• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حب رسول کی آڑ میں مشرکانہ عقائد

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ میں مشرکانہ عقائد

از ڈاکٹر شفیق الرحمن حفظہ اللہ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عقیدہ توحید
إِنَّ الْحَمْد للهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ، وَمْنْ يَضْلُلُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدُهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدَاً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَعُوذُ بِاَللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
(إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ)

"بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں، کشتیوں اور جہازوں میں جو دریا میں لوگوں کے فائدے کے لیے رواں دواں ہیں، بارش میں جس کو اللہ آسمان سے برساتا ہے اور اس سے زمین کو مرنے ( خشک ہونے) کے بعد زندہ ( سرسبز) کرنے میں، زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلانے میں، ہواؤں کی گردش میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔"
آیۃ کریمہ اس بات پر شاہد ہے کہ کائنات کا سارا نظام اللہ اکیلے کے اختیار میں ہے۔ جو شخص عقل سے کام لے کر کائنات کے نظام پر غور کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی توحید آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور جو ربِ کائنات پر سوچ سمجھ کر ایمان لاتا ہے یقینا وہ سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ سے کرتا ہے:
{وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّـهِ} (البقرۃ)
"اور ایمان والوں کو سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ سے ہے۔"
کیونکہ محبت اسی سے ہوتی ہے جو مشکل میں کام آئے، خطرات، نقصانات اور حادثات میں تحفظ مہیا کرے، ضروریات کو پورا کرے اور اس کا خیال و محبت دل کو تسکین اور روح کو اطمینان بخشے اور جس میں یہ ساری خوبیاں مستقل بالذات ہوں جن کے زوال کا خیال تک بھی محال ہو یقینا ان سب کے کامل ترین حصول کا سوائے اللہ کے کسی سے تصور کرنا بھی کفر ہے، اس لیے مومن اللہ تعالیٰ کے برابر کسی دوسرے سے محبت نہیں کر سکتا۔

محبت کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ مشترک محبت
۲۔ خاص محبت

۱۔ مشترک محبت:
اس کی تین اقسام ہیں:
ا: طبعی محبت:
بھوکے کو کھانے اور پیاسے کو پانی سے محبت ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھا اور شہد پسند تھا۔ (بخاری:۵۲۶۸، مسلم:۱۴۷۴)
ب: شفقت و رحمت کی محبت: جیسے باپ اور بیٹے کی محبت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے محبت کرتے تھے اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سب بیویوں سے زیادہ محبت کرتے تھے۔ اسی طرح صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے تھے۔ (بخاری: کتاب فضائل الصحابہ)
ج: انسیت کی محبت:
جیسے ان لوگوں کی محبت جو کسی وصف، تجارت یا کسی اور امر میں شراکت دار ہوتے ہیں۔ یا سکول کے ہم جماعت لڑکوں کی آپس میں محبت۔
مشترک محبت کی تینوں اقسام مخلوق میں پائی جاتی ہیں۔ ان کا پایا جانا اللہ تعالیٰ کی محبت میں شرک نہیں ہے۔

۲۔ خاص محبت
یہ وہ محبت ہے جو اللہ کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں۔ یعنی محبت عبودیت جو اللہ کے سامنے ذلت، عاجزی، تعظیم۔ کمال اطاعت اور اسے ہر چیز پر مقدم کرنے کا نام ہے۔ یہ خاص محبت صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ مومن اللہ تعالیٰ سے اور اللہ تعالیٰ مومنوں سے محبت کرتا ہے:
{يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ} (المائدۃ:۵۴)
خاص محبت کا کمال تین باتوں پر موقوف ہے۔
۱۔ کامل محبت:
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں۔
۲۔ اپنے محبوب کے محبوب سے محبت رکھنا محبت کو پورا کرنا ہے۔ مومن انبیاء اور اولیاء سے محبت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے محبوب ہیں۔ اس محبت میں کوئی دوسری غرض شامل نہ ہو تو یہ اللہ تعالیٰ سے کمال محبت کی دلیل ہے۔
۳۔ اس محبت سے ٹکرانے والی ہر چیز سے بغض رکھنا۔ محبوب کے دشمنوں کو اپنا دشمن جاننا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس شخص میں تین خصلتیں پائی گئیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا:
(۱) ایک یہ کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نزدیک دوسری ہر چیز سے محبوب ہو۔
(۲) یہ کہ کسی شخص سے محض اللہ تعالیٰ کے واسطے محبت کرے۔
(۳) اور یہ کہ وہ کفر میں جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے بچا لیا ہے، دوبارہ لوٹ جانے کو اتنا ہی نا پسند سمجھے جتنا آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند سمجھتا ہے۔" (بخاری۲۱۔ مسلم۴۳۔)
اللہ تعالیٰ سے یہ محبت وہی کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید پر صحیح ایمان رکھتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو توحید خالص کی بہترین انداز میں تعلیم دی۔ آپ سیدنا ابنِ عبّاس کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
"اے نوجوان! (میری بات غور سے سن!) میں تجھے چند باتیں سکھلاتا ہوں، انہیں یاد کر لے:
(وہ یہ کہ) تو اللہ (کے احکام) کی حفاظت کر، وہ تیری نگہبانی کرے گا۔ تو اللہ کی طرف دھیان رکھ، تو اسے اپنے سامنے پائے گا، اور جب تو کچھ مانگے تو صرف اللہ سے مانگ، جب مدد چاہے تو اسی سے مدد کا سوال کر، اور جان لے کہ اگر سب لوگ اس بات پر اکھٹے ہو جائیں کہ تمھیں کوئی نفع دیں تو تمہیں نفع نہیں دے سکتے مگر وہی جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے۔ اور اگر سب لوگ اس بات پر جمع ہو جائیں کہ تمہیں کوئی نقصان پہنچائیں تو نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر وہی جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے۔ (تقدیر کے) قلم (سب کچھ لکھ کر) اٹھا دیئے گئے ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔" (ترمذی،۲۵۱۶،صححہ البانی۔)

