ناصر البانی موقف
السلام علیکم
دھاگہ کا عنوان "جہادِ افغانستان" اس پر جو ذاتی تجزیہ یا اوقاف کی جانب سے پیش کیا گیا تجزیہ میں اس پر اتفاق نہیں کرتا۔
سعودی عرب ہو یا گلف کا کوئی اور عرب ملک، جمعہ کا خطبہ ہر مسجد کے لئے محکمہ اوقاف سے جاری ہوتا ھے۔
شیخ رشید کی ایک سٹیٹمنٹ کے مطابق سعودی عرب سے جو بھی افغان جہاد کے لئے وہاں سے آیا اس کا واپس لوٹنا ناممکن تھا [SUP](شائد کہ حکومت کی جانب سے کوئی شرط و کنڈیشن ہو)[/SUP] اس لئے اس کے بعد سعودی نیشنل جو غازی ٹھہرائے وہ یہیں رک گئے یا دوسرے ممالک چلے گئے۔
جہاد پر ایک تجزیہ علامہ ناصر البانی سے بھی ھے جو کسی حد تک سمجھ میں بھی آتا ھے اس کا بھی مطالعہ کریں ۔۔۔۔۔۔
جہاد اور ناصر الدین البانی
ایک اور بحث ''مناظرہ ماتنہیم الجہاد الاسلامی'' جو کہ علامہ ناصر الدین البانی کی ایک تقریر ہے ، سے لی گئی ہے۔
اسلامک جہاد آرگنائیزیشن کے ایک حامی
اور
علامہ ناصر الدین البانی
کے درمیان جہاد کے موضوع پر ہونے والے ایک مکا لمے کی یہ روداد ہے۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ہمیں اس میں کوئی شک نہ ہے کہ آپ اس صدی کے چند علماء میں سے ہیں جو کہ سلف کے منہج (طریقہء کار ) کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ جہاد کے مسئلے پر سلف الصالحین کے مسلک کی پیروی کرنے والوں کے درمیان اختلاف ہے۔ جہاد کے لئے ہم لوگوں کو دو شرائط کے تحت دعوت دے رہے ہیں۔
1) یہ جہاد خالصتاً اللہ کی رضا کے لئے ہونا چاہیے
2) یہ جہاد اسلام کے جھنڈے کے تحت ہونا چاہیے۔
البتہ ہم دیندار مسلمانوں سے دوسری شرائط کا بھی سنتے جو وہ آپ سے منسوب کرتے ہیں لیکن ان شرائط کو ہم نے احادیث میں نہیں پایا ہے۔ جیسا کہ تصفیہ اور تربیۃ اور خلیفہ یا اسلامی ریاست۔
یہ وہ شرائط ہیں جو کہ ہم سلف کے منہج کی پیروی کرنے والوں سے سنتے ہیں اور میں بھی اسی مسلک کی پیروی کرنے والوں میں سے ہوں ان شاء اللہ۔
میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ آیا ان شرائط کا حوالہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ملتا ہے یا یہ محض موجودہ صورتحال کے متعلق ایک اجتہاد ہیں ؟
اور ان سب سے پہلے (میر ا ایک اور سوال یہ ہے ) کہ کیا واقعی میں آپ (جہاد کے لئے دعوت دینے سے پہلے) ان شرائط کے پورا کرنے کو کہتے ہیں۔؟؟
علامہ ناصر الدین البانی
سب سے پہلے تو ہم آپ سے اس معاملے پر بحث کے لئے راضی ہوئے ہیں تا کہ آپ کی دعوت کے بارے میں پتہ چل سکے۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
میں آپ کو اس بارے میں بتا چکا ہوں۔
علامہ ناصر الدین البانی
تو پھر آپ اپنی دعوت کے بارے میں وضاحت کریں کیونکہ آپ کے سوالات ابھی غیر واضح ہیں میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کی دعوت کس لئے ہے؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
میر ی دعوت واضح ہے کہ ان شرائط کے تحت جہا د کیا جائے جن کا میں پہلے ذکرکر چکا ہوں : (جہاد صرف اللہ کے لئے کرنے کی نیت)
کیونکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ''جس نے اللہ کے ذکر کو بلند کرنے کے لئے جہاد کیا''
او ر جہاد ایک اسلامی جھنڈے کے تحت ہونا چاہیے (یہی ہمارے نزدیک درست جہاد ہے)
اور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ : جو عصبیت ('' ایک گروہ کی حمایت کرتے ہوئے دوسرے سے لڑنا'' ) کی لڑائی لڑتے ہوئے مرا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
