ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
س: آپ کے بنیادی مقاصد کس حد تک پورے ہوئے؟
ج:ہم نے جوپروگرام تشکیل دیئے، ان میں ہماراساتھ زیادہ تر وہی لوگ دے سکتے تھے جو پاکستانی مدارس میں دینی علوم سے فراغت کے بعد سعودی یونیورسٹیوں میں بھی زیر تعلیم رہے جبکہ پاکستان میں ان کامعاشی مستقبل روشن نہ تھا لہٰذا سعودی یونیورسٹیوں سے ڈگری حاصل کرنے والوں کا زیادہ رجحان یہ تھاکہ سعودی دارالافتاء کے ملازم کی حیثیت سے دوسرے ملکوں یورپ، امریکہ اور اَفریقہ وغیرہ میں جاکر کام کریں یہ تمام مبعوثین شیخ ابن بازؒ کی طرف سے اپنے وطن کے سوا دیگر ملکوں میں مقررکیے جاتے تھے۔اس طرح دار الافتاء نے برصغیر پاک و ہند سے فارغ ہونے والے علماء کی ایک بڑی تعداد دنیا بھر میں بھیج دی۔ لیکن ہم تین ساتھیوں نے وطن واپس آکر اپنے مشن کا کام آگے بڑھانے کاعزم کررکھا تھا، اس لیے ابتداء میں ہم کوئی تعاقدکیے بغیر واپس آگئے۔بعدمیں معاشی ضرورتوں کے پیش نظر حافظ ثناء اللہ مدنی او رمولانا عبدالسلام کیلانی تو دارالافتاء سے منسلک ہوگئے۔ لیکن ۱۹۷۸ء میں پاکستان کادورہ کرنے والے دارالافتاء کے شعبہغیر عربی ممالک کے ڈائیریکٹر جنرل شیخ محمد بن قعودؒ اور شیخ ابن باز ؒ کے سیکرٹری جنرل شیخ عبدالعزیز ناصر بن بازوغیرہ کی دعوت کے باوجود میں نے آزادانہ کام کرنے کو ترجیح دی ۔پاکستان میں ۱۹۷۰ء سے ہی سوشلزم اور اِسلام کی چپقلش چل رہی تھی۔ کیونکہ ’’شوکت اِسلام‘‘ کا جلوس بھی ۱۹۷۰ء میں ہی نکلا تھااور اسی سال دسمبر ۱۹۷۰ئ؍ میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے عوامی انتخابات ہوئے جن میں مشرقی پاکستان کے اَندر مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان کے اَندر ذوالفقار علی بھٹو کو اکثریت حاصل ہوئی۔ اتفاق یہ ہے کہ دسمبر۱۹۷۰ء ؍ میں انتخابات ہوئے اور ماہوار ’محدث‘ کا پہلا شمارہ بھی دسمبر۱۹۷۰ء کا ہے۔
ج:ہم نے جوپروگرام تشکیل دیئے، ان میں ہماراساتھ زیادہ تر وہی لوگ دے سکتے تھے جو پاکستانی مدارس میں دینی علوم سے فراغت کے بعد سعودی یونیورسٹیوں میں بھی زیر تعلیم رہے جبکہ پاکستان میں ان کامعاشی مستقبل روشن نہ تھا لہٰذا سعودی یونیورسٹیوں سے ڈگری حاصل کرنے والوں کا زیادہ رجحان یہ تھاکہ سعودی دارالافتاء کے ملازم کی حیثیت سے دوسرے ملکوں یورپ، امریکہ اور اَفریقہ وغیرہ میں جاکر کام کریں یہ تمام مبعوثین شیخ ابن بازؒ کی طرف سے اپنے وطن کے سوا دیگر ملکوں میں مقررکیے جاتے تھے۔اس طرح دار الافتاء نے برصغیر پاک و ہند سے فارغ ہونے والے علماء کی ایک بڑی تعداد دنیا بھر میں بھیج دی۔ لیکن ہم تین ساتھیوں نے وطن واپس آکر اپنے مشن کا کام آگے بڑھانے کاعزم کررکھا تھا، اس لیے ابتداء میں ہم کوئی تعاقدکیے بغیر واپس آگئے۔بعدمیں معاشی ضرورتوں کے پیش نظر حافظ ثناء اللہ مدنی او رمولانا عبدالسلام کیلانی تو دارالافتاء سے منسلک ہوگئے۔ لیکن ۱۹۷۸ء میں پاکستان کادورہ کرنے والے دارالافتاء کے شعبہغیر عربی ممالک کے ڈائیریکٹر جنرل شیخ محمد بن قعودؒ اور شیخ ابن باز ؒ کے سیکرٹری جنرل شیخ عبدالعزیز ناصر بن بازوغیرہ کی دعوت کے باوجود میں نے آزادانہ کام کرنے کو ترجیح دی ۔پاکستان میں ۱۹۷۰ء سے ہی سوشلزم اور اِسلام کی چپقلش چل رہی تھی۔ کیونکہ ’’شوکت اِسلام‘‘ کا جلوس بھی ۱۹۷۰ء میں ہی نکلا تھااور اسی سال دسمبر ۱۹۷۰ئ؍ میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے عوامی انتخابات ہوئے جن میں مشرقی پاکستان کے اَندر مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان کے اَندر ذوالفقار علی بھٹو کو اکثریت حاصل ہوئی۔ اتفاق یہ ہے کہ دسمبر۱۹۷۰ء ؍ میں انتخابات ہوئے اور ماہوار ’محدث‘ کا پہلا شمارہ بھی دسمبر۱۹۷۰ء کا ہے۔