• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حافظ عبدالرحمن مدنی﷾ کا تحقیقی اور تعلیمی مشن

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
س: آج کل کن کن منصوبوں پر کام ہورہا ہے یا مجلس تحقیق اسلامی کے آئندہ پروگرام کیا ہیں؟
ج: مجلس کا عظیم منصوبہ ’موسوعہ قضائیہ‘ تو چل ہی رہا ہے، البتہ معاشی اور معاشرتی میدان بھی ہمارا مطمح نظر ہیں۔ معاشیات کے سلسلے میں قوانین کا جائزہ ۱۹۸۵ء تک وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا اس لیے اس میدان میں ۱۹۸۵ء کے بعد ہی ہمیں کام کرنے کی طرف زیادہ توجہ ہوئی۔ میری مراد سودسے متعلقہ قوانین ہیں جن کے بارے میں پہلے وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دیا اور بعدازاں سپریم کورٹ کے شریعت بنچ نے ۱۹۹۹ء کے اندر اس کے تفصیلی پہلوؤں کو واضح کیا۔ شرعی عدالت کے لیے ہم نے اپنا بھر پور علمی تعاون مہیا کیا اور میں نے خود سپریم کورٹ میں پیش ہو کر سود کی بحث میں حصہ لیا اور اس موقع پر محدث نے اپنا خصوصی شمارہ ’سود نمبر‘ بھی نکالا۔ سپریم کورٹ (شریعت بنچ) نے سود کے خلاف بڑے اہم نکات پیش کیے تھے لیکن جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے سازش کرتے ہوئے اسے نہ صرف کالعدم کروایا بلکہ یہ کیس دوبارہ وفاقی شرعی عدالت کو ہی بھیج دیا گیا جس کی ابھی تک کوئی نئی سماعت ہوتے بھی نظر نہیں آرہی۔ آج کل ہم معاشیات کے میدان میں Centre of Excellence for Islamic Economics, Finance and Banking کا تربیتی اور تحقیقی مرکزقائم کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔
اس مرکز کو قائم کرنے کی بنیادی سوچ یہ ہے کہ ہماری تجارت اور بینکاری اسلامی اصولوں پر قائم کرنے کے لیے رجالِ کار کو تیار کیا جائے۔ کیونکہ ابھی تک معاشیات کے میدان میں صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں نے سودی نظام کے ساتھ اسلامی پیوندکاری کا کام شروع کررکھا ہے۔ یعنیموجودہ بینکاری سسٹم کے مختلف پروگراموں کو حیلے بہانے سے اسلامی قرار دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اسلام کے دعوے دار بینکوں نے شرعی مشیروں کو بھاری مشاہرے دے کر اسی کام کے لیے اپنا ہم نوا بنا رکھا ہے۔ گویا ان کا مقصد سود کا خاتمہ نہیں بلکہ سود کی مختلف شکلوں کے لیے حیلوں سے شرعی تائید پیش کرناہے یہی وجہ ہے کہ سیکولربنک بھی اسلامی ونڈوز کھول کر اس نفع بخش کاروبار میں شریک ہو رہے ہیں۔ اگرچہ ایسے مشیران خاص حلقوں میں یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ یہ اسلامی بینکاری کا عبوری دور ہے۔ گویاجس طرح جمہویت اور سوشلزم کے ساتھ اسلامی کا لفظ لگا کر مسلمانوں نے انہیں اسلامی بنا لیا ،اسی طرح اسلامی بینکاری کو رواج دیا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشی ماہرین اور قانون دان حضرات شریعت کی ٹھوس تعلیمات اور گہرے مقاصد سے تو واقف نہیں، اس لیے وہ اسے ہی اسلام سمجھ رہے ہیں۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ اس میں وہ لوگ آگے آئیں جو کتاب وسنت، مقاصد شرعیہ اوراِسلامی اصول وقواعدکا تقابلی مطالعہ رکھتے ہوں، جن کے معاون وہ لوگ بھی بنیں جو جدید نظاموں سے واقف ہیں۔ واضح رہے کہ اصل شریعت ہے جس کے مطابق اداروں کی تشکیل ہونی چاہیے، نہ کہ اداروں کو اصل قرار دے کر شریعت کی پیوند کاری کی جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسلامی بینکاری کے سلسلے میں ہم نے تقریباً دو سال سے کام شروع کر رکھا ہے، جس میں پہلے ہم نے علماء اور بینکار حضرات پر مشتمل ایک بڑا سیمینار کیا۔ اس مذاکرے کے دوران جو اہم پہلو اور نکات اجاگر ہوئے، ہم نے ان پر غور وفکر کے لیے ایک گیارہ رکنی کمیٹی بنا دی جس کے اب تک بہت سے اجلاس ہوچکے ہیں۔ اس کمیٹی کے ارکان حسب ذیل ہیں:
۱۔ حافظ ذو الفقار علی ۲۔ ڈاکٹر محمد اکرم میاں ۳۔ جناب محمد ایوب صاحب
۴۔ ڈاکٹر محمد عزیر البازی ۵۔ حافظ عاطف وحید ۶۔ ڈاکٹر عبد الواحد صاحب
۷۔ ڈاکٹر حافظ خلیل احمد ۸۔ پروفیسر محمد آصف انصاری ۹۔ مفتی محمد افتخار بیگ
۱۰۔ حافظ ضیاء اللہ برنی ۱۱۔ حافظ عبد الرحمن مدنی
ہماری یہ مستقل کمیٹی اپنے اجلاسوں میں دیگر علماء اور معاشی ماہرین کو بھی دعوت دیتی رہتی ہے، اس طرح جو نکات طے ہوجاتے ہیں ان کی رپورٹ تیار ہونے پرکمیٹی آئندہ اجلاس میں بقیہ نکات یا نئے پیش آنے والے اہم سوالات پر غور وفکر کرتی ہے۔ اس طرح مسلسل کام چل رہا ہےCentre of Excellence for Islamic Economics, Finance and Banking قائم کرنے کی تجویز بھی اسی کمیٹی کی تیار کردہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
س: جدید حلقوں میں مجلس نے جو کام کیے یا اس کے پیش نظر ہیں، ان کا ایک تعارف توسامنے آگیا ہے۔ گذشتہ انٹرویو میں آپ نے قرآن مجید کی متنوع قراء ات اور مختلف لہجوں کے بارے میں اپنے منصوبے کا ذکر کیا تھا۔ مستشرقین نے قرآن مجید کے ان لہجوں کے حوالے سے عوام کو قرآن سے بدظن کرنے کی بھی بڑی کوششیں کی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اگرچہ برصغیر میں مروج روایت حفص کے علاوہ امام نافعؒ کی دونوں قراء تیں جو ان کے شاگردوں ورشؒ اور قالونؒ سے منسوب ہیں، اسی طرح رائج ہیں اور بعض دیگر ممالک سوڈان وغیرہ میں دوری عن ابی عمرو البصری بھی پڑھی جاتی ہیں۔ آپ قراء کے حلقوں کے علاوہ عام دانشوروں اور عوام کو کیسے مطمئن کریں گے؟
ج: دنیائے اسلام میں مروج متنوع قراء ات اور روایات کی بناء پر بین الاقوامی سطح پر کئی ادارے کام کررہے ہیں جن میں مجمع الملک فہد (مدینہ منورہ) بھر پور کام کر رہا ہے۔ لیبیا اورمراکش اپنے ہاں رائج قراء توں پر تو کام کر ہی رہے ہیں لیکن مصر اور سوڈان نے بین الاقوامی سطح پر بھی کافی کام کیا ہے۔ اس لیے وہاں کے عوام متنوع قراء توں سے مانوس ہیں۔ البتہ برصغیر پاک وہند جہاں اچھے بھلے پڑھے لکھے بلکہ ایم۔ اے اسلامیات تک بہت سے جدید تعلیم یافتہ سادہ قرآن بھی نہیں پڑھ سکتے۔وہاں قراء توں کا تعارف کافی مشکل ہے۔ اگرچہ برصغیر میں قاری محی الاسلام پانی پتیؒ نے متواتر عشرہ قراء ات پر مشتمل قرآن شائع کیا تھا، بعدازاں پاکستان کے مشہور استاد قاری اظہار احمد تھانویؒ صاحب نے شام کے تیار کر دہ دس قراء توں والے قرآن مجید کو قراء ت اکیڈمی لاہور کے ذریعے چھپوایا تھا جو تجوید وقراء ات کے مدارس میں داخل نصاب ہے۔ اسی طرح پاکستان کی بیشتر یونیورسٹیاں قرآن سے متعلقہ علوم پر جو تحقیقی مقالے تیار کرواتی ہیں ان میں قراء توں پر بھی کافی کام موجودہے جس کی ایک فہرست رشد کے قراء ات نمبر حصہ دوم میں شائع ہوچکی ہے۔ ہم نے جامعہ لاہور الاسلامیہ کے آرگن ماہنامہ رشد کے جو تین ضخیم حصے شائع کرنے کا پروگرام بنایا، وہ اسی تعارف کی غرض سے ہے لیکن مستشرقین کے طفیلی منکرین حدیث نے غلط طور پر یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے کہ ہم من گھڑت قرآن مجید چھاپ کر اختلافات پیدا کر رہے ہیں۔ حالانکہ ہمارا ایساکوئی اشاعتی پروگرام نہیں ہے البتہ اس سلسلہ میں دوسرے ملکوں اور ہماری دانش گاہوں میں جو کام ہوا ہے اس کا تعارف ہم نے ضرور کروایا ہے۔ یا بعض بین الاقوامی اداروں سے ہم علمی تعاون کر رہے ہیں جس میں کویت کا بین الاقوامی ادارہ حامل المسک بھی شامل ہے۔ ایسے شبہات کے ازالہ کے لیے ’رشد‘ کے موجودہ خاص شمارے (حصہ سوم) میں بھی کئی مضامین موجودہیں۔ جامعہ لاہور الاسلامیہ کی معہد ثانوی (مدرسہ رحمانیہ) نے تجوید و قراء ات کا کام ۱۹۷۷ء میں ہی شروع کر دیا تھاجب کلیۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کے موجودہ نگران اعلیٰ قاری محمد یحییٰ رسولنگری مدرسہ رحمانیہ میں تدریس کے لیے تشریف لائے تھے۔ اسی تعلیمی سال کے اختتام پر مدرسہ رحمانیہ بالمقابل قذافی سٹیڈیم(۲۷۰؍فیروز پور روڈ لاہور) میں ایک بڑی تقریب منعقد کی گئی تھی جس میں قاری اظہار احمد تھانویؒ، حافظ نذر احمد(مؤلف درس قرآن) اور پروفیسر عبدالقیومؒ(سابق سینئر ایڈیٹر اردو انسائیکلو پیڈیا آف اسلام) نیبرصغیر پاک و ہند میں قرآنی قراء ات اور قرآنی خدمات کا ایک تاریخی جائزہ بھی پیش کیا تھا۔ اس مذاکرے کے آخر میں قاری اظہار احمد تھانوی نے مدرسہ رحمانیہ سے فارغ ہونے والے حضرات کو اسناد بھی تقسیم کی تھیں، جن میں دوفاضل برادران حافظ عبدالغفار گوندل اور ڈاکٹر حافظ عبدالقادر گوندل بھی شامل تھے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر عبدالقادر گوندل نے حال ہی میں وزیر داخلہ سعودی عرب سموا لأمیر الملکی نائف بن عبدالعزیز آل سعود کے ہاتھوں ایک بڑا اکیڈمک انعام حاصل کیا ہے جو تقریباً ایک کروڑ پاکستانی روپے کے برابر ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
س: مجلس کے تیسرے انسائیکلوپیڈیا کا بھی تتمہ کے طور پر ذکر کر دیجیے۔
ج: علمی تحقیقات کے لیے لائبریری کی بنیادی حیثیت ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ لاہور شہر میں مجلس کے پاس ایک دینی اور شریعت کے سارے اہم پہلوؤں پر تصنیفات کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ لیکن دینی رسائل وجرائد میں جو بہت سے علمی مقالے اور تحقیقات وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہتی ہیں وہ دست برد زمانہ کی نظر ہوجاتی ہیں۔ جب موسوعہ قضائیہ کے سلسلے میں دنیا بھر کی لائبریریوں سے ہمارے وفود استفادہ کرتے رہے اور اس طرح سافٹ وئیر کا ایک بڑا ذخیرہ بھی مجلس کی لائبریری میں جمع ہوگیا جو بہت کم کسی اور لائبریری میں موجود ہے۔ تو خیال ہوا کہ برصغیر کی گذشتہ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں جو علمی فکری تحریکیں اور تحقیقی مقالات شائع ہوتے رہے ہیں، ان کو بھی جمع کرنا چاہیے۔
چونکہ ایک بڑی لائبریری ہونے کے ناطے پنجاب یونیورسٹی اور دیگر دانش گاہوں میں ایم۔ فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے والے حضرات بھی اکثر ہم سے رجوع کرتے۔ انہیں بہت دفعہ اپنے موضوع کے حوالے سے مطبوعہ تصنیفات کی بجائے رسائل وجرائد سے بھی استفادہ کرنا پڑتا ہے جس کے بارے میں انہیں علم نہیں ہوتا کہ کون کون سے عنوانات پر اہل علم خامہ فرسائی کر چکے ہیں؟ اسی طرح متعلقہ رسائل وجرائد بھی میسر نہیں آتے۔ ہم نے اول تو یہ کوشش کی کہ۱۵۰ سال سے نکلنے والے زیادہ سے زیادہ رسائل اپنی لائبریری میں جمع کرلیں ورنہ دوسری لائبریریوں سے مراجعت کر کے ان رسائل کے تمام اشاریے تیار کریں تاکہ معلوم ہوجائے کہ فلاں ماہ وسال کے فلاں شمارے میں اس موضوع سے متعلقہ کچھ لکھا گیا ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے تقریباً سات سو رسائل کا اشاریہ تیار کرنے کا منصوبہ ہے۔ جن میں سے تقریباً ۸۰ رسائل وجرائد کی اشاریہ بندی ہوچکی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
