• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جہاد صرف اسلامک اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے --؟

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے جو پوچھا تھا، اس کا جواب دے دیا گیا، اب آپ میرے جواب کی تائید یا تردید کرتے ہوئے اپنا مؤقف بیان کر دیں!
پھر بات آگے کی بڑھ سکے گی! وگرنہ وضاحت در وضاحت کا سلسلہ جاری ہو جائے گا!
آپ کی پچھلی تحریر پر اسی کے بعد کچھ عرض کروں گا، ان شاء اللہ!
محترم بھائی اپنا موقف شاید پہلے بھی اشارتا میں بیان کر چکا ہوں اب تفصیل سے لکھ دیتا ہوں
میں اپنا موقف بتانے سے پہلے میں وہ تمام موقف بتاتا چلوں جو اس سلسلے میں مختلف جید اور صالح سلفی علماء رکھتے ہیں میرے نزدیک یہ سارے موقف رکھنے والے اجتہاد کا حق رکھتے ہیں اور انکو گمراہ نہیں کہا جا سکتا البتہ ہر انسان اس موقف کی پیروری کر سکتا ہے جس کے دلائل اسکو زیادہ بہتر لگتے ہیں

۱۔کسی بھی جگہ مسلمانوں کی حکومت کو کافر نہیں کہا جا سکتا (چاہے ایران ہو ی کشمیر ہو یا یمن ہو یا شام ہو) اور انکی اطاعت کرنا وہاں کے رہنے والوں کے لئے ضروری ہے پس انکی مرضی کے بغیر کوئی جہاد نہیں کر سکتا پس صرف اور صرف فوجی ہی جہاد کر سکتے ہیں یا پھر حکومت بعض صورتوں میں کچھ لوگوں کو اجازت دے تو وہ جہاد کر سکتے ہیں

۲۔بعض مسلمان ممالک کافر ممالک ہیں پس وہ اسلامی ریاست نہیں ہیں مثلا شام ایران یمن کشمیر افغانستان عراق وغیرہ۔ پس انکی حکومتوں سے جہاد کے لئے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں البتہ باقی مسلمان حکومتوں کے اندر رہنے والے انکی اجازت کے بغیر جہاد بالکل نہیں کر سکتے اگر کریں گے وہ تو اس حکومت کے باغی کہلائیں گے

۳۔بعض مسلمان ممالک کافر ہیں پس وہ اسلامی ریاست نہیں ہیں مثلا شام ایران یمن کشمیر افغانستان عراق وغیرہ۔ پس جہاد کے لئے ان حکومتوں سے اجازت لینے کی تو بالکل ہی کوئی ضرورت نہیں البتہ دوسرے مسلمان ممالک (جو اسلامی ریاستیں ہیں) ان سے بھی جہاد کے معاملے میں اجازت کی ضرورت نہیں ہے البتہ اس سلسلے میں فساد اور مصلحت کو مد نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ اگر اپنی اسلامی ریاست کی مرضی کے خلاف کہیں جہاد کرنے سے اسلام یا جہاد یا مدارس وغیرہ پہ کوئی بہت بڑا مفسدہ آتا ہو تو وہاں مصلحت اور مفسدہ کا جید علماء موازنہ کر کے فیصلہ کریں گے

میرا موقف:
میرا موقف وہی ہے جو اس سلسلے میں میری جماعت یعنی جماعۃ الدعوہ کا ہے اور جس کے بارے ہمارے شیخ مبشر ربانی حفظہ اللہ نے اپنے تازہ بیان میں وضاحت کی ہے اور جو اوپر تیسرے نمبر میں بتایا گیا ہے واللہ اعلم

نوٹ:
یہاں یہ بات واضح رہے کہ اوپر والا موقف جہاد کی اجازت کے بارے میں ہے البتہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جہاد کہاں ہو گا تو اس سلسلے میں ہماری جماعت کا یہ موقف شرعی موقف ہے کہ جو مسلمان ممالک اسلامی ریاست کی نہیں ہیں جیسے شام یمن کشمیر افغانستان وغیرہ وہاں پہ جہاد ہو سکتا ہے لیکن دوسرے کسی اسلامی ملک میں جہاد کرنا فساد کرنا ہی ہو گا لیکن یہ پوسٹ چونکہ صرف جہاد کی اجازت کے بارے میں ہے جہاد کی جگہوں کے تعین کے بارے نہیں ہے پس اس پہ یہاں بحث نہیں کی جا سکتی
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا مجھے کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ گجرات انڈیا میں مودی نے جو قتل عام کروایا وہ کون سے مجاہدین کے حملے کی وجہ سے تھا؟
1947 میں دو لاکھ سے زائد جموی مسلمانوں کا قتل عام سے پہلے کن مجاہدین نے وہاں ہندوستانی فوج پر حملے کیے تھے؟
اور برما میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح جو کاٹا جا رہا ہے تو وہاں کون سی تحریک جہاد چل رہی ہے، الا کہ کچھ کاروائیاں مجاہدین نے کی مگر وہ بھی نہ ہونے کے برابر اور وہ بھی برمی کافروں کے ظلم کے بعد،،
حقیقت یہ ہے کہ کفار صرف اس وجہ سے کبھی مسلمانوں کا قتل عام نہیں کرتے کہ ان پر حملے ہوتے ہیں، بلکہ جہاں مسلمان کمزور اور کفار طاقتور ہوں گے، وہ مسلمانوں کو ضرور کاٹیں گے،،
اس مفروضہ کو اگر درست مان لیا جائے کہ مجاہدین کی کارروائیوں کی وجہ سے عام مسلمان مارے جاتے ہیں تو پھر پاکستان کا وجود بھی لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میں وجود میں آیا، تو کیا پاکستان نہیں بننا چاہیے تھا کیوں کہ لاکھوں مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوئیں،،
کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ مگر اس کا نتیجہ پاکستان کی شکل میں نکلا،
تو عرض یہ ہے کہ نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہیں، وہ تین سو تیرہ سے ہزاروں کو پٹوا سکتا ہے، وہ انگریز اور ہندو مکار، کی مکاری اور سازشوں کے علی الرغم ناقابل یقین صورت حال میں پاکستان کو وجود میں لا سکتا ہے، لہذا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، کوئی جذباتی ٹیکہ کہہ دے تو کہہ دے، سر جھکا کر کفار کے ہاتھوں سے پٹنا مسلمان کیسے گوارا کر سکتا ہے،،
یہ اسی سے پوچھیں جس کی ماں بہن بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے کفاربے عزت کرتے ہیں، اس کے بھائی کو قتل کیا جاتا ہے، وہ کسی مفتی کے پاس نہیں جائے گا مسئلہ پوچھنے کے لیے بلکہ غیرت ایمانی کا ثبوت دے کر بدلہ لے گا،،
اس کے ردعمل میں کفار جو آج کریں گے، وہ ان کو کرنا ہی ہے، چاہے کچھ بھی ہو،،