حبّ رسول:
ایک مومن ہر اس چیز سے محبت کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہو اور ہر وہ چیز مومن کو محبوب ہو گی جو اللہ تعالی کی قربت کا باعث بنے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ہیں۔ امام الانبیاء اور خلیل اللہ ہیں، اس لیے ہمیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے زیادہ محبت نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور محبت کا مقام قلب،زبان اور اعضاء ہیں۔
قلب کی تعظیم:
قلب کی تعظیم یہ ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ آپ کی محبت کو اپنی جان، اولاد، والدین اور تمام لوگوں پر مقدم کیا جائے۔ اس محبت کی تصدیق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کے مقصد کو قبول کرنے سے ہو گی۔ آپ کی بعثت کے مقاصد میں دو باتیں بنیادی ہیں۔
ا: توحید خالص سے محبت:
محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخصیت ہیں جن کے ذریعے ہمیں اللہ تعالیٰ کی توحید کی معرفت اور اللہ کے دین کا صحیح فہم حاصل ہوا۔ آپ نے دعوت توحید کی خاطر اپنی جان، مال، وقت غرض یہ کہ ہر چیز وقف کر رکھی تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے تمام وسائل کاٹ دیئے تھے کیونکہ توحیدِ خالص دین اسلام کی اصل ہے۔ اگر کوئی آپ کی تعظیم اور آپ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے مگر اسے آپ کی دعوت پسند نہیں اور وہ آپ کی دعوت کی مخالفت کرتے ہوئے شرک کرتا ہے تو وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔ جو شخص اسلام کا صحیح فہم حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآنِ حکیم کے ساتھ ساتھ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ کے ذریعے دین کی روح تک پہنچے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس وقت نبوت بخشی جب انسانیت اللہ تعالیٰ کو بھول کر شرک و کفر کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اللہ کے گھر خانہ کعبہ میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے۔ آپ نے ان حالات میں انسانیت کو نجات کا راستہ دکھایا اور اسے کامیابی کی راہوں پر گامزن کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمانے کا مقصد یوں بیان کیا:
{هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ} (الصف:۹)
"وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے اور سب دینوں پر غالب کرے خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے۔"
ب: رسول اللّٰہ کی سچی متابعت:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت یہ ہے کہ آپ کے ہر فیصلے پر راضی ہو، اسے تسلیم کرنا والا ہو، اور دل کی بشاشت کے ساتھ اس پر عمل کرنے والا ہو اور ہر وہ قول اور عمل جو آپ کے راستے کے خلاف ہو اس کی طرف التفات بھی نہ ہو، آپ کی دی ہوئی ہر خبر کی تصدیق کرنے والا ہو۔
زبان سے تعظیم:
زبان کی تعظیم یہ ہے کہ آپ کی مدح و ثنا ان امور کے ساتھ کی جائے جن امور کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مدح فرمائی ہے اور اللہ تعالیٰ سے بہتر آپ کی مدح کوئی نہیں کر سکتا۔ اور کثرت سے آپ پر درود بھیجے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے پاس فرشتہ آیا اور کہنے لگا اے محمد کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ آپ کا رب فرماتا ہے تمہاری امت میں سے کوئی شخص جو تم پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے میں اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجتا ہوں اور جو ایک مرتبہ سلام بھیجتا ہے میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجتا ہوں"۔ (سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۸۲۹۔)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میری امت میں سے جس شخص نے خلوص سے مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھا، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس پر دس دفعہ رحمتیں بھیجتا ہے، اس کے دس درجات بلند کرتا ہے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور دس غلطیاں مٹائی جاتی ہیں۔" (سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی:۳۳۶۰)
اعضا سے تعظیم:
اعضاء سے تعظیم یہ ہے کہ آپ کی اطاعت ہو، جس طرح آپ نے دین کے غلبہ کے لیے محنت کی ہے ویسے ہی دعوت کے میدان میں محنت کی جائے اور دین کے راستے میں حسب استطاعت جہاد کیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانیت سے محبت:
آپ انسانیت کے لیے حد درجہ رحم دل تھے۔ آدم کی اولاد سے آپ کو سچا پیار تھا۔ اس لیے انہیں جہنم کے عذاب سے بچانے کے لیے آپ نے ہر ممکن کو شش کی۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "میری اور تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی تو پروانے اس آگ کی طرف لپکنے لگے اور وہ انہیں بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ میں بھی تم کو کمر سے پکڑ پکڑ کر بچانے کی کوشش کر رہا ہوں اور تم پروانوں کی طرح آگ کے گڑھے کی طرف لپکتے ہو۔" (مسلم :۲۲۸۵۔)
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمتہ العالمین قرار دیا:
{وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ} (الانبیاء:۱۰۷)
"اور (اے محمد) ہم نے تم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر وہ شخص محبت کرے گا جو یہ دیکھے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے سب سے زیادہ خیر خواہ اور ہمدرد تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ} (التوبہ: ۱۲۸)
"لوگو! تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آئے ہیں تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے۔ تمہاری بھلائی نہایت چاہنے والے اور مومنوں پر کمال مہربان اور رحیم ہیں۔"
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ آپ اپنی امت کے بہت خیر خواہ تھے اسی لیے قدم قدم پر آپ نے اپنے امت کی رہنمائی فرمائی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ} (آل عمران:۱۶۴)
"بلاشبہ اللہ نے مومنوں پر بہت احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان پر اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا تھا ان کو سنوارتا اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جنت سے قریب کرنے والی اور جہنم سے دور کرنے والی کوئی چیز باقی نہیں بچی جسے میں نے بیان نہ کردیا ہو۔" (بخاری:۶۴۸۳۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عظیم شفقت کو خود بیان فرمایا:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں ہر مومن کے ساتھ دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ تعلق رکھنے والا ہوں جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ} (الاحزاب:۶)
"بلاشبہ نبی مومنوں کے لیے خود اپنی جانوں سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔" (بخاری:۴۷۸۱۔)
رحمتہ للعالمین کی اپنی امت سے محبت کا بہت بڑا ثبوت اور آپ کی کمال شفقت ہے کہ آپ نے اپنی دعا کو اس امت کی بخشش کے لیے قیامت کے دن تک کے لیے محفوظ کر رکھی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ہر نبی کے لیے ایک قبول ہونے والی دعا (عطا کی گئی) تھی۔ تو ہر نبی نے اپنی دعا مانگنے میں (دنیا کے اندر ہی) جلدی کر لی۔ اور میں نے اپنی دعا کو قیامت والے دن تک اپنی امت کی شفاعت کے لیے چھپا رکھا ہے۔ اور یہ ضرور ان شاء اللہ پوری ہونے والی ہے ہر اس مومن کے لیے جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو۔" (مسلم:۴۹۱۔)
قیامت کے دن حشر کے میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کریں گے اور آپ کو مقام محمود حاصل ہو گا۔ آپ نے اپنی شفاعت کی کیفیت یوں بیان کی "میں اپنے رب سے شفاعت کی اجازت چاہوں گا، پس مجھے اس کی اجازت دے دی جائے گی۔ جب میں اپنے رب کا دیدار کروں گا تو سجدے میں گر جاؤں گا۔ اور وہ جب تک چاہے گا مجھے اسی حالت میں چھوڑے رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ میرا سینہ کھول دے گا اور اپنی تعریفیں میرے اوپر الہام کرے گا۔ پس میں اس کی وہ تعریفیں کر سکوں گا جن کی اب میں قدرت نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ ہی میری طرف وہ تعریفیں وحی کرے گا۔ پھر (اللہ رب العالمین کی طرف سے) کہا جائے گا: (اے محمد!) اپنا سر اٹھایئے! اور مانگیے آپ کو دیا جائے گا۔ کہیے! آپ کی بات سنی جائے گی۔ سفارش کریں! آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ تو میں اپنا سر (سجدے سے) اٹھاؤں گا۔ پھر میں شفاعت کروں گا۔ (اور کہوں گا) “اے میرے پروردگار! میری امت، میری امت (یعنی اے اللہ! میری امت کو بخش دے) “تو مجھ سے کہا جائے گا: جایئے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو، اسے جہنم سے نکال لیجئے۔" (بخاری:۷۵۰۹۔ مسلم:۱۹۳۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت سے اتنی محبت تھی کہ آپ ان کی بخشش کی فکر میں رو پڑتے تھے۔ ملاحظہ فرمائیں:
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:
{رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ} (ابراہیم:۳۶)
"(ابراہیم کہیں گے) اے میرے رب! ان معبودوں نے تو بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا لہٰذا جس نے میری اتباع کی وہ یقینا میرا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی سو تو معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔"
{إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} (المائدہ: ۱۱۸)
"(عیسیٰ کہیں گے: اے میرے پروردگار!) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر معاف فرمائے بلاشبہ تو غالب اور حکمت والا ہے۔" اور پھر اپنے دونوں ہاتھ (دعا کے لیے) اٹھا لیے اور عرض کی: "اے اللہ! میری امت، میری امت، میری امت۔" (کو اپنے عذاب سے بچا لینا) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا اے جبرائیل محمد کے پاس جاؤ اور ان سے جا کر پوچھو: "تمہیں کونسی بات رلاتی ہے؟۔" تو جبرائیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی امت کی فکر میں رونا) جبریل کو بتلایا جبکہ اللہ تو خوب جانتا ہے۔ (کہ اس کا بندہ اور محبوب نبی اپنی امت کی فکر میں کس قدر پریشان ہے) تو اللہ رب العالمین نے جبریل کو (دوبارہ پھر زمین کی طرف بھیجتے ہوئے) فرمایا "اے جبرئیل! محمد کے پاس جاؤ اور کہو: ہم آپ کو آپ کی امت کے معاملے میں خوش کر دیں گے اور آپ کو ناراض نہیں کریں گے۔" (مسلم :۳۴۶۔(۲۰۲)۔)
آپ کا انسانیت سے محبت کا عظیم الشان مظاہرہ فتح مکہ کے موقع پر ہوا۔ بیس سال تک آپ کے خلاف لڑنے والے اور آپ کو ہر طرح کی تکلیف پہنچانے والے مشرکین مکہ آپ کے سامنے بے بس تھے۔ آپ فاتحانہ شان سے مکہ معظمہ کی بلندی کی طرف سے شہر میں داخل ہو رہے تھے۔ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ آپ کی اونٹنی پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ (بخاری ۴۲۸۹ مسلم ۱۳۲۹)
رحمتہ العالمین نے اپنے جان کے دشمنوں کے لیے معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:
"جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے وہ امن میں ہے۔ جو ہتھیار ڈال دے وہ امن میں ہے اور جو اپنا دروازہ بند کر لے وہ امن میں ہے۔" (مسلم:۱۷۸۰۔)
آپ نے قریش سے فرمایا:
"تمہارا کیا خیال ہے میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرنے والا ہوں تو انہوں نے کہا کہ آپ کریم بھائی اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں آپ نے فرمایا میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی:
{لَا تَثْرَیْبَ عَلَیْْکُمُ الْیَوْم} "آج تم پر کوئی سرزنش نہیں۔"
جاؤ تم سب آزاد ہو۔" (سیرۃ النبی لابن ھشام:۴/۳۲۔۳۱۔)
جب جنگ حنین میں مسلمانوں کو مالِ غنیمت حاصل ہوا تو آپ نے قریش کے آدمیوں میں سے ہر ایک کو سو سو اونٹ دیئے۔ سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ نے سو اونٹ دیئے پھر سو اونٹ دیئے پھر سو اونٹ دیئے وہ کہتے ہیں اللہ کی قسم آپ نے مجھے جو کچھ دیا وہ خوب دیا۔ مجھے سب سے زیادہ آپ سے بغض تھا۔ اس کے بعد آپ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو گئے۔ (مسلم :۲۳۱۳۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میں ایسے لوگوں کو مال دیتا ہوں جن کا کفر کا زمانہ قریب ہوتا ہے۔ میں ان کی حالت کی اصلاح چاہتا ہوں اور ان کی تالیف قلوب کرتا ہوں۔" (بخاری:۳۱۴۷۔ مسلم ۱۰۵۹۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سچی محبت:
یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزوں کی محبت انسان کے دل میں ڈالی ہے۔ اگر مخلوق کے دل میں اللہ تعالیٰ محبت نہ ڈالتا تو کوئی بچہ پروان نہ چڑھتا۔ ماں میں جذبہ ایثار و قربانی اور اپنے بچے سے قریب سے قریب تر ہونے کی تڑپ اور اس کو خوش دیکھ کر آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور یہ سب محبت ہی کے کمالات ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت کا حق یہ ہے کہ ہم ان پر اپنی محبوب ترین چیزوں کو قربان کر کے تسکین قلب اور دل کا سرور محسوس کریں اور دوسری تمام چیزوں کی محبت کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت کے تابع رکھیں۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو فرض قرار دیا اور بتا دیا کہ اگر تم اللہ، اس کے رسول اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ کسی اور چیز سے محبت کرو گے تو تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو سکتا ہے۔
{قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ} (التوبۃ: ۲۴)
"کہہ دو اگر تمہارے باپ، بیٹے، بھائی، بیویاں، خاندان کے آدمی، مال جو تم کماتے ہو، تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہواور مکانات جن کو پسند کرتے ہو تمہیں اللہ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہوں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔"
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اپنے جان سے زیادہ اگر تم مجھ سے محبت نہیں کرو گے تو تمہارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ تو انہوں نے اپنا محاسبہ کیا پھر اس بات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اظہار کیا کہ آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بار عرض کیا کہ “اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں اے عمر! (ایمان یہ ہے کہ) تیری جان سے بھی زیادہ میں تجھے مجبوب ہو جاؤں۔"
عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہو گئے ہیں۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں اے عمر!۔" (بخاری۔۶۶۳۲)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اولاد سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں۔" (صحیح بخاری: ۱۴۔)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا۔ جب تک میں اس کے نزدیک اس کے اہل، مال اور سب لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں۔" (بخاری:۱۵، مسلم:۴۴)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت کرتے تھے، انہیں دنیا و آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کی شدید آرزو تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین میں مال غنیمت کو مکہ کے رہنے والے ان لوگوں پر تقسیم کیا جو اسلام میں نئے نئے داخل ہوئے تھے اور انصار کو کچھ نہ دیا تو بعض صحابہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مغفرت کرے آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں جبکہ ہماری تلواریں ان کے خون سے آلودہ ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار مدینہ کو جمع کیا اور فرمایا کہ میں ان لوگوں کو اسلام پر ثابت قدم رکھنے کے لیے مال دیتا ہوں۔ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ لوگ مال لے جائیں اور تم اپنے گھروں میں مجھے لے جاؤ؟ اللہ کی قسم تم جس چیز کو لے کر لوٹو گے وہ اس سے بہتر ہے جسے لوگ لے کر جائیں گے۔ انصار صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول ہم اس پر راضی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد تم اپنی بارے میں بخل پاؤ گے پس صبر کرنا یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے ملاقات کرو (بخاری:۴۳۳۱، مسلم:۱۰۵۹)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ انصار پر، انصار کے بیٹوں پر اور انصار کے پوتوں پر رحم فرمایا۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ آپ کی بات سن کر اس قدر روئے کہ ان کی داڑھیاں آنسوؤں سے تر ہو گئیں اور وہ کہنے لگے ہم رسول کو پا کر راضی ہو گئے۔ (فتح الباری۔)
گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ سمجھ لیا کہ سب سے بڑی غنیمت یہ ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اپنے بستی میں لوٹ رہے ہیں۔ وہ آپ کی رفاقت کو پا کر بکریوں، اونٹوں اور غلاموں کو بالکل بھول گئے۔ بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ کسی طرح جنت میں بھی آپ کی رفاقت حاصل ہو جائے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی۔ آپ نے فرمایا:
"تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟۔" اس نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کی محبت، آپ نے فرمایا: "بے شک تم اس کے ساتھ ہو جس کے ساتھ تم نے محبت کی۔"
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں اسلام لانے کے بعد کسی بات سے اتنی زیادہ مسرت نہ ہوئی جتنی آپ کے اس فرمان سے ہوئی۔ میں اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما سے محبت کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ میں آخرت میں انہی کے ساتھ ہوں گا اگرچہ میں نے ان کے برابرا عمال نہیں کیے۔ (بخاری: ۳۶۸۸۔ مسلم: ۲۶۳۹۔)
جب ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ کو فرمائش کرنے کا موقع دیا گیا اور پھر دوبارہ موقع دیا گیا تو انہوں نے صرف جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا سوال کیا:
سیدنا ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رات گزارتا تھا۔ آپ کے وضو کا پانی اور آپ کی (دیگر) ضروریات (مسواک وغیرہ) لاتا تھا۔ (ایک رات خوش ہو کر) آپ نے مجھے فرمایا: "(کچھ دین و دنیا کی بھلائی) مانگ۔" میں نے عرض کیا: بہشت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں آپ نے فرمایا: "اس کے علاوہ کوئی اور چیز؟" میں نے کہا بس یہی! پھر آپ نے فرمایا: "پس (اپنے مقصد کے حصول کے لیے) سجدوں کی کثرت سے میری مدد کر۔" (مسلم:۴۸۹)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشارتاً اپنی رحلت کے قریب آنے کا تذکرہ فرماتے ہیں تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:
"بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو دنیا اور جو کچھ اس کے پاس ہے دونوں میں سے ایک چیز منتخب کرنے کا موقع عطا فرمایا اس بندے نے وہ چیز پسند کی جو اللہ کے پاس ہے۔ سیدنا ابو بکر نے یہ سن کر رونا شروع کر دیا۔ ہمیں ان کے رونے پر تعجب ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بندے کے متعلق بتایا کہ اسے اختیار دیا گیا (انہوں نے اس پر رونا کیوں شروع کیا) پھر ہم پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ یہ اختیار خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا اور ابو بکر صدیق (بات کی تہ میں پہنچنے میں) ہم سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سمجھنے والے تھے۔" (بخاری ۴۶۶، مسلم ۲۳۸۲)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو سیدنا ابوبکر صدیق آئے آپ کی چہرے سے کپڑے کو ہٹایا آپ کا بوسہ لیا اور رونے لگ گئے۔ (بخاری: ۳۶۶۸، ۱۲۴۱)
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجا تو آپ انہیں وصیت کرنے باہر تک آئے معاذ رضی اللہ عنہ سوار تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سواری کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ جب فارغ ہو گئے تو کہنے لگے: معاذ ممکن ہے تم مجھ سے اس سال کے بعد ملاقات نہ کر سکو، اور ممکن ہے تم میری (اس) مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاذ رو مت، یقینا رونا شیطان کی طرف سے ہے۔ (سلسلہ الصحیحہ للالبانی:۲۴۹۷)
صحابہ کرام رحمھم اللہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم جس طرح کرتے تھے، عروہ بن مسعود ثقفی قریشِ مکہ کے سامنے یوں بیان کرتا ہے "اے میری قوم! اللہ کی قسم میں قیصر و قصریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے پاس جا چکا ہوں۔ واللہ میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد کے ساتھی محمد کی تعظیم کرتے ہیں۔ واللہ وہ کھنکار بھی تھوکتے تھے تو کسی نہ کسی آدمی کے ہاتھ پر پڑتا تھا اور وہ شخص اسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا تھا۔ اور جب وہ حکم دیتے تھے تو اس کی بجا آوری کے لیے سب دوڑ پڑتے تھے۔ اور جب وہ وضو کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ ان کے وضو کے پانی کے لیے لوگ لڑ پڑیں گے۔ اور جب وہ کوئی بات کرتے تھے تو سب اپنی آوازیں پست کر لیتے تھے اور فرطِ تعظیم کی بنا پر انہیں بھرپور نظر سے دیکھتے نہ تھے۔" (بخاری ح۔۲۷۳۱،۲۷۳۲۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر رضی اللہ عنہ، ان کا آزاد کردہ غلام اور ان کا رہبر مکہ سے مدینہ کی طرف جاتے ہوئے ام معبد نامی ایک بوڑھی عورت کے دو خیموں سے گذرے، وہ اپنے خیمہ کے قریب بیٹھ کر مسافروں کی مہمان نوازی کرتی تھیں، ان لوگوں نے اس سے گوشت اور خرما طلب کیا تاکہ اس سے خریدیں، لیکن اسکے پاس کوئی چیز نہ ملی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ خیمہ کے ایک گوشہ میں ایک بکری ہے، اس وقت ان لوگوں کا توشہ ختم ہو چکا تھا اور بھوک لگی ہوئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام معبد یہ بکری کیسی ہے؟
