السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@محمد علی جواد بھائی! آپ نے جب خود ''آج کل'' '' شرعی نکتہ نظر '' سے آزاد ہی سمجھا ہے، تو کیا کیا جاسکتا ہے، معلوم ہوتا ہے آپ نے شرعت کے اصولوں کو معطل سمجھ لیا ہے! اور شریعت کے اصولوں کو ''آج کل'' نا قابل عمل قرار دیا ہوا ہے!
خیر یہاں مدّعا یہ ہے کہ معاہد کے ساتھ قتال کی ممانعت بالکل واضح ہے، اور اگر کفار کی کسی حکومت کا اسلامی حکومت کے ساتھ معاہدہ ہونے کی صورت میں انفرادی طور پر اس اسلامی حکومت کے لوگ ااس کفار کی حکومت کو معاہد نہ سمجھتے ہوئے، ان سے قتال کرسکتے ہیں یا نہیں!
اگر کر سکتے ہیں تو پھر کفار حکومت کو ہر ہر مسلمان کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہئے! وگرنہ معاہد کا تو وجود ہی محال ہو جاتا ہے!
اور اگر کفار حکومت کا اسلامی حکومت سے معاہدہ سے وہ کفار حکومت معاہد ہوتی ہے، تو ایسی صورت میں کسی اس اسلامی حکومت کے لوگوں کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ایسے معاہد کے ساتھ قتال کریں، جب تک کہ وہ اسلامی حکومت معاہدہ ختم کر کے اسے محارب قرار نہ دے۔
اس بات پر دلائل بیان ہو چکے ہیں!
السلام و علیکم و رحمت الله -
محترم ابو داؤود بھائی- یہ آپ اچھی طرح جانتے ھیں کہ بعض ںاگزیر حالات میں شریعت کے اصول ضوابط بھی معطل ھؤ جاتے ھیں- جیسے قحط کے دنوں میں ایک خلیفه راشد ںے چوری کی شرعی سزا "ہاتھ کاٹنے " کو وقتی طور پر معطل کردیا تھا-
أپ پہلے یہ واضح کرہیں کہ
"اسلامی حکومت " آخر کہتے کس کو ھیں ؟؟ اگر ایک خطہ زمین پر اسلامی احکامات کو واجبی طور پر نافذ کرنا اسلامی حکومت کا شاخسانہ اور دلیل ہے- تو پھر اسطرح تو تاتاریوں کا نفاز کرده قانون "
الیاسق" بھی اسلامی کہلاے گا کیوں کہ وہ بھی "واجبی طور پر" الله کو رب اور نبی کریم صل الله الیہ و الیه وسلم کو رسول مانتے تھے - جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تاتاریوں کو کافر اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مجموعہ قوانین کو شرعی قوانین کے برابر حیثیت دیتے تھے اور یہ اعتقادی کفر ہے - کسی بھی انسانی قانون کو شرعی قانون کے برابر قرار دینا صریح کفر ہے - جیسے ہمارا پارلیمانی نظام جو الله کے قوانین کو بھی by pass کرتا ہے اور یہ الله کی ذات کے ساتھ صریح شرک اور کفر ہے-
قران کریم میں الله رب العزت کا واضح فرمان ہے کہ :
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ سوره المائدہ ٤٤
اور جو کوئی اس چیز کے موافق فیصلہ نہ کرے جو الله نے اتارا ہے -تو وہی لوگ کافر ہیں-