Sent from my MI 4W using Tapatalk
محترم بھائی جان میں نے تو اسکی مخالفت نہیں کی ہماری جماعت اگرچہ لوگ یہی کہتے ہیں کہ یہ اگر کشمیر میں جہاد نہ کریں تو وہاں مظلوم لوگوں عورتوں کا قتل عام نہ ہو لیکن ہماری جماعت آپ کی ہی دلیلیں دیتی ہے کہ کیا ہمارے جہاد سے پہلے وہ ظلم نہیں کرتے تھے پس میں نے تو آپکی بات کی مخالفت کہیں نہیں کی آپ کو میری کون سی بات غلط نظر آئی ہے
ہاں میں نے دوسرے مرکزی والے علماء کی بھی مخالفت نہیں کی کہ انکا اپنا اجتہاد ہے کہ انکو یہ لگتا ہے کہ اگر ہم وہاں جہاد نہ کریں تو وہاں مسلمانوں کو قتل نہ کیا جائے یا اگر اسامہ رحمہ اللہ ایسا نہ کرتا تو مسلمانوں کے ساتھ ایسا نہ ہوتا وغیرہ وغیرہ تو ہو سکتا ہے کہ چونکہ وہ جہاد سے چونکہ دور ہوتے ہیں پس انکو شاید ان حالات اور صورتحال کا علم نہ ہو اور شاید ابن تیمہ رحمہ اللہ کا فیصلہ تھا کہ اگر جہاد کے بارے کوئی معاملہ ہو تو ارض جہاد والے علماء کی بات کو ترجیح دی جائے گی واللہ اعلم البتہ میں دوسرے گروہ کو گمراہ نہیں کہتا اور نہ کہنا چاہئے وہ ہمیں دلائل سے سمجھائے ہم انکو سمجھائیں گے جو جسکو زیادہ بہتر لگے وہ اس پہ عمل کر لے باقی ہم سب بھائی بھائی ہی ہیں
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304

اسلامی حکومت ہم اسے کہتے ہیں، کہ جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو!
الیاسق کے ماننے والے تاتاریوں کو ان کی عقائد کی بناء پر مسلمان نہیں بلکہ کافر ہی کہا گیا ہے، نہ انہیں مسلمان کہا گیا، اور نہ ان کی حکومت کو!
لہٰذا مسلمانوں کی حکومت کو ان کی تاتاریوں کی حکومت پر قیاس کرنا باطل ہے!

ہمارا پالیمانی نظام کسی بھی قانون کو شرعی قانون کے سے نہ بہتر قرار دیتا ہے اور نہ ہی برابر! یہ آپ کی غلط فہمی ہے!


و علیکم السلام و رحمت الله

محترم - ذرا اس تھریڈ کے حوالے سے بھی کچھ روشنی ڈلیں - کیا یہ اسلامی حکومت ہے؟؟ اور کیا یہ حکمران مسلمان کہلانے کے لائق ہیں ؟؟
آپ کہتے ہہیں کہ "ہمارا پالیمانی نظام کسی بھی قانون کو شرعی قانون سے نہ بہتر قرار دیتا ہے اور نہ ہی برابر! یہ آپ کی غلط فہمی ہے"

