• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جہاد صرف اسلامک اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے --؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@سید طہ عارف بھائی! آپ کی دی ہوئی کتاب کے ذکر کردہ صفحات کا سرسری مطالعہ کیا ہے، وہاں یہ الفاظ بھی ہیں:
''ہماری نظر میں امت مسلمہ عہد نبوت سے لے کر موجودہ دور تک اس امر پر بھی متفق ومتحد ہے کہ جہاد کے لئے خلیفۃ المسلمین کا وجود شرط لازم نہیں اور خلافت کے عدم وجود سے دیگر اجتماعی اور شرعی واجبات جمعہ وعیدین کے اجتماعات، زکوٰة وصدقات کی ادائیگی، بیت اللہ کا حض وغیرہ (حدود وقصاص کے علاوہ) کی طرح فریضہ جہاد کا اجراء اور ادائیگی بھی ساقط نہ ہوگی۔۔۔
۔۔۔۔
۔۔۔۔
اہل اسلام دجال کو فتح کرنے تک متواتر جہاد میں مشغول رہیں گے (جبکہ خلافت صدیوں سے ناپید ہے)۔
۔۔۔۔''
لہٰذا یہ بحث تو خیر خلافت اور خلیفہ کے وجود کی شرط کے ہونے نہ ہونے سے متعلق ہے۔ جبکہ ہمارا مدعا معاہد کا ہے نہ کہ خلافت کے وجود وعدم وجود کا!

معسکر ابی بصیر رضی اللہ عنہ کی کی احادیث سے حاصل شدہ احکام و مسائل میں پہلا نمبر یہ بیان کیا ہے:

معاہدین (جن کافروں کے ساتھ صلح کا معاہدہ ہو) کے ساتھ صلح کی شرائط کے مطابق معاہدہ پورا کرنا شرعاًضروری ہے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جندل، ابوبصیر رضی اللہ عنہما کو قریش کے حوالے کردیا۔ لیکن تحویل میں دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
«
اصبر واحتسب فانا لا نغدر وان الله جاعل لك فرجا ومخرجا»
''صبر کرو اور الہ سے اجر وثواب کے طالب رہو۔ پس بلا شبہ ہم دھوکہ نہیں کریں گے اور یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے لئے وسعت وکشادگی اور قید سے رہائی کا راستہ ہموار کردے گا۔''
اس سے معلوم ہوا کہ خلیفہ اور امام کی سلطنت یعنی دار الاسلام کی حدود سے باہر ان شرائط کا اطلاق نہ ہوگا جو عہد صلح سے ماوراء ہیں۔ اسی بناء پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بصیر پر نہ تنقید فرمائی اور نہ قصاص اور دیت کا حکم دیا۔ حالانکہ انہوں نے ایک مشرک کو قتل کردیا تھا۔
یہی بات ہم بتلا رہے ہیں کہ معاہد کے ساتھ قتال نہیں کیا جاسکتا! یاد رہے کہ ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زیر حکومت مدینہ میں نہیں رکھا! بلکہ جو عہد تھا وہ پورا کیا کہ ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو قریش کے حوالے کردیا! اور دوسری بار بھی ابوانہیں مدینہ میں پناہ نہ دی۔ فتدبر!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اس کے معنی اگر یہ لئے جائیں کہ بغیر کسی وقفہ کےتا قیامت جہاد ہوتا ہی رہے گا، تب بھی اس کے یہی معنی کہ حکومت کی رضا کے ساتھ، یا اس جگہ کہ جہاں اسلامی حکومت نہیں! اور وہ معاہد نہ ہو! ہوتا رہے گا۔ کہیں نہ کہیں کچھ لوگ جو کسی اسلامی حکومت کے ماتحت نہیں، وہ اپنا جہاد جاری رکھے ہوں گے!
ویسے بھی ایسا تو نہیں ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جہاد کی فرضیت کے بعد، یا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے یہ پیشنگوئی فرمائی، اس کے بعد کوئی دن ایسا نہیں گذرا کہ قتال نہ ہوا ہو!
جس وقت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے حج ادا کیا، اس وقت کون سا طائفہ، یا عصابۃ کسی قتال میں مصروف تھا؟
ہاں اس سے قبل یمن ایک طائفہ ضرور گیا تھا، مگر وہ معرکہ بھی ختم ہو چکا تھا!