ام معبد: کمزوری کی وجہ سے ریوڑ سے پیچھے رہ گئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کیا اس میں کچھ دودھ ہے؟
ام معبد: یہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اس کا دودھ نکالنے کی مجھے اجازت ہے؟
ام معبد: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اگر آپ اس میں دودھ دیکھتے ہیں تو دوھ لیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کو بلایا، اس کے تھن پر اپنا ہاتھ پھیرا، بسم اللہ کہا، ام معبد کے لیے بکری کے حق میں دعا کی، بکری نے اپنے پاؤں پھیلا دیئے، تھن میں بھرپور دودھ اتر آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا برتن منگوایا اور برتن بھر کر دودھ نکالا، پھر ام معبد کو پلایا، وہ پی کر شکم سیر ہو گئیں تو اپنے ساتھیوں کو پلایا وہ بھی سیراب ہو گئے، پھر سب سے اخیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا، پھر اس برتن میں دوبارہ اتنا دودھ دوہا کہ برتن بھر گیا، پھر اسے ام معبد کے پاس چھوڑ دیا اور اس سے بیعت لی اور وہاں سے کوچ کر گئے، تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ان کا شوہر ابو معبد آیا۔ اس نے جب دودھ دیکھا تو حیرت میں پڑ گئے، پوچھا ام معبد! یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا جب کہ بکریاں دور دراز تھیں اور گھر میں دودھ دینے والی بکری بھی نہ تھی؟ ام معبد بولیں: اللہ کی قسم کوئی بات نہیں سوائے اس کے کہ ہمارے پاس ایک بابرکت آدمی گزرا جس کا یہ اور یہ حال تھا۔
ابو معبد نے کہا مجھے اس کے اوصاف بیان کرو؟
ام معبد کی زبانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات:
میں نے ایک چمکتا رنگ تابناک چہرے والا آدمی دیکھا، جن کو نہ دبلے پن کا عیب ہے نہ گنجے پن کی خامی، جو حسین اور خوبصورت چہرے والے ہیں، جنکی آنکھیں سرمگیں، اس کے کنارے میں لمبی پلکیں، آواز بھاری، گردن لمبی اور داڑھی گھنی ہے، جنکی ابروئیں کمان کی طرح باہم ملی ہوئی ہیں، جو خاموش ہوں تو باوقار، گفتگو کریں تو پر کشش، لوگوں میں سب سے خوبصورت، دور سے دیکھنے میں سب سے تابناک اور قریب سے سب سے خوبصورت و پرجمال، شیریں زبان، بات واضح اور دو ٹوک نہ مختصر نہ فضول، گفتگو کا انداز ایسا کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہیں درمیانہ قد نہ لمبائی زیادہ نہ ناٹا کہ نگاہ میں نہ جچے، دو شاخوں کی درمیان ایسی شاخ کی طرح ہیں جو تینوں سے زیادہ تازہ و خوش منظر ہے اور عزت کے اعتبار سے سب سے اچھے، رفقاء آپ کے گرد حلقہ بنائے ہوئے ہیں آپ اگر کچھ فرمائیں تو خاموشی کے ساتھ آپ کی بات کو سنتے ہیں اور کوئی حکم دیں تو لپک کر بجا لاتے ہیں، مطاع و مکرم، نہ ترش رو نہ لغو گو۔
ابو معبد نے کہا: اللہ کی قسم یہ تو وہی صاحب قریش ہیں جن کی بارے میں لوگوں نے قسم قسم کی باتیں مکہ میں بیان کر رکھی ہیں، میرا ارادہ ہے کہ آپ کی رفاقت اختیار کرو اگر ممکن ہوا تو ایسا ضرور کروں گا، ادھر مکہ میں ایک آواز ابھری جسے لوگ سن رہے تھے مگر اس کا بولنے والا کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا، آواز یہ تھی:
جزی اللہ رب الناس خیر جزائہ
رفیقین قالا خیمتی ام معبد
ھما نزلاھا بالھدی، واھتدت بہ
فقد فاز من أمسی رفیق محمد
"اللہ رب الناس ان دونوں رفیقوں کو بہترین جزا دے، جو ام معبد کے خیمے میں نازل ہوئے۔
وہ دونوں ہدایت سے اترے اور ہدایت کے ساتھ روانہ ہوئے، جو محمد کا رفیق ہوا وہ کامیاب رہا۔"
(امام حاکم نے روایت کیا اور امام ذہبی نے صحیح کہا ہے، امام کثیر فرماتے ہیں کہ ام معبد کا قصہ بہت مشہور ہے جو مختلف طرق سے مروی ہے جو ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چنداوصاف:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے پانچ نام ہیں، میں محمد ہوں، احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی میری وجہ سے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں یعنی لوگ میرے قدموں پر جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب ہوں یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔" (بخاری ۳۵۳۲۔ مسلم ۲۳۵۴)
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خوشی ہوتی تو آپ کا چہرہ ایسا چمکتا گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم آپ کی خوشی اس سے پہچان لیتے۔ (بخاری ۴۶۷۷۔ مسلم ۲۷۶۹)
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک بار چاندنی رات میں آپ کو دیکھا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا اور چاند کو دیکھتا، آپ پر سرخ جوڑا تھا، آخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ آپ چاند سے زیادہ خوبصورت ہیں۔
(ترمذی فی الشمائل ص:۲۔ حاکم اور ذہبی نے تصحیح کی ہے)
آپ کے عالی نسب اور اوصاف حمیدہ کی بنا پر مشرکین مکہ بھی آپ کی عزت کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت عالی نسب تھے آپ خود فرماتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ نے اولاد اسماعیل میں سے کنانہ کو چنا، کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا، قریش میں سے بنی ہاشم کو چن لیا اور بنی ہاشم میں سے مجھے منتخب کیا۔" (مسلم:۲۲۷۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن ہی سے اوصاف حمیدہ کے حامل تھے۔ جب آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ گھبرا گئے آپ کا دل دھڑک رہا تھا، آپ نے اپنی زوجہ مطہرہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو کہا: ”مجھے کمبل اڑھا دو مجھے کمبل اڑھا دو۔ جب آپ کا خوف جاتا رہا تو آپ نے خدیجہ کو سارا قصہ سنایا اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ہرگز نہیں آپ کو خوشخبری ہو، اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا آپ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں، معاشرے پر جو لوگ بار سمجھے جاتے ہیں آپ ان کا بوجھ اٹھاتے ہیں، آپ نادار کے لیے کماتے ہیں، مہمان کی خاطر تواضع کرتے ہیں، حق کے کاموں میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں اور بدعہدی نہیں کرتے۔" (بخاری:۳۔ مسلم:۱۶۰۔)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انجیل میں لکھا ہوا تھا کہ وہ نہ بدزبان، نہ سخت، نہ بازاروں میں شور کرنے والے، نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے بلکہ وہ معاف کرتے ہیں اور درگزر کرتے ہیں۔ (سلسلۃ الصحیحہ للالبانی: ۲۴۵۸)
دشمن بھی تسلیم کرتے تھے کہ آپ سچ بولنے والے ہیں۔ جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ:
{وَأَنذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ} (الشعراء:۲۱۴)
"اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے۔"
تو آپ کوہ صفا پر چڑھ گئے اور قریش کے تمام خاندانوں کو آواز دے کر بلایا، جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا، بتاؤ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس وادی میں ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے یا اگر یہ خبر دوں کہ ایک دشمن صبح یا شام چھاپہ مارنے والا ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے لوگوں نے کہا ہاں ہم نے سوائے سچ کے تمہیں کچھ کہتے ہوئے نہیں پایا، کبھی جھوٹ کا تم سے ہمیں تجربہ نہیں ہوا۔ (بخاری:۴۷۷۰۔ مسلم :۲۰۸)
جب ہرقل شاہ روم نے ابو سفیان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پوچھے تو ابو سفیان اس وقت تک مسلمان نہیں ہوا تھا اس کی قیادت میں مشرکین مکہ کئی دفعہ مدینہ پر حملہ آور ہو چکے تھے لیکن دشمن ہونے کے باوجود اس نے آپ کے اعلیٰ اوصاف تسلیم کیے ہرقل نے پوچھا کہ نبوت کے اس دعویدار کا نسب کیسا ہے؟ تو ابو سفیان نے کہا وہ ہم میں اعلیٰ نسب والا ہے اس نے پوچھا کیا نبوت کے دعویٰ سے پہلے تم نے ان پر جھوٹ بولنے کی تہمت لگائی ہے؟ ابو سفیان نے کہا نہیں۔ اس نے پوچھا کیا وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ اس نے کہا نہیں۔ اس نے پوچھا وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ ابو سفیان نے کہا وہ کہتے ہیں کہ اللہ اکیلے کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، جو شرکیہ افعال تمہارے باپ دادا کرتے تھے ان کو چھوڑ دو، وہ ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پاکدامنی، خیرات، وفائے عہد، امانت کے ادا کرنے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ (بخاری:۷۔ مسلم۔۱۷۷۳۔)
خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت جب عمارت حجر اسود تک بلند ہو چکی تو یہ جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا کہ حجر اسود کو اس کی جگہ رکھنے کا شرف و امتیاز کسے حاصل ہو۔ یہ جھگڑا چار پانچ روز تک جاری رہا اور رفتہ رفتہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ معلوم ہوتا تھا سر زمینِ حرم میں سخت خون خرابہ ہو جائے گا۔ لیکن ابو امیّہ مخرومی نے یہ کہہ کر فیصلے کی ایک صورت پیدا کر دی کہ مسجدِ حرام کے دروازے سے دوسرے دن جو سب سے پہلے داخل ہو، اسے اپنے جھگڑے کا حکم مان لیں۔ لوگوں نے یہ تجویز منظور کر لی۔ اللہ کی مشیّت کہ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ لوگوں نے آپ کو دیکھا تو چیخ پڑے کہ "ہٰذا الامین رضیناہ ہٰذا محمّد…” یہ امین ہیں۔ ہم ان سے راضی ہیں یہ محمد ہیں۔” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر طلب کی بیچ میں حجر اسود رکھا اور تمام قبائل کے سرداروں سے کہا کہ آپ سب حضرات چادر کا کنارہ پکڑ کر اوپر اٹھائیں انہوں نے ایسا ہی کیا جب چادر حجر اسود کے مقام تک پہنچ گئی تو آپ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی مقرر جگہ پر رکھ دیا۔ یہ بڑا معقول فیصلہ تھا۔ ساری قوم اس فیصلہ سے راضی ہو گئی۔" (ابن ہشام۱/۱۹۲تا۱۹۷ بحوالہ رحیق المختوم۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
رحمتہ للعالمین کو پہنچنے والی تکالیف کا اجمالی ذکر:
اتنے بہترین اخلاق اور اعلیٰ اوصاف والے رسول کو مشرکین مکہ کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کے چند واقعات ملاحظہ فرمائیں:
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ عقبہ بن ابی مُعیط آیا اور اپنی چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں ڈال کر بہت زور سے آپ کا گلا گھونٹنے لگا۔ اتنے میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے انہوں نے عقبہ کو ہٹایا اور کہا "کیا تم ایک آدمی کو صرف اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ یہ کہتا ہے کہ میرا رب صرف اللہ ہے اور حالانکہ وہ تمہارے پاس اپنے رب کی ہاں سے واضح دلائل بھی لے کر آیا ہے۔" (بخاری:۳۶۷۸)
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سایہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ ابو جہل اور قریش کے کچھ لوگ وہاں موجود تھے۔ ابو جہل نے کہا کہ اس ریاکار کو دیکھو (نعوذ باللہ)۔ اس دن مکہ معظمہ میں ایک اونٹ نحر کیا گیا تھا۔ ابو جہل نے کہا کہ کون ہے جو آلِ فلاں کے اونٹ کی طرف جائے اور وہاں سے اس کا گوبر، خون اور اوجھڑی لے آئے۔ پھر ٹھہر جائے یہاں تک کہ جب یہ سجدہ کرے تو اس کے کندھوں پر ان چیزوں کو ڈال دے۔ پس انہوں نے کچھ لوگوں کو اس طرف روانہ کیا۔ وہ گئے اور اوجھڑی اٹھا لائے۔ ان میں سے جو سب سے زیادہ بدبخت تھا یعنی عقبہ بن ابی معیط وہ کھڑا ہوا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اس نے وہ اوجھڑی آپ کے کندھوں پر ر کھ دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی دیر تک سجدہ میں پڑے رہے کفّار مکہ ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر جھک جاتے تھے۔ ایک شخص نے جا کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر دی۔ وہ ابھی لڑکی ہی تھیں، دوڑتی ہوئی آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تک سجدہ ہی میں تھے۔ انہوں نے اوجھڑی آپ پر سے ہٹائی اور کافروں کو برا بھلا کہنا شروع کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اللہ قریش کو پکڑ لے۔ (بخاری:۲۴۰۔ مسلم:۱۷۹۴)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلیفوں کے باوجود شدّت کے ساتھ تبلیغ کو جاری رکھا تو کفّار مکہ نے خیف بنی کنانہ میں کفر پر جمے رہنے کی قسمیں کھائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، بنو ہاشم اور بنو مطلب سے مقاطعہ کا فیصلہ کیا۔ اس مقاطعہ میں قریش اور کنانہ دونوں شریک تھے۔ کفّار نے طے کیا کہ نہ ان لوگوں سے نکاح کیا جائے اور نہ ان سے خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کیا جائے جب تک یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حوالہ نہ کر دیں۔ (بخاری:۱۵۹۰)
اس بائیکاٹ کے نتیجہ میں آپ تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے اور وہاں پتے اور چمڑے کھانے پڑے۔ فاقہ کشی کا حال یہ تھا کہ بھوک سے بلکتے بچوں اور عورتوں کی آوازیں گھاٹی سے باہر سنائی دیتیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ کے لیے طائف کی طرف روانہ ہوئے۔ طائف پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن عبد یا لیل کے پاس پہنچے لیکن اس نے دعوتِ اسلام قبول نہیں کی۔ اہل طائف نے آپ کو سخت تکلیف پہنچائی۔ وہ ایسی تکلیف تھی کہ پوری زندگی میں اس سے زیادہ تکلیف آپ کو نہیں پہنچی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نہایت رنجیدہ واپس ہوئے۔ (بخاری :۳۲۳۱۔ مسلم:۱۷۹۵)
جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدید زخمی ہوئے۔ آپ کے آگے کا ایک دانت ٹوٹ گیا۔ شدّت ضرب سے سرِ مبارک پر خَود ٹوٹ گیا اور چہرہ زخمی ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چہرہ انور سے خون پوچھتے جاتے تھے اور (افسوس کے ساتھ) یہ فرماتے جاتے تھے کہ وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنی نبی کو زخمی کر دیا۔ اس کا اگلا دانت توڑ دیا حالانکہ وہ اس کو اللہ کی طرف بلا رہا تھا۔ (مسلم:۱۷۹۱)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان اعلیٰ صفات کے باوجود مشرکین مکہ نے آپ پر ظلم و ستم کی انتہا کیوں کی؟ قوم کے سب سے محبوب شخصیت کے ساتھ قوم نے یہ سلوک کیوں کیا۔ آپ کی کون سی بات انہیں سب سے بری لگتی تھی؟ آپ نے یہ سب تکلیفیں کیوں برداشت کیں؟ اس کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ آپ نے معاشرہ میں لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اعلان کیا۔ قریش مکہ جانتے تھے کہ لا الہ کا مطلب غیر اللہ کی الوہیت کا انکار کرنا ہے۔ جن معبودوں کی عظمت ان کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے۔ جن سے امیدیں وابستہ رکھتے اور جن کے ناراض ہونے کا خوف رہتا ہے تو دلوں سے ان کی عظمت، محبت اور ڈر نکالنا ہو گا۔ جن کو خوش کرنے کے لیے جانورں اور غلہ کے نذرانے دیئے جاتے ہیں اس کو بھی چھوڑنا ہو گا۔ پھر حلال و حرام مقرر کرنے کے ضابطے بنانے والا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ماننا ہو گا اور سلسلہ نبوت و رسالت جو اللہ نے قائم کیا پر ایمان لانا ہو گا اور ایمان کا مطلب یہ ہے کہ یہ ماننا ہو گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسالت کی تکمیل کرنے والے آخری رسول ہیں۔ اب زندگی کی رہنمائی صرف اور صرف آپ سے حاصل ہو سکتی ہے۔
مشرکین مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم خوار چچا ابو طالب کے پاس جمع ہوئے اور کہا "اے ابو طالب تم جانتے ہو، تمہارے بھتیجے نے ہمارے معبودوں کو گالیاں دی ہیں۔ ہمارے دین کے عیب بیان کیے ہیں۔ ہمیں بے وقوف بتایا۔ ہمارے بزرگوں کو گمراہ کہا۔ ہمارے لیے یہ باتیں ناقابل برداشت ہیں۔ اس کو اس زبان درازی سے روکو۔" (سیرۃ ابن اسحاق)
مشرکین مکہ کو توحید، رسالت اور آخرت کی اس دعوت میں اپنی موت نظر آئی۔ انہوں نے اس دعوت کو ختم کرنا چاہا۔ گالیوں، طعنوں، افترا پردازیوں اور جھوٹے پروپیگنڈے سے یہ قافلہ نہ رکا۔ ظلم و تشدد اور مخالفتوں کا طوفان اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے، معاشی اور سوشل بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ قومی مفاد اور اتحاد ملی کے خطرے میں پڑنے کا واسطہ دیا گیا پھر سرداری اور دولت کا لالچ بھی دیا گیا مگر دعوت حق کا یہ قافلہ چلتا رہا۔ شرک کی تردید پر آیات نازل ہوتی رہیں۔ توحید کا سبق لوگوں کو ازبر کروایا جاتا رہا۔
اس طرح عقیدہ کی بنیاد پر صحابہ کرام رضوان اللہ کی تربیت ہوتی رہی۔ یہ وہی دعوت تھی جو ہر نبی علیہ السلام نے اپنی قوم کو دی۔ یہی دعوت ہر دور میں اسلام کا عنوان رہی ہے۔ مالکم من الہٰ غیرہ۔ یعنی عبادت کی ہر قسم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص کر دی جائے اور کسی اور کو اس میں ذرہ برابر بھی شریک نہ کیا جائے۔ شرک کا بنیادی سبب صالحین اور اولیاء کی شان میں غلو کرنا تھا۔ ان کی قبروں اور آثار سے محبت کو ہمیشہ شیطان نے شرک کی بنیاد بنایا اور اکثر امتیں اسی وجہ سے شرک کی دلدل میں پھنس گئیں۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کے فتنے سے اپنی امت کو خبردار فرمایا۔ صالحین کی قبروں پر قبوں اور عمارتوں کی تعمیر سے معاشرے میں شرک عام ہوتا ہے اور بدعات جڑ پکڑتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کے بارے میں خصوصی احکامات دیے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
قبروں کے بارے میں شرعی احکامات:
۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان میں کسی بھی جگہ نماز ادا کرنے سے منع فرمایا۔ خواہ پڑھنے والا قبروں سے برکت کے حصول کا عقیدہ نہ بھی رکھے جبکہ اکثریت کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی مشکلات کے حل کے لیے پکارتے تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہیں، اور نماز بھی اسی کی پڑھتے ہیں لیکن بزرگ کے مزار کے قرب کی وجہ سے وہ مزاروں میں قائم مسجدوں میں نماز پڑھنا دوسری مساجد سے زیادہ افضل جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔" (بخاری:۴۳۶۔ مسلم:۵۲۹۔)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حبشہ کے معبد کا ذکر کیا جسے ماریہ کہا جاتا تھا اس میں تصویریں تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ ایسے لوگ ہیں جب ان میں کوئی نیک بندہ مر جاتا تو اس کی قبر پر سجدہ گاہ اور تصویریں بنا دیتے، یہ لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں۔" (بخاری:۴۲۷۔ مسلم: ۵۲۸)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پانچ دن قبل یہ فرمایا:
"خبردار تم سے پہلی امتوں نے انبیاء کی قبروں پر مساجد بنائیں۔ خبردار تم قبروں پر مساجد نہ بنانا۔ میں تمہیں اس عمل سے سختی سے روکتا ہوں۔" (مسلم :۵۳۲۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بے شک وہ لوگ انتہائی بدترین ہیں جو قیامت کے قائم ہونے کے وقت زندہ رہیں گے اور جو لوگ قبروں پر مساجد بنا لیتے ہیں۔" (صحیح ابن خزیمہ :۸۷۹۔)
۲۔ آپ نے قبروں پر عمارت بنانے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا:
"سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر بیٹھنے اور قبروں پر قبہ یا عمارت بنانے سے منع فرمایا۔" (مسلم :۹۷۰)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر لکھنے سے منع فرمایا۔ (ابو داؤد:۳۲۲۶)
۳۔ چونکہ عورتوں میں صبر کا مادہ کم ہوتا ہے۔ وہ نوحہ کرتی ہیں اور قبروں کو دیکھ کر فتنہ میں مبتلا ہوتی ہیں۔ پھر عورتیں شرک کرنے میں بھی تیز ہوتی ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے کثرت سے قبرستان جانے سے منع فرمایا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی۔ (ابن ماجہ:۱۵۷۴۔ ترمذی:۱۰۵۶)
۴۔ قبرستان کے اندر کسی بھی قسم کی عبادت کرنے سے منع فرمایا۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اپنی نمازوں کا کچھ حصہ اپنے گھر وں میں ادا کرو اور گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔" (بخاری:۴۳۲۔ مسلم :۷۷۷)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم گھروں کو قبرستان نہ بناؤ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جائے۔" (مسلم :۷۸۰)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ گھروں کو نماز، دعا اور قرآن مجید کی تلاوت سے خالی نہیں رکھنا چاہیے ورنہ وہ قبرستان کی طرح ہو جائیں گے گویا آپ نے گھروں کے اندر عبادت کرنے اور قبرستان میں عبادت نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔
۵۔ قبروں پر میلے اور عرس لگانا حرام ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ اور میری قبر کو عید نہ بناؤ، مجھ پر درود پڑھو
بے شک تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے جہاں بھی تم ہو۔" (ابو داؤد:۲۰۴۲)
"میری قبر کو عید نہ بناؤ۔" میں عید سے مراد وہ اجتماع ہے جو طے شدہ پروگرام کے مطابق بار بار منعقد ہوتا ہو خواہ وہ ہر سال ہو یا ہر مہینہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب درود و سلام کی غرض سے اپنی قبر پر میلہ لگانے سے منع فرمایا ہے تو پھر قبر والوں کی پوجا کرنے کے لیے کسی غیر نبی کی قبر پر کیسے میلہ لگایا جا سکتا ہے؟