تو پھر یہ کیا ہے ؟؟ اگر یہ شرک ںہیں تو پھر شرک کس چڑیا کا نام ہے ؟؟

http://forum.mohaddis.com/threads/سندھ-اسمبلی-نے-اسلام-قبول-کرنے-پر-شرائط-لگا-دیں.34449/
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نہیں پیارے بھائی مجھے شاید سمجھانے میں غلطی ہوئی ہے البتہ میں نے اسی طرح دو قسمیں لکھی ہیں
میں نے واصلحوا ذات بینکم کے تحت ان ارید الا الاصلاح مااستطعت یعنی اصلاح کی کوشش کی ہے کہ جو اوپر ہمارے بھائیوں میں اختلاف ہو رہا تھا اسکی کوئی خوبصورت تاویل کر کے انکو اکٹھا کر دوں
پس میں نے پہلی قسم جو لکھی ہے وہ بنیامین بھائی وغیرہ کے لحاظ سے لکھا ہے کہ انکا نقطہ نظر کی تاویل یہ ہے
اور دوسری جو قسم لکھی ہے اس میں آپ کی طرف والے لوگوں کے نقطہ نظر کی تاویل کرتے ہوئے اسکو یہ لکھا ہے کہ وہ بھی دراصل وہی چاہتے ہیں صرف الفاظوں کا اختلاف ہے اور میرا بھی یہی موقف ہے
پس آپ دیکھیں کہ ان دو قسموں سے پہلے میں نے کیا لکھا ہے وہ مندرجہ ذیل الفاظ ہیں
عبدہ بھائی! سب سے پہلے تو یہ بتلایئے کہ آپ کو یہ حق کس نے دیا کہ آپ میرے مؤقف اور تحریر کی اپنی مرضی کے مطابق ''خوبصورت تاویل'' کرتے ہوئے، میرے مؤقف اور تحریر کے معنی ومفہوم کو تبدیل کردیں؟
آپ نے کا یہ فعل ''
واصلحوا ذات بینکم کے تحت ان ارید الا الاصلاح مااستطعت'' کے تحت نہیں بلکہ '' يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ'' کا مصداق ٹھہرتا ہے۔
یہ حق آپ کو نہیں کہ آپ کسی کے بیان یا کلام میں ایسی تبدیلی کریں کہ دو مخالف مؤقف رکھنے والوں کے مؤقف کو ایک ہی ثابت کردیا جائے!
آپ غالبا ً اس ''تاویل'' کے معاملہ میں غلط فہمی کا شکار ہیں!
آپ کو یہ حق تو ہے کہ کسی کو اس کے مؤقف میں کچھ تبدیلی کی ترغیب کریں، یا دلائل سے اسے تبدیل کرنے پر آمادہ کریں، مگر کسی کے کلام میں ''تاویل'' کرکے اس کے معنی و مفہوم کو تبدیل کرنے کا حق آپ کو نہیں! آپ کو کیا کسی کو بھی نہیں!
آپ غالباً اس ''تاویل'' کے معاملہ میں غلط فہمی کا شکار ہیں!کسی کے کلام پرتاویل کا خیال رکھتے ہوئے اس کے کلام پر حکم لگانے میں ممانعت اس صورت ممکن ہے جب ، کلام کے معنی و مفہوم کا تعین کرتے ہوئے اس کلام میں اس ''تاویل'' کی گنجائش ہو!
لیکن، جب یہ گنجائش نہ ہو، تو یہ زبردستی کی ''خوبصورت تاویل'' کا ایک نام ہے! وہ میں آپ سے مخاطب ہوتے استعمال نہیں کرنا چاہتا!
آپ کسی کے مؤقف میں تاویل کر ہی کیوں رہے ہیں! اگر آپ کو کلام کامعنی مفہوم سمجھنے میں مشکل ہے تو آپ اس سے پوچھ کیوں نہیں لیتے!
آپ کی یہ ''تاویل'' اختلاف کو جو کہ درحقیقت موجود ہے، اسے چھپانے کے مترادف ہے۔
پس دونوں باتوں کے درست ہونے سے مراد میں دونوں کی بات کی تاویل کر کے ایک بات پہ لانا چاہتا تھا
اس طرح آپ اپنے آپ کو دھوکہ دیں گے، اور دوسروں کو بھی دھوکہ میں مبتلا کریں گے۔
آپ کو چاہیئے کہ دونوں فریقین کو اس طرف دلائل راغب کریں کہ جو درست ہو!
لیکن اپنے تئیں کہ ایک کہے کہ برصغیر کی بستیوںمیں میں پایا جانے والا پرندہ جس کا عرفی نام کوّا ہے ، حلال ہے، اور دوسرا کہے کہ نہیں یہ کوّا حرام ہے، اور آپ اس میں صلح کروانے کے لئے ''خوبصورت تاویل'' کریں کہ پہلے شخص نے اس کوّے کے متعلق حلال نہیں کہا ہے، بلکہ اس نے کوّابمعنی کبوتر کے کہا ہے!
تو جناب! یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہوگا ، اور دوسروں کو بھی!
خلاصہ یہ ہے کہ: اختلاف موجود ہے، اختلاف ''اس خوبصورت تاویل'' سے ختم نہیں ہوگا۔
حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بات مان لینی چاہئے کہ اختلاف ہے، اور اختلاف اسی صورت ختم ہوگا، جب دونوں فریق حق بات کو تسلیم کرلیں!خواہ وہ ان دونوں کے مؤقف میں سےے کسی کے پاس ہو، یا کسی تیسرے فریق کے پاس!
ایک بات اور ! یہ کوئی ذاتی لین دین نہیں کہ دو روپے میں زیادہ کردو، اور دو روپے آپ کم کردیں! اور درمیانی مؤقف اپنا لیا جائے!
مؤقف وہی حق ہے جو قرآن وسنت کے دلائل پر قائم ہے۔ اس پر کوئی سودے بازی نہیں!
شرعی احکامات میں اختلاف ختم کرنے کے لئے حق سے اعراض نہیں کیا جاسکتا!
جی بالکل یہاں بحث اسی دو طبقوں کے بارے ہی ہے اور مجھے بھی اشکال انہیں دو طبقوں میں بہتر طبقے کی تلاش میں ہے باقی اپنی جگہ اجتہادی طور پہ چاہے کوئی دونوں طبقوں کو ہی درست کہ دے تو کوئی مسئلہ نہیں
جی! کچھ معاملات اولیٰ و غیر اولیٰ کے ہوتے ہیں! مگر جب معاملہ حلال وحرام،اورجائز و ناجائز کا ہو، وہاں درست اور حق بات ایک ہی ہوتی ہے!
کسی سے اجتہادی غلطی ہو سکتی ہے، اس پر وہ شخص تو ایک اجر پا لے گا، مگر اس سے اس کا مؤقف درست یا حق نہیں ہو جائے گا، اس کا مؤقف غلط وباطل ہی رہے گا!
