• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی شخصیت میری نظر میں

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
بھائی جان مختصر کر کے اور کچھ خاص حصے حذف کرکے :)
سندھی میگزین کیلئے ترجمہ کروادیں میں شایع کردوں گا سندھی مجلہ میں ان شاء اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مضمون چھوٹے چھوٹے مکمل مباحث پر مشتمل ہے۔اس طرح مطلوبہ مباحث خارج کرکے مضمون حسب خواہش مختصر کیا جاسکتا ہے۔ پھر مجھے کیا پتا کہ وہ خاص مباحث کون سے ہیں جنھیں خارج کیا جانا ہے۔ پھر یہ بھی بتا دیں کہ اردو سے سندھی میں ترجمہ کون کرتا ہے اور کہاں سے کروایا جاسکتا ہے؟
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
السلام علیکم
لیں جی شاھد بھائی پہلا نقد شیخ رحمہ اللہ کے شاگرد عزیز کا ان کے پاس وہ امام ابو حینفہ پر لکھی کتاب کی نقل بھی موجود ہے
 

عدنان سلفی

مبتدی
شمولیت
دسمبر 26، 2012
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
18
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مجھے حیرت ہے محترم خضر حیات بھائی محترم قاھر الارجاء و الخوارج اور جناب محترم بشیراحمدعسکری صاحب پر کہ آپ نے کیسے اس مضمون کی تعریف کی ہے ؟؟؟
اس بات سے تو میں بھی اتفاق کرتا ہوں کہ محنت کافی کی ہے بھائی نے ، لیکن کیا یہ محنت مثبت نتیجے کی حامل ہے یا منفی آپ احباب نے اس پر غور کیا ؟؟ میں ابھی تک اس نتیجے پر نہیں پہنچا کہ اس تحریر کا مقصد استاذ محترم کی علمی شخصیت کو اجاگر کرنا ہے یا علماء کے حلقہ میں ان کی اہمیت کم کرنا مقصود ہے اور آخر الذکر مقصد قریب زیادہ معلوم ہوتا ہے۔
خضر حیات بھائی آپ نے امام ابو حنیفہ والی بات پر تو اعتراض کیا مگر کافی ساری قابل گرفت باتیں رہ گئی ہیں۔ مثلا محترم کا یہ کہنا ﴿ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے دوسرو ں کے برعکس صرف اپنی تحقیق پر اعتماد کیا اور مسلک اہل حدیث کے ازسرنو مطالعہ و تحقیق کے بعد اہل حدیث کے بہت سے مسلمات کا انکار کیا اور ان پر اعتراض اٹھایا۔﴾
استاذ محترم نے اہل الحدیث کے کسی مسلمہ اصول کا انکار یا اس پر اعتراض نہیں کیا ، بلکہ آپ کی تو زندگی کا مقصد ہی اہل الحدیث کے مسلمات کا دفاع کرنا اور دعوت دینا تھا۔ والحمد للہ اور جو مثالیں آپ نے ذکر کی یہ مسلمہ اصول نہیں ہیں علماء سے رجوع کریں۔آپ کو آپنے فھم کی غلطیوں کے عملی نمونے مل جائیں گے۔
جب آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ استاذ محترم نے نواب صاحب رحمہ اللہ کے بارے میں رجوع کر لیا تھا ﴿اصل صورتحال سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے راقم الحروف نے حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے بتایا کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی زندگی میں انہوں (ندیم ظہیر)نے صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی بعض تصنیفات کا مطالعہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ انکے استاد یعنی زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا موقف غلط فہمی پر مبنی ہے لہٰذا انہوں نے حافظ زبیرعلی زئی کو مشورہ دیا کہ صدیق حسن خان کے بیٹے کی گواہی پر اعتماد نہ کریں کیونکہ وہ مشکوک ہے اور براہ راست صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی تصنیفات کا مطالعہ کرکے ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کریں۔چناچہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے صدیق حسن خان کی خود نوشت کا بعض مقامات سے سرسری سا مطالعہ کرنے کے بعد مذکورہ بالا فتویٰ میں جو انکی وفات کے بعد شائع ہوا صدیق حسن خان رحمہ اللہ کا دفاع کیا ہے اور خود ہی انکے نام کے ساتھ رحمہ اللہ کے دعائیہ کلمات استعمال کئے ہیں۔
حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ کی اس گواہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ صدیق حسن خان کی بعض کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرلیتے تو یقیناًصدیق حسن خان کے بارے میں اپنے اس مشہور موقف سے اعلانیہ رجوع کرلیتے لیکن زندگی نے باقاعدہ رجوع کی مہلت نہیں دی اور نہ ہی انہوں نے اس بارے میں کوئی وصیت وغیرہ کی۔﴾
تو اس بحث کو یہاں پر نقل کرنے کا کیا مقصد ہے ؟؟ کیا استاذ محترم حافظ ندیم ظھیر حفظہ اللہ کی گواہی آپ کو کافی نہیں ؟؟
اور میں نے خود جس قدر ممکن تھیں نواب صاحب رحمہ اللہ کی کتب انٹرنیٹ سے ڈائنلوڈ کر کے شیخ صاحب رحمہ اللہ کو دیں اور پھر شیخ رحمہ اللہ نے نواب صاحب رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق کتاب ﴿الدین الخالص﴾ خریدی اور اس کا مطالعہ کیا جس کے بعد شیخ صاحب رحمہ اللہ کا نواب صاحب کے بارے میں نظریہ تبدیل ہو گیا تھا۔
اور اس کے علاوہ شیخ البانی رحمہ اللہ کے بارے میں آپ نے جو تاثر دیا وہ بلکل درست نہیں شیخ صاحب رحمہ اللہ ہمشیہ شیخ کی عزت کرتے البتہ بعض تحقیقات سے اختلاف کا کرنا کوئی عجیب نہیں ہے بلکہ استاذ محترم شیخ البانی رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں ﴿﴿﴿الشیخ الامام المحدث ، من کبار علماء اھل الحدیث ، نشر العلم الحدیث فی الدنیا و معرفة صحیح الحدیث من سقمیہ و خدم السنة احسن الخدمة ، وثقہ کافة شیوخنا ، منھم الامام ابو محمد بدیع الدین الراشدی والامام ابو القاسم محب اللہ الراشدی رحمھمااللہ ترجمتہ فی ﴿کوکبة من ائمة الھدی﴾ للشیخ الصالح عاصم بن عبداللہ القریوتی المدنی ، و ﴿حیاة الالبانی و آثارہ و ثناء العلماء علیہ﴾ محمد بن ابراھیم الشیبانی ۔۔۔۔۔۔ توفی سنة 1420ھ فی عمان الاردن رحمہ اللہ رحمة واسعة﴾﴾ ﴿المسائل للحافظ محمد عثمان بن ابی شیبة تحقیق زبیر علی زئی ص 18﴾ ﴾

اس کے علاوہ بھی آپ نے جو شیخ رحمہ اللہ کے چند موقف نقل کیے اور انھیں انتھائی غلط انداز میں پیش کیا حالنکہ محدثین سے لے کر معاصرین تک امام بخاری سے لے کر شیخ العرب و العجم شیخ بدیع الدین رحمہ اللہ تک علماء میں ہر کسی کی کچھ تحقیقات ایسی ہوتی ہیں جو دوسروں سے منفرد ہوتی ہیں لیکن ان کو وہ رنگ دینا جو آپ نے دیا قطعا مناسب نہیں ہے اس سے قطعا ان کے اخلاص اور صدق نیت پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا لیکن موصوف کا ان مواقف کو اس انداز سے پیش کرنا کسی پوشیدہ مقصد کا پتا دیتا ہے!!!