علامہ ناصر الدین البانی
کیا ہمیں جہاد کے لئے امیر کی ضرورت ہے۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
نہیں
علامہ ناصر الدین البانی
تو اس کا مطلب ہے کہ ہم جہاد بڑے غیر منظم طریقے سے کریں گے؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن
علامہ ناصر الدین البانی
اس کے علاوہ آپ کی جو پہلی شرط جو کہ نیت کے بارے میں ہے تو وہ تو ہر عبادت پر لاگو ہوتی ہے اور اس کے بارے میں ہم متفق ہیں۔
آپ کی دوسری شرط جو کہ اسلامی جھنڈے کے تحت جہاد کرنا ہے تو (مجھے بتاؤ) کہ ہمارے پاس اسلامی علم کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اس جھنڈے کا کوئی امیر ہی نہ ہو۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ہم جہاد ایسے کر سکتے ہیں کہ ایک مسلما ن کسی کافر رہنما کے پاس جاتا ہے اور اسے ماردیتا ہے۔
علامہ ناصر الدین البانی
لیکن ہم تو ایک گروہ کے جہاد کی بات کر رہے ہیں۔
اسلامی شریعت کی رو سے آیا یہ فردِ واحد کا جہاد ہے یا ایک گروہ کا جہاد ہے؟
اس کے علاوہ جب مسلمانوں کا ایک گروہ جہاد کے لئے نکلتا ہے تو کیا انہیں جہاد کے لئے ایک امیر کی ضرورت نہیں ہوتی؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
یقیناً یقیناً کیوں نہیں۔ مسلمانوں کا ایک گروہ جو سفر کرتا ہے یا جہاد کے لئے نکلتا ہے اسے امیر کی ضرورت ہوتی ہے نیز اگر مسلمانوں کا گروہ تین سے زیاد ہ ہو تب بھی انہیں امیر کی ضرورت ہوتی ہے۔
علامہ ناصر الدین البانی
تو پھر آپ اسے (یعنی امیرکو) ایک (جہاد کرنے سے پہلے کی شرطوں میں سے) ایک شرط کے طور پر کیوں ذکر نہیں کرتے۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ٹھیک ہے ہم اسے ایک شرط کے طور پر مان لیتے ہیں۔
علامہ ناصر الدین البانی
کیا فرضِ عین جہاد کے فرض کو ادا کرنے کے لئے ( فرضِ عین وہ جہاد ہوتا ہے جو کہ تمام مسلمانوں پر واجب ہوتا ہے) ہمیں ایک جماعت کی ضرورت نہیں یا اسے اکیلے اکیلے افراد ادا کرسکتے ہیں۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
دونوں صورتوں میں
علامہ ناصر الدین البانی
یہ کوئی جواب نہیں ہے۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ایسا کیوں ہے۔
علامہ ناصر الدین البانی
ہم کہتے ہیں کہ جہاد دو قسم کا ہوتا ہے فرضِ کفایہ اور فرضِ عین۔ فرضِ کفایہ وہ جہاد ہوتا ہے جسے مسلمانوں کا ایک گروہ کر لے تو باقی مسلمانوں سے اس کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ اس قسم کے جہاد کو اکیلے افراد انجام دے سکتے ہیں۔ فرضِ عین وہ جہاد ہوتا ہے جو کہ کسی خطے کہ تما م مسلمانوں پر واجب ہوتا ہے؟ کیا اسے کرنے کے لئے ہمیں ایک امیر کی ضرورت نہیں ہے؟؟؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
جی ہاں! اس قسم کے جہاد کو کرنے کے لئے ہمیں ایک امیر کی ضرورت ہو چاہے یہ لڑے یا نہ لڑے۔
علامہ ناصر الدین البانی
بہت خوب، بہت خوب! تو ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ امیر کا مطلب ہے مسلمانوں کا خلیفہ
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
نہیں خلیفہ نہیں
علامہ ناصر الدین البانی
کیوں؟ کیا خلیفہ کہنا خطرناک ہے؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
جی با لضرور کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ '' ہم درخت کا بیج بونے سے پہلے اس کا پھل لینا چاہتے ہیں''
