ایک نظر ادھر بھی میرے بھائی :
’کشمیری عالم کے قتل کا منصوبہ، پاکستانی شدت پسندوں کا‘
مولانہ شوکت سرینگر میں ہوئے ایک بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں سرگرم کالعدم تنظیم لشکر طیبہ سے منسوب ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چار ماہ قبل معروف عالم دین مولانا شوکت شاہ کے قتل کا منصوبہ پاکستانی شدت پسندوں نے بنایا تھا۔
رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ پاکستان میں مقیم مسلح گروپ تحریک المجاہدین کے لئے کام کرنے والے بعض شدت پسندوں نے بنایا اور ان میں سے ایک بنیادی ملزم نے بھارتی فوج کے لئے مخبری کا کام بھی کیا ہے۔
جاوید منشی نےمیرے سامنے مولانا کو قتل کرنے کی خواہش ظاہر کی تو میں نے سختی سے روکا کہ یہ درست نہیں ہے، بعد میں جاوید نے قتل کے بعد انتقاماً پولیس میں میرا نام دیا۔عبداللہ یونی
غیرسرکاری سطح پر مولانا کے قتل کی تفتیش کرنے والی علیحدگی پسندوں اور مذہبی جماعتوں کی کل جماعتی تحقیقاتی کمیٹی نے جمعرات کو لشکر طیبہ سے منسوب ایک رپورٹ جاری کی ہے۔
اس رپورٹ میں مولانا شوکت کے قتل کی سازش سے متعلق پوری تفصیل اور کشمیر میں سرگرم لشکر کمانڈر عبداللہ یونی کی طرف سے وضاحتی بیان شامل ہے۔ واضح رہے پولیس کی فرد جرم میں جن آٹھ افراد کو بنیادی ملزم قرار دیا گیا ہے ان میں عبداللہ یونی بھی شامل ہے۔
اس رپورٹ میں واضح عندیہ دیا گیا ہے کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مقیم تحریک المجاہدین کے ساتھ وابستہ ابو عمیر اور سرینگر کے رہنے والے جاوید منشی عرف بل پاپا اور نثار احمد نے مولانا شوکت کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ دونوں اس وقت پولیس حراست میں ہیں۔
ہمارا ابتدائی خیال تھا کہ بھارتی فوج اور اداروں نے تحریک کو کمزور کرنے اور آپس میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لئے مولانا شوکت شاہ کو شہید کیا ہے۔ ہمارے گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ قاتل ہمارے ہی لوگ نکل آئیں گے۔
لشکرِ طیبہ کی رپورٹ
رپورٹ میں عمیر، نثار اور جاوید منشی کے لشکر کے تعلقات کا اعتراف کیا گیا ہے لیکن کشمیر میں سرگرم ڈویژنل کمانڈر عبداللہ یونی کے بیان کو نقل کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جاوید منشی نے ان کے سامنے مولانا کو قتل کرنے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے سختی سے روکا کہ یہ درست نہیں ہے۔
واضح رہے پولیس نے دعویٰ کیاتھا کہ لشکر طیبہ کے عبداللہ یونی نے ہی جاوید منشی کو مولانا کے قتل کی خاطر بارود مہیا کیا تھا۔ اس کے جواب میں لشکر رپورٹ میں کہا گیا ہے’دو ہزار دس میں عمیر کے ذریعہ سے کچھ اسلحہ لانچ ہوا جو جاوید کے پاس ہی گیا۔ انہوں نے ہم سے تقریباً ایک لاکھ روپے لئے اور بارود بنایا لیکن بعد میں بہانہ کرکے کہا کہ وہ سامان پکڑا گیا، ضائع ہوگیا۔‘
جاوید کے بارے میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس نے پاکستان آکر مسلح گروپوں کی ویڈیو فلم بنائی اور کشمیر میں شدت پسندوں کے دو اعانت کاروں کو گرفتار کروایا۔ اس کے بعد جاوید نے کپوارہ کے ایک گاؤں میں لشکر طیبہ کے دو شدت پسندوں کی موجودگی کے بارے میں فوج کو اطلاع دی جس کے بعد فوج کے ساتھ تصادم میں دونوں مارے گئے۔
رپورٹ کے مطابق جاوید نے کپوارہ کے ایک گاؤں میں لشکر طیبہ کے دو شدت پسندوں کی موجودگی کے بارے میں فوج کو اطلاع دی جس کے بعد فوج کے ساتھ تصادم میں دونوں مارے گئے۔
لشکر طیبہ سے منسوب اس رپورٹ کے ابتدائی اقتباس میں لکھا ہے ’ہمارا ابتدائی خیال تھا کہ بھارتی فوج اور اداروں نے تحریک کو کمزور کرنے اور آپس میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لئے مولانا شوکت شاہ کو شہید کیا ہے۔ ہمارے گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ قاتل ہمارے ہی لوگ نکل آئیں گے۔‘
رپورٹ کے مطابق یہ نتیجہ اُسوقت اخذ کیا گیا جب گزشتہ ماہ معد عمران عرف ابوقتال فدائی سرینگر کی جیل سے رہا ہوکر پاکستان چلاگیا اور وہاں اس نے جاوید منشی کے ساتھ جیل میں ہوئی ملاقات کی تفصیل بتائی۔
قابل ذکر ہے کل جماعتی تحقیقاتی کمیٹی میں سید علی گیلانی اور میرواعظ عمرفاروق کی سربراہی والے حریت کانفرنس کے دونوں دھڑے، محمد یٰسین ملک کی لبریشن فرنٹ، جمعیت اہلِ حدیث اور جماعت اسلامی سمیت متعدد علیٰحدگی پسند اور مذہبی گروپ شامل ہیں۔
کمیٹی نے چند ماہ قبل قاتل کو ’دونوں طرف ڈھونڈنے‘ کی کوششوں کا آغاز کیا۔ کمیٹی نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ وہ پاکستان اور پاکستان میں مقیم مسلّح تنظیموں کا تعاون بھی طلب کریں گے۔
BBC Urdu - نڈیا - ’کشمیری عالم کے قتل کا منصوبہ، پاکستانی شدت پسندوں کا‘