آپ نے جو بات لکھی ہے اس میں اسلامی حکومت کے وجود کی بات ہے، کہ قتال کے لئے اسلامی حکومت کا وجود لازم نہیں!
(شیخ مبشر احمد ربانی نے کیا کہا ہے،وہ تو شیخ کی تقریر سن کر معلوم ہو سکے گا ، شیخ کی تقریر کالنک اگر مل سکے تو بہتر ہے۔ میں آپ کے الفاظ کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں)
مگر جب حکومت ہو تو کیا اس میں حکومت کی رضا ہونا ضروری ہے یا نہیں!

میں نے جو بات کی ہے وہ یہ ہے کہ کیا کسی حکومت کے ماتحت لوگ اس حکومت کے کفار حکومت سے معاہدے سے آزاد ہیں؟ اور کفار ممالک کو چاہیئے کہ وہ مسلمان ممالک کے ہر ہر فرد سے انفرادی معاہدہ کرے، کہ وہ اس حکومتی معاہدہ کے تو پابند ہی نہیں!
اور پھر اگر کسی گروہ کے امیر قتال سے کسی کا معاہدہ طے پا جائے، تو کیا وہ اس امیر قتال کے کئے گئے معاہد کے بھی پابند ہیں؟ یا پھر ان میں مزید انفرادیت نکھر کر سامنے آئے گی، اور وہ اپنے تئیں ان معاہد سے قتال شروع کردیں گے!
جبکہ جو حدیث پیش کی ہے، اس میں معاہد کو قتل کرنے کی صریح نفی ہے!
یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ جہاں حکومت قائم ہو، ان لوگوں کے لئے جہاد حکومت کے تابع ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے اور خلفائے راشدین کے زمانے میں کوئی ایسی بات نہیں ملتی کہ کسی گروہ نے حکومت کی تابعداری سے نکل کر قتال کیا ہو!

قرآن کی دو آیات اورایک حدیث پیش کرتا ہوں:

وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ (سورة الأنفال 58)
اور اگر آپ کو کسی قوم کی طرف سے خیانت (بدعہدی) کا خوف ہو تو برابری (کی سطح) پر ان کا عہد ان کے منہ پر دے ماریں۔ بے شک اللہ خیانت (بدعہدی) کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُمْ مِنْ وَلَايَتِهِمْ مِنْ شَيْءٍ حَتَّى يُهَاجِرُوا وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (سورة الأنفال 72)
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے (مہاجروں کو اپنے ہاں) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو لوگ ایمان لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی، ان کی دوستی سے تمہیں کوئی غرض نہیں حتی کہ وہ حجرت کریں۔ اور اگر وہ تم سے دین (کے معاملہ) میں مدد مانگیں تو تم پر مدد لازم ہے مگر اس قوم کے خلاف نہیں کہ جن کے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ ہو، اور تم جو کام کرتے ہو اللہ دیکھ رہا ہے۔

قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي الْفَيْضِ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: كَانَ مُعَاوِيَةُ يَسِيرُ فِي أَرْضِ الرُّومِ، وَكَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ أَمَدٌ، فَأَرَادَ أَنْ يَدْنُوَ مِنْهُمْ، فَإِذَا انْقَضَى الْأَمَدُ غَزَاهُمْ، فَإِذَا شَيْخٌ عَلَى دَابَّةٍ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ [اللَّهُ أَكْبَرُ] وَفَاءً لَا غَدْرًا، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَلَا يحلَّنَّ عُقْدَةً وَلَا يَشُدَّهَا حَتَّى يَنْقَضِيَ أَمَدُهَا، أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ" قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةَ، فَرَجَعَ، وَإِذَا الشَّيْخُ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
وَهَذَا الْحَدِيثُ رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ وَأَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَالنَّسَائِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ فِي صَحِيحِهِ مِنْ طُرُقٍ عَنْ شُعْبَةَ، بِهِ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: حَسَنٌ صَحِيحٌ.