اس کے علاوہ بھی بھت سی باتیں محترم مضمون نگار کی کم فھمی کا پتا دیتی ہیں علماء کی سیرت یا ان کا منھج لکھنے کا یہ طریقہ نہیں ہے جو محترم نے چنا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

قال اللہ تعالی
(قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ)


(وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ‌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَ‌دُّوهُ إِلَى الرَّ‌سُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ‌ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَ‌حْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا)
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مجھے حیرت ہے محترم خضر حیات بھائی محترم قاھر الارجاء و الخوارج اور جناب محترم بشیراحمدعسکری صاحب پر کہ آپ نے کیسے اس مضمون کی تعریف کی ہے ؟؟؟
اس بات سے تو میں بھی اتفاق کرتا ہوں کہ محنت کافی کی ہے بھائی نے ، لیکن کیا یہ محنت مثبت نتیجے کی حامل ہے یا منفی آپ احباب نے اس پر غور کیا ؟؟ میں ابھی تک اس نتیجے پر نہیں پہنچا کہ اس تحریر کا مقصد استاذ محترم کی علمی شخصیت کو اجاگر کرنا ہے یا علماء کے حلقہ میں ان کی اہمیت کم کرنا مقصود ہے اور آخر الذکر مقصد قریب زیادہ معلوم ہوتا ہے۔​
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مجھے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ سے دلی لگاؤ اور محبت تھی اور ہے۔ میں نے کبھی دانستہ انکی شان میں گستاخی کی کوشش نہیں کی۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اپنی محبوب شخصیت سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ اگر آپ میرے اختلاف کرنے کو حافظ صاحب کی اہمیت کو علماء کی نظر میں کم کرنے کی کوشش سمجھ رہے ہیں تو یہ آپ کا ذاتی خیال ہے جس میں آپ آزاد ہیں۔

خضر حیات بھائی آپ نے امام ابو حنیفہ والی بات پر تو اعتراض کیا مگر کافی ساری قابل گرفت باتیں رہ گئی ہیں۔ مثلا محترم کا یہ کہنا ﴿ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے دوسرو ں کے برعکس صرف اپنی تحقیق پر اعتماد کیا اور مسلک اہل حدیث کے ازسرنو مطالعہ و تحقیق کے بعد اہل حدیث کے بہت سے مسلمات کا انکار کیا اور ان پر اعتراض اٹھایا۔﴾
استاذ محترم نے اہل الحدیث کے کسی مسلمہ اصول کا انکار یا اس پر اعتراض نہیں کیا ، بلکہ آپ کی تو زندگی کا مقصد ہی اہل الحدیث کے مسلمات کا دفاع کرنا اور دعوت دینا تھا۔ والحمد للہ اور جو مثالیں آپ نے ذکر کی یہ مسلمہ اصول نہیں ہیں علماء سے رجوع کریں۔آپ کو آپنے فھم کی غلطیوں کے عملی نمونے مل جائیں گے۔
میرا یہ مطلب ہرگز نہیں جو آپ نے میرے مضمون کے سرسری مطالعہ سے اخذ کیا ہے۔ میں نے بطور مثال اہل حدیث کے جو مسلمات ذکر کئے ہیں ضروری نہیں کہ وہ دلیل سے بھی صحیح ثابت ہوں جیسے چار دن کی قربانی کا مسئلہ۔ میرے کہنے کا مطلب صرف یہ تھا کہ یہ مسائل فی زمانہ اہل حدیث کے مسلمہ مسائل کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے یہ بات کہیں نہیں لکھی کہ ان مسائل میں اختلاف پر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ غلطی پر تھے۔ بلکہ بعض مسائل میں، میں ان سے متفق ہوں بلکہ انہی کی تحقیق سے متاثر ہوں۔ سوائے نواب صاحب کے مسئلہ کے علاوہ کیونکہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی زندگی ہی میں، میں نے نہایت احترام سے ان سے اختلاف کرتے ہوئے مضمون ’’کیا نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ حنفی تھے؟‘‘ لکھا تھا۔
کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے پہلے چار دن کی قربانی اور یزید کے خلاف کون کون سے مستند علمائے اہل حدیث نے آواز بلند کی تھی؟؟؟

