شیخ سے جواب حاصل کرنے کی خاطر منتخب کیا ہے جن کی بالخصوص الجزائری نوجوانوں اور تمام سلفی نوجوانوں کو فی زمانہ اشد ضرورت وحاجت ہے۔ بہرحال اللہ تعالی ہمارا معاون ومددگار ہو۔
سوال 1: سائل کہتا ہے: شیخ صاحب اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے یہ بات آپ پر کچھ مخفی نہیں کہ جو کچھ آج دنیا میں ہورہا ہے قتل وغارت گری ودنگافساد، فواحش کا پھوٹ پڑنا اور خفیہ واعلانیہ اللہ تعالی کی معصیتوں کا ظہور۔اور بلاشبہ یہ تو وہ باتیں ہیں کہ جن کی پیشنگوئی پہلے ہی احادیث مبارکہ میں کردی گئی تھی۔ سلفی نوجوانوں (۔۔۔کلام غیر مفہوم۔۔۔) بدعات کی سرکشی جن کا علمبردار ابلیس لعین ہے مگر آپ پائیں گے کہ اس کی پیروی ہورہی ہے اور وہ انہیں مخبوط الحواس بنارہاہے (۔۔۔کلام غیر مفہوم۔۔۔) لیکن ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمارے لئے ایسے اہل علم کو زندہ رکھا ہے کہ جو اس سے اجتناب کرتے اور لوگوں کو بھی ان شیطانی ہتھکنڈوں سے بچاتے ہیں (۔۔۔کلام غیر مفہوم۔۔۔) وہ اپنی مخلصانہ نصیحتوں اور جو کچھ ان کے بس میں ہے کے ذریعے شیطان اور اس کے حواریوں وچیلوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ان گمراہ ہونے والے نوجوانوں کو حقائق سے آگاہ کرکے ان کا ہاتھ تھام لیں ۔ کیونکہ ان فتنوں کی پیدائش کا سب سے بڑا سبب وہ لوگ ہوتے ہیں جو اسلام کی طرف دعوت دے رہے ہوتے ہیں جیسے اپنے گمان میں جہاد کرنے والے جہادی جو کہ فسادی ہیں (۔۔۔کلام غیر مفہوم۔۔۔) ہر اس چیز سے جس سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے اور انہیں ان فسادیوں سے بچائیں(۔۔۔کلام غیر مفہوم۔۔۔) اس کے باوجود ان کے بہت سے پیروی کرنے والے موجود ہیں۔شاید کہ ان دھوکے میں ڈالنے والوں میں سے تازہ ترین ونمایاں نام اسامہ بن لادن کا ہے۔ اسی لئے ہم آپ سے یہ امید کرتے ہیں کہ آپ ان نوجوانوں کو ایسی بیش قیمت نصیحت فرمائیں کہ کس طرح وہ(۔۔۔کلام غیر مفہوم۔۔۔) ان تاریک فتنوں میں سلامتی کی راہ اختیار کریں، اور وہ کس چیز میں مشغول رہیں اور کس کی طرف رجوع کریں۔ پھر ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ اس مذکور اسامہ بن لادن کی شخصیت پر خاص روشنی ڈالیں اور ان تباہ کن فتنوں میں مسلمانوں کو کیا مؤقف اختیار کرنا چاہیے؟ اللہ تعالی آپ کو تمام خیر کے ساتھ جزاء عطاء فرمائے۔
شیخ فرماتے ہیں:
الحمدللہ وصلی اللہ وبارک علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ ومن ولاہ:اس سوال کا جواب دینے سے پہلے میں کچھ چیزوں پر جو اس سوال کے شروع میں بیان کی گئی ہیں تنبیہ کرنا چاہوں گا۔
سوال سے متعلق بعض تنبیہات
اولاً:
سب سے پہلے یہ کہ یہ جائز نہیں کہ آپ اپنی دعوت کو محض نوجوانوں تک محصور کریں اس طور پر کہ جب بھی علم کا ذکر کیا تو ان کاخصوصی ذکر کیا، جب بھی جہاد کا ذکر کیا تو ان کا خصوصی ذکر کیا اور جب بھی دعوت کا ذکر کیا تو بھی ان کا ذکر کیا گیا۔اگرچہ بلاشبہ نوجوانوں کا طبقہ ایسا ہے کہ ان کے بارے میں خصوصی عنایت کرنے سے مستغنی نہیں ہوا جاسکتا لیکن اس کے باوجود یہ لائق نہیں کہ ہم اسلام کو محض انہی میں محصور کرکے رکھ دیں، بلکہ ہمیں کہنا چاہیے کہ تمام مسلمانوں کے لئے عموماً کیا نصیحت ہے۔ کیونکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت خود اپنے بڑوں کے تابع ہوتی ہے ۔ وہ خود سے کوئی پیش قدمی نہيں کرتے بلکہ یہ وہ اہل ذہانت، اہل تجربہ اور اہل علم وفضل ہوتے ہیں کہ جن کی وہ پیروی کررہے ہوتے ہیں[2]۔ اسی لئے اللہ تعالی نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو اس وقت بھیجا جب وہ اپنی عمر کی قوت وپختگی کو پہنچے۔ اللہ تعالی کا موسی علیہ السلام کے متعلق فرمان ہے کہ:
﴿وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَى آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ﴾ (القصص: 14)
(اورجب موسی علیہ السلام اپنی عمر کی پختگی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہوگئے ہم نے انہیں حکمت وعلم عطاء فرمایا، نیکی کرنے والوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں)
اور اس پختہ عمر کی کچھ تشریح اس آیت میں فرمائی:
﴿حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ﴾ (الاحقاف: 15)
(یہاں تک کہ جب وہ پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤں جو تونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو راضی ہوجائے)
صرف یوسف علیہ السلام کے بارے میں "بَلَغَ أَشُدَّهُ" (اپنے جوانی کو پہنچے) بغیر "اسْتَوَى" (بھرپور پختگی) کے فرمایا:
﴿وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ﴾ (یوسف: 22)
(جب یوسف علیہ السلام اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے انہیں قوت فیصلہ اور علم دیا، ہم نیکوکاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں)
یہاں "اسْتَوَى" نہیں فرمایا (جیسا کہ موسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا تھا) یہ اس خاص آزمائش کی وجہ سے تھا کہ جس آزمائش میں آپ علیہ السلام مبتلا کئے گئے تھے۔ یعنی وہ عمر کی پختگی میں پہنچنے سے پہلے ہی اپنی قوت کو پہنچے کہ اللہ تعالی نے انہیں اس وقت ہی قوت فیصلہ وعلم عطاء فرمادیا تھا۔ کیونکہ ان کی آزمائش ہر انسان میں پائی جانے والی عورتوں کی فطری شہوت کی نسبت سے کی گئی تھی ، اور یہ وہ شہوت ہے کہ جس میں دیگر لوگوں کے مقابلے میں ایک نوجوان زیادہ مائل ہوتا ہے اور فتنے میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ پس اللہ تعالی نے اس رسول کریم علیہ السلام کی عفت وپاکدامنی کو ظاہر کرنا چاہا کہ ان کی آزمائش عین اس وقت عروج پر پہنچی جب اس عمر میں شہوت بھی عروج پر ہوتی ہے۔مگر اسکے باوجود آپ علیہ السلام نے کیا فرمایا:
﴿قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (23) وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ﴾ (یوسف: 23-24)
(یوسف نے کہا اللہ کی پناہ !وہ میرا رب ہے ، مجھے اس نے بہت اچھی طرح رکھا ہے، ظالم کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ اس عورت نے یوسف کی طرف قصد کیا اور یوسف بھی اس کاقصد کرتےاگر وہ اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتے، یونہی ہوا اس واسطے کہ ہم اس سے برائی اوربےحیائی دورکردیں، بے شک وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا)
یہ وہ فتنہ تھا کہ اللہ تعالی نے دوسروں سے ہٹ کر یوسف علیہ السلام کو آزمایا ۔ کیونکہ یہی ان کے نزدیک اس عمر میں سب سے زیادہ شدید وسخت تھا (۔۔کلام غیر مفہوم۔۔)۔