امام احمد نے سُلَیم بن عامر سے روایت کیا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سرزمین روم میں چل رہے تھے، آپ کے اور ان کے مابین معاہدہ تھا، آپ چاہتے تھے کہ ان کے قریب پہنچ جائیں اور جب معاہدے کی مدت ختم ہو تو ان پر حملہ کردیں تو انہوں نے دیکھا کہ ایک بزرگ جانور پر سوار ہیں اور کہہ رہے ہیں: اللہ اکبر! اللہ اکبر! وعدہ وفا کرنا ہے، بے وفائی نہیں کرنی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ''جس کسی قوم کے مابین عہد ہو تو جب تک مدت گزر نہ جائے، کوئی گرہ کھولے نہ باندھے یا ان کا عہد انہی کی طرف پھینک دے اور برابر کا جواب دے۔'' سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث پہنچی تو وہ واپس آگئے، حدیث بیان کرنے والے یہ بزرگ حضرت عمر بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے۔ اس حدیث کو امام ابو داود طیالسی، امام ابو داود، امام ترمذی، امام نسائی نے اور ابن حبان رحم اللہ عنہم نے بھی اپنی ''صحیح'' میں شعبہ کے طرق سے بیان کیا اور ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 79 جلد 04 تفسير القرآن العظيم (تفسير ابن كثير) - أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي (المتوفى: 774هـ) - دار طيبة للنشر والتوزيع، الریاض

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 568 المصباح المنير في تهذيب تفسير ابن كثير - إعداد جماعة من العلماء، بإشراف صفي الرحمن المباركفوري - دار السلام، الرياض
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 812 المصباح المنير في تهذيب تفسير ابن كثير (ترجمه اردو) - إعداد جماعة من العلماء، بإشراف صفي الرحمن المباركفوري - دار السلام

جامع الترمذي » كِتَاب السِّيَرِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الْغَدْرِ
سنن أبي داود » كِتَاب الْجِهَاد » بَاب فِي الْإِمَامِ يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْعَدُوِّ عَهْدٌ فَيَسِيرُ إِلَيْهِ
مسند أحمد بن حنبل» مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ...» مُسْنَدُ الشَّامِيِّينَ» حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ
مصنف ابن أبي شيبة» كِتَابُ السِّيَرِ» الْغَدْرُ فِي الْأَمَانِ
شعب الإيمان للبيهقي» الثاني والثلاثون من شعب الإيمان وهو بَابٌ فِي الإِيفَاءِ بِالْعُقُودِ
مسند أبي داود الطيالسي» وَحَدِيثُ عَمْرِو بْنِ عَبسَةَ السُّلَمِيِّ
المصباح المنير
کا حوالہ اس حدیث کی صحت کے بارے میں مزید اطمینان کے لئے پیش کیا گیا ہے، جبکہ اسے امام ترمذی ، امام ابن حبان، امام ابن کثیر بھی صحیح قراد دے چکے ہیں!
اس حدیث سے یہ ثابت ہے کہ معاہد کے ساتھ قتال نہیں کیا جاسکتا، جب تک کہ اس کے ساتھ عہد ختم نہیں ہوتا!
قرآن کی آیت تو اس جگہ رہنے والے مسلمانوں کی ایسی مدد کرنے سے بھی منع کرتی ہے، جو معاہدہ کے خلاف ہو! فتدبر​
وعلیکم السلام و رحمت الله

آپ کے بیان کرده جہاد کے اصول شرعی نقطه نظر سے اپنی جگہ صحیح ہیں - لیکن جہاد کے یہ اصول وھیں لاگو ھونگے جہاں دار الحرب اور دار الکفر واضح ہوں- موجودہ دؤر میں so called مسلم حکومتیں یہودی ؤ صہوںی حکومتوں کے ساتھ ملکر بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا رهی ھیں- ان کے نافذ کرده قوانین کفریہ جمہوری نظام کی بنیاد پرقائم ھیں- اس لئے یہ نظریہ بیان کرنا کہ حکومتی سرپرستی میں ہی جہاد جائز ہے- آجکل ایسا ممکن نہیں- (والله اعلم )-
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
فواد صاحب جہاں اسلامک اسٹیٹ لکھا دیکھتے بھاگے آتے ہیں جیسے یہاں داعش کی بات ہو رہی ہے جو خود امریکی ہے۔۔۔۔ امریکی آج کے کوفی ہیں۔۔۔۔۔ فواد صاحب اب مھربانی کر کہ میری کے جواب دینے کی زحمت مت کیجئے گا۔۔آپ کا احسان ہوگا
 
شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
محترم و مکرم ابن داؤد بھائی میرا سوال یہ ہے کہ کشمیر، فلسطین، افغانستان اور شام میں جاری جنگ کو کیا نام دیا جائے گا؟
کفار و مشرکین اپنے عہد و پیمان کو پاؤں تلے روند کر مسلمانوں کو تختہ مشق بنا لیں، اور ان کی حکومتیں بھی ان کی معاون ہوں تو ایسے میں کیا مسلمانوں یک طرفہ اپنے عہد نبھاتے رہیں یا اس کا کوئی اور حل ممکن ہے؟
اور مسلمان حکومتیں جو اکثر کفار حکومتوں کے سامنے سر بسجود ہوں، جو مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر چپ سادھ بیٹھی ہوں، تو ایسی صورت میں بھی کیا حل ہے جس سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم ختم ہو سکیں؟

Sent from my MI 4W using Tapatalk
 
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
میرا خیال ہے کہ بات محارب مشرکین وکفار کے متعلق ہورہی ہے، معاہد کا موضوع چھیڑنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ان کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں کہ ان کو قتل نہیں کیا جاسکتا اور معاہد کو قتل کرنا حرام ہے جیسے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث سے واضح ہے.
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کے بیان کرده جہاد کے اصول شرعی نقطه نظر سے اپنی جگہ صحیح ہیں - لیکن جہاد کے یہ اصول وھیں لاگو ھونگے جہاں دار الحرب اور دار الکفر واضح ہوں- موجودہ دؤر میں
so called مسلم حکومتیں یہودی ؤ صہوںی حکومتوں کے ساتھ ملکر بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا رهی ھیں- ان کے نافذ کرده قوانین کفریہ جمہوری نظام کی بنیاد پرقائم ھیں- اس لئے یہ نظریہ بیان کرنا کہ حکومتی سرپرستی میں ہی جہا-د جائز ہے- آجکل ایسا ممکن نہیں- (والله اعلم )-
@محمد علی جواد بھائی! آپ نے جب خود ''آج کل'' '' شرعی نکتہ نظر '' سے آزاد ہی سمجھا ہے، تو کیا کیا جاسکتا ہے، معلوم ہوتا ہے آپ نے شرعت کے اصولوں کو معطل سمجھ لیا ہے! اور شریعت کے اصولوں کو ''آج کل'' نا قابل عمل قرار دیا ہوا ہے!
خیر یہاں مدّعا یہ ہے کہ معاہد کے ساتھ قتال کی ممانعت بالکل واضح ہے، اور اگر کفار کی کسی حکومت کا اسلامی حکومت کے ساتھ معاہدہ ہونے کی صورت میں انفرادی طور پر اس اسلامی حکومت کے لوگ ااس کفار کی حکومت کو معاہد نہ سمجھتے ہوئے، ان سے قتال کرسکتے ہیں یا نہیں!
اگر کر سکتے ہیں تو پھر کفار حکومت کو ہر ہر مسلمان کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہئے! وگرنہ معاہد کا تو وجود ہی محال ہو جاتا ہے!
اور اگر کفار حکومت کا اسلامی حکومت سے معاہدہ سے وہ کفار حکومت معاہد ہوتی ہے، تو ایسی صورت میں کسی اس اسلامی حکومت کے لوگوں کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ایسے معاہد کے ساتھ قتال کریں، جب تک کہ وہ اسلامی حکومت معاہدہ ختم کر کے اسے محارب قرار نہ دے۔
اس بات پر دلائل بیان ہو چکے ہیں!