جب آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ استاذ محترم نے نواب صاحب رحمہ اللہ کے بارے میں رجوع کر لیا تھا ﴿اصل صورتحال سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے راقم الحروف نے حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے بتایا کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی زندگی میں انہوں (ندیم ظہیر)نے صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی بعض تصنیفات کا مطالعہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ انکے استاد یعنی زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا موقف غلط فہمی پر مبنی ہے لہٰذا انہوں نے حافظ زبیرعلی زئی کو مشورہ دیا کہ صدیق حسن خان کے بیٹے کی گواہی پر اعتماد نہ کریں کیونکہ وہ مشکوک ہے اور براہ راست صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی تصنیفات کا مطالعہ کرکے ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کریں۔چناچہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے صدیق حسن خان کی خود نوشت کا بعض مقامات سے سرسری سا مطالعہ کرنے کے بعد مذکورہ بالا فتویٰ میں جو انکی وفات کے بعد شائع ہوا صدیق حسن خان رحمہ اللہ کا دفاع کیا ہے اور خود ہی انکے نام کے ساتھ رحمہ اللہ کے دعائیہ کلمات استعمال کئے ہیں۔
حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ کی اس گواہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ صدیق حسن خان کی بعض کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرلیتے تو یقیناًصدیق حسن خان کے بارے میں اپنے اس مشہور موقف سے اعلانیہ رجوع کرلیتے لیکن زندگی نے باقاعدہ رجوع کی مہلت نہیں دی اور نہ ہی انہوں نے اس بارے میں کوئی وصیت وغیرہ کی۔﴾
تو اس بحث کو یہاں پر نقل کرنے کا کیا مقصد ہے ؟؟ کیا استاذ محترم حافظ ندیم ظھیر حفظہ اللہ کی گواہی آپ کو کافی نہیں ؟؟
اور میں نے خود جس قدر ممکن تھیں نواب صاحب رحمہ اللہ کی کتب انٹرنیٹ سے ڈائنلوڈ کر کے شیخ صاحب رحمہ اللہ کو دیں اور پھر شیخ رحمہ اللہ نے نواب صاحب رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق کتاب ﴿الدین الخالص﴾ خریدی اور اس کا مطالعہ کیا جس کے بعد شیخ صاحب رحمہ اللہ کا نواب صاحب کے بارے میں نظریہ تبدیل ہو گیا تھا۔​
حافظ صاحب رحمہ اللہ کا نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کے متعلق نظریہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لہٰذا میں نے اسی بات کو بیان کیا ہے۔ اور یہ تو میری انصاف پسندی کی دلیل ہے کہ حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ کی گفتگو سے حاصل ہونے والی معلومات کو بھی ذکر کرکے میں نے اصل صورتحال سامنے رکھ دی ہے۔ اور یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حافظ صاحب کا نواب صاحب کے متعلق تبدیل شدہ نظریہ انہی تک محدود تھا اور اس کے متعلق نہ تو انہوں نے کوئی تحریری یا اعلانیہ رجوع کیا تھا اور نہ ہی اس کے متعلق کوئی وصیت فرمائی۔ اگر وہ اپنے اس موقف سے اعلانیہ رجوع کرلیتے تو پھر آپ اس اعتراض میں حق بجانب تھے کہ رجوع کے باوجود ان باتوں کا ذکر کیوں کیا گیا۔
میں نے تو انصاف پسندی سے ہر بات کا ذکر کیا انکا نواب صاحب سے متعلق تحریری اور تقریری نظریہ بھی اور حافظ ندیم ظہیر کی وضاحت بھی۔ بلکہ میں یہ بحث لکھ چکا تھا پھر میں نے ضروری محسوس کیا کہ اسکی وضاحت ندیم ظہیر سے طلب کرلی جائے پھر حافظ ندیم سے جو کچھ بھی معلوم ہوا اس بحث کے آخر میں، میں نے اسے درج کردیا، اس کے بعد بھی آپ کو اعتراض کس بات پر ہے؟