آپ اپنی گفتگو میں اس نکتہ کو بلکل نظر انداز فرما رہے ہیں!
اور یہ بہت سنگین غلطی ہے! اسے تساہل کہنا بھی تساہل ہوگا!
اس طرح کی باتیں تو ہمارے مقلدین بھائی کیا کرتے ہیں۔ کہ''چاروں مذاہب برحق ہیں، کسی کی بھی تقلید کر لو، وہ مجتہد تھے، سب درست اور حق ہے'' جبکہ اختلاف حلال و حرام کا ہے! یہ باتیں آپ سے چھپی ہوئی تو نہیں ہوں گی، اگر آپ واقف نہیں تو کچھ نظائر پیش کروں!
محترم بھائی یہ تیسرے طبقے کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں
ایک وہ جو کسی اسلامی حکومت کو ہی غیر اسلامی قرار دے دے مثلا جیسا کہ شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ نے پاکستان کو ہی غیر اسلامی حکومت کہ دیا یا آپ نے ایران کو غیر اسلامی حکومت کہ دیا لیکن جمہور علماء ان سے اختلاف کرتے ہیں جیسا کہ ایران کو غیر اسلامی کہنے پہ بھی بہت سے علماء اختلاف رکھتے ہیں اور کچھ آپ سے اتفاق بھی کرتے ہیں مثلا ہماری جماعت کے ہی شیخ مبشر ربانی حفظہ اللہ بھی شاید آپ کی بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایران یا شام اسلامی ممالک نہیں لیکن یہ سارے علماء انکے خلاف جہاد کو فساد ہی کہتے رہے ہیں اور واقعی ہے بھی ایسا ہی واللہ اعلم
جی! یہ بات درست ہے کہ یہ لازم تونہیں ہے کہ جسے دارالکفر قرار دیا جائے ، اسے دارالحرب قرار دینا بھی لازم!
یہی تو بات ہے کہ کسی دارالکفر کوکون دارالحرب قرار دے گا! حکومت یا ہر شخص اپنے تئیں یہ فیصلہ کرتا پھرے گا!
یہی تو مدعا ہے کہ دارالکفر کس سے معاہدہ کر کے معاہد ہوگا! حکومت سے یا ہر ہر مسلمان سے معاہدہ کرے!
اور اس تیسرے طبقے میں ایک وہ ہیں جو پھر اس اسلامی مملکت کو کافر قرر دینے کے بعد دار الحرب کہ کے اسکے خلاف جہاد بھی شروع کرا دیتے ہیں تو یہ بہت خطرناک کام ہے اور بہت بڑا فساد ہے
البتہ جب بہت نادر حالات میں امت کے جمہور جید علماء اس پہ متفق ہوں تو ایسا کیا جا سکتا ہے جیسا کہ شام کے بارے جمہور علماء کا غیر اسلامی ریاست کا ہی فتوی ہے اور اسکو وہ دار الحرب ہی کہتے ہیں اور اسکے خلاف جہاد کو بھی فرض کہتے ہیں جیسا کہ شیخ مبشر ربانی نے ہماری جماعت کا موقف بیان کرتے ہوئے اپنے موجودہ ویڈیو بیان میں یہ واضح کیا ہے کہ شام کے حکمران روافض ہونے کی وجہ سے اسلام سے نکل چکے ہیں اور سعودی علماء نے بھی انکو ایسا مان لیا ہے اور انکے خلاف جہاد لازم ہے ہر مسلمان پہ
جی! بلکل متفق! لیکن یہاں مسئلہ ''اسلامی مملکت'' کو کافر قرار دینے کا ہے!
یہ بات زیر بحث نہیں، اور نہ میں اسے بحث میں شامل کرنا چاہتا ہوں!
بس اتنا بتلانا مقصود ہے، یا تو ان کا مؤقف و فتوی درست ہے جو کسی مملکت کو غیر اسلامی و کافر قرار دیتے ہیں، یا ان کا مؤقف و فتوی درست ہے، جو اسی مملکت کو اسلامی قرار دیتے ہیں!
دونوں مؤقف بیک وقت درست نہیں ہو سکتے!
جی آپ کو اجتہاد کا حق ہے مگر ہمارے بہت سے جید علماء اسکو اسلامی ریاست ہی مانتے ہیں اور مدخلی تو سارے علماء ہی اسکو اسلامی ریاست مانتے ہیں جیسا کہ شیخ خالد الحذیفی جو جامعہ ابی بکر کراچی کے استاد ہیں انکا یہی موقف ہے کہ ایران کے حکمرانوں کی اطاعت نہ کرنا بھی انکو خارجی بنا دیتا ہے واللہ اعلم
شیخ صاحب! میں از خود تو اجتہاد کرنے کا نہ مدعی ہوں، اور نہ خود کو اس قابل سمجھتاہوں! ہاں، میں علماء کے اجتہاد میں جس کے دلائل سے قائل ہوتا ہوں، اسے اختیار کرتا ہوں!
شیخ خالدد الحذیفی کا کا مؤقف میرے علم میں آپ کی تحریر سے آیا ہے! واللہ اعلم کہ انہوں نے کس بناء پر یہ مؤقف اختیار کیا ہے!
اگر شیخ ربیع الہادی المدخلی کی تحریر اس حوالہ سے مل سکے تو بہتر رہے گا!
پس آپ سے آپ کے موقف پہ دلیل پوچھنی تھی کہ غیر اسلامی حکومت کونسی ہوتی ہے تو آپ نے بتائی کہ وہ نظریہ امام کی وجہ سے شیعہ ریاست کافر ہوتی ہے تو اس پہ کچھ لوگ پھر اعتراض کرتے ہیں کہ نظریہ امام کو ماننا شرک سے بڑا گناہ تو نہیں کیونکہ اللہ کے ہاں تو ان الشرک لظلم عظیم ہے پھر مشرکوں پہ بھی لوگ باتیں کرنے لگتے ہیں پس ایران کو کافر ریاست کہنا درست کیسے ہوا
عبدہ بھائی! آپ نے غالباً ایران میں ولایت فقیہ کا نظریہ پر غور نہیں کیا، کہ ایران نے بطور ریاست ولایت فقیہ کے نظریہ کو اختیار کرکے خود کو ایک شعیہ اثناعشری ریاست قرار دیا ہے! لہٰذا ایران بطور ریاست ایک شیعہ اثنا عشری ریاست ہے، جو کہ روافضی ریاست ہے!
عبدہ بھائی! آپ بھی خوارج کے نقش قدم پر چلنے والوں کے لئے دروازے کھولنے کی بات کرتے ہو!
ایران کا ریاستی نظریہ وقانون ہے اس کا کسی فرد کے شرک کا مرتکب ہونے سے کیا واسطہ!
ان کے اس اعتراض میں کوئی دم خم نہیں!

