ابو الحسن بھائی نے لکھا
سوال یہ ہے کہ کس میں؟ یہ اثر غیر واضح اور نامکمل ہے۔ ایسے اثر سے استدلال کیسے ممکن ہے؟ جس میں ذلک کا معنی ہی نہ ذکر کیا گیا ہو۔ اگر اس ذلک پر سرچ کریں تو واضح ہو جاتا ہے کہ اس سے مراد مس مصحف نہیں ہے، بلکہ کچھ اور ہے جیسا کہ ہم آگے ایک اثر نقل کر رہے ہیں۔
اگر آپ اس اثر پر قائم باب دیکھتےتو یقینا یہ اعتراض ختم ہو جاتا دیکھیئے ص 212 پر باب کیا لکھا ہے
یمس المصحف من لیس علی وضوء
کتاب المصاحف
http://muhammadanism.com/Arabic/book/dawud/kitab_masahif.pdf
اور اس سے پچھلے آثار دیکھنے سے بھی معلوم ہو جائے گا کہ آڑ سے پکڑنا وہ پہلے گزر چکا ہے اور اس میں الحسن رحمہ اللہ کا قول بھی ہے یہاں بغیر آڑ کے چھونے کی بحث ہے
جو آپ نے کہا کہ
یہ روایت ابو عبید کی روایت کی تشریح کر رہی ہے کیونکہ وہاں مس مصحف کا ذکر ہے جبکہ یہاں یہ ہے کہ وہ مس مصحف کو جائز سمجھتے تھے لیکن کسی آڑ یا رکاوٹ یا رحل کے ساتھ۔
ایک فھم آپ کا ہے ایک اس کا جس نے یہ آثار جمع کیئے اور اس پر باب باندھا کس کا فھم مانیں؟؟؟
آپکے بیان کردہ الفاظ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہیں اور اس اثر پر باب یہ ہے
في الرجل على غير وضوء والحائض يمسان المصحف
شروع کے آثار تو آڑ کے الفاظ ذکر کر رہے ہیں جبکہ بعد والے آثار میں کسی آڑ کا ذکر نہیں ہے اور یہاں وہ الفاظ بھی مذکور ہیں جو میں نے اوپر ذکر کیئے لا باس بہ اسی باب کے تحت جو غالبا دونوں مسئلوں میں ان کا موقف بیان کرنے کی غرض سے ذکر کیے ہیں
اور جو آثار آپ نے ذکر کیئے سعید اور عطاء رحمھما اللہ کے وہ بھی المصاحف میں مذکور ہیں لیکن اس پر باب دوسرا ہے
الحائض و الجنب یاخذان المصحف بعلاقتہ اور جو مجوسی والی روایت بیان کی ہے اس پر باب ہے
الکافر یاخذ المصحف بعلاقتہ لہذا آپ کے ذکر کردہ آثار سے استدلال مناسب نہیں لگتا کیونکہ سعید بن جبیر اور عطاء رحمہ اللہ کے اقوال مجوسی کے بارے ہیں بے وضو کے بارے نہیں
اور جو آپ نے کہا کہ
ابو عبید رحمہ اللہ کی بات کا تسلسل بھی دیکھیں تو انہوں نے پہلے امام مالک رحمہ اللہ کا قول نقل کیا کہ وہ آڑ کے ساتھ بھی بغیر وضو مس مصحف کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ یہ تو معمول کی بات ہے اور پھر ساتھ ہی حسن بصری رحمہ اللہ کا قول نقل کر دیا اور اس کے بعد کچھ سلف کا اقوال نقل کیے جن میں تو آڑ کا ذکر الفاظ میں موجود ہے۔
یہ آپ کا ہی فھم ہے ورنہ تو اسی باب کے تحت وہ آثر بھی ہیں جس میں آڑ کا ذکر نہیں اور وہاں آڑ کا ہونا بھی ممکن ہی نہیں امام ابو عبید نے اس کی طرف کوئی اشارہ نہیں دیا کہ یہ اقوال آڑ کے ساتھ مس مصحف کا حکم بیان کر رہے ہیں
دوسری بات موسوعۃ فقھیۃ کے جامع نے یہ قول کہاں سے لیا ؟؟؟
آپ نے جو جو اعتراض کیا اپنے فھم سے اس کا جواب المصاحف میں موجود ہے ان ابواب کی صورت میں جو ان آثار پر باندھے گئے
ان تجد عیبا فسد الخللا جل من لا عیب فیہ و علا