اگرچہ حالات کے پیش نظر لوگ نوجوانوں کا خصوصی ذکر کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہمیں پختہ عمر کے افراداور ان بزرگوں کو خارج ازذکر نہیں کرنا چاہیے جو کہ اہل حکمت ہیں۔ بلکہ یہ تو اس نصیحت کے اولین مخاطبین میں سے ہیں کیونکہ یہی لوگ نوجوانوں کی قیادت کررہے ہوتے ہیں جو کچھ الجزائر میں ہوا اس میں بھی اکثر اسی طبقے کے لوگ نوجوانوں کو ابھاررہے تھے[3]۔ان نوجوانوں کے سامنےاگر صحیح دعوت پیش کی بھی جائے پھر بھی وہ جذبات پر چلنے والے کچی عقل کے ہوتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘حُدَثَاءُ الْأَسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ ’’[4]
(کم عقل وکم سن) ان کے اسنان ( دانت) نئے نئے نکلے ہوں گے یعنی جوانی اور چھوٹی عمر کے ہوں گے[5]۔
اور ظاہر ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جوانی جنون (دیوانگی) کے حصوں میں ایک حصہ ہے۔اور یہ قول برحق ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ ایسے نوجوانوں کو پائیں گے کہ وہ جب خود کچھ دین پر چلنا شروع ہوجاتے ہیں اور استقامت اختیار کرتے ہیں تو بڑی عمر کے کبار علماء کرام پر بہتان طرازی شروع کردیتے ہیں کہ یہ جامد ہیں، دقیانوسی[6] ہیں جدت پسندی کے قائل نہیں، اور ان کی دعوت بہت بھاری ومشکل ہے ، اور ان کی پیروی کرنے سے دعوت مؤخر ہوتی ہے وغیرہ، ایسی باتیں عموماً یہ نوجوان ہی کرتے ہیں۔یہ اسی جوشیلے پن اور جنون کا شاخسانہ ہے کیونکہ یہ لوگ کبھی بھی اس کے ناقابل ستائش نتائج کی پرواہ نہیں کرتے۔
ثانیاً:
اس کے علاوہ نصیحت یہ ہے کہ بعض لوگ محض اپنی جماعتی ساتھیوں کو کہتے ہیں کہ فلاں بھائی یا فلاں بہن، اور یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ کیونکہ فلاں بھائی ہے یا بہن ہے تو اس کا معنی یہ ہوا جو اس کے علاوہ ہیں وہ دشمن ہیں، بایں صورت تو یہ بہت بڑی غلطی متصور ہوگی۔ یعنی یہ اصلی بھائیوں سے ہٹ کر ایک بھائی ہے تو اس کا کیا معنی ہوا؟ یہ تو اخوان المسلمین (اور دیگر دینی سیاسی وجہادی جماعتوں) کا طریقہ ہے ، کہ وہ دیگر جمعیتوں اور تنظیموں سے امتیاز کرنے کو اسے استعمال کرتے ہیں۔ یعنی پردہ دار لڑکی کو کہا جاتا ہے یہ بہن ہے اور جو پردہ دار نہیں تو بہن نہیں۔
یہ معاملہ تو اس طور پر بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کہ اس سے دیگر غیر جماعتی یا گنہگاروں کی تکفیر کا مفہوم تک نکل سکتا ہے [7] لیکن یہ لوگ اس کا شعور ہی نہیں رکھتے۔لہذا ایسا کہنا جائز نہیں کم از کم یہ کہہ سکتے ہیں کہ باپردہ لڑکی دوسروں سے بہتر ہے دین دار ہے، استقامت اختیار کی ہے وغیرہ۔ اللہ تعالی تو فرماتے ہیں کہ ہم مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ جو کوئی بھی شہادتین کا اقرار کرے اور اسلام میں داخل ہوجائے تو وہ آپ کا بھائی ہے۔ البتہ ظاہر ہے کہ یہ اخوت نیک یا بد ہونے کی وجہ سے متابین (کم وزیادہ) ہوگی۔ لہذا اگر آپ محض بطور مثال ایسا کہتے ہیں تو اس میں ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں۔
اسامہ بن لادن کا تعارف
اب ہم اصل سوال کی جانب آتے ہیں:
اسامہ بن لادن علمی لحاظ سے بالکل متعارف نہیں، نہ کبھی کسی نے کہا کہ وہ عالم ہے بلکہ طالبعلم تک ہونے کا نہیں کہا جاسکتا۔ وہ ایک خون خرابہ کرنے والا اور انقلابی ذہنیت رکھنے والا شخص ہے۔ اس شخص کے سبب بہت سا خون نہ صرف افغانستان میں بلکہ پورے عالم میں بہا۔اور بے شک یہ سب اس شخص کے سر پر ایک بار ہے جسے وہ بروزقیامت اٹھانے والا ہے۔ اللہ تعالی نے اس شخص کو دولت جیسی نعمت سے نوازا تو بجائے اس کے کہ وہ اسے اللہ تعالی کے دین میں لوگوں کو داخل کرنے کے لئے استعمال کرتا اس نے اس کے برعکس اسے اللہ تعالی کے دین سے روکنے میں استعمال کیا۔ اور یہ ایک ایسی حرکت ہے کہ جسے اللہ تعالی نے کافروں تک کہ حق میں پسند نہيں چہ جائیکہ کوئی مسلمان ایسا کرے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَسَيُنْفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ﴾ (الانفال: 36)
(کافر لوگ اپنا مال اللہ تعالی کی راہ سے روکنے میں خرچ کرتے ہیں، عنقریب وہ اسے خرچ کریں گے مگر وہ ان کے لئے حسرت کا باعث بنے گا، پھر وہ مغلوب کردئے جائیں گے، اور کافر لوگ جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے)
یہ ایک بہت بڑی مصیبت ہے کہ انسان اللہ تعالی کی نعمت کو جس کام کے لئے وہ نعمت پیدا کی گئی ہے یا جس سے اللہ تعالی راضی ہوتا ہے اس کے علاوہ کاموں میں استعمال کرے۔ کیونکہ وہ اس سے اسلحہ خریدتا تھا۔
افغانی جہاد کا حال[8]
خانہ جنگی وخونریزی
اور بعد اس کے کہ اللہ تعالی نے ان کے دشمن روسی کمیونسٹوں سےانہیں نجات بخشی ، پھر ان غیرمسلموں سے نجات پاکر یہ خود آپس میں لڑنے لگے۔ اس مدت میں مسلمانوں کے سات گروہ تھے جو خود ایک دوسرے ہی کو ذبح کرنے لگے۔ اگر کوئی مسلمان ان میں سے کسی گروہ کے کارکن کے ہاتھ لگ جاتا جو اس کے گروہ کے علاوہ کسی اور گروہ کی طرف انتساب رکھتا ہو تو وہ اس کا خون بہانے میں ذرہ بھی دریغ نہ کرتا۔ اللہ تعالی ہمیں عافیت میں رکھے۔ اور یہ بات درحقیقت اس جنگ کی ناکامی پر دلالت کرتی ہے جسے جہاد کا نام دیا جاتا تھا۔ کیونکہ اگر یہ واقعی جہاد ہوتا تو وہ اسے اس کے نتائج سے جان لیتے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی چیز کو اس کے ثمرونتیجہ سے تم پہچان سکتے ہو۔ اور کہاوت سے بھی بہتر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:خانہ جنگی وخونریزی
‘‘إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمِ’’[9]
(اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے)
سبحان اللہ! ان کے جہاد کا خاتمہ وانجام تو اپنے دشمن روس سے آزادی ملنے کے بعد مسلمانوں کے قتل اور خون خرابے کی صورت میں ہوا۔ یہاں تک کہ مجھے بعض بھائیوں نے بتایا کہ افغانستان کی عوام روس سے آزادی کے بعد اب یہ تمنا کرتی ہے کہ روس ہی لوٹ کر آجائے وہ اس سے بہتر ہے کہ ان خون خرابہ کرنے والوں کی حکومت کے زیرسایہ رہا جائے۔ اور وہ خون کیوں نہ بہائیں جبکہ وہ اسے دین سمجھ کرکرتے ہیں۔ اس طرح تو انہوں نے ایک حرام اور بدعت دونوں کو جمع کردیا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَق﴾ (الانعام: 151، الاسرا: 33)
(اور کسی جان کو قتل نہ کرنا جس کاقتل کرنا اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے الا یہ کہ شرعی طور پر اس کو قتل کرنے کا حق بنتا ہو)
پھر کس طرح سے اپنے مسلمان بھائی کا تم قتل کرتے ہو محض اس لئے کہ وہ تمہارے مقابل یا مخالف گروہ میں ہے۔
طلبِ حکومت کی لالچ