اور اس کے علاوہ شیخ البانی رحمہ اللہ کے بارے میں آپ نے جو تاثر دیا وہ بلکل درست نہیں شیخ صاحب رحمہ اللہ ہمشیہ شیخ کی عزت کرتے البتہ بعض تحقیقات سے اختلاف کا کرنا کوئی عجیب نہیں ہے بلکہ استاذ محترم شیخ البانی رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں ﴿﴿﴿الشیخ الامام المحدث ، من کبار علماء اھل الحدیث ، نشر العلم الحدیث فی الدنیا و معرفة صحیح الحدیث من سقمیہ و خدم السنة احسن الخدمة ، وثقہ کافة شیوخنا ، منھم الامام ابو محمد بدیع الدین الراشدی والامام ابو القاسم محب اللہ الراشدی رحمھمااللہ ترجمتہ فی ﴿کوکبة من ائمة الھدی﴾ للشیخ الصالح عاصم بن عبداللہ القریوتی المدنی ، و ﴿حیاة الالبانی و آثارہ و ثناء العلماء علیہ﴾ محمد بن ابراھیم الشیبانی ۔۔۔۔۔۔ توفی سنة 1420ھ فی عمان الاردن رحمہ اللہ رحمة واسعة﴾﴾ ﴿المسائل للحافظ محمد عثمان بن ابی شیبة تحقیق زبیر علی زئی ص 18﴾ ﴾​
ہمیشہ عزت والی بات بالکل غلط ہے بلکہ میں نے جو چند مثالیں دی ہیں انہی سے اس دعویٰ کی حقیقت واضح ہے۔ میں نے یہ بات کہیں نہیں لکھی کہ حافظ صاحب رحمہ اللہ ہمیشہ شیخ البانی رحمہ اللہ کا تذکرہ غلط اور برے انداز میں کرتے تھے۔ بلکہ انکی تحریروں میں چند گنے چنے مقامات پر ہی البانی رحمہ اللہ سے متعلق ان کا رویہ سخت ہوا ہے۔ بس کہنے کا مقصد یہ تھا کہ حافظ صاحب البانی رحمہ اللہ سے اختلاف رکھتے تھے اور بعض مقامات پر شیخ البانی رحمہ اللہ کا تذکرہ کرتے وقت ان کا انداز خراب ہوا ہے۔ اگر اس میں کوئی غلط بات ہے تو بتائیں۔

اس کے علاوہ بھی آپ نے جو شیخ رحمہ اللہ کے چند موقف نقل کیے اور انھیں انتھائی غلط انداز میں پیش کیا حالنکہ محدثین سے لے کر معاصرین تک امام بخاری سے لے کر شیخ العرب و العجم شیخ بدیع الدین رحمہ اللہ تک علماء میں ہر کسی کی کچھ تحقیقات ایسی ہوتی ہیں جو دوسروں سے منفرد ہوتی ہیں لیکن ان کو وہ رنگ دینا جو آپ نے دیا قطعا مناسب نہیں ہے اس سے قطعا ان کے اخلاص اور صدق نیت پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا لیکن موصوف کا ان مواقف کو اس انداز سے پیش کرنا کسی پوشیدہ مقصد کا پتا دیتا ہے!!!
میں نے کوئی رنگ نہیں دیا بلکہ جو بات جیسی تھی ویسے ہی پیش کی ہے بلکہ کوشش کی ہے کوئی بھی بات کرتے وقت حافظ زبیرعلی زئی رحمہ کا کوئی نہ کوئی تحریری حوالہ ضرور پیش کیا جائے۔ میں نے کہیں بھی حافظ صاحب رحمہ اللہ کی نیت اور اخلاص پر اعتراض یا شک نہیں کیا۔
جہاں تک انداز کی بات ہے تو ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ علماء کا تذکرہ کرتے ہوئے اختلافی اور ناپسندیدہ باتوں کو ایک طرف رکھ کر عالم کی صرف تعریف بیان کی جاتی ہے۔ لیکن میں نے اس مضمون میں نہ تو بے جا تعریف کی ہے اور نہ ہی کوئی تنقید۔ بلکہ حقائق جیسے تھے کوشش کی ہی انہیں ویسے ہی پیش کیا جائے۔