حبّ رسول کے اٖظہار میں غلو:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے احکام کی تعمیل اور آپ کی منع کردہ باتوں سے اجتناب کیا جائے، آپ کی یہ شان ہے:
{وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾ (النجم)
"اور یہ خواہش نفس کی بنا پر منہ سے کوئی بات نہیں نکالتے یہ تو اللہ کا حکم ہے جو ان کی طرف وحی کیا جاتا ہے۔"
اسی لیے آپ کی محبت اور اتباع شرط ایمان ہے فرمایا:
{قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ} (آل عمران: ۳۱)
"کہہ دو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا۔"
غمی و خوشی میں، تنگی و آسانی میں، جان و مال میں، اولاد و گھر بار میں، غرضیکہ دنیا و مافیہا میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو مقدم رکھنا اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک ہر شے سے زیادہ محبت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ہو۔

بعض لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے اظہار میں اور آپ کے اوصاف بیان کرنے میں بے اعتدالی کا شکار ہو جاتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسی صفات تک کا ذکر کر جاتے ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں۔ قرآن کریم میں اس چیز کو "غلو" کہا گیا ہے۔ انسانوں کا کفر و شرک میں مبتلا ہونے کی ایک بڑی وجہ انبیاء اور اولیاء کے معاملہ میں غلو کرنا ہے۔ عیسائی بہت زیادہ غالی تھے انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں غلو کیا اور انہیں اللہ کا بیٹا کہہ کر الوہیت کے مرتبہ پر فائز کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی اور فرمایا:
{يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ} (المائدہ:۷۷)
"کہہ دیجئے اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو۔"
{وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي} (طہٰ:۸۱)
"اور حد سے آگے نہ بڑھو ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہو گا۔"
یہی حکم مسلمانوں کو دیا گیا کہ وہ حد سے آگے نہ بڑھیں:
{فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا} (ھود:۱۱۲)
"پس آپ جمے رہئے جیسا کہ آپ کو اور ان کو جو آپ کے ساتھ توبہ کر چکے ہیں حکم دیا گیا ہے۔ اور حد سے آگے نہ بڑھنا۔"
مگر افسوس غلو کی وجہ سے آج لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرنے والے شرکِ اکبر میں ملوّث ہو گئے۔ ان کے شرک کی وجہ بھی صالحین کی شان میں حد سے بڑھنا تھا۔ نیک لوگوں کی اس طرح تعظیم کی کہ ان کی محبت میں ان کی قبروں کو پختہ بنایا گیا۔ ان پر قبے اور عمارتیں تعمیر ہوئیں اور گمان کیا گیا کہ ان مزاروں پر دعائیں مانگنا مساجد سے بھی بڑھ کر قبولیت کا باعث ہیں۔ پھر شیطان نے انہیں پکارنے کی طرف مائل کر دیا۔ قبروں پر قندیلیں روشن ہوئیں۔ ان قبروں پر پھولوں کی چادریں لٹکائی گئیں۔ ان کے گرد چکر یعنی (طواف) ہونے لگا۔ ان کے نام کی دیگیں پکنے لگیں۔ پھر میلے اور عرس کا انعقاد ہونے لگا۔ پھر معاملہ یہاں تک پہنچا کہ جو شرک سے باز رہنے کی تلقین کر کے توحید کی دعوت دیتا ہو انہیں ان بزرگوں کا گستاخ کہا گیا۔ اہل توحید سے لوگوں کو متنفر کیا گیا حتیٰ کہ اہل توحید کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ مشہور کیا گیا۔ یہ سراسر ظلم ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد بعثت کو پہچان کر اس کے مطابق عمل کرنے والوں کو گستاخِ رسول کہا جائے اور محبت کے دعوے کو ڈھال بنا کر شرک کو عین اسلام ثابت کیا جائے۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر توحید کی طرف بلایا جائے۔ غیر اللہ کی بندگی سے لوگوں کو ہٹا کر اللہ کی بندگی پر لگایا جائے۔ مگر یہ لوگ کفر و شرک کو توحید جانتے ہیں۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میری تعریف میں اس طرح مبالغہ نہ کرنا جس طرح نصرانیوں نے ابن مریم علیہ السلام کی تعریف میں مبالغہ آرائی کی۔ میں تو اللہ کا بندہ ہوں تم کہو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔" (بخاری: ۳۴۴۵)
ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا: "میری شادی کی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے۔ دو ننھی بچیاں جنگ بدر میں شہید ہونے والے میرے رشتہ داروں کے بارے میں اشعار پڑھ رہی تھیں۔ بچیوں نے کہا: ((وَفِیْنَا نَبِیٌ یَعْلَمُ مَافِی غَدٍ۔))
"اور ہم میں ایک ایسا نبی ہے جو کل کو ہونے والی بات جانتا ہے"
آپ نے فرمایا:
((اَمَّا ہذا فَـلَا قُوْلُوہٗ مَا یَعْلَمُ مَا فِی غدٍ إِلاَّ اللّٰہ۔))
"ایسے مت کہو جو کچھ کل ہو گا اس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔" (بخاری: ۴۰۰۱، سنن ابن ماجہ: ۱۸۹۷)
لہٰذا آپ کی سچی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ توحید سے محبت کی جائے اور اس طرح کی جائے جس طرح اس مثالی انسان سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی جسے اللہ نے رسالت کے لیے چنا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
آج بہت سے عشقِ رسول کے دعویداروں نے ایسی تحریریں سپردِ قلم کر رکھی ہیں جن میں بظاہر عشق رسول کے جذبات ابھار کر محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے محبوب شئے توحید کی شدید مخالفت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی ناپسندیدہ شئے شرک کی وکالت کرتے ہوئے اسی کو اصل دین ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان باطل عقائد کی وکالت کرنے والے مصنفین نے جو کچھ اپنے حق میں بیان کیا ہے علمائے اہل سنت کی کتب میں کثرت سے اس کا رد موجود ہے جو لوگ انبیاء، ملائکہ، جنات اور اولیاء الغرض اللہ کے علاوہ مخلوق میں سے کسی ایک کو بھی مافوق الاسباب طریقہ سے پکارتے ہیں ان کے بیان کو غلط فہمی کے عنوان سے اور اس کا جواب ازالہ کے عنوان سے ملاحظہ فرمایئے۔