علامہ ناصر الدین البانی
یہی ہے جو میں آپ کو کرتے دیکھتا ہوں کہ آپ مسلمانوں کے تمام گروہ کے لئے ایک امیر چاہتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ خلیفہ نہ ہو۔ کیا یہی آپ کا مطمعِ نظر ہے۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
جی ہاں
علامہ ناصر الدین البانی
پھر وہ امیر کہاں ہے؟ اور وہ امیر کون ہے؟ اور کیا ہمارے ایک سے زیاد ہ امیر ہو سکتے ہیںِ ؟ اس سے پہلے اہم اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ ہمیں ایک امیر کی ضرورت ہے۔
نیز آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ جہاد کے لئے ایک امیر کی ضرورت ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ خلیفہ نہ ہو۔ ہمیں پہلے کیا ملتا ہے ، امیر یا جہاد؟
یہ پوچھنا ایسا ہی ہے کہ '' آیا ہم آذان سے پہلے نماز پڑھتے ہیں یا بعد میں'' کون سی چیز پہلے آتی ہے؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ٹھیک ہے ہمیں اس فرضِ عین جہاد کو شروع کرنے سے پہلے ایک امیر کی ضرورت ہے۔
علامہ ناصر الدین البانی
بہت خوب! تو پہلے ہمیں امیر کی دعوت دینا چاہیے یا جہاد کی؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
جی ، دونوں بیک وقت
علامہ ناصر الدین البانی
لاحول ولا قوۃ الا باللہ ! (کوئی بڑائی کوئی طاقت نہیں ماسوائے اللہ کے)۔
ہم پہلے ہی اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ ہمیں اس فرضِ عین جہاد کے لئے ایک امیر کی ضرورت ہے قبل اس کے کہ ہم جہاد شروع کریں ۔ اگلا سوال یہ ہے کہ کیا ہم پہلے امیر کی دعوت دیں یا پہلے جہاد کی دعوت؟
گروہ ، بلکہ تمام گروہوں کے لئے ایک امیر کی ضرورت ہے ۔ اس (فرضِ عین) جہاد کو کرنے کے لئے ہمیں ایک امیر کے لئے دعوت دینے کی ضرورت ہے. ( جب امیر منتخب ہو جائے گا) اس کے بعد امیر ، جہاد کے لئے مجاہدین کو ادھر یا ادھر بھیجے گا۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
اچھا ! فرض کیا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ قرآن پاک میں جہاد کے بارے میں پڑھتا ہے اور جہاد کرنا چاہتا ہے اور وہ لوگ جہاد کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اپنے اوپر ایک امیر مقرر کرلیتے ہیں (تو اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے)
علامہ ناصر الدین البانی
اے میرے بھائی! آپ جو صورتحال بیان کر رہے ہو یہ فرضِ کفایہ جہاد کی ہے۔ فرضِ کفایہ کی حد تک تو یہ بات صحیح ہے کہ مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا گروہ اکٹھا ہو جائے اور جہا د کے لئے چلا جائے۔
(اس صورتحال میں) ہمارے پاس تمام مسلمان کیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں جب کہ ان کا کوئی متفقہ لیڈر (امام ) ہی نہ ہو۔ میں آپ میں سے کسی بھی گروہ کو اس طرف دعوت دیتے ہوئے نہیں دیکھ رہا۔ آپ امیر کے لئے دعوت کیوں نہیں دیتے؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ٹھیک ہے ہم اس امیر کے لئے دعوت دیتے ہیں۔
علامہ ناصر الدین البانی
ٹھیک ہے تو آپ کی نظر میں اس امیر کی کیا خصوصیات ہے؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
(جی ہاں!) چند خوبیاں (ہیں)۔
علامہ ناصر الدین البانی
اور کیا آپ کو ایسا امیر نظر آتا ہے جس میں یہ خوبیا ں موجود ہوں۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
جی ہاں ! بہت !!
