• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدث اصغر کی صورت میں مصحف قرآنی کو ہاتھ لگانے کا حکم

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
لیکن سوال یہ ہے کہ سلف صالحین میں سے کس نے اس حدیث سے یہ احتمال لیا ہے کہ اس سے مراد حدث اکبر سے پاک اور وضو نا کیا ہوا شخص مراد ہے؟
حسن بصریؒ نے جو کہ کبار تابعین میں شمار ہوتے ہیں؛ان کا موقف عدم وجوب کا ہے ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
حسن بصریؒ نے جو کہ کبار تابعین میں شمار ہوتے ہیں؛ان کا موقف عدم وجوب کا ہے ۔
تو آپکے نزدیک جمہور علماء کا فہم بہتر ہے یا اس کے مقابلے میں قلیل اہل علم کا؟
ابوالحسن علوی حفظہ اللہ نے پچھلی پوسٹ میں حوالہ دیا ہے کہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جمہور اہل علم کا یہ مسلک و مذہب بیان کیا ہے کہ وہ مس قرآن کے لئے وضو کو واجب سمجھتے ہیں۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان لا یمس القرآن الا طاہر‘‘ پاک آدمی کے سوا قرآن کو کوئی نہ چھوئے۔ (موطا امام مالک)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا (سبحان اللہ ان المؤ من لا ینجس) کہ مومن نجس نہیں ہوتا یعنی طاہر ہی رہتا ہے۔
بالا روایت میں طاہر سے مراد مومن ہے ۔ یعنی مومن کے علاوہ کوئی غیر مومن قرآن کو نہ چھوئے ۔
خلاصہ یہ کہ کوئی ایسی روایت نہیں ہے جس میں قرآن مجید کو چھونے کے لیے وضو کی شرط لازم کی گئ ہو ۔ اور نہ ہی کوئی ایسی روایت ہے جس میں بغیر وضو کے چھونے کی ترغیب دی گئ ہو ۔ لہٰذا ایسی صورت میں اگر ہاتھ ظاہراَ صاف ہو تو تعلیم وتعلم کے لیے جائز سمجھا جائے ۔ لیکن اولیٰ بہرحال یہ ہے کہ باوضو قرآن کو چھوا جاے ۔ واللہ اعلم ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا (سبحان اللہ ان المؤ من لا ینجس) کہ مومن نجس نہیں ہوتا یعنی طاہر ہی رہتا ہے۔
بالا روایت میں طاہر سے مراد مومن ہے ۔ یعنی مومن کے علاوہ کوئی غیر مومن قرآن کو نہ چھوئے ۔
یہ بھی ایک احتمال ہے جو بظاہر درست معلوم ہوتا ہے لیکن اس خاص روایت میں طاہر سے مومن کس نے مراد لیا ہے؟
امام مالک جو اس روایت کو لائے ہیں اور اسکے راوی بھی ہیں اور اصول حدیث کا مشہور مسئلہ ہے کہ راوی اپنی روایت کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے تو امام مالک نے تو اس طاہر سے مراد باوضو شخص لیا ہے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا (سبحان اللہ ان المؤ من لا ینجس) کہ مومن نجس نہیں ہوتا یعنی طاہر ہی رہتا ہے۔


نَجَس (اسم) : نجاست، غلاظت، پلیدی، گندگی


نَجَس (صفت) : گندہ، ناپاک، پلید، غلیظ
"جیسے کسی پاک اور مقدس مقام کو کسی نے نجس بنا دیا ہو۔"
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
طاہر بھائی آپ نے سلف میں سے حسن بصری رحمہ اللہ کا دو بار نام لیا ہے کہ وہ عدم وجوب کے قائل تھے لیکن میں نے جو مطالعہ کیا ہے، اس کے مطابق ان کا نام وجوب کے قائلین میں ملتا ہے۔ اگر آپ اس کا حوالہ نقل کر دیں تو آسانی ہو جائے گی۔ جزاکم اللہ
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا (سبحان اللہ ان المؤ من لا ینجس) کہ مومن نجس نہیں ہوتا یعنی طاہر ہی رہتا ہے۔
بالا روایت میں طاہر سے مراد مومن ہے ۔ یعنی مومن کے علاوہ کوئی غیر مومن قرآن کو نہ چھوئے ۔
خلاصہ یہ کہ کوئی ایسی روایت نہیں ہے جس میں قرآن مجید کو چھونے کے لیے وضو کی شرط لازم کی گئ ہو ۔ اور نہ ہی کوئی ایسی روایت ہے جس میں بغیر وضو کے چھونے کی ترغیب دی گئ ہو ۔ لہٰذا ایسی صورت میں اگر ہاتھ ظاہراَ صاف ہو تو تعلیم وتعلم کے لیے جائز سمجھا جائے ۔ لیکن اولیٰ بہرحال یہ ہے کہ باوضو قرآن کو چھوا جاے ۔ واللہ اعلم ۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ یہ تصور بھی غلط ہے کہ ”کوئی غیر مومن قرآن کو نہ چھوئے“ کیونکہ:
  1. قرآن مجید تو عام بازاروں میں دستیاب ہے۔ وہاں اسے اسے کوئی بھی حاصل کرسکتا ہے۔ غیر مومن کو قرآن نہ دینے کا کوئی قرینہ ضابطہ موجود نہیں اور نہ ہی ایسی کوئی پابندی قابل عمل ہے۔ پھر عربی قرآن نیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ ہر ایک (مومن، غیر مومن) کی دسترس میں ہے۔
  2. اگرہم غیر مومن کو مصحف قرآن نہیں دیں گے تو دین کی تبلیغ کیسے ہوگی؟ کیا ہر پڑھے لکھے غیر مومن کو ہم یہ پابند کریں گے کہ وہ دین اسلام کی بنیاد قرآن کو تو ہاتھ نہ لگائیں بلکہ قرآنی تعلیمات پر مبنی ”ہماری کتب“ کو پڑھ کر اسلام کو جانیں اور سیکھیں۔
  3. یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غیر مومن کو مصحف قرآن تو نہ دیا جائے البتہ اس کا ترجمہ دیا جاسکتا ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن غیر مومنین کی زبان عربی ہے، انہیں کون سا ترجمہ دیا جائے۔ ایسے لاکھوں عیسائی موجود ہیں، جن کی مادری زبان عربی ہے۔
  4. شاہ فیصل مرحوم سے یہ بات منسوب ہے کہ کسی انگریز اسکالر (نام مجھے اس وقت یاد نہیں) نے ایک مرتبہ ان سے کہا کہ آپ لوگ کہتے ہو کہ قرآن ایک زندہ معجزہ ہے، جو اسے ایک بار پڑھ لے، اس کی زندگی بدل جاتی ہے، وغیرہ وغیرہ (مفہوم بیان) لیکن میں نے تو قرآن کو بارہا پڑھا، مجھ پر تو کوئی اثر نہیں ہوا۔ شاہ فیصل نے پوچھا کہ آپ نے قرآن کو کیسے پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس کا انگریزی ترجمہ پڑھا ہے۔ شاہ فیصل نے کہا کہ پھر آپ نے قرآن نہیں پڑھا۔ قرآن تو عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ اگر قرآن کے اعجاز کو دیکھنا ہے تو اسے عربی زبان میں پڑھ کر دیکھئے۔ کہتے ہیں کہ اس اسکالر نے دو سال کی مدت میں عربی سیکھی، پھر قرآن کو براہ راست پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔
اصل میں ہم لوگ عملاً (معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ) کنویں کے مینڈک ہیں۔ اپنے گرد و پیش کے ماحول کے ”جُز“ کو ہی ”کُل“ سمجھ کر بات کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اسلام (یعنی کہ قرآن و سنت) ساری انسانیت کے لئے نازل ہوا ہے۔ ہم اسے عام لوگوں، مسلمان اور غیر مسلمان تک پہنچنے سے کیسے روک سکتے ہیں۔ ہمارا کام تو اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ہے نہ کہ ”خود ساختہ ضابطوں“ کے تحت اس کی ترسیل کی راہ میں روڑے اٹکانا۔ اگر کوئی غیر مسلم ہم سے ہمارا یہ فتویٰ سنے کہ ۔ ۔ ۔ غیر مسلم نجس اور ناپاک ہیں لہٰذا وہ مصحف قرآن کو ہاتھ نہیں لگا سکتے ۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا وہ یہ سن کر ہنسے گا نہیں کہ قرآن تو عام بازار سے وہ جب چاہے خرید کر اسے ہاتھ لگا سکتا ہے، پڑھ سکتا ہے۔ پھر وہ ہماری یہ ”تحقیر آمیز“ بات سن کر کیا قرآن کا پیغام ہمارے منہ سے سننا پسند کرے گا؟ آج کے عہد میں قرآن پر اس قسم کی پابندی لگاکر ہم قرآن کی خدمت کریں گے یا کچھ اور۔ ذرا سوچئے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
تو آپکے نزدیک جمہور علماء کا فہم بہتر ہے یا اس کے مقابلے میں قلیل اہل علم کا؟
ابوالحسن علوی حفظہ اللہ نے پچھلی پوسٹ میں حوالہ دیا ہے کہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جمہور اہل علم کا یہ مسلک و مذہب بیان کیا ہے کہ وہ مس قرآن کے لئے وضو کو واجب سمجھتے ہیں۔
