ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
س: آج کل کن کن منصوبوں پر کام ہورہا ہے یا مجلس تحقیق اسلامی کے آئندہ پروگرام کیا ہیں؟
ج: مجلس کا عظیم منصوبہ ’موسوعہ قضائیہ‘ تو چل ہی رہا ہے، البتہ معاشی اور معاشرتی میدان بھی ہمارا مطمح نظر ہیں۔ معاشیات کے سلسلے میں قوانین کا جائزہ ۱۹۸۵ء تک وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا اس لیے اس میدان میں ۱۹۸۵ء کے بعد ہی ہمیں کام کرنے کی طرف زیادہ توجہ ہوئی۔ میری مراد سودسے متعلقہ قوانین ہیں جن کے بارے میں پہلے وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دیا اور بعدازاں سپریم کورٹ کے شریعت بنچ نے ۱۹۹۹ء کے اندر اس کے تفصیلی پہلوؤں کو واضح کیا۔ شرعی عدالت کے لیے ہم نے اپنا بھر پور علمی تعاون مہیا کیا اور میں نے خود سپریم کورٹ میں پیش ہو کر سود کی بحث میں حصہ لیا اور اس موقع پر محدث نے اپنا خصوصی شمارہ ’سود نمبر‘ بھی نکالا۔ سپریم کورٹ (شریعت بنچ) نے سود کے خلاف بڑے اہم نکات پیش کیے تھے لیکن جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے سازش کرتے ہوئے اسے نہ صرف کالعدم کروایا بلکہ یہ کیس دوبارہ وفاقی شرعی عدالت کو ہی بھیج دیا گیا جس کی ابھی تک کوئی نئی سماعت ہوتے بھی نظر نہیں آرہی۔ آج کل ہم معاشیات کے میدان میں Centre of Excellence for Islamic Economics, Finance and Banking کا تربیتی اور تحقیقی مرکزقائم کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔
اس مرکز کو قائم کرنے کی بنیادی سوچ یہ ہے کہ ہماری تجارت اور بینکاری اسلامی اصولوں پر قائم کرنے کے لیے رجالِ کار کو تیار کیا جائے۔ کیونکہ ابھی تک معاشیات کے میدان میں صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں نے سودی نظام کے ساتھ اسلامی پیوندکاری کا کام شروع کررکھا ہے۔ یعنیموجودہ بینکاری سسٹم کے مختلف پروگراموں کو حیلے بہانے سے اسلامی قرار دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اسلام کے دعوے دار بینکوں نے شرعی مشیروں کو بھاری مشاہرے دے کر اسی کام کے لیے اپنا ہم نوا بنا رکھا ہے۔ گویا ان کا مقصد سود کا خاتمہ نہیں بلکہ سود کی مختلف شکلوں کے لیے حیلوں سے شرعی تائید پیش کرناہے یہی وجہ ہے کہ سیکولربنک بھی اسلامی ونڈوز کھول کر اس نفع بخش کاروبار میں شریک ہو رہے ہیں۔ اگرچہ ایسے مشیران خاص حلقوں میں یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ یہ اسلامی بینکاری کا عبوری دور ہے۔ گویاجس طرح جمہویت اور سوشلزم کے ساتھ اسلامی کا لفظ لگا کر مسلمانوں نے انہیں اسلامی بنا لیا ،اسی طرح اسلامی بینکاری کو رواج دیا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشی ماہرین اور قانون دان حضرات شریعت کی ٹھوس تعلیمات اور گہرے مقاصد سے تو واقف نہیں، اس لیے وہ اسے ہی اسلام سمجھ رہے ہیں۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ اس میں وہ لوگ آگے آئیں جو کتاب وسنت، مقاصد شرعیہ اوراِسلامی اصول وقواعدکا تقابلی مطالعہ رکھتے ہوں، جن کے معاون وہ لوگ بھی بنیں جو جدید نظاموں سے واقف ہیں۔ واضح رہے کہ اصل شریعت ہے جس کے مطابق اداروں کی تشکیل ہونی چاہیے، نہ کہ اداروں کو اصل قرار دے کر شریعت کی پیوند کاری کی جائے۔