علامہ ناصر الدین البانی
کہاں؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ہر جگہ۔
علامہ ناصر الدین البانی
ہم کہتے ہیں کہ ہمیں تما م گروہ کے لئے ایک امیر کی ضرورت ہے یعنی کہ تما م مسلمانوں کے لئے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمانوں کا ایک سے زیادہ امیر ہو؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
سوال سنسر ھے
علامہ ناصر الدین البانی
کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت حذيفة بن اليمان رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث
فإن لم يكن لهم جماعة ولا إمام؟
(اگر تمہاری کوئی جماعت اور کوئی اما م نہ ہو)۔
[SUP]صحيح بخاری ، كتاب الفتن ، باب : كيف الامر اذا لم تكن جماعة ، حدیث : 7173[/SUP]
(کیا تم جانتے ہو) کہ یہ حدیث اس بارے میں کیا کہتی ہے کیا یہ نہیں کہتی ہے کہ جہاد کے لئے خلیفہ کی ضرورت ہے ۔ یا اس کا مطلب کچھ اور ہے؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
اس حدیث کا ہماری گفتگو سے کیا تعلق ہے
علامہ ناصر الدین البانی
کیا حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں پوچھا تھا کہ : ہم اس صورت میں کیا کریں جب جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے موجود ہوں؟ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ : '' تمہیں جماعت کے ساتھ مظبوطی سے جڑ جانا چاہیے"۔
کیا آج ایسے لوگ موجود نہیں جو کہ مسلمانی کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ درحقیقت وہ جہنم کے دروازوں کی طرف بلارہے ہیں۔ کیا خلیفہ کی کمی نہیں ہے؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
میں پسند کرتا ہوں کہ اس کی بجائے دوسری احادیث کے بارے میں گفتگو کروں (جیسا کہ) '' میری امت کا ایک گروہ ایسا ہوگا جو کہ حق کے لئے ہمیشہ لڑتا رہے گا، وہ اس بات کی پرواہ نہیں کریں گے کہ کون ان سے اختلاف کرتا ہے اور کون ان کو چھوڑ دیتا ہے؟"
علامہ ناصر الدین البانی
اس کا ہماری گفتگو سے کیا تعلق ہے جبکہ ہم پہلے ہی اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ جہاد کے لئے دعوت دینا ضروری ہے۔
ہم اس بات پر متفق ہیں کہ جہاد آج ایک فرضِ عین ہے۔
ہمارے درمیان جو فرق ہے وہ اس بات کا ہے کہ ہمیں پہلے خلیفہ کی ضرورت ہے یا نہیں؟
آپ نے جو حوالہ دیا ہے وہ ہماری گفتگو سے کوئی تعلق نہیں رکھتا کیونکہ ہم دونوں ہی اس بات پر متفق ہیں کہ جہاد فرض ہے۔
کیا آپ میری بات سمجھ رہے ہیں؟ ہمارے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ ہمیں جہاد کے لئے ایک خلیفہ کی ضرورت ہے جو کہ جہاد کے لئے دعوت دے۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ٹھیک ہے
علامہ ناصر الدین البانی
ملاحظہ کریں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ کو مسلمانوں کے امام اور ان کے بنیادی گروہ (جماعت) کے ساتھ جڑے رہنے کا حکم دیا تھا اور اس حدیث میں جو باتیں بتائی گئی تھیں کیا وہ سچ نہیں ہیں؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
سچ ہیں۔
علامہ ناصر الدین البانی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ اگر مسلمانوں کا امام یا جماعت نہ ہو تو وہ تمام جماعتوں کو چھوڑ دیں۔ اب ایسی صورتحال میں آپ کیا کریں گے؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ہم مسلمانوں کا گروہ ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے اور بعد میں ان کے لئے امام