غلط فہمی
محبت رسول کے دعویداروں کے اقوال:
احمد رضا بریلوی لکھتے ہیں:
(۱)…"اولیاء سے مدد مانگنا اور انہیں پکارنا ان کے ساتھ توسل کرنا امر مشروع (یعنی شرعًا جائز) و شیئٍ مرغوب (پسندیدہ چیز) ہے جس کا انکار نہ کرے گا مگر ہٹ دھرم یا دشمن انصاف۔" (فتاوی رضویہ از احمد رضا بریلوی :۳۰۰۔)
(۲)…"جب تمہیں پریشانی کا سامنا ہو تو اہلِ قبور سے مدد مانگو۔" (الامن و العلی از احمد رضا بریلوی ص ۴۶۔)
(۳)… "انبیاء و مرسلین، اولیاء، علماء صالحین سے ان کے وصل (فوت ہونے) کے بعد بھی استعانت (تعاون طلب کرنا) و استمداد (مدد طلب کرنا) جائز ہے۔ اولیاء بعد انتقال بھی دنیا میں تصرف (حالات کو پھیرتے) کرتے ہیں۔" (الا من و العلی از احمد رضا: ۱۰۔)
(۴)…"میں نے جب بھی مدد طلب کی یا غوث ہی کہا۔ ایک مرتبہ میں نے ایک دوسرے ولی (محبوب الٰہی) سے مدد مانگنی چاہی مگر میری زبان سے ان کا نام ہی نہ نکلا بلکہ زبان سے یاغوث ہی نکلا۔" (ملفوظات احمد رضا بریلوی ص ۳۰۷۔)
(۵)… "جو شخص کسی نبی یا رسول یا کسی ولی سے وابستہ ہو گا تو اس کے پکارنے پر وہ حاضر ہو گا اور مشکلات میں اس کی دستگیری کرے گا۔" (فتاویٰ افریقہ از احمد رضا بریلوی ۱۳۵۔)
(۶)…"ہر چیز، ہر نعمت، ہر مراد، ہر دولت دین میں، دنیا میں، آخرت میں، روز اوّل سے آج تک، آج سے ابد آباد تک جسے ملی یا ملتی ہے حضور اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس سے ملی اور ملتی ہے۔" (فتاوی الرضویہ از احمد رضا بریلوی ۵۷۷۔)
(۷) … مفتی احمد یار خان سرپرست مدرسہ غوثیہ گجرات لکھتے ہیں:
"انبیاء وہ حضرات ہیں جن کو رب نے علوم اور معارف اس قدر دیئے ہیں جن سے وہ مخلوق کی اندرونی حالت اور ان کی ارواح میں تصرف (ان کی حالت بدلنے کا اختیار) کر سکتے ہیں۔ اور ان کو اس قدر قدرت و قوت دی ہے جس سے مخلوق کے ظاہر پر تصرف (ظاہری حالت بدلنے کا اختیار)کر سکتے ہیں۔" (جاء الحق ۱۹۶،۱۹۷۔)
(۸)… سید احمد سعید کاظمی صاحب لکھتے ہیں:
"جب بندہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی صفت سمع، بصر اور قدرت کے انوار بندہ کے سمع، بصر اور قدرت میں ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ جب اللہ کے جلال کا نور اس کی سمع ہو جاتا ہے تو وہ دور و نزدیک کی آوازوں کو سن لیتا ہے جب یہی نور اس کی بصر ہو گیا تو وہ دور و نزدیک کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے جب یہی نور جلال اس کا ہاتھ ہو گیا تو یہ بندہ مشکل اور آسان دور اور قریب کی چیزوں میں تصرف کرنے میں قادر ہو جاتا ہے …… جب مشکل بندہ کی قدرت میں ہو تو وہ مشکل کشا نہیں تو اور کیا ہے؟" (توحید اور شرک از کاظمی ص۱۱۔)

ازالہ
پکارنا عبادت ہے:
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ)) (ابوداود: ۱۴۷۹، ترمذی: ح: ۳۳۷۲۔)
"بے شک دعا ہی عبادت ہے۔"
جب پکارنا عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ ہی کی، کی جانی چاہیے۔ تو پھر کسی غیر کو پکارنا اس کی عبادت کرنا یعنی اسے معبود بنانا ہے جو شرک ہے اور ناقابل معافی جرم ہے۔ یہاں پکارنے سے مراد اللہ سے دعا کرنا ہے۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی عبادت افضل ہے فرمایا انسان کا اپنے لیے دعا کرنا افضل عبادت ہے۔ (ادب المفرد للبخاری) افضل عبادت میں کسی کو شریک کرنا کیسے جائز ہے؟
غیر اللہ کو پکارنا کفر ہے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ} (المؤمنون: ۱۱۷)
"اور جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبود کو پکارتا ہے۔ اس کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں۔ اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے تحقیق کافر فلاح نہیں پاتے۔"
غیر اللہ کو پکارنے والے خود مرتے وقت اپنے کافر ہونے کا اقرار کریں گے۔
{حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ قَالُوا أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ} (الأعراف: ۳۷)
"یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے فرشتے جان لینے کو آئیں گے تو وہ کہیں گے وہ کہاں ہیں جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے تھے۔ وہ کہیں گے آج ہم سے گم ہو گئے اور اقرار کریں گے کہ بے شک وہ کافر تھے۔"
غیر اللہ کو مدد کے لیے پکارنا عذاب کا باعث ہے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ} (الشعراء : ۲۱۳)
"اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارو ورنہ تم عذاب دیے جانے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔"
{وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغَاوِينَ ﴿٩١﴾ وَقِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ ﴿٩٢﴾ مِن دُونِ اللَّـهِ هَلْ يَنصُرُونَكُمْ أَوْ يَنتَصِرُونَ ﴿٩٣﴾ فَكُبْكِبُوا فِيهَا هُمْ وَالْغَاوُونَ ﴿٩٤﴾ (الشعراء)
"اور جہنم گمراہوں کے سامنے کر دی جائے گی اور کہا جائے گا۔ وہ کہاں ہیں جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے تھے۔ کیا وہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں یا اپنا ہی بچاؤ کر سکتے ہیں پس وہ معبود اور گمراہ دوزخ میں اوندھے منہ ڈال دیئے جائیں گے۔"
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ مشرکین اگرچہ اللہ کے انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کو پکارتے ہیں مگر وہ چونکہ شرک و مشرکین کے دشمن تھے اس لیے وہ ان کے معبود نہیں۔ ان کا معبود شیطان ہے جیسا کہ المائدہ:۵/۱۱۶،۱۱۷ اور النساء:۴/۱۱۷ میں ہے۔ پس شیطان ہی ان مشرکوں کے ساتھ جہنم میں جائے گا۔
مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں یہ نظریات صریحاً شرک ہیں اور اللہ تعالیٰ نے شرک کی کوئی دلیل نازل نہیں کی۔
ابو جہل کے بیٹے عکرمہ رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنے کے واقعہ میں اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کو یہ دعوت دی کہ خشکی اور طوفان میں اللہ کے سوا کوئی نجات دینے والا نہیں ہے اس لیے اپنی مشکلات کے حل کے لیے صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارو۔ ملاحظہ فرمائیں:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو عکرمہ بن ابی جہل وہاں سے فرار ہو گئے۔ باہر کسی جگہ جانے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے۔ سمندر میں یہ کشتی طوفانی ہواؤں کی زد میں آ گئی۔ ملاح نے کشتی میں سوار مسافروں سے کہا کہ آج اللہ اکیلے سے دعا کرو، تمہیں اس کے سوا کوئی اس طوفان سے نجات دینے والا نہیں۔ سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ اگر سمندر میں نجات دینے والا صرف اللہ ہے تو یقینا خشکی میں نجات دینے والا بھی وہی ہے اور محمد یہی بات کہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اگر میں یہاں سے زندہ بچ نکلا تو مکہ واپس جا کر اسلام قبول کر لوں گا۔ چنانچہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔ (سنن نسائی، کتاب المحاریۃ، الحکم فی المرتد ۴۰۷۲)
وہ دین جو صحابہ کرام رحمھم اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا اس میں یہ نظریات نہیں ہیں اور نہ خیرالقرون میں سے کسی سے یہ نظریات ثابت ہیں بلکہ ائمہ اہلِ سنت نے شرک کو نواقض اسلام (اسلام سے خارج کر دینے والا عمل) میں شمار کیا ہے
راستہ وہی حق ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا۔ اور صحابہ کرام نے سیکھا اور اس پر عمل کیا۔ فرمان باری تعالی ہے:
{وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا} (الحشر:۷)
"جو چیز تم کو رسول دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو۔"
یہ بھی فرمایا:
{مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ} (النسا:۸۰)
"جس نے رسول کی اطاعت کی بے شک اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"
{وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا} (النساء:۱۱۵)
"اور جو شخص سیدھا رستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے رستے کے سوا اور رستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور قیامت کے دن جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔"
جو قرآنی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے سنتِ رسول اور سبیل المومنین سے ہٹ جائے اس کا نظریہ یقیناً گمراہی پر مبنی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ﴿٢٠﴾ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ﴿٢١﴾ (النحل)
"اور جن لوگوں کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کوئی چیز بھی تو نہیں بنا سکتے بلکہ خود مخلوق ہیں۔ بے جان لاشیں ہیں، ان کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔"
اس آیت میں یدعون کا ترجمہ پکارنا سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ یَدْعُوْنَ کا ترجمہ پکارنا نہیں بلکہ عبادت کرنا ہے۔ (ڈاکٹر مسعود عثمانی کی خرافات کا عملی محاسبہ۲۷)