پھر اگرتمہارا جہاد محض اللہ تعالی کے لئے تھا تو مجاہدین کو چاہیے تھا کہ دوسروں سے ہٹ کر کم از کم وہ تو حکومت وکرسی کے طالب نہ ہوتے اور اسے چھوڑ دیتے یہ کہتے ہوئے کہ میں نے تو محض اللہ کی رضا اور اس کی راہ میں جہاد کیا تھا بس۔ یہ کیوں کہتے پھرتے ہیں کہ مجھے چاہیے مجھے چاہیے! چھوڑ دیں یہ سب، کہیں میں نے فی سبیل اللہ جہاد کیا تھا بس، اور کرسی وحکومت کے بھوکوں کے لئے یہ میدان چھوڑ دیں۔ لیکن نہیں، ہر گروہ کہہ رہا ہے میں حکومت کروں گا، سبحان اللہ!جبکہ ان شاء اللہ جو صحیح حزب اللہ (اللہ کی جماعت) تھے یعنی شیخ جمیل الرحمن[10]رحمۃ اللہ ان کی جماعت نے سب سے پہلے اس چیز کو چھوڑ دیا تھا ، جب انہوں نے دیکھا کہ محض ایک زمین کے قطعے کی خاطر یہ لوگ مکھیوں کی طرح اس پر بھنبھنا رہے ہیں، جبکہ انہیں خبر نہیں کہ ان باتوں کا انجام کار سوائے ندامت کے اور کچھ نہیں۔ یہ بہت سنگین معاملہ ہے ، سبحان اللہ! لیکن ان کی قلت حیاء وقلت مروت دیکھیں کہ حکومت وریاست کے بھوکے بنے پھر رہے ہیں، یہ تو قلت دینداری اور عدم خوف الہی کی دلیل ہے۔ اور انہی میں سے ایک اسامہ بن لادن بھی تھے اور ان کا (یا ان کے حامیوں کا)گروہ طالبان[11] بھی۔ طالبان کا عقیدہ ومنہج
اور طالبان کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ وہ دیوبندی صوفی قبرپرست لوگ ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بعض صوفی نہ بھی ہوں لیکن بنیاد ان معدودے چند افراد پر نہیں رکھی جاتی کیونکہ حکم شاذ ونادر افراد پر نہیں بلکہ جماعت کی غالب اکثریت پر ہوتا ہے، چناچہ ان کی غالب اکثریت ایسی ہی ہے۔ بتوں کا انہدام : توحید کی غیرت یا سیاسی ڈرامہ؟
اور ان بتوں[12] کے توڑنے کا معاملہ جو کہ درحقیقت ایک سیاسی ڈرامے کے سوا کچھ نہ تھا اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ مزار شریف تو اب تک موجودہے۔ جہاں لوگ دور دور سے مزار کی زیارت کا شرف حاصل کرنے آتے ہیں اور قبر میں مدفون ولی سے دعاء کرتے ہیں، فریاد کرتے ہيں، اور اس کی قبر کی اینٹوں اور قبے سے تبرک حاصل کرتے ہیں وغیرہ، یہ سب اب تک موجود ہے، اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد(۔۔الفاظ غیر مفہوم۔۔)۔ ان سب چیزوں کو تو انہوں نے منہدم نہیں کیا، کیا بھی تو ان کچھ قدیم بتوں کو جو بالکل بھولے بسرے ہوگئے تھے اور ان کی عبادت تک کرنے والے موجود نہ تھے۔ ایک طرف تو ان کو منہدم کرنا اور دوسری طرف ہم سے یہ امید لگائے بیٹھنا کہ ہم اس حکومت کی دنیا کے خلاف طرفداری کریں، سبحان اللہ!۔ یہ تو ایک برے اور سازشی طریقے سے لوگوں کی غیرت کو ابھارنا ہوا(یعنی ہائے دیکھو! ہم بت توڑ رہے ہیں اور دنیا کی مخالفتوں کے خلاف اہل توحید ہماری مدد نہیں کررہے وغیرہ!)۔اور سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام کام تو مسلمان حکومت اور حکمرانوں کی اولین ذمہ داری ہوتا ہے (جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے اول روز ہی بتوں کو توڑ ڈالا تھا)[13]، پھر کس طرح آزادی کے دس یا نامعلوم کتنےبرس بعد آج طالبان حکومت کو یاد آرہا ہے کہ بتوں کو بھی توڑنا تھا! یعنی کیا یہ حکومت اتنے برس توحید کی اساس وبنیاد کے بغیر ہی چل رہی تھی! (اور پھر بھی اسلامی حکومت کا دعوی!)۔
کیا یہ جہاد اللہ کی توحید کے لئے تھا؟
توحید پرستوں سے سلوک
توحید پرستوں سے سلوک
میں ان مشائخ کو جانتا ہوں جو اس دوران افغانستان گئے تھے جب وہ توحید سے متعلق بات کرتے تھے تو ابوزید کے افغانی مجاہدین ان پر بندوقیں تان لیتے تھے، سبحان اللہ!