علامہ ناصر الدین البانی
یہی ہے جس کی طرف ہم دعوت دے رہے ہیں۔ جہاد فرض ہے مگر ابھی اس کا وقت نہیں ہے۔ ہمیں پہلے امام کی ضرورت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروہ کے ساتھ جڑے رہنے کا حکم دیا ہے۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ہمیں یہ کیسے معلوم ہو کہ ہم تب تک جہاد نہیں کر سکتے جب تک ہم خلیفہ کا حصول نہ کرلیں جو کہ لازم ہے۔
علامہ ناصر الدین البانی
حدیث کی رو سے اگر مسلمانوں کا کوئی امام نہ ہو تو تما م گروہوں کو چھوڑ دیا جائے۔ اور میں پہلے ہی یہ کہ چکا ہوں کہ ، مسلمانوں کی جماعت ایک امیر(امام) کے تحت یہ فرضِ عین جہاد کرے گی۔ اگر کوئی امام نہ ہوگا تو مسلمان تمام گروہوں سے پرے رہیں گے۔
تو مسلمان متحد ہو کر جہاد کیسے کر سکتے ہیں جبکہ (بیک وقت) وہ تما م گروہوں سے علیحدہ ہوجاتے ہیں؟
آپ اسی بات سے اختلاف کر رہے ہیں جس پر آپ پہلے رضامند ہو چکے تھے۔ اسلام کی رو سے ہمارا صرف ایک ہی جھنڈا، ایک گروہ اور ایک امیر ہے۔ ہمیں اس ایک گروہ کی ضرورت ہے تا کہ ہم جہاد شروع کر سکیں۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
سوال سینسر ھے
علامہ ناصر الدین البانی
اب میں آپ پر یہ بات واضح کروں گا کہ فرضِ عین جہاد کا امیر صرف امیر ہی نہیں بلکہ اسکا خلیفہ ہونا بھی ضروری ہے۔
(میری) دلیل ایک بار پھر حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث ہی ہے۔
(حدیث سے استدلال کی صورت میں) بعض دفعہ دلیل قطعی ہوتی ہے اور بعض دفعہ غیر واضح۔
ہم ایک مثال لیتے ہیں کہ ایک شیخ (عالم) اپنے شاگرد کو اس حدیث کی بنا پر نصحیحت کرتا ہے۔ شاگرد اپنے شیخ سے پوچھتا ہے کہ برائی سے اجتناب کا کیا طریقہ ہے۔ شیخ کہتا ہے کہ مسلمانوں کے امام کے ساتھ جڑے رہو، شاگرد جواب دیتا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی خلیفہ نہیں ہے تو شیخ نصیحت کرتا ہے کہ تما م گروہوں سے دور رہو۔ شاگرد اپنے شیخ کا تابع فرمان ہے اور شیخ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار ہے۔ یہ شیخ کیا کرے گا کہ وہ ایک وادی میں نکل جائے گااور اپنی زندگی ایسے گزارے گا کہ غلہ بانی کرے گا یا اللہ کی عبادت کرے گا۔ تو جہاد کہا ں ہے؟ اگر جہاد کرنا مسلمانوں پر واجب ہوتا تو شیخ نے اسے جہاد کرنے کا کہا ہوتا اور تمام گروہوں سے دور رہنے کا کہا ہوتا۔ جب تک کوئی امام نہیں تب تک کوئی جہاد نہیں۔ جہاد بالضرور ایک امام کے تحت ہونا چاہیے، یا ایک خلیفہ کے۔
لیکن میں تمہیں ایک چیز بتاتا چلوں جو کہ طالب علموں کو بہت مشکل میں ڈال دیتی ہے کہ بہت سے گروہ جیسا کہ افغانستان یا شام میں ایک دہائی پہلے لڑ رہے تھے، اگر وہ لڑنا چاہتے ہیں تو انہیں ایک امام کے تحت ہونا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ شام کے لوگ افغانستان میں لڑیں اور افغانستا ن کے لوگ شام میں لڑیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں لڑنے والے گروہ ایک ہی امام کے تحت ہونا چاہئے۔ اگر کوئی امام یا جماعت نہ ہو گی تو دونوں گروہ اپنی صوابدید پر لڑ رہے ہوں گے۔