س: آپ نے ایک سوال کے جواب میں ابھی ذکر کیا ہے کہ ہم نے دنیا بھر سے اسلامی ورثہ پر مشتمل بہت سے سافٹ وئیر حاصل کئے ہیں۔ کیا مجلس کی کوئی اپنی ویب سائٹ بھی ہے؟ یا سافٹ وئیر کا کام ہورہا ہے؟
ج: مجلس تحقیق اسلامی، ماہنامہ محدث لاہور اور مجلس سے متعلقہ بہت سے حضرات کی اپنی ویب سائٹس موجود ہیں۔ مجلس تحقیق الاسلامی کی اپنی ویب سائٹ کا نام (www.KitaboSunnat.com)ہے۔ جو درج ذیل خدمات انجام دے رہی ہے:
٭ اُردو زبان میں آن لائن اِسلامی لٹریچر پر مبنی بہترین اَور مستند مواد
٭ موضوعاتی اِنڈیکس کے ساتھ ہر موضوع پر جید علماء کی تصانیف ومضامین
٭ کتب اور مضامین کی فری ڈاؤن لوڈنگ کی سہولت
٭ شرعی راہنمائی کے لیے آن لائن فتویٰ کی سہولت (جوکہ مستقبل قریب کا پروجیکٹ ہے)
٭ تلاوت قرآن کریم،نظمیں اور تقاریر ودروس پر مبنی آڈیو، ویڈیو سیکشن (جو تکمیلی مراحل میں ہے اور جلد ہی آن لائن کر دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ)
٭ مختلف آن لائن اِسلامک سافٹ وئیرز اور آن لائن لائبریری (اس پر بھی کام جاری ہے )
٭ آن لائن ماہنامہ ’محدث‘ اور ماہنامہ ’رُشد‘ (مکمل شمارے)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
س: مجلس کے منصوبوں کوجلد مکمل کرنے کیلئے آپ کو کونسی مشکلات حائل ہیں؟
ج : دنیا مسابقت کا میدان ہے، اِنسان چاہتا ہے کہ بڑے بڑے مقاصد فوراً پورے ہو جائیں لیکن عملی میدان میں اترنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اِنسان صرف وہ کام کرسکتا ہے جس کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے میسر آ جائے۔ ظاہری طور پر انہیں وسائل بھی کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے کچھ تحقیقی اور نشریاتی اِدارے تو وہ ہیں جن کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے لہٰذا ان کے پاس تووسائل کی کوئی کمی نہیں۔ البتہ تحقیقی کام کو پرائیویٹ طور پر انجام دینے کے لیے نہ صرف عوام کی اخلاقی حمایت کے ساتھ عام زندگی میں پیش آنے والے لٹریچر کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اہل خیر کی بھرپور معاشی سپورٹ بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے نشریاتی ادارے علم وتحقیق کی بجائے اپنے تجارتی مقاصد کو بروئے کار لانے پر مجبور ہوجاتے ہیں، چنانچہ وہ یا تو پہلے سے موجود کتب کو نئے سے نئے پرکشش طباعتی معیار سے چھاپنے کا کام کرتے ہیں یا خلیجی ممالک کے مشہور شیوخ کے پمفلٹوں اور تصنیفات کے ترجموں پر ہی اپنا وقت صرف کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ ایسے کاموں کے لیے انہی شیوخ کے ذریعے نہ صرف مالی مدد مل جاتی ہے بلکہ ان کے توسط سے اچھے گیٹ اپ سے چھاپی ہوئی مطبوعات کے بڑے آرڈر بھی ملنے لگتے ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔اسی طرح تحقیق کا ذوق رکھنے والوں کی بھی معاشی مشکلات ہوتی ہیں لہٰذاان کے لیے بھی آسانی اسی میں رہتی ہے کہ وہ پہلے سے طبع شدہ تفاسیر و احادیث کی کتابوں کے اردو ترجموں کی پرانی زبان کی نوک پلک درست کر دیں۔ اس طرح انہیں بڑا حق خدمت بھی مل جاتا ہے اور ان کی تیار کردہ کتابیں بھی جلد مارکیٹ میں آجاتی ہیں۔