محترم بھائی مجھے اس پہ کافی اشکال ہے کیا اس فرق کی قرآن و حدیث سے کوئی دلیل مل سکتی ہے جزاکم اللہ خیرا
قرآن کی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ احادیث جو دارالکفر میں سکونت کی ممانعت میں وارد ہوئی ہیں! لیکن جب کوئی کسی دوسری اسلامی مملکت میں سکونت پذیر ہونا چاہتا ہے تو اس کی کوئی ممانعت نہیں!
یعنی لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق والی بات ہو گئی
پس اگر امیر کسی غیر شرعی کام کا حکم دے تو اسکی اطاعت لازم نہیں
جی! عمومی طور پر اسی حدیث میں بیان ہے!
مثلا ہم سب جانتے ہیں کہ جو بھی اقوام متحدہ کا رکن ہوتا ہے وہ اسکے تمام معاہدات کا پابند ہوتا ہے پس اگر اقوام متحدہ دنیا کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے یہ فیصلہ کر دے کہ کوئی بھی دو سے زیادہ بچے نہیں پیدا کرے گا تو اس وقت ہمیں پاکستانیوں کو ایک معاہد ہونے کے لحاظ سے کیا کرنا ہو گا کیا ہمارے لئے اس حکومتی معاہدے کو لازم پکڑنا ہو گا یا پھر ہم اسکی خلاف ورزی کر سکتے ہیں
عبدہ بھائی! ویسے ایک بات پوچھوں؟ آ پ نے دیوبندی حنفی مدارس سے تو تعلیم حاصل نہیں کی؟ بڑے تغیلاتی سوالات آپ کے ذہن میں جنم لیتے ہیں!
میں ایک حدیث پیش کرتا ہوں: اس حدیث سے حاکم کے اختیار کو سمجھا جا سکتا ہے:

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ
عمر نے ہمیں ابن طاوس سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد (طاوس بن کیسان) سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے (ابتدائی) دو سالوں تک (اکٹھی) تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھی، پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگوں نے ایسے کام میں جلد بازی شروع کر دی ہے جس میں ان کے لیے تحمل اور سوچ بچار (ضروری) تھا۔ اگر ہم اس (عجلت) کو ان پر نافذ کر دیں (تو شاید وہ تحمل سے کام لینا شروع کر دیں) اس کے بعد انہوں نے اسے ان پر نافذ کر دیا۔ (اکٹھی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے لگے)
صحيح مسلم»» كِتَابُ الطَّلَاقِ»» بَابُ طَلَاقِ الثَّلَاثِ