ازالہ
یَدْعُوْنَ کا ترجمہ پکارنا ہی ہے احمد رضا بریلوی "المومن" کی آیت نمبر ۶۰ کے ترجمہ میں یَدْعُوْن کا ترجمہ پکارنا ہی کرتے ہیں۔ خود صاحب کتاب "علمی محاسبہ" نے تفسیر کبیر کے حوالے سے صفحہ ۲۷ پر یَدْعُوْن کا ترجمہ "حاجتیں طلب کرنا" کیا ہے۔ یہی اس آیت کا اصل مفہوم ہے۔
دراصل کسی سے حاجتیں طلب کرنا ہی اس کی عبادت ہے۔ یہ بات قرآن مجید کی درج ذیل آیت سے واضح ہے۔
{وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ} ( المومن:۶۰)
"اور تمہارے رب نے کہا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے ازراہِ تکبر خود سری کرتے ہیں عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل کیے جائیں گے۔"
الفاظ کتنے واضح ہیں پہلے اللہ سے دعا کا ذکر ہے اور پھر عبادتِ الٰہی سے خود سری کا یعنی اللہ سے دعا اللہ کی عبادت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا:
((الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ)) (ترمذی، ح ۳۳۷۲۔ امام ترمذی نے حسن صحیح کہا۔)
"دعا ہی عبادت ہے۔"
آیت کے ساتھ حدیث مبارکہ نے بھی وضاحت کر دی کہ مافوق الاسباب کسی کو مشکل کشا سمجھ کر پکارنا اس کی عبادت ہے، اس آیت پر بھی غور فرمایئے:
{وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ﴿٥﴾ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ ﴿٦﴾ (الأحقاف)
"اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے اور ان کو ان کے پکارنے کی خبر ہی نہ ہو اور جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ (بزرگ جنہیں پکارا گیا تھا) ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے۔"
غور فرمایئے کہ بزرگ جس چیز کو عبادت گردانتے ہوئے اپنی عبادت کرنے والوں کے دشمن ہو رہے ہیں وہ غیر اللہ کی پکار ہی تو ہے۔

غلط فہمی
انبیاء کرام اور اولیاء عظام "من دون اللّٰہ" میں داخل نہیں ہیں بلکہ "من دون اللّٰہ" میں صرف بت داخل ہیں۔

ازالہ
مشرکین بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ یہ بت یونہی گھڑی ہوئی صورتیں نہ تھیں اور نہ ہی کوئی وہمی چیز کی تمثیل تھے۔ بلکہ ہمیشہ قوم کے دل میں انتہائی محبت اور عظمت پا جانے والی جانی پہچانی شخصیات کی شکلیں (تماثیل) تھیں۔
نوح علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی تو قوم نے کہا:
{وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا} (نوح:۲۳)
"اور انہوں نے کہا ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو اور نہ چھوڑو ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو۔"
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ قوم نوح کے نیک مردوں کے نام ہیں جب وہ مر گئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دل میں خیال ڈالا کہ جن مقامات پر یہ اولیاء اللہ بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے بت بنا کر کھڑے کر دو (تاکہ ان کی یاد تازہ رہے۔ وہ ان کو پوجتے نہ تھے)۔ جب یہ یاد گار بنانے والے فوت ہو گئے تو بعد والوں نے ان بزرگوں کے بتوں کی عبادت شروع کر دی۔ (بخاری، کتاب التفسیر سورہ نوح ح ۴۹۲۰۔)
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لات ایک آدمی تھا جو حاجیوں کے لیے ستو گھولتا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر: ۴۸۵۹۔)
ان حوالوں سے بات واضح ہے کہ یہ بت بھی صالحین ہی کے تھے اور مشرکین بتوں کے رنگ میں صالحین کی بندگی ہی کرتے تھے عجیب بات ہے کہ لوگ جذبات میں آکر واقعاتی چیزوں کو بھی محسوس کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ عیسائی عیسی علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کے بت اور تصاویر بنا کر ان کی بندگی کا اظہار کرتے ہیں۔ کیا وہ ہر بت اور تصویر کو پوجیں گے؟ ہرگز نہیں؛ بلکہ اس کو جس میں ان کے نزدیک عیسی علیہ السلام کا بت اور تصویر ہونے کی واضح علامت موجود ہو اور وہ ان کی توجہ ان کے معبود کی طرف مبذول کرا رہا ہو۔ اسی لیے اللہ فرماتا ہے:
{إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ} (الأ عراف:۱۹۴)
"بے شک جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں ان کو پکارکر دیکھو اگر تم سچے ہو تو چاہیے کہ وہ تم کوجواب بھی دیں۔"
اللہ تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ مریم علیہا السلام کو "من دون اللّٰہ" میں شامل کیا:
{وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ} (المائدۃ:۱۱۶)
"اور اس وقت کو بھی یاد کر و جب اللہ فرمائے گا اے عیسی ابن مریم کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو۔ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہوں جس کا مجھے کچھ حق نہیں۔"
جب عیسیٰ علیہ السلام اور مریم علیہا السلام من دون اللّٰہ میں داخل ہیں تو یہ دعویٰ غلط ہوا کہ انبیاء اور اولیاء "من دون اللّٰہ" نہیں اور "من دون اللّٰہ" میں صرف بت شامل ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے علماء، درویشوں اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو من دون اللّٰہ میں شامل کیا ہے:
{ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ} (التوبۃ:۳۱)
"انہوں نے اپنے علما، مشائخ اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا معبود بنا لیا حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔"
جب علماء، درویش اور عیسیٰ علیہ السلام من دون اللّٰہ میں داخل ہیں تو من دون اللّٰہ سے صرف بت مراد نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر وہ مخلوق جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جائے۔ خواہ وہ اس فعل قبیح سے مکمل طور پر بری ہوں جیسے انبیاء، ملائکہ اور صالحین جیسی مقتدر ہستیاں بھی من دون اللّٰہ میں شامل ہیں۔ حالانکہ ان جلیل القدر ہستیوں نے خصوصاً انبیاء علیہم السلام نے تو اپنی تمام توانائیاں اس بات کو سمجھانے اور منوانے میں کھپا دیں کہ اللہ ایک ہے اور عبادت کا حق صرف اسی کو پہنچتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
یہ حقیقت ہے کہ من دون اللّٰہ اصولی طور پر وہ ہوتے ہیں جو سراسر باطل ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرمایا:
{وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ} (الحج:۶۲)
"اور اس کے سوا جسے بھی یہ پکارتے ہیں وہ باطل ہے۔"
کیا انبیاء اور اولیاء اللہ باطل ہو سکتے ہیں؟

ازالہ
اس آیت میں بطلان جس بات کا ہو رہا ہے وہ صفت الوہیت ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نفع و نقصان پہنچانے والا نہیں ہے۔ چاہے وہ انبیاء و اولیاء ہی کیوں نہ ہوں۔ بات واضح ہے کہ اللہ کے علاوہ نبیوں کے بندے بننا اور نبیوں کو رب بنانا باطل ہے، نہ کہ معاذ اللہ انبیاء ملائکہ اور صالحین باطل بندے ہیں۔ ایسے قول کے تصور سے بھی ایک مسلم کانپ اٹھتا ہے۔
یہی بات اللہ تعالیٰ نے یوں بھی بیان فرمائی۔
{مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّـهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ ﴿٧٩﴾ وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا ۗ أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿٨٠﴾ (آل عمران)
"کسی آدمی کو لائق نہیں کہ اللہ تو اسے کتاب، حکمت اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے ہو جاؤ بلکہ (وہ کہے گا) تم ربانی بن جاؤ کیونکہ تم کتاب پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو! اور اس کو یہ بھی نہیں کہنا چاہیے کہ تم فرشتوں اور نبیوں کو رب بنا لو بھلا جب تم مسلمان ہو چکے ہو تو کیا اسے لائق ہے کہ تمہیں کافر ہونے کو کہے۔”

غلط فہمی
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے غزوہ خندق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور میری بیوی نے ایک صاع جو پیسے ہیں آپ چند صحابہ کرام کے ساتھ تشریف لائیں اور کھانا تناول فرمائیں آپ نے بلند آواز سے اعلان فرمایا اے خندق والو جابر نے کھانا تیار کیا ہے چلو ان کے گھر چلیں پھر آپ نے آٹا اور ہانڈی میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور ایک ہزار مجاہدین نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا حتیٰ کہ کھانا بچ گیا‘ (بخاری)
اس حدیث پاک سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانے کے سلسلے میں صحابہ کرام کو نفع پہنچانا ثابت ہوا۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ حدیبیہ کے دن پیاسے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ڈول پانی تھا آپ نے اپنا ہاتھ اس ڈول میں رکھا تو پانی آپ کی انگلیوں سے چشموں کی طرح پھوٹنے لگا۔ ہم نے اس سے وضو کیا ہم تعداد میں ۱۵۰۰ تھے اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی ہمیں کافی ہوتا‘ (بخاری)
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پانی کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگی اور حبیب کبریاء نے مدد فرمائی۔
غزوہ تبوک کے دن لوگوں کو بھوک نے گھیر لیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ”یا رسول اللہ! ان لوگوں سے ان کا بچا ہوا زاد راہ منگوا کر برکت کی دعا فرمایئے۔” آپ نے دعا فرمائی اور فرمایا: “اسے اپنے برتنوں میں بھر لو۔” لوگوں نے اپنے برتن بھر لیے پھر کھایا حتیٰ کہ سیر ہو گئے۔‘ (مسلم)
اس روایت سے سیدنا عمر فاروق کا کھانے میں اضافے کے لیے مدد مانگنا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا برکت عطا فرمانا ثابت ہوا۔
سیدنا عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کی پنڈلی ٹوٹ گئی تو وہ رسول اللہ کے پاس آئے آپ نے فرمایا اپنا پاؤں آگے پھیلاؤ پھر آپ نے اپنا دست اقدس اس پر پھیرا تو وہ اس طرح ٹھیک ہو گیا کہ گویا کبھی اس کی شکایت ہی نہ کی تھی۔‘ (بخاری)
اس حدیث مبارکہ سے ایک صحابی کا پنڈلی جوڑنے کے سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کرنا اور جواب میں رسول کریم مشکل کشا کا مدد فرمانا ثابت ہو گیا۔
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی حاجات و مشکلات کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے ہمارے پیارے آقا ان کی دستگیری فرماتے تھے۔ کسی مقام پر یہ ثابت نہیں کہ صحابہ کی عرض حاجت کے جواب میں آپ نے یوں فرمایا ہو کہ ”اے میرے صحابہ کرام تم مجھ سے کیوں کہتے ہو؟ براہ راست اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کیوں نہیں کرتے؟۔” اور نہ ہی کہیں یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کہا ہو کہ "اپنی مشکلات کے حل کے لیے امداد طلب کرنا شرک ہے۔"