﴿أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّه﴾ (المؤمن: 28)
(کیا تم ایک شخص کو محض یہ کہنے پر قتل کرتے ہو کہ میرا رب (اور معبود) اللہ تعالی ہے!)
یعنی صرف اس وجہ سے کے وہ توحید پر بات کرتے ہیں! اس کے باوجود ان نام نہاد مجاہدین، تحریکیں برپا کرنے والے انقلابی لوگوں کا میڈیا ایسوں کے چہرے منور کرکے دکھاتا رہتا ہے۔توحید پرستی اور شرک کا خاتمہ تو ایک نعمت ہے پر وہ اس تحدیثِ نعمت (نعمت کے ذکر) کو کیوں چھپاتے ہیں، یا اگر ان کے دعوی کے مطابق وہ توحید پرست ہیں تو اس نعمت کو بیان کریں مگر کیا کریں حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کیوں نہیں لوگوں کو جہاد کا حقیقی اسلامی فقہ بیان کرتے ہیں جبکہ وہ اس جہاد ہی کی تو دعوت دیتے ہیں۔ یعنی حقیقی اسلامی جہاد کا فقہ کیا ہے؟ ظاہر ہے جو دین کی حقیقت ہے وہی حقیقی جہاد کا بھی فقہ ہے اور وہ کیا ہے؟ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوت﴾ (النحل: 36)
(تحقیق ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت [14]کی عبادت سے بچو)
اگر کوئی شیخ ان کے ملک سےآئے اور وہ عالم ہو حالانکہ ان کے ملک جہالت سے اٹے پڑے ہیں پھر وہ عالم وہی بات کرے جس بہترین بات کا اللہ تعالی نے اپنے انبیاء ومرسلین علیہم السلام کو حکم فرمایا ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾ (الانبیاء: 25)
(ہم نے آپ سے پہلے بھی جس رسول کو بھیجا اس کی طرف یہی وحی فرمائی کہ بے شک میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں پس تم میری ہی عبادت کرو)
توالٹا ان کا جہاد ایسے علماءِ توحید کے خلاف شروع ہوجاتا ہے، یہ مسلح لوگ کہتے ہیں کہ یا تو ان کو قتل کرو ورنہ ہم تمہیں بھی قتل کردیں گے۔ سبحان اللہ! یہ کونسا جہاد ہے؟۔ پھر اس کا یہ نتیجہ نہ ہو تو اور کیا ہو۔
توحید کی نشرواشاعت
آپ خود ہی سوچیں کس چیز نے طالبان کو روک رکھا تھا کہ وہ پہلے ہی دن سے اس بات کا اعلان کردیتے کہ ہماری دعوت واضح سلفی سنی دعوت ہے۔ ہر چیز واضح طور پر بیان کرتے۔ پہلے ہی دن سے توحیدِ خالص کو واضح طور پر بیان کرتے، یہ کیا کہ اتنے برسوں بعد ایسے بتوں کو منہدم کیا جن کا ذکر تک لوگ بھول چکے تھے، سبحان اللہ!۔(الفاظ غیرواضح۔۔۔)۔ اپنی دعوت کو واضح بیان کرو، آخر کس چیز نے تمہاری زبانوں پر تالے لگا دئے ہیں؟ بیان کرو تمہارے پاس تو پورا ملک ہے اپنا آزاد میڈیا ہے پھر کیوں توحید بیان نہیں ہورہی؟۔ اس سے بھی عجیب بات کہ اگر تم کہو کہ وسائل کی کمی ہے[15] تو تمہارا ساتھی اسامہ بن لادن جتنے درہم ودینار درکار ہوں سے تمہاری مدد کرے گا، جس کے ذریعہ سے تم پورے عالم میں اپنی دعوت (اگر واقعی توحید کی دعوت ہے) نشر کرسکتے تھے، پھر کیوں اپنی دعوت کو واضح نہیں کرتے؟۔ ہاں، اسامہ کے معاونت نہ کرنے کی وجہ اس کا صوفی خاندان بھی ہوسکتا ہے، اور یہ بات بالکل معروف ہے!(کہ وہ ایک صوفی خاندان سے تعلق رکھتا ہے)۔ اہل بدعت کی پہچان