پس میرے خیال میں جہاد ہو یا معاہدہ ہمیں بعض دفعہ تو واقعی امیر کی اطاعت کرنا لازم ہوتی ہے مگر اگر امیر کوئی غلط معاہدہ کر لے تو وہاں اطاعت لازم نہیں ہوتی جیسا کہ بخاری کی حدیث ہے کہ ایک امیر نے لکڑیاں جلا کر سب کو اس میں ڈالنے کا معاہدہ کر لیا تھا تو سمجھدار صحابہ نے کہا تھا کہ اسی آگ سے نکلنے کے لئے تو ہم نے اسلام قبول کرتے ہوئے اس امیر کی اطاعت کی ہے اب اگر اس امیر کی اطاعت کرنا ہمیں دوبارہ اسی آگ کی طرف لے جاتا ہے تو پھر ہم کیوں اطاعت کریں پس رسول اللہ ﷺ نے بعد میں انکو کہا تھا کہ لو دخلوھا ما خرجوا منھا الی یوم القیامۃ الطاعۃ فی معروف
یعنی اگر تم اس وقت اس امیر کی اطاعت کر لیتے تو ہمیشہ آگ میں ہی جلتے کیونکہ اطاعت تو صرف معروف کاموں میں ہے
عبدہ بھائی! پہلے آپ اس بات کا فیصلہ کیجئے کہ اسلامی حکومت سے معاہدہ کرنے کی صورت میں کفار معاہد ہوتے ہیں یا نہیں!
اگر اسلامی حکومت سے معاہدہ کرنے کی صورت میں کفار اس اسلامی حکومت کے باشندوں کے لئے معاہد نہیں، تو ان پر معاہدہ کی پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اور اگر اسلامی حکومت سے معاہدہ کرنے کی صورت میں کفار اس اسلامی حکومت کے باشندوں کے لئے معاہد ہیں تو ان پراس معاہدہ کی پاسداری لازم ہے۔
اب یہ معاہدہ ختم کرنا بھی حکومت کا کام ہے! یا کوئی فرد اپنے تئیں ہی معاہدہ ختم کرنے کا اختیار رکھتا ہے!
پھر دیکھتے ہیں کہ آپ کی پیش کردہ حدیث کا اس صورت میں یہاں اطلاق ہوتا ہے، یا نہیں اور اگر ہوتا ہے تو کاس طرح!
اس بات کا انکار نہیں ہے کیونکہ اگر یہ نہ کیا جائے تو پھر تو فساد اور بڑھے گا پس اگر واضح ان علاقائی امیروں کی اطاعت کا حکم نہ بھی ہو تو بھی فساد کو ختم کرنے اور مصلحت کو دیکھنے کا عمومی حکم تو ہر وقت موجود ہے پس ایسا کر لیا جائے تو بہت بہتر رہے گا
البتہ یہ بات میرے خیال میں اس وقت درست ہے جب امیر کی کوئی جائز تاویل موجود ہو واللہ اعلم
میرے بھائی! جب آپ لوگوں کو از خود کسی ملک کو دارالحرب قرار دینے کے دروازے کھولو گے تو فساد کے ابواب تو کھلیں گے!
محترم بھائی یہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ مسلمانوں کی حکومت سے آپکی کیا مراد ہے افغانستان کشمیر شام ایران یمن وغیرہ میں بھی تو اسلامی حکومتیں ہیں
کیا اسلامی حکومت سے مراد آپ کی یہ ہے کہ صدر یا وزیر اعظم مسلمان ہو تو وہ تو اوپر ممالک میں ایسا ہی ہے
اگر مسلمانوں کی حکومت سے مراد آپکی کوئی اور ہے یعنی مسلمان کی حکومت ہونے کی نشانی کوئی اور ہے تو میرے اشکال کو رفع کرنے کے لئے وہ بتا دیں جزاکم اللہ خیرا
میں نے عرض کیا تھا کہ اسلامی حکومت وہ ہے ، جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو!
آپ نے افغانستان،کشمیر، شام ، ایران اور یمن کی مثال دے کر فرمایا کہ وہاں کے حکمران صرد یا وزیر اعظم مسلمان ہیں، تو یہ درست نہیں!
اول تو صرف صدر یا وزیر اعظم کے مسلمان ہو جانے سے مسلمانوں کی حکومت نہیں ہوتی، جیسا کہ بھارت میں مسلمان صدور رہے ہیں، مگر بھارت میں مسلمانوں کی حکومت نہیں رہی!
دوم کہ افغانستان کا مسئلہ پیچیدہ ہے! اس لئے میں نے افغانستان کے متعلق کچھ عرض کرنے سے گریز کیا تھا، اور اب بھی گریز ہی کرتا ہوں!
باقی کشمیر ، ایران اور شام میں مسلمانوں کی حکومت نہیں! ایران کے حوالہ سے میں نے اوپر بیان کر دیا ہے،، اور شام کی حکومت کے علوی، نصیری ہونے کا بھی آپ کو معلوم ہوگا!
رہا کشمیر تو کشمیر بھارت کا حصہ ہے، اور نہ بھارت میں اور نہ اس کے حصے کشمیر میں مسلمانوں کی حکومت ہے!
اسلامی حکومت ہونے کے لئے مسلمانوں کی حکومت ہونے سے بڑی نشانی اورکیا بیان کروں!
میں اپنا موقف بتانے سے پہلے میں وہ تمام موقف بتاتا چلوں جو اس سلسلے میں مختلف جید اور صالح سلفی علماء رکھتے ہیں میرے نزدیک یہ سارے موقف رکھنے والے اجتہاد کا حق رکھتے ہیں اور انکو گمراہ نہیں کہا جا سکتا البتہ ہر انسان اس موقف کی پیروری کر سکتا ہے جس کے دلائل اسکو زیادہ بہتر لگتے ہیں
عبدہ بھائی! آپ نے پھر وہ اولیٰ و غیر اولیٰ والی بات کردی!
یہ مسئلہ اولیٰ و غیر اولیٰ والا نہیں! یہ مسئلہ جائز و نا جائز ، حلال و حرام والا ہے!
اس نکتہ پرکافی عرصہ پہلے بھی آپ سے عرض کیا تھا کہ کسی کا خود کو سلفی کہہ دینا اور مؤقف و منہج خوارج کا اختیار کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ گمراہ اور گمراہ گر نہیں ہو سکتا! بلکل ہو سکتا ہے!
دوم کہ ہر ایک مؤقف درست نہیں ہوگا، جو مؤقف قرآن سنت کی رو سے درست ہے، اور جس مجتہد کا اجتہاد صواب پر ہے وہی حق ہے، باقی جس مجتہد کا اجتہاد غلطی ہو گیا، اس مجتہد کو ایک اجر ملنے کے باوجود وہ مؤقف غلط اور باطل ہی رہے گا! اور کسی پر جب کسی پر اس کی غلطی و بطلان واضح ہوجائے، تو لازم ہے کہ اسے ترک کردے!
یہ ''سب برحق'' کوّا حلال بھی اور وہی کوّا حرام بھی کا نعرہ بلکل باطل ہے! یہ کوّا یا حلال ہے یا حرام!