فرضِ عین جہاد کو کرنے کے لیے مسلمانوں کا متحد ہونا واجب ہے اور متحد ہونے کے لیے خلیفہ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اور اس چیز کو قائم کرنے کے لئے ہمیں تعلیم اور تزکیہ (تصفیہ اور تربیۃ) کی ضرورت ہے ہم ابھی سے جہاد شروع نہیں کر سکتے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ جہاد کے لئے بہت سے گروہ ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ گروہ آپس میں اختلاف میں ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
( سورة الانفال : 8 ، آیت : 46 )
''آپس میں جھگڑا نہ کرو ایسا کروگے تو بزدل ہو جاؤ گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو کہ ا ﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔''
ہم آج دریا کے بہتے ہوئے دھارے کی طرح ہیں اور آپ یہ چاہتے ہیں کہ ان (آپس میں اختلاف رکھنے والے گروہوں کو) شرعی حییثیت حاصل ہو جائے۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ٹھیک ہے اس تعلیم اور تزکیہ سے خلیفہ کیسے حاصل ہوگا۔
علامہ ناصر الدین البانی
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔
ہر شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے نمونۂ اتباع ہیں۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا پہلا حصہ دعوت دینے میں گزارااور اسے جہاد کے بغیر شروع کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو یہ اسلامی تعلیم دی کہ سچ بات کرنی ہے اور (سچ بات کرتے ہوئے) خوفزدہ نہیں ہونا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلامی تعلیمات بھی سکھائیں۔
ہم جانتے ہیں کہ اسلام آج اس حالت میں نہیں ہے جس حالت میں کہ نازل کیا گیا تھا :
'' آج میں نے تم پر تمہارا دین مکمل کردیا ''
بہت ساری چیزیں (بدعات) اسلام میں شامل کر دی گئی ہیں۔ کیا آپ اس سے متفق نہیں ہیں۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ہاں میں اس بات سے مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں مگر بہت سے قرآنی شواہد موجود ہیں جن کی رو سے جہاد (مسلمانوں پر) ایک اہم فریضہ ہے۔
علامہ ناصر الدین البانی
میں اس (حقیقت) کو جھٹلاتا نہیں ، مگر میرے بھائی ، سوال یہ ہے کہ اس جہاد کو (شروع) کرنے کے لئے ہمیں ایک امیر کی ضرورت ہے اور اس امیر کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں تصفیة اور تربیة کی ضرورت ہے۔ اپنے طور پر سوچو، حذیفہ بن یمان کی حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے ، ہمیں پہلے جہاد کی ضرورت ہے یا پہلے امیر کی؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
کیا (آپ سے) پہلے بھی کسی نے جہاد سے پہلے تصفیة اور تربیة کی دعوت دی ہے؟
علامہ ناصر الدین البانی
اللہ تم پر رحم کرے ۔ مجھے یہ بتاؤ کہ مسلمانوں کا ایک مشترکہ خلیفہ کب نہ تھا؟
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اور حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
علامہ ناصر الدین البانی
تمہارا مطلب یہ ہے کہ تمہیں اس میں شک ہے کہ علی (رضی اللہ عنہ) صحیح تھے اور معاویہ (رضی اللہ عنہ) غلطی پر تھے۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی:
نہیں مگر
علامہ ناصر الدین البانی
نہیں مگر ؟؟ اُس وقت کتنے خلیفہ تھے ؟
[ کچھ دیر بحث کے بعد]
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ٹھیک ہے ٹھیک ہے ، (اُس وقت) ایک (خلیفہ تھا) !!