ازالہ
اہل سنت انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور اولیاء اللہ کی کرامات کے قائل ہیں۔
لیکن یاد رکھیئے معجزات و کرامات اس بات کا ثبوت تو ضرور ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی کی قدرت کاملہ کے سامنے کوئی امر بھی محال نہیں ہے مگر ان سے قانون اخذ کرنا باطل ہے؛ بلکہ یہ ہے ہی عام قانون میں محال شئے کا وجود پذیر ہونا۔
معراج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے۔ معراج پر آپ انبیاء علیہم السلام سے مسجدِ اقصیٰ میں ملے۔ پھر آسمانوں پر ملے۔ موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو بار بار اللہ تعالیٰ کی طرف بھیج کر پچاس نمازوں سے تحفیف کروا کر پانچ نمازیں مقرر کروائیں آپ نے جنت میں بلال رضی اللہ عنہ کو جوتیوں سمیت چلتے ہوئے دیکھا۔ یہ سب معجزات ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار ہیں۔ ستم یہ ہے کہ معجزات و کرامات کو قانون بنا لیا جاتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکالمات کو بنیاد بنا کر یہ قانون ثابت کیا جاتا ہے کہ مردے زندوں کی مدد کرتے ہیں انبیاء علیہم السلام کا مسجد اقصیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کرنے کے معجزہ کو انبیاء کرام کی دنیاوی حیات پر دلیل بنایا جا تا ہے۔ معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ موسیٰ علیہ السلام قبر میں نماز پڑھ رہے ہیں اس سے یہ قانون اخذ کیا جاتا ہے کہ نبی قبروں میں زندہ ہیں۔ معجزات چونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار ہیں۔ لہٰذا وہ قانون نہیں بن سکتے۔ معجزہ دکھانا صرف اللہ کے اختیار میں ہے رسولوں کے اختیار میں نہیں، یہ تو صرف ان کے ہاتھوں پر ظاہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ} (الرعد:۳۸)
"اور کسی رسول کے اختیار میں یہ نہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نشانی لائے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار نے کچھ معجزات دکھانے کا مطالبہ کیا۔
{وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا ﴿٩٠﴾ أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا ﴿٩١﴾ أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّـهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا ﴿٩٢﴾ أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَىٰ فِي السَّمَاءِ وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ ۗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا ﴿٩٣﴾ (بنی اسرائیل: ۱۷/۹۰ - ۹۳)
"اور کہنے لگے ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے حتی کہ آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری کر دیں۔ یا آپ کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو جس کے اندر آپ نہریں بہا دیں۔ یا جیسا کہ آپ کہتے ہیں آسمان کے ٹکڑے لا گرائیں۔ یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آئیں۔ یا آپ کا مکان سونے کا بن جائے۔ یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھنے کو بھی نہیں مانیں گے جب تک آپ ہمارے لیے کتاب نہ لائیں جسے ہم پڑھ بھی لیں۔ (اے رسول) آپ کہہ دیجیے کہ میرا رب پاک ہے (یہ سب کام کر سکتا ہے) میں تو صرف ایک پیغام پہنچانے والا انسان ہوں۔"
ان آیات سے واضح ہے کہ معجزات دکھانا بشر اور رسول کے اختیار میں نہیں۔ اس کی واضح مثال موسی علیہ السلام کا معجزہ ہے جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَأَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ أَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ ۖ إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِينَ} (القصص:۳۱)
"اور یہ کہ اپنی لاٹھی ڈال دو۔ جب (موسی نے لاٹھی کو) دیکھا کہ وہ حرکت کر رہی ہے گویا سانپ ہو تو پیٹھ پھیر کر چل دیئے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا اے موسیٰ آگے آؤ اور ڈرو مت تم امن پانے والوں میں سے ہو۔"
موسیٰ علیہ السلام کا لاٹھی کے سانپ بننے پر ڈر محسوس کرنا واضح کرتا ہے کہ معجزات انبیاء علیہم السلام کے اختیار میں نہیں ہیں۔ پھر کرامات اولیاء اللہ کے اختیار میں کیسے ہو سکتی ہیں۔
ان دلائل سے ثابت ہوا کہ معجزات اللہ کی قدرت کا اظہار ہیں۔ قانون نہیں بن سکتے یقینا کسی کنواری کے بن بیاہے بچہ پیدا نہ ہو گا اور نہ ہی کسی غیر شادی شدہ عورت کو بچہ پیدا ہونے کی شکل میں مریم علیہا السلام کے واقعہ سے دلیل پکڑنے کی اجازت ہے کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش معجزہ ہے قانون نہیں۔
معجزہ یہ ہے کہ شبِ معراج میں ایک ہی رات میں آپ نے مکہ سے بیت المقدس کا سفر کیا پھر ساتوں آسمانوں پر گئے جنت کی سیر کی اور جہنم کی ہولناکیوں کا نظارہ کیا اور دوسری طرف قانون یہ ہے کہ ہجرت کے سفر میں ۳ دن ایک غار میں چھپنا پڑا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ باربار پانی میں کھانے میں اور پھلوں میں غیر معمولی برکت ہوئی مگر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھوکے نہیں رہے؟ ملاحظہ فرمائیں
جنگ خندق میں ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خندق کھود رہے تھے۔ اسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فاقہ کی وجہ سے ہونے والی حالت دیکھی۔۔۔ لوگ ایک ایک مٹھی جو لاتے، پھر وہ جو بدبودار روغن میں پکائے جاتے اور صحابہ کے سامنے رکھ دیے جاتے۔ کھاتے وقت حلق میں جو ناگوار معلوم ہوتے اور ان میں سے بدبو بھی آتی (لیکن صحابہ کو کھانے پڑتے) (بخاری:۴۱۰۰)
جنگ خندق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ایسا وقت آیا کہ تین دن سے کسی نے بھی کھانا نہ کھایا تھا اور رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے۔ (بخاری:۴۱۰۱)
اسی طرح جنگ تبوک کے سفر میں اثناء قیام کچھ دن بعد زاد راہ ختم ہو گیا لوگ فاقہ کی تکلیف میں مبتلا ہو گئے۔ (مسلم:۲۷)
جنگ تبوک کے سفر میں گرمی کا موسم، گرم زمین، سواریوں کی کمی اور سفر کی مشکلات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے برداشت کیں۔
یہی وجہ ہے معجزات کی بنیاد پر کسی صحابی نے ابنیاء علیہم السلام اور اولیاء اللہ کو ما فوق الاسباب مشکلات کے حل میں امداد کے لیے نہیں پکارا۔ کیونکہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایسا کرنے کی تعلیم نہیں دی تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا:
((إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ)) (ترمذی: ۲۵۱۶۔)
"جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال کر اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ۔"
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ابنیاء علیہم السلام اور اولیاء اللہ سے استغاثہ (مدد طلب کرنا) کی تعلیم نہیں دی بلکہ امام الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے اعلان کروایا۔
{قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ} (الأنعام:۵۰)
"کہہ دو میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔"
{قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ} (یونس:۴۹)
"کہہ دو میں تو اپنے لیے نفع و نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جتنا اللہ چاہے۔"
{قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا} (الجن:۲۱)
"کہہ دو کہ میں تمہارے لیے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔"
جب افضل البشر، امام الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے اور دوسروں کے لیے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے تو پھر اللہ قادرِ مطلق کے علاوہ کسی اور کو امداد کے لیے کیسے پکارا جا سکتا ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
غضب خدا کا کہ ایک عام آدمی اور اللہ کے نبی دونوں کو ایک مقام پر لا کھڑا کرنا کس قدر ستم ظریفی ہے۔ اگر میں کسی کی مدد نہیں کر سکتا۔ اگر میں کسی کی حاجت روائی نہیں کر سکتا تو کیا یہ لازم ہے کہ کوئی دوسرا بھی اسی طرح کا ہو گا؟ ہرگز نہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بڑے مقامات عطا فرمائے ہیں۔ (ڈاکٹر عثمانی کا علمی محاسبہ ۴۰۔)

ازالہ
یہ افتراء ہے کہ اہلِ توحید عام آدمی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے دنیا میں، میدانِ حشر میں اور روز قیامت جو مقام دیا وہ اللہ کی ساری مخلوق میں سے صرف آپ ہی کا حصہ ہے:
{وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ} (الشراح:۴)
"اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کیا۔"
اللہ نے دنیا میں آپ کا ذکر بلند کیا۔ قیامت تک کے لیے آپ کو رسول بنا کر آپ کا ذکر بلند کیا۔ میدانِ حشر میں تمام انبیاء علیہم السلام شفاعت کرنے سے انکار کر دیں گے۔ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سعادت نصیب ہو گی کہ آپ سجدہ میں گر جائیں گے۔ اللہ فرمائے گا محمد اپنا سر اٹھاؤ، مانگو دیا جائے، کہو سنا جائے گا، شفاعت کرو شفاعت قبول کی جائے گی۔ آپ کا ذکر حشر کے میدان میں بھی بلند ہو گا۔ آپ حوضِ کوثر پر اپنے امتیوں کو پانی پلائیں گے۔ جنت کا دروازہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھلوائیں گے۔ آپ کے امتی اہلِ جنت کا نصف ہوں گے غرض ہر جگہ آپ کا نام بلند ہو گا۔
آپ قیامت کے دن انبیاء کے امام اور خطیب ہوں گے اور ان کی امتوں کی سفارش کریں گے۔ (ابن ماجہ:۴۳۱۴)
آدم علیہ السلام کی ساری اولاد کے آپ سردار ہیں۔ قیامت کے دن اللہ کی حمد کا جھنڈا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہو گا۔ (ابن ماجہ ۴۳۰۸)
مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کی صفات میں شریک ہیں۔ دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد لوگوں کو اولاد دینا، مقدمات سے بری کرنا، بیماری سے صحت دینا اور دیگر مصائب میں حاجت روائی آپ کی ذمہ داری نہیں ہے جو شخص ((اَغِثْنِی یَا رَسُوْلَ اللّٰہ۔)) کہتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ آپ کو کائنات میں تصرف (حالات کو بدلنے) کا اختیار ہے اور اللہ تعالیٰ بھی آپ کی رضا کا پابند ہے۔ کیا اس نے اس آیت پر غور نہیں کیا۔
{يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ ۖ فَإِن تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يَرْضَىٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ} (التوبۃ:۹۶)
"یہ تمہارے آگے قسمیں کھاتے ہیں کہ تم ان سے راضی ہو جاؤ اگر تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو بے شک اللہ تو فاسق لوگوں سے راضی نہ ہو گا۔"
اور یہ بھی فرما یا:
{اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْ} (التوبۃ:۸۰)
"اے نبی! تم ان کی معافی چاہو یا نہ چاہو اگر تم ستر بار بھی ان کے لیے معافی کی دعا کرو گے اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔"
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور درخواست تک کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ حال ہو تو پھر اور کون ہے جس سے ہم مدد طلب کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا کہا ٹال نہیں سکتا؟
اگر انبیاء علیہم السلام اور اولیاء اللہ کی ارواح سے مدد طلب کرنا جائز ہوتا تو قرآن مجید میں کوئی ایک آیت تو اس کے جواز میں نازل ہوتی۔ قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کی دعائیں موجود ہیں۔ کسی نبی نے گزرے ہوئے نبی یا رسول کو مصیبت کے وقت نہیں پکارا؛ بلکہ اللہ ہی کو پکارا کیونکہ اللہ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے:
{فَادْعُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ} (المومن:۱۴)
"پس اللہ کو پکارو اس کے لیے دین کو خالص کر کے چاہے کفار برا کیوں نہ مانیں۔"

غلط فہمی
جبرئیل علیہ السلام نے مریم علیہا السلام سے کہا :
{إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا} (مریم: ۱۹)
"میں اللہ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دینے آیا ہوں۔"
اگر جبرائیل علیہ السلام کی طرف بیٹا دینے کی نسبت ہو سکتی ہے تو جو کوئی مجازی طور پر یہ کہے کہ غوث پاک نے بیٹا دیا، خواجہ صاحب نے شفا دی، داتا صاحب نے شادی کرا دی تو یہ ناجائز و حرام کس طرح ہو سکتا ہے؟
جب جبرئیل علیہ السلام بیٹا دیتے ہیں تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹا کیوں نہیں دے سکتے؟
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بدر کے دن ایک صحابی مشرک کو قتل کرنے کے لیے اس کے پیچھے دوڑ رہا تھا کہ اچانک اس نے کافر کے اوپر کوڑا لگنے کی آواز سنی اور ایک سوار کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا اے حیزوم آگے بڑھ۔ اس نے مشرک کو دیکھا تو وہ مرا پڑا تھا۔ اس کی ناک پر نشان تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی تو آپ نے فرمایا یہ تیسرے آسمان کی مدد ہے۔ (مسلم)
اس روایت سے فرشتوں یعنی غیر اللہ کی طرف سے صحابہ کرام کی مدد فرمانا ثابت ہوا۔

ازالہ
سورۂ مریم کی آیت ۱۹ میں عیسیٰ ابن مریم علیہا لسلام کا بغیر باپ کے پیدا ہونے کا ذکر ہے۔ یہ معجزہ ہے۔ پوری انسانی تاریخ کا فقط ایک ہی واقعہ ہے۔ اس معجزہ کو قانون بنا کر یہ کہنا کہ جبرئیل علیہ السلام بیٹا دیتے ہیں، سخت گمراہی ہے۔ کیا آج کوئی کنواری لڑکی یہ کہہ سکتی ہے کہ اے جبرئیل مجھے بیٹا دے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے فرمایا: "تم ہمارے پاس جیسے آیا کرتے ہو اس سے زیادہ دفعہ کیوں نہیں آتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
{وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ} (مریم: ۶۴)
"اور ہم بغیر تیرے رب کے حکم کے اتر نہیں سکتے۔" (بخاری: ۴۷۳۱)
بتایئے! جو مخلوق اپنی مرضی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تک نہیں آ سکتی وہ کسی کو بیٹا کیسے دے سکتی ہے؟ وہ تو اللہ کے حکم سے کسی کو بیٹا ہونے کی بشارت دے سکتی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ ملک الموت روح قبض کرتے ہیں:
{قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ} (السجدۃ:۱۱)
"آپ ان سے کہہ دیجئے کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر ہے تمہاری روح قبض کر لے گا پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔"
کیا ائمہ اہل سنت نے ملک الموت کو پکارنے کی تعلیم دی کہ اے ملک الموت میں نے مرنے والے سے چند اہم باتیں کرنی ہیں یا اس مرنے والے کے ذمہ بہت سے معاملات ہیں اس کو ذرا مہلت دے تاکہ اپنے کام کو پورا کر سکے؟
اسی طرح لیلۃ القدر میں روح الامین اور فرشتے رحمتیں اور برکتیں لے کر نازل ہوتے ہیں
{تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ} (القدر:٤)
"روح الامین اور فرشتے اس رات اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر نازل ہوتے ہیں۔"
کیا کسی نے ان کو پکارا کہ تھوڑی سی رحمت اور برکت ہمیں دے جا؟ کوئی ان فرشتوں کو نہیں پکارتا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے نازل ہوتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے:
{لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ} (التحریم:۶)
"اللہ انہیں جو حکم دے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کچھ کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔"
یہ فرشتے تو سفارش بھی اسی کی کرتے ہیں جس کی سفارش کرنے کی اجازت اللہ دیتا ہے:
{وَكَم مِّن مَّلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّـهُ لِمَن يَشَاءُ وَيَرْضَىٰ} (النجم:۲۶)
"آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں جن کی سفارش کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گی الّا یہ کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے اجازت بخشے اور وہ سفارش اسے پسند بھی ہو۔"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "کچھ مانگ" انہوں نے عرض کیا: جنت میں آپ کا ساتھ چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: "کچھ اور۔" انہوں نے کہا بس صرف یہی۔ (مسلم)
آپ نے فرمایا مانگ اور کسی مطلوب خاص کی تخصیص نہ کی اس سے معلوم ہوا کہ سارا معاملہ حضور ہی کے ہاتھ کریمانہ میں ہے جو چاہیں جس کو چاہیں اپنے رب کے حکم سے عطا فرماتے ہیں۔