۱۔کسی بھی جگہ مسلمانوں کی حکومت کو کافر نہیں کہا جا سکتا (چاہے ایران ہو ی کشمیر ہو یا یمن ہو یا شام ہو) اور انکی اطاعت کرنا وہاں کے رہنے والوں کے لئے ضروری ہے پس انکی مرضی کے بغیر کوئی جہاد نہیں کر سکتا پس صرف اور صرف فوجی ہی جہاد کر سکتے ہیں یا پھر حکومت بعض صورتوں میں کچھ لوگوں کو اجازت دے تو وہ جہاد کر سکتے ہیں
یہ میرا مدعا نہیں!
۲۔بعض مسلمان ممالک کافر ممالک ہیں پس وہ اسلامی ریاست نہیں ہیں مثلا شام ایران یمن کشمیر افغانستان عراق وغیرہ۔ پس انکی حکومتوں سے جہاد کے لئے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں البتہ باقی مسلمان حکومتوں کے اندر رہنے والے انکی اجازت کے بغیر جہاد بالکل نہیں کر سکتے اگر کریں گے وہ تو اس حکومت کے باغی کہلائیں گے
عبدہ بھائی! اپنے بیان کی تصحیح کریں!
آپ نے فرمایا کہ: بعض مسلمان ممالک کافر ممالک ہیں!
وہ مسلمان ممالک ہیں یا کافر ممالک ہیں؟
آپ نے جو تحریر فرمایا ہے یہ تو محال ہے!
جی! باقی میں نے مؤقف بیان کیا ہے! کہ اسلامی حکومت کی اجازت کے بغیر کسی ملک وقوم سے جہاد کرنا، اس اسلامی حکومت کے باشندوں کے لئے جائز نہیں! بالخصوص کسی معاہد ملک وقوم کے خلاف!
۳۔بعض مسلمان ممالک کافر ہیں پس وہ اسلامی ریاست نہیں ہیں مثلا شام ایران یمن کشمیر افغانستان عراق وغیرہ۔ پس جہاد کے لئے ان حکومتوں سے اجازت لینے کی تو بالکل ہی کوئی ضرورت نہیں البتہ دوسرے مسلمان ممالک (جو اسلامی ریاستیں ہیں) ان سے بھی جہاد کے معاملے میں اجازت کی ضرورت نہیں ہے البتہ اس سلسلے میں فساد اور مصلحت کو مد نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ اگر اپنی اسلامی ریاست کی مرضی کے خلاف کہیں جہاد کرنے سے اسلام یا جہاد یا مدارس وغیرہ پہ کوئی بہت بڑا مفسدہ آتا ہو تو وہاں مصلحت اور مفسدہ کا جید علماء موازنہ کر کے فیصلہ کریں گے
مصلحت وصلحت تو بعد میں دیکھیں گے، پہلے یہ تو بتلائیے کہ ان کافر ریاست جس نے اسلامی ریاست سے معاہدہ کیا ہے، اس اسلامی ریاست کے باشندوں پر اس معاہدہ کی پاسداری کیوں لازم نہیں!
اور کیا علماء کی ایک متوازی حکومت ہے، جو یہ کہے گی کہ فلاں سے معاہد ہے اور فلاں معاہد نہیں!
کیا کفار ممالک کو ان علماء سے معاہدہ کرنا ہوگا؟
اور فساد تو اس مین ہر صورت پیدا ہوگا! کوئی عالم معاہدہ کرے گا کوئی نہی کرے گا!
اور پھر کیا لوگوں پر لازم ہوگا کہ وہ اس عالم کا فیصلہ مانیں؟
کچھ لوگ ایک عالم کا فیصلہ مانیں گے، اور کچھ دوسرے عالم کا!
ویسے یہ کہ کسی ملک وقوم سے معاہدہ کرنے کا اختیار علماء کو کس دلیل سے حاصل ہے؟