اللہ کی قسم مگر یہ سب باتیں آپ کو اس سرزمین میں جہاد کی غرض سے جانے سے نہیں روکتیں؟!، سبحان اللہ!۔ جو کوئی بھی خونی وانقلابی علمبردار ہوتا ہے تو تم اس کے ساتھ لگ جاتے ہو اور اس کی پشت پناہی شروع کردیتے ہو، حالانکہ تم اس کی حقیقت کو جانتے بھی نہیں۔میں نے تقریباً چار سال پہلےاس کا ایک مقالہ ایک یمنی میگزین "المحرر" میں پڑھا ، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے یہود کی اتنی خدمت کی ہے کہ جتنا خود یہود اپنی نہیں کرسکے، یہ اسامہ بن لادن کا کلام ہے۔ سبحان اللہ! یعنی جو اہل سنت نہیں بلکہ آئمہ اہل سنت جیسے شیخ ابن باز رحمہ اللہ پر اس طرح طعن درازی کرے کیا وہ اہل سنت میں سے ہوسکتا ہے؟! جیسا کہ سلف کہا کرتے تھے کہ:
‘‘سَمُّوا لَنَا رِجَالَكُمْ’’[16]
(ہمارے سامنے اپنے ساتھیوں یا پیشوا لوگوں کا نام تو لو)
یعنی وہ لوگوں کو جن علماء کی طرف وہ منسوب ہوتے تھے اس سے پہچان لیتے تھے۔ یا جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
(جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ حماد بن سلمہ رحمہ اللہ[17] پر طعن کررہا ہے تواس شخص کے دین پر قدغن لگاؤ)۔
یا فرمایا: (وہ شخص سچا نہیں ہوسکتا)۔
ایسا کیوں کہا کیونکہ وہ اپنے شہر کے امام پر طعن کررہا ہے اور ان کے بارے میں غلط کلام کررہا ہے۔ اسی طرح سے سلف لوگوں کا امتحان آئمہ سلف کے بارے میں پوچھ کر لیا کرتے تھے۔ کیونکہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (جو کوئی ہم سے اپنی بدعت کو چھپائے گا وہ ہم سے اپنی صحبت تو نہیں چھپا سکتا)۔ ان کے علاوہ سلف میں سے کسی نے فرمایا: (اہل اہوا (خواہش پرست/بدعتی) ہر چیز کو ہم سے چھپا سکتے ہیں (سوائے کس کے؟) سوائے اپنی دوستی کے)۔ سبحان اللہ! اہل بدعت ہر چیز کو مخفی رکھ سکتے ہیں سوائے اپنی دوستی ومیلان کے۔ وہ کیوں نہیں چھپا سکتے کیونکہ جب وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے تو لازماً اس کی صحبت اختیار کریں گے ۔ جب وہ اس کی صحبت میں رہتا ہے، وہیں اس کا آنا جانا ہے۔ اور اس کے برعکس اہل سنت پر اتہام لگانا، ان سے دوری اختیار کرنا یا پھر ان کے قریب رہتے ہوئے بھی ان پر طعن کرتے رہنا گویا کہ ان کے طعن درازی کے لئے دنیا میں سوائے اہل سنت کے اور کوئی رہ ہی نہیں گیا۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی ابن لادن کے بارے میں رائے
میں نے مجلہ "البحوث الاسلامیۃ" عدد 50[18]میں پڑھا جو یہاں سعودی سے شائع ہوتا ہے کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ اسامہ بن لادن، سعد الفقیہ اور محمد المسعری کے منہج پر تنقید فرماتے ہیں۔ یہ تینوں لوگ اہل سنت کے علماء سے استفادہ حاصل کریں اور اپنے برے منہج سے توبہ کرکے اللہ تعالی اور سنت کی جانب رجوع کریں۔ پھر مسلمانوں کو ان کی تحریر پڑھنے یا تقریر سننے سے منع فرماتے ہیں۔ اور آپ سب شیخ ابن باز رحمہ اللہ کو بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے اس قول کوآپ امام بخاری رحمہ اللہ کے اس قول کے مانند قرار دے سکتے ہیں کہ جب وہ کہتے ہیں کسی کے بارے میں "فیہ نظر" (اس کے بارے میں کچھ نظر ملاحظات ہیں) تو علماء اہلحدیث یعنی محدثین کہتے ہیں کہ جب امام بخاری رحمہ اللہ کسی کے بارے میں یہ کہہ دیں کہ "فیہ نظر" تو اس سے مکمل طور پر دستبردار ہوجاؤ کیونکہ وہ منکر الحدیث ہوتا ہے ناکہ صرف ضعیف۔ اسی طرح سے اگر ایک شخص جو ابن باز رحمہ اللہ جیسا ہو کہ جن کی عفتِ لسان معروف ومشہور ہو اور لوگوں کی غلطیاں تلاش کرنے کی ٹوہ میں نہیں لگے رہتے، اور اس وقت تک کسی کے بارے میں کلام نہیں فرماتے جب تک مکمل تحقیق نہ کرلیں، ساتھ ہی ساتھ اسی بات کے بارے میں بولتے یا تنبیہ فرماتے ہیں جس کے پس پردہ بہت ہی خطرناک باتیں پوشیدہ ہوں۔اسامہ وطالبان بدعتی وظالم لوگ ہیں