کیا آپ فقہی مسائل میں جمہور کی پیروی کے اصول کو درست سمجھتے ہیں؟؟
یا صرف اسی مسئلہ کی حد تک جمہور کا فہم آپ کو پسند ہے؟؟؟
میری نظر میں دلیل کی قوت کو دیکھا جائے گا نہ کہ جمہور کو؛اہل حدیث مسلک کی بنیاد اسی پر ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ڈاکٹر ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ یہ تصور بھی غلط ہے کہ ”کوئی غیر مومن قرآن کو نہ چھوئے“ کیونکہ:
  1. قرآن مجید تو عام بازاروں میں دستیاب ہے۔ وہاں اسے اسے کوئی بھی حاصل کرسکتا ہے۔ غیر مومن کو قرآن نہ دینے کا کوئی قرینہ ضابطہ موجود نہیں اور نہ ہی ایسی کوئی پابندی قابل عمل ہے۔ پھر عربی قرآن نیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ ہر ایک (مومن، غیر مومن) کی دسترس میں ہے۔
  2. اگرہم غیر مومن کو مصحف قرآن نہیں دیں گے تو دین کی تبلیغ کیسے ہوگی؟ کیا ہر پڑھے لکھے غیر مومن کو ہم یہ پابند کریں گے کہ وہ دین اسلام کی بنیاد قرآن کو تو ہاتھ نہ لگائیں بلکہ قرآنی تعلیمات پر مبنی ”ہماری کتب“ کو پڑھ کر اسلام کو جانیں اور سیکھیں۔
  3. یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غیر مومن کو مصحف قرآن تو نہ دیا جائے البتہ اس کا ترجمہ دیا جاسکتا ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن غیر مومنین کی زبان عربی ہے، انہیں کون سا ترجمہ دیا جائے۔ ایسے لاکھوں عیسائی موجود ہیں، جن کی مادری زبان عربی ہے۔
  4. شاہ فیصل مرحوم سے یہ بات منسوب ہے کہ کسی انگریز اسکالر (نام مجھے اس وقت یاد نہیں) نے ایک مرتبہ ان سے کہا کہ آپ لوگ کہتے ہو کہ قرآن ایک زندہ معجزہ ہے، جو اسے ایک بار پڑھ لے، اس کی زندگی بدل جاتی ہے، وغیرہ وغیرہ (مفہوم بیان) لیکن میں نے تو قرآن کو بارہا پڑھا، مجھ پر تو کوئی اثر نہیں ہوا۔ شاہ فیصل نے پوچھا کہ آپ نے قرآن کو کیسے پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس کا انگریزی ترجمہ پڑھا ہے۔ شاہ فیصل نے کہا کہ پھر آپ نے قرآن نہیں پڑھا۔ قرآن تو عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ اگر قرآن کے اعجاز کو دیکھنا ہے تو اسے عربی زبان میں پڑھ کر دیکھئے۔ کہتے ہیں کہ اس اسکالر نے دو سال کی مدت میں عربی سیکھی، پھر قرآن کو براہ راست پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔
اصل میں ہم لوگ عملاً (معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ) کنویں کے مینڈک ہیں۔ اپنے گرد و پیش کے ماحول کے ”جُز“ کو ہی ”کُل“ سمجھ کر بات کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اسلام (یعنی کہ قرآن و سنت) ساری انسانیت کے لئے نازل ہوا ہے۔ ہم اسے عام لوگوں، مسلمان اور غیر مسلمان تک پہنچنے سے کیسے روک سکتے ہیں۔ ہمارا کام تو اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ہے نہ کہ ”خود ساختہ ضابطوں“ کے تحت اس کی ترسیل کی راہ میں روڑے اٹکانا۔ اگر کوئی غیر مسلم ہم سے ہمارا یہ فتویٰ سنے کہ ۔ ۔ ۔ غیر مسلم نجس اور ناپاک ہیں لہٰذا وہ مصحف قرآن کو ہاتھ نہیں لگا سکتے ۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا وہ یہ سن کر ہنسے گا نہیں کہ قرآن تو عام بازار سے وہ جب چاہے خرید کر اسے ہاتھ لگا سکتا ہے، پڑھ سکتا ہے۔ پھر وہ ہماری یہ ”تحقیر آمیز“ بات سن کر کیا قرآن کا پیغام ہمارے منہ سے سننا پسند کرے گا؟ آج کے عہد میں قرآن پر اس قسم کی پابندی لگاکر ہم قرآن کی خدمت کریں گے یا کچھ اور۔ ذرا سوچئے۔
آپ نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تحریر کا حوالہ نہیں دیا؟
 
Top