ازالہ
حدیث مبارکہ کے آخری حصہ پر غور کیجئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((فاعنی علی نفسک بکثرۃ السجود)
"پس تم کثرتِ نوافل سے اپنے مقصد کے حصول کے لیے میری مدد کرو۔" (مسلم: ۴۸۹)
اگر جنت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں ہوتی تو آپ سیدنا ربیعہ رضی اللہ عنہ کو کثرت سے نوافل پڑھنے کا حکم کیوں دیتے؟
معلوم ہوا معاملہ وہی ہے جو ثوبان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا:
((أَخْبِرْنِیْ بِعَمَلِ اَعملہ یدخلنی اللّٰہ بہ الجنۃ))
"مجھے ایسا عمل بتایئے جس کے کرنے سے اللہ تعالی مجھے جنت میں داخل کر دے۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((علیک بکثرۃ السجود لِلَّہِ))
"تم بکثرت سجدے کرو۔" (مسلم: ۴۸۸)
سیدنا ربیعہ رضی اللہ عنہ کا مقصد واضح ہے کہ مجھے ایسا عمل بتایئے جس کے کرنے سے جنت میں آپ کا ساتھ نصیب ہو جائے یا میرے لیے دعا فرمایئے کہ میں جنت میں آپ کے ساتھ رہوں۔ اگر جنت آپ کے اختیار میں ہوتی تو آپ فرماتے جا میں نے تجھے جنت دے دی۔ آپ نے کیوں فرمایا کہ کثرتِ نوافل سے میری مدد کرو۔

غلط فہمی
اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئے اسے مستقل (غیر محتاج) قادر مطلق، مالک و مختار اور غنی و بے نیاز مانا جاتا ہے جب کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام سے استمداد (مدد طلب کرتے ہوئے) انہیں غیر مستقل (اللہ تعالیٰ کا محتاج) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے حاصل ہونے والے فیوض و برکات کا واسطہ و ذریعہ اور قضائے حاجات کے سلسلے میں "وسیلہ" سمجھ کر کی جاتی ہے … یہ اللہ تعالیٰ کی عادت کریمہ ہے کہ اس نے ہر کام کی تکمیل کے لیے کوئی نہ کوئی وسیلہ ضرور بنایا ہے مثلا وحی و روزی پہنچانے، بارش برسانے، ہوا چلانے …روح قبض کرنے اور دیگر بے شمار کاموں کے لیے فرشتوں کو مقرر فرمایا…
وہ ذات پاک ہر چاہت پر قادر ہونے کے باوجود تقریبا ہر کام کے لیے وسیلہ قائم کرنا ہی پسند فرماتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ غیر اللہ کی طرف رجوع کرنا اللہ تعالیٰ کی مشیت کے عین مطابق ہے اور ان سے مدد حاصل کرنا دراصل اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کرنا ہے کیونکہ یہ اسی کی طرف سے اس کام کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ (از: غیر اللہ سے مدد مانگنا کیسا؟ علامہ محمد اکمل عطا قادری عطاری)
مشرکین کا عقیدہ تھا کہ اللہ نے ان کے معبودوں کو پیدا کرنے کے بعد ان کو الوہیت دے دی اب اللہ تعالیٰ کوئی کام نہ کرے اور یہ کرنا چاہیں تو یہ کر سکتے ہیں۔ (توحید اور شرک ص۷، از احمد سعید کاظمی)

ازالہ
مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کو الٰہ حقیقی مانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اصل اختیارات اللہ کی پاس ہیں فرمایا:
{قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٨٨﴾ سَيَقُولُونَ لِلَّـهِ ۚ۔۔۔ ﴿٨٩﴾ (المومنون:۲۳)
"کہہ دیجئے کس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے خلاف کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ بتاؤ اگر تم جانتے ہو وہ ضرور کہیں گے کہ یہ شان اللہ ہی کی ہے۔"
معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ بھی اپنے معبودوں کی طاقت کو عطاء سمجھتے تھے اور وہ اپنے معبودوں کو اللہ کی بارگاہ میں اپنا سفارشی سمجھتے تھے۔
{وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ} (یونس:۱۸)
"اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔"
{مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ} (الزمر:۳)
"اور ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔"
یہی وجہ ہے کہ مشرکین مکہ سخت مصیبت میں صرف اللہ ہی کو پکارتے تھے۔
{قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَـٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ﴿٦٣﴾ قُلِ اللَّـهُ يُنَجِّيكُم مِّنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِكُونَ ﴿٦٤﴾} (الأنعام)
"کہہ دیجئے کہ وہ کون ہے جو تمہیں جنگل اور دریا کی آفتوں سے نجات دیتا ہے جب تم گڑ گڑا کر اور آہستہ آہستہ پکارتے ہو کہ اگر وہ ہمیں اس سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر گزار بن جائیں گے تم کہہ دو کہ وہ تمہیں اس سے اور ہر بے چینی سے نجات دیتا ہے پھر تم اس کے شریک ٹھہراتے ہو۔"
{فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ} (العنکبوت:۶۵)
"پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں اور خالص اسی کی عبادت کرتے ہیں لیکن جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو جھٹ شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔"
بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے مشرکین کہا کرتے تھے:
((لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك إلا شريكا هو لك تملكه وما ملك))
"میں حاضر ہوں اے اللہ، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسا شریک جو تیرا ہے، تو اس شریک کا اور جو اس کے اختیار میں ہے اس کا بھی مالک ہے۔" (مسلم:۱۱۸۵)
ان آیات سے مشرکین مکہ کے نظریات واضح ہیں کہ وہ اصل قدرت اور طاقت اللہ ہی کی مانتے تھے سخت مصیبت میں اسی کو پکارتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اللہ کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ اپنے معبودوں کو صرف سفارشی جانتے تھے۔ اور آج کے کلمہ گو بھی انبیاء علیہم السلام و اولیاء اللہ کے بارے میں یہی نظریات رکھتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اللہ فرماتا ہے:
{وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا} (النسا:۶۴)
"جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔"
معلوم ہوا ہر قسم کا مجرم ہمیشہ آپ کی قبر کے پاس حاضر ہو کر شفاعت طلب کرے۔ اللہ تعالیٰ براہ راست مغفرت فرمانے پر قادر ہے تو پھر اس نے لوگوں کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مغفرت کے لیے مدد طلب کرنے کا حکم کیوں دیا؟

ازالہ
جَاءُوكَ سے آپ کے پاس آنا مراد ہے قبر نبوی مراد نہیں ہے۔ دیکھئے مندرجہ ذیل آیت میں بھی جَاءُوكَ آیا ہے
{وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّـهُ} (المجادلۃ:۸)
"اور جب یہ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو ان لفظوں میں سلام کرتے ہیں جن لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے نہیں کہا۔"
امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہودیوں کی ایک بدترین خصلت یہ تھی کہ سلام کے الفاظ کو بدل دیتے تھے ایک یہودی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سام علیک یا ابوالقاسم کہا سام کے معنی موت کے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہ رہا گیا اور کہنے لگیں وعلیکم السام آپ نے فرمایا: اے عائشہ! اللہ تعالیٰ برے الفاظ اور سخت کلامی کو ناپسند فرماتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے نہیں سنا انہوں نے آپ کو سلام نہیں کہا بلکہ سام کہا ہے۔ آپ نے فرمایا تم نے نہیں سنا میں نے کہا وعلیکم۔ (بخاری: ۶۲۵۶۔ مسلم:۲۱۶۵)
معلوم ہوا دونوں آیات میں مراد آپ کی زندگی ہے۔ یہ آیات قبرِ نبوی پر آکر مانگنے کی دلیل نہیں بن سکتی۔
یہ بھی ارشاد فرمایا:
{وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّـهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ} (المنافقون:۵)
"اور جب ان (منافقین) سے کہا جائے کہ آؤ رسول اللہ تمہارے لیے مغفرت مانگیں تو یہ (نفی میں) سر ہلا دیتے ہیں اور تم ان کو دیکھو کہ تکبر کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے ہیں۔"
آیت سے بالکل واضح ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا واقعہ ہے کہ آپ کی دعائے مغفرت گناہوں کی معافی کا باعث تھی اور جن خوش نصیبوں نے آپ کی خدمت میں آکر اپنے گناہوں سے توبہ کی وہ رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کا انعام پا گئے۔
آپ کی وفات کے بعد صحابہ رحمھم اللہ تابعین اور محدثین کرام میں سے کسی ایک نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کی درخواست نہیں کی بلکہ انہوں نے براہِ راست اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کی، فوت شدہ بزرگوں کی قبروں پر جا کر ان سے دعائیں کروانے کا ثبوت احادیث صحیحہ، صحابہ رحمھم اللہ، تابعین اور محدثین سے نہیں ملتا۔

غلط فہمی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ} (البقرۃ:۴۵)
"مدد طلب کرو صبر اور نماز کے ساتھ۔"
اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ نماز اور صبر سے مدد حاصل کرو۔ نماز اور صبر بھی تو غیر اللہ ہیں۔ کیا اس آیت پاک میں معاذ اللہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو قابل گرفت اور ناجائز کام کی ترغیب دے رہا ہے؟

ازالہ
کبھی کسی نے سنا کہ کوئی شخص صبر یا نماز کو پکار رہا ہو۔ اے صبر، اے نماز میری مدد کرو۔ ایسا کہنے والا احمق ہے اس آیت کا سیدھا اور صاف مفہوم ہے کہ صبر اختیار کرو اور نماز پڑھو اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمت نازل فرمائے گا۔ جس سے مشکلات دور ہوں گیں گویا کہ صبر اور نماز نیک اعمال میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا انتہائی موثر ذریعہ اور وسیلہ ہیں۔

غلط فہمی
میرے آقا نے فرمایا:
{وَاللّٰہُ مُعْطِیْ وَاَنَا قَاسِمٌ}
"اور اللہ تعالیٰ دیتا ہے میں بانٹتا ہوں۔"
اسکی عطا بھی عام ہے میری تقسیم بھی عام ہے۔ وہ دنیا بھی دیتا ہے میں دنیا بھی بانٹتا ہوں وہ دین بھی دیتا ہے میں دین بھی تقسیم کرتا ہوں۔ علم، اولاد، ایمان غرض یہ کہ دین و دنیا کی ہر نعمت وہ دیتا ہے اور میں بانٹتا ہوں۔ (خطباتِ کاظمی: ۹۲۔)

ازالہ
حدیث کی ابتدائی عبارت کیوں حذف کی جاتی ہے حدیث یہ ہے:
((مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰهُ مُعْطِیْ))
"جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے اور میں تو بانٹنے والا ہوں اور اللہ دینے والا ہے۔" (طبرانی)
حدیث کے الفاظ اور عبارت کا سیاق و سباق بتا رہا ہے کہ یہاں عطا سے مال و دولت مراد نہیں بلکہ تفقہ فی الدین مراد ہے۔ وہ فہم مراد ہے جو کتاب و سنت کے معانی و مفہوم کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور آج وہ احادیث کی کتب میں محفوظ ہے کوئی شخص بھی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بے نیاز ہو کر دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ} (الأنفال: ۸/۶۳)
"اگر آپ زمین کے تمام خزانے بھی خرچ کر دیتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتے تھے۔ ان کے دلوں کو بھی اللہ ہی نے جوڑا ہے۔"
قرآنِ حکیم کی ان محکم آیات کے بعد کیا دلیل ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کائنات میں متصرف (حالات بدلنے والا) سمجھیں۔ ماننا پڑے گا کہ قدرت و اختیارات اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ اوس و خزرج کی دیرینہ عداوتوں کا خاتمہ یعنی دلوں میں محبت اور الفت ڈالنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں نہ تھا۔
پھر یہ حدیث قرآن کی اس آیت ہی کے مفہوم میں ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ} (الأنعام:۱۲۵)
"پس جس کو اللہ چاہتا ہے کہ ہدایت کرے تو اس کے سینہ کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہ کرنا چاہے اس کے سینہ میں گھٹن پیدا کر دیتا ہے گویا کہ وہ مشکل سے آسمان پر چڑھ رہا ہو۔"
 
Top