اس کے علاوہ بھی بھت سی باتیں محترم مضمون نگار کی کم فھمی کا پتا دیتی ہیں علماء کی سیرت یا ان کا منھج لکھنے کا یہ طریقہ نہیں ہے جو محترم نے چنا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
میں پروفیشنل لکھاری یا باقاعدہ عالم نہیں ہوں۔ میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے اس کے ساتھ یہ بھی لکھ دیا ہے:
تنبیہ۱: آغاز مضمون میں ایک ضروری اور اہم وضاحت پیش کی گئی ہے بطور یاد دہانی مکرر عرض ہے کہ راقم الحروف نے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحریروں و تقریروں سے جو بھی استدلالات قائم کئے ہیں وہ میرے ذاتی فہم کا نتیجہ ہیں چناچہ اس بات کا احتمال خارج از امکان نہیں کہ میں نے اپنے فہم اور سمجھ کے مطابق حافظ صاحب کی تحریر کردہ عبارات سے جو نتیجہ اخذ کیا ہو، حقیقت میں ویسا نہ ہو۔اس لئے درخواست ہے کہ اگر دوران مطالعہ قاری کو کچھ غلط لگے تو وہ بذریعہ دلیل صحیح بات پیش کردے اور غیر ضروری بحث ومباحثہ اور بلاوجہ کی تنقید سے حتی الامکان پرہیز کرے۔
 
Last edited:

عدنان سلفی

مبتدی
شمولیت
دسمبر 26، 2012
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
18
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ​
سب سے پہلے میں آپ کو یہ بتا دوں کہ آپ نے جو یہ لکھا ہے کہ
(میرا یہ مطلب ہرگز نہیں جو آپ نے میرے مضمون کے سرسری مطالعہ سے اخذ کیا ہے۔)
تو عرض ہے کہ میں آپ کا مضمون سرسری نہیں غور سے 2 دفعہ پڑھا ہے ، اور مندرجہ بالا تحریر لکھنے پر مجبور ہوا ، اور آپ کی تحریر کو پڑھ کر جو نتیجہ میں نے اخذ کیا تھا وہ درج ذیل ہے
(کیا یہ محنت مثبت نتیجے کی حامل ہے یا منفی آپ احباب نے اس پر غور کیا ؟؟ میں ابھی تک اس نتیجے پر نہیں پہنچا کہ اس تحریر کا مقصد استاذ محترم کی علمی شخصیت کو اجاگر کرنا ہے یا علماء کے حلقہ میں ان کی اہمیت کم کرنا مقصود ہے اور آخر الذکر مقصد قریب زیادہ معلوم ہوتا ہے)
اور میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ کی اس تحریر سے شیخ محترم کے بارے میں غلظ تاثراجاگر ہو رہا ہے
اور عبد اللہ بن مسعود کے اس قول کو یاد کریں
(وكم من مريدٍ للخير لن يصيبه) سنن الدارمی : 204