ہم ان سے کہتے ہیں کہ طالبان بلاشبہ ظالم لوگ ہیں۔ اسی طرح سے اسامہ بن لادن ظالم شخص ہے اور بدعتی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ‘‘لَعَنَ اللَّهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا’’[19]
(جس کسی نے کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے)[20]
پھر بدعتی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ خون خرابہ کرنے والا شخص بھی ہے یعنی وہ مسلمانوں کے خون بہانے میں شریک ہے۔پس اللہ تعالی نے بھی ان پر ان سے بھی بدتر یعنی امریکہ کو مسلط کردیا قطع نظر اس کے کہ وہ پہلے اسی امریکہ سے مدد لیا کرتے تھے اور ہمیں اس بارے میں پورا یقین وجزم ہے(یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے)۔اور عنقریب واقعات وحالات بھی اسے ظاہر کرہی دیں گےکیونکہ ہم تو صرف اسی کے بارے میں کچھ کہہ سکتے ہیں جوکچھ ہمارے سامنے ہے (الفاظ غیر مفہوم۔۔۔)۔
کیا ایک شخص کی وجہ سے تمام مسلمانوں کی جان خطرے میں ڈالنا دینی غیرت وحمیت ہے؟
پھر کچھ اہل علم کہتے ہیں یا ان سے نقل کیا جاتا ہے کہ آخر کیوں طالبان ایک پورے ملک کے عوام کو بچاتے ہوئے اس ایک شخص کو حوالے نہیں کررہے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر اس شخص میں واقعی کوئی دینی غیرت اور مسلمانوں کی خاطر غیرت ہوتی تو کس طرح سے وہ ایک معاشرے کی پہلے ترتیب کرتا ہے یعنی اس نے جو افغانی عوام کو ترتیب دی جس کے ذریعے سے انہوں نے اپنے ملک سےکمیوسٹوں کو ماربھگایا(الفاظ غیرمفہوم۔۔۔) تو کیسے وہ ان کی ترتیب کرتا ہے پھر انہی کو مرنے کے لئے امریکہ کے آگے پیش کردیتا ہے۔او رآخر کس طرح سے ایک پورے معاشرےوعوام کو محض ایک شخص کی قیمت پر ذبح کروایا جاسکتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اب ان باتوں کا وقت کہاں! اب تو امریکہ نے کچھ کہنے سننے کو باقی ہی نہیں چھوڑا ہے کہ ہم سوچیں، سوال کریں، دلائل دیں اور فرق بیان کریں کہ یہ جہاد دفاع ہے یہ طلب نہیں، امریکہ نے تو اسلام کے لئے کچھ کرسکنے کا موقع ہی نہیں چھوڑا ہے وہ تو بس انتہائی تیزی میں سب کچھ کرگزرنا چاہتا ہے۔اور آپ نوجوانوں کے جذبات تو جانتے ہی ہیں کہ وہ یہ کہتے ہیں یہ سوچنے کا وقت نہیں کہ مسلمان کہاں سے جہاد شروع کریں اور کہاں سے جہاز پرواز کریں اور کہاں سے اسلحہ آئے، ہمارے ملک وعوام کی تو یہ حالت ہے کہ لڑو یا مرو بس، اور واقعی اب کتنے ہزار مسلمان مررہے ہیں، سبحان اللہ۔ یہ کیسے مسلمان ہیں! کیوں یہ اب تک اپنی جماعتوں سے نہیں پوچھتے کہ جو نام نہاد مسلمانوں اور جہاد کے لئے غیرت کااظہار کرتے رہتے ہیں کہ اب تک ان کے بڑے بڑے اس ایک شخص کے نہ دینے کے امتحان میں مرے جارہے ہیں (الفاظ غیر مفہوم۔۔۔) لیکن اب تک وہ اس ایک شخص کو دینے کو تیار نہیں۔