مجلس تحقیق اسلامی نے تجارتی مفاد سے قطع نظر جو مذکورہ بالاتحقیقی کام شروع کیے ہیں، ان کے لیے اسے مناسب اہلیت رکھنے والے محققین کی شدید ضرورت رہتی ہے، اسی طرح مجلس تحقیق الاسلامی نے اصول تفسیر، حدیث اور فقہ پر اساسی لٹریچر مہیا کرنے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔ حدیث کی مشہور دو جلدوں پر مشتمل کتاب ’تدریب الراوی‘ کا اردو ترجمہ عرصہ سے تیار ہے جس کی مراجعت بھی کئی اہل علم سے کروالی گئی ہے۔ اسی طرح اصول فقہ کی جامع ترین کتاب ’ارشاد الفحول‘(شوکانی)کا ترجمہ اصول فقہ کے متخصص استاد مولانا زید احمد سے کروایا گیا جو اب نظر ثانی اور حواشی کے اضافے کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ بہت سے دیگر چھوٹے موٹے کام بھی تیار ہیں جو کسی اشاعتی اور تقسیم کرنے والے ادارے کے تعاون سے ضرورت مندوں تک پہنچ سکتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
س: مجلس کے حالیہ رفقاء کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ کیا وہ آپ کے خوابوں کی تعبیر بن سکتے ہیں؟
ج:
نہیں مایوس اقبال اپنی کشت ِویراں سے
ذَرا نم ہو تویہ مٹی بہت زَرخیز ہے ساقی!​
میں دینی مدارس بالخصوص جہاں ساتھ ساتھ دنیاوی علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں (جیسے ہماری درسگاہ ہے) اس سے فارغ ہونے والے نوجوانوں کو بڑا قیمتی سمجھتا ہوں۔ لیکن جن مشکلات کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، جب تک وہ نہ پوری ہوں، اس وقت تک ایسے نوجوانوں کو تا دیر مطمئن نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ اس عمر میں والدین کی بھی توقع ہوتی ہے کہ نوجوان بیٹا ہمارا سہارا بنے اور نیا گھر بسانے کی آرزو بھی ہوتی ہے اس لیے جب تک کوئی ادارہ ایسے نوجوانوں کو خاطر خواہ معاشی کفالت دے کر انہیں مطمئن نہ کر دے وہ اپنے اعلیٰ مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ میری ہر دم یہی کوشش ہے کہ میں اپنی معنوی اولاد کو ایسے سازگار حالات مہیا کر سکوں۔ اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ ہماری دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرے اور ہماری آخرت بھی بہتر بنا دے۔آمین
ربنا آتنا فی الدنیا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار (البقرۃ: ۲۰۱)

٭_____٭_____٭
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
حدیث کی مشہور دو جلدوں پر مشتمل کتاب ’تدریب الراوی‘ کا اردو ترجمہ عرصہ سے تیار ہے جس کی مراجعت بھی کئی اہل علم سے کروالی گئی ہے۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.
محترم شیخ @خضر حیات صاحب حفظہ اللہ
محترم جناب @محمد نعیم یونس صاحب حفظہ
اگر آپ لوگوں کو اس کتاب کے بارے میں علم ہو تو آگاہ کریں.
جزاکم اللہ خیرا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ماشاءاللہ ، کمال معلوماتی انٹرویو ، جو علم و فضل کے حصول ، اور امت مسلمہ کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہونے پر ابھارتا ہے ۔
حضرت مدنی حفظہ اللہ کے بہت سارے تفصیلی انٹرویوز ہونے چاہییں ، اور مکمل توجہ اور عنایت کے ساتھ ہونے چاہییں ۔
 
Top