ج: مجلس کا عظیم منصوبہ ’موسوعہ قضائیہ‘ تو چل ہی رہا ہے، البتہ معاشی اور معاشرتی میدان بھی ہمارا مطمح نظر ہیں۔ معاشیات کے سلسلے میں قوانین کا جائزہ ۱۹۸۵ء تک وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا اس لیے اس میدان میں ۱۹۸۵ء کے بعد ہی ہمیں کام کرنے کی طرف زیادہ توجہ ہوئی۔ میری مراد سودسے متعلقہ قوانین ہیں جن کے بارے میں پہلے وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دیا اور بعدازاں سپریم کورٹ کے شریعت بنچ نے ۱۹۹۹ء کے اندر اس کے تفصیلی پہلوؤں کو واضح کیا۔ شرعی عدالت کے لیے ہم نے اپنا بھر پور علمی تعاون مہیا کیا اور میں نے خود سپریم کورٹ میں پیش ہو کر سود کی بحث میں حصہ لیا اور اس موقع پر محدث نے اپنا خصوصی شمارہ ’سود نمبر‘ بھی نکالا۔ سپریم کورٹ (شریعت بنچ) نے سود کے خلاف بڑے اہم نکات پیش کیے تھے لیکن جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے سازش کرتے ہوئے اسے نہ صرف کالعدم کروایا بلکہ یہ کیس دوبارہ وفاقی شرعی عدالت کو ہی بھیج دیا گیا جس کی ابھی تک کوئی نئی سماعت ہوتے بھی نظر نہیں آرہی۔ آج کل ہم معاشیات کے میدان میں Centre of Excellence for Islamic Economics, Finance and Banking کا تربیتی اور تحقیقی مرکزقائم کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔
اس مرکز کو قائم کرنے کی بنیادی سوچ یہ ہے کہ ہماری تجارت اور بینکاری اسلامی اصولوں پر قائم کرنے کے لیے رجالِ کار کو تیار کیا جائے۔ کیونکہ ابھی تک معاشیات کے میدان میں صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں نے سودی نظام کے ساتھ اسلامی پیوندکاری کا کام شروع کررکھا ہے۔ یعنیموجودہ بینکاری سسٹم کے مختلف پروگراموں کو حیلے بہانے سے اسلامی قرار دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اسلام کے دعوے دار بینکوں نے شرعی مشیروں کو بھاری مشاہرے دے کر اسی کام کے لیے اپنا ہم نوا بنا رکھا ہے۔ گویا ان کا مقصد سود کا خاتمہ نہیں بلکہ سود کی مختلف شکلوں کے لیے حیلوں سے شرعی تائید پیش کرناہے یہی وجہ ہے کہ سیکولربنک بھی اسلامی ونڈوز کھول کر اس نفع بخش کاروبار میں شریک ہو رہے ہیں۔ اگرچہ ایسے مشیران خاص حلقوں میں یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ یہ اسلامی بینکاری کا عبوری دور ہے۔ گویاجس طرح جمہویت اور سوشلزم کے ساتھ اسلامی کا لفظ لگا کر مسلمانوں نے انہیں اسلامی بنا لیا ،اسی طرح اسلامی بینکاری کو رواج دیا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشی ماہرین اور قانون دان حضرات شریعت کی ٹھوس تعلیمات اور گہرے مقاصد سے تو واقف نہیں، اس لیے وہ اسے ہی اسلام سمجھ رہے ہیں۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ اس میں وہ لوگ آگے آئیں جو کتاب وسنت، مقاصد شرعیہ اوراِسلامی اصول وقواعدکا تقابلی مطالعہ رکھتے ہوں، جن کے معاون وہ لوگ بھی بنیں جو جدید نظاموں سے واقف ہیں۔ واضح رہے کہ اصل شریعت ہے جس کے مطابق اداروں کی تشکیل ہونی چاہیے، نہ کہ اداروں کو اصل قرار دے کر شریعت کی پیوند کاری کی جائے۔