میرا موقف:
میرا موقف وہی ہے جو اس سلسلے میں میری جماعت یعنی جماعۃ الدعوہ کا ہے اور جس کے بارے ہمارے شیخ مبشر ربانی حفظہ اللہ نے اپنے تازہ بیان میں وضاحت کی ہے اور جو اوپر تیسرے نمبر میں بتایا گیا ہے واللہ اعلم
شیخ مبشر احمد ربانی کا بیان تو میں نے نہیں سنا! اگر آپ ان کا مؤقف اور ان کے بیان کردہ دلائل تحریر کردیں، تو بہتر رہے گا۔ (شیخ مبشر احمد ربانی کے بیان کردہ دلائل، یہ نہیں کہ جس طرح مقلدین حنفیہ مؤقف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا پیش کرتے ہیں اور دلائل بزعم خویش خود کشید کرتے ہیں)
آپ نے جو مؤقف اختیار کیا ہے، وہ لا محالہ فساد ساتھ لاتا ہے!
نوٹ:
یہاں یہ بات واضح رہے کہ اوپر والا موقف جہاد کی اجازت کے بارے میں ہے البتہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جہاد کہاں ہو گا تو اس سلسلے میں ہماری جماعت کا یہ موقف شرعی موقف ہے کہ جو مسلمان ممالک اسلامی ریاست کی نہیں ہیں جیسے شام یمن کشمیر افغانستان وغیرہ وہاں پہ جہاد ہو سکتا ہے لیکن دوسرے کسی اسلامی ملک میں جہاد کرنا فساد کرنا ہی ہو گا لیکن یہ پوسٹ چونکہ صرف جہاد کی اجازت کے بارے میں ہے جہاد کی جگہوں کے تعین کے بارے نہیں ہے پس اس پہ یہاں بحث نہیں کی جا سکتی
جی یہ بحث یہاں نہیں کہ کہاں اور کہاں نہیں!
ایک گزارش:
عبدہ بھائی! یہ بات تو میں نے آپ کو کافی عرصہ پہلے عرض کر دی تھی، کہ میں آپ کی طرح میٹھا میٹھا لکھنے سے قاصر ہوں۔ لہٰذا میرے اس عذر کو مدنظر رکھیئے گا۔
عبدہ بھائی! آپ کے علم میں شاید یہ بات ہو کہ میں تو غریب الوطنی میں اہل الحدیث ہوا ہوں، میرا پاکستان کی کسی بھی اہل الحدیث تنظیم یا جماعت سے کوئی تعلق نہیں! میں نے منہج اہل الحدیث اختیار کیا ہے، کسی جماعت کے نظم ومؤقف کو نہیں!
آپ کی تحریر میں آپ کی جماعت کا مؤقف پر زوراس انداز میں ہوتا ہے کہ اس میں اہل الحدیث کے مؤقف کا بیان کم اور اپ کی جماعت کا اشتہار زیادہ نظر آتا ہے۔ اور پھر آپ ایک مؤقف کو دوسری جماعت کا مؤقف کرکے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ یہاں مختلف جماعتی مؤقف پر بحث ہو رہی ہے!
میری گزارش ہے کہ مؤقف بیان کیا جائے، اس پر دلائل یا نقص بیان کیا جائے، اسے دو جماعتوں کا جھگڑا نہ بنایا جائے!
جماعتوں کے آپس میں اختلاف ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب مسئلہ کسی شرعی حکم کا ہو، تو اس میں جماعتی وابستگی دخل انداز نہیں ہونا چاہئے!
اور اس بحث میں مسئلہ شرعی حکم کا ہے!
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
پیارے ابن داود بھائی کافی مصروفیت کی وجہ سے فورم پہ حاضر نہیں ہو سکا جلد ہی دوبارہ فورم پہ آتا ہوں تو دونوں بھائی مل کر بات کر لیتے ہیں جزاکم اللہ خیرا
 
شمولیت
جولائی 06، 2014
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
میری ناقص راے میں اس انتہائی اہم بحث کو معطل نہیں ہونا چاہیے۔ خصوصاً آج کل کے حالات کے تناظر میں یہ بہت سے لوگوں کے لئے فائدہ مند ہو سکتی ہے.
@عبدہ بھائی اور @ابن داود بھائی
الله ہم سب پہ رحم فرماے اور ہمارے قدم، کفّار کے مقابلے میں جما دے. آمین۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
میری ناقص راے میں اس انتہائی اہم بحث کو معطل نہیں ہونا چاہیے۔ خصوصاً آج کل کے حالات کے تناظر میں یہ بہت سے لوگوں کے لئے فائدہ مند ہو سکتی ہے.
@عبدہ بھائی اور @ابن داود بھائی
الله ہم سب پہ رحم فرماے اور ہمارے قدم، کفّار کے مقابلے میں جما دے. آمین۔
جزاکم اللہ خیرا بھائی پہلے مدرسہ کے سکسلے میں کافی مصروفیت رہی ابھی رمضان میں تراویح کے سلسلے میں مصروفیت ہے روزوں کے بعد تفصیل سے ان شاءاللہ لکھوں گا
 
شمولیت
جولائی 06، 2014
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
جزاکم اللہ خیرا بھائی پہلے مدرسہ کے سکسلے میں کافی مصروفیت رہی ابھی رمضان میں تراویح کے سلسلے میں مصروفیت ہے روزوں کے بعد تفصیل سے ان شاءاللہ لکھوں گا
الله آپ کو جزاے خیر سے نوازے۔ رمضان کی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیے گا.
 
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
اسلام و علیکم۔۔۔اللہ تعالٰی اجر عظیم عطاء فرمائے اُن مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو جو آج کے پرفتن دور میں جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت اور فرضیت کا اقرار کرنے کے ساتھ ساتھ کم از کم دوسروں تک اُس کو پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِسی کاروان عظیم میں شمولیت کی ایک ادنی سی سعی کے طور پر ایک طالب علم کی حیثیت سے تین مضامین اِس امید پر اپلوڈ کر رہا ہوں کہ اگر کوئی طالب حق اِس فورم پر تشریف لائے تو شاید اُس کو کوئی فائدہ پہنچے۔

جہاد فی سبیل اللہ کی حقیقت سمجھنے سے پہلے ،نفاق کو سمجھنا اور اُس کے تناظر میں جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت سمجھنا لازم ہے تب ہی اِس مسئلہ کی نزاکت کا مکمل ادراک ہو سکتا ہے اور آخر میں جہاد پر عموی اعترضات کا مطالعہ مزید اطمینان کا باعث بنے گا۔ انشاء اللہ۔
 

اٹیچمنٹس

Top