- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@سید طہ عارف بھائی! آپ کی دی ہوئی کتاب کے ذکر کردہ صفحات کا سرسری مطالعہ کیا ہے، وہاں یہ الفاظ بھی ہیں:
@سید طہ عارف بھائی! آپ کی دی ہوئی کتاب کے ذکر کردہ صفحات کا سرسری مطالعہ کیا ہے، وہاں یہ الفاظ بھی ہیں:
''ہماری نظر میں امت مسلمہ عہد نبوت سے لے کر موجودہ دور تک اس امر پر بھی متفق ومتحد ہے کہ جہاد کے لئے خلیفۃ المسلمین کا وجود شرط لازم نہیں اور خلافت کے عدم وجود سے دیگر اجتماعی اور شرعی واجبات جمعہ وعیدین کے اجتماعات، زکوٰة وصدقات کی ادائیگی، بیت اللہ کا حض وغیرہ (حدود وقصاص کے علاوہ) کی طرح فریضہ جہاد کا اجراء اور ادائیگی بھی ساقط نہ ہوگی۔۔۔
۔۔۔۔
۔۔۔۔
۔۔۔۔
اہل اسلام دجال کو فتح کرنے تک متواتر جہاد میں مشغول رہیں گے (جبکہ خلافت صدیوں سے ناپید ہے)۔
۔۔۔۔''
لہٰذا یہ بحث تو خیر خلافت اور خلیفہ کے وجود کی شرط کے ہونے نہ ہونے سے متعلق ہے۔ جبکہ ہمارا مدعا معاہد کا ہے نہ کہ خلافت کے وجود وعدم وجود کا!
معسکر ابی بصیر رضی اللہ عنہ کی کی احادیث سے حاصل شدہ احکام و مسائل میں پہلا نمبر یہ بیان کیا ہے:
لہٰذا یہ بحث تو خیر خلافت اور خلیفہ کے وجود کی شرط کے ہونے نہ ہونے سے متعلق ہے۔ جبکہ ہمارا مدعا معاہد کا ہے نہ کہ خلافت کے وجود وعدم وجود کا!
معسکر ابی بصیر رضی اللہ عنہ کی کی احادیث سے حاصل شدہ احکام و مسائل میں پہلا نمبر یہ بیان کیا ہے:
یہی بات ہم بتلا رہے ہیں کہ معاہد کے ساتھ قتال نہیں کیا جاسکتا! یاد رہے کہ ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زیر حکومت مدینہ میں نہیں رکھا! بلکہ جو عہد تھا وہ پورا کیا کہ ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو قریش کے حوالے کردیا! اور دوسری بار بھی ابوانہیں مدینہ میں پناہ نہ دی۔ فتدبر!معاہدین (جن کافروں کے ساتھ صلح کا معاہدہ ہو) کے ساتھ صلح کی شرائط کے مطابق معاہدہ پورا کرنا شرعاًضروری ہے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جندل، ابوبصیر رضی اللہ عنہما کو قریش کے حوالے کردیا۔ لیکن تحویل میں دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
«اصبر واحتسب فانا لا نغدر وان الله جاعل لك فرجا ومخرجا»
''صبر کرو اور الہ سے اجر وثواب کے طالب رہو۔ پس بلا شبہ ہم دھوکہ نہیں کریں گے اور یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے لئے وسعت وکشادگی اور قید سے رہائی کا راستہ ہموار کردے گا۔''
اس سے معلوم ہوا کہ خلیفہ اور امام کی سلطنت یعنی دار الاسلام کی حدود سے باہر ان شرائط کا اطلاق نہ ہوگا جو عہد صلح سے ماوراء ہیں۔ اسی بناء پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بصیر پر نہ تنقید فرمائی اور نہ قصاص اور دیت کا حکم دیا۔ حالانکہ انہوں نے ایک مشرک کو قتل کردیا تھا۔