ایک سامع:
میر ے محترم شیخ ! حقیقتاً اس گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں ، اگر کوئی اپنی نیت اور ذہن کو صاف نہیں کرتا تو وہ کبھی سمجھ نہیں پائے گا۔
علامہ ناصر الدین البانی
یقینا یہ ایک اچھی تجویز ہے۔
ہم آج ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں کہ تقدیر کا لکھا غالب آچکا ہے اور ہر شخص اپنی رائے (پر ڈٹے رہنے) کو پسند کرتا ہے۔ آج جو شخص تھوڑا سا قرآن یا کچھ احکام پڑھ لیتا ہے وہ یہ سوچتا ہے کہ اسے علم میں کچھ مقام حاصل ہے۔ حالانکہ حقیقت میں وہ احادیث کو بغیر غلطی کئے پڑھ نہیں سکتا ہے اور (ساتھ ہی ساتھ) وہ ہر معاملے پربحث بھی کرنا چاہتا ہے۔
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
[گفتگو میں مداخلت کرنے کی کوشش]
====================================
====================================
علامہ ناصر الدین البانی
گفتگو کا وقت ختم ہوچکا ہے میں اس بھائی کی نصیحت پر عمل کروں گا۔
علم کے متلاشیوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ لوگوں کو ایسی نصیحت نہ کریں جو ان کے لئے بڑی گمراہی کا باعث بن جائے۔
یہ آج کل کے نوجوانوں کا المیہ ہے کہ وہ (کسی معاملے میں) سلف اور خلف کی رائے جانے بغیر (اس معاملے پر) اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں۔
میں مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جہاد سے متعلقہ گروہوں کے متعلق مکمل تحقیق کر لیں۔ جہاد کے متعلق اس بات میں (کسی کو) کوئی شک نہ ہونا چاہیے کہ جہاد اسلام کی آن بان ہے نیز جہاد اسلام کی بنیاد ہے اور جہاد کے متعلق آیات اور احادیث ہر (کس و ناکس) کو معلوم ہیں ان شاءاللہ۔
لیکن جہاد کی چند بنیادی شرائط ہیں۔
اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ جو گروہ جہاد کی طرف دعوت دے رہا ہو وہ قرآن اور سنت کے احکامات کی طرف لوٹنے پر رضامند بھی ہو۔
(اور اس شرط کو پورا کرنے کے لئے) تعلیم کے لئے بہت سا وقت درکار ہے، نیز عالموں اور مبلغین کا تزکیہ بھی درکا ر ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں رضوان اللہ عنہم اجمعین کو تعلیم دی۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مجاہد جہاد کے لئے دعوت دیتے ہیں مگر جب وہ جہاد کے لئے جاتے ہیں تو وہ عقائد اور اسلام کی بنیادی باتوں (کے علم) میں آپس میں اختلاف پاتے ہیں۔
یہ لوگ جہاد کرنے کے لئے کیسے جا سکتے ہیں جب کہ ابھی ان کے لئے یہ سمجھنا باقی ہے کہ عقیدے کی رو سے ان پر کیا لازم ہے۔
اس سے میرے بھائی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جہاد پر بحث کرنے سے پہلے ہمیں اس کی pre-requisites (بنیادی شرائط ) پر بحث کرنا ہے۔
پہلی بنیادی شرط تو یہ ہے کہ خلیفہ ہو اور اس کا ہم اللہ کے سامنے اقرار کرتے ہوں۔ کیونکہ آج اگر مسلمانوں کا امیر موجود ہو مگر (دوسری طرف) مسلمانوں کے درمیان وہ رشتہ (اسلام کی عام سمجھ بوجھ) موجود نہ ہو تو وہ ایک دوسرے کے خلاف ہو جائیں گے اور ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے۔ ان سب (مجاہدین) کا ایک ہی طریقۂ کار اور ایک ہی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے
(سلف الصالحین کا اسلام کی تعلیمات کو سمجھنے کا طریقہ)۔
اس لئے میں ہر مسلمان کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی (بیان کردہ) حدیث کی رو سے ہر گروہ سے علیحدہ ہو جائیں۔
یعنی stay by yourself ۔
اس کا مطلب الگ تھلگ رہنا (دنیا سے کٹ کر رہنا) ہر گز نہیں ہے
بلکہ ۔۔۔
اس کا مطلب کس بھی گروہ میں شمولیت اختیار نہ کرنا ہے!
آپ اپنے طور پر کوشش کر سکتے ہیں اور (دوسرے مسلمان اپنی طور پر) اپنے علم سے دوسرے مسلمانوں کو درست کر سکتے ہیں۔
یہ(مسلمانوں کے لئے) ایک یاد دہانی ہے اور یقیناً یاد دہانی ایمان والوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
صفحہ 4/4
ختم شد
[SUP](اردو ترجمہ سلفی و مراسلہ باذوق)[/SUP]