محترم و مکرم ابن داؤد بھائی میرا سوال یہ ہے کہ کشمیر، فلسطین، افغانستان اور شام میں جاری جنگ کو کیا نام دیا جائے گا؟
کفار و مشرکین اپنے عہد و پیمان کو پاؤں تلے روند کر مسلمانوں کو تختہ مشق بنا لیں، اور ان کی حکومتیں بھی ان کی معاون ہوں تو ایسے میں کیا مسلمانوں یک طرفہ اپنے عہد نبھاتے رہیں یا اس کا کوئی اور حل ممکن ہے؟
اور مسلمان حکومتیں جو اکثر کفار حکومتوں کے سامنے سر بسجود ہوں، جو مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر چپ سادھ بیٹھی ہوں، تو ایسی صورت میں بھی کیا حل ہے جس سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم ختم ہو سکیں؟
اسی کو میں جذباتی ٹیکہ کہتا ہوں!
ابو بصیر رضی اللہ عنہ کے واقعہ میں بیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ پر غور کریں! اور صبر کریں!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مسلمانوں سے محبت اور ولایت اور ان کا درد رکھنے والا نہ کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہو گا!
معاهد کون ہیں آج کل؟
ہر وہ ملک ، قوم و شخص ، جس کے ساتھ کسی اسلامی ملک کا معاہدہ ہے وہ اس ملک اور اس ملک کے باشندوں کے لئے معاہد ہے! جب تک کہ اسلامی حکومت یہ معاہدہ ختم نہیں کر تی!
میرا خیال ہے کہ بات محارب مشرکین وکفار کے متعلق ہورہی ہے، معاہد کا موضوع چھیڑنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ان کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں کہ ان کو قتل نہیں کیا جاسکتا اور معاہد کو قتل کرنا حرام ہے جیسے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث سے واضح ہے.
@عبدالرحمن حمزہ بھائی! یہاں بات معاہد کی ہی ہو رہی ہے!
جب کوئی شخص کسی ایسی قوم و حکومت کے خلاف قتال کرتا ہے، جس کا اس کی حکومت کے ساتھ معاہدہ ہے، یعنی اس کی اسلامی حکومت کی معاہد ہے، تب وہ شخص یا گروہ عہد ایفاء نہیں کرتے۔
اور اگر وہ شخص یا گروہ یہ گمان کرتا ہے کہ ایسا نہیں، یہ معاہد نہیں، جب کہ ان کا ان کی اسلامی حکومت سے معاہدہ ہے، تو کیا کفار حکومت ہر ہر مسلمان شخص سے معاہدہ کرنے کی صورت میں ہی معاہد ہوسکے گی!
آسان لفظوں میں کہ کسی شخص یا گروہ کو کیا حق ہے کہ وہ کسی کو محارب قرار دیں، جب کہ اس کے ساتھ اس کی حکومت نے معاہدہ کیا ہوا !
ایسی صورت میں تو ہر شخص جسے چاہے اپنے لئے محارب گمان کر کے ''قتال'' کرتا پھرے گا، اور معاہد کا ہونا ہی محال ہو جائے گا!
 
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
کسی شخص یا گروہ کو کیا حق ہے کہ وہ کسی کو محارب قرار دیں، جب کہ اس کے ساتھ اس کی حکومت نے معاہدہ کیا ہوا ![/QUOTE
نہیں حق تو نہیں ہے
البتہ ۔۔محارب کو معاہد بنانا جائز نہیں ۔۔
اور آج كل کچھ اسلامی ممالک نے حربیوں کو معاہد بنالیا ہے
 
شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
محترم و مکرم ابن داؤد بھائی میرا سوال یہ ہے کہ کشمیر، فلسطین، افغانستان اور شام میں جاری جنگ کو کیا نام دیا جائے گا؟
کفار و مشرکین اپنے عہد و پیمان کو پاؤں تلے روند کر مسلمانوں کو تختہ مشق بنا لیں، اور ان کی حکومتیں بھی ان کی معاون ہوں تو ایسے میں کیا مسلمانوں یک طرفہ اپنے عہد نبھاتے رہیں یا اس کا کوئی اور حل ممکن ہے؟
اور مسلمان حکومتیں جو اکثر کفار حکومتوں کے سامنے سر بسجود ہوں، جو مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر چپ سادھ بیٹھی ہوں، تو ایسی صورت میں بھی کیا حل ہے جس سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم ختم ہو سکیں؟

Sent from my MI 4W using Tapatalk
محترم جناب ابن داؤد بھائی میرے سوالات پر نظر کرم ہو،،

Sent from my MI 4W using Tapatalk
 
Top