اور میرا اس سے مقصود آپ کا شیخ محترم سے اختلاف کرنا نہیں بلکہ ان کی شخصیت کو عجیب و غریب انداز میں پیش کرنا ہے۔اختلاف کرنا اگر علمی حدود میں رہ کر کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
اور آپ کا یہ کہنا
(س میں تو کوئی شک نہیں کہ مجھے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ سے دلی لگاؤ اور محبت تھی اور ہے)
اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں تو آپ ان کے بارے میں کچھ بھی لکھیں اور ان کی شخصیت کو کسی بھی انداز میں پیش کریں۔
آپ نے اس مضمون میں کئی باتیں ایسی لکھیں جن کے بارے میں آپ کی معلومات ناقص ہیں ، مثلا ، الاسانید الصحیحۃ ، انوار السبیل ، اور مسئلہ طلاق کے بارے میں بھی۔
آپ کو کم از کم یہ مضمون نشر کرنے سے پہلے شیخ کے کسی معتبر شاگرد کو دیکھا لینا چائیے تھا۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ​
سب سے پہلے میں آپ کو یہ بتا دوں کہ آپ نے جو یہ لکھا ہے کہ
(میرا یہ مطلب ہرگز نہیں جو آپ نے میرے مضمون کے سرسری مطالعہ سے اخذ کیا ہے۔)
تو عرض ہے کہ میں آپ کا مضمون سرسری نہیں غور سے 2 دفعہ پڑھا ہے ، اور مندرجہ بالا تحریر لکھنے پر مجبور ہوا ، اور آپ کی تحریر کو پڑھ کر جو نتیجہ میں نے اخذ کیا تھا وہ درج ذیل ہے
اگر آپ نے غور سے پڑھا ہے تو میں نے آغاز مضمون ہی میں یہ بات لکھ دی تھی ملاحظہ ہو:
چار دن کی قربانی کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہے جو فی زمانہ اہل حدیث کا شعار اور پہچان بن چکا ہے لیکن حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے اس مسلمہ مسئلہ کا انکار کرتے ہوئے تین دن کی قربانی کو راجح قرار دیا۔
کسی مسئلہ کا اہل حدیث کا مسلمہ مسئلہ یا شعار بن جانا علیحدہ بات ہے اور اسکا بادلیل صحیح ہونا علیحدہ بات ہے اور چار دن کی قربانی کا مسئلہ اس وجہ سے اہل حدیث کا مسلمہ مسئلہ تھا کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے پہلے کسی نے اسے مرجوع یا غلط قرار نہیں دیا تھا۔ اس لئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے اہل حدیث کے اس مشہور مسلمہ مسئلہ کا انکار نہیں کیا تو اور کیا کیا ہے؟

(کیا یہ محنت مثبت نتیجے کی حامل ہے یا منفی آپ احباب نے اس پر غور کیا ؟؟ میں ابھی تک اس نتیجے پر نہیں پہنچا کہ اس تحریر کا مقصد استاذ محترم کی علمی شخصیت کو اجاگر کرنا ہے یا علماء کے حلقہ میں ان کی اہمیت کم کرنا مقصود ہے اور آخر الذکر مقصد قریب زیادہ معلوم ہوتا ہے)
اور میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ کی اس تحریر سے شیخ محترم کے بارے میں غلظ تاثراجاگر ہو رہا ہے
یہاں موجود جتنے بھی اہل حدیث بھائیوں نے میرا مضمون پڑھا ہے وہ بھی حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا احترام کرنے والے اور ان سے محبت کرنے والے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آپ کے علاوہ کسی اور نے یہ نتیجہ نہیں نکالا کہ اس مضمون سے حافظ صاحب کا غلط تاثر ابھرتا ہے۔ ایسا تو نہیں کہ آپ ہی مضمون کا غلط تاثر لے رہے ہوں؟

اور عبد اللہ بن مسعود کے اس قول کو یاد کریں
(وكم من مريدٍ للخير لن يصيبه) سنن الدارمی : 204
معاف کیجئے گا مجھے عربی نہیں آتی اس لئے میں نہیں سمجھا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول کیا ہے۔

اور میرا اس سے مقصود آپ کا شیخ محترم سے اختلاف کرنا نہیں بلکہ ان کی شخصیت کو عجیب و غریب انداز میں پیش کرنا ہے۔اختلاف کرنا اگر علمی حدود میں رہ کر کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
میں ایک غیر عالم شخص ہوں اس لئے میرا جو انداز تھا اسی انداز سے میں نے مضمون لکھ دیا۔ اب اگر یہ آپ کو عجیب و غیریب انداز لگ رہا ہے تو بتادیں کہ صحیح انداز کیا ہوتا ہے؟ میں نے نہ تو حافظ صاحب سے اختلاف میں مضمون لکھا ہے اور انکی حمایت میں۔ بلکہ میں نے اپنی نظر میں انکی شخصیت کا خاکہ سامنے رکھا ہے جس میں اپنی جانب سے کوئی موقف یا نظریہ بنانے کے بجائے سب کچھ حافظ صاحب کی اپنی تحریروں سے ہی پیش کیا ہے۔

اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں تو آپ ان کے بارے میں کچھ بھی لکھیں اور ان کی شخصیت کو کسی بھی انداز میں پیش کریں۔
میرے بھائی مضمون میں جو کچھ بھی ہے وہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی اپنی تحریریں ہیں اس لئے ’’کچھ بھی لکھنے‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ میں نے کون سا اپنی طرف سے گھڑ گھڑ کر عبارتیں حافظ صاحب رحمہ اللہ کے ذمہ لگائی ہیں؟
میری پیشکش کا انداز غلط ہوسکتا ہے لیکن حافظ صاحب کے متعلق کی گئی باتیں غلط نہیں ہیں۔

آپ نے اس مضمون میں کئی باتیں ایسی لکھیں جن کے بارے میں آپ کی معلومات ناقص ہیں ، مثلا ، الاسانید الصحیحۃ ، انوار السبیل ، اور مسئلہ طلاق کے بارے میں بھی۔
تو آپ ان ناقص معلومات کو کامل کردیں۔

آپ کو کم از کم یہ مضمون نشر کرنے سے پہلے شیخ کے کسی معتبر شاگرد کو دیکھا لینا چائیے تھا۔
چونکہ میں عالم نہیں ہوں اس لئے میری عادت ہے کہ کسی بھی مضمون کی اشاعت سے پہلے میں کسی اہل علم سے مضمون کی نظر ثانی کروالیتا ہوں۔ پہلے رفیق طاہر حفظہ اللہ میرے تمام مضامین پر نظر ثانی کرتے تھے لیکن چونکہ اب وہ موجود نہیں اور کسی اور عالم کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ پورے پورے مضمون پر نظر ثانی کرے پھر اغلاط کی جانب نشاندہی کرے اس لئے میں نے جیسے مضمون لکھا تھا ویسے ہی فورم پر پیش کردیا۔ ویسے میں نے مضمون پیش کرنے سے پہلے یہ لکھا تھا کہ میں نے مضمون میں کچھ ایسی باتیں لکھی ہیں جن پر بہت سوں کو اعتراض ہوسکتا ہے۔ یہ باتیں قاھر الارجاء و الخوارج بھائی نے بھی پڑھیں تھیں اگر قاھر الارجاء بھائی مجھے بتا دیتے کہ مضمون کی اشاعت سے پہلے حافظ صاحب کے شاگرد سے مضمون پر نظر ثانی کروائی جاسکتی ہے تو میں ضرور آپ سے مضمون کی اصلاح کروالیتا کیونکہ میں آپ کو پہلے نہیں جانتا تھا اس لئے ایسا نہ ہوسکا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
عدنان سلفی نے کہا ہے:
اور عبد اللہ بن مسعود کے اس قول کو یاد کریں
(وكم من مريدٍ للخير لن يصيبه) سنن الدارمی : 204
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس جملہ کا معنی ہے کہ ::کتنے ہی بھلائی اور نیکی کےخواہشمند ایسے ہیں ،،جنہیں ان کی نیکی (کا صلہ اور مقصد )حاصل نہیں ہوتا
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے دراصل یہ جملہ ان بدعتیوں کےلئے کہا تھا جو خود ساختہ طریقہ ذکر پر کاربند تھے۔​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
عدنان سلفی بھائی !
آپ براہ کرم ،اس مضمون میں جو چیزیں ۔۔آپ کے خیال میں ۔۔ٹھیک نہیں ، وہ آسان ،واضح ،الفاظ میں لکھ دیں ،،
 
Top